عام اہل فن کی طرف سے سبعہ احرف بمعنی سبعہ لہجات پر بنیادی اعتراض یہ ہے کہ موجودہ قراء ات عشرہ میں لہجات کے علاوہ اور بھی کئی نوعیتوں کے اختلافات ہیں ۔ سبعہ اوجہ کے قائلین کے ہاں بھی ان دیگر اختلافات کوچھ حروف کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے، جبکہ لہجات ان کے صرف ایک حرف میں شامل ہیں ۔
اس اشکال کا بڑاسادہ جواب یہ ہے کہ نزول قراء ات کا اصل سبب تو عربی زبان میں لہجوں کا اختلاف تھا، لیکن دین وشریعت میں یہ اُسلوب عام ہے کہ ایک مشکل لوگوں کو در پیش ہوتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ جب اس کے حل کے لیے وحی بھیجتے ہیں تو اس مشکل کے ضمن میں بعض ایسی دیگر مشاکل بھی حل کردیتے ہیں جو لوگوں نے مانگی نہیں ہوتی اور اللہ کا اپنے بندوں سے یہ معاملہ احسان، فضل وکرم اور محبت کے قبیل سے ہوتا ہے۔
اس بارے میں تو سب متفق ہیں کہ نزول سبعہ احرف کا اصل پس منظر تولہجات کی مشکل تھی، لیکن جب لہجات اترے تو اس کے ضمن میں اللہ نے فہم قرآن کے سلسلہ میں کچھ تفسیری مشکلات کو بھی حل کردیا۔ اب لہجات کے علاوہ جو دیگر اختلافات ہیں وہ در اصل بلاغت کے متعدد اَسالیب ہیں اوریہ بات طے ہے کہ متعدد اَسالیب میں بات کو سمجھایا جائے تو مخاطب کو بات بہتر سمجھ آتی ہے۔ تو ہماری رائے کے مطابق (امام ابن جزری رحمہ اللہ وغیرہ کے استقراء میں لہجات کے علاوہ پیش کردہ ) دیگرچھ نوعیتوں کے اختلافات سات لہجات کے ضمن میں متفرق طور پر شامل ہیں ۔ بعض اہل فن نے ان چھ نوعیتوں کو بھی جب بلاغت کے متعدد اسالیب کے تناظر میں جمع کیا تو عملاً انہیں چھ کے بجائے سات قرار دیا ہے اوریہ ہم بات جانتے ہیں کہ ہر لغت لہجہ، مترادف کلمات اور متعدد اسالیب بلاغت کو شامل ہوتی ہے ، چنانچہ ہم نے سبعہ احرف کی تشریح میں بار بار لہجات یا لغات کے الفاظ اکٹھے بولے ہیں ،کیونکہ ہماری رائے میں سبعہ احرف سے بنیادی طور پر لہجات مراد ہیں ، البتہ ان کے ضمن میں لغات کے قبیل سے بلاغت کے متعدد اسالیب کا اختلاف بھی شامل ہے۔ اس لیے سبعہ احرف کی تشریح یا تو صرف لغات سے کرنی چاہیے اور لغات میں لہجات، مرادفات اور اسالیب بلاغت سب شامل ہوں گے یا لغات ولہجات کو باہمی مترادف کے طور پر بولنا چاہیے۔ رہے مرادفات جیسے حتّٰی، عتّٰی وغیرہ تو ان کے بارے میں اہل علم متفق ہیں کہ عرضۂ اخیرہ میں یہ سب منسوخ ہوگئے تھے۔ اس پس منظر میں سبعہ احرف کی تشریح جب ہم کرتے ہیں تو یوں کرتے ہیں :
یُرَادُ بہم سبعۃُ لہجاتٍ من لغاتِ العرب وسبعۃُ أوجہٍ من أسالیبِ البلاغۃ۔
شیخ القراء مولانا قاری طاہر رحیمی رحمہ اللہ نے اپنی گرانقدر تصنیف’دفاع قراء ات‘‘ کے صفحہ ۱۱۰ پر ہمارے مذکورہ موقف کے موافق رائے پیش فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ علم قراء ات کے اصولی اختلافات سات معروف قبائل عرب کے لہجات سے ماخوذ ہیں ، جبکہ وہ مخصوص کلمات جن میں بطور قاعدہ اختلاف نہیں یعنی قراء ات کے فرشی اختلافات، وہ سات متعدد اسالیب بلاغت سے ماخوذ ہیں ۔پھر قاری صاحب نے ان سات اسالیب بلاغت کی مکمل وضاحت بھی پیش فرمائی ہے۔
ایک بات بالکل واضح ہے کہ امام ابن جزری رحمہ اللہ وغیرہ کے ہاں ساتوں حروف بمعنی سبعہ اوجہ امام دانی رحمہ اللہ وغیرہ کے ہاں بھی مسلم ہے، فرق صرف یہ ہے کہ ابن جزری رحمہ اللہ وغیرہ سات لہجوں کو ایک حرف میں اور دانی رحمہ اللہ وغیرہ سات حرف مانتے ہیں ، پھر جزری رحمہ اللہ وغیرہ اَسالیب بلاغہ سے متعلق اختلافاتِ قراء ات کو چھ حروف کے طور پر اوردانی رحمہ اللہ وغیرہ سات لہجات کے ذیل میں شامل مانتے ہیں ۔ سبعہ اَحرف کے اندر اللہ کی طرف سے لہجات کااختلاف بھی اترا تھا اور اسالیبِ بلاغت کا بھی، فرق صرف اتنا ہے کہ بعض لہجات کو ایک حرف، باقی اختلافات کو چھ حروف بناتے ہیں اوربعض دیگر قراء ات کو سات لغات یا لہجات قرار دے کر اس کے ضمن میں اسالیب بلاغت کو بھی شامل کرتے ہیں ۔ اختلاف صرف اتنا ہے کہ تعبیر ہم کون سی کریں ۔
ہماری رائے میں امام دانی رحمہ اللہ وغیرہ کی رائے حدیثوں کے زیادہ قریب ہیں ، نیز متقدمین بالعموم اس رائے پر ہیں ، کیونکہ یہ مسئلہ کی اساس کے اعتبار سے زیادہ قرین از قیاس ہے۔ یہ سارا مسئلہ خلط قراء ات کی وجہ سے اصل میں الجھاؤ کا باعث بنا ہے اور جب یہ اختلاط نہیں ہوا تھا تو اس وقت یہ الجھاؤبھی نہیں تھا ۔
استفادہ تحریر :تعارُف علم قراء ات… اہم سوالات وجوابات
حافظ حمزہ مدنی