عہدصدیقی  ؓ  میں جمع قرآن اور اسکی نوعیت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مکمل قرآن مجید مختلف چیزوں پر لکھا ہوا تھا، سارے اجزا الگ الگ تھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان قرآن مجید کی تمام سورتوں کو ایک ہی جلد میں مجلد کروانے کا کام حکومتی اور اجماعی طور پر انجام دیا؛ چنانچہ ایسا نسخہ مرتب ہو گیا جس کو سارے صحابہٴ کرام کی اجماعی تصدیق حاصل ہوئی۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ حکومت میں تدوین قرآن کی صورت یہ تھی کہ اسے مختلف پارچوں سے نقل کرکے ایک جگہ (کاغذ) پریکجا کیا گیا۔یہ نسخہ بہت سے صحیفوں پر مشتمل تھا اورہر سورت الگ الگ صحیفے میں لکھی گئی تھی۔اور صرف وہی کچھ لکھا گیا جس کا قرآن ہونا تواتر سے ثابت ہوا تھا۔ ( وہ آیات اور حروف نکال دیے گئے جن کی تلاوت منسوخ ہو چکی تھی۔)

دورِ صدیقی میں قرآنِ کریم کے منتشر حصوں کو یکجا کرنے کا مقصد قرآن مجید کی حفاظت کو یقینی بنانا تھا، کیونکہ خدشہ تھا کہ کہیں حاملین قرآن اور حفاظ صحابہؓ کی وفات سے قرآنِ مجید کا کوئی حصہ ضائع نہ ہوجائے۔

صحف صدیقی کی حقیقت:

عہد صدیقی میں قرآن مجید ایک مصحف میں بشکلِ کتاب مرتب نہیں ہوا تھا، بلکہ مختلف چیزوں سے صحیفوں (کتابچوں/ اوراق) میں لکھ لیا گیا تھا ۔۔ حدیث نبوی میں ان کو “صحف” (صحیفوں) کا نام دیا گیا ہے اور حافظ ابن حجرؒ کی تشریح کے مطابق وہ منتشر اوراق (الاوراق المجردۃ) تھے۔ مصحف اور صحف کا فرق بتاتے ہوئے حافظ موصوف نے لکھا ہے کہ مصحف تو سورتوں کی ترتیب کے مطابق اور بشکل کتاب ہوتا ہے، جب کہ صحف منتشر اوراق ہیں جن میں سورتیں ترتیب کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ پیوست کر دی گئی تھیں۔ یہی صحف صدیقی ہیں۔ فتح الباری، 9/24

ان کو صحف صدیقی کہنا اس لیے بھی مناسب و موزوں معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ وقت کے حکم سے قرآن کریم کو اوراق و قراطیس میں جمع کرکے محفوظ کر دیا گیا تھا۔ بعض روایات میں ان کو صحیفہ بھی کہا گیا ہے، لیکن واحد بول کر جمع مراد لی گئی ہے۔ دوسری تاریخی اور واقعاتی سند یہ ہے کہ انہی “صحف صدیقی” کی بنا پر حضرت عثمان بن عفان اموی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہدِ خلافت میں مصحف اور مصاحف تیار کیے گئے تھے، جن کی تعداد مختلف روایات میں مختلف آئی ہیں، لیکن سات مصاحف کی روایت کو سب سے معتبر کہا گیا ہے۔ ان مصاحف کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نامِ نامی سے موسوم کر کے “مصاحف عثمانی” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

پس منظر حدیث کی روشنی میں

حضورِپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات کے ساتھ ہی فتنے ابھرنے شروع ہوگئے اور آپ کی وفات کے بعد ان فتنوں نے شدت اختیار کرلی، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ نے ان فتنوں کی سرکوبی کے لیے پوری طاقت وقوت صرف کردی اور بہت سے معرکےاس دوران پیش آئے جن میں سے ایک اہم معرکہ جنگ یمامہ کا ہے، جس میں بہت سے قراء شہید ہوئے جن کا انداز ۷۰/ اور ایک قول کے مطابق ۷۰۰/تک لگایا گیا ہے (تفسیرقرطبی:۱/۳۷، عمدۃ القاری:۱۳/۵۳۳) دربارِ رسالت کے مشہور قاری سالم مولی ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ بھی اسی معرکہ میں شہید ہوئے (مناہل العرفان:۱۷۹)

اس عظیم سانحہ کی وجہ سے بعض اجلۂ صحابہ رضی اللہ عنہم بالخصوص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تشویش لاحق ہوئی جس کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اس طرح بیان فرماتے ہیں: ”

جنگِ یمامہ کے بعد مجھے امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بلایا میں پہنچا تو وہاں پہلے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تشریف فرما تھے، حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہٗ نے فرمایا کہ یہ عمررضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ یمامہ کے شدید معرکہ میں بہت سے حفاظ کام آگئے ہیں، مجھے اندیشہ ہے کہ اگر ایسے ہی دیگر معرکوں میں حفاظ شہید ہوتے رہے تو قرآن مجید کا بہت سا حصہ ان کے سینوں ہی میں چلاجائے گا؛ اس لیے عمررضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں کہ میں (ابوبکررضی اللہ عنہٗ) قرآن مجید کے جمع وتدوین کا اہتمام کروں (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ) میں ان سے کہہ چکا ہوں کہ جس کام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا وہ ہم کیسے کریں (لیکن) عمررضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں خدا کی قسم اس میں سراپا خیر ہی ہے یہ مجھ سے بار بار تقاضا کرتے رہے؛ آخر اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ بھی اس کام کے لیے کھول دیا اور اب میری بھی وہی رائے ہے جو عمررضی اللہ عنہٗ کی ہے، زید کہتے ہیں: حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہٗ نے مجھ سے فرمایا: تم نوجوان ہو سمجھدار ہو کسی طرح کی تہمت بھی ہم تمہارے (اور تمہارے دین ودیانت کے)بارے میں نہیں پاتے اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبِ وحی بھی ہو تم قرآن کریم (کے مختلف اجزاء) کو تلاش کرو اور اس کو جمع کرو! حضرت زید رضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں: کہ خدا کی قسم اگر وہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم فرماتے تو یہ میرے لیے زیادہ آسان تھا، بنسبت اس کام کے جس کا انھوں نے مجھے حکم دیا ہے، یعنی جمع قرآن کا حضرت زید رضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں: کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ حضرات ایسا کام کیسے کررہے ہیں جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا: بخدا یہ تو اچھا ہی کام ہے، حضرت زید رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ اس بارے میں بار بار مجھ سے اصرار کرتے رہے؛ یہاں تک کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ وعمر رضی اللہ عنہٗ کی طرح اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ بھی اس کام کے لیے کھول دیا (پھر میں صرف حکم کی تعمیل میں نہیں بلکہ واقعی ایک اہم ضرورت سمجھ کر اس کام کے لیے تیار ہوگیا) پھر میں نے قرآن کریم کے اجزاء کو تلاش کرنا شروع کیا او راسے کھجور کی شاخوں، پتھر کی سلوں اور لوگوں کے سینوں سے جمع کرنے لگا؛ یہاں تک کہ سورۃ توبہ کی آخری آیتیں “لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُ وفٌ رَحِیْمٌ” (التوبۃ:۱۲۸) “ابوخزیمہ انصاری رضی اللہ عنہٗ کے پاس ملی جو کسی اور کے پاس نہیں تھیں”۔

(صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن:۲۰/۴۹۸۶)

یہ حدیث حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ وہی ان صحیفوں کے کاتب بھی ہیں جن میں مختلف چیزوں سے قرآنی آیات اور سورتیں جمع کر کے لکھی گئیں تھیں۔

ممکن ہے کہ مذکورہ حدیث میں سورت توبہ کی آخری آیت والا حصہ پڑھ کر کسی کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہو کہ حضرت زید کو یہ آیت دیگر صحابہ کے پاس کیوں نہ ملی؟ ہم اسکی یہاں مختصر وضاحت کردیتے ہیں کہ حضرت زید کا مقصد یہ بتانا نہیں تھا کہ یہ آیت کسی کو یاد بھی نہیں تھی بلکہ یہ کہ یہ آیت حضرت خزیمہ کے علاوہ کسی اور صحابی کے پاس لکھی ہوئ نہ تھی۔(الاتقان ،ج۱،ص۱۰۱)

دوسرے سینکڑوں حفاظ کے علاوہ خود حضرت زید بھی حافظ تھے اور ان کو یہ معلوم تھا کہ یہ آیات کہا ں اور کس سورت سے متعلق ہیں اسی لیے انہوں نے اسکو صحابہ کے پاس تلاش بھی کیا ۔!! اس ضمن میں صحابہ کی تلاش تائید وتقویت کے لئے تھی کہ حفظ وحافظے کے علاوہ لکھے ہوئے سے بھی اسکی تائید ہوجائے اور وہ ابوخزیمہ انصاری سے مل گئی ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت زید نے تنہاء حافظے پر اعتماد نہیں کیا ،سورئہ براءة کی آخری آیات باوجودیکہ حضرت زید کو حفظ تھیں اور ان کے علاوہ متعدد صحابہ کو بھی حفظ تھیں ، لیکن اس وقت تک اُنہیں درج نہیں کیا جب تک کہ کسی صحابی (حضرت خزیمہؓ ) کے پاس بھی لکھی شہادت نہیں مل گئی ۔یہ اس بات کی گواہی ہے کہ تدوین کے سلسلے میں کس قدر احتیاط کا اہتمام کیا گیا۔

کام کی نوعیت :

پورا قرآن عہد رسالت میں لکھا جاچکا تھا مگر اس کی آیتیں اور سورتیں یکجا نہ تھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترتیب کے مطابق اس کو ایک جگہ جمع کیا ۔ علامہ سیوطی ابو عبداللہ محاسبی کی کتاب ”فہم السنن”کے حوالے سے لکھتے ہیں :

”قرآن کی کتابت کوئ نئی چیز نہ تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود اس کے لکھنے کا حکم دیا کرتے تھے البتہ وہ کاغذ کے ٹکڑوں،شانہ کی ہڈیوں اور کھجور کی ٹہنیوں پر بکھرا پڑا تھا ۔حضرت ابو بکررضی اللہ تعالٰی عنہ نے متفرق جگہوں سے اس کو یکجا کرنے کا حکم دیا یہ سب اشیاء یوں تھیں جیسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں اوراق منتشر پڑے ہوں اور ان میں قرآن لکھا ہو اہو، ایک جمع کرنے والے (حضرت ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہ )نے ان اوراق کو جمع کرکے ایک دھاگے سے باندھ دیا تاکہ ان میں سے کوئی چیز ضائع نہ ہوپائے۔(البرہان ،ج۱،ص۲۳۸،الاتقان،ج۱،ص۱۰۱)

وکان القرآنُ فیہا مُنْتَشِراً فَجَمَعَہا جامعٌ و رَبَطَہَا بخیطٍ۔ (الاتقان ۱/۸۳)

(ترجمہ:) اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں قرآن مجید کی مکمل یاد داشتوں کا جو ذخیرہ تھا) اس میں (قرآنی سورتیں) الگ الگ لکھی ہوئی تھیں؛ پس اس کو (حضرت ابوبکر کے حکم سے) جمع کرنے والے (زید بن ثابت) نے ایک جگہ (ساری سورتوں کو) جمع کر دیا، اور ایک دھاگا سے سب کی شیرازہ بندی کر دی۔

تدوین کا طریقِ کار

جمعِ قرآن کے سلسلہ میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہٗ کے طریقہ کار کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ زید خود حافظ قرآن تھے؛ لہٰذا وہ اپنی یادداشت سے پورا قرآن لکھ سکتے تھے ان کے علاوہ بھی سینکڑوں حفاظ اس وقت موجود تھے ان کی ایک جماعت بناکربھی قرآن کریم لکھا جاسکتا تھا؛ نیز قرآن کریم کے جو مکمل نسخہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھ لئے گئے تھے حضرت زید رضی اللہ عنہٗ ان سے بھی قرآن کریم نقل فرماسکتے تھے؛ لیکن انھوں نے احتیاط کے پیشِ نظر ان میں سے صرف کسی ایک طریقہ پر اکتفا نہیں فرمایا؛ بلکہ ان تمام ذرائع سے بیک وقت کام لیکر اس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفوں میں درج نہیں کی جب تک اس کے متواتر ہونے کی تحریری اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی جو آیات اپنی نگرانی میں لکھوائی تھیں وہ مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس محفوظ تھیں حضرت زید رضی اللہ عنہٗ نے انھیں یکجافرمایا تاکہ نیا نسخہ ان سے ہی نقل کیا جائے؛ چنانچہ یہ اعلان عام کردیا گیا کہ جس شخص کے پاس قرآن کریم کی کچھ بھی آیات لکھی ہوئی ہو ں وہ حضرت زید کے پاس لے آئے (فتح الباری:۹/۱۷، علوم القرآن:۱۸۳۔ الاتقان:۱۲۸)

اس کام کی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ خود نگرانی فرماتے رہے اور انھیں اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہے؛ چنانچہ روایات سے ثابت ہے کہ انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کو بھی بطورِ معاون کے حضرت زید کے ساتھ اس کام میں لگادیا تھا (الاتقان:۱/۱۲۹۔ فتح الباری:۹/۱۹) اور ساتھ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ اور زید رضی اللہ عنہٗ کو یہ حکم بھی فرمادیا تھا: “کہ مسجد کے دروازے کے پاس بیٹھ جاؤ؛ پھرجوشخص بھی تمہارے پاس قرآن کریم کے کسی جزء پر دوگواہ لے آئے اس کو صحیفوں میں لکھ لو” (الاتقان:۱/۱۲۸۔ فتح الباری:۹/۱۷)

الغرض جو جو شخص بھی حضرت زید کے پاس قرآن مجید کی آیتیں لے کر آتا حضرت زیدرضی اللہ عنہٗ چارطریقوں سے اس کی تصدیق کرتے تھے:

(۱)سب سے پہلے اپنے حافظہ سے اس کی تصدیق کرتے تھے۔

(۲)پھر جیسا کہ اوپر تحریر کیا جاچکا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کو بھی اس کام میں ان کا معاون بنادیا تھا اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اپنے حافظہ سے اس کی جانچ کرتے تھے۔

(۳)کوئی لکھی ہوئی آیت اس وقت تک قبول نہ کی جاتی تھی جب تک کہ دوقابل اعتبارگواہوں نے اس بات کی گواہی نہ دیدی ہو کہ یہ تحریر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی ہے، حافظ سیوطی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ بظاہر اس بات کی بھی گواہی لی جاتی تھی کہ یہ لکھی ہوئی آیتیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے سال آپ پر پیش کردی گئی تھی اور آپ نے اس بات کی تصدیق فرمادی تھی کہ یہ ان حروفِ سبعہ کے مطاق ہے جن پر قرآن کریم نازل ہوا ہے (الاتقان:۱/۱۲۸،۱۲۹) علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی اس بات کی تائید متعدد روایات سے بھی ہوتی ہے

(الاتقان:۱/۱۱۰)

(۴)اس کے بعد ان لکھی ہوئی آیتوں کا ان مجموعوں کے ساتھ مقابلہ کیا جاتا تھا، جو مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم نے تیار کررکھے تھے، امام ابوشامہ فرماتے ہیں: “کہ اس طریقِ کار کا مقصد یہ تھا کہ قرآن کریم کی کتابت میں زیادہ سے زیادہ احتیاط سے کام لیا جائے اور صرف حافظہ پر اکتفا کرنے کے بجائے بعینہ ان تحریرات سے نقل کیا جائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی تھی

(الاتقان:۱/۱۲۸)

جب اجتماعی تصدیق کے ساتھ ”قرآن مجید“ کی جمع و تدوین کا کام مکمل ہو گیا، تو صحابہٴ کرام نے آپس میں مشورہ کیا کہ: اس کو کیا نام دیا جائے؟ چناں چہ بعض صحابہٴ کرام نے اس کا نام ”سِفْر“ رکھا؛لیکن یہ نام یہودیوں کی مشابہت کی وجہ سے پاس نہیں ہوا، اخیر میں ” مصحف“ نام پر سارے صحابہٴ کرام کا اتفاق ہو گیا۔ (الاتقان ۱/۷۷)


عہدِصدیقی میں تیار کردہ نسخہ کی خصوصیات


دوسرے صحابہٴ کرام کے پاس بھی قرآن مجید لکھا ہوا تھا؛ لیکن جن خصوصیات کا حامل حضرت ابوبکر صدیق والا اجماعی نسخہ تھا، ان سے دوسرے سارے نسخے خالی تھے، اسی وجہ سے صحابہٴ کرام کے درمیان اُسے ”اُم“ کہا جاتا تھا،اس کی خصوصیات درج ذیل ہیں:

(۱)اس نسخہ میں آیاتِ قرآنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق مرتب تھیں؛ لیکن سورتیں مرتب نہ تھیں ہرسورت الگ الگ پاروں کی شکل میں لکھی ہوئی تھی۔(فتح الباری ۹/۲۲)

(۲)اس نسخہ میں ایسی کوئی آیت آنے نہیں دی گئی جس کی تلاوت منسوخ ہوچکی ہو۔

(۳)اس نسخہ کے تیار کرنے میں پوری باریک بینی سے تلاش وتفحص کیا گیا اور پوری احتیاط کے ساتھ اسے قلمبند کیا گیا۔

(۴)یہ نسخہ ساتوں حروف کی رعایت پر مشتمل تھا۔(مناہل العرفان ۱/۲۴۶، ۲۴۷)

( ۵)اس کو لکھوانے کا مقصد یہ تھا کہ ایک مرتب نسخہ تمام امت کی ”اجماعی تصدیق“ سے تیار ہو جائے؛ تاکہ ضرورت پڑنے پر اس کی طرف رجوع کیا جا سکے (علوم القرآن از مفتی محمد تقی عثمانی ص۱۸۶)

( ۶)اس نسخہ میں قرآن مجید کی تمام سورتوں کو ایک ہی تقطیع اور سائز پر لکھوا کر، ایک ہی جلد میں مجلد کرایا گیا تھا، اور یہ کام حکومت کی طر ف سے انجام دیا گیا، یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ ہو پایا تھا، (تدوین قرآن ص۴۰)

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ کی اس کوشش سے پہلے بعض صحابہ مثلاً حضرت علی رضی اللہ عنہٗ وغیرہ نے قرآن کریم کے جمع کرنے کی کوشش کی تھی جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے (فتح الباری:۹/۱۵، الاتقان:۱/۱۲۸) اور کسی حد تک اس میں کامیاب رہے؛ لیکن وہ ان کی اپنی انفرادی کوشش تھی، ان کا نسخہ ان خصوصیات سے خالی تھا جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ کے تیار کردہ نسخہ میں پائے جاتے تھے، اس کے علاوہ امت کی اجماعی تصدیق بھی اسے حاصل نہ تھی؛ اس کے برعکس حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ وہ پہلے صحابی ہیں جنھوں نے پورے امت کی اجماعی تصدیق سے ایک معیاری نسخہ”قرآن عظیم” کا تیار کروایا اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے قرآن کریم کے تعلق سے سب سے زیادہ اجر پانے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اللہ ابوبکر رضی اللہ عنہٗ پر رحم فرمائے؛ انھوں نے سب سے پہلے قرآن کو جمع فرمایا۔

(فتح الباری:۹/۱۵)

قرآن مجید کا یہ متفق علیہ نسخہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس رہا، جب ان وفات ہو گئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ رہا، جب ان کی بھی وفات ہو گئی تو (وصیت کے مطابق) آپ کی بیٹی ام الموٴمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رکھا رہا (صحیح بخاری۲/۷۴۶) حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس سے ہی منگوا کر نقول تیار کرائے تھے۔

(صحیح بخاری، فضائل القرآن، باب جمع القرآن:۲/۷۴۶، رقم:۴۹۸۷)