مسلمانوں کے لیے قرآن کریم کی تدوین وجمع کی تاریخ سے بڑھ کر کوئی قابلِ فخر سرمایہ نہیں ہے۔ وہ نزول کے اوّل دن سے اصحاب ِ رسول کی نگاہوں کےسامنے تھا۔ اُنھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ تیئس سال کے عرصے میں قرآن کِس طرح نبی ﷺ پر نازل ہوتا رہا ہے۔ اِس کے بارے میں کوئی بات اُن سے پوشیدہ نہ تھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ قسم کھاکر کہتے ہیں کہ کتاب اللہ کی ایک آیت بھی ایسی نہیں جِس کے بارے میں انھیں معلوم نہ ہو کہ وہ کس کے بارے میں اور کہاں نازل ہوئی ہے؟ حضرت عکرمہؓ سے کسی نے قرآن کی ایک آیت کے بارے دریافت کیا تو انھوں نے کوہِ سلع کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ” یہ آیت اس پہاڑ کےدامن میں نازل ہوئی تھی” (مباحث فی علوم القرآن، ڈاکٹر صبحی صالح ص 132)
صحابہ کرام نے قرآن ِ کریم کی حفاظت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ انھوں نے نبیﷺ سے سُن کر اسے سینوں میں بھی محفوظ کیا اور نوشتوں کی شکل میں مدوّن کیا۔ یہاں تک کہ ان کی یہ کاوشیں تاریخ کا جز بن گئیں۔ مگر صحابہؓ کی نسل ختم ہوتے ہوتے حالات دگرگوں ہوگئے۔ مختلف فتنوں نے سرابھارا۔حقائق غبارآلود ہوگئے اور جوں جوں زمانہ گزرتاگیا لوگوں پر خواہشاتِ نفس کی گمراہیوں اور راویوں کے ادہام کی تہیں جمتی گئیں۔ اس طرح کچھ عرصہ کے بعد تحقیق کرنے والے کےلیےمشکل ہوگیا کہ وہ رطب ویابس روایات کے انبار میں سے حقائق کا استنباط کرسکے۔
اس وقت جن لوگوں نے اس تاریخ کو ازسرِ نو رقم کرنے کی کوشش کی انھوں نے بس یہ کیا کہ پوری امانت داری کےساتھ ایسی تمام روایات نقل کردیں اور اس کی کچھ پروا نہیں کی کہ ان میں سے بعض روایتیں باہم متناقض ہیں یا ان میں عقل و منطق سے بعید تر باتیں موجود ہیں۔ متن اور سند کے نقد کا، اگرچہ شرعی وقانونی مباحث میں اہتمام ملتا ہے، لیکن تاریخ (تدوین قرآن)کو بیان کرنے میں اس کا کوئی واضح اثر دکھائی نہیں دیتا۔ مسلمانوں کی سہل انگاری سے دشمنانِ اسلام کوموقع مل گیا۔ چنانچہ مستشرقین نے اپنے مخصوص استشراقی طریقہ کار (جوظن وتخمین، قیاسات اور ادہام پر مبنی ہوتاہے) سے کام لےکر
(تاریخ خصوصا )تاریخ قرآن کے بارے میں شبہات پیدا کیے اور اس طرح اس دین کی بنیادوں کو متزلزل کرنے کی کوشش کی۔
تاریخ جمع و تدوینِ قرآن کے موضوع پر جو کتابیں پائی جاتی ہیں ، خواہ وہ قدماء کی ہوں یا جدید مصنفین کی، جو شخص ان کا مطالعہ کرے گا اور جائزہ لےگا وہ دیکھے گا کہ ان میں بڑی حد تک یکسانیت اور مشابہت پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سب نے ایک طرح کے مصادر سے معلومات حاصل کی ہیں اور روایات پر نقد و تبصرہ کی کسی خاص جدّ وجہد کے بغیر انھیں جوں کا توں نقل کرلیا ہے۔ اگر کسی نے کچھ کوشش بھی کی تو بہت سرسری ، جس سے حقائق نکھر کر سامنے نہیں آ پاتے۔ اکثر وہ خود بحث و تحقیق کی زحمت گوارا نہیں کرتے اور بس ان مصادر کا حوالہ دے دینے پر اکتفا کرتے ہیں۔
مسلمانوں کے شایانِ شان یہ تھا کہ وہ جمع و تدوینِ قرآن کی تاریخ کی اہمیت محسوس کرتے، اس لیے کہ یہ محض ایک کتاب کی تاریخ نہیں ، بلکہ ایک دین کی تاریخ کا معاملہ ہے اور محض ایک دین کی تاریخ نہیں بلکہ ایک تہذیب کی تاریخ اس سے وابستہ ہے۔ ایک ایسی تہذیب جس نے انسانیت کو ماضی میں بھی صحیح راہ دکھائی ہے اور اس کا حال اور مستقبل بھی اس سے سنور سکتاہے۔ تاریخ لکھتے وقت ضرورت تھی کہ ایسی ضعیف / موضوع/کمزور روایات سے اعراض کیاجاتا اور ان کی بجائے ایسی روایات پر اعتماد کیا جاتا جو اِن سے زیادہ مستند تھیں اور ان سے حقیقت نکھر کر سامنے آتی۔ لیکن انھوں نے جس طرح سہل انگاری سے کام لیا، اس موضوع پر رطب ویابس روایات جمع کردیں اور ان کی چھان پھٹک کی زحمت گوارا نہیں کی، اس بناء پر مستشرقین و متعصبین کو قرآن کے بارے میں شبہات پیدا کرنے کا پورا موقع مل گیا اور انھوں نے اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ آئندہ سطور میں چند ایسی روایات پیش کی جائیں گی جو قرآن کے بارے میں بعض شبہات اور اعتراضات کا باعث بنیں۔ بعد میں پھر محققین اور علمائے اسلام نے ان کا علمی جائزہ لیا اور ان کا رد کرنے کی قابل ِ قدر خدمات انجام دی ہیں۔
تدوین قرآن کے متعلق روایات:
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نبی ﷺ کو قرآن کریم زبانی یاد تھا۔ آپ اسے دہراتے رہتے تھے اور آپﷺ نے نصِّ قرآنی کو لکھوا بھی لیا تھا۔ کتابت وحی کےلیے آپﷺ نے بعض صحابہ کو متعیّن کررکھا تھا۔ روایات میں ان کی تعداد تینتالیس آئی ہے۔ روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مکہ میں آنحضرت ﷺ کے حکم پر وحی کی کتابت کرنے والے عبداللہ بن ابی سرح تھے۔ کاتبینِ وحی میں خلفاءِ اربعہ، حضرت زبیربن العوام ؓ حضرت خالد بن سعیدؓ اور حضرت ابان بن سعیدؓ وغیرہ کا بھی نام آتا ہے۔ نبی ﷺ کےلیے کتابتِ وحی کی خدمت سب سے زیادہ حضرت زید بن ثابتؓ نے انجام دی۔ (تاریخ القرآن ، ابوعبداللہ الزنجانی، ص42)
ہم تحریر’ تدوین قرآن عہد رسالت میں ‘ اس پر تفصیل پیش کرچکے ہیں ۔ کتبِ حدیث میں ایسی بہت سی احادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول ﷺ کاتبینِ وحی کو قرآن املا کراتے تھے تو ساتھ ہی یہ بھی بتاتے تھے کہ آیات کو کس ترتیب سےلکھیں اور کون سی آیت کس سورت میں کس جگہ رکھیں۔ جامع ترمذی میں حضرت عثمانؓ سے مروی ہے کہ بسااوقات رسول اللہﷺ پر کئی کئی سورتیں نازل ہوتی رہتی تھیں۔ جب قرآن کا کچھ حصہ نازل ہوتا تو آپ کسی کاتبِ وحی کو بلاتے اور فرماتے:” ان آیات کولکھ کر فلاں سورت میں شامل کردو” کبھی ایک آیت نازل ہوتی تو آپ فرماتے:” اس آیت کو فلاں سورت میں فلاں جگہ رکھ دو۔” (جامع ترمذی، 110/225، ابواب التفسیر،سورہ التوبۃ، حدیث نمبر1)
یہ بات واضح ہے لیکن پھر ان مستند روایات کے ہوتے ہوئے انتہائی کمزور اور ذومعنی اور ظاہری طور پرحقائق کے بالکل خلاف روایات کو بھی کتابوں میں جگہ دی جاتی ہے اور اچانک یہ حقائق بعض کم زور روایات کی دھندلاہٹ میں گم ہوجاتے ہیں۔ مثلاً سیوطی نے اپنی کتاب الاتفان میں امام زہری کی سند سے عبید نامی ایک راوی سے یہ روایت کی ہے کہ حضرت زیدبن ثابتؓ نے فرمایا:” رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی، اس وقت تک قرآن کسی چیز میں جمع نہیں کیا گیا تھا۔”
اس روایت نے مستشرقین کو اپنا منجن بیچنے کا بھرپور موقع دیا۔ حالانکہ اس روایت کی سند پر کلام کیا گیا ہے۔ اس میں ایک راوی ابراہیم بن بشار معتبر نہیں ہے۔ اس سے بہت سی منکر روایتیں مروی ہیں۔ دوسرا راوی عبید جس سے زہری نے روایت کی ہے، کون ہے؟ اس کا علم رجال اور طبقات کی کتابوں سے نہیں ہوتا۔( دراسات فی القرآن،ڈاکٹر سید خلیل ص 88)
اس کے باوجود یہ روایت مستشرقین کی نظر میں راجح ہے ، انہوں جنگ یمامہ میں حفاظ کے شہید ہونے ہونے والی روایت کو ساتھ ملا یا اور اعتراض جڑ دیا کہ جنگِ یمامہ میں جب بہت سے حفّاظ ِ قرآن شہید ہوگئے تو حضرت عمرؓ اور ابوبکرؓ کو قرآن کے ضائع ہوجانے کا اندیشہ ہوگیاتھا۔ اگر قرآن تحریری شکل میں اور یک جا موجود ہوتا تو ان حضرات کے خوف کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ (آرتھر جفری، کتاب المصاحف)
اگر اس پہلی روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی اس سے تحریری طور پر موجود مختلف چیزوں کوجمع کرنا مراد لیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ امام خطابی فرماتے ہیں ” یعنی اس وقت تک قرآن کو نزولِ وحی مکمل ہونے کے اِنتظار میں ایک مصحف کی شکل میں ایک جگہ جمع نہیں کیا گیا تھا۔ جب نبی ﷺ کی وفات کےساتھ نزولِ وحی کی تکمیل ہوگئی تو اللہ تعالٰی نے آپﷺ کےخلفائے راشدین کو اس کام کا الہام کیا، تاکہ اس نے حفاظت ِ قرآن کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا ہو۔”( الاتقان فی علوم القرآن،سیوطی،1/57)
اسی طرح مستشرقین کو اپنے نقطہ ءِ نظر کی تائید کرنے والی مزید کئی کمزور اور گھڑی ہوئی روایتیں مل گئیں ۔ مثال کے طور پر ابنِ ابی داؤد ابن شہاب کی سند سے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتےہیں:” ہمیں معلوم ہوا ہےکہ بہت سا قرآن نازل ہواتھا۔ لیکن جنگِ یمامہ میں بہت سے صحابہؓ جنھیں پورا قرآن یاد تھا، شہید ہوگئے۔ اس بنا پر قرآن کا خاصا حصہ ضائع ہوگیا اور اسے ضبطِ تحریر میں نہ لایا جاسکا۔( المصاحف۔ ص 23)
ایسی ہی روایات کا سہارا لے کر مستشرقین زور دے کر یہ بات کہتے ہیں کہ نبیﷺ کی حیات ِ طیّبہ میں قرآن کی تدوین نہیں ہوسکی تھی۔ بلاشیر (Blachere) ایک مضحکہ خیز استدلال کرتا ہے :
” قرآن نے ڈرایا ہے کہ وہ دِن دور نہیں جب یہ دنیا فنا ہوجائے گی اور قیامت برپا ہوگی۔ اسی طرح قرآن نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ نبی اپنی آنکھوں سے کافروں کا انجام دیکھ لیں گے۔ اس بنا پر نبیﷺ کی زندگی میں وحی کو مدوّن کرنے کا کوئی محرک موجود نہیں تھا۔ اس لیے کہ یہ عقیدہ پایا جاتا تھا کہ قیامت سے قبل نبی کوموت نہیں آئے گی یا یہ عقیدہ تھا کہ قیامت بہت جلد آنے والی ہے۔”( القرآن، بلاشیر،عربی ترجمہ رضاسعادۃ ص 29-30)
اس نقطہءِ نظر کے پسِ پردہ مستشرقین کا اصل مقصد کیا تھا؟ یہ بات پوشیدہ نہ تھی۔ ان کا مقصد نصِّ قرآنی میں شک و شبہ پیدا کردینا تھا۔ اس لیے کہ اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ حیاتِ نبوی میں قرآن مدوّن نہیں ہوا تھا تو لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ مسلمانوں نے قرآن کی حفاظت حافظہ کے ذریعہ کی اور کسی کا حافظہ خواہ کتنا ہی قوی ہو، طویل عرصے تک وہ تمام باتوں کو محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ اس طرح قرآن کی حیثیت شاعری کے مثل ہوجائے گی جسے عربوں نے حافظہ کے ذریعہ محفوظ رکھا، لیکن اس کا بہت سا حصہ ضائع ہوگیا اور اس میں تبدیلی واقع ہوگئی۔( اثر القرآن فی الدراسات النحویۃ، ڈاکٹر عبدالعال سالم ص4)
۔ واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم اگرچہ نبیﷺ کی حیات ِ طیّبہ میں تحریری شکل میں موجود تھا، لیکن اس کے باوجود حضراتِ شیخین ابوبکر وعمرؓ کے اندیشہ کی وجہ یہ تھی کہ جس طرح وہ لوگوں کے سینوں میں سورتوں اور آیتوں کی ترتیب کےساتھ محفوظ تھا، اس طرح ایک مصحف کی شکل میں مرتب نہیں تھا۔ صحابہؓ کرام اس تحریری سرمایہ کے معتبر ہونے کے گواہ تھے۔ اس لیے انھیں اندیشہ ہوا کہ اگر اسی طرح دیگر جنگوں میں بھی حفّاظ صحابہ شہید ہوگئے تو حافظہ اور تحریری مواد دونوں کی روشنی میں قرآن کے جمع ترتیب کا کام دشوار ہوجائے گا۔( اس پر تدوین قرآن کے سلسلے میں مکمل تفصیل آچکی ہے) (من قضایا القرآن ۔ص66)
قرآن کی کتابت کے لیے استعمال ہونے والی چیزیں :
مستشرقین نے اپنے نقطہءِ نظر کی تائید کےلیے بعض دیگر ایسی روایات کا سہارا لیا ہے جو صراحۃً یا کنایۃً ان شکوک و شبہات کو تقویت دیتی ہیں۔ مثلاً وہ روایات جو علماءِ اِسلام کی کتابوں میں عام ہیں کہ عہدِ نبوی میں کتابت وحی کےلیے استعمال ہونے والی چیزیں سخت مادوں کے قبیل سے تھیں، مثلاً پتھر کی سلیں، ہڈیاں اور کھجور کی ٹہنیاں وغیرہ، ان چیزوں کا تذکرہ حضرت زید بن ثابت ؓ سے مروی مختلف روایات میں آیا ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں جب انھیں جمعِ قرآن کا کام سونپا تو انھوں نے کیا کیا؟ وہ خود بیان کرتےہیں:
” میں کاغذ کے ٹکڑوں، کھجور کی ٹہنیوں ، سفید پتھر کی باریک سِلوں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن نقل کرنےلگا۔”
دوسری روایت میں ہے:
“میں کاغذ کے ٹکڑوں ،کھجور کی ٹہنیوں ،سفید پتھر کی باریک سِلوں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن جمع کرنے لگا۔”
تیسری روایت کے الفاظ یہ ہیں:
“میں لوگوں کے سینوں ،کاغذ کے ٹکڑوں اور پسلی کی ہڈیوں سے قرآن تلاش کرنے لگا۔”
چوتھی روایت یوں ہے :
“میں نے شانہ کی ہدیوں ،کجاوہ کی لکڑیوں، کھجور کی ٹہنیوں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن جمع کیا۔”
پانچویں روایت کے مطابق حضرت زید ؓ فرماتے ہیں:
میں کاغذ ،شانہ کی ہڈیوں،کجاوہ کی لکڑیوں ،کھجور کی ٹہنیوں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن جمع کرنے لگا۔” (کتاب المصاحف ص8،9،20)
یہ روایات مستشرقین کے نزدیک قرآن کے بارے میں شبہات پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ثابت ہوئیں ہیں۔ انھیں ان لوگوں نے اس حیثیت سے پیش کیا کہ ان میں مذکورہ چیزوں پر پورا قرآن ضبطِ تحریر میں لانا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے قرآن کا ایک مکمل نسخہ ایسی جتنی چیزوں پر آئے گا انھیں رکھنے کے لیے بہت بڑی جگہ چاہیے، جب کہ سیرت میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا ہے۔ بلاشیر(Blachere) نے مفروضہ قائم کیا :
” وحی کے اہم حصوں کو ان سخت چیزوں پر لکھنے کا خیال اس وقت آیا جب محمد( ﷺ) نے مدینہ میں سکونت اختیار کی۔ بہرحال قرآن کی تدوین اس کے آغازِ نزول کے بہت بعد میں ہوئی۔ اس لیے کہ ابتدا میں اس کے وسائل اور تدوین میں کام آنے والی چیزیں فراہم نہ تھیں۔”( القرآن،بلاشیر ص29)
اس طرح بلاشیر نے تدوینِ قرآن کے تصوّر کو باطل ٹھہرانے کی کوشش کی ہے۔ اس کے مطابق اگر فرض کرلیا جائے کہ عہدِ نبوی میں تدوین کا عمل انجام پایا ہے تو وہ جزوی طور پر صرف مدینہ میں نازل ہونے والی وحی کے اہم حصوں کا ہے اور اس کا بھی امکان ہے کہ تدوین میں استعمال ہونے والی چیزوں کی خرابی کی وجہ سے کچھ حصے مٹ گئے ہوں، یا کچھ سے کچھ ہوگئے ہوں۔ اس طرح اس نے وہی نتیجہ نکالناچاہا ہے جو اس سے پہلے دیگر مستشرقین نکال چکے ہیں کہ قرآن کو حفّاظ ِ صحابہ کی یادداشت کی بنیاد پرضبطِ تحریر میں لایا گیا اور جمعِ قرآن سے پہلے بہت سے صحابہ وفات پاچکے تھے۔
حیرت ہےکہ متقدمین اور متاخرین علماءِ اِسلام نے ان روایات کو نقل کرنے میں اتنا اہتمام کیوں کیا ہے کہ ان سے یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ کتابت ِ وحی کے لیے استعمال میں آنے والی بس یہی چیزیں تھیں، حالانکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔
یہ بات قرینِ عقل نہیں ہے کہ اہلِ عرب پتھر کی سلوں ،ہڈیوں اور کھجور کی ٹہنیوں کےعلاوہ اور کسی آلہء تحریر سے واقف ہی نہیں تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو مکہ میں نازل ہونے والی آیاتِ قرآنی (جو پورے قرآن کاتقریباً دوتہائی حصہ ہیں ) کو ضبطِ تحریر میں لانے کےلیے بڑی مقدار میں ایسی چیزوں کی ضرورت ہوتی اور انھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے اونٹوں کے ایک قافلے کی ضرورت پڑتی۔ حالانکہ واقعاتِ سیرت میں ایسا کوئی تذکرہ نہیں ملتا کہ نبی ﷺ کی ہجرتِ مدینہ سے قبل یا آپ کے ساتھ اس تحریری سرمایہ کو اونٹوں کے قافلے پر لاد کر مدینہ پہنچایا گیا ہو۔( عن القرآن ، محمد صبیح ص86)
پیش کی گئی روایات میں سے ایک دو میں کاغذ اور چمڑے والی روایات موجود ہیں اور حقیقت سے قریب تر بات بھی یہ ہے کہ اہلِ عر ب آلاتِ تحریر میں سے ملائم اور باریک چیزوں مثلاً چمڑے اور کاغذ وغیرہ سے واقف تھے، خاص طور پر ایسے حالات میں ، جب کہ ہم جانتے ہیں کہ مکہ میں تجارتی ماحول پایاجاتا تھا اور تجارتی معاملات کو ضبطِ تحریر میں لایاجاتا اور حسابات لکھے جاتے تھے۔
سیرتِ نبوی کا یہ واقعہ مشہور ہےکہ قریش نے بنوہاشم کا سماجی بائیکاٹ کرنے کےلیے ایک دستاویز تحریر کی تھی۔ پھر کچھ عرصے کےبعد جب ان میں سے چند لوگوں نے ظلم پر مبنی اس دستاویز کو چاک کردینا چاہا تو پتا چلا کہ پوری دستاویز کو دیمک نے کھالیا ہے ، صرف باسمک اللہم کے الفاظ باقی بچے ہیں۔ یہ قطعی دلیل ہے اس بات کی کہ وہ دستاویز کسی ملائم اور باریک چیز پر لکھی ہوئی تھی۔ مدینہ میں اس طرح کی اور بھی بہت سی تحریروں کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلاً صلح حدیبیہ کی دستاویز، بادشاہوں اور حکمرانوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے کےلیے رسول اللہ ﷺ کے مکاتیب، نبی ﷺ کے گھر میں محفوظ قرآنی تحریریں جنھیں اکٹھاکرکے حضرت زیدؓ نے قرآن مدوّن کیا اور صحابہ کےتیارکردہ بعض ذاتی صحیفے جن میں انھوں نے قرآن لکھ رکھا تھا اور جنھیں حضرت عثمانؓ نے قرآن کے مستند نسخے کی بہت سی نقلیں تیار کروانے کےبعد جلانے کا حکم دے دیا تھا۔
مسلمانوں کا آلاتِ تحریر میں سے ان ملائم اور باریک چیزوں سے واقف ہونا قرینِ قیاس ہے ۔ اس لیے کہ ان کے اردگرد اہلِ کتاب کے بڑے بڑے قبیلے رہتے تھے۔ ان کے پاس ان کی مذہبی کتابیں تھیں جو ان کےمطالعے میں رہتی تھیں۔ قرآن نے بارہا ان کتابوں کی طرف اشارہ کیا ہےاور عربوں سے خطاب کرتے ہوئےان ملائم اور باریک آلاتِ تحریر مثلاً صحف(صحیفوں) اور قراطیس(کاغذ کےٹکڑوں) کا تذکرہ کیا ہے:
اِنّ ھٰذَالَفِ الصُّحُفِ الاُولٰی صُحُفِ اِبرَاہِیمَ وَمُوسٰی ترجمہ : یہی بات پہلے آئے ہوئے صحیفوں میں بھی کہی گئی ہےابراہیم ؑ اور موسٰیؑ کے صحیفوں میں۔
(الاعلیٰ 18-19)
وَلَواَنزَلنَاعَلَیکَ کِتَاباً فِی قِرطَاسٍ فَلَمَسُوہُ بِاَیدِیھِم لَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوآاِن ھٰذَا اِلّا سِحرٌ مُّبِینٌ۔(الانعام7) قُل مَن اَنزَلَ الکِتَابَ الّذِی جَاءَ بِہِ مُوسٰی نُورًا وَّھُدَی لِّلنَّاسِ تَجعَلُونَہُ قَرَاطِیسَ تُبدُونَھَا وَتُخفُونَ کَثِیرًا۔ …(الانعام -91)
اے پیغمبر اگر ہم تمہارے اوپر کوئی کاغذ میں لکھی لکھائی کتاب بھی اتار دیتے اور لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھوکر بھی دیکھ لیتے تب بھی جنھوں نے حق کاانکارکیاہے وہ یہی کہتے کہ یہ توصریح جادو ہے۔ ان سے پوچھو،پھر وہ کتاب جسے موسٰی لایا تھا، جوتمام انسانوں کے لیے روشنی اور ہدایت تھی، جسے تم پارہ پارہ کرکے رکھتے ہو، کچھ دکھاتے ہو اور بہت کچھ چھپا جاتے ہو…. آخر اس کا نازل کرنے والا کون تھا؟
مذکور بالا تفصیل سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ ہم کتابتِ وحی میں ان سخت آلاتِ تحریر (پتھر کی سلوں،ہڈیوں اور ٹہنیوں) کے استعمال میں آنے کی نفی کررہے ہیں۔ ہم صرف اس بات کے منکر ہیں کہ کتابتِ وحی کےلیے کام آنے والی بس یہی چیزیں تھیں، یا انہی چیزوں کو زیادہ تر استعمال کیا گیا۔ ہمارا کہنا یہ ہےکہ ان چیزوں کو ناگزیر ضرورت پر ہی استعمال کیاگیا،مثلاً کبھی ملائم و باریک آلاتِ تحریر کم پڑگئے یا نزولِ وحی کے وقت فوری طور پر وہ دستیاب نہیں ہوئے تو عارضی طور پر قرآن کو ان سخت آلاتِ تحریر پر لکھ لیا گیا اور بعد میں اسے رقعات (چمڑے اور کاغذ وغیرہ )پر نقل کرلیا گیا، جیسا کہ حضرت زیدؓ کی روایت میں اشارہ ملتا ہے۔: کُنًا عِند رَسُولُ اللہ ﷺ نولف القرآن من الرقاع (جامع ترمذی ،ابواب المناقب،مسند احمد 5/185)(ہم رسول اللہﷺ کی خدمت میں رقاع سے قرآن جمع کیا کرتے تھے۔) رقاع رقعہ کی جمع ہے اس کا اطلاق چمڑے پر بھی ہوسکتا ہے ، پتے پر بھی اور کاغذ پر بھی۔ حضرت براءؓ سے مروی بخاری کی روایت میں لوح و کتف(تختی اورشانہ کی ہڈی) کے الفاظ آئے ہیں۔
(القرآن المجید،محمد عزۃ دروزہ ص77-79)
قرات قرآنیہ کے متعلق روایات و شبہات:
جمع و تدوین قرآن کی تاریخ میں ان مکس روایات کی موجودگی کی وجہ سے جو مسئلہ سب سے ذیادہ اختلافات کا شکار ہوا وہ مسئلہ قرات ہے ۔مستشرقین نے ان روایات کو اپنی مرضی سے جوڑ کر قرآن کی ’’قراء ت بالمعنی‘‘ کا نظریہ پیش کیا ۔ انہوں نے قراء توں کے مسئلے کو اس حیثیت سے پیش کیا گویاوہ محض’’ اختیاری ‘‘ ہیں اور قرآن کے الفاظ اورمعانی میں اس کی حد تک تصرّف قابل گرِفت نہیں ہے ۔پھر اس تصور کے ذریعہ انھوں نے مدوّن قرآن کے معانی کی صحت اور اس کے الفاظ کے تحریف اورتبدیل سے محفوظ ہونے کے سلسلے میں شکوک وشبہات وارد کیے۔
ان دعووں کی تائید میں انھوں نے کچھ روایات پیش کیں جو انھیں اِدھر اُدھر سے مل گئیں ۔
مثلاً حضر ت عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا :’’قرآ ن صحیح ہے،جب تک کہ اس کے معانی میں ایسی تبدیلی نہ ہو جائے کہ مغفرت عذاب بن جائے یا عذاب مغفرت ‘‘اورحضرت ابوہرہؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کا ارشاد ہے :
’’قرآن کو جس طرح چاہوپڑھو۔ لیکن ایسا نہ ہو کہ جہاں رحمت کا ذکر ہووہاں عذاب ہو جائے اورجہاں عذاب کا ذکر ہووہاں رحمت ہوجائے ۱ ( ان روایات کے لئے دیکھئے مقدمہ تفسیر الطبری، تحقیق احمد محمد شاکر )
اسی طرح انھوں نے ابوشامہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’قرآن پہلے قریش اور ان کے ارد گرد رہنے والے فصیح عربوں کی زبان میں نازل ہوا،پھر دوسرے عربوں کو اجازت دی گئی کہ وہ الفاظ اور عرب میں اختلاف کے ساتھ اپنی زبانوں میں اس کی قراء ت کرسکیں ۲ ( المرشد الوجیز، ابو شامہ، ص ۹۵)
اسی طرح مستشرقین نے اپنے دعاوی کو مضبوط بنانے کے لیے بعض دیگر روایات کا سہارا لیا ہے۔ انھیں ذیل میں نقل کیا جاتا ہے:
اعمش کہتے ہیں :میں نے حضرت انس بن مالکؓ کو سورؤ توبہ کی آیت ۵۷میں’’لولو الیہ یجمزوں ‘‘ پڑھتے ہوئے سنا۔انھیں توجہ دلائی گئی کہ قرآن میں تو ’’لولو الیہ یجمحون ‘‘ ہے انھوں نے جواب دیا ’’ یجمحون، یجمزون اور یشتدون سب یکساں ہیں ۳ ( ملاخط کیجئے المحتسب، ابن الجنی ص ۷۲)
ایک دوسری روایت میں اعمش کہتے ہیں کہ حضرت انس بن مالکؓ نے سورہ مزّمّل کی آیت۶ میں ’’واصوب قیلا‘‘پڑھا ان سے کہا گیا :اے ابوحمزہ قرآن میں تو’’ واقوم قیلا‘‘ہے۔فرمایا اقوام اصوب اوراھیا سب ایک ہی جیسے ہیں (المحتسب 162)
ابو عبید نے عون بن عبداﷲکی سند سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن مسعودؓ نے ایک شخص کو سورۂدخان کی آیات۳۴،۴۴اَنَّ شَجرَتَ الذَّقَّوم طَعَامُ الاَثیم پڑھائیں ۔ اس نے طَعَامُ الیتیم پڑھا ۔ حضرت ابن مسعودؓ نے کئی مرتبہ دہرایالیکن وہ صحیح تلفظ کے ساتھ نہ پڑھ سکا تو انھوں نے فرمایاطَعَامُ الفاجِرکہہ سکتے ہو؟اس نے کہا:ہاں ۔فرما یا :توہی کہہ لو۳ ( الاتقان۔ سیوطی ۱/۱۳۵)
اس طرح مختلف اصحابہ کے مصاحف سے درج ذیل قراء توں کے حوالے دیتے ہیں مثلا مصحف عبداللہ بن مسعود:
اھد نا الصراط المستقیم (الفاتحہ:۶) کے بجائے ارشد نا اصراط المستقیم ۴ ( کتاب الشواذ، ابن خالویہ ص ۲۵)
ادع لنا ربک(البقرہ:۲۸) کے بجائے سل لناربک۵ ( ملاخط کیجئے، البحر المحیط، ابوحیان ۱/ ۲۵۱
فولو اوجوھکم شطرہ (البقرہ:۴۴) کے بجائے فولو واجو جو ھکم قبلہ ۶ ( البحر المحیط ۱/۴۲۹)
فجلت قلوبھم(الانفال ۔۲) کے بجائے فرقت قلو بھم ۷۶ (البحر المحیط ۴/۴۵۷)
حضرت ابی بن کعبؓ ں :
کلماااضا ء لھم مشوافہ (البقرہ :۲۰) مرو افہ ،مضو فیہ ۱ (المبحر المحیط ا/ ۹۰)
للذین یو لون من نسا ء ھم(البقرہ :۲۲۶) للذین یقسمون نساء ھم ۲ ( ایضاً ۲/ ۱۸۳)
وجلت قلو بھم(الا نفال )۲ فزعت قلوبھم ۳ ( ایضاً ۵/ ۳۰۱)
حضرت ابن عباسؓ:
وان عزمو الطلاق (البقرہ:۲۲۷) وان عز مو اسراح۴ (ایضاً ۲/ ۱۸۰)
لمن اراد ان یتم الرضامۃ(البقرہ :۲۰۳) ان یکمل الرضاعۃ۵ (ایضاً ۲/۲۱۳)
مصحف ِعائشہ اُمّ المؤمنینؓ
اس میں سورة البقرة کی آیت238 یوں تھی:
حافظوا علی الصلوات والصلاة الوسطی وصلاة العصر
مستشرقین کا یہ کہا ہے کہ جس طرح رسول اﷲصلی علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو ایک لفظ کی جگہ اس ہم معنی دوسرا لفظ پڑھنے کی اجازت دے دی تھی اسی طرح انھوں نے اس آزادی سے فائدہ اٹھا تے ہوئے اپنے لیے جائز کرلیا تھا کہ وہ نص میں کچھ اضافہ کرلیں ، تاکہ معنی زیادہ واضح ہو جائے ،یا کچھ کم کرلیں تاکہ چیز ان کی نگاہ میں صحیح نہیں ہے اس کی اصلاح ہو جائے ۔اس دعویٰ پرانھوں نے بعض ان روایات سے استدلال کیا ہے جنھیں ابن داؤدنے کتاب المصاحف میں نقل کیا ہے مثلاً
ان الصفاو المروۃ من شعائر اللہ ،فمن حج البیت اواعتمر فلاجناح علیہ ان یطوف بھما(البقرہ:۱۵۸) حضرت ابیّ کے مصحف اوران کی قراء ت میں ان لا یطوف بھماہے۸ ( ایضاً۲/۲۴)
لیس علیکم جناح ان تبتغو افضلا من ربکم (البقرہ:۱۹۸ ) حضر ت ابن مسعودؓ اور حضرت ابن مصاحف اور قراء توں میں اس کے آگے فی مواسم الحج کا اضافہ ہے۔۱ ( کتاب المصاحف ص ۵۴، ۷۴)
انماذلکم الشیطان یخرف اولیاء ہ(آل عمران ۔۱۷۵)حضرت ابن عباسؓ کے مصحف اور قراء ت میں یخو فکم ہے (کم کے اضافہ کے ساتھ) ۲ ( ایضاً ص ۷۴)
وشاورھم فی الامر(آل عمران ۔۱۵۹) حضرت ابن عباسؓ کے مصحف اور قراء ت میں فی بعض الامرہے ( بعض کے اضافہ کے ساتھ) ۳(ایضاً ص۷۵)
فما استمتعتم بہ منھن( النساء ۔۲۴) حضرت ابن عباسؓ کے مصحف اور قرأت میں اس کے بعد الی اجل مسمی کا اضافہ ہے۔۴ ( ایضاً ص ۸۱)
فیصبحو اعلی ما اسرو افی الفسھم نادمین( المائدہ :۵۲) حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کے مصحف اور قراء ت میں فیصج الفساق ہے ۵ (ایضا ص ۸۲)
حافظو اعلی الصلو ت و الصلوۃ الوسطی (البقرہ :۲۳۸)حضرت عائشہ حضرت حفصہؓ اور حضرت ام سلمہؓ کے مصاحف اورقراء توں میں اس کے بعد وصلاۃ العصر( حرفِ عطف کے ساتھ )اورایک روایت کے مطابق صلا ۃ العصر(بغیر حرف عطف) کا اضافہ ہے ۔اسی روایت کے ساتھ ایک دوسری روایت حضرت ابیّ یا حضرت زیدبن ثابتؓ (شکِّ روای ) کی جانب منسوب ہے کہ الصلاۃ الوسطی سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ ہم ظہر کے وقت اپنی او نٹنیوں میں اور دیگر کاموں میں سب سے زیادہ مشغول ہوتے ہیں ۶(ایضا ص ۸۳۔۸۷)
اسی طرح مستشرقین کے نزدیک اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ قرآن کو اس کے نظم کے خلاف پڑھا جائے یا اس کے الفاظ کی ترتیب الٹ دی جائے۔بشرطیکہ معنی میں کوئی فرق نہ آجائے۔ اس دعویٰ پربھی انھوں نے متعددروایات سے استدلال کیا ہے مثلاً:
ابن ابی داؤد روایت کرتے ہیں کہ ابونوفل بن ابی عقرب کہتے ہیں :میں نے حضرت ابن عباسؓ کو مغرب کی نماز میں سورۂ نصر کی پہلی آیت اذاجاء نصراللہ و الفتح کویوں پڑھنے ہوئے سنا:اذاجاء فتح اللہ و النصر۱( کتاب المصاحف ص ۸۱)
کذلک یطبع اللہ علی کل قلب متکبر جبار(مومن :۳۵)حضرت عبداللہ بن مسعودکی قراء ت میں علی قلب متکبرجبارہے۲(ایضاً ص ۷۰)
البرھان میں ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے آیت و جاء ت سکرۃ الموت بالحق (ق۔۱۹)یوں پڑھا:وجاء ت سکرۃ الحق بالموت۳ (دیکھئے البرہان ۱/۳۳۵
اس طرح مستشرقین نے پوری کو شش کی کہ نصّ قرآن اوراس کی قراء توں کے محفوظ ہونے میں شبہ پیدا کردیں ۔ اگر قرآن نے دعویٰ کیا ہے کہ پہلے کی آسمانی کتابوں میں تحریف ہوگئی ہے تو خود اس میں ہونے والی تحریفات کم نہیں ہیں ۔
یہ کڑو ے کسیے پھل ہمیں اس لیے دیکھنے پڑے ہیں کہ ہم نے روایات کے اخذ و نقل میں غفلت سے کام لیا ہے اورتساہل برتاہے۔جن لوگوں نے ’’سبعۃ احرف‘‘اور قراء توں کے مسئلے پر بحث کی ہے اگر انھوں نے صحیح ترین روایات کو قبول کیاہوتا اور ان میں وارد داشکالات کو صحیح طریقے سے حل کیا ہوتا توہم نتائج تک پہنچے ۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا ،مثلاً’’سبعۃ احرف ‘‘کی تشریح میں بعض لوگوں نے آنکھ بند کرکے سارے اقوال نقل کردیے ہیں۔یہاں تک کہ ان کی تعد اد تقریباًچالیس تک پہنچ گئی ہے، سیوطیؒ نے الاتقان میں ان تمام اقوال جمع کردیا ہے۔اس فکری بے راہ روی نے مشکلات کھڑی کردی ہیں اور اس کی وجہ سے شبہات پیدا ہوئے ہیں۔
سبعۃ احرف کی تشریح میں وارد تمام اقوال پر تفصیل سے بحث کرنے کو موقع نہیں ۔ لیکن ہم اگلی تحاریر میں ان میں سے چند اقوال پیش کریں گے ۔ تاکہ اس وہم کا انداز لگا سکیں جس نے قراء ت بامعنی کے نظریہ سے متعلق اس قضیہ کو کو الجھا کررکھا دیا ہے ۔ اوپر پیش کی گئی روایات سے کچھ قارئین کنفیوزین کا شکار ہوسکتے ان کی حقیقت پر علیحدہ سے تحاریر پیش کی جائیں گی یہاں فی الحال یہ بتا دیتے ہیں کہ ان میں سے کچھ روایات صحابہ کی ذاتی تفسیر، کچھ لہجے کے اختلاف اور کچھ تقدیم و تاخیر، اور مترادف الفاظ کے باب سے تعلق رکھتی ہیں ۔ ان میں سے لہجے کے اختلاف کےعلاوہ باقی سب منسوخ ہوگئے تھے ۔ تفصیل آگے تحاریر میں آئے گی ۔ انشاء اللہ