خود ایک نشانِ عبرت بن جائے گا۔
یہاں حیران کُن طور پر جو بات قابلِ توجہ ہے وہ قرآن کا مصری فنِ حنوط سازی (Mummification) کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ مصریوں نے فرعون کی لاش کو پانی سے نکال کر حنوط کیا اور محفوظ انداز میں اُس کے مقبرہ میں رکھ دیا تھا۔ بعد ازاں یہی لاش مصر کی ”مُردوں کی وادی“ (Dead Valley) سے 1898ء میں دریافت کی گئی۔ بعد ازاں اِس پر ایک فرانسیسی سرجن ”ڈاکٹر مورائس بوکائیے“ نے 1970ء کی دہائی میں تحقیق کی اور نتیجہ نکالا کہ اِس ممی میں موجود فرعون کی موت پانی میں ڈوب کر غوطے اور جھٹکے لگنے سے ہوئی تھی۔ ڈاکٹر مورائس بوکائیے نے ان دریافتوں کو اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ”The Bible, the Quran and Science“ میں درج کیا، جبکہ اِس کے کچھ عرصہ بعد ہی اسلام بھی قبول کر لیا۔
یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخرحضرت محمد (ﷺ) کو کیسے معلوم ہوا کہ فرعونِ موسیٰؑ کی لاش محفوظ کر کے مصری مقبرہ میں رکھ دی گئی ہے اور وہ ایک دن منظرِ عام پر آ جائے گی؟ یاد رہے کہ یہ واقعہ رسول اللہ (ﷺ) کی بعثت سے کم وبیش دو ہزار سال قبل پیش آیا۔ ماضی میں پیش آ چکے کسی نامعلوم واقعہ کے ذِکر کو انگریزی میں Postdiction کہتے ہیں، جو مستقبل کی طرف کی گئی پیشین گوئی سے بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے اِس پیشین گوئی کو کسی اور انداز میں لے کر اِس پر یہ اعتراض لگا دیا کہ قرآن فرعون کے ایمان لے آنے پر اُس کی نجات اور پانی سے بچ نکلنے کی بات کر رہا ہے، حالانکہ قرآن کے سیاق وسباق اور اِس آیت کے تناظر سے کہیں بھی یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ نجات سے مراد فرعون کا زندہ بچنا اور ایمان کی زندگی گزارنا تھا۔ یہودی کتاب ”مدراش ملکوت“ (Midrash Malkut) میں یہ ذکر موجود ہے کہ فرعون کو خدا نے زندہ بچا لیا۔ تاہم قرآن کا بیان اُس سے قطعی مختلف ہے اور مستقبل بعید کی طرف ایک اہم پیشین گوئی کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآنِ کریم میں شروع سے آخر تک فرعون کو ایک ملعون شخص کے طور پر ہی پیش گیا گیا ہے۔
حضرت ابراہیمؑ کے والد اور آتشِ نمرود کے حوالے سے قرآن پر کی گئی ملحد کی تنقید پر تبصرہ ایک الگ مضمون میں پیش کیا جائے گا اس میں قرآنی مؤقف پر اُٹھائے گئے ملحدانہ اعتراضات کا پوری طرح سے ابطال سامنے آئے گا۔ اِسی طرح قرآن کے اندر پیش کردہ مسیحیت کی عمومی تصویر، بالخصوص اِس کے تصورِ تثلیث اور حضرت مریمؑ کی شخصیت وکردار کے حوالے سے بھی جامع گفتگو ایک اور مضمون (”قرآنِ کریم اور مسیحی عقیدہ تثلیث“) میں آگے گی . لہٰذا اِس سب کے یہاں دُوہرائے جانے کی ضرورت نہیں۔ تاہم اِس کا تذکرہ یہاں اِس لیے ضروری ہے کیونکہ یہ اسرائیلیات کے ہی دیگر پہلو گردانے جاتے ہیں اور موجودہ مضمون اُسی مباحثےکی ابتداء ہے۔ اُمید ہے کہ مُلحد احباب آئندہ قلم اُٹھانے سے پہلے تھوڑی تحقیق بھی کر لیں گے۔ تاہم وہ جب بھی خلوصِ دل سے معروضی تحقیق کریں گے تو اُن کے سامنے صرف ایک ہی بات ہو گی کہ: ”حق آ چکا اور باطل مٹ چکا۔ بے شک باطل کو تو مِٹنا ہی تھا۔“ (القرآن)
تحریر سید وقاص حیدر