ہم شروع میں لکھ چکے ہیں کہ وحی ان معاملات میں اللہ کی طرف سے رہنمائی کی ایک شکل ہے،جن کا ادراک نری عقل سے نہیں ہوسکتا،اور چونکہ وحی کا مشاہدہ انبیا علیہم السلام کے سوا کسی اور کو نہیں ہوتا،اسلئے اس کی ٹھیک ٹھیک کیفیت کا اندازہ بھی کسی اور کو ممکن نہیں،یہی وجہ ہے کہ آج کی وہ دنیا جو مغربی افکار کے ہمہ گیر سیلاب سےمرعوب ہے اسے یہ باتیں نامانوس اور اجنبی معلوم ہوتی ہیں اور وہ انہیں شک و شبہ کی نظر سے دیکھتی ہے۔پھر بعض لوگ تو کھل کر وحی والہام کا انکار کرکے اسے معاذ اللہ قصہ کہانی سے تعبیر کرتے ہیں اور بعض وہ ہیں جو اس کا کھل کر انکار تو نہیں کرتے لیکن سائنٹفک ترقیات کے اس دور میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے ہی شرماتے ہیں،اسلئے یہاں مختصرا اسکا تذکرہ پیش کیا جارہا ہے کہ خالص عقلی اعتبار سے وحی کی کیا حیثیت ہے؟
ہمارے نزدیک وحی کے مسئلہ پر غور کرنے کیلئے سب سے پہلے طے کرنے کی بات یہ ہے کہ اس کائنات کا کوئی خلاق و مالک ہے یا یہ خودبخود بغیر کسی کے پیدا کیے وجود میں آگئی ہے؟ جہاں تک ان مادہ پرست لوگوں کا تعلق ہے جو سرے سے خدا کے وجود کے منکر ہیں ان سے وحی کے مسئلہ پر بات کرنا بالکل بے سود ہے۔جو شخص خدا کے وجود کا ہی منکر ہو اس کیلئے وحی کی حقیقت پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرکے اسے دل و جان سےقبول کرنا ممکن ہی نہیں۔اسلئے اس سے تو سب سے پہلے خدا کے وجود پر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے۔رہے وہ لوگ جوخدا کے وجود کے قائل ہیں سو ان کیلئے وحی کی عقلی ضرورت،اس کے امکان اور حقیقی وجود کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔
اگر آپ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ یہ کائنات ایک قادر مطلق نے پیدا کی ہے وہی اس کے مربوط اور مستحکم نظام کو اپنی حکمت بالغہ سے چلا رہا ہے اور اسی نے انسان کو کسی خاص مقصدکے تحت یہاں بھیجا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس نے انسان کو پیدا کر کے اسے اندھیرے میں چھوڑ دیا ہو اور اسے یہ تک نہ بتایا ہو کہ وہ کیوں اس دنیا میں آیا؟ یہاں اس کے ذمہ کیا فرائض ہیں؟ اس کی منزل مقصود کیا ہے؟ اور وہ کس طرح اپنے مقصد زندگی کو بروئے کار لاسکتا ہے؟
کیا کوئی شخص جس کے ہوش سلامت ہوں ایسا کرسکتا ہے کہ اپنے کسی نوکر کو کسی خاص مقصد کت تحت سفر پر بھیج دے اور اسے نہ چلتے ہوئے اس کے سفر کا مقصد بتائے اور نہ بعد میں کسی پیغام کے ذریعے اس پر واضح کرے کہ اسے کس کام کیلئے بھیجا گیا ہے اور سفر آخرت میں اس کی ڈیوٹی کیا ہوگی؟ جب ایک معمولی انسان بھی ایسی حرکت نہیں کر سکتا تو آخر اس خداوند قدوس کے بارے میں یہ تصور کیسے کیا جاسکتا ہے جس کی حکمت بالغہ سے یہ سارا نظام چل رہا ہے؟ یہ آخر کیسے ممکن کہ جس ذات نے چاند،سورج،آسمان ،زمین،ستاروں اور سیاروں کا ایسا محیر العقول نظام پیدا کیا ہو ، اپنے بندوں تک پیغام رسانی کا کوئی ایسا انتظام بھی نہ کرسکے جس کے ذریعے انسانوں کو انکے مقصد زندگی سے متعلق ہدایات دی جا سکیں؟ اگر اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ پر ایمان ہے تو یہ ماننا پڑے گا کہ اس نے اپنے بندوں کو اندھیرے میں نہیں چھوڑا بلکہ ان کی رہنمائی کیلئے کوئی باقائدہ نظام ضرور بنایا ہے۔بس رہنمائی کے اس باقاعدہ نظام کا نام وحی و رسالت ہے۔
اس سے صاف واضح ہے کہ “وحی” محض ایک دینی اعتقاد نہیں ایک عقلی ضرورت ہے جس کا انکار درحقیقت اللہ کی حکمت بالغہ کا انکار ہے۔رہی یہ بات کہ وحی کے جو طریقے اوپر بیان کیے گئے ہیں وہ ہماری سمجھ میں نہیں آتے، یہ وحی کو تسلیم نہ کرنے کی کوئی علمی دلیل نہیں۔ جس چیز کی عقلی ضرورت اور اس کا وقوع ناقابل انکار دلائل سے ثابت ہو اسے محض اس بنا پر رد نہیں کیا جاسکتا کہ ہم نے اس کا مشاہدہ نہیں کیا۔۔!
آج سے چند سوسال پہلے اگر کسی شخص کے سامنے یہ ذکر کیا جاتا عنقریب انسان ہوائی جہاز میں پرواز کرکے ہزاروں میل کا فاصلہ چند گھنٹوں میں طے کرلیا کریں گئے تو وہ یقینا اسے پریوں کا افسانہ قراردیتا،لیکن کیا اس کا مشاہدہ نہ کرنے سے ہوائی جہاز کی حقیقت ختم ہوگئی ہے؟
آج بھی پسماندہ علاقوں کے ہزارہا افراد ایسے ہیں جو اس بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں کہ انسان چاندیا خلا میں پہنچ گیا ہے لیکن کیا ان کے انکار کرنے سے یہ غلط ثابت ہو گیا؟ دیہات میں جا کر کسی آدمی سے کمپیوٹر سسٹم کی تفصیلات بیان کیجئے اور اسے بتائیے کہ کس طرح ایک مشین انسانی دماغ کا کام کررہی ہے وہ آپ کے بیانات پر آخر تک شک وشبہے کا اظہار کرتا رہے گا لیکن کیا ان شکوک و شبہات سے کمپیوٹر کے وجود کا خاتمہ ہو گیا ہے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو وہ وحی جس کی عقلی ضرورت مسلم اور ناقابل انکار ہے اور جس کا مشاہدہ دنیا کے ایک لاکھ چوبیس ہزار صادق ترین انسانوں نے کیا ہے(علیکم السلام) اسے محض ان شکوک و شبہات کی بنا پر کیسے جھٹلایا جاسکتا ہے؟
اور آخر وحی کے ان طریقوں میں عقلی بعد کیا ہے؟کیا معاذ اللہ خداتعالیٰ کو وحی کے ان طریقوں پر قدرت نہیں؟ اگر دنیا کے سائنسدان محض اپنی محداد عقل کے بل پر پیغام رسانی کیلئے ٹیلیفون،تار ،ٹیلی پرنٹر،ریڈیو اور ٹیلی وژن کے حیرت انگیز آلات ایجاد کرسکتے ہیں تو کیا اللہ تعالیٰ کو (نعوزباللہ) اتنی بھی قدرت نہیں کہ وہ اپنے بندوں تک پیغام رسانی کا کوئی ایسا سلسلہ قائم فرما دے جو ان تمام ذرائع مواصلات سے زیادہ مستحکم اور یقینی ہو ؟
وحی کی حقیقت یہی تو ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا کلام کسی واسطے کے ذریعے یا بلاواسطہ اپنے کسی پیغمبر پر القا فرما دیتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اس بات کو درست تسلیم کر لینے میں عقلی قباحت کیا ہے؟ وحی کے ثبوت میں کسی انسانی ایجاد یا عمل کی مثال پیش کرتے ہوئے ہمیں تامل ہوتا ہے لیکن بات کو سمجھنے کیلئے یہاں ہم ایک انسانی عمل کو بطور نظیر پیش کرتے ہیں جس میں ایک انسان دوسرے کے قلب و دماغ کو مسخر کرکے اس میں جو خیال چاہتا ہے ڈال دیتا ہے۔
اس عمل کو صوفیا کی اصطلاح میں تصرف خیالی کہا جاتا ہے صوفیائے کرام کے تذکروں میں اس عمل کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں جس کے ذریعے ایک شخص اپنی خیالی قوت کے زور سے دوسرے کے دل و دماغ پہ چھا جاتا ہے کہ اس سے جو چاہتا ہے کہلواتا ہے جو چاہے کرواتا ہے۔۔مادہ پرست لوگ ایک مدت تک اس “تصرف” کی قوت کا بھی انکار کرتے رہے اور انہی کی تقلید میں بہت سے مسلمانوں نے بھی اسے قصہ کہانی سے تعبیر کیا یہاں تک کے اٹھارویں صدی کے وسط میں سوئٹزرلینڈ کا مشہور ماہر طبعیات “میسمر (Mesmer) “پیدا ہوا اس نے انسانی دماغ کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور 1885ء میں اپنے ایک مقالے کے ذریعے انکشاف کیا کہ ایک مقناطیسی عمل کے ذریعے انسان کے دماغ کو مسخر کیا جاسکتا ہے۔اس عمل کو وہ مقناطیسی “عمل تنویم(Anima masnetism)کہتا تھا اور فرانس میں مقیم رہ کر اس نے کامیاب عملی تجربات بھی کیے لیکن وہ اپنے زمانے کے لوگوں کو پوری طرح مطمئن نہ کرسکا،پھر 1842ء میں انگلینڈ میں ایک اور شخص جیمس بریڈ(james Braid) پیدا ہواجس نے اس عمل تسخیر کو سائنٹیفک بنیادوں پر ازسرنو ثابت کرکے اس عمل کا نام “عمل تنویم یا ہپناٹزم (Hypnotism)” تجویز کیا۔
جیمس بریڈ کے تجویز کردہ ہپناٹزم کے مختلف مدارج ہوتے ہیں ۔اس کا انتہائی درجہ تو یہ ہوتا ہے کہ جس شخص پر عمل کیا جائے یعنی معمول(Hypnotised) اس کے جسم کے تمام اعضا و اعصاب بالکل جامد اور بے حس ہو جاتے ہیں اور اسی کے ساتھ حواس ظاہرہ و باطنہ معطل ہو جاتے ہیں لیکن اس کا ایک درمیانی درجہ بھی ہے جس میں جسم بے حس و حرکت نہیں ہوتا،اس کیفیت کا حال بیان کرتے ہوئے ورلڈ فیملی انسائیکلو پیڈیا میں لکھا ہے.
“اگر تنویم کا عمل ہلکا ہو تو معمول اس لائق رہتا ہے کہ وہ مختلف اشیاء کا تصور کر سکے،مثلا اس حالت میں یہ ممکن ہے کہ وہ (عامل کی ہدایات کے زیراثر) اپنے آپ کو کوئی اور شخصیت یقین کرلے اسے کچھ خاص چیزیں (جو فی الواقعہ وہاں موجود نہیں) اسے نظر آنے لگیں یا وہ غیر معمولی حس اپنے اندر محسوس کرنے لگے اس لئے کہ وہ اس وقت عامل کی ہدایات کا تابع ہوجاتاہے”
The World Family Encyclopaedia 1957 P.3426 V.12 1
جیمس بریڈ کی تحقیقات اور تجربات کے بعد ہپناٹزم کو ان مادہ پرست لوگوں نے بھی مان لیا جو اس کے قائل نہیں تھے اور آج کل تو یہ مغربی عوام کی دلچسپی کا بہت بڑا موضوع بنا ہوا ہے ۔سینکڑوں عامل اس کے ذریعے روپیہ کما رہے ہیں ،مریضوں کے علاج میں بھی اس سے کام لیا جارہا ہے اور وہ “تصرف خیالی” جس کا ذکر مسلمان صوفیا کرام کے ہاں صدیوں سے چلا آرہا ہے اور جسے لوگ محض توہم پرستی کہہ کر ٹال دیا کرتے تھے اب ہپناٹزم کے نام سے ایک حقیقت بن گیا ہے اور اب ہمارے زمانے کے وہ عقلیت پسند بھی اسے تسلیم کرنے لگے ہیں جنہیں مسلمانوں کی ہر غیر معمولی بات توہم پرستی اور مغرب کی ہر دریافت سائنٹفک حقیقت نظر آتی ہے۔
بہت کیف عرض یہ کرنا تھا کہ مسمریزم ہو یا ہپناٹزم،اس کی حقیقت سوا اور کیا ہے کہ ایک انسان دوسرے کو مسخر کرکے اپنے خیالات اور اپنی باتیں اس کے دل و دماغ میں ڈال دیتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ جس خدا نے انسان کے تصرف خیالی یا عمل تنویم میں اتنی قوت دی ہے کہ وہ معمولی معمولی مقاصد کیلئے بلکہ بعض اوقات بالکل بیکار دوسرے کے دماغ و دل کو مسخر کرلیتا ہے کیا وہ خود اس بات پر قادر نہیں ہے کہ انسانیت کی ہدایت کی خاطر ایک پیغمبر کے قلب کو مسخر کرکے اپناکلام اس میں ڈال دے؟
(علوم القرآن از جسٹس (ر) مفتی تقی عثمانی)