خیرخواہی کےنام پر حدیث کا انکار

منکرین حدیث نے پہلے دن سے حدیث وسنت کی تاریخیت ‘ حفاظت اور اس کی حجیت کو مشکوک بنانے کے لیے سینکڑوں عقلی اعتراضات اٹھائے ، کبھی کہا گیا رسول کریم صلى الله عليه وسلم کا ذمہ صرف قرآن پہنچانا تھا، اطاعت صرف قرآن کی واجب ہے، اس پر لاجواب ہوئے تو کہا گیا آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے ارشادات صحابہ پر تو حجت تھے، لیکن ہم پر حجت نہیں۔اسکا معقول جواب دیا گیا تو یہ حیلے گھڑے گئے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے ارشادات تمام انسانوں پر حجت ہیں ،لیکن موجودہ احادیث ہم کو قابل اعتماد ذرائع سے نہیں پہنچی، اس لیے ہم انہیں ماننے کے مکلف نہیں، کبھی روایات واحادیث کے بارے میں حضرت عمر فاروق ؓ اور بعض دیگر صحابہ کرام کی احتیاطی تدابیر کو بنیاد بناکر مکثرین صحابہ بالخصوص حضرت ابوھریرہ ؓ کی روایات میں تشکیک پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ۔ کوئی عجم سے تعلق رکھتے تھے تو اس کے لئے سیاسی اعتقاد محرکات کو نمایاں کرکے ان کی مساعی حسنہ کو عجمی سازش باور کرایا گیا ۔ اور راوی کے لئے عجمی وفارسی ہونا ہی موجب طعن قراردے دیا گیا ۔ ایرانی سازش کے افسانے گھڑے گئے ، کہا گیا کہ وفاتِ نبویؐ کے سینکڑوں سال بعد بعض ایرانیوں نے ادھر ادھر کی محض سنی سنائی اَٹکل پچو باتوں کا ذخیرہ جمع کرکے انہیں متفرق ومتضاد روایتوں کو ‘صحیح حدیث’کا نام دے دیا ۔ تدوین حدیث کے عمل کو دوسری اور تیسری صدی کی کوشش قرار دیا گیا ۔ اسکا معقول جواب آیا تو موضوع اور من گھڑت روایات کے سہارے صحیح روایات کو بھی مجروح کرنے اور ذخیرہ احادیث سے بدگمان کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی ۔ کتب احادیث کی اکثر روایات قصہ گویوں، واعظوں اور داستان سراؤں کی خود ساختہ روایات اور من گھڑت کہانیاں کہا گیا ۔ ۔ منکرین حدیث کی ساری علمی تاریخ ایسے ہی حیلے بہانوں سے بھری پڑی ہے۔ گزشتہ چار ماہ کی تحاریر میں ہم منکرین حدیث کے حدیث کی تدوین و حفاظت، حدیث کی ضرورت و حیثیت کے حوالے سے اٹھائے گئے ان تمام اعتراضات کا علمی جائزہ پیش کرچکے ہیں، اسی انداز میں انکے سینکڑوں اعتراضات کا بیسوں کتابوں میں تفصیلی جائزہ پیش کیا جاچکا ہے ، ہماری ان منتخب تحاریر سے ان اعتراضات کا بودہ پن واضح ہے ۔

منکرین حدیث جب حدیث کی تاریخیت، حیثیت، ضرورت ، حجیت کے موضوع پر لاجواب ہوئے تو انہوں نے انکار حدیث کا ایک انتہائی موثر حیلہ ڈھونڈا جسے ہم خیر خواہی کے نام پر حدیث کا انکار کہتے ہیں ۔اس حیلے نے ان کے لیے ان معاملات میں حدیث سے استفادہ کرنے کی راہ بھی ہموار کردی جن میں حدیث کے بغیر کام چلانا انکے لیے انتہائی مشکل ہے ، مثلا اگر احادیث کی روایات کو ناقابل اعتماد قرار دے دیا جائے تو سرے سے قرآن کریم کو ہی اللہ کا کلام اور اس کا محفوظ شکل میں موجود ہونابھی ثابت نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اسی مجبوری کے تحت پرویز صاحب نے فرمایا:”آ پ سوچئے تو کہ اگر احادیث و روایات سے انکار کردیا جائے تو پھر خود قرآن کے متعلق شبہات پیدا ہو جائیں گے۔ آخر یہ بھی تو روایات ہی کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریمﷺ نے قرآن کو موجود شکل میں ترتیب دیا۔”(مقام حدیث صفحہ: 340)

یہ حیلہ کیا ہے ملاحظہ کیجیے ۔

“جہاں تک احادیث کا تعلق ہے ہم ہر اس حدیث کو صحیح سمجھتے ہیں جو قرآن کریم کے مطابق ہو یا جس سے حضور نبی اکرمﷺ یا کبار صحابہ ؓ کی سیر داغدار نہ ہوتی ہو۔” (طلوع اسلام کا مقصد و مسلک، شق نمبر: 14)

یہ بظاہرا بڑی معقول اور خوشنما بات ہے لیکن حدیث کے انکار کا سب سے آسان طریقہ ہے اس کے لیے کسی علمی تحقیق ، بحث کی ضرورت نہیں پڑتی ، آپ کسی بھی حدیث کا ذرا سی لفاظی کے سہارے اس بہانے انکار کرسکتے ہیں کہ فلاں حدیث قرآن کے خلاف ہے، اس سے حضور ﷺ اور انکے صحابہ کی سیرت داغدار ہوتی ہے ، ،حضورﷺ اور آپ کی ازواج کی شان کے خلاف ہے.حضورﷺ کے اخلاق عالی کے خلاف ہے، یہ عقل کے خلاف ہے ۔ حدیث خواہ کیسی بے غبار اور صحیح ہو، سند کتنی مضبوط ہو، رواۃ کتنے بے عیب ہوں۔ پوری اُمت نے قبول کیا ہو، ان کی بلا سے، انہیں ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ اس حیلے کا منکرین حدیث کے علاوہ متجددین ، ماڈرنسٹ بھی جگہ جگہ سہارا لیتے نظر آتے ہیں ۔چنانچہ جولوگ علمِ دین سے واقف نہیں ہوتے، انہیں یہ قرآن ، سیرت ، عقل کے نام پر ایسی جذباتی تعبیر میں لے جاتے ہیں کہ وہ باآسانی احادیث سے بدظن ہوجاتے اور انکا انکار کرجاتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے ایک منکر حدیث ڈاکٹر شبیر احمد نے اسی حیلے کے سہارے انکار حدیث پر ایک کتاب لکھی جسکا عنوان “اسلام کے مجرم” رکھا ، اس میں اس نے عوام الناس کو احادیث سے متنفر کرنے کے لیے اسی فیصد ضعیف اور باطل احادیث، تاریخی قصے کہانیوں کا سہار ا لیا اور کچھ صحیح احادیث کو ایسے ہی جذباتی انداز میں پیش کیا۔ اسی کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے فیس بکی متجددین حدیث کے خلاف مہم چلائے رکھتے ہیں ۔ چند ماہ پہلے انہی کے ایک شاگرد نے ” میرے آقا ﷺ کی گستاخیاں” کے نام سے ایک تحریر لکھی اور اچھا بھلا رعب جھاڑنے کی کوشش کی۔ شروع میں لکھا :

“حضرات اس تحریر کو زرا دل مظبوط کر کے پڑھیے گا۔ ہم اپنے بخاری مسلم حنبل و دیگر اکابرین کے بارے میں بات کرنے ہر بھی بدک جاتے ہیں۔ مگر ہماری غیرت نجانے کہاں ہوتی ہے جب ان دینی کتابوں میں ہمارے آقا (ص) کی شان میں گستاخیاں ہوتی ہیں۔ ان ہی کتابوں سے چن کر سٹینک ورسز جیسی کتب لکھی جاتی ہیں اور ان ہی کو پکڑ کر نوجوان دین سے دور ہو جاتے ہیں۔ ہمارے آقا(ص) تو وہ تھے کہ اعلان نبوت کے وقت اپنے کردار کا کھلا چیلنج دیا اور کوئی انگلی نہ اٹھا سکا۔ اور ہمارے یہ اکابرین اپنی کتب میں جو چاہے بکواس بھر دیتے ہیں۔ یا انکے نام سے بھر دی گئیں۔

نقل کفر، کفر نہ باشد لکھ کر پھر کچھ حوالے اس کتاب سے پیش کیے جن میں سے صرف ایک دو صحیح احادیث اور باقی سب بزرگوں کے ملفوظات، تاریخی کتابوںٍ اور حدیث کی چوتھے درجے کی کتابوں سے لیے گئے ہیں ۔ چند حوالے ملاحظہ کیجیے :

1″جب حضور(ص) دوران حیض ہم سے اختلاط کرنا چاہتے تو ازار باندھنے کا حکم دیتے اور مباشرت کرتے”۔ فرمان حضرت عائشہ(ر)۔(کتاب الحیض، بخاری۔ صفحہ 1988 ((یاد رہے اللہ پاک حیض والیوں کے پاس جانے سے منع فرماتے ہیں قرآن میں۔ انعام)

2 “حضور(ص) نے حضرت حفضہ(ر) سے قسم کھائی کہ وہ لونڈی سے مقاربت نہ کریں گے۔ وہ گھر آئیں تو انھیں حضرت ماریہ(ر) سے ہم بستر دیکھا۔ انھوں نے حضور(ص) کو بہت ڈانٹ پلائی” سیرت النبی(ص) ، شبلی۔ جلد اوّل۔ صفحہ 146۔

3- “سرکار(ص) نے فرمایا اگر شوہر کے سر سے پاؤں تک پیپ ہو اور عورت اسے چاٹے تب بھی شکر ادا نہ کر سکے۔ “غزالی۔ احیاالعلوم جلد دوم۔ صفحہ 103

4- “حضور(ص) نے ایک عورت کے بیٹے کو دم کر کے بدروح نکالی اور معاوضے کے طور پر ایک مینڈھا، گھی اور پنیر قبول کیا۔ “ابن ماجہ حدیث نمبر 3545

5۔ “ایک شخص پر سرکار(ص) کی ام ولد سے زنا کا الزام لگایا گیا۔ حضرت علی(ر) کو حکم دیا جا قتل کر دے۔ وہ گئے تو وہ نہاتا تھا۔ دیکھا تو اسکا تو عضو ہی کٹا ہوا تھا۔” صحیح مسلم۔ بحوالہ حضرت انس(ر)۔ کتاب برات الحرم (یعنی حضور(ص) نے اپنا لایا قانون شہادت بھلا دیا اور بغیر ثبوت ہی سزا کا حکم دے دیا۔ انعام)

6.عورت ایسی شے ہے کہ حضور (ص) نے امہات المومنین سے ناراض ہو کر مہینے کی قسم کھا لی۔ مگر بے قرار ہو کر حضرت عائشہ(ر) کے پاس انتوسیں دن جا پہنچے۔ انھوں نے کہا کہ ابھی مہینہ تو نہ ہوا تو انکو گلے سے لگا کر کہا مہینہ 29 دن کا بھی تو ہوتا ہے۔ ” ملفوظات العسل۔ جنید بغدادی۔

7-“حضرت عائشہ(ر) نے حضور(ص) سے کہا کہ آپ نے اپنا ہاتھ باکرہ عورتوں پر رکھنا شروع کر دیا ہے۔ پھر اسما بنت نعمان سے نکاح پر اعوذبللہ منک سکھایا۔ “طبقات ابن سعد۔ 8/104

8۔ “حضور(ص) نے ملکیہ بن کعب سے نکاح کیا تو حضرت عائشہ(ر) نی جا کر کہا شرم نہی آتی اپنے باپ کے قاتل سے نکاح کر رہی ہے۔ اس نے بھی اعوذبللہ منک پڑھ کر جان چھڑائی۔ “طبقات ابن سعد۔ جلد 8۔ صفحہ106

9۔ “ایک شخص نے حضور(ص) سے تنہا ہونے کی شکایت کی۔ کہا کبوتری کو زوجہ بنا لو۔ “ابن القیم۔ المنار الحنیف۔ صفحہ 106

پھر لکھا :

حضرات خدارا سوچیئے۔ کیا یہ گند اس قابل ہے کہ ہماری کتب میں ہو۔ اگر یہ متفق متواتر مرسل نہیں ہے تو کسی بھی بہانے کتب میں باقی کیوں ہے۔ اٹھائیے اور عشق کی پوری قوت سے انھیں دور پھینک دیجیے۔ بس ایک بات یاد رکھئیے، جو بھی روایت میرے آقا(ص) کی شان میں کمی کرے، گستاخی کرے، اسے دیوار سے دے ماریں خواہ کسی کتاب میں ہو، خواہ راوی کوئی نزدیک ترین صحابی ہی کیوں نہ ہو۔ میرے آقا(ص) ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں اور ہم انکار کرتے ہیں ہر اس روایت کا، کتاب کا اور شخص کا جو انکی شان گھٹائے۔۔۔

انکار حدیث کی تاریخ پر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ منکرین حدیث ہردور میں اسی طرح مثبت عنوان ہی سے آگے بڑھے ہیں ، انہوں نے اپنی منفی آواز کے لیئے ہمیشہ سے کسی نہ کسی مثبت عنوان کا سہارا لیا ۔ برصغیر کے منکرین حدیث کے لٹریچر کے مطالعہ اور حدیث کے بارے میں ان کے خود ساختہ اور من گھڑت شبہات اور اعتراضات کو دیکھ کر اس چیز کااندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ نہ تو علم حدیث پر عبور رکھتے ہیں اور نہ ہی علومِ قرآنی کی گہرائیوں سے واقف ہیں، یہ لوگ علمی معاملے میں بھی انتہائی سہل پسند واقع ہوئے ہیں 

حدیث کی مختلف انواع و اقسام اور راویوں سے متعلق فن ِتنقید و تحقیق کا علم حاصل کرنے کے لیے انکے پاس وقت نہیں ، اسی طرح تطبیق ِآیات و احادیث کے انتہائی اہم فن سے بے خبر ہیں کیونکہ اس کے لئے مسلسل اور عمیق مطالعہ کی ضرورت ہے ۔ قرآن وسنت اور ان کے مستند مآخذ تک اکثر منکرین ِحدیث کی رسائی نہیں لہٰذا ان کی توجیہ بھی ان کے بس کاروگ نہیں ہے۔ ان کا مطالعہ صرف چند نامکمل تراجم کتب ِحدیث تک محدود ہوتا ہے۔ وہ ان اُصولوں سے بے خبر ہوتے ہیں جن سے کسی حدیث کی فقہی اور قانونی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔چنانچہ احادیث کے موضوع پر کسی پائے کی علمی تحقیق کے بجائے انکا سارا زور 

پروپیگنڈہ کرنے اور مفروضے گھڑنے پر رہا ہے۔

یہی حال ان سے متاثر ہونے والے نوتعلیم یافتہ نوجوانوں جدید و ماڈرن طبقے کا ہے ۔ یہ لوگ پڑھنے ، سننے میں خود کو کسی حد کا پابند نہیں سمجھتے ‘مطالعہ کرنے کا شوق ہوتا ہے، جس کسی کی کتاب ہاتھ لگ جاتی ہے مطالعہ کرلیتے ہیں، اہل باطل کی بھی دینی موضوعات پر کتابیں پڑھنے سے دریغ نہیں کرتے، اب چونکہ انہوں نے نہ خود دین کو گہرائی میں کسی استاذ سے پڑھا ہوتا ہے اور نہ مستند علما اور انکی کتابوں سے انکا کوئی تعلق ہوتا ہے، یہ اس سے قطعی ناواقف ہوتے ہیں کہ کسی حدیث کی اہل علم کے ہاں کیا حیثیت ہے اور اس سے جو حکم ثابت ہے، وہ فرض ہے، سنت ہے، جائز ہے یا مباح ہے ۔ بلکہ احکام کے اس فرق کو جاننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ہوتی ۔ اس لیے جب یہ حضرات کسی بدنیت کاقرآن و حدیث پر اعتراض پڑھتے ہیں تو چونکہ یہ قرآن و سنت اور اس کے مستند مآخذ سے واقف نہیں ہوتے ، اس کی توجیہ سے ان کا ذہن قاصر ہوتا ہے یوں اہل باطل کے مکر کو سمجھ نہیں سکتے اور بہت آسانی سے ان کی فریبانہ تحریروں اور تقریروں سے متاثر ہوجاتے ہیں ، کبھی انہیں تاریخی تنقید وتحقیق کے نام پر اسلام سے گمراہ کیا جاتا ہے ، کبھی 

عشق قرآن و رسول کے نام پر احادیث کا انکار کروایا جاتا ہے اور یہ بے چارے وہم وگمان کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے لگتے ہیں اور اسی طرح اپنے خود ساختہ اوہام میں غلطاں و پیچاں رہتے اور آہستہ آہستہ ان کے حامی بن کر انہی کے گروہ میں شامل ہوجاتے ہیں ۔

ہم نے اس تحریری سلسلے میں شروع دن سے منکرین حدیث کے انہی مکروفریب کو بالکل علمی انداز میں عیاں کرنے کی کوشش کی ہے، اس نئے سلسلے میں ہم منکرین حدیث کے خیر خواہی ، عشق رسول ، عشق قرآن اور عقل پسندی کے نام پر حدیث کا انکار کروانے کی کوششوں کا علمی جائزہ لیں گے ، ان لوگوں نے اپنی کتابوں میں جن صحیح و ضعیف احادیث کو اس سلسلے میں استعمال کیا ہے انکو بھی زیر بحث لایا جائے گا ۔انشاء اللہ ۔اس سے پہلے ہم یہ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ منکرین حدیث کے حدیث کو پرکھنے کے لیے قائم کردہ یہ معیار کس قدر معقول ہیں اور جس انداز میں یہ انہیں حدیث پر اپلائی کرتے ہیں اس انداز میں خود قرآن ان معیاروں پر کتنا پورا اترتا ہے۔