قرآن کی انفرادیت کا فلسفیانہ جائزہ

یہ بات کہی جاتی ہے کہ ولیم شیکسپیئر، ایک انگریزی شاعر اور ڈرامہ نگار تھے جو، وسیع پیمانے پر انگریزی زبان میں سب سے بڑا مصنف کے طور پر شمار کیے جاتے ہیں اور اکثر منفرد ادیب کے طور پر ان کی مثال دی جاتی ہے۔ دلیل درپیش ہے کہ اگر شیکسپیئر اپنی شاعری اور نثر کو منفر انداز میں بیان کرتا ہے اور وہ ایک انسان بھی ہے تو یقینا قران بھی کتنا ہی منفرد کیوں نہ ہو اس کو بھی کسی انسان سے منسوب ہونا چاہیے۔

تاہم مندرجہ بالا دلیل کے ساتھ کچھ مسائل ہیں۔ قران کی منفرد فطرت کو اس کھاتے میں نہیں لیا جا سکتا اور شیکسپیئر جیسا ادبی دانشمند بھی اس کی انفرادیت کو نہیں سمجھتا۔اگرچہ شیکسپیئر کی بے مثال شاعری اور نثر کا جمالیاتی استقبال ہوا ہے لیکن ادبی ساخت کے اعتبار سے اس کا اظہار منفرد نہیں تھا۔ بہت سے واقعات میں شیکسپیئر نے مذکورہ رکن سے متعلق عمومی پنج بحری (مذکورہ رکن کے متعلق پنج بحری شاعری کا ایک پیمانہ ہے۔ اس سے مراد مذکورہ رکن سے متعلق پانچ فٹ لمبی لائن ہے۔ سادہ الفاظ میں پنچ بحری کا مطلب پانچ فٹ لمبی لائن کے ہیں۔) کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ قرآن کے معاملہ میں، اس کی زبان ایک بالکل بے مثل ادبی شکل میں ہے۔ قرانی گفتگو کی ساختی خصوصیات اس کی انفرادیت کی ترجمان ہیں ۔اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے دو طرح کی اپروچز کو استعمال کیا جاسکتا ہے جن سے یہ یہ واضح ہوتا جاتا ہے کہ ایسی کئی بڑی وجوہات موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ قران ایک خدائی اور معجزاتی متن ہے۔ پہلی اپروچ Rational Deduction اور دوسرا Philosophy of Miracles ہے۔

Rational Deduction)٭ریشنل ڈی ڈکشن:

یہ سوچنے کا وہ عمل ہے جہاں منطقی نتائج عالمی قبولیت(universally accepted statement ) کے بیان یا قابل اثبات باتوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ قران کی انفرادیت کی حمایت کے تناظر میں مشرقی اور مغربی سکالرز کا متفقہ بیان یہ ہے:

“عرب وحی کے وقت قران کی طرح کی نقل بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے ”

اس بیان سے مندرجہ ذیل منطقی نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں:

1. قران کسی عربی انسان کی طرف سے نہیں آ سکتا ، کیونکہ عرب قوم ماہر لسانیات تھی قران کے چیلنج کا جواب دینے میں ناکام رہی،انہوں نے (جادوگری، کاہن کے الزامات لگاتے ہوئے ) اس کا اعتراف بھی کیا کہ قران ایک انسان کی طرف سے نہیں آ سکتا۔

2. قران ایک غیر عرب سے نہیں آسکتاکیونکہ قران عربی زبان میں ہے اور قران کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے لیے عربی زبان کا گہرا علم ہونا پیشگی شرط ہے۔

3. مندرجہ ذیل وجوہات کی وجہ سے قران حضرت محمدؐ کی طرف سے نہیں آیا:

a. حضرت محمدؐ خود ایک عربی تھے اور تمام عرب ماہرین قران کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے۔

b. وحی کے وقت عرب ماہر لسانیات نے نبی ؐ پر کبھی قران کا مصنف ہونے کا الزام نہیں لگایا۔

c. حضرت محمدؐ کو اپنی نبوت کے دوران بہت سی آزمائشوں اور فتنوں کا تجربہ رہا۔ مثال کے طور پر آپؐ کے بچے فوت ہو گئے، آپؐ کی محبوب زوجہ کا انتقال ہو گیا، آپؐ کا مقاطعہ کر دیا گیا، آپ کے قریبی صحابہ کو اذیتیں دی گئیں اور شہید کیا گیااس کے باوجود قران کا ادبی رویہ اپنے معبود کی آواز رہا۔قران کہیں پر حضرت محمدؐ کے بحران اور جذبات کا اظہار نہیں کرتا۔یہ نفسیاتی اور جسمانی طور پر تقریبا ناممکنات میں سے ہے کہ جن حالات سے مصنف گزرے ان جذبات کا اظہار اسکی واحد تصنیف کے بیان میں کہیں نہ ہو.

d. قران ایک معروف ادبی شاہکار ہے۔ اس کی آیات مخصوص حالات و واقعات میں نازل ہوئیں ۔ تما م ادبی شاہکار اپنے ادبی کمال کو ثابت کرنے کے لیے نظر ثانی اور قلم زنی سے گزر چکے ہیں تاہم قران فوری طور پر نازل کیا گیا اسکی غلطیوں کی کبھی تصحیح کی ضرورت نا پڑی.

e. حضرت محمدؐ کی اپنی روایات اور احادیث قران سے بلکل مختلف انداز میں ہیں۔ ایک انسان دو مختلف انداز میں کس طرح 23 سال کے عرصہ تک زندگی گزار سکتا ہے(جو کہ قران کی وحی کا دور تھا)؟جدید تحقیق کے مطابق نفسیاتی اور جسمانی طور پر یہ ناممکن ہے۔

f. انسانی اظہار کی تمام اقسام جیسا کلام بنایا جا سکتا ہے اگر ان تمام اظہار کی نقل موجود ہو۔ مثال کے طور پر نقش و نگار کو نقل کیا جا سکتا ہے چاہے اگرچہ کچھ نقش غیرمعمولی اور حیرت انگیز بھی ہوں ۔ لیکن قران کے معاملہ میں ہمارے پاس قران کا نقش موجود ہے جو کہ قران خود ہے۔ لیکن کوئی بھی اس کی منفرد ادبی ساخت کو اسی کے انداز میں کسی جملے میں نقل نہیں کر سکا۔

4. قران کسی اور مخلوق کی طرف سے بھی نہیں آ سکتا جیسا کہ جنات یا روح کیونکہ ان مخلوقات کے وجود کی بنیاد خود قران اور وحی پر ہیں نہ کہ کسی مشاہداتی ثبوت پر۔ لہذا اگر کوئی یہ دعوی کرتا ہے کہ قران کا ذریعہ کسی اور مخلوق سے ہے تو انہیں اس معاملے میں اس مخلوق کا وجود اور وحی کو ثابت کرنا ہو گا۔ اس معاملے میں قران کو وحی کے طور پر استعمال کرتے ہوئےاگر جنات کا وجود قائم کیا جائےتو اول اس کا مطلب ہو گا کہ تما م ریشنل ڈیڈکشن کی مشق کی ضرورت ہی نہیں رہ جائے گی جیسا کہ قران پہلے ہی ایک خدائی تحریر کے طور پر قائم کیا جا چکا ہوگا کیونکہ جنات کے وجود پر یقین کرنے کے لیے پہلے قران پر یقین کرنا ضروری ہے۔

5. قران خدا کی طرف سے ہے اور یہی اس کی منطقی وضاحت ہے جیسا کہ اسکے برعکس دوسری تما م وضاحتیں بےکار ہو چکی ہیں کیونکہ وہ قران کی انفرادیت کو ایک جامع اور مربوط انداز کی وضاحت نہیں کرتیں۔

٭معجزات کا فلسفہ (Philosophy of Miracles):

لفظ معجزہ لاطینی زبان کے لفظ “میراکیولم” سے ماخوذ ہے جس مطلب ” جس کا مطلب کچھ بہت حیران کر دینے والی چیز” ہے۔عمومی طور پر معجزہ کو قدرتی قانون (قدرتی قانون کا مرخم)کی خلاف ورزی کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ ایک بے ربط تعریف ہے ۔فلسفی ولیم لین کریگ”قدرتی قانون کی خلاف ورزی” کو معجزہ کی تعریف کے طور پر رد کرتا ہےاور اس کے متبادل ایک معقول تعریف کرتا ہے کہ “وہ واقعات جن کا وجود قدرت کی پیداوری صلاحیت سے باہر ہو”۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ معجزات ناممکنات کا وہ عمل ہیں جو عمومی یا منطقی تعلقات سے سروکار رکھتے ہوں۔

٭معجزہ قران

قران کو جو بات معجزہ بناتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ عربی زبان کی نوعیت کی پیداوری صلاحیت سے باہر واقع ہے۔ فطرت کی پیداواری صلاحیت کو عربی زبان کے صوتی اظہار کے جن قوائد سے سروکار ہے وہ ہمیشہ عربی ادب کی نثر اور شاعری کی شکلوں میں جانے جائیں گے۔

قران ایک معجزہ ہے اور اس کی ادبی ساخت کا بیان عربی زبان کی پیداوری صلاحیت سے نہیں کی جاسکتا، کیونکہ عربی زبان کے تمام ممکن لفظ، حروف تہجی اور قوائد و قوانین نڈھال ہو چکے ہیں, قران کی ادبی ساخت کو نقل نہیں کیا جا سکا۔ عرب جو کہ بہترین عرب ماہر لسانیات کے طور پر مشہور ہیں قران کا کامیابی سے مقابلہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ فورسٹر فٹزگرالڈ اربتھناٹ (Forster Fitzgerald)جو کہ ایک قابل ذکر برطانوی مستشرق اور مترجم تھا لکھتاہے :

“جہاں تک خوش اسلوبی کا تعلق ہے اس کے برابر اگرچہ کئی کوششیں کی جا چکی ہیں ، آج تک کوئی بھی کامیاب نہیں ہوئی”

[F. F. Arbuthnot. 1885. The Construction of the Bible and the Koran. London, p 5)

اس کا مطلب یہ ہو کہ قران اور عربی زبان کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے، تاہم، یہ ناممکن لگتا ہے کیونکہ قران عربی زبان میں ہے! دوسری طرف، عربی زبان کے تما م حروف تہجی اور الفاظ کے مجموعات ہی قران کی نقل کرنے کی کوشش میں استعمال ہوئے ہیں۔ اس لیے، صرف یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہےکہ ایک سپر نیچرل وضاحت ہی اس ناممکن عربی ادبی ساخت کی معقول وضاحت ہے جو کہ قران مجید ہے۔

جب ہم قران کی منفرد ادبی انداز کا جواب پانے کے لیے عربی زبان کے لٹریچر کو دیکھتے ہیں تو ہم اس کے اور خدائی متن کے درمیان کوئی تعلق نہیں پاتے . اسکا یہ ناممکن بننا اسکی سپر نیچرل وضاحت ثابت کرتی ہے ہے۔ یہ منطق واضح کرتی ہے کہ اگر قران ایک ادبی پارہ ہے جو عربی زبان کی پروڈکٹیو صلاحیت سے باہر واقع ہے تو پھر تعریف کی رو سے یہ ایک معجزہ ہے۔

ترجمہ تحریر