عہد رسالت میں قرآن کی تعلیم وتعلم کا بہت اہتمام تھا، چنانچہ صحابہ کرام ؓ نے حفظ اور کتابت دونوں ذرائع سے قرآنِ کریم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا . قرآن کریم یکبارگی نہیں بلکہ تیئیس سال کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوا۔۔یہ سلسلہ پورے عہد نبوی کو محیط رہا؛ بلکہ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے آخری لمحات تک جاری رہا۔ اس لیے آپ ﷺ کے سامنے آج کی طرح کتابی شکل میں منصہ شہود پر آنا مشکل بلکہ ناممکن تھا۔ صحابہ کرام کے مابین جب کسی آیت میں اختلاف ہوتا تو وہ مکتوب قرآن کی بجائے رسول اکرم ﷺ سے ہی رجوع کرلیتے.قرآن مجید کا نزول ضرورت و حاجت کے مطابق تھوڑا تھوڑا ہوتا رہا، کبھی ایک آیت کبھی چند آیتیں نازل ہوتی رہیں، نزول کی ترتیب موجودہ ترتیب سے بالکل الگ تھی، اگراس وقت قرآن ایک مصحف میں جمع کردیا جاتا تو یہ ترتیب ہر نزول کے وقت ہی تبدیلی کا سامنا کرتی۔
عہد صدیقی میں کچھ جنگوں میں قراء صحابہ کے شہید ہوجانے پر اکابر صحابہ کو یہ احساس ہوا کہ ایسے ہی دیگر معرکوں میں حفاظ شہید ہوتے رہے تو قرآن مجید کا بہت سا حصہ ان کے سینوں ہی میں چلاجائے گا، اس لیے قرآن مجید کی جمع وتدوین کا کام کیا گیا۔اس کام کی نوعیت یہ تھی کہ پورا قرآن تو عہد رسالت میں لکھا جاچکا تھا مگر اس کی آیتیں اور سورتیں یکجا نہ تھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترتیب کے مطابق اس کو ایک جگہ جمع کیا ۔ کبار حفاظ صحابہ کی زیرنگرانی میں ان صحیفوں کو سامنے رکھ کر قرآنِ کریم کو مرتب کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھے گئے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کے جمع کردہ قرآنِ کریم کی صحت پر تمام صحابہ کا اجماع تھا۔
جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور اسلام کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا، تو دور نبوی میں قرات کے سلسلے میں دی رعایتوں کی بنیاد پر جو لوگوں نے اپنے اپنے قبائلی اور انفرادی لہجوں یا مختلف متواتر تلفظ کے لحاظ سے قرآن مجید کے مختلف نسخے لکھے تھے، انکے درمیان شدید اختلاف رونما ہو گیا، ایک دوسرے کی قرات کو غلط قرار دیا جانے لگا حتی کہ ایک دوسرے کی تکفیر کی جانے لگی،کافی غوروخوض کے بعد تمام صحابہ کرامؓ اس بات پرمتفق ہوگئے کہ سبعة أحرف کی رعایت کرتے ہوئے کچھ مصاحف تیار کئے جائیں اور ہر علاقہ کی طرف ایک مصحف کا نسخہ روانہ کردیا جائے تاکہ وہ اختلاف اور جھگڑے کے وقت اس کی طرف رجوع کرسکیں اور ان مصاحف کے علاوہ باقی تمام صحیفے ختم کردیے جائیں ۔حضرت عثمان ؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے اِنہی صحائف سے مہاجرین و انصار میں سے حفاظ اور ثقہ صحابہ کرامؓ جنہوں نے بالمشافہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآنِ کریم کو حاصل کیا تھا اور وہ عہد ابوبکر ؓمیں جمع قرآن کی کمیٹی میں شامل تھے’ کی زیرسرپرستی حضرت ابوبکر ؓکے اِنہی صحیفوں سے قرآنِ کریم کے مصاحف نقل کروائے، متواتر قرات کو ان میں جمع کیا ۔
بعد میں جب اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع ہوگیا، بے شمار عجمی ممالک اسلام کے زیر سایہ آگئے اور عربی اور عجمی زبانوں کا باہم اختلاط بڑھا تو عجمی لوگوں کے لئے قرآنِ کریم کو بغیر نقطوں اور حرکات کے پڑھنا کافی دشوار تھا ۔چنانچہ نقطے ، حرکات (زیر، زبر، پیش) وغیرہ لگائے گئے۔
خلاصہ یہ کہ قرآنِ کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حفظ و کتابت دونوں طرح بذریعہ تواتر ہم تک پہنچا ، لاکھوں لوگوں نے بغیر کسی ادنیٰ کمی و بیشی اور تغیر و تبدل کے اسے لاکھوں لوگوں کی طرف آگے نقل کیا اور یہ روزِ قیامت تک بذریعہ تواتر ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا رہے گا۔
ان دلائل کی بنیاد پر بلا خوفِ تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس وقت روے زمین پر قرآنِ کریم ہی وہ واحد کتاب ہے جو اَب تک اسی طرح محفوظ ہے جس طرح آسمان سے اس کا نزول ہوا تھا، کیونکہ اسے قیامت تک کے لئے تمام انسانیت کے لئے ہدایت کا چراغ اور پوری نوعِ انسانی کے لئے حجت بننا تھا۔ چنانچہ حفاظت ِقرآن کے اس ربانی وعدہ نے پوری دنیا پر یہ مہر تصدیق ثبت کردی ہے:إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا ٱلذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُۥ لَحَـٰفِظُونَ ﴿٩﴾…سوررة الحجر”بلاشبہ ہم نے ہی اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے ۔”
پروفیسر سرجسٹراسر جو کہ میونخ میں قرآن محل کابانی تھے، انہوں نے قرآن حکیم کے دنیا کے مختلف حصوں سے ہزاروں نسخے جمع کئے تھے، انکی وفات کے بعد انکا شاگرد پریکثل قرآن محل کا سربراہ بنا، بعد میں قرآن محل اتحادی فوجوں کی بمباری سے تباہ ہوگیا تھا اور پریکثل بھی اسی بمباری سے ہلاک ہوگیا تھا۔ تاہم اس کی وفات سے قبل ۱۹۳۳ء میں ڈاکٹر حمیداللہ کو پریکثل سے بالمشافہ گفتگو کاایک موقع میسر آگیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب پریکثل فرانس کی مختلف لائبریریوں میں موجود قرآن حکیم کے مختلف نسخہ جات کی فوٹو کاپیاں حاصل کرنے کے لیے فرانس آیا ۔ڈاکٹر حمیداللہ کا بیان ہے کہ پریکثل نے انہیں بتایا:
’’ہمارے ادارے نے دنیا میں مختلف حصوں سے قرآن حکیم کے مختلف ۴۲ ہزار نسخہ جات کی فوٹوکاپیاں جمع کیں اور ان کا باہمی موازنہ کیا، ڈاکٹر حمیداللہ مزید بتاتے ہیں کہ پچھلے چودہ سو سالوں کے دوران مطبوعہ یا غیرمطبوعہ قرآن حکیم کے ۴۲ ہزار نسخوں کو انہوں نے اس لیے جمع کیا تاکہ وہ متن قرآن کے تضادات کو سامنے لاسکیں۔ تمام دستیاب نسخہ جات کو جمع کرکے ان کا آپس میں موازنہ کرنے کے بعد اس ادارے نے جو ابتدائی رپورٹ جاری کی ڈاکٹر حمیداللہ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:
’’اگرچہ ابھی تک قرآن حکیم کے مختلف نسخہ جات کو جمع کرنے کا کام جاری ہے تاہم جتنا کام مکمل ہوچکا ہے اس کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان ۴۲ ہزار نسخہ جات میں کتابت کی غلطیاں تو موجود ہیں مگر متن قرآن میں کسی قسم کے تضاد کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی۔‘‘ •( خطبات بہاولپور ازمحمد حمیداللہ، ص۱۵-۱۶ (٨٣) ایضاً، ص۱۵-۱۶)
قرآن کے مخالفین قرآن حکیم کے متن پراپنے انتقاد اعلیٰ کے اصولوں کا غیر جانبداری کے ساتھ اطلاق کریں، اخلاص اور دیانت داری سے ایسا کرتے ہوئے وہ ضرور قرآن حکیم کے اس دعوے کی صداقت کا عملی مشاہدہ کریں گے کہ :
اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے نازل کیا گیاہوتا تو وہ اس قرآن میں بے شمار اختلافات اور تضادات پاتے‘‘ (۸۲:۴)
اور یہ کہ ’’بے شک ہم نے ہی اس کو نازل کیا اور ہم ہی اس (قرآن) کی تحریف و تبدیلی) حفاظت کریں گے۔ (۹:۱۵)
اپنی تمام تر مخالفت ، حسد کے باوجود مستشرقین بھی اسکا اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے ، مستشرق شفالی نے بجا طور پر کہا تھا کہ :
”قرآن انسانوں کی توقعات سے بھی زیادہ مکمل صورت میں ان کے پاس پہنچا”(die sammlilag des .goran ,11,93)
”لَا یَاٴ تِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ“ (فصلت/۴۲)
باطل نہ اس کے آگے سے آسکتا ہے نہ پیچھے سے یہ خداوند عالم کا نازل کردہ ہے.