مصحف عبداللہ بن مسعودؓ ، سورۃ الفاتحہ اور معوذتین

عیسائی مشنریز کی طرف سے یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے جو اب انکے دیسی شاگرد ملحدین بھی کاپی کرتے ہیں کہ تین سورتیں سورہ فاتحہ اورالمعوذ تین( الفلق اور سورہ والناس) مصحف ِ ابن مسعودؓ میں نہ تھیں! اس اعتراض کا تحقیقی جائزہ پیش ہے ۔

سورہ فاتحہ:

الفاتحہ کا مطلب ھے الفتاح الکتاب! یعنی قرآن کا آغاز ۔ اسکی اہمیت اتنی ھے کہ اسکو کوئی مسلمان نظر نہیں کرسکتا ۔ یہ ہر نماز میں کئی دفعہ پڑھی جاتی ھے۔

ابن مسعودؓ ؓ بھی اسے قرآن کا حصہ سمجھتے تھے :

خود قرآن فاتحہ کے قرآن ہونے کی گواہی دیتا ہے :وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ۔ابن مسعودؓ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہاں سات دہرائی جانے والی آیات سے مراد سورت الفاتحہ ہے۔ ابن جریر الطبری ابن دریث ابن منظر اور ابن مرویہ کے حوالے سے امام سیوطی لکھتے ہیں :

” حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے ‘ وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي’ کے متعلق پوچھا گیا ۔ آپ نے فرمایا یہ فاتحہ الکتا ب ہے۔”( درمنثور 5/94، دارلفکر، بیروت)

اس روایت سے واضح ہے باقی مسلمانوں کی طرح حضرت ابن مسعودؓ ؓ بھی سورت الفاتحہ کو قرآن کا حصہ سمجھتے تھے ۔

پھر حضرت ابن مسعودؓ نے اسے اپنے مصحف میں کیوں نہیں لکھا ؟ اسکا جواب وہ خود دیتے ہیں :

امام ابوبکر الانباریؒ نے اپنی سندسے روایت کیا ہے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا گیا کہ آپ نے سورت الفاتحہ کو اپنے مصحف میں کیوں نہیں لکھا ؟ انہوں نے جواب دیا” اگرمیں سورۂ فاتحہ لکھتاتواسے ہرسورت کے ساتھ لکھتا ‘‘ امام ابوبکر ؒ فرماتے ہیں کہ اس کامطلب یہ ہے کہ نماز میں سورت سے پہلے سورۂ فاتحہ پڑھی جاتی ہے ، اس لئے میں نے اسے نہ لکھ کر اختصار سے کام لیا ، اورمسلمانوں کے حافظے پر اعتماد کیا(تفسیر القرطبیؒ ،ص ۴ااء۵اا، ج ا)

معلوم ہوا کہ اگر وہ کسی چیز کو اپنی مصحف میں نہیں لکھتے تو اس کا لازمی مطلب یہ نہیں کہ انکے نزدیک وہ قرآن کا حصہ بھی نہیں ۔

معوذ تین سورہ ۱۱۳ ۱۱۴ :

ابن مسعودؓ معوذتین کو بھی قرآن کا حصہ سمجھتے تھے ۔ اسکے ثبوت کے لیے چند نکات ملاحظہ فرمائیے:

1۔ قرآن کی حفاظت کا سب سے بڑا ذریعہ ہر دور میں حفظ رہا ہے ھے۔ مصحف ثانوی چیز رہی، اس کی تفصیل تدوین قرآن کے سلسلے میں بھی آچکی ۔ مزید قراء نے رسول ِ اللہ ﷺ تک اپنی سند کو ٹوٹنے سے محفوظ رکھا اور منقول قرات متواترہ ہی قرآن کی سب سے بڑی سند ہیں ۔

2۔ ہر متواتر قرات میں سورت الفاتحہ اور معوذتین موجود ہیں ۔ ان میں سے چار قرات کی سند حضرت ابن مسعودؓ رضی اللہ عنہ کے ذریعے ہی حضور ﷺ تک پہنچتی ہے۔ ابن جزری رحمہ اللہ کی کتاب ‘النشر فی قرات العشر ‘ سے تفصیل پیش ہے:

(ا)قرات عاصم! :اسکی قرات کا تسلسل رسول اللہ تک حضرت زربن حبیشؒ پھر عبداللہ بن مسعودؓ کے ذریعے سے پہنچتا ہے۔

یہی عاصم اور زر جو مسند احمد کی روایت کے راوی بھی ہیں (اسکا تذکرہ آگے آئے گا) جو یہ بتاتی ہے کہ ابن مسعودؓ دو سورتوں کو اپنے مصحف میں نہیں لکھتے تھے ‘ اس متواتر قرات کے بھی راوی ہیں جس میں وہ انہی دو سورتوں کی قرات ابن مسعودؓ کی سند سے نقل کرتے ہیں ۔(صفحہ 155، جلد 1)

(ب)قرات حمزہ: اس قرات کی سند بھی رسول اللہ تک ابن مسعودؓ رضی اللہ عنہ کے زریعے ہی پہنچتی ہے ۔(صفحہ 165)

(ج)قرات الکسائی: یہ بھی عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت کرتے ہیں ۔(صفحہ 172)

(د)قرات خلف: اسکا سلسلہ ابن مسعو رض سے جا ملتا ھے۔(صفحہ 185)

ان چاروں متواتر قراتوں میں معوذتین اور فاتحہ موجود ہیں ، ان سے واضح ہے کہ ابن مسعودؓ انہیں قرآن کا حصہ سمجھتے اور پڑھتے تھے ۔ اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ قرات عشرہ کی ساری اسانید ساری دنیا میں سب سے زیادہ قوی اور صحیح اسانید ہیں اور نسلاًبعد نسل تو اتر سے نقل ہوتی چلی آرہی ہیں (فیض الباری ‘ ص ۲۶۲ ج ا) اور اس پر بھی کہ ان چاروں قرات کی سند باقی سب قرات سے ذیادہ مضبوط ہے ۔ (دیکھیے فواتح الرحمت فی شرح مسلم التابوت ، جلد 1 ، صفحہ 12)

3۔ کنز العمال کی روایت ہے :” ابن مسعودؓ کہتے ہیں دو سورتیں ذیادہ پڑھا کرو اللہ تمہیں آخرت میں اونچا مقام دے گا۔ وہ معوذ تین ہیں(الفلق اور الناس)(کنزالعمال، حدیث 2743)

اس روایت میں معوذتین کے لیے دو سورتوں کا جو لفظ استعمال کیا ہے واضح کرتا ہے کہ ابن مسعودؓ انہیں کلام الہی اور قرآن سمجھتے تھے ۔

مخالف روایات کی حقیقت:

ہم اب ان مخالف روایات کا جائزہ لیتے ہیں یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ اصل میں کیا بیان کرتی ہیں اور انکی حقیقت کیا ہے۔

1۔حضرت عاصم اور حضرت زر سے روایات :

عاصم نے زر سے روایت کیا کہ انہوں نے ابئی کو کہا کہ ابن مسعودؓ نے مصحف میں معوذتین نہیں لکھی تھی ۔(مسند احمد ، حدیث نمبر 21186)

عبدہ اور عاصم نے زر سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے ابی کو کہا کہ تمہارے بھائی ابن مسعودؓ نے دو سورتوں(الفلق والناس) کو مصحف میں شامل نہیں کیا، ابی نے کوئی اعتراض نہیں کیا.(مسند احمد ،21189)

چند قابل غورنکات :

1.ان روایات میں کہا گیا ہے کہ ابن مسعودؓ نے اپنے مصحف میں دو سورتیں نہیں لکھیں ۔اور اوپر ہم نے سورہ فاتحہ کے مسئلے میں ہم نے یہ واضح کیا تھا کہ مصحف میں کسی سورت کو نہ لکھنے کا مطلب اسکے قرآن کا حصہ ہونے کا انکار نہیں ہوتا۔

2. ہم نے دیکھا کہ حضرت ابئی کو جب ابن مسعودؓ کے بارے میں یہ بات بتائی گئی کہ انہوں نے مصحف میں سورہ فاتحہ نہیں لکھا تو انہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا. جبکہ یہ اسلام کے لحاظ سے ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ ایک چھوٹی سی آیت تک کو رد کرنا بندے کو اسلام سے خارج کر دیتا ہے، حتی کہ آپ شرعی سزا کے حقدار بھی ٹہرائے جا سکتے ہیں. ایسا نا ممکن تھا کہ ابن مسعودؓ کی دو سورتوں کو نہ لکھنے والی بات پہ ابئی کوئی اعتراض نہ کرتے، اسکا مطلب ہے کہ انکو حقیقت معلوم تھی کہ ابن مسعودؓ نے معاذاللہ ان سورتوں نہ لکھنے کے باوجود انکو جھٹلانے کا ارتکاب نہیں کیا.

السیوطی ابو بکر الباقلانی کے حوالے سے لکھتے ہیں :

” ان کے حوالے سے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ دو سورتیں قرآن مجید کا حصہ نہیں ہیں، انہوں نے ان دو سورتوں کو اپنے مصحف میں محض لکھا نہیں، انکو قرآن کا حصہ ماننے سے انکار نہیں کیا، اس بات کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے مصحف میں محض رسول اللہ کے حکم سے لکھتے تھے ، اور ان دو سورتوں کے متعلق انہوں نے کوئی حکم نہیں سنا تھا”(ال اتقان 1/271)

4. اوپر کے تمام نکات پر غور کریں تو عاصم اور زر نے ابن مسعودؓ کی اتھارٹی سے باقی قرآن کی طرح سورہ فاتحہ اور معوذتین کی قرات نقل کی.

2۔عبدالرحمن بن یزید کی روایت :

عبدالرحمن بن یزید نقل کرتے ہیں کہ ابن مسعودؓ نے مصحف میں معوذتین اور فاتحہ یہ کہہ کر شامل نہیں کیا کہ وہ قرآن کا حصہ نہیں ہیں .(مسند احمد ، 21188)

یہی روایت طبرانی کی معجم الکبیر میں بھی موجود ہے.

1. یہ روایت ٹھیک نہیں کیونکہ اس کا راوی صرف ایک ہی شخص یعنی عبدالرحمن بن یزید خود ہیں. ایک اکیلے شخص کی بات متواتر قرات کے مقابلے میں کوئی معنی نہیں رکھتی(قرآن کا حصہ ہونے کی متواتر روایت ہر زمانے کا ایک کثیر گروہ نقل کررہا ہے انکا جھوٹ پر اجماع نہیں ہوسکتا ).

اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ ابن حجر، الہیثمی وغیرہ نے اسکی سند کو صحیح کہا ہے تو اسے یہ معلوم ہونا چاہیے اگر سند صحیح بھی ہو لیکن وہ ذیادہ مضبوط ثبوت اور تواتر کی مخالفت کررہی ہو تو وہ معلل ٹہرائی جاتی ہے . ابن الصلاح(643 ھ) کی ‘کتاب المعرفت انواع علم الحدیث ‘ سے معلل حدیث کی تعریف پیش ہے ،

’’ وہ حدیث جس میں کوئی علّت معلوم ہوئی ہوجو اس حدیث کی صحت کو مجروح کرتی ہو، باوجود یکہ ظاہر نظر میں حدیث صحیح سالم معلوم ہوتی ہو،اور جس میں بظاہر ہر صحت کی تمام شرائط موجود ہوتی ہیں اور اس علت کا اور اک علم حدیث میں بصیرت رکھنے والوں کو مختلف طریقوں سے ہوتاہے، کبھی راوی کومنفرد دیکھ کراور کبھی یہ دیکھکر کہ وہ راوی کسی دوسرے روای کی مخالفت کررہا ہے، اور اس کے ساتھ کبھی دوسرے قرائن بھی مل جاتے ہیں(مقدمہ فتح الملہم‘ ص ۵۴ ج) ( An Introduction to the Science of Hadith, Translated by Dr. Eerik Dickinson, Garnet Publishing Ltd. Berkshire 2006. p.67)

2. مزید عبدالرحمن بن یزید کی یہ روایت شاذ ہے،جو کہ قابل قبول نہیں .ابن الصلاح نے الشافعی کے حوالے سے شاذ کے متعلق لکھا ہے ”

” ایک شاذ حدیث وہ ہوتی ہے جس میں ایک ثقہ راوی اپنے سے اوثق راویوں کی مخالفت کررہا ہو ۔ (An Introduction to the Science of Hadith,p57)

واضح طور پر یہ روایت ان متواتر قرات کی مخالفت کررہی ہے اس لیے اس لیے یہ روایت قابل قبول نہیں ۔

تمام محدثین نے ’’حدیث صحیح‘‘ کی تعریف میں یہ بات لکھی ہے کہ وہ روایت ہر قسم کی علّت اور شذوذسے خالی ہو، چنانچہ اگر کسی روایت میں کوئی علّت یاشذوذپایا جاتا ہوتو راویوں کے ثقہ ہونے کے باوجود اس کو صحیح قرار نہیں دیا جاتا۔ لہٰذاجن روایتوں میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ؓ کی طرف یہ قول منسوب کیاگیا ہے، کہ وہ معوذتیں کو قرآن کریم کا جزء نہیں مانتے تھے علامہ نودیؒ اور ابن حزمؒ وغیرہ نے اُن کو راویوں کے ثقہ ہونے کے باوجود مندرجہ ذیل تین وجود سے قابل قبول نہیں سمجھا:۔

(۱) یہ روایتیں معلوم ہیں ، اور ان کی سب سے بڑی علّت یہ ہے کہ وہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ؓ کی اُن قرائتوں کے خلاف ہیں جواُن سے بہ طریق تواتر منقول ہیں ،

(۲) مسند احمدؒ کی وہ روایت جس میں حضرت ابن مسعودؓ ؓ کایہ قول نقل کیاگیاہے کہ انھمالیستا من کتاب اللہ( معوذتیں اللہ کی کتاب کاجزء نہیں ہیں ) صرف عبدالرحمن بن یزید نخعیؒ سے منقول ہے، اور کسی نے صراحتہً اُن کا یہ جملہ نقل نہیں کیا(مجمع الز وائد لہیثمی‘ ص۲۴۹ج ۷ والفتح الّربانی ص ۳۵۱و ۳۵۲ ج ۱۸،)اور متواترات کے خلاف ہونے کی وجہ سے یہ جملہ یقیناًشاذہی اورمحدثین کے اصول کے مطابق ’’حدیث شاذ‘‘ مقبول نہیں ہوتی،

(۳) اگر بالفرض ان روایتوں کو صحیح بھی مان لیا جائے تب بھی بہر حال یہ اخبار احادہیں ، اور اس بات پر امت کااجتماع ہے کہ جو خبرواحد متواترات اور قطعیات کے خلاف ہووہ مقبول نہیں ہوتی ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ؓ سے جو قراء تیں تو اتر کے ساتھ ثابت ہیں اُن کی صحت قطعی ہے،لہٰذا ان کے مقابلے میں یہ اخبار آحاد یقیناًواجب لردہیں ،

ابن مسعودؓ کی رائے :

اس معاملے میں علماء کی آراء پیش کرنے سے پہلے ہم مزید ثبوت پیش کرتے ہیں جن سے یہ واضح ہے کہ حضرت ابن مسعودؓ ان سورتوں کے قرآن کا حصہ ہونے سے انکار نہیں کیا تھا ۔

(ا) ہم جانتے ہیں کہ ابن مسعودؓ کے شاگرد دوسرے ساتھیوں کے سامنے یہ بات لائے کہ یہ سورۃ ابن مسعودؓ کے مصحف میں نہیں لکھ رہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ معاملہ ڈسکس کیا گیا تھا۔ اور اگر انہوں نے اسے قران کا حصہ ماننے سے انکار کیا ہوتا تو دوسرے ساتھی یقیناََ انکی تصحیح کردیتے۔

(2) دوسری روایات ہمیں بتاتی ہیں کہ ابن مسعودؓ اپنی باتیں دوسرے صحابہ سے ٖڈسکس کیا کرتے تھے اور اگر کوئی غلطی ہوتی تو اسکا بڑی خندہ پیشانی سے مان لیا کرتے تھے۔ مثال کہ طور پہ موطا امام مالک میں ہے “جب ابن مسعودؓ کوفہ میں تھے اور ان سے کسی نے پوچھا کہ اس عورت سے شادی کے متعلق کیا حکم ہے جسکی بیٹی سے شادی کی گئی ہو لیکن اس سے جنسی تعلق قائم نہ کیا گیا ہو۔ ابن مسعودؓ نے اجازت دے دی۔ جب ابن مسعودؓ مدینہ آئے انہوں نے اس بارے میں دریافت کیا تو انہیں بتایاگیا یہ ایسے نہیں جیسے انہوں نے کہا ۔ یہ حکم منہ بولی ماں کے بارے میں تھا۔ وہ واپس کوفہ گئے اور اپنی آرام گاہ پہنچے اور جیسے ہی وہ آدمی آیا جس نے سوال کیا تھا تو آپ نے اسے حکم دیا کہ فوراََ اپنی بیوی سے علیحدہ ہو جاؤ۔ (الموطا، کتاب النکاح)

یہ فقہ کے عام مسائل کے متعلق انکا رویہ تھا تو قران کے متعلق انکا رویہ کیا رہا ہوگا؟ جسکے بارے میں وہ خود کہتے ہیں” وہ جس نے قران کا ایک حرف بھی جھٹلایا (وہ ایسا ہے جس نے)پوراقرآن جھٹلا دیا۔ (مصنف عبدالرزاق، حدیث 15946)

(3) یہ کیسے ممکن ہے کہ انکے شاگردوں نے اس مسئلہ کو دوسرے صحابہ سے تو ذکر کیا ہو لیکن ان سے ذکر نہ کیا اور انہوں نے اسکی تصدیق نا کروائی ہو ۔جبکہ ہم انکی احتیاط کے متعلق جانتے ہیں ، جیسے وہ خود ہی روایت کرتے ہیں کہ :”ہم میں ایک سورۃ کے متعلق اختلاف ہو گیا کہ اسکی پینتیس یا چھتیس آیات ہیں سو ہم اللہ کے نبیﷺ کے پاس گئے ( تاکہ تصدیق کی جاسکے) ۔(مسند احمد ، حدیث832) اگر وہ ایک آیت کے معاملے میں اللہ کے نبیﷺ کے پاس جا سکتے ہیں تو کیا انہوں نے تین مکمل سورتوں کے بارے میں صحابہ سے نہیں پوچھا ہوگا اور صحابہ کی طرف سے انکی تصحیح نا کی گئی ہوگی ؟

(4)خود حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے رسول خدا ﷺ سے معوذتین کا منزل من اللہ ہونا روایت کیا ہے۔ طبرانی نے اپنی کتاب معجم اوسط میں عمدہ سند کے ساتھ ابن مسعودؓ سے نقل کیا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا میرے اوپر کچھ آیتیں نازل ہوئی ہیں ، جن کے مثل کبھی بھی نازل نہ ہوئی تھیں۔ یعنی معوذتین۔( درمنثور جلد ششم )

پس جب ابن مسعودؓ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معوذتین کا منزل من اللہ ہونا روایت کر رہے ہیں تو ان کے اس قول کا (اگر بالفرض انہوں نے کہا ہو کہ معوذتین کتاب اللہ سے نہیں ہیں) یہ مطلب مراد لینا قطعاً درست نہیں کہ وہ معوذتین کے قرآن ہونے سے انکار کرتے تھے ۔

محقق علما ء اور محدثین کی آراء:

امام النوی (676ھ):” امت اس بات پر متفق ہے کہ معوذتین اور سورہ فاتحہ قرآن پاک کا حصہ ہیں. اور جو بھی اس بات کی نفی کرتا ہے وہ کفر کا مرتکب ہوتا ہے اور اس بارے میں ابن مسعودؓ کے حوالے سے جو پیش کیا گیا ہے وہ سب سراسر جھوٹ ہے. (الاتقان 1/270)

ابو حفص عمرانعمانی (775ھ):” ابن مسعودؓ سے جڑی یہ روایت جھوٹ پر مبنی ہے”( الباب فی العلوم الکتاب. 1/249)

شیخ محمدبن نظام الدین الانصاری(1225ھ) :” معوذتین کو قرآن کا حصہ نا کہنے کو ابن مسعودؓ سے منسوب کرنا ایک سنگین غلطی ہے. اور جو کوئی بھی اس بات کو ابن مسعودؓ سے منسوب کرتا ہے اسکا اسناد قابل اعتماد نہیں اس سند کے مقابلے میں جو علماء اور پوری امت نے اجتماعی طور پر قبول کی گئ ہے.یہ واضح کرتا ہے کہ ابن مسعودؓ سے منسلک یہ مسترد کرنے والی بات جھوٹ پر مبنی ہے (فواتح الرحموت فی شرح مسلم الثبوت 2/12)

الخفاجی (1069ھ) تفسیر بیضاوی کے حاشیے میں لکھتے ہیں :” ابن مسعودؓ سے منسوب الفاتحہ اور معوذتین کو قرآن کا حصہ نا سمجھنے کی روایت کی کوئی بنیاد نہیں”.

(العنایہ القاضی 1/29)

علامہ ابن حزم:انکار معوذتین ابن مسعودؓ پر افترا و جعل ہے۔ ابن مسعودؓ سے عاصم کی قراءت صحت کے ساتھ منقول ہے عاصم زرابن جیش سے وہ ابن مسعودؓ سے روایت کرتے ہیں اور قراءت میں معوذتین بھی ہیں اور سورۃ فاتحہ بھی۔( المحلیّٰ، لابن حزم ؒ ، ص ۱۳ص ج ۱،)نیز یہی علامہ ابن حزم اپنی کتاب الفصل فی الملل و النحل میں لکھتے ہیں کہ:

“باقی رہا لوگوں کا یہ کہنا کہ عبداللہ ابن مسعودؓ کا مصحف ہمارے مصحف کے خلاف تھا تو یہ بالکل غلط، جھوٹ اور بہتان ہے۔ عبداللہ بن مسعودؓ کا مصحف بلاشبہ وہی ہے جس میں ان کی قراءت تھی اور ان کی قراءت وہی عاصم کی قراءت ہے جو تمام مسلمانوں میں مشہور ہے۔ دنیا کے مشرق و مغرب میں لوگ اس کو اب بھی پڑھتے ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا۔”

اگر کوئی خبرواحد متوارتر قراء وں کے خلاف ہوتو وہ یقینًا واجب الرّ دہے ، اور اسے قبول نہیں کیا جاسکتا، اسی بنا ء پر محقق علما ء اور محدثین کی اکثریت نے ان روایتوں کو ضعیف ،موضوع یاکم ازکم ناقابل قبول بتایاہے، جوحضرت ابن مسعودؓ ؓ کی طرف یہ باطل مذہب منسوب کرتی ہیں ،اوپر مذکور علماء کے علاوہ شیخ الاسلام نودی ؒ ابن حزم ؒ ، ا مام رازیؒ ، قاضی ابوبکربن عربیؒ ، علامہ بحرالعلومؒ ارآخری دورکے مشہور محقق عالم علامہ زاہد کوثری رحمہم اللہ کی رائے بھی یہی ہے۔ (اتقان‘ ص ۸۱ج ۲ ، فواتح الرحموت، شرح مسلّم الثبوت از لبحر العلومؒ ، ص ۱۲ ج ۲، مقالات،الکوثری ؒ ص۱۶،)

خلاصہ:

1.ابن مسعودؓ رضی اللہ عنہ کا سورہ فاتحہ اور معوذتین کو قرآن سمجھنا اور پڑھنا چار قراتوں سے ثابت شدہ ہے جنکی اسناد کا سلسلہ سب سے مستند اور امت کا اجتماعی طور پر اس پر اتفاق ہے۔

2. ابن مسعودؓ رضی اللہ عنہ نے’سبعا من المثانی ( مسلسل دہرائی جانے والی سات آیات) (قرآن 15:87)کے متعلق کہا اس سے مراد الفاتح الکتاب(سورت فاتحہ ) ہے

3. ابن مسعودؓ رضی اللہ عنہ نے اپنی مصحف میں سورہ فاتحہ کو نہیں لکھا لیکن انہوں نے اسکی وجہ بھی بیان فرمائی ، اس وجہ سے یہ واضح ہے کہ انکو اس پہ شک ہے نا وہ سورہ فاتحہ کے قرآن کا حصہ ہونے کے منکر ہیں.۔

4. ابن مسعودؓ رضی اللہ عنہ نے دو سورتوں کی اہمیت اور فضیلت کا ذکر کیا ہے جس سے ان پہ لگائے جانے والے الزامات کی تردید ہوتی ہے.

5.عاصم اور زر سے کچھ روایات منقول ہیں کہ ابن مسعودؓ نے اپنی مصحف میں معوذتین کا ذکر نہیں کیا ۔ لیکن یہی لوگ(دوسرے لوگوں کی طرح ) ابن مسعودؓ کی اتھارٹی سے باقی سورتوں کی طرح انہی دو سورتوں کی بھی قرات نقل کرتے ہیں ہیں. اسلیے یا تو انکی روایت غلط ہے یا پھر ابن مسعودؓ نے سورت فاتحہ کی طرح ان سورتوں کو بھی کسی وجہ سے اپنے مصحف میں نقل نہیں کیا۔

6. وہ روایات جنکی بنیاد پر ابن مسعودؓ سے یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ وہ انکو قرآن کا حصہ نہیں سمجھتے تھے معلل اور شاذ ہیں. یہ کمزور روایات ہیں جنکو سپورٹ کرنے کے لیے اور روایات موجود نہیں ہیں. یہ صرف عبدالرحمن بن یزید سے مروی ہیں اوربہت سی اسناد مستند ترین روایات سے متصادم ہیں اس لیے قابل قبول نہیں ۔

استفادہ تحریر:

http://www.letmeturnthetables.com/2011/10/ibn-masud-mushaf-last-surahs-fatiha.html