قرآن اورثابت شدہ سائنسی حقائق

قران مختلف زمانوں میں مختلف عقول کو کس طرح متاثر کرتا ہے؟ اسکے لیئے ہمیں قران کی کچھ زبردست آیات میں ڈوبنا پڑیگا۔ پھر ہم سمجھ پائینگے کہ ہر دور کا ذہن قران سے کسطرح مستفید ہو سکتا ہے۔

مدار(بشمول سورج کا مدار)۔:

“اور وہی ہے جس نے دن اور رات اور سورج اور چاند کو تخلیق کیا۔ اور سب اپنے اپنے مداروں میں تیر رہے ہیں۔” (قران 21:33)

ساتویں صدی عیسوی میں، جب قران نازل ہوا اسوقت سورج اور چاند کی حرکت کو بیان کرنے کیلئے قران نے “یسبحنا” کا لفظ استعمال کیا، جسکا معنی “تیرنا” ہے۔ اس (تیرنے سے مماثل) حرکت کا مشاہدہ ایک صحرا کا بدوی عرب بھی کر سکتا تھا اور آج بھی یہ لفظ ہمارے لیئے اتنا ہی با معنی ہے۔ اجرام فلکی کی نقل و حرکت کے ہمارے سائینسی فہم سے بھی یہ لفظ زبردست مطابقت رکھتا ہے۔مستنصر میر، جو ینگ ٹاؤنsunmilkyway-580x580 سٹیٹ یونیورسٹی میں اسلامیات کے پروفیسر ہیں، انہوں نے بھی اسی نکتے کو انہی الفاظ میں بیان کیا ہے۔ (Nidhal Guessoum. Islam’s Quantum Question: Reconciling Muslim Tradition and Modern Science, 2011, p. 152)

دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ آیت سورج کہ بارے میں بھی یہی بتا رہی ہے کہ وہ بھی اپنے مدار میں تیر رہا ہے۔ یہ چیز ساتویں صدی کے اس نظریے سے بالکل الٹ ہے جسکے مطابق زمین کائینات کا مرکز ہے اور باقی تمام اجرام فلکی اسکے گرد گھوم رہے ہیں۔ اور قران کی زبان کا تجزیہ کیا جائے تو یہ اکیسویں صدی کے فلکیات کے تصور سے بھی اتنی ہی مطابقت رکھتی ہے، جسکے مطابق سورج “ملکی وے” کہکشاں میں اپنے مدار پر چلا جا رہا ہے۔ سائیسدانوں کے مطابق سورج کو ملکی وے میں اپنا چکر پورا کرنے میں 226 ملین سال لگتے ہیں۔


: (Embryo)انسانی جنین

ثم خلقنا النطفۃ علقۃ

“پھر ہم نے نطفے کو جمے ہوئے خون کی شکل دی۔”( قران 23; 14)

قران نے یہاں “علقہ” کی اصطلاح استعمال کی ہے جسکا مطلب بیک وقت “خون کا لوتھڑا” بھی ہے اور “ایک چپکا ہوا مادہ”، جیسا کہ “جونک”، بھی۔ (Embryology in the Qur’ān: The ‘Alaqah Stage’, Elias Kareem. Accessed here ) یہ لفظ جنین کی رحم مادر میں نشونما کے ایک مرحلے کو بیان کرتا ہے۔جنین، بطور ایک جونک نما مادہ اور خون کا لوتھڑا، قدیم یونانی اور عبرانی اطباء کی اسکی وضاحت سے بھی مطابقت رکھتا ہے جنکا زمانہ نزول قران سے بہت پہلے کا ہے۔(Corpus Medicorum GraecorumGaleni de Semine, (Galen: On Semen) pp. 92 – 95) اس لحاظ سے یہ اس دور کے سائینسی تصور ddسے بھی ہم آہنگ ہے۔

حیران کن طور پہ “علقہ” کا جو معنیٰ “جونک نما” کا ہے، اسکے مطابق وہ جونک کی بیرونی اور اندرونی ساخت سے اسکی مشابہت کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔(تفصیل) جنین کا یہ تصور پندرہویں صدی عیسوی سے پہلے دریافت نہیں ہو سکتا تھا۔ اگرچہ جنین کا حجم استقرار حمل کے بائیسویں یا تئیسویں دن گندم کے دانے کے برابر ہوتا ہے اور بغیر کسی آلے کے آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے، لیکن اسکا تفصیلی معائینہ مائیکروسکوپ کے بغیر ممکن نہیں،(تفصیل) جسکی ایجاد پندرہویں صدی میں ہوئی۔(وکی پیڈیا

عکس 1: جنین (ایمبریو) کا جونک کی بیرونی ساخت سے موازنہ

(سب سے اوپر والے عکس میں 3ملی میٹر حجم کا جنین پچیسویں دن پر دکھایا گیا ہے۔ درمیان والا عکس جونک کا ہے۔ سب سے نیچے والی تصویر انسانی جنین کا چھبیس سے تیس دنوں کے درمیانی عرصے کے دوران جدید ترین الیکٹران مائیکروسکوپ سے لیا گیا عکس ہے۔ دونوں میں مشابہت صاف دکھی جا سکتی ہے۔)

عکس 2: جنین (ایمبریو) کا جونک کی اندرونی ساخت سے موازنہ

ایک اور دلچسپ اور قابل غور بات یہ ہے کہ ایمبریو کو جونک کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ جونک ایک طفیلی جاندار ہے: یہ جس جاندار پہ رہتا ہے، اسی کے ساتھ چمٹ جاتا ہے اور 1اسکا خون چوسنا شروع کر دیتا ہے۔ بعینہٖ ایمبریو بھی اپنی ماں کے اثاثہ جات کو نچوڑ لیتا ہے۔ لہٰزا ہمیں انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے والدین کے ساتھ رحم کا سلوک کرنا چاہیئے، بالخصوص اپنی ماؤں کے ساتھ کہ انہوں نے جانتے بوجھتے ہماری پیدائیش کی خاطر اپنے جسمانی وسائل کی قربانی دی۔ یہ بات ہمیں اس چیز کی بھی یاد دہانی کرواتی ہے کہ ہم حقیقی معنوں میں خود مختار، خود کفیل اور آزاد نہیں۔ رحم مادر میں بھی ہم اپنی ماؤں کے محتاج ہوتے ہیں۔ اس سے ہمارے اندر عاجزی پیدا ہونی چاہیئے کہ ہمیں ایک دوسرے پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور آخری سہارا تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ہی ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ جونک اور انسانی جنین کے درمیان یہ تقابل لارڈ رابرٹ ونسٹن نے بھی کیا ہے جو “سائینس اینڈ سوسائیٹی” کے پروفیسر ہیں اور ساتھ ہی امپیریل کالج میں تولیدی علوم کے اعزازی پروفیسر بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں:

“جونک جس جاندار کے ساتھ بھی چمٹ کر اسکا خون چوس کے اپنی ضروریات زندگی حاصل کر سکتی ہو، وہ ایسا کر لیتی ہے؛ اور فرض کریں کہ اس مثال میں اسکا ذریعہ میں ہوں۔ جیسے ہی وہ میرا خون چوستی ہے، وہ اس میں سے ہر وہ چیز حاصل کر لیتی ہے جو اسے زندہ رہنے کیلیئے درکار ہے۔ وہ عملی طور پہ مجھ پہ پل رہی ہوتی ہے۔ حمل کا پورا دورانیہ بھی اسی قسم کے طفیلی تعلق کی مثال ہے۔ جونک کے برعکس ایمبریو اپنی ماں کا خون تو نہیں چوستا پر ہر وہ اس میں سے ہر وہ خام مال لوٹ لیتا ہے جو اسے اپنی نشونما کیلیئے درکار ہوتا ہے۔ یعنی پہلے دن سے ہی جونک اور ایمبریو صرف اور صرف اپنی ذات کیلئے سرگرم ہوتے ہیں۔”۔موضوع متعلق مزید ریسرچ کے لیے سائیٹ


کائینات کا پھیلنا:

“آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا اور ہم ہی اسے توسیع دینے والے ہیں۔” ( قران 51:47)

قران ہمیں بتا رہا ہے کہ اللہ نے کائینات کو اپنی قدرت کاملہ اور قوت سے تخلیق فرمایا اور وہی اسے وسعت دے رہا ہے۔ یہاں جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ ہے، “لَمُوسِعُون” جسکے معنی ہیں “(ہم اسے) یقیناً وسیع کر رہے ہیں”۔

ساتویں صدی کی تفاسیر میں اسکا مطلب اتنا بیان کیا گیا کہ خدا نے ہماری زندگی کے دوام کیلیئے ایک وسیع اور بار آور کائینات تخلیق فرمائی۔ (تفسیر ابن کثیر) اور یہ بات بآسانی اس دور کے سامعین کو سمجھ بھی آگئی۔ لیکن جو بات حیران کن ہے وہ یہ کہ لفظ “لَمُوسِعُون” کا مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ کائینات کو مسلسل توسیع دیتا چلا جا رہا ہے یا دے چکا ہے۔لموسعون کی لغوی بحث۔ اور یہ بات حیرت انگیز طور پر کائینات کے پھیلاؤ کے جدید شواہد کے ساتھ بھی مطابقت رکھتی ہے۔ موضوع پر تفصیلی تحریر

مستقبل کی دریافتوں پر ایک نوٹ:

جب ہم کسی سائنسی حقیقت اور قرانی آیت یا لفظ میں ربط تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو وہ آیت نئی سائینسی تحقیق، ڈیٹا اور کسی نادر سائیسی حل کی جستجو کیلیئے مہمیز کا کام کرتی ہے۔

اگر ہم سائینس اور قران کے درمیان کوئی با معنی مطابقت یا موافقت پیدا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو گویا ہم اپنے لیئے ایک ایسا دریچہ وا پاتے ہیں جس کے ذریعے مستقبل کی کسی سائینسی ایجاد یا تحقیقی نتائج کا راستہ دکھائی دیتا ہے جو کبھی ایک جاندار تجزیے کی راہ ہموار کر سکے۔ یہ بات اس مفروضے کی بنیاد کو ڈھا دیتی ہے کہ قران میں نقائص یا اغلاط ہیں، قطع نظر اس سے کہ سائینس کیا کہتی ہے۔ اور یہ محض ایک اٹکل کی بات نہیں، ایسے درجنوں متنوع دلائل ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ قران خدائی علامت ہے۔ اگرچہ یہ بات اس بحث کے سکوپ سے باہر ہے کہ ہم اسے تفصیل سے بیان کریں، لیکن قران کے الٰہی کلام ہونے کی سادہ سی دلیل اسکی پیچیدہ زبان کی معجزانہ حیثیت ہے۔

نتیجہ:

قران وہ کتاب ہے جو تدبر کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ قدرت اور سائینس سے متعلق قران کے بیشتر بیانات اپنے اندر یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ متنوع سامعین کو متاثر اور انکی عقول کو مطمئن کر سکیں، خواہ انکا تعلق ساتویں صدی سے ہو یا اکیسویں صدی سے۔ اور انکے پیش نظر یہ کتاب اپنے آپکو ایک قابل مطابقت ضابطہ ثابت ثابت کرتی ہے جسکے قلب میں ایک ناقابل تردید سچائی اور حقیقت ہے۔ یہ چیز یقیناً قاری کو ساچنے پر مجبور کرتی ہے کہ اسکا مصنف کیسا ہو گا۔!!!

قران میں طبعی دنیا کے علوم بھی ہیں اور ہماری روحوں کی تہوں میں پنہاں جہتوں کے بھی۔ یہ ہمارے احساسات، ضروریات اور خواہشات کی عکاسی کرتا ہے۔ قران ہمیں بتاتا ہے کہ ہماری زندگی کا ایک مقصد ہے اور یہ کہ اطاعت خداوندی ہمیں اس دنیا میں اندرونی سکون اور آخرت میں جنت تک پہنچا سکتی ہے۔ اور اس سے اعراض اس دنیا میں ڈپریشن اور اور آخرت میں جہنم تک پہنچانے کا باعث بن سکتا ہے۔

“عنقریب ضرور ہم دکھائینگے انہیں اپنی نشانیاں آفاق (عالم) میں اور (خود) انکے نفسوں میں یہانتک کہ انکے لیئے واضح ہو جائے کہ بیشک وہ (قران) ہی حق ہے اور (بھلا) کیا کافی نہیں آپکا رب (اس بات پر) کہ بیشک وہ ہر چیز پر گواہ ہے؟” (قران 41:53)