عہدعثمان ؓ  میں جمع قرآن اور اسکی نوعیت

جس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ جمعِ قرآن ہے، اسی طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ پوری امت کو قرآن مجید کے اس متفق علیہ نسخہ پر جمع کرنا ہے جو ”عہدِ صدیقی“ میں تیار کیا گیا تھا،اس کی تفصیل یہ ہے کہ شروع میں آیات کے مضمون و معنی کی حفاظت کرتے ہوئے الفاظ میں ادنی تبدیلی کے ساتھ پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی، (مناہل العرفان) جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور اسلام کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا، تو جن لوگوں نے مذکوہ بالا رعایتوں کی بنیاد پر اپنے اپنے قبائلی اور انفرادی لہجوں یا مختلف متواتر تلفظ کے لحاظ سے قرآن مجید کے مختلف نسخے لکھے تھے، انکے درمیان شدید اختلاف رونما ہو گیا؛ حتی کہ ایک دوسرے کی تکفیر کی جانے لگی،کافی غوروخوض کے بعد تمام صحابہ کرامؓ اس بات پرمتفق ہوگئے کہ سبعة أحرف کی رعایت کرتے ہوئے کچھ مصاحف تیار کئے جائیں اور ہر علاقہ کی طرف ایک مصحف کا نسخہ روانہ کردیا جائے تاکہ وہ اختلاف اور جھگڑے کے وقت اس کی طرف رجوع کرسکیں اور ان مصاحف کے علاوہ باقی تمام صحیفے ختم کردیے جائیں ۔ یہی وہ قابل اعتماد صورت تھی جس سے مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد پیدا کیا اور اختلاف کو جڑ سے اکھیڑا جاسکتا تھا۔ (تفصیل کے لے دیکھئے: تدوینِ قرآن ۴۴، ۵۴، تحفة الالمعی ۷/۹۴،۹۵، مناہل العرفان وغیرہ)

پس منظر اور اختلاف کی نوعیت-

حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کے دورِ خلافت میں اسلامی سرحدیں دور دور تک پھیل چکی تھیں اور اسلام حدودِ عرب سے نکل کر روم وفارس اور افریقہ کے “بربری” قبائل تک پہنچ چکا تھا، ہرنئے علاقہ کے لوگ جب مسلمان ہوتے تھے تو اس علاقہ کے سب سے مشہور قاری کی قرأت کے مطابق قرآن پڑھنا سیکھتے تھے، مثلاً شام کے رہنے والے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہٗ کی قرآت کے مطابق قرآن پڑھتے تھے، کوفہ والے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہٗ کی قرأت کے مطابق قرآن پڑھتے تھے؛ اسی طرح بعض علاقہ والے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہٗ کی قرأت کے مطابق قرآن پڑھتے تھے اور ان حضرات کے درمیان حروف کی ادائیگی اور قرأت کے طریقوں میں اختلاف پایا جاتا تھا؛ یہاں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ عرب کی سہولت وآسانی کے لیے سات حروف (سات حروف کے متعلق تفصیل جاننے کے لیے دیکھئے “علوم القرآن”:۹۷) پر قرآن نازل فرمایا؛ تاکہ مختلف لب ولہجوں میں قرآن کا پڑھنا ان کے لیے آسان ہوجائے اور صحابہ کرام چونکہ اس حقیقت سے واقف ہوچکے تھے اس لیے ان کے درمیان قرأتوں میں اختلاف ہونے کے باوجود وہ آپس میں ایک دوسرے کا ادب واحترام کرتے تھے؛ لیکن جو لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہورہے تھے وہ اس حقیقت سے واقف نہیں تھے اور ان کے لیے ساتوں حروف کو مکمل طور سے جاننا آسان بھی نہ تھا، کہ اختلاف ہونے کی صورت میں اس کے ذریعہ فیصلہ کرسکیں، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ آپس میں ملتے تھے اور آپس میں قرأتوں کے درمیان اختلاف دیکھتے تھے تو ایک دوسرے کی تغلیط کرتے تھے اور بسااوقات انکار تک نوبت آجاتی تھی(مناہل العرفان:۱۸۴)

ان حالات میں اس بات کا خدشہ تھا کہ لوگ قرآن مجید کی متواتر قرارتوں کو غلط قرار دینے کی سنگین غلطی میں مبتلا ہو جائیں گے۔دوسرے ،حضرت زید بن ثابتؓ کے لکھے ہوئے نسخہ کے سواپورے عالم اسلام میں کوئی نسخہ نہ تھا جو پوری امت کے لیے حجت بن سکے۔اس نسخہ کے علاوہ باقی نسخے صحابہ کرامؓ کے ذاتی نسخے تھے۔ان میں سات حروف کو یکجا کرنے کا کوئی اہتمام نہ تھا۔ہر کسی نے اپنی اپنی قرارت کے مطابق اپنااپنا نسخہ تحر یر کررکھا تھا۔اس طرح کے جھگڑوں کے تصفیہ کے لیے کوئی قابلِ اعتماد صورت یہی ہوسکتی تھی کہ ایسے نسخے عالم اسلام میں پھیلادئے جائیں جن میں ساتوں حروف جمع ہوں اورانہی کو دیکھ کہ یہ فیصلہ کیا جائے کہ کون سی قرارت صحیح اور کون سی غلط ہے۔ حضرت عثمانؓ نے یہی کار نامہ سر انجام دیا۔‘‘ (علوم القرآن ، تقی عثمانی صفحہ 178)

قرات کے اختلاف کے علاوہ قرآن کے متداول نسخوں میں قرآن کے اصل الفاظ اور ان کے ساتھ آسانی کے لیے لکھی گئی تشریح و تاویل ایک دوسرے میں خلط ملط ہونے لگے تھے۔بعد میں آنے والے بعض لوگوں نے غیر قرآن کو غلطی سے قرآن سمجھ لیاتھا۔ اس وقت ضرورت تھی کہ قرآن کے متفق علیہ نسخہ کو عام کیاجائے،تاکہ لوگوں کے اِختلافات اور ان کی غلط فہمیاں دور ہوں، قرآن ، غیر قرآن سے ممتاز ہوجائے اور لوگوں کو نصِّ قرآن کا یقینی علم حاصل ہوجائے۔ اگر کوئی عبارت قرآن کے متفق علیہ نسخہ کےنص سےمختلف ہوتو قطعی طور پر اس کے قران نہ ہونے کافیصلہ کیاجاسکے۔ قرآن کا متفق علیہ نسخہ تیار ہوجانے کے بعد اس کے علاوہ کسی مصحف کےباقی رہنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ اسی لیے حضرت عثمانؓ نے بقیہ تمام نسخوں کوجلائے جانے کاحکم دے دیا، تاکہ آئندہ تمام اِختلافات کا خاتمہ ہوجائے اور قرآن ہر طرح کے التباس سے محفوظ ہوجائے۔ ( کتاب من قضایا القرآن ص77-79)

اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کی خلافت کے زمانہ میں (مدینہ منورّہ میں) ایک معلم ایک قرأت کے مطابق قرآن پڑھتا تھا اور دوسرا معلم دوسری قرأت کے مطابق، جب بچے آپس میں ملتے تھے تو قرأت میں ایک دوسرے سے اختلاف کرتے تھے اور رفتہ رفتہ اختلاف معلمین تک پہنچ جاتا تھا؛ پھران میں بھی اختلاف رونما ہوکر بسااوقات ایک دوسرے کی تکفیر تک نوبت پہنچ جاتی تھی، جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر پہنچی تو آپ رضی اللہ عنہٗ نے خطبہ دیا اور فرمایا: “تم میرے پاس ہوتے ہوئے اس طرح اختلاف کررہے ہو تو جو لوگ مجھ سے دور شہروں میں ہوں گے وہ تم سے زیادہ اختلاف کریں گے”۔

(فتح الباری:۹//۲۲۔ الاتقان:۱/۱۳۱)

حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کا یہ خیال بالکل سچ نکلا جس کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہٗ بن مالک سے اس طرح منقول ہے: کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہٗ جو اس وقت اہلِ “عراق” کے ساتھ ملکِ “شام” میں “آرمینیۃ” اور “آزربائیجان” کے محاذ پر برسرِپیکار تھے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کے پاس آئے، ان کو لوگوں کے اختلافِ قرأت سے بہت تشویش تھی، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہٗ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ سے عرض کیا: اے امیرالمؤمنین! قبل اس کے کہ یہ امت یہودونصاریٰ کی طرح اللہ تعالیٰ کی کتاب کے بارے میں اختلافات کی شکار ہوجائے اس کو سنبھال لیجئے۔

(صحیح بخاری۔ فضائل القرآن، باب جمع القرآن:۲۰/۷۴۶۔ رقم:۴۹۸۷)

اور فرمایا میں “آرمینیۃ” کے محاذ پر برسرپیکار تھا وہاں میں نے دیکھا کہ شام والے ابی بن کعب کی قرأت پر قرآن پڑھتے ہیں، جس کو عراق والوں نے نہیں سنا اور عراق والے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہٗ کی قرأت کے مطابق قرآن پڑھتے ہیں جس کو شام والوں نے نہیں سنا؛ پھر یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کی تکفیر کرنے لگتے ہیں۔

(فتح الباری:۹/۲۱)

حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ پہلے سے اس مسئلہ میں فکرمند تھے، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہٗ کے واقعہ نے انھیں اور زیادہ سوچنے پر مجبور کردیا؛ انھوں نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جمع فرمایا اور اس بارے میں ان سے مشورہ کیا اور فرمایا:”مجھے یہ خبر پہونچی ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ میری قرأت تمہاری قرأت سے بہتر ہے اور یہ بات کفر تک پہونچ سکتی ہے” صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا: میری رائے ہے کہ ہم لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کردیں؛ تاکہ ان کے درمیان اختلاف نہ ہو، صحابہ کرام رضی اللہ عنہٗ نے اس رائے کی تحسین فرماکر اس کی تائید فرمائی۔

(الاتقان:۱/۱۳۰، فتح الباری:۹/۲۲)

اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہٗ کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ صحیفے (جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ کے حکم سے تیار کئے گئے) جو آپ کے پاس موجود ہے، ہمارے پاس بھیج دیں، ہم اس کی نقل کرواکر آپ کو واپس کردیں گے، تو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہٗ نے وہ صحیفے حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کے پاس بھیج دیئے اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے اس اہم کام کی تکمیل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جن کے بنیادی طور پر چار ارکان تھے:

(۱)حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہٗ (۲)عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ (۳)سعید بن العاص رضی اللہ عنہٗ (۴)عبدالرحمن رضی اللہ عنہٗ بن حارث بن ہشام، حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے ان کو اس کام پر مامور فرمایا کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ کے صحیفوں سے قرآن مجید نقل کروا کر ایسے مصاحف تیار کرے جو سورتوں کے اعتبار سے مرتب ہو۔

(صحیح بخاری، فضائل القرآن، باب جمع القرآن:۲/۷۴۶۔ رقم:۴۹۸۷)

ابتداء میں تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے چار ہی حضرات کو اس کام کے لیے مامور کیا تھا؛ پھر بعد میں ضرورت پڑنے پر مزید آٹھ حضرات کو بطورِ معاون ان کے ساتھ کردیاجن میں سے بعضوں کے نام یہ ہیں: “مالک بن ابی عامر رضی اللہ عنہٗ، کثیر بن افلح رضی اللہ عنہٗ، ابی بن کعب رضی اللہ عنہٗ، انس بن مالک رضی اللہ عنہٗ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ”۔

(فتح الباری:۹/۲۲،۲۳۔ اتقان:۱/۱۳)


کام کی نوعیت اور طریقِ کار


1۔حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ کے زمانہ میں جن صحیفوں میں قرآن جمع کیا گیا تھا وہ سورتوں کے اعتبار سے مرتب نہ تھا؛ بلکہ ہرسورت علیحدہ صحیفہ میں لکھی گئی تھی، حضرت عثمان کے دور میں ان حضرات نے پورے قرآن کو سورتوں کے اعتبار سے مرتب کردیا اور ان سب کو ایک مصحف میں جمع کردیا۔

2۔اب تک قرآن کریم کا صرف ایک ہی نسخہ تھا، جسے پوری امت کی اجتماعی تصدیق حاصل تھی، ان حضرات نے اس نئے مرتب مصحف کے ایک سے زائد نقلیں تیار کیں،حضرت عثمانؓ نے جو مصاحف تیار کروا کر مختلف علاقوں میں بھیجے تھے، اُن کی تعداد کے متعلق علما کے متعدد اقوا ل ہیں ۔ جن میں صحیح ترین اور قرین قیاس قول یہ ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے چھ مصاحف تیار کروائے تھے: بصری مصحف، کوفی مصحف، شامی مصحف، مکی مصحف، ایک مدنی مصحف جو عام اہل مدینہ کے لئے تھا اور دوسرا مدنی مصحف جو حضرت عثمان ؓ نے اپنے پاس رکھا تھا جو ‘مصحف ِامام ‘کے نام سے موسوم ہے۔اس نام کی وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے سب سے پہلے یہی مصحف تیارکروایا تھا اور پھر اسی کو سامنے رکھ کر مصاحف کی مزید نقلیں تیار کی گئیں ۔ اس اعتبار سے مصاحف عثمانیہ میں سے ہر مصحف کوبھی ‘مصحف ِامام’ کہا جاسکتا ہے کہ جہاں وہ مصحف بھیجا گیا، وہاں کے لوگوں نے اس کی اقتدا کی تھی۔

(فتح الباری:۹/۲۵۔ علوم القرآن:۱۹)

مزید حضرت عثمان ؓ کا مقصد حضرت ابوبکرؓ کی طرح صرف قرآن کریم کو دو گتوں کے درمیان جمع کرنا نہیں تھا،بلکہ مسلمانوں کو ان تمام قراء ات پر جمع کرنا تھاجو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اور معروف تھیں ۔ اور مقصد ایسی تمام قراء ات کو خارج کرنا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اور معروف نہیں تھیں ۔ ایک ایسا مصحف اُمت کے لئے پیش کرنا تھاجس میں کوئی کمی بیشی، نہ تقدیم و تاخیر اور نہ کوئی ایسی قراء ت یا آ یت شامل ہونے پائے جس کی تلاوت منسوخ ہو چکی تھی۔ اور اس انداز سے لکھا جائے کہ اس کے رسم الخط میں تمام قراء ات محفوظ ہو جائیں ۔تاکہ بعد میں کسی خرابی یا شبہات کے راہ پانے کا امکان ختم ہو جائے ۔(الإتقان في علوم القرآن:1؍69)

3۔اس کے لیے قرآن کریم کو اس انداز سے لکھا گیا کہ اس کے رسم الخط میں تمام متواتر قرأتیں سماجائیں، قرآن کریم کے اندر کچھ کلمات تو وہ ہیں کہ اگر نقطے اور حرکات نہ لگائی جائیں تو تمام متواتر قرأتیں اس میں سماجائے، مثلاً: “اِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌم بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا” (الحجرات:۶) میں ایک قرأۃ “فَتَبَیَّنُوْٓا” ہے اور دوسری قرأت “فَتَسْبَتُوْٓا” ہے، اس طرح ‘تتلو’ اور ‘تبلو’ میں نقطوں اور حرکات سے خالی کرنے کی صورت میں دونوں قرأتیں اس میں سماگئیں؛ ۔ بعض مواقع پر ایسا ممکن نہ ہوسکا تھا، مختلف قراءتیں ایک رسم الخط کے تحت نہ آسکیں تو بعض مصاحف میں ایک قراءت لکھی گئی اور بعض دیگر مصاحف میں دوسری قراءت ، مثلاً اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد “وَوَصّٰی بِھَآاِبْرٰھٖمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوْبُ” (سورۃ البقرۃ:۱۳۲) میں”وَصّٰیَ” ایک قرأت ہے اور “اَوْصَی”دوسری قرأت ہے، یہ دونوں کسی بھی صورت میں ایک کلمہ میں سما نہیں سکتے اس لیے اس جماعت نے یہ کیا کہ ایک قرأت کو ایک مصحف میں اور دوسری قرأت کو دوسرے مصحف میں نقل کردیا؛ تاکہ تمام متواتر قرأتیں ان مصاحف میں سماجائیں۔

(مناہل العرفان:۱۸۵،۱۸۶)

4۔اس کام کی انجام دہی کے لیے ان حضرات نے بنیادی طور پر اسی صحیفہ کو اپنے پیشِ نظر رکھا جو عہد صدیقی میں تیار کیا گیا تھا، اس کے علاوہ مزید احتیاط کے پیشِ نظر انھوں نے وہی طریقِ کار اختیار فرمایا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ کے زمانہ میں اختیار کیا گیا تھا؛ چنانچہ وہ تحریریں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی تھی اور جن پر آپ کی تصدیق ثبت تھی جو مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس بکھری ہوی تھی ان سب کو دوبارہ طلب کیا گیا اور ان صحیفوں کا ان تحریروں کے ساتھ مقابلہ کرکے نئے مصاحف تیار کئے گئے، اس مرتبہ سورۂ احزاب کی آیت “مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَاعَاھَدُوْا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَہُ وَمِنْھُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَابَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاo” (سورۂ احزاب:۲۳) تحریری شکل میں سوائے حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہٗ کے کسی اور صحابی رضی اللہ عنہٗ کے پاس نہیں ملی اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ آیت صرف حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہٗ ہی کو معلوم تھی ان کے علاوہ کسی اور کو اس کے آیت ہونے کا علم نہ تھا یاکسی کو یاد نہ تھی یاتحریری شکل میں کسی کے پاس موجود نہ تھی؛ بلکہ صحیح بخاری (صحیح بخاری، فضائل القرآن، باب جمع القرآن:۲۰/۷۴۶۔ رقم:۴۹۸۷) کی روایت میں حضرت زید رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ مصحف لکھتے وقت سورۂ احزاب کی ایک آیت نہیں ملی جس کو میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھتے ہوئے سنا تھا؛ پھرہم نے اس کی تلاش شروع کی تو وہ حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہٗ کے پاس ملی، اس روایت سے معلوم ہوا کہ وہ آیت حضرت زید رضی اللہ عنہ کو بھی یاد تھی اور دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اور وہ آیت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ کے زمانہ میں لکھے گئے صحیفوں میں بھی موجود تھیں، اس لیے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہٗ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ سورۂ احزاب کی اس آیت کے سوا باقی تمام آیتیں جو حضور کے سامنے لکھی گئی تھی متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس ملی؛ لیکن سورۂ احزاب کی یہ آیت حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہٗ کے سوا کسی کے پاس نہیں ملی۔

(علوم القرآن:۱۹۲)

5۔ نسخ/لکھنے کے کام میں قریشی حضرات کو شامل کیا کہ وہ لسانِ قریش کے سب سے بڑے ماہرین بھی تھے اور نوجوان کاتبین تھے۔ کیوں کہ معیاری مصحفِ قرآن صرف قریشی زبان میں ہی ممکن تھا۔ غیرقریشی زبانوں کی کثرت کے سبب اتحاد ناممکن تھا۔

6۔ ان چار مرتبینِ کرام کا انتخاب بھی مشورے، سوچ بچار اور پوری چھان بین کے بعد کیا گیا تھا۔ اصحابِ رائے و علم سے مشورہ سے معلوم ہوا کہ لوگوں میں سب سے عظیم کاتب (من اکتب الناس) کاتبِ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے۔ لوگوں میں سب سے زیادہ فصحیح و اعرب (افصح/اعرب) حضرت سعید بن العاص اموی رضی اللہ عنہ تھے۔ ایک دوسرے روایت کے مطابق قرآنِ کریم کی عربیت حضرت سعدی بن العاص اموی رضی اللہ عنہ کی لسان پر قائم کی گئی کیوں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے لہجہ کے سب سے زیادہ قریب اور مشابہ تھے۔ (لانہ کان اشبہہم لہجۃً برسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)

7۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس مشورے و اجماع کے بعد فیصلہ فرمایا کہ حضرت سعید بن العاص اموی رضی اللہ عنہ املا کرائیں اور حضرت زید بن ثابت خزرجی رضی اللہ عنہ کتابت فرمائیں، ان دونوں نے کام کا آغاز کیا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کام کی تعیین بھی کر دی تھی۔

8۔ لیکن کتابتِ قرآن مجید کا کام کافی دقت طلب اور مشکل تھا۔ لہٰذا دوسروں کی امداد و اعانت کی ضرورت پڑی، لہٰذا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حکم اور صحابہ کے مشورے اور اجماع سے حضرات عبداللہ بن زبیر اور عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہما کا نام بڑھایا گیا۔

9۔ روایات کے مطابق حضرت ابی بن کعب خزرجی رضی اللہ عنہ کو بھی املاء کے کام میں شامل کیا گیا اور بعض دوسرے صحابہ کا اضافہ بھی ممکن ہے کیوں کہ مصاحف کی تعداد کے مطابق ان کی تعداد ہونی ضروری تھی۔ بلکہ ایک ہی مصحف کی کتابت کے لیے کئی کاتبوں کی ضرورت تھی، خواہ املا کرانے والے دو ہی حضرات ہوں۔ املا یا کتابت میں حضرت ابی بن کعب خزرجی مدنی رضی اللہ عنہ کی شمولیت بھی معنی خیز ہے۔ وہ غیر قریشی ہونے کے باوجود حضرت زید کی مانند کاتبِ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور کاتبِ وحی تھے اور ان کا انتخاب اس بنا پر ہوا تھا۔

10۔ بعض صحابہ کو بعض روایات کے مطابق املا و کتابتِ قرآن مجید کا کام شامل نہ کیے جانے پر شدید قلق ہوا، ان میں سب سے اہم گرامی شخصیت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تھ۔ ان کو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ جیسے نوجوان کے ترجیح دیے جانے پر شکوہ تھا۔ کیونکہ وہ مردِ بزرگ اور معلمِ قرآن کبیر تھے۔ لیکن وہ ہذلی تھے، اگرچہ مدتوں سے مکہ و مدینہ کے باشندہ تھے، قبیلہ ہذیل کا لہجہ و قراءت اور تلفظ مختلف تھا اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہذلی حضرات اپنے تلفظ پر قابو نہیں پا سکتے تھے۔بعض مستشرقین نے اس بنیاد پر یہ اعتراض گھڑا کہ ابن مسعود مصحف عثمانی سے متفق نا تھے، حالانکہ یہاں واضح ہے کہ انہیں یہ اعتراض نسخہ پر نہیں بلکہ حضرت زید کو ان پر ترجیح دیے جانے کی بنیاد پر تھا۔

11۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور بعض افاضلِ صحابہ کو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اعتراضات ناپسند ہوئے اور بجا طور سے ناپسندیدہ ٹھہرے، کیونکہ اول تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کوفہ میں تھے اور تدوینِ مصاحف کا کام مدینہ میں ہوا، مگر اس سے بڑی وجہ یہ تھی کہ صحفِ صدیقی کے کاتب بھی تو حضرت زید بن ثابت خزرجی رضی اللہ عنہ ہی رہے تھے جو عہدِ صدیقی میں تو اور بھی نوجوان تھے۔ ان کی وجہِ انتخاب ان کا کاتبِ نبوی ہونا تھا۔

حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں ا س نقطہ نگاہ کی وضاحت کی ہے حضرت عثمانؓ نے یہ کام مدینہ طیبہ میں کیا تھا۔ ابن مسعودؓ اس وقت کوفہ میں تھے۔ حضرت عثمانؓ اس کام کو مؤخر نہیں کرنا چاہتے تھے حضرت زید ابن ثابتؓ ، حضرت ابو بکر صدیقؓ کے دور میں تدوین قرآن مجید کاکام کرچکے تھے، لہٰذا انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ یہ مرحلہ بھی انہی کے ہاتھوں تکمیل کو پہنچے‘‘۔ ۵۵

مزید حضرت عثمان کو اس وقت جو مسئلہ درپیش تھا وہ فوری نوعیت کا مسئلہ تھا ۔ عمومی مقام و مرتبہ کا مسئلہ نہ تھا، یہ بات اپنی جگہ کہ حضرت زید جنکو ترجیح دی گئی د وہ ان مشہور صحابہ میں سے تھے جو قرآنِ کریم کے پختہ حافظ، ماہر قاری، اس کے حروف کے شناور اور اعراب القرآن و لغات القرآن کے جید عالم تھے اور وہ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی لکھنے پر مامور رہے۔ نیز وہ جبریل ؑ امین کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دور ِقرآنی میں بھی موجود تھے۔ اس کے علاوہ وہ نہایت عقل مند اور ذہین ، زہدو ورع کے پیکر، مجسمۂ دین و عدالت، قرآن کے امین اور اپنے دین و اخلاق کے حوالے سے بے عیب تھے۔ اس طرح ان میں بیک وقت ایسی خوبیاں اور خصوصیات جمع ہوگئیں تھیں جو بعض کبار صحابہ میں بھی یکجا نہیں تھیں ۔یہ وجہ تھی جس کی بنیاد پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اس عظیم کام کے لئے ان کا انتخاب کیا۔

ٍ12۔ خلیفہ وقت امیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ یا ان کے دوسرے اصحابِ شوریٰ اور اربابِ علم و تقوٰی نے ان مصاحفِ عثمانی کا غائر مطالعہ کیا ۔ ان کے اتفاق و تصدیق کے بغیر استناد کی مہر نہیں لگائی جا سکتی تھی۔ روایات میں واضح طور سے ذکر آتا ہے کہ صحابہ کرام کے اجماع سے یہ کام ہوا، لہٰذا اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی نظر سے تمام مصاحف گزرے۔

13۔قرآنِ کریم کو نقل کرنے کا زیادہ تر انحصارہمیشہ تلقی اور سماع پر رہا ہے کہ خلف نے سلف سے، ثقہ نے ثقہ سے اور امام نے امام سے سن کرآگے بیان کردیا یہاں تک کہ یہ سلسلہ دورِ رسالتؓ تک جا پہنچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عثمانؓ نے مصاحف کی اشاعت اور اُنہیں مختلف علاقوں میں بھیجنے کا پروگرام بنایا تو اُنہوں نے صرف مصاحف بھیجنے پر اکتفا نہیں کیا کہ صرف وہی تنہا مرجع بن کر رہ جائیں بلکہ ہر مصحف کے ساتھ اسے پڑھانے کے لئے حفظ وعدالت میں ثقہ و ماہر ِفن قاری بھی بھیجا جس کی قراء ت غالب طور پر اُس مصحف کے مطابق تھی۔ چنانچہ حضرت عثمان ؓنے زید بن ثابت ؓکو مدنی مصحف پڑھانے کا حکم دیا ۔ عبداللہ بن سائب کو مکی مصحف کے ساتھ بھیجا۔ مغیرہ بن شہابؓ کو شامی مصحف کے ساتھ بھیجا ، ابوعبدالرحمن سلمی کو کوفی مصحف کے ساتھ بھیجا اور عامر بن عبدالقیسؓ کو بصری مصحف کے ساتھ روانہ کیا۔

قرآن کی ترتیب

 :

“صحفِ قرآنی” جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میں مرتب کیے گئے تھے، چونکہ الگ الگ اوراق تھے، لہٰذا ان میں سورتیں ترتیب سے نہیں تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب انہیں مصحف کی شکل دی تو موجودہ ترتیب لگائی گئی ۔

سورتوں کی ترتیب کے متعلق قاضی باقلانیؒ کا قول حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے نقل کیا ہے کہ سورتوں کی ترتیب نہ تو تلاوت میں واجب ہے، نہ نماز میں اور نہ ہی درس و تعلیم میں۔۔ ترتیب کے لحاظ سے صحابہ کے مصاحف میں جو اختلاف اور فرق تھا دوسری بڑی وجوہات مثلا وہ ترتیب نزولی کے لحاظ سے ساتھ ساتھ لکھ گئے تھے’ کے علاوہ ایک یہ بھی تھا ۔

ملا علی قاریؒ نے اس موضوع پر بہت عمدہ بحث کی ہے۔ اسے ہم یہاں اپنے الفاظ میں پیش کرتے ہیں: فرماتے ہیں ہیں کہ قرآن مجید، جتنا جس مقدار میں اور جس طریقہ سے موجود ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جو تواتر سے ثابت ہے۔ اس پر اہل علم و تحقیق کا اجماع ہے۔ اس میں جو شخص کمی بیشی کرے گا وہ کافر قرار پائے گا۔ اس پر بھی اتفاق ہے کہ قرآن مجید کی آیات کی ترتیب توقیفی یعنی من جانب اللہ ہے۔ اس کا (ایک) ثبوت یہ ہے کہ آپ پر جو آخری آیت نازل ہوئی وہ ہے: وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّه۔ ۔ ۔ (البقرۃ:281) آپ سے جبریلؒ نے کہا کہ اسے سورۃ بقرۃ میں سود سے متعلق آیات اور آیتِ مداینہ (قرض کے احکام سے متعلق آیت) کے درمیان رکھا جائے۔ چانچہ یہ اسی جگہ ہے۔ اسی لیے کسی سورت کی آیات کی ترتیب الٹ دینا حرام ہے۔

جہاں تک سورتوں کی ترتیب کا سوال ہے اس میں اختلاف ہے۔ اس لیے (حرمت کی بات تو نہیں کی جا سکتی البتہ یہ کہا جائے گا کہ) بغیر کسی عذر کے اس کی ترتیب بدل دینا مکروہ ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے نماز (تہجد) میں سورۃ آل عمران سے پہلے سورۃ نساء پڑھی تھی۔ ممکن ہے آپ نے بیانِ جواز کے لیے ایسا کیا ہو۔ یہ بھول کر بھی ہو سکتا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ سورتوں کی ترتیب بھی توقیفی ہے، گو کہ صحابہ کرام کے مصاحف اپنی ترتیب کے لحاظ سے مختلف تھے۔ صحابہ کرام میں سے بعض نے قرآن کو ترتیبِ نزول کے لحاظ سے مرتب کیا تھا، جیسے پہلے اقراء، پھر مدثر، اس کے بعد سورۃ نون، مزمل، تبت اور تکویر، اسی طرح جس ترتیب سے مکی اور مدنی سورتیں نازل ہوئیں۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے جمعِ قرآن کی بنیاد اس ترتیب پر تھی جس ترتیب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دوسری مرتبہ وفات سے پہلے حضرت جبریل کو قرآن سنایا تھا اور حضرت جبریل نے آپ کو سنایا تھا۔ اس بات کی دلیل کہ سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے، یہ ہے کہ “حوامیم” (وہ سورتیں جو حٰم) سے شروع ہوتی ہیں) ایک ترتیب سے اور مسلسل ہیں۔ اسی طرح “طواسین” (وہ سورتیں جو طٰس سے شروع ہوتی ہیں) مسلسل ہیں لیکن مسبحات (جو سورتیں سبّح اور یسبّح سے شروع ہوتی ہیں) ان میں تسلسل نہیں ہے۔ درمیان میں دوسری سورتیں ہیں۔ اسی طرح مکی اور مدنی سورتیں الگ الگ نہیں، بلکہ ملی جلی ہیں۔ یہ تمام امور اس بات کا ثبوت ہیں کہ سورتوں کی ترتیب بھی توقیفی ہے۔

( ملا علی قاری، مرقاۃ المصابیح، شرح مشکٰوۃ المصابیح: 734/4 ۔ دار الفکر بیروت)

امت میں پائے جانے والے دیگر مصاحف کا حال :


قرآن کا ہر لحاظ سے معیاری مستند اور متفقہ نسخہ تیار ہوجانے کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے صحابہٴ کرام اور تابعین عظام کے پاس موجود سارے نسخوں کو نذرِ آتش کرنے کا حکم نافذ فرما دیا (فتح الباری ۹/۱۳) ۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس کارِ عظیم پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا تھا اور مستشرقین اور اسلام دشمن عناصر آج بھی اپنے اپنے اعتراضات و الزامات سے فارغ نہیں ہو سکے۔ گزشتہ تفاصیل سے بھی یہ واضح ہے کہ دیگر مصاحف کے بارے میں حضرت عثمان کی حکمت مومنانہ تھی اور حکیمانہ بھی۔

گزشتہ تفصیل سے یہ واضح ہے کہ مصاحف میں متفقہ قرات پر ناسمجھی کی وجہ سے اختلاف، شاذ قرآت کے اختلافات، تفاسیر کا الفاظ کے ساتھ لکھاجانا بعد کی عوام کو اختلاف اور اشکالات میں مبتلا کررہا تھا ، جس کے نتیجے میں گروہ بندیاں ہونے لگی تھیں اور بات تکفیر تک جا پہونچی تھی۔ صحابہ کرام کو فکر ہو چلی تھی کہ مسلمان بھی یہود و نصارٰی کی مانند کتاب الٰہی کو لفظی و معنوی تحریفات تک نہ پہونچا دیں۔ اختلافات اور غلطیوں سے پاک اور متفقہ اور مستند مصاحف تیار ہوجانے کے بعداختلاف کی جڑ کاٹنے کی ایک یہی صورت تھی کہ باقی تمام مصاحف چاہے کسی صحابی کے بھی کیوں نا ہوں’ کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔

مصاحف عثمانی ک ان زیادات سے پاک تھے جن کو توضیح وتفسیر تفسیر مجمل یا اثبات مخدوف کے طور پر بڑھایا گیا تھا اور انفرادی مصاحف میں جو شاذ کلمات تھے ان کو بھی ان خارج کردیا گیا تھا ۔ مزید قرات کے اختلافات کو ختم کرنے کے لیے عثمانی مصاحف میں نقطے اور اعراب نہیں لگائے گئے تھے جس کا نتیجہ یہ ہواکہ ان میں تمام ثابت قراتیں سما گئیں ۔

اسی لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسی مقصدِ عظیم کی خاطر کہ کتاب الٰہی میں کسی اختلاف کی گنجائش نہ رہ جائے، ایک طرف تو سات مصاحف عثمانی تیار کرا کے تمام بلادِ اسلامی میں پھیلا دیے اور ان کو معیاری مصحف قرار دے کر صرف انہی کی نقول کرنا لازمی قرار دیا، دوسری طرف ایسے تمام نسخوں اور صحیفوں کو صفحہ ہستی سے نابود کر دیا جو اس اصل معیاری قرآن مجید کے نسخہ سے مختلف تھے، تاکہ امت اسلامی کتاب اللہ پر متحد و متفق رہے، اختلاف سے بچے اور ایک قرآن کی پابند رہے۔ یہ کارنامہ عظیم تھا جس نے وحدتِ کتابِ الٰہی کے ذریعہ وحدتِ امت اور اتحاد اسلامی کی راہ ہموار کی۔ یہی حکمت تھی کہ حضرت علی ؓنے فرمایاتھا:

لو کنت الوالي وقت عثمان لفعلتُ في المصاحف مثل الذي فعل عثمان

”اگر حضرت عثمانؓ کی جگہ پر میں حکمران ہوتا تو میں بھی وہی کچھ کرتا جو حضرت عثمانؓ نے کیا ہے۔”(تفسیر قرطبی: 1؍54)

قرآن کریم کے انفرادی نسخوں کےجلانے کا یہ اقدام حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ کے مشورے کے مطابق کیا تھا۔ تمام مصاحف قرآنی کے فنا ہونے کے بعد صرف مصحفِ عثمانی کی صورت میں قرآنِ مجید کا مستند ترین متن مقدس محفوظ ہو گیا تھا اور اس پر صحابہ کرام کا اجتماع و اجماع اور اتفاق تھا، حتی کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے صحابہ کرام کو بھی، جن کو اپنے ذاتی مصاحف کی تلفی کا شدید غم اور حضرت عثمان سے بہت شکوہ تھا(انکی اس کے ساتھ یادیں وابستہ تھیں ناکہ اس وجہ سے کہ ان میں مصاحف عثمانی سے ہٹ کر کوئی خاص بات تھی ، سورتوں کی ترتیب کا فرق جو ترتیب نزولی آیات کی وجہ سے تھا ‘ کے علاوہ اس میں کوئی فرق کسی صحیح روایت سے نہیں ملتا )، مصاحف عثمانی کی صورت میں اتحادِ امت اور وحدت قرآن کی حکمت سمجھ میں آ گئی تو ان کا شکوہ جاتا رہا اور وہ بھی متفق ہو گئے۔

ابن ابی داؤد نے حضرت علی ؓ سے صحیح سند سے بیان کیا ہے کہ اُنہوں نے فرمایا:

”حضرت عثمانؓ کے متعلق سواے بھلائی کی بات کے، کچھ نہ کہو۔ اللہ کی قسم !اُنہوں نے جو کچھ کیا، ہمارے مشورے سے کیا۔ اُنہوں نے ہم سے پوچھا تھا: ان قراء ات کے متعلق تم کیا کہتے ہو؟ کیونکہ مجھے اطلاعات مل رہی ہیں کہ کچھ لوگ ایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں کہ میری قراء ت تمہاری قراء ت سے زیادہ بہتر ہے، حالانکہ یہ بات کفر تک پہنچا سکتی ہے۔ ہم نے کہا: آپ کا کیا خیال ہے؟ فرمایا: میری رائے یہ ہے کہ ہم سب لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کر دیں تاکہ پھر کوئی افتراق اور اختلاف نہ ہو ۔ہم نے کہا :آپکی رائے بہت شاندار ہے۔”(فتح الباری:9؍18)

یہی اعتماد ان مصاحف کو تمام عالم اسلام میں ملا ، جن علاقوں میں یہ مصاحف بھیجے گئے تھے، وہاں کے باشندوں نے بھی ان مصاحف کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان مصاحف کو ان کے ہاں اعلیٰ مقام اور مقدس حیثیت حاصل ہوگئی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان مصاحف کی تدوین کسی فردِ واحد کی کارروائی نہیں ہے، بلکہ ان کی پشت پر قرآن کے اولین حفاظ، کاتبین وحی تمام اصحابِ رسولؐ کا اِجماع موجود ہے، جنہیں دربارِ رسالتؐ سے مدح و توصیف کا وہ پروانہ عطا ہوا ہے جس کے وہ واقعی مستحق تھے۔