قراءت شاذہ اور ملحدین کے مغالطے

علماء نے عموماً قراء ت کی دو مشہور قسمیں ذکر کی ہیں: (۱) قراء اتِ متواترہ (۲) قراء اتِ شاذہ

قراء اتِ متواترہ سے مراد وہ صحیح اور مقبول قراء ات مراد لی جاتی ہیں جو نبی کریم ﷺ سے بطریق ِتواتر مروی ہوں اور عربی قواعد ورسم عثمانی کے موافق ہوں۔ صرف انہی کی تلاوت جائز ہے۔ موجودہ قرآن انہی پر مشتمل ہے۔

قراء اتِ شاذہ سے مراد ضعیف سند والی قراء ات ہیں یا پھر وہ قراء ات جو عربی قواعد اور رسم عثمانی کے موافق نہ ہوں۔

قراء ت شاذہ کا معنی ومفہوم اور وجہ تسمیہ:

حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’قراء ت شاذہ وہ ہے کہ جو قرآنی حیثیت سے منقول ہو مگر نہ وہ تواتر سے ثابت ہواورنہ قراء ت کے ائمہ کے نزدیک اسے قبول عام حاصل ہو۔‘‘(البرہان فی علوم القرآن:۱ ؍۴۸۱)

ڈاکٹر لبیب السعید رحمہ اللہ قراء ت شاذہ کی تعریف میں فرماتے ہیں:’’ علماء قرآن کی اِصطلاح میں شاذ قراء ات وہ ہیں جو آحاد سند سے مروی ہیں اور رسم عثمانی کے خلاف ہیں،نیز کسی قراء ت کا صحیح السند اور قواعد عربیہ کے موافق ہونا اس کے شاذ ہونے سے مانع ہے۔ (الجمع الصوتی الأولی للقرآن:۲۲۱)

علاوہ اَزیں قراء ات شاذہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ قراء ت رسم عثمانی سے علیحدہ ہیں اس لیے ان کانام شاذ یعنی علیحدہ ہونے والی رکھ دیا گیا ۔ (مناہل العرفان:۱؍۳۷۶)


قراء ات شاذہ کی اَقسام


قراء ات شاذہ کو درج ذیل اَقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے:

(١) وہ قراء ات جس کی سند صحیح ہو او رکسی عربی قاعدہ کے مطابق ہو لیکن نہ تو بطریق تواتر ثابت ہو اورنہ ہی ایسے طریق سے جو قوت میں تواتر کے مساوی ہو۔

(٢) وہ قراء ات جس کی سند صحیح ہو او رلغت عرب کے بھی موافق ہو، لیکن مصاحف عثمانیہ کی رسم کے مطابق نہ ہو۔

(٣) وہ قراء ات جس کی سند صحیح ہو رسم عثمانی کے موافق ہو، لیکن لغت عرب کے خلاف ہو۔

(٤) وہ قراء ات جس کی سند تو صحیح ہے مگر وہ قرآن نہیں،بلکہ صحابہ کے بطور تفسیر اضافہ کردہ کلمات ہیں،جن کے لئے مدرج کی بھی اصطلاح مستعمل ہے۔

(٥) وہ قراء ات جس کی سند ہی صحیح نہ ہو خواہ وہ رسم عثمانی اورعربی قواعد کے موافق ہو یا مخالف۔

(٦) وہ قراء ات جو رسم عثمانی اور لغت عرب کے موافق ہیں مگر ان کی کوئی سند ہے ہی نہیں۔ ایسی قراء ات بھی شاذہ، بلکہ مکذوبہ کہلائیں گی اورانہیں کوئی مسلمان قرآن نہیں کہہ سکتا ۔ (المحتسب:۱؍۲۴۷،القراء ت السبع:۲۷۸،النشر:۱؍۱۶،الاتقان:۱؍۷۷،المنجد المقرئین:۱۷)

قراء ت شاذہ کی شرعی حیثیت…کیا یہ قرآن ہیں؟


قراء ت ِشاذہ میں وہ تمام شرائط مفقود ہیں جو ثبوت قرآن کے لئے ضروری ہیں، لہٰذا سب علمائے اُمت کا اتفاق ہے کہ قراء ت شاذہ قرآن نہیں۔ چند اَقوال پیش خدمت ہیں:

علامہ ابن حزم رحمہ اللہ:’’ اس بات پراجماع ہے کہ قراء ات شاذہ کی تلاوت اورانہیں مصحف میں لکھنا جائز نہیں۔‘‘ (المحلی:۴؍۲۵۵)

علامہ ابن عبد البررحمہ اللہ :’’ قراء ت شاذہ نماز میں پڑھنے والے کے پیچھے نماز پڑھنے کی ممانعت پر تمام علمائے امت کا اجماع ہے۔‘‘ (التمہید :۸؍۲۹۳)

بعض علماء نے قراء ات شاذہ کو بطورِ تفسیر حجت قرار دیا ہے۔ جیسے حضرت ابن مسعود حضرت عمررضی اللہ عنہ کی طرح فامضوا إلی ذکر اﷲ پڑھا کرتے تھے ۔اس مقام پرحضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قراء ت شاذہ سے ایک مسئلہ کا استنباط کرنا اس کی حجیت کی دلیل ہے۔ ان کی حجیت صرف اس حیثیت سے ہے کہ پہلے یہ قرآن تھیں پھر ان کی تلاوت منسوخ ہوگئی اور حکم باقی رہا اور وہ حکم چونکہ بطورِ آحاد ہم تک پہنچا ہے اس لیے اسے خبر واحد یا بالفاظ دیگر حدیث کی حیثیت سے قبول کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں یہ قراء ات قرآن کے مجمل اورمشکل مقامات کی تفسیر تھیں جو رسول اللہﷺنے بیان فرمائی تھی اورصحابہ نے اسے سنا تھا۔ بشرطیکہ وہ صحیح ثابت ہو اور کوئی صحیح حدیث یا قوی تر دلیل اس کے معارض نہ ہو۔س

خلاصہ :

علم قراء ات اجتہادی نہیں، بلکہ سماع اورنقل سے ثابت ہے اور اس کا ماخذ وحی الٰہی ہے۔ قراء ات عشرہ کے علاوہ باقی تمام قراءات شاذہ ہیں۔ وہ قراء ات جن کی اسناد ضعیف یا موضوع ہیں یا ان کی کوئی سند ہی نہیں، انہیں کسی حیثیت سے بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ تمام علمائے امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ قراء ات شاذہ پر قرآن کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ قرا ء ات شاذہ چونکہ قرآن نہیں اس لیے نماز میں ان کی تلاوت بھی حرام ہے۔جمہور علماء کے نزدیک سند کے اعتبار سے صحیح قراء ات شاذہ استنباط احکام میں حجت ہیں، بشرطیکہ وہ صحیح ثابت ہوں اور کوئی حدیث یاقوی تردلیل ان کے معارض نہ ہو نیز اس کا نسخ بھی ثابت نہ ہو۔(استفادہ تحریر: قراءت شاذہ…تعارف اور شرعی حیثیت از حافظ عمران ایوب لاہوری، قرات نمبر، ماہنامہ رشد)۔

قراءت شاذہ اور ملحدین


 بعض مستشرقی و ملحدین نے قرآن کریم کی ان شاذ قراء توں کی رویات کوبنیاد بناکر غلط مفردضات کا ایک قلعہ تعمیر کرلیاہےاور رائی کا پہاڑ بنانے کی کوشش کی ہے، مستشرقین نے خاص طور پر گولڈ زیہر اور آرتھر جیفرے نے ان ایسی بہت سی روایات کی مثالیں جمع کرکے اُن سے من مانے نتائج نکالے ہیں ۔(دیکھئے مذاہب التفسیر الاسلامی : گولڈ زیہر ، ترجمہ عربی ڈاکٹر عبدالحلیم انجار اور:

Arthur Jeffery:Materials for the History of the text of Quran, Ledien 1937 P.6)

ملحدین کا طریقہ واردات یہ ہے کہ محدیثین امام بخاری، امام ترمذی ، امام حاکم رحمہ اللہ وغیرہ نے اپنی کتابوں میں فضائل قرآن اور تفسیر کے ابواب میں شاذ قراءت کی جو مثالیں دی ہوئی ہیں انکو پیش کرکے کہتے ہیں یہ دیکھو کتنے معتبر صحابی جو آیت بتا رہے ہیں وہ تمہارے موجودہ قرآن میں موجود ہی نہیں ۔۔۔ شاذ قرات کی شرعی حیثیت گزشتہ تحریر میں ہم واضح کرچکے ہیں یہاں ہم چند اصول باتیں اور انکی مثالوں میں سوشل میڈیائی ملحدین کی پیش کردہ روایات کی حقیقت واضح کریں گے ۔ امید ہے کہ ان اصولی حقائق کومدنظر رکھنے کے بعد اُن تمام باطل نظریات کی تردید اچھی طرح سمجھ میں آسکے گی جو انھوں نے شاذ قراء توں کی بنیاد پر قائم کئے ہیں۔

ہم پہلے عرض کرچکے ہیں پوری اُمت مسلمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم کی صرف وہ قراء تیں معتبر ہیں جن میں تین شرائط جائیں :۔

(۱)وہ آنحضرتﷺ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہو اور ائمۂ قرأت میں مشہور ہو۔

(۲)عربی زبان کے قواعد کے مطابق ہو۔

(۳)مصاحفِ عثمانی کے رسم الخط میں اس کی گنجائش ہو۔

جس قراء ت میں ان تین شرائط میں سے کوئی ایک مفقود ہو، وہ شاذ قراء ت کہلاتی ہے ، اور پوری اُمت میں سے کسی نے اسے معتبر نہیں مانا ۔ جتنی بھی قراتوں کو شاذ قرار دیا گیا ان پر اگر غور کیاجائے تومعلوم ہوتا ہے کہ اُن میں مندرجہ ذیل باتوں میں سے کوئی ایک بات ضرور پائی جاتی ہے:۔

1۔بعض اوقات انکی سند صحیح ہوتی ہے، لیکن درحقیقت وہ قرآن کریم کی قراء ت نہیں ہوتی ،بلکہ کوئی صحابی یا تابعی عام گفتگو میں قرآن کریم کے کسی لفظ کی تشریح کے لئے اس کے ساتھ دوایک لفظ لکھ دیتے تھے۔۔قرآن کریم چونکہ پورا کاپورا متواتر تھا، اورہر دور میں اس کے ہزاروں حفاظ موجود تھے، اس لئے ان الفاظ کے اضافہ سے قرآن کریم کے متن میں اضافے کاکوئی اندیشہ نہیں تھا، لہٰذا اس دور میں اس قسم کی تشریحات میں کوئی حرج نہیں سمجھا گیا۔مثلا:

a. – حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: “جب یہ آیت نازل ہوئی و وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ وَ رَحْطُکَ مِنْھُمِ الْمُخْلِصِیْنَ ۔۔۔۔۔الخ

(صحیح بخاری، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ تبت یدا ابی لھب، حدیث:۴۹۷۱) یہاں وَ رَحْطُکَ مِنْھُمِ الْمُخْلِصِیْنَ واضح تفسیری اشارہ ہے، اسکے مطلب سے بھی ظاہر ہے اور امام بخاری نے بھی اس روایت کو کتاب التفسیر میں پیش کیا ہے۔

b. مشہور تابعی سعید بن جبیر نے کہا حضرت ابن عباس اس طرح آیت کی تلاوت کرتے تھے: وَكَانَ أَمَامَهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍغَصْبًا اور اس آیت کی بھی یوں تلاوت کرتے تھے: وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ كَافِرًا وَ كَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ(صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب {وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ: لاَ أَبْرَحُ حَتَّى أَبْلُغَ مَجْمَعَ البَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا}، حدیث: ۴۷۲۵) اس میں فکان کافر آیت کی وضاحت کے لیے بطور تفسیر لکھا گیا۔

c. حضرت عبداللّٰه بن عباس نے ایک آیت کے متعلق گواہی دے رکھی ہے کہ یوں نازل ہوئی تھی: لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ فِیْ مَوَاسِمِ الْحَجِّ

(صحیح بخاری، کتاب الحج، باب التجارۃ ایام الموسم، حدیث:۱۷۷۰)

چونکہ اس آیت میں اجازت دی گئ ہے کہ حج کے دنوں میں تجارت کرکے مالی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے صحابی نے ایضاح وتفسیر کے لئے اپنے مصحف میں آیت کے ساتھ ہی لکھ دیا۔ حوالہ سے بھی واضح ہے کہ امام بخاری اسے التجارہ ایام الموسم کے باب کے تحت کتاب الحج میں لائے ہیں ۔ ابن الجزری اس پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

”بعض اوقات تفسیری کلمات کو ایضاح وتبین کے لئے قراءت میں شامل کرلیا جاتا تھا اس لئے کہ صحابہ نے بذات خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید سنا تھا بنابریں ان کو یہ خطرہ لاحق نہ تھا کہ تفسیری کلمات قرآنی الفاظ کے ساتھ مخلوط ہوجائیں بعض صحابہ تفسیر پر مشتمل الفاظ کو اپنے ذاتی نسخہ میں لکھ لیا کرتے تھے (الاتقان،ج۱،ص۱۳۴) حضرت عائشہ نے ایسا ہی کیا تھا۔

d. حضرت عائشہ کے آزاد کردہ غلام ابو یونس سے روایت ہے کہ “حضرت عائشہ نے مجھے حکم دیا کہ ان کے لئے قرآن لکھوں اور فرمایا: جب تم اس آیت پر پہنچو حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ تو مجھے بتانا، چنانچہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو انہیں آگاہ کیا، انہوں نے مجھے لکھوایا: حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَ صَلوٰۃِ الْعَصْرِ حضرت عائشہ نے فرمایا: میں نے اسے رسول اللّٰه سے ایسے ہی سنا۔”

(صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب الدلیل لمن قال: الصلاۃ الوسطیٰ ھی صلاۃ العصر، حدیث:۱۴۲۷)

َ صَلوٰۃِ الْعَصْرِ کے الفاظ حضرت عائشہ نے اپنے مصحف میں بطور تفسیر اپنی یاددہانی کے لیے لکھے ہوئے تھےکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صلاۃ الوسطی کا معنی صلاۃ العصر بتایا تھا۔ اس حدیث کے حوالے میں بھی اس بات کی وضاحت موجود ہے۔باب الدلیل لمن قال: الصلاۃ الوسطیٰ ھی صلاۃ العصر۔

2.بعض مثالیں ایسی بھی ہیں کہ قرآن کریم کی بعض قرء تیں آخر میں منسوخ ہوگئیں،لیکن کسی صحابی کو اُن کے منسوخ ہونے کاعلم نہ ہوسکا ، اس لئے وہ قدیم قراء ت کے مطابق پڑھتے رہے(مشکل الا ثار،للطحاویؒ ،ص۱۹۶تاج۴،)لیکن چونکہ دوسرے تمام صحابہؓ جانتے تھے کہ یہ قرا ء ت منسوخ ہوچکی ہے اس لئے وہ نہ اُسے پڑھتے تھے، اورنہ قرآن کریم کی صحیح قرائتوں میں شمار کرتے تھے۔مثلا عبداللّٰه بن مسعود کے چند تابعین شاگردوں نے ایک اور صحابی ابو درداء کے سامنے سورۃ الیل کی آیات یوں تلاوت کی: وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ﴿١﴾وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ﴿٢﴾ وَ الذَّكَرِ وَالْأُنثَىٰ اور گواہی دی کہ عبداللّٰه بن مسعود اسی طرح تلاوت کرتے تھے۔ ابو درداء نے اس پر فرمایا: “میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے بھی نبی کریم کو اسی طرح پڑھتے سنا ہے لیکن یہ شام کے لوگ چاہتے ہیں کہ میں وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ پڑھوں۔ اللّٰه کی قسم ! میں کسی صورت میں ان کی پیروی نہ کروں گا۔”

(صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب والنہار اذا تجلیٰ، حدیث: ۴۹۴۴، ۴۹۴۳)

اسی حدیث کی تشریح میں حافظ ابن حجرؒ نے یہ وضاحت کی ہے کہ اس آیت کی قرآت منسوخ ہوچکی تھی، جس کا علم حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہیں ہواتھا۔ اسکی دلیل یہ ہے کہ کوفہ کے قراء جن کا سلسلہ قرآت حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ تک منتھی ہوتاہے، ان میں سے کسی کی بھی یہ قرآت نہیں، جو اس کے نسخ پر دلیل ہے۔

3.بعض اوقات وہ قراء ت بالکل موضوع ہوتی ہے جیسے کی ابو افضل محمد بن جعفیر خزاعی کی قراء تیں ، جنکو انھوں نے امام ابوحنیفہؒ کی طرف منسوب کیاہے، امام دارقطنیؒ تمام علماء نے تحقیق کرکے بتایا ہے کہ یہ تمام قراء تیں موضوع ہیں ۔ (النشرفی القرآن العشر‘لابن الجزری ؒ ،ص ۱۶ج والا تقان‘ص ۷۸و ۷۹ج۱، )

4.بعض اوقات اُن کی سند ضعیف ہوتی ہے، جیسے ابن لسمیفع اور ابو السال کی قراء تیں (النشر،ص۱۶ ج ۱)یا بہت سی وہ قرائتیں ہیں جو ابن ابی داود ؒ نے کتاب المصاحف میں مختلف صحابہؓ وتابعین ؒ سے منسوب کی ہیں۔

5.بعض شاذ قراء توں کو دیکھ کر ایسا بھی محسوس ہوتاہے کہ کسی وقت کسی تابعیؒ وغیرہ سے قرآن کریم کی تلاوت میں کوئی بھول چوک ہوگئی ‘جیسا کہ اکثر بڑے بڑے حافظوں سے ہوجاتی ہے، اُس وقت کسی سننے والے نے سنکر اسے روایت کردیا۔( النشر‘لابن لالجزری ؒ ،ص ۱۶ج ا،المبانی فی نظم المانی:مقدمتان فی علوم لقرآنص ۱۷۰مکتبہ الخاخنی،مصر۱۹۵۴ء )

قرآن کریم کی جتنی شاذ قراء توں کی روایات منقول ہیں وہ زیادہ ترانہی پانچ صورتوں مٰیں دائر ہیں ، ظاہر ہے کہ ان صورتوں میں ان قراء توں کو معتبر قرار دینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،چنانچہ امت نے چودہ سو سال میں کسی بھی دور میں انھیں قابل اعتبار نہیں سمجھا، یہ قراء تیں متواتر تو کیا ہوتیں مشہور بھی نہ ہوسکیں ،لہٰذا ان کو بنیاد بناکر مستشرقین و ملحدین نے جو یہ نتیجہ نکالنے کی کوشش کی ہے کہ(معاذ اللہ) قرآن کریم کے متن میں کچھ اختلافات پائے اجاتے تھے یہ ایسا بے بنیاد اورلغوخیال ہے جوعلم وتحقیق کے اعتبار سے قابل غور بھی نہیں۔