ملحدکے اس سلسلے میں اٹھائے گئے تقریبا تمام بڑے اعتراضات /اشکالات کا ہم تفصیل سے مدلل جواب دے چکے ہیں ۔ کچھ رہ جانے والے حوالوں کا سرسری جائزہ پیش ہے۔
ملحد لکھتا ہے :
“اور بالفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ محمد ناخواندہ تھے تو اس کا کیا یہ مطلب ہوا کہ ان کی سماعت بھی مصلوب تھی؟ کیا وہ یہودیوں اور عیسائیوں وغیرہ کی تعلیمات اور قصص، حکایت اور عقائد کے بارے میں دریافت بھی کرنے پر قادر نہیں تھے؟ جب کہ آپ کے علاقے میں بڑے بڑے یہودی قبائل سکونت پذیر تھے اور چپے چپے پر عیسائیوں کے معبد تھے اور راہبوں کی خانقاہیں موجود تھیں۔”
تضاد کا عالم یہ ہے کہ ملحد صاحب شروع میں ایک جگہ خود اپنے والد محترم(روحانی) ٹسڈ ل کی مذہبی کتاب بائبل میں تحریف ہونے کے خلاف دلائل دیتے ہوئے لکھتے ہیں ۔ یہود اپنی کتاب کو محمد ﷺ سے چھپاتے تھے “ان تمام آیات میں جو مدنی ہیں ، کہیں بھی کھلم کھلا یہ نہیں کہا گیا کہ تورات میں تحریف ہوئی ہے بلکہ یہ دعویٰ الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ کیا گیا ہے کہ یہودی انھیں اس لیے چھپاتے ہیں تاکہ محمد کے منصب رسالت کی بشارت کی تصدیق نہ ہوسکے۔” اور یہاں ملحد صاحب اسی بات کو اپنی دلیل بنا رہے ہیں کہ چپے چپے عیسائی اور یہودی راہبوں کی خانقاہیں موجود تھیں ۔
آگے لکھتا ہے:
“بلکہ میرا دعویٰ ہے کہ محمد پڑھ بھی سکتے تھے اور لکھ بھی سکتے تھے۔ صلح حدیبیہ کا قصہ مشہور ہے کہ محمد نے علی کے ہاتھ سے قلم لے کر خود ‘‘محمد رسول اللہ’’ میں سے ‘‘رسول اللہ’’ کو کاٹ دیا اور اس کی جگہ ‘‘ابن عبداللہ’’ لکھ دیا۔ یہ حدیث بخاری اور مسلم دونوں نے صلح حدیبیہ کے بیان میں لکھی ہے۔ پھر زندگی کے آخری دنوں میں جب محمد بستر مرگ پر تھے تو ارشاد کیا کہ ایک دوات اور سفید کاغذ میرے پاس لاؤ۔ میں ایک وثیقہ اور کتاب تم کو لکھ دوں تاکہ میرے بعد تم گمراہ نہ ہوجاؤ۔ یہ حدیث شیعوں اور سنیوں کے مباحثوں میں کافی مشہور ہے۔ اس کو ابن عباس نے روایت کیا ہے اور بخاری و مسلم دونوں میں موجود ہے۔
تبصرہ :
صلح حدیبیہ والی حدیث میں نبی علیہ السلام سے رسول اللہ لکھا ہونے کا مٹانا تو مذکور ہے مگر ابن عبداللہ لکھ دینا کہیں مذکور نہیں یہ ملحد کا سفید جھوٹ ہے۔ ایک ان پڑھ شخص اتنے عرصے میں اپنے نام سے واقف ہوہی جاتا ہے ، ہم نے دیہاتوں میں کئی ایسے بابے دیکھے ہیں جنہوں نے کسی سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا لیکن وہ اپنا نام لکھ سکتے ہیں ۔ جہاں تک واقعہ قرطاس والی حدیث کا تعلق ہے اس میں بھی لکھوانے کا ذکر ہے لکھنے کا ذکرنہیں یہاں بھی بےشرم ملحد نے جھوٹ بولا ہے۔ ملحد یہ اعتراضات ایک عیسائی مستشرق کی کتاب سے پیش کررہا ہے اور عیسائیوں ہی کی کتاب میں اُمی نبی (ﷺ) کی آمد کی پیش گوئی موجود ہے ۔
” پھر وہ کتاب اسے دین جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتا اور کہیں، اسے پڑھ اور وہ کہے میں تو پڑھنا نہیں جانتا۔ ( کتاب مقدس ، یسعیاۃ: 29/12)
ملکہ سبا یعنی بلقیس اور سلیمان کی ملاقات:
ملحد لکھتا ہے
قرآن میں جو کچھ اس باب میں آیا ہے، اگر اس قصہ کو یہودیوں کی کتاب تارگوم ثانی استھر (Second Targum Esther) سے ملائیں تو یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اس افسانے کو بھی محمد نے یہودیوں سے محض سن کر پسند فرمایا اور یوں اس کو قرآن میں جگہ مل گئی۔ سورہ نمل میں اس قصہ کی تفصیل دیکھ ڈالیے، چیونٹیوں کا لشکر، اڑتے جانور اور ان کی گفتگو، ملکہ ٔ سبا کو سجدہ، سلیمان کا اسے خط بھیجنا، تخت کا بیان، بلقیس کی پنڈلیوں کا ذکر وغیرہ سے کچھ تارگوم ثانی سے ماخوذ ہے۔ فرق صرف تخت کے بیان میں ہے لیکن بقیہ قصہ من و عن ہے، حتیٰ کہ نامہ بر پرندے بھی آپس میں مشابہت رکھتے ہیں۔ قرآن میں اس نامہ بر کو ‘‘ہد ہد’’ کہا گیا ہے جب کہ تارگوم ثانی میں ‘‘چکور۔’’ اگر اس معمولی فرق سے کوئی یہ کہے کہ قرآن کا قصہ وحی پر مبنی ہے تو اس پر مسکرانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
تبصرہ :
پیغمبراسلام نے یہودیوں سے کہاں سنا؟ اسکا ثبوت ملحد صاحب کبھی پیش نہیں کرسکتا ۔ اہلیان عرب میں یہودی رسائی مستندبدرجہ دوم مواد تک نہیں تھی یہ سب مواد تو آثارقدیمہ کی دریافت ہے اور مدت مدید تک یہودی اس سے نابلد رہے ہیں لہذا یہ بات بعیدازقیاس ہے کہ یہ قصہ وہاں سے ماخوذ ہے۔جب تک کہ اس کے ٹھوس ثبوت دستیاب نہ ہوجائیں کہ پیغمبراسلام کی ان کتب تک رسائی تھی؟ دوسری بات یہ کہ قرآن مجید نے کہیں بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ پیغمبراسلام کوئی نیا دین یا نئی تعلیمات لے کر آئے ہیں بلکہ اسلام تو سابقہ ادیان حق کا تسلسل ہے اگرچہ اسلام ان مذاہب میں پیدا ہوجانے والے خرافات کا رد کرتا ہے جوکہ وقت کے ساتھ ساتھ جاہل عوام میں رائج ہوگئی تھیں لہذا اس واقعہ کو تاریخ سے مسروق قرار دینا سوائے جہالت کے اور کچھ بھی نہیں۔ تیسری بات یہ کہ اگر یہ واقعہ تورات کی تواریح سے ہی لیا گیا ہے تو پھر یہ اعتراض سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصرین یہودیوں کو کرنا چاہیے تھا اور وہ ہرگز جاہل نہیں تھے بلکہ ان میں عبداللہ بن سلام اور عمرو رضی اللہ عنہما جیسے یہودی فقہاء اور شرع کے عالم موجود تھے جو ملحدین کی طرح عقل سے پیدل اور جاہل ہرگز نہیں تھے۔جب انہوں نے اس واقعہ کے مبینہ سرقہ پر کچھ نہیں کہا بلکہ پیغمبراسلام پر ایمان لے آئے تو اب دو ہزار سال بعد عیسائی یا ملحد اٹھ کر جتنا بھی شور مچا لیں اس سے اسلام قرآن اور صاحب قرآن کی صداقت پر کوئی حرف نہیں آسکتا۔
قصہ ہاروت و ماروت کا: معترض لکھتا ہے
‘‘ماور ان (ہزلیات) کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان کے عہدسلطنت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے اور سلیمان نے مطلق کفر کی بات نہیں کی، بلکہ شیطان ہی کفر کرتے تھے کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔ اور ان باتوں کے بھی (پیچھے لگ گئے) جو شہر بابل میں دو فرشتوں (یعنی) ہاروت اور ماروت پر اتری تھیں۔ اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے، جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو (ذریعۂ) آزمائش ہیں۔ تم کفر میں نہ پڑو۔ غرض لوگ ان سے (ایسا) جادو سیکھتے، جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں۔ اور خدا کے حکم کے سوا وہ اس (جادو) سے کسی کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے تھے۔ اور کچھ ایسے (منتر) سیکھتے جو ان کو نقصان ہی پہنچاتے اور فائدہ کچھ نہ دیتے۔ اور وہ جانتے تھے کہ جو شخص ایسی چیزوں (یعنی سحر اور منتر وغیرہ) کا خریدار ہوگا، اس کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں۔ اور جس چیز کے عوض انھوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈلا، وہ بری تھی۔ کاش وہ (اس بات کو) جانتے۔ ’’(سورہ بقرہ: 102)
اگرچہ قرآن کی محولہ بالا آیت میں ہاروت اور ماروت کا تعارف مل جاتا ہے لیکن تفسیروں میں ان کے تعلق سے کئی تفصیلات ملتی ہیں جو یہودیوں کی ‘‘تالمود’’ میں دو تین جگہ لکھا ہوا مل جاتا ہے۔ ان دونوں قصوں کو جب ہم آپس میں ملا کردیکھتے تو صرف یہی فرق نظر آتا ہے کہ قرآن میں ان فرشتوں کو ہاروت اور ماروت کہا گیا ہے جب کہ مدراش میں شمخری اور عزائیل ۔
تبصرہ:
تالمود شریعت کی تشریح یعنی فقہ اور احکامات کی کتاب ہے قصہ کہانیوں کی نہیں۔مزید جیسا کہ ہم نے اوپر لکھا کہ اہلیان عرب میں یہودی رسائی مستندبدرجہ دوم مواد تک نہیں تھی یہ سب مواد آثارقدیمہ کی دریافت ہے اور یہودی اس سے نابلد رہے ہیں لہذا یہ بات بعیدازقیاس ہے کہ یہ قصہ وہاں سے ماخوذ ہے۔تفصیل کے لیے دیکھیے ہماری تحریر” قرآن ، تورات اور انجیل کے قصے”
ملحد لکھتا ہے:
عبداللہ بن عمرو سے ایک حدیث روایت ہے کہ ‘‘نبی صلعم ہم لوگوں سے بنی اسرائیل کی حدیثیں بیان کرتے کرتے صبح کردیتے تھے، جب تک انھیں نماز کا خیال نہ آجاتا۔’’ اس حدیث سے واضح ہے کہ محمد یہود کے قصص اور افسانوں سے جو ان کے درمیان مروج تھے، اچھی طرح واقف ہوگئے تھے۔ اگر قرآن و حدیث کی تعلیمات کا ان قصص اور افسانوں سے موازنہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ ان دونوں ایک پختہ اور یقینی رشتہ ہے۔ یہاں یہ عذر لنگ بیکار ہے کہ رسول ناخواندہ تھے، اس لیے وہ یہودیوں کی کتابیں نقل کرنا تو کجا پڑھ بھی نہیں سکتے تھے۔ عموماً اس کی شہادت سورۃ اعراف کی آیت 157 کے فقرے‘‘ الرَّسُوْلَ النَّبِىَّ الْاُمِّىَّ’’ دیتے ہیں۔ لیکن اگر یہی دلیل محمد کے امی ہونے کی ہے تو پھر قرآن نے تو اہل عرب کو بھی امی کہا ہے، ملاحظہ فرمائیں سورۃ جمعہ کی آیت 2، سورۃ آل عمران کی آیت 20۔ حالاں کہ اہل عرب میں پڑھے لکھے اور ان پڑھ سب تھے لیکن چونکہ وہ علم دین اور کتب سماوی سے بے بہرہ تھے ، اس لیے ان کو ایسا لقب دیا گیا اور یہ اصطلاح بھی یہودیوں کی تھی ۔ اہل اسلام کی اصطلاح ‘‘جاہلیت’’ ہے جو قرآن میں بھی آیا ہے۔ اسلام کے قبل جتنا زمانہ گذرا، سب کو اسی میں شمار کیا جاتا ہے۔
چنانچہ محمد کو امی کہہ کر یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ناخواندہ یا ان پڑھ تھے۔ علاوہ بریں محمد کے گھر میں اہل کتاب کے صحائف پڑھنے اور لکھنے والے بھی تھے مثلاً حبیب بن مالک اور عبداللہ بن سلام جو اگرچہ صحیح اور مستند کتابوں سے پوری طرح واقف نہ تھے تو بھی روایتوں اور قصے کہانیوں کو کچھ نہ کچھ ضرور جانتے تھے جو اس زمانے کے یہودیوں کے درمیان مروج تھیں۔ اگر اسے تسلیم کرنے میں کسی کو تامل ہے تو پھر وہ مجھے بتلائے کہ اہل یہود کی وہ حدیثیں آپ نے کہاں سے سیکھی تھیں جو رات بھر آپ اپنے اصحاب کو سنایا کرتے تھے؟
تبصرہ :
- ملحد نے جو روایت پیش کی یہ روایت ذخیرہ احادیث میں تلاش کے باوجود ہمیں نہیں ملی ۔اس حدیث کی سند وحوالہ موجودنہ ہونے کی صورت میں یہ سوال ہی احمقانہ ہے کہ آپ اہل یہود کی قصہ گوئی صحابہ کرام کو بیان کیا کرتے تھے۔بلاسند ومتن وحوالہ ایک حدیث لکھ کر اس سے خودساختہ استنباط کرنا دھوکہ دہی ملحدین کا ہی وصف ہے ۔
- ملحد نے یہ دعوی کیا کہ امی اصطلاح یہودیوں کی ہے؟حالانکہ یہود کے ہاں ایسی کوئی اصطلاح موجود نہیں ؟ ملحد کو معلوم ہے کہ اسکو پڑھنے والے فری تھنکرز صم بکم ہیں انکو جو بیان کردو اگر وہ اسلام کے مخالف ہو ا تو یقین کرلیں گے ، اس لیے گھڑی جاو جو دل میں آتا ہے۔۔
- نبی کریم ﷺ کے گھرانے میں اہل کتاب کے صحائف پڑھنے والے تو نہ تھے البتہ صحابہ کرام میں یہودیوں کے کبار اور جید علماء ضرور موجود تھے جو حق کو پہچان اور تورات میں مرقوم نبی آخرالزماں کی نشانیاں پہچان کر آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لاچکے تھے ۔
ملحد:قصہ ہابیل و قابیل کا:
قرآن میں آدم کے دونوں بیٹوں کا قصہ سورہ مائدہ ، آیت نمبر 27تا 32 میں مذکور ہے۔ یہودیوں کی روایتوں میں دونوں بھائیوں کی یہ فرضی گفتگو کئی طرح سے بیان ہوئی ہے۔ تارگوم جوناتھن اور تارگوم یروشلمی (Targum ofJonathan and Targum of Jerusalem) میں مرقوم اس قصے اور قرآن کی مذکورہ بالا آیات میں مندرج قصے میں فرق صرف اتنا ہی ہے کہ وہاں تو کوے سے قائن (جس کو عربی کتابوں میں قابیل لکھا گیا ہے) کو مردہ گاڑنا سکھایا جب کہ یہاں آدم کو۔ سنی سنائی بات ہونے کے سبب یہ فرق پیدا ہوا تھا۔ اس کا ایک بہت بڑا ثبوت خود قرآن میں موجود ہے، یعنی اس قصے کے تعلق سے جو آخری آیت ہے‘‘اس قتل کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم نازل کیا کہ جو شخص کسی کو قتل کرے گا، (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے، اس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا اور جو اس کی زندگانی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا اور ان لوگوں کے پاس ہمارے پیغمبر روشن دلیلیں لا چکے ہیں، پھر اس کے بعد بھی ان سے بہت سے لوگ ملک میں حد اعتدال سے گذر جاتے ہیں۔’’ (سورہ المائدہ: 32)
اس کا اس قصے سے کیا ربط ہے، واضح طور پر معلوم نہیں پڑتا۔ اس جگہ یہ کلام بالکل بے جوڑ ہے اور مفسرین قرآن کے پاس اسے مذکورہ قصے سے ربط دینے کا کوئی سامان موجود نہیں ہے ۔لیکن اس عقدے کا حل ہمیں کتاب عبرانی ‘‘مشناہ سنہدرین’’ (Mishnah Sanhedrin) کے باب 4، آیت 5 میں توریت کی اس آیت کی تفسیر میں ملتا ہے۔ وہ آیت کچھ یوں ہے،‘‘تب خدا نے قائم سے کہا تو نے کیا کیا؟ تیری بھائی کا خون زمین سے مجھ کو پکارتا ہے۔’’ (پیدائش، باب 4، آیت 10) اصل عبرانی میں یہ لفظ خون صیغہ جمع یعنی ‘‘خونہا’’ استعمال ہوا ہے۔ مفسرین عبرانی نے اس لفظ کی رعایت سے اس میں یہ پہلو پیدا کیا ہے، ‘‘قائن جس نے اپنے بھائی کو مار ڈالا ، اس کی نسبت یہ فرمایا گیا کہ تیرے بھائی کے خون پکارتے ہیں، یہ نہیں فرمایا کہ تیرے بھائی کا خون بلکہ تیرے بھائی کے خون تاکہ یہ بات روشن ہوجائے کہ جس کسی نے بنی اسرائیل میں سے ایک جان کو مار ڈلا تو موافق نوشتہ گویا اس نے ساری نسل کو جلا ڈالا۔’’
تبصرہ :
ملحد نے گھما پھرا کے اپنا ایک نتیجہ پیش کرنا ہوتا ہے ورنہ قتل کی آیت کے بعد قتل پر وعید کی آیت بالکل بے جوڑ نہیں ۔ نیز یہ واقعہ تالمود میں نہیں بائبل کی کتاب پیدائش میں موجود ہے اور اس میں بھی کئی مقامات پر سنگین پیچیدیاں موجود ہیں جوکہ قرآنی بیان میں ہرگز نہیں۔لہذا نفس واقعہ صرف یہ ہے کہ قرآن مجید نے اصل واقعہ تنقیحا بیان کرکے تورات کے غلط بیان کی تصحیح کردی۔(تفصیل) جہاں تک عبرانی مفسر کی بات ہے تو معترض کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ عبرانی مفسر کا ذاتی دعوی ہے اور اسکا عیسوی شریعت میں کوئی ثبوت موجود نہیں ہے اور یہودیوں کا کوئی بھی عالم اس سے متفق نہیں ہے۔ ہم پہلے لکھ چکے کہ توارت کی تفاسیر میں بہت سی باتوں کی وضاحت انکے علماء نے پہلے صحیفوں سے کی تھی ۔
ملحد :
“قرآن نے بہت سارے توراتی قصے نقل کیے جیسے زمین وآسمان کی چھ دنوں میں تخلیق، تخلیقِ آدم (علیہ السلام)، اور کچھ قوانین وغیرہ، تاہم یہ قصے تورات نے آس پاس کی تہذیبوں سے چوری کیے تھے “
تبصرہ :
ان الزامات کو ڈاکٹر ذاکر نائیک نے نہایت خوبصورت اور محکم دلائل کے ساتھہ رد کیا ہے. ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اگر آپ قرآن اور بائبل کا جائزہ لیں تو کی مقامات پران میں یکسانیت پائی جاتی ہے. لیکن اگر آپ انکا گہرائی سے تجزیہ کریں تو ان میں خفیف سا فرق نظر آئے گا. اس فرق کو اگر آپ سائنسی معلومات کی روشنی میں دیکھیں تو یہ ٢ باتیں ثابت ہو جائیں گی . ایک قرآن کریم نے قصّوں کو نقل نہیں کیا ہے اور دوسری سائنسی معلومات کی روشنی میں قرآن کریم کی حقانیت بھی کھل کر ثابت ہو جاتی ہے.
ا) کائنات کی ٦ دنوں میں تخلیق :
بائبل میں ابتدائے آفرینش کی پہلی کتاب کے پہلے باب کے مطابق کائنات چھہ دنوںمیں تخلیق کی گئی ہے اور ہر دن چوبیس گھنٹوں پر مشتمل بتایا گیا ہے. جبکہ قران کریم میں لفظ ایام استعمال ہوا ہے. جو کہ ٢٤ گھنٹے کہ دن کی جمع کے لئے بھی بولا جاتا ہے اور سال کی جمع کے لئے بھی بولا جاتا ہے. اس کا استعمال ایک زمانے اور ایک عہد کے لئے بھی کیا جاتا ہے جو کہ ایک غیر معین طور پر طویل ہو سکتا ہے جس پر سائنس کو اعتراض نہیں ہو سکتا.
٢) سورج کی تخلیق دن کی تخلیق کے بعد :
بائبل ( پیدائش ١ : ٣-٥ ) کہتی ہے کہ خدا نے دن اور رات کی تخلیق پہلے دن کی.دوسری طرف بائبل کے ہی مطابق ( پیدائش – ١ : ١٤-١٩ ) سورج چوتھے دن تخلیق کیا گیا . جو کہ مضحکہ خیز حد تک غلط ہے.. دن اور رات کا ہونا سورج کے بغیر ممکن نہیں. قران کریم اس کے برعکس اس طرح کا کوئی بیان دیتا نظر نہیں آتا. اگر فاضل مضمون نگار کو اس طرح کے کسی بیان کا علم ہوتا تو مجھے قوی یقین تھا کہ وہ ایک لمحہ ضایع نہیں کرتے اپنا فیصلہ سنانے میں.
سوال پھر وہیں آجاتا ہے کہ اگر قران کریم کسی کتاب کی نقل ہے تو یہ مضحکہ خیزیاں قران میں کیوں نہیں؟
٣ ) سورج ، چاند اور زمین کی تخلیق :
بائبل ( پیدائش : ١ : ١١-١٣ ) کے مطابق نباتات بیج والی گھاس ، پودوں اور درختوں کے ساتھ تیسرے دن تخلیق کی گئی. جبکہ اسی جگہ ( پیدائش – ١ : ١٤-١٩ ) یہ بتا یا جا رہا ہے کہ سورج چوتھے دن تخلیق کیا گیا ہے. یہ سائنسی طور پر ممکن ہی نہیں ہے کہ سورج کے بغیر نباتات کی نمو ہو سکے. کیا فضل مضمون نگار اس طرح کی کوئی بات قران میں پاتے ہیں. اگر قران کریم نقل ہے تو وہ نباتات کو سورج سے پہلے کی تخلیق کیوں نہیں بتاتا ؟
٤ ) چاند اور سورج دونوں روشنی دیتے ہیں :
بائبل کے مطابق ( پیدائش – ١ : ١٦ ) ” خدا نے دو روشنیاں تخلیق کیں. بڑی روشنی دن میں اجالا کرتی ہے اور چھوٹی روشنی رات میں ” جبکہ سائنسی طور پر یہ بات صاف ہے کہ چاند کی اپنی کوئی روشنی نہیں لہٰذا اسکی روشنی کے بارے میں تخلیق کا لفظ استعمال کرنا غلط ہے.کیا فاضل مضمون نگار جانتے ہیں کہ قران کریم چاند اور سورج کی روشنیوں کے بارے میں کیا کہتا ہے ؟ قرآن کریم سورہ نوح میں کہتا ہے کہ :
وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا ( ٧١ : ١٦ )
اور چاند کو ان میں (زمین) کا نور بنایا ہے اور سورج کو چراغ ٹھیرایا ہے.
کیا عربی میں مہارت رکھنے والے مکّی صاحب بتانا پسند کریں گے کے قرآن کریم میں سورج اور چاند کی روشنیوں کے حوالے سے الگ الگ الفاظ کیوں استعمال ھوۓ؟ چاند کے لئے قران کریم میں قمر کا لفظ استعمال کیا ہے اور اسکی روشنی کے لئے “منیر ” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو کہ عکسی روشنی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے. کیا فاضل مضمون نگار بتانا پسند کریں گے کہ نبی کریم صلی الله علیھ وسلم کو چودہ سو سال پہلے یہ حقیقت کس نے بتائی تھی کہ چاند کی اپنی روشنی نہیں ہے ؟ پھر وہی سوال کہ اگر قرآن کریم نقل ہے تو یہ کیسی نقل ہے کہ جو سائنسی غلطیوں کو نقل نہیں کرتی ؟
٥) آدم پہلے انسان تھے جو ٥٨٠٠ سال پہلے دنیا میں تھے :
بائبل میں حضرت عیسیٰ علیھ السلام کا شجرہ نسب حضرت ابراہیم علیھ السلام تک اور پھر ان سے حضرت آدم علیھ السلام تک بتاتے ھوۓ بائبل کہتی ہے کہ آدم زمین پر ٥٨٠٠ سال پہلے آئے تھے.جس میں ١٩٤٨ سال کا وقت حضرت ابراہیم علیھ السلام اور حضرت آدم علیھ السلام کے درمیان گزرا. ١٨٠٠ سال کا وقت حضرت ابراہیم علیھ السلام اور حضرت عیسیٰ علیھ السلام کے درمیان گزرا اور حضرت عیسیٰ علیھ السلام سے اب تک ٢٠٠٠ سال گزر چکے ہیں. جبکہ علوم آثار قدیمہ اور ارضیات کے مطابق ١٠ ہزار سال یا اس سے بھی پہلے تک انسان کی اس زمین پر موجودگی کے شواہد موجود ہیں. بائبل کے اس بیان کے برعکس قرآن کریم میں اس طرح کا کوئی بیان نہیں جس میں انبیاء کے درمیان زمانوں کا درست وقت بتایا گیا ہو. کیا فاضل مضمون نگار یہ بتانا پسند کریں گے کہ کیا چیز تھی جسے قرآن کریم کو اس بظاھر دلچسپ تاریخ کو نقل کرنے سے روکا ؟
٦) طوفان نوح :
بائبل کے مطابق ( پیدائش : ابواب ٦،٧،٨ ) طوفان نوح عام تھا جس نے دنیا کی ہر شے کو تباہ و برباد کر دیا تھا سوائے انکے جو اس کشتی میں سوار تھے. اس بیان کے مطابق یہ واقعہ حضرت آدم علیھ السلام کے ١٦٥٦ سال بعد اور حضرت ابراہیم کی ولادت سے ٢٩٢ سال پہلے پیش آیا.اس وقت جب نوح علیھ السلام ٦٠٠ سال کے تھے اسکا مطلب یہ ہے کہ طوفان ٢١ یا ٢٢ صدی قبل مسیح آیا تھا. جبکہ آثار قدیمہ کے مطابق اس وقت مصر میں گیارہویں اور بابل میں تیسری شاہی پشت نے کسی بھی تباہی کے بغیر حکومت کی. اور اس وقت ان تہذیبوں میں کوئی وقفہ نہیں آیا جیسا کہ طوفان کی وجہ سے آنا چاہیے تھا. کیا فاضل مضمون نگار قران میں کوئی ایسا بیان دیکھتے ہیں کہ جس کے مطابق طوفان نوح کی عمومیت کا بیان ہو؟ کیا فاضل مضمون نگار یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیھ وسلم نے بائبل وغیرہ سے یہ کہانی لی اور اپنے طور پر ریسرچ کر کے اسکو اغلاط سے پاک کیا اور قران کریم میں ڈال دیا ( معاذ اللہ )
قرآنی احکامات جہاد اور ملحد کی ایک غلطی
ملحد نے جہاد کے متعلقہ احکامات کی آیات کے متعلق یہ دعوی کیا کہ یہ حضور ﷺ کی بنائی ہوئی ہیں ۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ ان کے متعلق بھی یہ دعوی کیوں نہیں کیا جاسکتا کہ یہ قدیم آسمانی کتب سے چرائی گئی ہیں ؟ حالانکہ اس بات کا ‘ثبوت’ باآسانی مل بھی سکتا ہے، جہادکا حکم پرانی شریعتوں میں بھی موجود تھا ، بائبل وغیرہ میں ایسی کئی آیات موجود ہیں، ان کی بنیاد پر باآسانی یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ یہ بائبل سے چرائی گئی ہیں ۔ مثلا:
“جب تم شہر پر حملہ کرنے جاؤ تو وہاں کے لوگوں کے سامنے امن کا پیغام دو۔ اگر وہ تمہارا پیغام قبول کرتے ہیں اور اپنے پھاٹک کھول دیتے ہیں اُس شہر میں رہنے والے تمام لوگ تمہارے غلام ہو جائیں گے اور تمہارا کام کرنے کے لئے مجبور کئے جائیں گے۔ لیکن اگر شہر امن کا پیغام قبول کرنے سے انکار کرتا ہے اور تم سے لڑتا ہے تو تمہیں شہر کو گھیر لینا چاہیے۔ اور جب خداوند تمہارا خدا شہر پر تمہارا قبضہ کراتا ہے تب تمہیں تمام آدمیوں کو مار ڈالنا چاہیے۔ تم اپنے استعمال کے لئے عورتیں بچے جانور اور شہر کی ہر ایک چیز لے سکتے ہو۔ خداوند تمہارے خدا نے تمہارے دشمنوں کی مالِ غنیمت تم کو دی ہیں۔ جو شہر تمہاری ریاست میں نہیں ہیں اور بہت دور ہیں اُن سبھی کے ساتھ تم ایسا برتاؤ کرو گے۔ لیکن جب تم وہ شہر لیتے ہو جسے خداوند تمہارا خدا تمہیں دے رہا ہے تب تمہیں ایک بھی چیز کو زندہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔
(Deuteronomy استثناء، اصحاح: 20: 16 تا 11)
اور
“داؤد اور اُس کے آدمی گئے اور جسوریوں، عمالیقیوں اور جزریوں پر چھاپا مارا۔ داؤد نے اُس علاقہ کے لوگوں کو شکست دی۔ داؤد نے اُن کی سب بھیڑیں مویشی، گدھے، اونٹ اور کپڑے لے لئے اور اُنہیں واپس اکیس کے پاس لایا لیکن داؤد نے اُن لوگوں میں کسی کو زندہ نہ چھوڑا۔ داؤد نے ایسا کئی بار کیا۔”
(1 Samuel سموئیل 1: اصحاح 27: 10-8)
کئی ایسی آیات بھی ہیں جو قرآنی احکامات سے بالکل میچ کرتی ہیں ۔ انجیل متی کی آیت ہے:
”یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کروانے آیا ہوں۔ صلح کروانے نہیں بلکہ تلوار چلانے آیا ہوں، کیونکہ میں اس لئے آیا ہوں کہ آدمی کو اس کے باپ سے، اور بیٹی کو اس کی ماں سے اور بہو کو اس کی ساس سے جدا کردوں۔“
اس قول کے آگے روایت یوں ہے:
”اور آدمی کے دشمن اس کے گھر ہی کے لوگ ہوں گے۔ جو کوئی باپ یا ماں کو مجھ سے زیادہ عزیز رکھتا ہے وہ میرے لائق نہیں اور جو کوئی بیٹے یا بیٹی کو مجھ سے زیادہ عزیز رکھتا ہے وہ میرے لائق نہیں۔ اور جو کوئی اپنی صلیب نہ اٹھائے اور میرے پیچھے نہ چلے وہ میرے لائق نہیں۔ جو کوئی اپنی جان بچاتا ہے اسے کھوئے گا اور جو کوئی میری خاطر اپنی جان کھوتا ہے اسے بچائے گا۔“ (انجیل متی، باب 10، آیات 36 تا 39)
قرآن کریم میں دیکھیں تو اس میں بھی مومنوں سے یہی مطالبہ کیا گیا کہ اللہ، اس کے رسول اور جہاد کی خاطر انہیں تمام رشتوں اور علائق کو نظر انداز کرنا ہوگا (سورۃ التوبۃ، آیت 23-24)؟
”تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں کچھ تمہارے دشمن ہیں۔“ (سورۃ التغابن، آیت 14)؟
قرآن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول آیا ہے کہ ”جو میرے پیچھے چلا وہی مجھ سے ہے۔“ (سورۃ ابراہیم، آیت 36)؟
کیا حدیث میں آیا کہ ”تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے اپنے باپ، اپنے بیٹے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔“ (صحیح بخاری، کتاب الایمان، حدیث رقم 14)؟
اگر یہی بائبل اور پرانی شریعتوں کی تعلیم بھی ہے تو پھر ان آیات کے متعلق ملحد صاحب نے یہ دعوی کیوں نہیں کیا کہ یہ احکامات پرانی کتابوں سے چرائے گئے ہیں ؟ ملحد کے سارے ورک کو دیکھیں تو اسکی وجہ یہی لگتی ہے کہ ملحد نے اپنی کتاب کا پہلے سے جو سکیچ بنایا تھا اس میں مصنفین کے خانوں میں اک خانہ حضور ﷺ کا بھی رکھاتھا ، بعد میں اس نے قرآن پر نگا ہ ڈالتے ہوئے مختلف خانوں میں آیات تقسیم کیں تو حضور ﷺ کے حصے میں جہاد کے متعلقہ احکامات کی آیات آئیں کہ یہ حضور ﷺ کی بنائی ہوئی ہیں ، حالانکہ یہ آیات بھی اتنی ہی فصیح و بلیغ ہیں جو اک شاعر کے حصے میں آئیں اور ان میں بھی ایسی باتیں موجود ہیں جو قدیم کتابوں سے ماخوذ سیکشن میں رکھی آیات میں ہیں ۔ یہی حال ان آیات کا بھی ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حصے میں ڈالی گئیں ۔ اندھا بانٹے ریوڑیاں ۔۔
حضرت عائشہ و حضرت زینب رضی اللہ عنہ :
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے متعلق ملحد نے کچھ روایات کی بنیاد پر یہ مفروضہ گھڑا کہ وہ چونکہ کم عمر تھی اس لیے انکو دھوکا دینا آسان تھا ، حضور ﷺ اپنی وحی کو انکے ذریعے ثابت کرتے تھے کہ یہ انکے بستر پر نازل ہوئی ۔ ملحد کے اس مفروضے کے پیچھے دو مزید مفروضے قائم ہیں ایک یہ کہ سارا قرآن حضرت عائشہ کے بستر پر نازل ہوا ۔ دوسرا یہ کہ حضرت عائشہ حضورﷺ کی وفات تک کم سن ہی رہیں ۔ تاریخ و حدیث سے ادنی تعلق رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ یہ دو نوں مفروضے جھوٹ پر مبنی ہیں ۔ روایات سے یہ بات واضح ہے وحی مسجد میں ، دوران جنگ، سفر میں ، ام ایمن رضی اللہ عنہا کے گھر وغیرہ کئی جگہوں پر اور اصحاب رسول ﷺ کے سامنے بھی نازل ہوتی رہی ، دوسرے مفروضے کی حقیقت یہ ہے کہ حضرت عائشہ کی بلوغت کے بعد حضورﷺ سے شادی ہوئی تھی ۔ ہم جانتے ہیں وحی حضور ﷺ کی وفات تک نازل ہوتی رہی ، جب حضور ﷺ کا انتقال ہوا آپ کی عمر اٹھارہ برس تھی ۔کیا اٹھارہ سال کی عمر کم سنی کی عمر کہلاتی ہے ؟ کیا کوئی اتنا عرصہ اس عمر کی کسی عورت کو دھوکے میں رکھ سکتا ہے اور وہ بھی اپنی بیوی کو ۔ مزید حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضورﷺ کی وفات کے بعد بھی تقریبا پچاس سال زندہ رہیں لیکن کبھی آپ نے کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے حضورﷺ پر شک کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو حضور ﷺ کی وفات کے بعد کم از کم آپ کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشن کی ہرگز قدر و عزت قایم نہیں رہ سکتی تھی، ان کے قدم میں یہ استقلال کبھی نہ پیدا ہوتا اور وہ اس مصنوعی اور فرضی نبوت کے لئے ہر گز اس قدر مالی اور جانی قربانیاں نہیں پیش کرسکتی تھیں۔ نیز یہ کوئی ایسی بات نہ تھی جس کا علم حضرت عائشہ تک محدود رہ جاتا ۔ عرب کے کھلے صحرائی ماحول میں یہ دھوکہ دہی ممکن نہیں تھی ۔ آپ کی قوم سے جو آپ کی ہر حرکت و سکون کی پوری نگراں تھی اس راز کا محفوظ رہنا اور فاش نہ ہونا بالکل ناممکن تھا۔
حضورﷺ کے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کے متعلق ملحد کے اعتراض اور گھڑے مفروضے پر ہم پہلے ایک تحریر میں تبصرہ پیش کرچکے ہیں یہاں سے ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔
موافقات عمر :
حضور ﷺ کے صحابہ میں حضرت عمر فاروق رضی الله کے کردار اور صفات کا معروضی جائزہ لیں تو نظر آئے گا وہ بلاشبہ ایک عبقری صفت آدمی تھے ، انہوں نے اپنے دور خلافت میں بھی جو مختلف شعبہ جات میں اصلاحات کیں ، جو سسٹم بنائے انکی بنیاد پر اسلام کے دشمنوں نے بھی انہیں خراج تحسین پیش کیا ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عمر کی ان صفات کو دیکھتے ہوئے ہی فرمایا تھا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے ( راوہ الترمذی) اور ”الله تعالیٰ نے عمر کی زبان اور دل میں حق رکھ دیا ہے۔“ ( جامع ترمذی ) وہ حق ہی کہتا ہے۔“ (سنن ابو داؤد) وجہ یہی تھی کہ ان کے منہ سے وہی بات نکلتی جو حقیقت پر مبنی اور حق ہی کی آئینہ دار ہو تی ۔کئی آیات ایسی نازل ہوئیں جن میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کی تجویز ، رائے ، قول کی موافقت کی گئی ۔ ایسے شان نزول سے وابستہ یعنی حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنہ کی موافقت رکھنے والی آیات متعدد ہیں، محدثین ومورخین کی اصطلاح اور حقیقت پر مبنی کلمات کے بموجب” موافقات عمر“ رضی الله عنہ کہا جاتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح کے پچھلی امتوں میں بھی ایسے لوگ گزرے جو نبی تو نہ ہوتے تھے، مگر الله تعالیٰ کی مہربانی اور توجہ ان کے قلب سے گویا گفتگو کرتی تھی ۔ اللہ فرشتوں کے بغیر وحی کی سورتوں کے بغیر ہی اپنی باتیں ان کے دلوں میں القا فرمایا کرتے تھے۔ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے موافقت رکھنے والی کچھ آیات کو انکے اصل شان نزول کے ساتھ پیش کرتے ہیں ۔
1۔ حجاب کے احکام سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی، یا رسول اللہ ﷺ ! ازواجِ مطہرات کے سامنے طرح طرح کے لوگ آتے ہیں اس لیے آپ انہیں پردے کا حکم دیجیے۔ اس پر یہ آیت نازل ہو گئی۔
وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَاءِ حِجَابٍ۔
”اور جب تم ان سے برتنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر مانگو ”۔ (الاحزاب:٥٣،)
2۔ بدر کے قیدیوں کے متعلق بعض نے فدیہ کی رائے دی جبکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انہیں قتل کرنے کا مشورہ دیا ۔ اس پر آپ کی موافقت میں یہ آیت نازل ہوئی۔
لَوْلاَ کِتَاب مِنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَا اَخَذْتُمْ عَذَاب” عَظِیْم”۔
” اگر اللہ ایک بات پہلے لکھ نہ چکا ہوتاتو تم نے جو کافروں سے بدلے کا مال لے لیا،اس میں تم پر بڑا عذاب آتا ”۔(الانفال:٦٨)
3۔ حرمت سے قبل مدینہ طیبہ میں شراب اور جوئے کاعام رواج تھا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بارگاہِ نبوی میں عرض کی، ہمیں شراب اور جوئے کے متعلق ہدایت دیجیے کیونکہ یہ مال اور عقل دونوں ضائع کرتے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی،
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَا اِثْم” کَبِیْر”۔
”تم سے شراب اور جوئے کا حکم پوچھتے ہیں، تم فرما دو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے ”۔ (البقرۃ:٢١٩،)
4۔ ایک بار ایک شخص نے شراب کے نشہ میں نماز پڑھائی تو قرآن غلط پڑھا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پھر وہی عرض کی تو یہ آیت نازل ہوئی۔
یٰااَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکَارٰی ۔(النسائ:٤٣)
”اے ایمان والو! نشہ کی حالت میںنماز کے پاس نہ جاؤ ”
5۔ اسی سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بار بار دعا کی ، الٰہی! شراب اور جوئے کے متعلق ہمارے لئے واضح حکم نازل فرما۔ یہانتک کہ شراب اور جوئے کے حرام ہونے پریہ آیت نازل ہوگئی۔
اِنَّمَا الْخَمْرُ والْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلاَمُ رِجْس” مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ ۔
”بیشک شراب اور جؤا اور بت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام، تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ”۔ (المائدۃ:٩٠)
6۔ جب منافق عبداللہ ابن اُبی مرا تو اُس کے لوگوں نے رسو ل ُاللہ سے اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے درخواست کی ۔اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی،یا رسول اللہ ! عبداللہ ابن اُبی توآپ کا سخت دشمن اور منافق تھا ،آپ اُس کا جنازہ پڑھیں گے؟ رحمتِ عالم انے تبلیغ دین کی حکمت کے پیشِ نظر اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ یہ آیت نازل ہوگئی ،
وَلاَ تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَاتَ اَبَدًا۔ ‘
‘اور جب ان(منافقوں) میں سے کوئی مرے تو اس پر نماز نہ پڑھیے”۔
7۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پرجب منافقوں نے بہتان لگایا تو ر سول اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مشورہ فرمایا۔ آپ نے عرض کی ، آپ کا اُن سے نکاح کس نے کیاتھا؟ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا، اللہ نے ! اس پر آپ نے عرض کی ، کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کے رب نے آپ سے اُن کے عیب کوچھپایا ہو گا، بخدا یہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر عظیم بہتان ہے۔
سُبْحٰنَکَ ھٰذَا بُہْتَان” عَظِیْم” ۔ اسی طرح آیت نازل ہوئی۔ (النور:١٦)
8۔ دو شخص لڑائی کے بعد انصاف کے لیے بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے ۔ حضور ﷺ نے ان کا فیصلہ کر دیا لیکن جس کے خلاف یہ فیصلہ ہوا، وہ منافق تھا۔ اس نے کہا کہ چلو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس چلیں اور ان سے فیصلہ کرائیں۔ چنانچہ یہ دونوں پہنچے اور جس شخص کے موافق حضور نے فیصلہ کیا تھا اس نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا ، حضور نے تو ہمارا فیصلہ اس طرح فرمایا تھا لیکن یہ میرا ساتھی نہیں مانا اورآپ کے پاس فیصلہ کے لئے لے آیا ۔ آپ نے فرمایا، ذرا ٹھہرو میں آتا ہوں۔ آپ اندر سے تلوار نکال لائے اور اس شخص کو جس نے حضور کا فیصلہ نہیں مانا تھا، قتل کر دیا۔ دوسرا شخص بھاگا ہوا رسولُ اللہ ا کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس واقعہ کی اطلاع دی۔ آپ نے فرمایا، مجھے عمرسے یہ امید نہیں کہ وہ کسی مومن کے قتل پر اس طرح جرات کرے ۔ اس پر اللہ تعالٰیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس منافق کے خون سے بری رہے۔
فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ الخ۔
تمہارے رب کی قسم! وہ مسلمان نہ ہونگے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو،اپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اور جی سے مان لیں”۔ (النساء ٦٥)
۔ (تاریخ الخلفاء)
ان آیات کے متعلق ملحد کے مفروضوں پر مشتمل دعوےکا اسکے باقی آیات کے متعلق دعووں اور مفروضات کی طرح کوئی منطقی یا تاریخی ثبوت موجود نہیں، بلکہ صرف لفظی زور آزمائی، ذاتی خیال آرائی اورمرضی کا سیاق و سباق دے کر ہی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ آیات حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گھڑی تھیں ۔ ملحد کی تحریر کو دیکھتے ہوئے اسکی ڈرامہ یا خاکہ نویسی کی صلاحیتوں کی داد تو دی جاسکتی ہے لیکن علمی دنیا میں اسے ایک تحقیق کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا ، علمی دنیا میں اسکی حیثیت ایک لٹریری بلنڈر سے ذیادہ کچھ نہیں ۔ ملحد نے ان مفروضات کے لیے جن کتابوں سے استفادہ کیا ، انکے متعلق محققین کی رائے آگے پیش کی جائیگی’ اس سے بھی یہ واضح ہوجائے گا کہ اہل علم ایسی کہانیوں کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں ۔
تبصرہ: عبداللہ غازی