صحیح بخاری میں ایک حدیث کچھ یوں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو ایک بیماری کے علاج کے طور پراونٹ کا پیشاب اور دودھ تجویز کیا (صحیح بخاری ۔ باب الدواء بابوال الابل)۔ اس حدیث پر کچھ مسلمانوں کی طرف سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ حضور ﷺ پیشاب جیسی نجس چیز کو پینا کیسے تجویز کر سکتے ہیں ؟ عیسائی مشنریز اور ملحدین اسکو اپنے انداز میں پیش کرتے ہیں کہ اس حدیث میں تمام مسلمانوں کو اونٹ کا پیشاب پینے کا حکم دیا گیا ہے، ایک صاحب لکھتے ہیں “ہندوؤں کیلئے گائے کا موتر جبکہ مسلمانوں کیلئے اونٹ کا پیشاب پینا مقدس اور ثواب ہے “۔ اس تحریر میں ہم اس حدیث کی حیثیت ، اسکے حکم اور اس پر اٹھائے گئے اعتراضات کا جائزہ لیں گے ۔
حدیث کی سندی حیثیت
ائمہ محدثین اور علمائے عظام کی تحقیق کے مطابق اونٹ کا پیشاب پینے والی حدیث بالکل صحیح ہے اور اس کے ضعیف یا موضوع ہونے کی جانب کسی ایک معتبر محدث نے اشارہ تک نہیں کیا ہے۔ مزید یہ حدیث صرف “صحیح بخاری” ہی میں نہیں بلکہ بیسوں کتبِ حدیث میں دیگر محدثین نے بھی یہی حدیث اپنی سند سے بیان کی ہے۔
اونٹ کے دودھ یا دودھ اور پیشاب سے بیماری کا علاج- فقہاء کی رائے
اس نوعیت کا صرف ایک واقعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی میں پیش آیاتھا، اس کے بعد صحابۂ کرام کے زمانہ میں بھی کبھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا، اس کو دیکھتے ہوئے اس واقعہ کے متعلق علماء نے متعدد جوابات دئے ہیں جن میں سے دو پیش ہیں:
1۔حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کا موقف یہ ہے کہ حضورﷺ نے اللہ کے دیے علم سے یہ جان لیا تھا کہ انکو شفا اسی سے ہی مل سکتی ہے۔ اس طرح یہ لوگ مضطر کے حکم میں آگئے اور مضطر کے لئے نجس چیز کا استعمال جائز ہے۔ یعنی اگر کسی انسان کی جان خطرہ میں ہو تو اس کی جان بچانے کے لئے حرام چیز سے علاج کیا جاسکتا ہے ۔ اس حدیث میں عمومی حکم نہیں ہے کہ کوئی بھی شخص اونٹ کے پیشاب سے علاج کرے جیساکہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے بلکہ یہ ایک خصوصی واقعہ ہے، جس طرح جمہور علماء نے صحیح مسلم میں وارد حدیث کو خصوصی واقعہ قراردیا ہے جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کو حکم دیا تھا کہ وہ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت سالم کو دودھ پلادیں جس سے دونوں کے درمیان حرمت ثابت ہوجائے(تفصیل)، حالانکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ دو سال کے بعد دودھ پلانے سے حرمت ثابت نہیں ہوگی یعنی ماں بیٹے کا رشتہ نہیں بن سکتا۔ ۔(خلاصہ مضمون: التداوی ببول الابل از محمد بن عبداللطیف آل الشیخ، ویب سائٹ العربیہ)
2۔متعدد شواہد دلالت کررہے ہیں کہ یہ واقعہ سن ۶ ہجری سے قبل کا ہے، خود حدیث کے راوی حضرت قتادہؒ نے بیان کیا کہ مجھ سے محمد بن سیرین ؒ نے حدیث بیان کی کہ یہ حدود کے نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے، (بعد میں اس طرح کی سزا کی ممانعت نازل ہوگئی جو انکو دی گئی)، یعنی یہ واقعہ مثلہ کی حرمت سے قبل کا ہے،لہذا ظاہر یہی ہے کہ یہ حکم بھی منسوخ ہوگیا ہو اور اس کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اس نوعیت کا علاج نہیں بتایا اور نہ کسی صحابی سے اس نوعیت کا علاج کرنا منقول ہے۔
خلاصہ یہ کہ صحیح بخاری میں وارد اونٹ کے پیشاب سے علاج والا واقعہ خصوصی واستثنائی ہے۔ ایسی “تخصیص” قرآن سے بھی ثابت ہے،”تم پر مردہ اور (بہا ہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے پھر جو مجبور ہو جائے اور وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو، اس پر ان کے کھانے میں کوئی پابندی نہیں، اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے۔(: سورہ البقرہ (2) ، آیت : 173)
گائے کا پیشاب پینے کے ساتھ مماثلت
کچھ لوگ اس حدیث کو ہندوؤں کا گائے کا پیشاب پینے سے ملاتے ہیں حالانکہ ہندووں کا گائے کا پیشاب پینا گائے کے تقدس کے طور پر باقاعدہ ایک مشغلہ ہے نہ کہ کسی خاص بیماری کی وجہ سے۔ اسلام میں نہ تو اونٹ کو مقدس جانور سمجھا جاتا ہے نہ اس کا پیشاب بابرکت سمجھ کر ہر چیز پر چھڑکنے کا کوئی تصور ہے نا اس کا تعلق عبادت اور شعائر دین سے ہے۔ حدیث میں اونٹ کے پیشاب کا استعمال محض ایک دوا کے طور پر کرایا گیااس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ بغرض علاج بھی لازم قرار نہیں دیا گیا جس کی طبیعت مائل نہ ہو وہ نہ پیے ۔ اس کو کسی کے لیے لازم قرار نہیں دیا اور نہ ہی اس پر عمل نہ کرنے والے کے لیے کوئی وعید سنائی ، اور نہ ہی کسی اور کو یہ علاج بتایا، نا اس طریقہء علاج کو کبھی سنّت سمجھا گیا۔
آجکل حرام اور نجس چیزوں سے علاج عام ہے،ہزاروں ادویات میں ایسے کیمیکل استعمال ہوتے ہیں جو انتہائی نجس چیزوں سے حاصل کیے جاتے ہیں ۔ یہ تو اسلام کی خوبی ہے کہ اس نے پہلے دن سے اسکی گنجائش رکھی کہ بوقت انتہائی ضرورت اور علاج کسی نجس لیکن فائدہ مند چیز کو استعمال کیا جاسکتا ہے ، ہر چیز کو ہر حال میں حرام قرار دے کرانسانوں کو بلاوجہ کی تنگی اور سختی میں مبتلا نہیں کیا۔ حیرت ہوتی ہے اسلام کی اس ریلکسیشن پر بھی لوگ اعتراض کرتے اور الٹا اسے اسلام کے لیے ایک نقص اور طعنے کی بات بنا لیتے ہیں۔
کچھ اہل علم نے اس حدیث پر اعتراضات کے سائنسی حوالے سے بھی جواب دیے ہیں ملاحظہ کیجیے لنک 1، لنک 2، لنک 3