قرآن مجید کے متعلق جتنے اعتراضات کیے جاتے ہیں ہم ان کے جواب میں پوری فراخدلی سے کام لینا چاہتے ہیں۔ ہمارے گزشتہ جوابات سے اگر چہ اعتراض کا وزن معلوم ہو گیا اور حقیقت بے نقاب ہو چکی ہے۔ لیکن ہم ملحدین اور عیسائی مشنریز کی ابھی اور کُچھ ہمت افزائی کریں گے۔
ہم یہ تسلیم کئے لیتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شام کے ایک دو نہیں بلکہ بہت سے سفر کئے اور تجارت کے لئے نہیں بلکہ محض تحصیل معلومات ہی کی غرض سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں تشریف لے گئے۔ اور دو چار روز نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی کا بہت سا حصہ اہل کتاب کے مرکز “دینی شام” ہی میں صرف کردیا۔ یہود و نصاریٰ قرآن کے بیان اور حقیقت کے الٹ حضور سے خاص محبت رکھتے تھے ، انہوں نے آپ ﷺ سے اپنی کوئی بات نہیں چھپائی بلکہ اپنی ساری تفاسیر تک لا کے سامنے رکھ دیں ، جس کا مطالعہ کرکے آپ ﷺ نے قرآن میں انکے بیان کردہ قصوں کو پیش کیا ۔ ورقہ بن نوفل کے معلومات سے بھی آپ کو ایک دو دفعہ فائدہ حاصل کرنیکا موقع نہیں ملا بلکہ اسکو ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھ ہی رکھا۔ بلکہ ان تمام منزلوں سے آگے بڑھ کر ہم یہی فرض کئے لیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی امی نہ تھے اور آپ نہ صرف عربی میں بلکہ عبرانی، یونانی، سریانی اور ہر موجود زبان میں کتب مقدسہ کا مطالعہ خود کرسکتے تھے۔ اور آپ نے بائیبل کا بکثرت اور بارہا مطالعہ کیا۔ مگر ان تمام باتوں کے مان لینے کے باوجود بھی ہمارے مقدمے کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ ہمارا دعویٰ اسی طرح اپنی جگہ پر قایم ہے اور مخالفین اسلام کو اپنے پراپیگنڈے میں ذرہ برابر کامیابی نہیں مل سکتی .
واقعہ یہ ہے کہ
عیسائی مشنریز بائیبل کی جس قدر بھی حمایت کریں گے لیکن “مدعی سست گواہ چست” کیا کیجئے کہ خود کتب مقدسہ تو پیغمبر اسلام کی بعثت سے بھی صدیوں پہلے عیسائی مشنریز کی حمایت قبول کرنے سے استعفا دے چکی ہیں۔ یہودیت و نصرانیت کے دیوالیہ مذہبی خزانہ میں ان بے بہا جو اہر کا نام بھی نہ تھا جن کی تلاش پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہوسکتی اور پیغمبر نے جن کو اپنے ذاتی خزانہ سے پیش کرکے تمام عالم اور خود یہود و نصاریٰ کی آنکھوں میں ہمیشہ کے لئے چکا چوند پیدا کردی۔ اہل کتاب کے عوام تو کیا ان کے مایہ ناز حاملان علم کی جبیں سنگ دخترف کے سوا ان انمول موتیوں سے بالکل خالی تھیں جو اسلام کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی جاہل قوم پر نچھاور کردئے۔
اخذو اقتباس کا معیار:
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ایک وہ کتاب جس کے مضامین کسی دوسری کتاب سے ماخوذ ہوں اور کسی دوسری تصنیف کے اقتباسات سے اسکو مرتب کیا گیاہو لازمی طور پر اس کتاب کے مضامین اپنے ماخد سے ملتے جلتے ہوں گے اور دونوں کے بیانات الفاظ کے فرق کے سوا نفس مطلب کے لحاظ سے بالکل متحد نظر آئینگے صرف یہی ایک معیار ہے جس کی بناء پر کسی تصنیف کو دوسری سے ماخوذ کہا جا سکتا ہے۔
معیار کی تطبیق:
قرآن مجید اور بائیبل دونوں کو سامنے رکھ کر ہم بعض واقعات میں دونوں کتابوں کو متفق البیان ضرور پاتے ہیں لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ہمیں بہت سے بیانات میں انتہا کا اختلاف اور حددرجہ تناقض و تباین نظر آتا ہے۔ اگر بائیبل کسی مقام پر رات کہتی ہےتو قرآن اسکے بالکل برخلاف دن بتلاتا ہے۔
اگر فی الحقیقت قرآن بائیبل سے ماخوذ ہوتا تو اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ متفقہ مقامات کے علاوہ اختلافی بیانات میں قرآن مجید راہ صواب سے ہٹکر غلطیوں میں مبتلا ہوجاتا اور بائیبل ہمکو صحیح راستہ پر نظر آتی جو مصنف قرآن کی کم علمی کی دلیل ہوتی لیکن ہماری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہتی جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جن مقامات پر قرآن اور بائیبل کا راستہ الگ ہوتا ہے وہاں بائیبل تاریکی میں ٹھوکریں کھاتی ہوئی اور قرآن مجید صراط مستقیم پر گامزن نظر آتا ہے اور اصول درائیت و تنقید , تاریخی آثار کے لحاظ سے ہمیں بائیبل کا بیان غلط اور قرآن مجید کی روش کو صحیح باور کرنا پڑتا ہے۔
بائیبل کے پرستار ہمیں یہ بتلائیں کہ جن مقامات پر بائیبل نے غلطیاں کی ہیں، وہاں پیغمبر اسلام کو صحیح واقعات کا علم کس ذریعہ سے ہوا ؟ قرآن مجید کے کتاب اللہ اور اسکے مضامین کے وحی الٰہی ہونیکا اس سے روشن تر ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ بائیبل کو سامنے رکھنے کے بعد قرآن کا ترجمان وحی ہونا زیادہ روشنی میں آجاتا ہے تعرف الا شیاء باصندادھا۔
گزشتہ تحاریر میں ایسے کئی واقعات پر تبصرہ پیش کیا جا چکا ہے جن سے بائبل کی غلطی واضح ہے ذیل میں ہم مشتے نمونہ از خردارے ایک مشہور واقعہ ‘بنی اسرائیل کی گو سالہ پرستی ‘کا پیش کرتے ہیں جہاں قرآن اور بائیبل میں صریح مخالفت ہے، اور قرآن صراط حق پر اور بائیبل کجروی کر رہی ہے۔
توریت اور گوسالہ کا واقعہ:
اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسی پہاڑ سے اترنے میں دیری کرتا ہے تو دے ہارون کے پاس جمع ہوئے اور اسے کہا کہ اُٹھ ہمارے لئے معبود بنا کر ہمارے آگے چلیں کیونکہ یہ مرد موسی جو ہمیں مصر کے مالک سے نکال لایا ہم نہیں جانتے کہ اسے کیا ہوا ہارون نے انہیں کہا کہ زیور سونے کے جو تمہاری جورووں اور تمہاری بیٹوں بیٹیوں کے کانوں میں ہیں توڑ توڑ کر میرے پاس لاو۔ چنانچہ سب لوگ سونے کا زیور جو ان کے کانوں میں تھی توڑ توڑ کے ہارون کے پاس لائے اور اس ہاروں نے ان کے ہاتھوں سے لیا اور ایک بچھڑا ڈھال کر درست کیا اور انہوں نے کہا کہ اے اسرائیل یہ تمہارا معبود ہے جو تم کو مصر کے ملک سے نکال نکال لایا اور جب ہارون نے دیکھا تو اسکے آگے ایک قربان گاہ بنائی اور ہارون نے یہ کہہ کے منادی کی کہ کل خدا کے لئے عید ہے اور وہ صبح کو اٹھے اور سوختی قربانیاں چڑہائیں اور سلامتی کی قربانیاں گزارئیں اور لوگ کھانے پینے کے بیٹھے اور کھیلنے کودتھے۔ تب خداوند نے موسی کو کہا کہ کہا کہ تو اتر جا کیونکہ تیرے لوگ جنہیں تو مصر کے ملک سے چھڑا لایا خراب ہو گئے ہیں اس ہدایت سے جو میں نے انہیں فرمائی جلد پھر گئے ہیں انہوں نے اپنے لئے ڈھالا ہو بچھڑا بنایا اور اسے پوجا اور اسکے لئے قربانی ذبح کرکے کہا کہ اے اسرائیل یہ تمہارا معبود ہے جو تمہیں مصر کے ملک سے چھڑا لایا۔ پھر خدا وند نے موسیٰ سے کہا کہ میں اس قوم کو دیکھتا ہوں کہ ایک گردنکش قوم ہے۔ اب تو مُجھ کو چھوڑ کہ میرا غضب ان پر بھڑ کے اور میں انہیں بھسم کروں اور میں تُجھ سے ایک بڑی قوم بناوں گا۔ (توریت کتاب خروج، باب 32)
توریت کا بیان غلط ہونے کے اسباب:
توریت کا مذکورہ بالا بیان کس قدر پر ازحیرت ہے کہ بنی اسرائیل کا ایک نبی (ہارون علیہ السلام) بجائے اسکے کہ اپنی قوم کو راہ راست پر لائے اور ان کو ہدایت کرے, خدا کے مقابلہ میں علم بغاوت بلند کرتا, تولیم و ہدایت کی بیخ و بنیاداکھاڑ کر شرک و بت پرستی کا سبق پڑہاتا ہے اور خود اپنے ہاتھ سے گوسالہ بنا کر قوم سے اسکے سامنے رسوم عبادت بجالانے اور پرستش کرنیکے لئے اپیل کرتا ہے۔
نبی اور وہ بھی وہ عظیم المرتبت نبی جسکو توریت کے بیان کے مطابق خداوند عالم نے تمام بنی اسرائیل میں سے منتخب کرکے اپنی مقدس کاہنی کی عزت دی اور اپنی بارگاہ سے خاص اعزاز و احترام کا مستحق قراردیا جسکو کبھی جناب موسیٰ کی شرکت میں اور کبھی خود تنہا خداوند عالم سے ہمکلام ہونیکا اعلی شرف بھی حاصل تھا۔ (توریت کتاب احبار باب 11،14، کتاب عدو باب 12،14،19، توریت کتاب عدو باب18)
مذہبی تاریخ میں جناب ہاروں کی اعلی شخصیت اپنے برادر شفیق جناب موسیٰ کے ساتھ بنی اسرائیل کی اصلاح و ہدایت میں آ پکا شریک کار ہونا اور موجودہ حالت میں جناب موسی کی غیبت میں نیا بت موسوی کے فرائض انجام دینے کے لئے بنی اسرائیل میں آ پ کی قیادت اور رب العالمین کی طرف سے آپ پر متواتر انعامات و احسانات اور آسمانی رحمت کا نزول ان تمام باتوں کو سامنے رکھنے کے بعد کسی طرح یقین یا وہم بھی نہیں ہو سکتا کہ جناب ہاروں اپنی اور اپنے بھائی کی ایک عرصہ کی ڈالی ہوئی بنیادوں کو خود اپنے ہاتھوں سے یکدم اکھاڑ پھینکے اور ایک مدت کی جانکاہ مشقت و عرقریزی کے نتائج کو اس بیدردی کے ساتھ پامال کرینے کے لئے آمادہ ہوگئے اور اپنے رحیم و کریم خدا کی بارگاہ میں جو ان کو اپنی رحمت و عنایت کا مورد بنائے ہوئے ہے اس درجہ مرتبہ معرفت پر فائز ہونیکے باوجود اسکے مرحمت و احسان کا ذرہ برابر لحاظ نہ کرتے ہوئے ایسی بدترین نافرمانی کے لئے کمربستہ ہوئے.
ہماری اس حیرت کی بالخصوص اسوقت کوئی انتہا نہیں رہتی جب ہم دوسرے پہلو کو دیکھتے ہیں اور توریت میں ہماری نظر اس مکالمہ پر پڑتی ہے جو خدا اور جناب موسیٰ کے درمیان عین اس وقت ہورہا تھا جبکہ بقول توریت جناب ہارون بنی اسرائیل میں گو سالہ پرستی کی ترویج و اشاعت کر ہے تھے ۔ اس مکالمہ میں بھی جناب ہارون ہی کے متعلق خدا جناب موسیٰ سے یہ کلام کررہا تھا کہ ہارون کو مقدس کاہن اورامام بنایا جائے اور ہارون کے لئے بارگاہ قدرت سے مقدس کاہنی کے لباس کی تفصیلات بینا کی جا رہی تھیں۔
بہ بیں تفاوت رہ از کجا ست تا یکجا (توریت کتاب خروج باب 28،29)
خدا کو بنی اسرائیل کے گمراہ ہوجانیکی اطلاع ہوئی جناب موسی ٰ کو مکالمہ سے قوم کی خبر گیری کے لئے واپس کیا ، اس وقت خلاق عالم کے قہر و غضب کی آگ تمام بنی اسرائیل کو جلاکر خاک سیاہ کردینے کے لئے آمادہ تھی مگر جناب موسیٰ کی سفارش بنی اسرائیل کے حق میں کامیاب ثابت ہوئی، یہ سب کُچھ ہوا لیکن قابل صد حیرت کہ جناب ہارون کے دامن پر جو بقول توریت اس تمام ضلالت و گمراہی کے بانی اور خدائی انتقام کے مستحق تھے آتش قہر و غضب کی ایک چنگاری بھی اڑ کر نہ آئی، محبت آمیر لہجہ میں شکوہ تک نہ ہو بلکہ اسوقت بھی آسمانی رحمت کے مرکز نبی رہے۔ علم الٰہی کا بنی اسرائیل کی گمراہی سے باخبر ہونے کے باوجود گوسالہ کے اصل موجد جناب ہارون کے عمل سے یوں مطلع نہ ہونا ہماری حیرت میں اور اضافہ کردیتا ہے خصوصاً جبکہ ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس مقام پر جناب ہارون گوسالہ پرستی کی ترویج و اشاعت کر رہے تھے وہاں سے وہ مقام جہاں حضرت موسیٰ مکالمہ الٰہی میں مشغول تھے ایک یا دو میل سے زیادہ فاصلہ پر بھی نہ تھا۔
بغرض محال اگر اس وقت خدا اور حضرت موسیٰ جناب ہارون کے اس کارنامہ سے واقف نہ تھے اور ناواقفیت میں جناب ہارون کا یہ اعزاز و احترام برگاہ قدرت سے کیا گیا تاہم اس واقعہ کے گزر جانے کے بعد ہی کُچھ ترمیم ہوتی اور یہ عظیم الشان منصب اور عہدے جناب ہارون سے واپس لے لیے جاتے تب بھی ہم کو توریت کے بیان پر یقین کرنیکے لئے کُچھ گنجائش تھی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ گوسالہ پرستی کے واقعہ کے بعد بھی بارگاہ الٰہی میں جناب ہارون کا وہی اعزاز و احترام باقی ہے اور اسکی تجدید ہو رہی ہے۔
واقعہ مذکورہ کے ان تمام پہلووں پر نظر کرنے اور ان کے وحشتناک نتائج کو سامنے رکھنے کے بعد دنیا کا کوئی عاقل جو توحید و نبوت پر معرفت کےساتھ ایمان رکھتا ہوکسی طرح توریت کے اس بیان کو صحیح باور نہیں کرسکتا جس میں نہ صرف جناب ہارون پر گوسالہ پرستی کی اشاعت و حمایت کا غلط اور بے بنیاد الزام قائم ہے بلکہ معبود حقیقی کو بھی جہالت و ناواقفیت کے اتہام کے ساتھ ایک بانی شرک پر انعام و اکرام جاری رکھنے کی وجہ سے شرک و بت پرستی کی تائید میں ملوث کرنے کوشش کی گئی ہے۔ جس کے دیکھنے سے توحید کی عظمت و جلالت قلب سے مٹ جانےکے بعد شرک جیسے بدترین گناہ کی کوئی اہمیت بھی نظر میں باقی نہیں رہتی۔ حامیان بائیبل کو یہ عقیدہ مبارک ہو جنکو بائیبل کی حمایت میں بائیبل کی اسطرح کی اور اس سے زیادہ ہزاروں وحشتناک تعلیمات کے سامنے سرجھکانا ہے۔
نتیجہ بحق بائیبل:
اسقدر طولانی بحث کے بعد بھی بفرض محال اگر ہم جناب ہارون کو اس اتہام سے یقینی طور پر بری نہ تسلیم کرسکیں تاہم اس قدر خلاف دلائل و قرائن کے ہوتے ہوئےہم توریت کے بیان کو صحیح بھی نہیں باور کرسکتے البتہ توریت کے اس بیان سے ہمیں اتنا سبق یقینی طور پر ضرور حاصل ہوا کہ خدا کی نام نہاد (موجودہ توریت) کتاب فریضہ ہدایت انجام دینے کے بدلے ضلالت میں پیش پیش ہے اور دنیا کو تاریکی میں اسی طرح حیران و سرگرداں بنا رہی ہے جس طرح بنی اسرائیل کو صحرا میں چھوڑا تھا بائیبل کے اسی قسم کے بیانات نے توحید و نبوت اور معارف روحانیہ کے وحشتناک خد وخال اور بھیانک صورتیں بنا کر مذہب کو ناقابل تلافی صدمہ پہنچایا اور اساس ہدایت کو متزلزل بنا دیا۔ توریت نے شرک و دیگر بداخلاقیوں کے ارتکاب اور اشاعت و حمایت کے جو غلط و بے اصل الزامات انبیاء اور مقربین بارگاہ الٰہی کےدامنوں پر لگائے ہیں انکی پاکیزہ ہستیاں ان الزامات سے یقیناً بری ہیں۔ لیکن نوع انسان کی پیشرو ہستیوں کو ان ذلیل اخلاق کے ساتھ انسان کے سامنے پیش کرکے عام انسان میں سببہ کاری کی جراءت و جسارت اور ارتکاب معاصی کا جذبہ پیدا کرانے اور اس طرح اخلاق رذیلہ کو عالم میں رواج دینے کا علمبردار بائیبل کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں (کیا خدائی کتابوں کی یہی شان ہوتی ہے؟)
قران اور گوسالہ کا واقعہ:
اب ذرا قران مجید کو بھی ایک مرتبہ نظر غور سے ملاحظہ کیجئے۔ قرآن نے بھی بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی کے واقعہ کو بیان کیا ہے لیکن اسطرح کہ اصول درایت کے لحاظ سے قرآن کے بیان کا ایک نقطہ بھی قابل انکار نہیں ہے بلکہ قرآنی آیات کے مطالعہ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ بیان کرنیوالا اپنا ذاتی مشاہدہ پیش کر رہا ہے قرآن مجید نے جناب ہارون کے دامن عصمت کو گو سالہ پرستی کی نجاست سے اسی طرح پاک و صاف دکھلایا ہے جیسا کہ ایک نبی کے شایان شان ہے اور جس طرح ہر موقع پر امت کی ہدایت ایک نبی کے پیش نظر ہونا چاہئے۔ اگر بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی کے موقع پر جناب ہارون کو منصب نبوت پر فریضہ ہدایت ادا کرتے ہوئے دیکھناہے تو وہ صرف قرآن ہی پیش کرسکتا ہے۔
قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْۢ بَعْدِكَ وَاَضَلَّـهُمُ السَّامِرِيُّ 85فَرَجَعَ مُوْسٰٓى اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًا ڬ قَالَ يٰقَوْمِ اَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَـنًا ڛ اَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ اَمْ اَرَدْتُّمْ اَنْ يَّحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَخْلَفْتُمْ مَّوْعِدِيْ 86 قَالُوْا مَآ اَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَلٰكِنَّا حُمِّلْنَآ اَوْزَارًا مِّنْ زِيْنَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنٰهَا فَكَذٰلِكَ اَلْقَي السَّامِرِيُّ 87ۙ فَاَخْرَجَ لَهُمْ عِجْــلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ فَقَالُوْا ھٰذَآ اِلٰـــهُكُمْ وَاِلٰهُ مُوْسٰى ۥ فَنَسِيَ 88ۭ اَفَلَا يَرَوْنَ اَلَّا يَرْجِعُ اِلَيْهِمْ قَوْلًا ڏ وَّلَا يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا 89ۧ وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هٰرُوْنُ مِنْ قَبْلُ يٰقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهٖ ۚ وَاِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِيْ وَاَطِيْعُوْٓا اَمْرِيْ 90 قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَيْهِ عٰكِفِيْنَ حَتّٰى يَرْجِعَ اِلَيْنَا مُوْسٰى 91 قَالَ يٰهٰرُوْنُ مَا مَنَعَكَ اِذْ رَاَيْتَهُمْ ضَلُّوْٓا 92ۙ اَلَّا تَتَّبِعَنِ ۭ اَفَعَصَيْتَ اَمْرِيْ 93 قَالَ يَبْنَـؤُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْيَتِيْ وَلَا بِرَاْسِيْ ۚ اِنِّىْ خَشِيْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِيْ 94
اللہ نے فرمایا کہ ہم نے تمہاری قوم کو تمہارے بعد آزمائش میں ڈال دیا ہے اور سامری نے ان کو بہکا دیا ہے۔ اور موسیٰ غم اور غصے کی حالت میں اپنی قوم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے قوم کیا تمہارے پروردگار نے تم سے ایک اچھا وعدہ نہیں کیا تھا؟ کیا (میری جدائی کی) مدت تمہیں دراز معلوم ہوئی یا تم نے چاہا کہ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف غضب نازل ہو؟ اور (اس لئے) تم نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا اس کے خلاف کیا۔ وہ کہنے لگے کہ ہم نے اپنے اختیار سے تم سے وعدہ خلاف نہی کیا بلکہ ہم لوگوں کے زیوروں کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھے پھر ہم نے اس کو آگ میں ڈال دیا اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا۔ تو اس نے انکے لئے ایک بچھڑا بنا دیا (یعنی اس کا) قالب جس کی آواز گائے کی سی تھی تو لوگ کہنے لگے یہ تمہارا معبود ہے اور موسیٰ کا بھی معبود ہے مگر وہ بھول گئے ہیں۔ کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیتا اور نہ ان کے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتا ہے۔ اور ہارون نے ان سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ لوگو! اس سے صرف تمہاری آزمائش کی گئی ہے اور تمہارا پروردگار تو خدا ہے تو تم میری پیروی کرو اور میرا کہا مانو۔ وہ کہنے لگے کہ جب تک موسیٰ ہمارے پاس نہ آئیں ہم اس (کی پوجا) پر قائم رہیں گے۔ (پھر موسیٰ نے ہارون سے کہا) کہ ہارون جب تم نے ان کو دیکھا تھا کہ گمراہ ہوگئے ہیں تو تم کو کس چیز نے روکا؟۔ (یعنی) اس بات سے کہ تم میرے پیچھے چلے آؤ بھلا تم نے میرے حکم کے خلاف (کیوں کیا؟)۔ کہنے لگے بھائی میری داڑھی اور سر (کے بالوں) کو نہ پکڑیئے میں تو اس سے ڈرا کہ آپ یہ نہ کہیں کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میری بات کو ملحوظ نہ رکھا۔( سورۃ طہٰ آیت 85 تا 94)
قریب قریب انہی الفاظ میں اس واقعہ کا سورۃ اعراف میں بھی ذکر ہے۔
قرآن کا صدق بیان:
قران مجید حضرت ہارون کو گوسالہ سازی کے الزام سے بری کرتے ہوئے سامری کو گوسالہ کا موجد بتلاتا ہے۔ حامیان بائیبل توریت کے بیانکی حمایت میں تمسخر و استہزاء کی صدائیں بلند کرتے ہیں اور قرآن کے بیان کو غلط ثابت کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ سامری درحقیقت کسی شخص کا نام نہیں بلکہ شہر سامرہ کے رہنے والے کو اس شہر کی نسبت سے سامری کہتے ہیں شہر سامرہ بنی اسرائیل کے ایک بادشاہ نے جس کا نام “عمری” تھا جناب سلیمان کے تقریباً پچاس برس بعد بسایا تھا لہٰذا گوسالہ کے واقعہ کے تخمیناً 570 برس بعد شہر سامرہ کی بنیاد پڑی ۔ شہر کے آباد ہونے سے 570 برس پہلے حضرت موسیٰ کے زمانہ میں کہان سے کوئی سامری گوسالہ بنانے کے لئے پیدا ہوگیا۔ ؟
عیسائیوں کا یہ اعتراض ظاہر فریب ضرور ہے لیکن لیکن معلوم نہیں کہ یہ تمسخر قرآن کے ساتھ ہے یا اپنی جہالت و ناواقفیت پر. یہی وہ مقامات ہیں جہاں قرآن کی عمیق النظری پر سجدہ کرنا پڑتا ہے اور قرآن کی تحقیق و تدفیق کے انمول جواہر کے سامنے آنکھیں چکا وند ہونے لگتی ہیں۔ قرآن مجید نے جو شخص سامری گوسالہ کاموجد بتلایا ہے وہ شہر سامرہ کا رہنے والا کوئی شخص نہیں ہے بلکہ درحقیقت شمرون بسیاکر ابن یعقوب کی نسل میں سے ایک شخص ہے ۔ چنانچہ کتاب پیدائش بات آیت 13 میں اس شمرون کا ذکر موجود ہے اور توریت کتاب عدد بات 26 آیت 23میں یہ ذکر موجود ہے کہ شمردلی لوگ یعنی شمرون بن بسیاکر کی اولاد حضرت موسیٰ کے ساتھ تھی جسکی تعداد ہزاروں تک پہنچتی تھی۔ جس سامری کا قرآن میں ذکر ہے وہ درحقیقت شمرونی ہےلفظ “سامری” لفظ “شمرونی” کا معرب ہے، چنانچہ شہر سامرہ جس کا سابقا ذکر ہوا ہے عربی تو اس کو سامرہ کہتے ہیں لیکن توریت کی اصل عبرانی زبان میں اسکو “شمرون” کہا جاتا ہے اسی طرح یونانی انگریزی ، فرانسیسی،تراجم میں بلکہ عربی و فارسی تراجم کے علاوہ قریب قریب جملہ زبانوں کے تراجم میں اس شہر کا نام جو سلاطین اول و دوم اور کتاب اشعیاوار میاوعاموس و میخاوعزرا و نحمیا میں ساٹھ مقام سے زیادہ استعمال ہوا ہے “شمرون” ہی لکھا ہے اسی طرح انجیل لوقا انجیل ، یوحنا اور اعمال الرسل میں “سامری”، “سامریہ” سامریین” کے الفاط تقریبا نو جگہ استعمال ہوئے ہیں، اور عربی فارسی کے علاوہ تمام زبانوں کے تراجم میں لفظ”شمرونی” وغیرہ لکھا ہے۔ جسکے بعد لفظ “سامری” کا “شمرونی” کا معرب ہونا بلا اشکال واضح اور گوسالہ کے واقعہ میں قرآن کی اچھوتی تحقیق نہایت درجہ مستحق تحسین اور توریت کا بیان قابل افسوس ثابت ہوتا ہے۔