معیارِقبولِ حدیث:حدیث قرآن اورنبیؐ وصحابہ کی شان کیخلاف ناہو

منکرین حدیث و متجددین نے اپنے مخصوص مقاصد کے لیے چند خوشنما معیار قائم کیے ہیں جن پر یہ احادیث کو پرکھتے ہیں اور اگر وہ اس میعار پہ نہیں اترتیں تو چاہے کتنی ہی مستند و صحیح ہو انہیں رد کردیا جاتا ہے ۔ان کے مجوزہ معیارات درج ذیل ہیں:

1. قرآن کے مطابق ہو

2. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف نہ ہو

3. توہین صحابہ و ازواج مطہرات نہ ہوتی ہو

4. خلافِ علم و مشاہدہ نہ ہو

5. خلافِ عقل نہ ہو

واضح رہے کہ یہ معیار محدثین نے بھی قائم کیے ہیں لیکن ان پر پرکھنے کے بعد محدثین جس حدیث کو صحیح قرار دیتے ہیں منکرین حدیث کی عقلیں انہیں بھی تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہیں۔ جس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ ان دونوں فرقوں کی عقل میں فرق ہے۔ محدثین اپنی عقل کو وحی الہیٰ کے تابع رکھتے اور عقل کا جائز استعمال کرتے ہیں۔ لیکن منکرین حدیث عقل کی برتری اور تفوق کے قائل ہیں ۔ تہذيب ِجديد كى فكرى اسيرى كى كیفیت كے ساتھ جب يہ لوگ قرآن كا مطالعہ كرتے ہيں تو ان بہانوں سے ہر اس روایت کو رد کرتے جاتے ہیں جو انکو تمدن مغرب کے مطابق نہیں لگتی ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جس انداز میں یہ حدیث کو ان کسوٹیوں پر پرکھتے ہیں ان پر قرآن بھی پورا نہیں اترتا۔ اس پر تفصیلی تبصرہ آگے آئے گا، اس سے پہلے ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر ان معیاروں پر قرآن مجید بھی پورا نہ اترے، تو پھر یہ معیار سچے ہیں، یا قرآن؟ اگر قرآن سچا ہے اور در حقیقت قرآن ہی سچا ہے تو پھر یہ معیار یقینا باطل ہیں ۔ جسطرح قرانی آیات ثابت شدہ ہیں اسی طرح احادیث بھی بیسیوں فنون سے گزر کر صحت کے درجے تک پہنچی ہیں اسلئے محدثین کی اس محنت کو ان خود ساختہ مذہب بیزار اصولوں پر رد نہیں کیا جاسکتا۔


معیار اول: قرآن کے مطابق ہو:


ایک منکر حدیث مقالہ نگار صاحب لکھتے ہیں :

“جو حديث قرآن كے مطابق ہو، اس كو سرآنكهوں پر جگہ ديتے ہيں ۔( طلوع اسلام ،مئی 2005ء، ص29)

1.سوال یہ ہے کہ قرآن کے خلاف ہونے کا معیار کیا ہے؟

کوئی شخص کئی باتوں کو سطحی نظر سے دیکھ کر قرآن کے خلاف قرار دیتا ہے اور انہی پر غور کرنے والا انہیں بالکل قرآن کے عین مطابق قرار دے کر قبول کرتا ہے اس میں قصور کس کا ہے؟

غلام احمد پرویز صاحب کے لٹریچر کو دیکھیں تو باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن اور صرف قرآن كے ساتھ مطابقت” كا يہ بظاہر خوش آئند اُصول گهڑا ہى اس لئے گيا ہے کہ اپنوں/ غیروں کی جو بات بهى من كو بہا جائے، اسے يہ كہہ كر قبول كرليا جائے كہ يہ ‘مطابق قرآن’ ہے۔ اس اُصول سے دوہرا كام ليا گيا، اوّلاً يہ كہ احاديث رسول سے جان چهڑانے كے لئے ‘ردّ و ترك’ كى راہ يہ كہہ كر ہموار كى گئى كہ:

“ہمارے نزديك، دين كا معيار، فقط كتاب اللہ ہے- جو عقيدہ يا تصور اس كے مطابق ہے، وہ صحيح ہے اور جو اس كے مطابق نہيں وہ بلا تامل و تذبذب، غلط اور باطل ہے۔خواہ اس كى تائيد ميں ہزاروں حديثيں بهى ايسى كيوں نہ پيش كردى جائيں جس كے راويوں ميں جبرائيل وميكائيكل تك كا نام بهى شامل كرديا گيا ہو.( طلوع اسلام، نومبر 1953ء ص37)

اسکے ساتھ ‘اخذوقبول’ كى راہ اختيار كرنا بهى ضرورى تھی ۔ چنانچہ اس كے لئے يہ راہ يوں ہموار كى گئى :

“ہرمعقول بات خواہ وہ امام ابوحنيفہ كى ہو يا كارل ماركس كى، اگر قرآن كى كسوٹى پر سچى ثابت ہوتى ہے، تو اُسے قبول كرنے ميں عار نہ ہونى چاہئے۔”( طلوع اسلام، دسمبر 1963ء ، ص75)

يہاں ، ابوحنیفہ كا نام تو محض وزن برائے بيت كے لئے ہے- اصل ميں تو كارل ماركس اور ديگر يہودى دانشوروں ، عيسائى سكالروں ، ملحد فلاسفروں ، بے دين علماے مغرب سے استفادہ كرنا مقصود ہے- اور يہ استفادہ يہ كہہ كر كيا بهى گيا كہ جو فكر، جو خيال، جو قدر، جو اطوار ہم اپنا رہے ہيں وہ ‘مطابق قرآن’ ہے اور مغرب كى جس چيز كو ‘مطابق قرآن’ قرار دے كر قبول كرنے كى گنجائش نہ نكل سكى، اسے يہ كہہ كر اپنا ليا كہ “يہ خلافِ قرآن نہيں ہے-”

تہذيب ِجديد اور تمدنِ مغرب كى فكرى اسيرى اور ذہنى غلامى كى اس كیفیت كے ساتھ جب يہ لوگ قرآن كا مطالعہ كرتے ہيں تو يورپ كى عينك لگا كر- چنانچہ ان لوگوں نے ڈارون كا پورا نظريہٴ ارتقا قرآن كے مختلف مقامات كى متفرق آيات كے ٹكڑوں كو جوڑ جاڑ كر معنوى تحريف كے حربوں كے ساتھ قرآن ہى سے برآمد كرليا ہے۔دورِ حاضر كے چلتے ہوئے دو بڑے معاشى نظاموں ميں سے كارل ماركس اور لينن كى اشتراكيت كو قرآن كے جعلى پرمٹ پر دَر آمد كرليا ہے- تہذيب ِمغرب كى فاسد معاشرت كے جملہ اطوار واقدار كو بهى يہ كہہ كر اپنايا جارہا ہے كہ يہ سب كچھ ‘مطابق قرآن’ ہے- مخلوط سوسائٹى، مخلوط تعليم، تركِ حجاب، مردوزَن كى مطلق مساوات (بلكہ اس سے بهى آگے بڑھ كر نظريہٴ افضليت اُناث)، درونِ خانہ فرائض نسواں كى بجائے انہيں بيرونِ خانہ مشاغل ميں منہمك كرنا، تعددِ ازواج كو معيوب قرار دينا، عورت كوخانگى مستقر سے اُكهاڑ كر اسے مردانہ كارگاہوں كى طرف دهكيل ديناوغيرہ، يہ سب كچھ قرآن ميں سے نچوڑ ڈالنے كى دانشورانہ سرگرمياں مغرب كى اندهى تقلید كے منہ بولتے كرشمے ہيں ۔ يہ سب كچھ كرتے ہى يہ لوگ مطمئن ہوجاتے ہيں كہ قرآنِ كريم دورِ حاضر كى ضروريات كا ساتھ دے رہا ہے، لہٰذا اب اسے ‘تاريك دور’ كى كتاب قرار نہيں ديا جاسكتا-جو كچھ وہ قرآن سے نچوڑ كر پيش كرتے رہے ہيں وہ بغير كسى ‘قرآن’ كے اہل مغرب كے ہاں پہلے ہى سے اپنايا جاچكا ہے۔

یہ وہ وجوہات اور مقاصد ہیں جس کے لیے تاريخ ، احاديث، فقہ، تصوف اور لغت الغرض ہر چيز ہى ‘مطابق قرآن’ كرڈالنے كا اعلان كيا جاتا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں ۔

“سچ پوچھئے تو پورى اسلامى تاريخ، فقہ، احاديث، تصوف اور لغت سب پرنظرثانى كى ضرورت ہے۔( طلوع اسلام، 29۔اکتوبر 1955ء، ص16)

چند سوالات :


1.

 قرآن تو حروف والفاظ کا مجموعہ ہے جب تک اس کا کوئی مفہوم متعین نہ کیا جائے یہ کیسے معلوم ہو کہ فلاں حدیث قرآن کے مطابق ہے یا نہیں؟ اب ظاہر ہے کہ “طلوع اسلام” کے قرآن مفہوم کو صحیح تصور کیا جائے جو کہ ہر آن بدلتا رہتا ہے۔ تو اس کے مطابق ایک ہی حدیث ایک مقام پر تو صحیح قرار پاتی ہے لیکن دوسرے مقام پر یا دوسرے دور میں وہی حدیث مردود بن جاتی ہے ۔ اس معیار کو لے کر کوئی فتنہ پرور اٹھے گااور قرآن کی کسی آیت کے معنی اپنے رنگ میں کرلےگا اور جب اس سے کہا جائےگا کہ حدیث میں اس طرح ہے تو وہ فوراً کہہ دے گاکہ یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے، لہٰذا جعلی ہے ، میں اسے نہیں مانتا، حالانکہ وہ حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہوگی، بلکہ اس کے مخترعہ معنوں کے خلاف ہوگی۔

2.

 جو حدیث قرآن کے مطابق ہوگی اس کو تسلیم کرنے کا فائدہ کیا ہے؟ کیا اس کے عوض قرآ ن ہی کافی نہیں؟ قرآن کو اپنی تائید کے لیے کسی حدیث یا روایت کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جو روایات قرآن کی آیات کی ترتیب بتلاتی اور اس کی محفوظیت کو ثابت کرتی ہیں۔ آپ انہیں کس قاعدہ کی رو سے درست سمجھتے ہیں؟

3

. جو حدیث تعلیمات قرآنی کے منافی ہوگی، وہ حدیث جعلی ہوگی، یہ معیار بظاہرا اگرچہ صحیح ہے، لیکن اس میں تفصیل ہے، مثلاً قرآن ہر مردار کو حرام کرتا ہے، لیکن حدیث میں ہے کہ مردار مچھلی حلال ہے، تو کیا یہ حدیث قرآن کے منافی کہلائے گی؟ منکرین حدیث بھی مچھلی کو حلا ل سمجھتے ہیں ۔ کیوں ؟

4.

 اگر اس معیار کو وحی الہیٰ کے تابع نا رکھا جائے اور اندھا دھند اسکا استعمال کیا جائے تو اس معیار پر قرآن کی بعض آیات پوری نہیں اترتیں،

(ا)ہم دیکھتے ہیں قرآن ہی کی ایک آیت دوسری کے مخالف یا متعارض نظر آتی ہے ، مثلاًارشاد باری ہے

.اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ١ۚ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ(القصص:56)”(اے محمد!) تم جسے چاہو ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے ہدایت دےسکتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے”

لیکن دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

.وَ اِنَّكَ لَتَهْدِيْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍۙ.)الشوریٰ: 52)”اور بے شک (اے محمد!) تم سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتے ہو”

(ب)قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ قرآن لوگوں کے لیے ہدایت ہے لیکن ایک آیت میں ہے کہ:

{ یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا } (البقرۃ)اللہ اس کے ذریعہ بہت سوں کو گمراہ کردیتا ہے۔

یعنی قرآن ذریعہ گمراہی بھی ہے اور یہ قرآنی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے کہ قرآن لوگوں کو گمراہ کرے، لہٰذا یہ آیت معیار پر پوری نہیں اترتی، تو اس آیت کے متعلق کیا کہیں گے ؟

(ج) قرآن مجید میں متعدد جگہ حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا ہے، ہر جگہ یہی ہے کہ ابلیس فرشتہ تھا، مثلاً:

{ وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ } (البقرۃ)جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔

یہ ہے تعلیمات قرآنی اب اس تعلیمات قرآنی کے خلاف ہمیں یہ آیت ملتی ہے۔{ کَانَ مِنَ الْجِنِّ } (الکھف)ابلیس جنوں میں سے تھا۔

بتائیے کیا یہ آیت بھی قرآنی تعلیمات کے منافی ہونے کی وجہ سے جعلی ہوگئی؟

کیا ہم وہی الفاظ استعمال کرسکتے ہیں جو ایسی حدیث کے متعلق منکرین حدیث استعمال کرتے ہیں ، اس قسم کی تقریباً سو آیات پیش کی جاسکتی ہیں جو تعلیمات قرآنی کے خلاف نظر آتی ہیں، تو کیا وہ اس مجوزہ معیار پر پوری نہ اترنے کے باعث جعلی کہی جاسکتی ہیں، اور اگر جعلی نہیں اور حقیقت بھی یہی ہے تو پھر یہ معیار جعلی ہے، باطل ہے۔ یہ کلیہ بنانا محض دھوکا ہے۔اسی طرح کی آیات میں بظاہر جب تعارض معلوم ہوتا ہے ہم تھوڑے سے غوروفکر سے ان میں تطبیق پیدا کرلیتے ہیں توپھرحدیث کے معاملے میں محض حدیث کا ظاہر دیکھ کر انکار کیوں کیا جائے ؟ جو لوگ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن اور رسول اللہﷺ کے قول و فعل میں تعارض یا خلاف نہیں ہوسکتا اور وہ اگر ایسے مقامات پر تطبیق پیدا کرلیں تو ان پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ اگر ان آیات کا باوجود قرآنی تعلیمات کے منافی ہونے کے کوئی مقام ہے اور کوئی مطلب ہے تو وہی مقام اور وہی مطلب حدیث کے لیے بھی کیوں نہیں ہوسکتا ہے؟

معیار دوم، رسول اللہ ﷺ کی توہین:


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف جو روایت ہوگی وہ رد کی جائے گی۔یہ اصول بھی ہر محدث کا ہے منکرین حدیث کوئی نیا اجتہاد نہیں لائے کہ قرآن کے خلاف ہر روایت رد ہے، شان نبوت کے خلاف ہر روایت رد ہے، قرآن وحدیث سے کسی مسئلہ میں جو مسلمہ اصول منقول ہو اسکے خلاف روایت متروک ہے اس اصول کو سامنے رکھ کر ہر ایک نے استخراج کیا۔ وہ جس شخصیت کو مجروح کرتے ہیں پھر اسکی کوئی بات نہیں لیتےخواہ کتنی ہی اعلی پائے کی کیوں نہ ہو البتہ جس شخصیت کو قابل قبول گردانیں اسکی بات کو کتاب اللہ اور سنت پر پیش کرکے ردواخذ کا فیصلہ کرتے ہیں۔اب کچھ کوتاہ عقلوں کو ان میں یہ مخالفتیں نظر آنے لگی ہیں تو قصور چاند کا نہیں انگلی پر لگی ہوئی نجاست کا ہے حضور چاند سڑا ہوا نہیں نکلا ۔

اور اگر یہ سب تسلیم بھی کرلیا جائے تو جن کتب کو اور محدثین کو غیر معتبر ثابت کرنے پر حواس خمسہ مع متعلقات کا زور صرف ہورہا ہے ان میں یہ تمیز کس اصول کی بناء پر پیدا کی جائے گی کہ اسی شخص کی یہ بات درست ہے اور یہ غلط؟ اس بات کا جواب صرف اسی سے ممکن ہے جسکی جرح وتعدیل کسی اصول کے مطابق ہو۔اندھی لاٹھی چلانے والا اسی طرح ہنومان کا نائب بن کر اپنی لنکا ہی جلا سکتا ہے اور کچھ نہیں۔لہذا دو میں سے ایک کام کیجئے۔یا تو اصول ظاہر کردیجئے یا اصل نیت۔

اگر آپ کی نیت درست ہے تو یہ اصول اسی انداز میں قرآن پر اپلائی کرکے دیکھیے اگر قرآن کی کسی آیت سےر سول اللہﷺ کی سیرت بظاہر واغدار معلوم ہوتی ہو تو کیا آپ یہی ردعمل وہاں بھی ظاہر کریں گے ؟ کیا پھر قرآن کی اس آیت کو بھی (نعوذباللہ) مردود سمجھا جائے گا۔ مثلاً قرآن میں ہے:

1.

 عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤىۙ اَنْ جَآءَهُ الْاَعْمٰى.) عبس: 1-2)”اس نے تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا کہ اس کے پاس ایک نابینا آیا

“یہ آیت ایک اخلاقی عیب کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ جس سے آپ کی سیرت داغدار ہوتی ہے۔

2.

 .اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًاۙلِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ.) (الفتح: 1-2)”بے شک ہم نے آپ کو فتح مبین دے دی ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردے”۔

3.

 .وَ لَوْ لَاۤ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ اِلَيْهِمْ شَيْـًٔا قَلِيْلًاۗ.)(بنی اسرائیل: 74)”اور اگر ہم تمہیں ثابت قدم نہ رکھتے تو تم کسی قدر ان (مشرکین مکہ) کی طرف مائل ہو ہی چلے تھے”

بتایے! کیا یہ آیت رسول اکرم ﷺ کے کسی کمزور پہلو کی نشاندہی نہیں کر رہی ؟ اور اس سے آپﷺ کی سیرت داغدار نہیں ہوتی؟اب سوال یہ ہے کہ اگر یہی باتیں قرآنی آیات کے بجائے احادیث میں مذکورہوتی تو کیا انہیں یکدم مسترد نا کردیا جاتا ۔ بات در اصل یہ ہے کہ بھول چوک اور لغزش انسانی فطرت میں داخل ہے اور اس سے انبیاء بھی مبرا نہ تھے۔ انبیاء کی عصمت کا مطلب صرف یہ ہے کہ ان کی لغزشوں پر انہیں مطلع کر دیا جاتا ہے۔

اسی طرح باقی انبیاء کے متعلق آیات ہیں :

حضرت موسیٰ علیہ السلام :{ وَ اَلْقَی الْاَلْوَاحَ وَ اَخَذَ بِرَاْسِ اَخِیْہِ یَجُرُّہٗٓ اِلَیْہِ } (الاعراف)موسیٰ علیہ السلام نے تورات کو پٹخ دیا، اور اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کا سر پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹا۔حضرت ہارون علیہ السلام بالکل بے قصور تھے، انہوں نے کہا:{ لَا تَاْخُذْ بِلِحْیَتِیْ وَ لَا بِرَاْسِیْ } (طہ)میرے سر اور داڑھی کو نہ پکڑئیے۔

میں بالکل بے قصور ہوں، انہوں نے میرا کہا نہ مانا، اور بچھڑا پوجا وغیرہ وغیرہ ،

کہیے کیا ان آیات میں موسیٰ علیہ السلام کی توہین نہیں ہے کہ غصہ میں آکر کتاب الٰہی کو دے پٹخا، اور اللہ کے ایک مقدس پیغمبر کو مارا، اس کی بے عزتی کی، اور یہ سب کچھ بغیر تحقیق و تفتیش کے کر ڈالا۔

حضرت یعقوب : { وَرَفَعَ اَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَہٗ سُجَّدًا } (یوسف)یوسف علیہ السلام نے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا اور وہ سب حضرت یوسف کے لیے سجدہ میں گر گئے۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایک رسول نے دوسرے رسول کو سجدہ کیا، بلکہ رسول نے اپنے بیٹے کو سجدہ کیا، کیا یہ انبیاء کی توہین نہیں، کہ نعوذ باللہ اس قسم کے شرک کا ارتکاب کرتے رہے، کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ اکبر اور جہانگیر کے دور میں جو سجدہ بادشاہ کو کیا جاتا تھا، اس کا ماخذ یہی قرآنی آیات تھیں۔

حضرت لوط علیہ السلام :حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کے مقابلہ میں فرمایا:{ لَوْ اَنَّ لِیْ بِِکُمْ قُوَّۃً اَوْ اٰوِیْٓ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ }کاش مجھے تمہارے مقابلہ کی طاقت ہوتی، یا میں کسی مضبوط قلعہ میں پناہ گزین ہوتا۔

کیا یہ توہین نہیں ہے کہ اللہ کا نبی بجائے اللہ کا سہارا ڈھونڈھنے کے دنیاوی وسائل کا سہارا تلاش کر رہا ہے۔

الغرض ان آیات اور ان جیسی دوسری آیات سے (جن کو بخوف طوالت قلم انداز کر رہا ہوں) توہین انبیاء ظاہر و باہر ہے، کوئی اللہ کی نافرمانی کر رہا ہے، ، کوئی حمیت قومی میں سرشار، کوئی کتاب الٰہی اور رسول اللہ کی توہین و تذلیل کرتا نظر آرہا ہے کوئی غیر اللہ کو سجدہ کرتے دکھایا گیا ہے، کوئی اللہ کے بجائے قوت اور قلعہ کی پناہ تلاش کر رہا ہے ، کوئی سانپ سے ڈر کر بھاگ رہا ہے، ، کوئی کسی کی جدائی میں روتے روتے بینائی کھو دیتا ہے، ، کوئی بغیر اجازت کفار کی بستی چھوڑ کر ہجرت کر جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ کہیے ان آیات کے متعلق کیا خیال ہے؟

معیار سوم، توہین صحابہ و ازواج مطہرات ؓ:


1-

 سورہ تحریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک راز کی بات کا ذکر کرتے ہوئے دو

 ازواج مطہرات

 کے سلسلہ میں فرمایا:

(.اِنْ تَتُوْبَاۤ اِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا.)(التحریم: 4)”اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کر لو تو (یہی بہتر ہے ورنہ) تمہارے دل ٹیڑھے ہوگئے ہیں۔”

2-

 سورہ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات ؓ کے دنیوی زندگی اور اس کی زیب و زینت کی طرف میلان کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:

.يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَ زِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا.) الاحزاب: 28)”اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت کی طلب گار ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دے دوں اور تمہیں اچھی طرح رخصت کردوں”

گویا ازواج مطہرات ؓ کا یہ میلان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نظروں مین اتنا ناپسندیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کو حکم دیا کہ اگر وہ اپنے اس میلان سے باز نہیں آتیں تو ان سب کو طلاق دے کر رخصت کر دو۔ بتلائیے! یہ زواج مطہرات ؓ کی صریح توہین نہیں؟

صحابہ کرام

 ؓ کی بات سنئے! صحابہ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں:

1-

 (.وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوَا ا۟نْفَضُّوْۤا اِلَيْهَا وَ تَرَكُوْكَ قَآىِٕمًا.) (الجمعہ: 11)”اور یہ لوگ جب کوئی تجار ت یا تماشا دیکھتے ہیں تو اس کی طرف چلے جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا چھوڑ جاتے ہیں”

2-

 (.وَ اِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ يُجَادِلُوْنَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَيَّنَ كَاَنَّمَا يُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَ هُمْ يَنْظُرُوْنَ.)(الأنفال: 5-6)

“اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس کو گراں سمجھتی تھی۔ وہ اس حق کے بارے میں اس کے بعد کہ اس کا ظہور ہوگیا تھا، آپ سے اس طرح جھگڑ رہے تھے کہ گویا کوئی ان کو موت کی طرف ہانکا جا رہا ہے اور وہ دیکھ رہے ہیں۔”

3-

 (.عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَ عَفَا عَنْكُمْ.)(البقرہ: 187)

“اللہ تعالیٰ نے معلوم کرلیا تم اپنی جانوں سے خیانت کرتے تھے۔ پس اللہ رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجہ ہوا اور تمہارا قصور معاف فرمادیا۔”

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ کرام ؓ خطبہ جمعہ کے وقت تجارت کا مال یا کوئی تماشا دیکھ کر نبی اکرمﷺ کو کھڑا چھوڑ جاتے تھے۔ بعض جہاد کو ناپسند کرتے تھے۔ بعض ماہ رمضان میں رات کو مباشرت کرلیتے تھے اور بعض نے جنگ احد میں بزدلی بھی دکھائی اور رسولﷺ کی نافرمانی بھی کی تھی۔ اب دیکھئے ان واقعات سے کبار صحابہ ؓ کی توہین ہوتی ہے یا نہیں؟ اگرمنکرین حدیث ان ہی واقعات کی تشریح یا ایسی کوئی دوسری بات ذخیرہ احادیث میں دیکھ لیں تو اسے جعلی قرار دے دیں کہ اس سے صحابہ کی توہین ہوتی ہے ۔کیا اسی اندھا دھند انداز میں بغٖیر تحقیق کیے قرآنی آیات کے متعلق بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ کیونکہ یہ اس معیار پر قرآنی آیات بھی پوری نہیں اترتیں اس لیے یہ بھی من گھڑت ہیں ؟

دوسری قسط :معیارِقبولِ حدیث:خلاف علم/عقل/مشاہدہ ناہو