ملحدین کے اعتراضات اور تحقیق کا طریقہ کار

ایک زمانہ تھا کہ جب اسلام کا گہرائی میں مطالعہ بڑی حد تک دینی مدارس اور علماء تک محدود تھا اور عوام انہی کی تحقیقات سے استفادہ کرتے تھے ۔ پھر مستشرقین نے بالعموم اپنے مذموم مقاصد کے تحت اس کی طرف توجہ کی اور ہر موضوع پر تحقیقات ، کتابوں کے انبار لگا دیے، اسکی تفصیل ایک وسیع دائرہ میں پیج پر زیر بحث آ چکی ہے۔ انکی یہ تحقیقات ایک طرف علماء کے لیے چیلنج ہیں ‘ کہ وہ انکے پیدا کی گئی گمراہیوں، اشکالات کا جواب لکھیں اور انکے جھوٹ، فریب کا پردہ چاک کریں ، عوام کے لیے بھی ان حالات میں بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دین کے مطالعے اور بحث و تحقیق میں بے پرواہی کے مظاہرے سے بچیں ۔

یہ دیکھ کر مسرت ہوتی ہے کہ ہمارا جدید تعلیم یافتہ طبقہ، دانشور اور مفکرین دینی علم میں دلچسپی لے رہے ہیں، یونیورسٹیوں اور درس گاہوں میں اس کی درس و تدریس ہو رہی ہے۔ مختلف اسلامی موضوعات پر غوروفکر اور بحث اور مباحثہ جاری ہے اور یہ دیکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آج کے دور میں اسلام کی کیا معنویت اور افادیت ہے اور زندگی کے پیچیدہ مسائل میں وہ ہماری کیا راہنمائی کرتا ہے؟

یہ بات بھی بڑی قابل قدر ہے کہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ جو ہر چیز کو مغرب کی عینک سے دیکھنے کا عادی رہا ہے اور جس نے کبھی اسلام کی طرف توجہ بھی کی تو مستشرقین کے زیر اثر کی، اب اس کے نقصانات کو محسوس کرنے لگا ہے اور آزاد علمی فضا میں اسلام کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام کے مطالعہ کے سلسلہ میں ان جدید مفکرین کی طرف سے بعض بنیادی باتوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، یا یہ کہ ان کی اہمیت نہیں محسوس کی جاتی ہے۔ اس وجہ سے یہ مطالعہ ناقص اور ادھورا ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات اس سے اسلام کی بارے میں شدید غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور اعتراضات اور جوابات کا ایک طویل سلسلہ چل پڑتا ہے، یہاں ہم اسلام کے تفصیلی اور تحقیقی مطالعہ کے لیے بعض اصول و شرائط کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جنکی پابندی سے ناصرف مستشرقین اور اہل باطل کے اسلام پر اٹھائے گئے اشکالات کی حقیقت کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے بلکہ ذاتی مطالعہ و تحقیق میں بھی غلط نتائج سے بچا جاسکتا ہے.

  1. جو موضوع زیربحث ہو، انڈکس یا سرچ انجن کی مدد سے، اس سے متعلق حسب منشا اک دو جملوں کو لے لینا , یا ان سے مکمل آئیڈیا لے لینا صحیح نہیں ہے بلکہ اس سلسلہ کے تمام نصوص کا غیر جانب داری اور اخلاص کے ساتھ مطالعہ ہونا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ ان نصوص کو کسی مزعومہ فکر و خیال کی تائید یا تردید میں استعمال کیا جائے، ان کے الفاظ، اسلوب، سیاق و سباق اور پس منظر کی روشنی میں ان کا مفہوم متعین کرنے کی کوشش کی جائے…!
  2. جس مسئلہ میں قرآن مجید کے علاوہ حدیث یا تاریخ سے روایات بھی زیر بحث ہوں ان روایات کی صحت کا اطمینان ضرور کر لیا جائے۔ ہو سکتا ہے  کسی حدیث سے آپ کچھ نتائج اخذ کرتے چلے جائیں اور ائمہ حدیث اسے حدیث ہی نا مان رہے ہوں یا وہ اس قابل ہی نا ہوکہ اس سے وہ نتیجہ اخذ کیا جاسکے جو آپ نے کیا, یوں آپ کے اخذ کردہ نتائج کی پوری عمارت از خود منہدم ہو جائے گی۔
  3. جو حکم زیر بحث ہو اس کے متعلق یہ جاننا ضروری ہے کہ آیا وہ وقتی اور عارضی ہے یا ابدی اور دوامی، عام ہے یا خاص، اس کے ساتھ کوئی شرط لگی ہوئی ہے یا وہ غیر مشروط ہے، وہ وجوب کے لیے ہے یا محض ندب و استحباب کے لیے؟!!! جب تک اس کی صحیح نوعیت متعین نہ ہو جائے اس کے بارے میں گفتگو آگے نہیں بڑھائی جا سکتی۔

4.کسی بھی حکم کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے صرف ان نصوص کا مطالعہ کافی نہیں ہے جن میں براہ راست وہ حکم آیا ہے۔ شریعت کے کسی حکم کو الگ سے دیکھنے میں بعض اوقات غلط فہمی کا امکان ہوتا ہے لیکن اسی کو اگر دین کی پوری تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ غلط فہمی دور ہو سکتی ہے۔ مثلا اسلام میں چور کا ہاتھ کاٹ دینے کا حکم ہے۔ ایک شخص اسے جرم کے مقابلہ میں انتہائی سخت اور غیر معمولی سزا قرار دے سکتا ہے لیکن جب وہ یہ دیکھے گا کہ اس حکم کو نافذ کرنے سے پہلے اسلام انسان کے اندر خدا اور آخرت کا خوف پیدا کرتا ہے، معاشرہ میں ہمدردری و غم خواری کے جذبات کو نشوونما دیتا ہے۔ ریاست کو غریبوں اور ناداروں کی معاشی کفالت کی ہدایت کرتا ہے اور اس بات کی نگرانی کرتا ہے کہ کوئی شخص ایسے حالات میں نہ گھر جائے کہ وہ چوری کے ذریعہ اپنا پیٹ بھرنے پا مجبور ہو جائے، تو اس کی رائے بدل سکتی ہے اور اسے وہ حق بجانب قرار دے سکتا ہے کہ یہ حکم ہر حال یا موجودہ حالات میں نافد کرنے کو نہیں کہا جارہا..بلکہ اس سے پہلے عوام کو وہ ماحول دیا جارہا ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے اس جرم کے ارتکاب کی کوئی وجہ نہیں رہتی.

  1. یہی رویہ اور اصول کسی تاریخی شخصیت کے متعلق کوئی نظریہ قائم کرنے سے پہلے مدنظر رکھنا ضروری ہے.یہ اک غیر معقول بات اور ناانصافی ہوگی کہ کسی شخص کی عام عادات, صفات اعمال, مزاج,  اقوال, مقام کو بالکل نظرانداز کرتے ہوئے اک دو مجروع روایات کی بنیاد پر اسکے متعلق کوئی نظریہ قائم کر دیا جائے..
  2. اسلام کے بنیادی ماخذ- قرآن و حدیث- عربی زبان میں ہیں۔ اسلام کے اپنے طور پر کیے گئے تفصیلی مطالعہ کے لیے اس زبان سے، اس کے الفاظ کے دروبست سے اور اس کے اسلوب و انداز بیان سے اچھی طرح واقف ہونا ضروری ہے۔ قرآن اور حدیث کی زبان کلاسیکی, معیاری اور ادبی ہے . ان کے لفظ لفظ مین معانی کی ایک دنیا آباد ہے. عربی زبان کی اعلیٰ صلاحیت کے بغیر آدمی اپنے طور پر محض کسی اک ریسورس یا ڈکشنری سے ان باریکیوں کو مکمل نہیں سمجھ سکتا جو ان میں چھپی ہوئی ہیں.. لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اسلامی مسائل پر بحث و تمحیض کے لیے عربی زبان کا گہرا علم کیا معنی سرسری واقفیت بھی ضروری نہیں سمجھی جاتی.. جس سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور آدمی تحقیق کے دوران بعض اوقات غلط رخ کی طرف نکل جاتا ہے .
  3. رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اسلام کو محض ایک نظریہ کی حیثیت سے نہیں پیش کیا بلکہ اس کی بنیاد پر ایک امت برپا کی، ایک معاشرہ قائم کیا اور ایک مملکت کا نظام چلا کر دکھایا، پھر آپ کے بعد خلفاء راشدین نے اسی نہج پر اسے جاری رکھا۔ یہ اسلام کی ایک مستند عملی تفسیر ہے۔ اسلام کا مطالعہ اس عملی تفسیر کو نظر انداز کر کے نہیں ہو سکتا۔ کسی بھی مسئلہ پر سوچتے وقت یہ دیکھنا بالکل فطری بھی ہے اور ضروری بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور خلفاء راشدین کے دور میں اسے کس طرح سمجھا گیا اور اس پر کس طرح عمل درآمد ہوا۔ اسلام کی ہر وہ تعبیر و تشریح جسے یہ دور مبارک رد کر دے کبھی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔

اسلام کے مطالعہ کے سلسلہ میں ان بنیادی باتوں کو پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ ورنہ اس بات کا شدید خطرہ ہے کہ ہمارا مطالعہ غلط رخ پر ہونے لگے اور ہم اپنے خود ساختہ تصورات کو اسلام کی طرف منسوب کر بیٹھیں۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی قرآن و حدیث کو اپنے مزعومہ افکار و خیالات کے لیے استعمال کیا گیا اور انھیں ٹھیک ٹھیک سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی تو بڑی بھیانک غلطیاں سرزد ہوئیں، مختلف فرقے وجود میں آئے اور امت کا شیرازہ منتشر ہو کر رہ گیا۔ اسلام کی تعبیر و تشریح میں اس سے پوری طرح احتراز کرنا چاہیے۔

استفادہ تحریر: اسلام کے مطالعے کے اصول وشرائط, سید جلال الدین عمری, سہ ماہی تحقیقات اسلامی, علی گڑھ