حدیث قرآن کے بعد شریعت کا دوسرا بڑا ماخذ ہے،قرآن مجید الفاظ ہیں اور حدیث و سنت ان الفاظ کا معنی و تشریح۔قرآن کے مفہوم و مدعا اور اس کےا حکام کی جو تشریح اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی گئی تھی اس تشریح کو جاننے کا ذریعہ ہمارے پاس حدیث و سنّت کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ اگر قرآن کے احکام و فرامین، اُس کے اشارات، اُس کے الفاظ اور اس کی مخصوص اصطلاحا ت کا جو مفہوم و مدعا حضورؐ کو سمجھایا جاتا تھا’وہ قرآن ہی میں ہی درج ہوتا تواس آیت ( ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَا نَہٗ – القیامۃ:19- (پھر یقیناً اس ‘قرآن’ کے معانی سمجھانا ہمارے ذمے ہے)) کی الگ سے ضرورت نا ہوتی کیونکہ وہ تو پھر قرآن ہی میں مل جاتا۔ لہٰذا یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مطالبِ قرآن کی تفہیم و تشریح جو اللہ کے نبی کی طرف سے کی جاتی تھی وہ بہر حال الفاظِ قرآن کے ماسواتھی۔
جو لوگ سنت کا انکار کرتے ہیں، وہ صرف اللہ کے الفاظ کو قبول کرتے ہیں اور ان الفاظ سے اللہ کی مراد کو نکال کر اپنی مراد ڈال دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آپ دیکھیں گے کہ قادیانیت، باطنیت، خوارجیت، اعتزال وغیرہ جیسی جتنی فکری گمراہیاں ہیں، سب کی بنیاد قرآن مجید ہے۔ اور قرآن مجید اسی وقت گمراہی کی بنیاد بن جاتا ہے جب اس کے معنی یعنی سنت کا انکار کر دیا جائے ۔ پھر صرف الفاظ رہ جاتے ہیں ہیں، اب آپ ان سے جو کھیل کھیلنا چاہیں، کھیل سکتے ہیں ۔
سنت و حدیث کی موجودگی میں قرآن کریم کی کوئی نئی من مانی تعبیر وتشریح ممکن ہی نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ جناب نبی اکرمؐ کے وصال کے بعد حضرات صحابہ کرامؓ کا یہی تعامل رہا کہ وہ قرآن کریم کے ساتھ ساتھ سنت وحدیث کو بھی دین کی مستقل دلیل اور ماخذ سمجھتے تھے اور عقائد واحکام دونوں میں قرآن کریم کی طرح جناب نبی اکرمؐ کی سنت اور حدیث سے بھی استدلال کرتے تھے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جب حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کو خوارج کے ساتھ گفتگو کے لیے بھیجا تو اسی خدشے کے پیش نظر ان سے فرمایا تھاکہ:
’’ان کے پاس جاؤ اور ان سے بحث کرو لیکن ان کے سامنے قرآن کریم سے استدلال نہ کرنا، اس لیے کہ قرآن کریم کے الفاظ میں مختلف معانی کا احتمال ہوتا ہے، بلکہ ان کے ساتھ سنت کے حوالے سے گفتگو کرنا۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے کہا کہ اے امیر المومنین، میں قرآن کریم کو ان سے زیادہ جاننے والا ہوں، یہ تو ہمارے گھروں میں اترا ہے (یعنی قرآن کریم کے حوالے سے گفتگو میں بھی وہ مجھ پر غالب نہیں آ سکتے)۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو لیکن قرآن کریم احتمالات کا حامل ہے، تم ایک مطلب بیان کرو گے تو وہ دوسرا مطلب نکال لیں گے۔ تم ان کے ساتھ سنن کی بنیاد پر بحث کرنا کیونکہ ان سے بھاگنے کی راہ انہیں نہیں ملے سکے گی۔‘‘(الاتقان فی علوم القرآن، ج ۱، ص ۴۱۰)
حضرت علیؓ کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ سنت رسول سے ہٹ کر اگر قرآن کریم سے براہ راست استدلال کرو گے تو الفاظ اور جملوں میں مختلف معانی کے احتمالات کی وجہ سے وہ اس سے کوئی بھی استدلال کر سکیں گے۔ اس کے برعکس سنت رسول کو بنیاد بناؤ گے تو وہ ان احتمالات سے اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکیں گے کیونکہ قرآن کریم کے ایک متعین مفہوم کا انہیں سامنا ہوگا۔ظاہر بات ہے کہ کسی بھی کلام کے الفاظ، جملوں اور محاوروں میں مختلف معانی کا احتمال موجود ہوتا ہے اور یہ فطری بات ہے، اس لیے ان احتمالات میں سے کسی ایک معنی کی تعیین کے لیے کسی اتھارٹی کی ضرورت ہوتی ہے جو مختلف معنوں اور احتمالات میں سے ایک کا تعین کر دے۔ قرآن کریم کے حوالے سے یہ اتھارٹی جناب نبی اکرمؐ کی ذات گرامی ہے، اس لیے حضرت علیؓ نے عبد اللہ بن عباسؓ سے فرمایا کہ تم سنت رسول کی بنیاد پر گفتگو کرنا تاکہ وہ قرآن کریم کے ظاہری احتمالات سے غلط فائدہ نہ اٹھا سکیں۔
موجودہ منکرین حدیث کا بھی سارا زور اسی پر ہے یہ ہر صورت حدیث کو بیچ میں سے ہٹانا چاہتے ہیں تاکہ قرآن کے متعلق انکی من مانی تشریحات کی راہ ہموار ہو , اس موجودہ انکار حدیث کے فتنے کی تاریخ دیکھی جائے تو مسلم دنیا میں اسکی ابتداء دو صدیاں پہلے عیسائی مستشرقین کے ذریعے ہوئی، اس سے پہلے اسلامی تاریخ میں کہیں کہیں مختلف حوالوں سے اسکی جھلک نظر آتی ہے لیکن اس قدر شدت سے اور باقائدہ ایک علیحدہ منہج کی شکل میں یہ کہیں نظر نہیں آتا۔ حدیث قرآن پاک کے بعد سب سے اہم مصدر ہے، اس لیے مستشرقین اس اہم مصدر کی طرف کچھ زیادہ ہی متوجہ رہےہیں اور آزاد تحقیق وریسرچ کے نام پر زہراگلتے رہے ہیں۔اس سلسلے میں سب سے نمایاں شخصیت ہمیں دو نظر آتی ہیں:(۱)سب سے پہلی شخصیت گولڈزیہر (Gold Hazer) کی ہے، یہ شخص جرمن کا یہودی ہے، اس نے تمام اسلامی مآخذ کا مطالعہ کیا اور ۱۸۹۰ء میں پہلی تحقیق شائع کی، جس میں پورے اسلامی مآخذ کو مشکوک ٹھہرایا اس کی سب سے اہم کتاب “دراسات اسلامیۃ” کے نام سے ملتی ہے، (۲)دوسری شخصیت “جوزف شاخت” (Joseph Schacht) کی ہے اس نے خاص طور پر “فقہ اسلامی” پر توجہ دیا اور مختلف چھوٹے بڑے رسالے لکھے “بدایۃ الفقہ الاسلامی” اس کی ضخیم کتاب ہے، جس میں اس نے سارے ہی مآخذ کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی۔.احادیث کے خلاف موجودہ منکرین حدیث کی طرف سے جتنے اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں ، مثلا احادیث کی تدوین تیسری صدی ہجری میں ہوئی ہے ، یہ بنو امیہ کے دور میں گھڑی گئیں ، یہ عجمی سازش ہیں ، عقل کے خلاف ہیں وغیرہ وغیرہ یہ سب مستشرقین کے ہی پیش کردہ ہیں ۔
دیکھا جائے تو مغرب کی ’’تحریک استشراق‘‘ نے مسلمانوں کے لیے جو علمی وفکری سوالات پیدا کیے، ان کی جڑ بھی بالآخر اسی طریق واردات میں جا کر پیوست ہو گئی جو معتزلہ اور خوارج نے اختیار کیا تھا کہ قرآن کریم کو سنت رسول، تعامل صحابہ کرامؓ اور امت کے جمہوری تسلسل سے الگ کر دیا جائے تاکہ اس کی من مانی تشریح آسان ہو جائےگی، مذہبی ڈھانچے کی ری کنسٹرکشن کے ذریعے سے ہی قدیم مذہبی روایات سے بغاوت ہو سکتی اور اگر یہ بغاوت اگر کامیاب ہو گئی تو مسلمانوں کو ان کے علمی ماضی سے کاٹ کر نئے سانچے میں ڈھالنا بالکل آسان ہوجائے گا .
یہی ہوا جب حدیث معیار ہی نا رہی تو قرآن کی تشریح کی اتھارٹی آٹو میٹک ان مستغربین کو مل گئی ، پھر انہوں نے قرآن کے مطالب و مفاہیم کو جس طرف چاہا موڑ دکھایا ۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ غلام احمد پرویز نے قرآنی آیات کے اصل ،متعین اور متوارث معانی ومفاہیم کو بدل کر اللہ، رسول ، کلمہ‘ نماز‘ زکوٰة‘ روزہ‘ حج‘قربانی وغیرہ کے جو مطالب پیش کیے وہ وہ نہیں ہیں جو مسلمانوں میں عہد نبوی سے لے کر تاحال مشہور ومتعارف ہیں ۔ انکے نزدیک اللہ ورسول سے مراد مرکز نظامِ حکومت ہے ، جنت جہنم انسانی ذات کی کیفیات کا نام ہے ۔نماز اور دیگر عبادات کے بارے میں پرویز صاحب نے لکھا۔”ہماری صلوٰة وہی ہے جو (ہندو) مذہب میں پوجاپاٹ کہلاتی ہے‘ ہمارے روزے وہی ہیں جنہیں مذہب میں برت‘ ہماری زکوٰة وہی شئے ہے جیسے خیرات‘ ہمارا حج مذہب کی یاترا ہے‘ ہمارے ہاں یہ سب کچھ اس لئے ہوتا ہے کہ اس سے ثواب ہوتا ہے‘ یہ تمام عبادات اس لئے سر انجام دی جاتی ہیں کہ یہ خدا کا حکم ہے‘ ان امور کو نہ افادیت سے کچھ تعلق ہے‘ نہ عقل وبصیرت سے کچھ واسطہ‘ آج ہم اسی مقام پر ہیں جہاں اسلام سے پہلے دنیا تھی“۔ (قرآنی فیصلے ص:۳۰۱ تا ۳۰۲)
ان لوگوں نے اپنے پیروکار مسلمانوں کو پوری اسلامی شریعت سےتو کاٹ کے علیحدہ کردیا لیکن انکو قرآن سے بھی کوئی واضح اور مضبوط علمی بنیاد , کوئی متبادل نظام فراہم نا کرسکے. جسکی وجہ سے انکے پیروکار جلد ہی ملحدین کی صفوں میں جا کھڑے ہوئے، یہ انکار حدیث جو قرآن اور عقل کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھا ‘ کی اصل منزل الحاد ہی ٹھہری۔
عجیب بات یہ ہے کہ یہ لوگ صرف قرآن کا نعرہ لگاتے اور خود کو اہل قرآن کہتے ہیں اور احادیث کے انکار کے لیے گولڈ زیہر اور اس کے متبعین کی تصانیف کی باتوں کو دوہراتے ہیں لیکن دوسری طرف قرآن کے متعلق انہی مستشرقین کے ایسے ہی اعتراضات اور خرافات کو بغیر کسی دلیل کے جھوٹ کہہ جاتے اور ان سے پہلو تہی کرتے ہیں. دیکھا جائے تو مستشرقین نے سیم اعتراضات قرآن کے متعلق بھی دوہرائے ہوہئے ہیں کہ جس طرح فتنہ پروروں نے احادیث وضع کی ہیں، اسی طرح قرآن مجید بھی گھڑا گیا۔ جس طرح احادیث کی خبر میں موضوع اور صحیح کی مصطلحات پر انکے اعتراضات ہیں ، اسی طرح قرآن مجید میں بھی شاذ اور متواتر کی اصطلاحات پر بھی اعتراضات موجود ہین ۔ جس طرح احادیث میں صحیح اور موضوع احادیث موجود ہیں ، اسی طرح قرآن کی نے متواتر اور شاذ روایات بھی موجود ہیں جنہیں قراء کرام نے علیحدہ کیا جس طرح محدیثین نے احادیث میں سے موضوع کو علیحدہ کیا ۔ جس طرح احادیث کی خبر کی صحت کی شرائط منقول ہیں جو کہ عام طور محدثین کے نزدیک پانچ ہیں، اسی طرح قرآن مجید کی خبر کی صحت بھی شرائط منقول ہیں جو عام طور قراء کے نزدیک تین ہیں۔ جس طرح حدیث سند سے نقل ہوئی ہے، اسی طرح قرآن مجید بھی سند سے نقل ہوا ہےاور مستشرقین کے ان سب پر اعتراضات موجود ہیں ۔
بعض مسلمان اہل دانش نے اپنے خیال کے مطابق اسلام اور پیغمبر اسلام پر مستشرقین کے لگائے گئے اعتراضات کے جواب کا آسان نسخہ یہ تجویز کیا ہے کہ ذخیرۂ حدیث میں ایسے اعتراضات کی بنیاد بننے والی احادیث کا ہی سرے سے انکار کر دیا جائے۔ یہ لوگ عموما چونکہ چنانچہ، اگر،مگر اور تاویلاتِ باطلہ سے کام لیتے ہیں، اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہیں، جو خواہش کے مطابق ہوتا ہے، اس کو لیتے ہیں، جو مخالف ہو، اسے بےتکلف پھینک دیتے ہیں، ، سلف کے اصول و ضوابط کو چھوڑ کر انہوں نے اپنے نئے اصول و ضوابط وضع کرلئے ہیں.
جمہور مسلم علما نے ان لوگوں کی طرح سرنڈر کر دینے کی بجائے علمی اور تحقیقی میدان میں پوری جرات کے ساتھ مستشرقین کے ہر موضوع پر اعتراضات کا سامنا کیا اور تحقیق و استدلال کی قوت سے اس کا راستہ روکنے میں مجموعی طور پر وہ کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے مسلم امہ کی اکثریت کو حدیث وسنت کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار ہونے سے عالم اسباب میں بچا رکھا ہے اور چند محدود حلقوں کے علاوہ حدیث و سنت کے بارے میں امت مسلمہ اپنے قدیم موقف اور روایت پر بحمد اللہ تعالیٰ پوری دل جمعی کے ساتھ قائم ہے۔
تاریخ اسلام ، سیرت اور قرآن کے موضوع پر ہم مستشرقین و ملحدین کے تمام بڑے اعتراضات کا تحقیقی جائزہ پیش کر چکے ہیں ۔ اس تحقیقی سلسلے میں ہم حدیث و سنت کے بارے میں مستشرقین اور ان کے زیر اثر بعض مسلمان اہل دانش کی طرف سے اٹھائے جانے والے تمام اہم سوالات اور شکوک وشبہات کو زیر بحث لائیں گے ۔ مثلا کیا واقعی حدیث تین سو سال بعد لکھی گئی ہیں ؟فن حدیث کے کیا اکیڈمک پیرامیٹرز ( علمی معیارات ) ہیں؟کتاب وسنت کا باہمی تعلق کیا ہے ؟ ۔حدیث کے جانچنے کا معیارکیا ہیں؟ کیا کسی بھی حدیث کو اپنے انداز میں عقل اور قرآن کا معارض دکھا کے اسکا انکار کیا جاسکتا ہے؟ کتب احادیث میں شیعہ روایوں سے لی گئی روایات کی حقیقت کیا ہے ؟ایرانی سازش کا افسانہ- حقیقت کیا ہے، بنوامیہ ، امام زہری اور حدیث کے گھڑنے کے الزامات،کیا صحیح بخاری منزل من اللہ ہے کہ اس میں کوئی غلطی نہیں؟ صحاح ستہ کا نوے فی صد جھوٹ پر مبنی ہے؟کیا اللہ کا دین صحیح اور ضعیف ہو سکتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ ۔اس کے علاوہ ہماری کوشش ہوگی کہ ہر اس حدیث کو زیر بحث لایا جائے جسکو انکار حدیث کی وجہ بنایا جاتا ہے یا جسکو قرآن اور عقل سلیم کے خلاف سمجھا جاتا ہے ، مثلا حضور پر خودکشی کی کوشش کی تہمت، شیطان کا کان میں پیشاب کرنا، حضور ﷺ کا ایام ماہواری اور روزے میں مباثرت کرنے کی احادیث وغیرہ ۔