عہدرسالت میں جمع وتدوین قرآن

عربی زبان میں ‘جمع القرآن’ کالفظ دو معانی میں استعمال ہوتا ہے:

1۔ زبانی حفظ کے معنی میں

2۔ کتابت اور تدوین کے معنی میں

عہد رسالت میں مذکورہ دونوں معنوں میں حفاظت ِقرآن کا انتظام ہوا۔ جہاں تک پہلے معنی کا تعلق ہے تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنِ کریم کو اپنے سینہ میں محفوظ کیا اور قرآنِ کریم آپؐ کے صفحاتِ قلب پر نقش تھا۔ نیز آپ کے دور میں متعدد صحابہؓ قرآنِ کریم کے حافظ تھے

جہاں تک دوسرے معنی میں حفاظت ِقرآن کا تعلق ہے تو اس کا اہتمام بھی دورِ نبویؐ میں بخوبی ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی میں اور آپؐ کے سامنے مکمل قرآنِ کریم لکھا گیا،اگرچہ پتھروں ، کاغذ اور چمڑے کے ٹکڑوں پر ہی سہی، لیکن یہ بات حتمی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا تھا کہ قرآنِ کریم اکثر صحابہ کے سینوں میں محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف اشیا پر تحریری شکل میں بھی موجود تھا۔

حفظ قرآن : قرآن مجید کی حفاظت کا بنیادی ذریعہ

ہر زمانے کا علم کو محفوظ کرنے اور رکھنے کا ایک مزاج ہوتا ہے اور زمانہ قدیم میں یہ مزاج حفظ کا تھا جیسا کہ دور جاہلیت کی عرب شاعری کو زبانی ہی محفوظ کیا گیا ہے اور زبانی ہی نقل کیا گیا ہے۔ بعد میں کتابت کو اہمیت حاصل ہوتی چلی گئی اور آج جدید دور میں کہ جسے ہم آئی ٹی کا دور کہتے ہیں، کتابت بھی متروک ہو چکی ہے اور اس کی جگہ کمپیوٹرائزیشن لے چکی ہے۔لیکن قرآن کے معاملہ میں آج بھی جبکہ پرنٹنگ پریس کا زمانہ اپنے عروج پر ہے اور مصاحف لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو رہے ہیں، اصل اعتبار حفظ کا کیا جاتا ہے نہ کہ کتابت کا۔دنیا کے کسی بھی اسلامی ملک میں حکومت کی اجازت سے جو مصاحف شائع ہوتے ہیں تو ان کی تصدیق پہلے قراء سے کروائی جاتی ہے۔

پاکستان کی وزارت مذہبی امور اس وقت تک کسی پبلشر کو مصحف شائع کرنے کی اجازت فراہم نہیں کرتی جب تک کہ دو قراء کرام اس مصحف کی صحت کی تصدیق نہ کر دیں۔ لہذا قرآن مجید کی نقل میں مصاحف سے ذیادہ اہمیت قراء کی ہے ۔اور اہم تر بات یہ ہے کہ لکھے ہوئے کو پڑھنا اور صحیح پڑھنا کسی بھی زبان میں بغیر ماہر استاذ کے ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک ہی زبان میں تلفظ اور لہجات undefined کا فرق ہوتا ہے۔ کسی زبان میں کچھ حروف سائلینٹ ہوتے ہیں۔ انگریزی زبان کا ایک ہی لفظ امریکن کسی اور طرح ادا کرتے ہیں اور برٹش کسی اور طرح سے۔ اور بعض اوقات تو زمین وآسمان کا فرق ڈال دیتے ہیں۔ اس لیے شروع سے حفظ قرآن کی روایت کو اہمیت حاصل رہی اور قرآن مجید کے تحفظ کا کام لکھنے سے زیادہ حفظ سے ممکن ہوا اور یہ ذیادہ پائیدار بھی ہے ، پچھلے انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات زبانی یاد نہ کرنے کی وجہ سے بھلا دی گئیں. کئی بار مسودے حملہ آوروں نے تباہ کر دیئے اور بعض اوقات کتابت میں جانے یا انجانے میں غلطی کی گئی. قرآن کے حفظ پر چونکہ شروع سے زیادہ توجہ دی گئی اس لیے یہ نا سخت حالات زمانہ سے اس پر کوئی غلط اثر پڑا نا کسی انسانی غلطی، سہو کا شکار ہوسکا. یہ اللہ تعالی کی طرف سے اسکی حفاظت کا خصوصی انتظام تھا جس کی وجہ سے آج تک یہ کتاب مقدس اپنی اصل حالت پر باقی ہے اور دور جتنا مرضی تنزلی کا شکار ہوجائے یا ترقی کرجائے اس کی تحفیظ پر قیامت تک کوئی اثر نہیں پڑنے والا، یہ بلاشبہ اسکا ایک زندہ معجزہ ہے۔

خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پاک کے یاد کرنے اور اس کے حفظ کرنے کے سلسلہ میں اس قدر حریص تھے کہ نزولِ وحی کے وقت آپ اس کے الفاظ کو اسی وقت دوہرانے لگتے تھے تاکہ اچھی طرح یاد ہوجائے اور کوئی کلمہ یاحرف دورانِ وحی ان سے چھوٹنے نہ پائے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرماکر آپ کو اطمینان دلایا:

ترجمہ: “آپ قرآن پاک کو جلدی یاد کرنے کے خیال سے اپنی زبان کو حرکت نہ دیجئے (کیونکہ) اس (قرآن) کا جمع کرنا اور اس کا پڑھوانا ہم نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے”۔(القیامۃ:۱۶،۱۷)

سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا سینۂ مبارک قرآن کریم کا سب سے زیادہ محفوظ گنجینہ تھا، جس میں کسی ادنیٰ غلطی یا ترمیم و تغیر کا امکان نہیں تھا، پھر آپ مزید احتیاط کے طور پر ہر سال رمضان کے مہینے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ دَور کیا کرتے ، (صحیح بخاری مع فتح الباری ، س ٣٦ ج۔۹)

. نہ صرف نبی علیہ السلام بلکہ انکے صحابہ رضوان اللہ علیہم کی ایک بڑی تعداد نے قرآن مجید زبانی یاد کر رکھا تھا۔ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے خداداد بے نظیرحافظے کو جاہلیت کے اشعار، انسابِ عرب حتی کے اونٹوں اور گھوڑوں کی نسلوں کے حفظ سے ہٹا کر، آیاتِ الٰہی کے حفظ پر لگادیا، اہل عرب کو صدیوں تک کی گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکنے کے بعد قرآن کریم کی وہ منزلِ ہدایت نصیب ہوئی تھی جسے وہ اپنی زندگی کا سب سے عزیز سرمایہ تصور کرتے تھے، اس لیے انھوں نے اسے یاد رکھنے کے لیے کیا کچھ اہتمام کیا ہوگا اس کا اندازہ ہروہ شخص کرسکتا ہے جو ان کے مزاج وطبیعت سے واقف ہے،۔ وہ اسے یاد کرنے اور حفظ کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی فکر میں رہتے تھے اور جسے قرآن مجید جس قدر زیادہ یاد ہوتا تھا اسی لحاظ سے ان میں اس کا مقام ومرتبہ ہوتا تھا؛ حتی کہ بعض عورتوں نے اپنے شوہروں سے محض اس لیے کوئی مہر طلب نہیں فرمایا کہ وہ انھیں قرآن کریم کی کوئی سورۃ یاد دلادے۔ لوگ راتوں میں اٹھکر نمازوں میں تلاوتِ قرآن کی لذت کو نیند کی لذت پر ترجیح دیتے تھے؛ اگر رات کی تاریکی میں کسی کا گزر ان کے گھروں پر سے ہوتا تھا تو تلاوتِ قرآن پاک کی وجہ سے شہد کی مکھی کی طرح بھن بھنبھناہٹ کی آواز اسے سنائی دیتی تھی۔

قرآنِ پاک کے ساتھ انہی توجہات کا نتیجہ تھا کہ ایک بڑی جماعت حفاظِ کرام کی حضورﷺ کی زندگی ہی میں منظر عام پر آگئی جن میں چاروں خلفاء راشدین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ، حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت سعد رضی اللہ عنہٗ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہٗ، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت سالم مولی ابی حذیفہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہٗ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہٗ، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہٗ، ان کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہٗ، حضرت عبداللہ بن السائب رضی اللہ عنہٗ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے نام تاریخ میں محفوظ رہ گئے، یہ سب مہاجرین میں سے ہیں اور انصار میں سے جنھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں حفظِ کلام پاک مکمل کیا ان کے نام یہ ہیں، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہٗ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہٗ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہٗ، حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہٗ، حضرت مجمع بن حارثہ رضی اللہ عنہٗ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہٗ، حضرت ابوزید رضی اللہ عنہم اجمعین ایک قول یہ بھی ہے کہ ان میں سے بعض حضرات نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی وفات کے بعد حفظِ کلام پاک مکمل کیا؛ بہرحال جو بھی ہو اس سے اتنا تو اندازہ ہوگیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں حفظِ قرآن پاک مکمل کرنے والوں کی تعداد کافی تھی؛ حتی کہ بئرمعونہ کا واقعہ ؁ ۴ھ میں پیش آیا اس میں۷۰/قراء کی جماعت شہید ہوئی۔

(مناہل العرفان:۱۷۳،۱۷۴)

عرب کے ضرب المثل حافظے نے چند ہی دنوں میں ہزاروں حفّاظِ آیاتِ الٰہی کو معرضِ شہود میں لا کھڑا کر دیا، حفّاظ کی کثرت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ: صرف ”جنگ ِیمامہ“ میں شہید ہونے والے حافظوں کی تعداد ایک روایت کے مطابق سات سو تھی۔

(تفسیرقرطبی:۱/۳۷۔ عمدۃ القاری:۱۳/۵۳۳)


کتابت قرآن :


اگرچہ دورِ نبویؐ میں قرآنِ کریم کی حفاظت کا بنیادی دارومدار حفظ پر تھا، لیکن اس کے باوجود اسے تحریر میں لانا ضروری سمجھا گیا کہ اس کے ایک ایک لفظ کی حفاظت میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ رہ جائے ۔نیز قرآنِ کریم صحابہ کرام ؓکے لئے ایک مقدس متاع کی حیثیت رکھتا تھا، لہٰذا اُنہوں نے انفرادی حیثیت سے بھی بطور ِیادگار اسے ضبط ِتحریر میں لانے کا اہتمام کیا، جیسا کہ عموماً نادر اور نایاب اشیا کی حفاظت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

کتابت قرآن کا طریقہ کار حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اس طرح بیان فرمایا:

ترجمہ: “میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی کی کتابت کرتا تھا جب آپ پر وحی نازل ہوتی تو آپ سخت بوجھ محسوس کرتے اور آپ کے جسمِ اطہر پر پسینہ کے قطرے موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے تھے؛ پھرآپ سے یہ کیفیت ختم ہوجاتی تو میں مونڈھے کی کوئی ھڈّی یاکسی اور چیز کا ٹکڑا لے کر خدمتِ اقدس میں حاضرہوتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھواتے رہتے میں لکھتا جاتا یہاں تک کہ میں لکھ کر فارغ ہوجاتا تو قرآن کے نقل کرنے کے بوجھ سے مجھ کو ایسا محسوس ہوتا جیسے میری ٹانگ ٹوٹنے والی ہے اور میں کبھی چل نہیں سکوں گا؛ بہرحال جب میں فارغ ہوتا تو آپ فرماتے “پڑھو” میں پڑھ کر سناتا؛ اگر اس میں کوئی فروگذاشت ہوتی تو آپ اس کی اصلاح فرمادیتے اور پھر اسے لوگوں کے سامنے لے آتے”۔

(المعجم الکبیر للطبرانی:۵/۱۴۲، ۴۸۸۹)

کتابتِ وحی کا کام صرف حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہٗ ہی کے سپرد نہ تھا؛ بلکہ آپ نے بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس مقصد کے لیے مقرر فرمایا ہوا تھا، جو حسبِ ضرورت کتابتِ وحی کے فرائض انجام دیتے تھے، کاتبینِ وحی کی تعداد چالیس تک شمار کی گئی ہے۔

(علوم القرآن:۱۷۹، مصنف: مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہٗ)

ان میں زیادہ مشہور یہ حضرات ہیں:

حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ، حضرت عمررضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن ابی السرح رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ، حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ، حضرت ابان بن سعید رضی اللہ عنہ، حضرت حنظلہ بن ربیع رضی اللہ عنہ، حضرت معیقیب بن ابی فاطمہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ، حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ (فتح الباری:۹/۲۷) حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ، حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ، حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ، حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ (علوم القرآن مفتی لتقی عثمانی:۱۷۹) فتح الباری ٩/ ١٨ اور زاد المعاد ١/٣٠)

حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر جب بھی وحی نازل ہوتی تھی تو آپ اپنے بعض کاتبین وحی کو بلواتے تھے اور ان کو نئی نازل شدہ آیتیں لکھواتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ آپ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے امر پر (مسنداحمد:۴/۲۶۸۔ رقم:۱۷۹۴۱۔ کنزالعمال:۲/۹، ۲۹۵۷) اس کی جگہ کی تعیین بھی فرمادیتے تھے کہ اسے کس سورت میں کس آیت کے بعد رکھنا ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول یہ تھا کہ جب قرآن کریم کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ کاتبِ وحی کو یہ ہدایت بھی فرما دیتے تھے کہ اسے فلاں سورت میں فلاں فلاں آیات کے بعد لکھا جاۓ (فتح الباری ٩/ ١٨) (سنن ابوداؤد، صلوٰۃ، باب من جھربھا:۷۸۶)

مسند احمد کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشاد فرمایا: ۔یعنی حضرت جبریل علیہ السلام نے آکر مجھے (فلاں آیت کو فلاں جگہ رکھنے کا) حکم دیا۔(کنز العمال ۲/۴۰)

صحابہٴ کرام میں جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ،وہ خدمت ِنبوی میں پہنچ کر آیات لکھ لیتے تھے، جب کسی سورت میں آیت کا اضافہ ہوتا تو معلوم کرکے مرتب فرما لیتے تھے، اس طرح بہت سے صحابہٴ کرام کے پاس سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا مصدقہ نسخہٴ قرآن موجود تھا، بعض کے پاس پورا قرآن بھی تھا اور بعض کے پاس چند سورتیں اور چند آیتیں تھیں، لکھنے لکھانے کا سلسلہ بالکل ابتداء سے کثرت سے جاری تھی، اس کی شہادت درج ذیل روایتوں سے ملتی ہے:

(۱) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے والی روایت میں ہے کہ: ان کی بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید بن زید رضی اللہ عنہما ان سے پہلے ہی مسلمان ہو چکے تھے، وہ حضرت خباب بن الارث سے قرآن پڑھ رہے تھے، جب حضرت عمر نہایت غضب ناک حالت میں ان کے پاس پہنچے تو ان کے سامنے ایک صحیفہ تھا جس کو انہوں نے چھپا دیا تھا، اس میں سورہ طہ کی آیات لکھی ہوئی تھیں۔ (سنن دار قطنی ۱/ ۱۲۳ باب نہی المحدث عن مس القرآن، دار نشر لاہور)

(۲) امام بخاری علیہ الرحمہ نے ”کتاب الجہاد“ میں ا یک روایت نقل کی ہے، جس میں ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصاحف (لکھا ہوا قرآن مجید) لے کر دشمنوں کی زمین میں جانے سے منع فرما دیا تھا۔ (صحیح بخاری ۱/۴۱۹)

(۳)حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے مشورہ سے جب قرآن مجید کے اجماعی نسخہ کی کتابت کا وقت آیا تو اس وقت حضرت زید بن ثابتکو پابند کیا گیا تھا کہ: جو کوئی بھی لکھی ہوئی آیت لے کر آئے ،اس سے دو گواہوں کی گواہی اس بات پر لیجیے کہ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی ہے ؛چناں چہ اس پر عمل ہوا (الاتقان ۱/۷۷)

مذکورہ بالا تینوں روایتوں اور ان کے علاوہ بہت سی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عہدِ نبوی میں قرآن کریم کا ایک نسخہ تو وہ تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی نگرانی میں لکھوایا تھا، اگر چہ وہ مرتب کتاب کی شکل میں نہیں تھا، بلکہ متفرق پارچوں کی شکل میں تھا، اس کے ساتھ ہی بہت سے صحابہٴ کرام کے پاس آیات لکھی ہوئی تھیں؛ بلکہ بعض کے پاس پورا قرآن مجید بھی لکھی ہوئی شکل میں موجود تھا۔

سامانِ کتابت


نزولِ قرآن مجید کے زمانہ میں ایجادات و مصنوعات کی کمی ضرور تھی، جس طرح آج کاغذ، قلم اور دوات کی بے شمار قسمیں دریافت ہیں، اس زمانہ میں اتنی ہرگز نہ تھیں؛ لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس وقت کاغذ اور کتابیں دریافت نہ تھیں، یمن، روم اور فارس میں کتب خانے بھی تھے، یہود و نصاریٰ کے پاس کتابوں کا ذخیرہ موجود تھا، اس زمانے میں ”کاغذ“ وغیرہ کی صنعتیں بھی تھیں؛ لیکن بڑے پیمانے پر نہ ہونے کی وجہ سے کاغذ وغیرہ ہر جگہ دریافت نہ تھے؛ اس لیے لکھنے کے لیے جو چیز بھی قابل اور پائدار سمجھ میں آتی اس پر لکھ لیا جاتا تھا۔ (التبیان فی علوم القرآن ص۴۹)

قرآن مجید کی کتابت کے لیے بھی اس وقت کی ایسی پائدار چیزیں استعمال کی گئیں، جن میں حوادث وآفات کے مقابلے کی صلاحیت نسبتاً زیادہ تھی؛ تاکہ مدتِ دراز تک محفوظ رکھا جا سکے۔ (تدوین قرآن ص ۳۱)حافظ ابن حجر کی تحقیق کے مطابق کتابتِ قرآن میں درج ذیل چیزیں استعمال کی گئیں:

(الف) زیادہ تر پتھروں کی چوڑی اور پتلی سلوں (لِخاف) کو استعمال کیا گیا، اِسے ہم سلیٹ کہہ سکتے ہیں۔

(ب) اونٹوں کے مونڈھوں کی چوڑی گول ہڈیوں (کَتِف) پر بھی لکھا گیا، مونڈھوں کی ہڈیوں کو نہایت اچھی طرح گول تراش کر تیار کیا جاتا تھا۔

(ج) چمڑوں کے کافی باریک پارچوں (رِقاع) پر بھی قرآن مجید لکھا جاتا تھا، یہ ٹکڑے نہایت باریک ہوتے تھے، اور لکھنے کے لیے ہی تیار کیے جاتے تھے، گوشت خور ملک میں اس کی بڑی افراط تھی۔

(د) بانس کے ٹکڑوں پر بھی آیات لکھی جاتی تھیں۔

(ھ) درخت کے چوڑے اور صاف پتے بھی کتابت کے لیے استعمال ہوتے تھے۔

(و) کھجور کی شاخوں کی چوڑی جڑوں (عسیب) اور کھجور کے جڑے ہوے پتوں کو کھول کر ان کی اندرون جانب بھی آیات کی کتابت ہوتی تھی۔

(ز) محدثین نے کاغذ پر بھی کتابتِ قرآن کا ذکر کیا ہے۔ (فتح الباری ۹/۱۷)

عہدنبوی میں قرآن ایک مصحف میں جمع کیوں نہیں کیا گیا ؟


 چند وجوہات/حکمتیں

 :

۱۔ قرآن کریم یکبارگی نہیں بلکہ تیئیس سال کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوا۔۔یہ سلسلہ پورے عہد نبوی کو محیط رہا؛ بلکہ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے آخری لمحات تک جاری رہا۔ اس لیے آپ ﷺ کے سامنے آج کی طرح کتابی شکل میں منصہ شہود پر آنا مشکل بلکہ ناممکن تھا۔ صحابہ کرام کے مابین جب کسی آیت میں اختلاف ہوتا تو وہ مکتوب قرآن کی بجائے رسول اکرم ﷺ سے ہی رجوع کرلیتے۔

۲۔آپ ﷺ نے اسے اس لئے بھی ایک ہی مصحف میں جمع نہیں فرمایا کیونکہ قرآن میں نسخ واقع ہورہا تھا اگر آپ ﷺ اسے جمع کردیتے پھر کچھ حصے کی تلاوت منسوخ ہوجاتی تو یہ اختلاف اور دین میں اختلاط کا سبب بنتا۔آپ ﷺ بھی قرآن کریم کے بعض احکام یا تلاوت کے بارے میں منتظر رہتے کہ شاید کچھ منسوخ ہوجائے اس لئے بھی آپ ﷺ نے جمع نہیں کروایا۔ جب اس کا نزول مکمل ہوگیا اور زمانہ نسخ کے اختتام تک یہ قرآن سینوں میں محفوظ بھی رہا اورآپ ﷺ کی وفات ہوگئی تو اللہ تعالی نے خلفاء راشدین کو اس کے جمع کرنے کا الہام کردیا۔(البرہان از زرکشی ۱؍۲۳۵)

۳۔۔قرآن مجید کا نزول ضرورت و حاجت کے مطابق تھوڑا تھوڑا ہوتا رہا، کبھی ایک آیت کبھی چند آیتیں نازل ہوتی رہیں، نزول کی ترتیب موجودہ ترتیب سے بالکل الگ تھی، اگراس وقت قرآن ایک مصحف میں جمع کردیا جاتا تو یہ ترتیب ہر نزول کے وقت ہی تبدیلی کا سامنا کرتی۔۔

علامہ الخطابی کے الفاظ میں :

إنما لم يجمع القرآن في المصحف لما كان يترقبه من ورود ناسخ لبعض أحكامه أو تلاوته فلما انقضى نزوله بوفاته ألهم الله الخلفاء الراشدين ذلك وفاء بوعده الصادق بضمان حفظه على هذه الأمة فكان ابتداء ذلك على يد الصديق بمشورة عمر

رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم نے قرآن کو ایک مصحف کی صورت میں نہیں اکھٹا کیا کیونکہ انہیں کسی آیت یا حکم کی منسوخی کا انتظار کرنا تھا. مگر جب انکی وفات ہوئی اور نزول وحی منقطع ہو گئی “اور آخر کار نسخ بھی”۔ اللہ نے اس قرآن کی حفاظت کے متعلق اپنا سچا وعدہ پورا کرنے کے لیے یہ خیال خلفائے راشدین کے دل میں ڈالا. تب یہ عظیم فریضہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مشورے پر سرانجام دیا. (الخطابی، بحوالہ فتح الباری)