قرآن کے مصنفین نامی سیریز کے مجہول مصنف نے اپنی کہانیوں کے لیے جن کتابوں سے مواد اٹھایا ان میں کلئیر ٹسڈل کی کتاب ” قرآن کے اصل ماخذ” اور ابن ورق کی کتاب ” The Origins of the Koran: Classic Essays on Islam’s Holy Book”” سرفہرست ہے۔ ان مصنفین اور انکی کتابوں کے متعلق جدید دور کے محققین کیا رکھتے ہیں’ ملاحظہ فرمائیے۔
ابراھم گیگر کی کتاب Was hat Mohammed aus dem Judenthume aufgenommen :
عیسائی مشنریوں کی زمانہ قدیم سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ کسی طرح یہ ثابت کر دیں کہ قرآن ایک بے مقصد (نعوذباللہ) کتاب ہے جس کو بائبل سے نقل کیا گیا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم محض ایک فراڈتھے(نعوذباللہ)۔ اس طرزِ عمل کا آغاز صلیبی جنگوں کے ساتھ ہو، تحریری صورت میں البتہ اس مشن کو انیسویں صدی میں ایک یہودی ابراہم گیگر نے آگے بڑھایا۔ اس شخص نے ایک کتاب لکھی: Was hat Mohammed aus dem Judenthume aufgenommen? ۔جس کے اندر قرآن میں یہودی مواخذ سے تعلق رکھنے والی چیزوں کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ یہ کتاب ‘مماثلت کا مطلب سرقہ’ کے مفروضے پر مشتمل ہے ۔ گیگر کے مطابق کسی مشترک چیز کے موجود ہونے کا مطلب نقل ہے اور محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم نے قرآن میں موجود چیزیں عبرانی بائبل اور یہودیوں کے دوسرے مواخذ سے حاصل کیں۔
اس کتاب میں یہ بتانے کی زحمت نہیں کی گئی کہ کیا محمد صلی اللہ و علیہ وسلم کے زمانے میں عبرانی بائبل کا کوئی عربی ترجمہ موجود تھا اور وہ کونسا یہودی ربی تھا جس نے محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم کو یہ چیزیں پڑھائیں ؟ مزید قرآن کے مواخذ کے بارے میں بھی کوئی حوالہ موجود نہیں ہے۔
یہ بات باعث حیرت نہیں کہ عیسائی مشنریوں اور پادریوں نے مسلمانوں سے نپٹنے کے لیے اس کتاب کا فوراً انگریزی ترجمہ بھی کرا لیا۔
“مصنف نے اس مضمون کے لکھنے کے ایک سال بعد ہی اسے اپنے خرچ پر جرمن زبان میں شائع کروایا اور سرورق پر یہ چیز بھی لکھوائی گئی تھی کہ اس کتاب کو یونیورسٹی پرائز بھی دیا جا چکا ہے۔1896 میں ایف ایم ینگ نے (جن کی تقرری بنگلور انڈیا میں تھی اور جو دہلی مشن برائے خواتین کے معاون تھے)نے اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا اس امید پر کہ انڈیا میں موجود عیسائی مشنریز کو مسلمانوں سے نپٹے کے لیے اس سے مدد حاصل ہو گی۔ دو سال بعد عیسائیت کی ترویج کرنے والی دہلی مشن سوسائٹی نے مدراس میں اس ترجمے کو چھپوایا۔ “
(Abraham Geiger, Judaism And Islam (English Translation Of Was hat Mohammed aus dem Judenthume aufgenommen?), 1970, Ktav Publishing House Inc., New York, pp. VIII)
گیگر کی کتاب کے متعلق جدید محققین کی آراء:
جدید محققین نےگیگر کی کتاب میں مبالغہ آرائ اور غلط بیانی کو واضح کیا ہے ۔ گیگر کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے سٹلمن کہتے ہیں:
“اس کتاب میں قرآن کے لیے یہودی تعاون کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے۔ بہت سی روایات جن کے حوالے اس نے پیش کیے ہیں عیسائیوں، تلمود اور ہیگادک ادب میں بھی ملتے ہیں۔ آج کے زمانے میں مسلمانوں ، یہودیوں اور عیسائیوں کی بہت سی کتابیں شائع ہونے کے بعد ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اب ہمیں گیگر سے زیادہ واقعات کی ترتیب کا علم ہے۔ اس کی روشنی میں اب ہمیں یہ پتہ چلا ہے کہ گیگر کو جہاں یہ لگا کہ قرآن میں یہودی ماخذ استعمال ہوئے ہیں، درحقیقت اس کا الٹ بھی ہو سکتا ہے۔ جیسے کہ The Pirqe de Rabbi Eli’ezer جسکواسلام کے ظہور میں آنے کے بعد ایڈیٹ کرکے شائع کیا گیا تھا۔
(Norman A. Stillman, “The Story Of Cain & Abel In The Qur’ân And The Muslim Commentators: Some Observations”, Journal Of Semitic Studies, 1974, Volume 19, p. 231.)
حتمی جائزے میں سٹلمن لکھتے ہیں کہ:حتمی طور پر ، اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ کسی کہانی کو کسی خاص ماخذ سے منسوب کرتے ہوئے انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے ۔ (Ibid., p. 239.)
ویلر(Brannon M Wheeler) بھی سٹلمن کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
” کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ایک ایسی کثیر الجہتی تحقیق کی ضرورت ہے جس میں ان مواخذ کی تواریخ پر کام کیا جائے اور یہ پتہ لگایا جائے کہ ایسے تمام یہودی اور عیسائی مواخذ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسلام کے ظہور میں آنے کے بعد شامل کیے گئے ، کیا واقعی اسلام سے پہلے بھی موجود تھے اور انھوں نے اسلام پر اثر ڈالا یا کہ ان پر اسلام کی وجہ سے کوئی اثر پڑا۔ “( Brannon M Wheeler, “The Jewish Origins Of Qur’ân 18:65-82? Reexamining Arent Jan Wensinck’s Theory”, Journal Of The American Oriental Society, 1998, Volume 118, p. 157)
ڈبلیو سینٹ کلیئر ٹسڈل کی کتاب “قرآن کے اصل ماخذ“:
کلئیر ٹسڈل نے گیگر کی کتاب میں پیش کیے گئے مفروضوں کو بڑھایا اور ان میں اضافہ کرتے ہوئے ایک کتاب پیش کی ۔ عیسائیت کی ترویج کرنے والی سوسائٹی نے ڈبلیو سینٹ کلیئر ٹسڈل کی کتاب “قرآن کے اصل ماخذ” کو بھی 1905 میں چھپوایا۔ یہ نئی کتاب گیگر کی کتاب کا ہی ایک تسلسل تھا اور اس میں کچھ نئے مواخذ کا بھی اضافہ کیا گیا تھا۔
گیگر کی طرح ٹسڈل نے بھی محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم کے زمانے میں عیسائیوں اور یہودیوں کے عربی میں موجود مواد کاکوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی یہ بتایا ہے کہ محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم کو یہ چیزیں کس نے پڑھائیں، سوائے اس دعویٰ کے کہ محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم کو بتانے والے کچھ لوگ موجود تھے۔ عیسائی علوم کی ترویج کرنے والی اس سوسائٹی کا مقصد بالکل واضح تھا۔ ٹسڈل بھی اپنی کتاب کے متعلق لکھتا ہے :
“عیسائی مشنریز معروف مسلمانوں سے سوالات کا نیا طریقہ دریافت کرنے اور انہیں اپنی ناقابل دفاع پوزیشن سے باخبر کرنے کے لیے ‘ ہماری ان تحقیقات کی پیروی کو اہم پائیں گیں ۔”
(Rev. W. St. Clair Tisdall, The Original Sources Of The Qur’ân, 1905, Society For The Promotion Of Christian Knowledge, London, pp. 28)
ٹسڈل کی کتاب “قرآن کے اصل ماخذ ” دراصل عیسائی مشنریوں کی ایک نئی بائبل ہے جو مسلمانوں کو فروخت کی گئی۔ اس کتاب کا مقصد ایسے مسلمانوں کے ذہن میں شکوک شبہات پیدا کرنا ہے جو تحقیقانہ ذہن نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کتابوں میں مستعمل طریقہ واردات سے واقف ہیں۔ ٹسڈل کی سستی اور شرمناک سکالرشپ اسکے مضامین “محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم کے اپنے بیویوں سے بائبل کی تعلیم لینا ، حضرت سلمان فارسیؑ، ہابیل اور قابیل کا واقعہ ,سامری کی کہانی کا ماخذ وغیرہ میں پیش کیے گئے دلائل سے بہت واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے ۔
جدید سکالر ٹسڈل کے کام کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
جدید سکالر ٹسڈل کی کتاب “قرآن کے اصل ماخذ” یا ایک اور مشنری ولیم موئیر کی کتاب ‘اسلام کے ماخذ’ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ فرانکوئیس ڈی بلوئی (François de Blois)ابن وراق کی کتاب “قرآن کے ماخذ:اسلام کی مقدس کتاب پر کلاسیکل مضامین” میں موجود ٹسڈل کے حوالوں کے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :
“اسکے کلاسیکل مضامین کوئی اہمیت نہیں رکھتے، ان سے بھی بدتر سینٹ کلیئر ٹسڈل کا پیش کردہ حقیر مشنری پراپیگنڈہ ہے۔ ۔ یہ بات حیران کن ہے کہ ” مصنف جو اپنی کتاب “میں مسلمان کیوں نہیں “میں خود کو تنقیدی سوچ رکھنے والا اور قدامت پسندی کی تمام شکلوں کا سخت مخالف ثابت کرنے کے لیے اتنا بڑھ چڑھ کے لکھتے ہیں، نے اس کتاب میں انیسویں صدی کے دو عیسائی مناظر کی لکھی ہوئی باتوں پر اس درجہ انحصار کیا ہے۔ “
(François de Blois, “Review of Ibn Warraq’s The Origins Of The Koran: Classic Essays On Islam’s Holy Book”, Journal Of The Royal Asiatic Society, 2000, Volume 10, Part 11, p. 88)
اس طرح کا ایک جائزہ ہربرٹ برگ (Herbert Berg) نے بھی پیش کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ:
“سینٹ کلیئر ٹسڈل کا مضمون جس کا پیش لفظ ولیم موئیر نے لکھا ہے فقط عیسائی نقطہ نظر کے لیے شامل کیا گیا ہے۔۔ یہ ہرگز عالمانہ مضمون نہیں ہے یہ صرف مخالفانہ خصوصیات کا حامل ہے۔ اس میں عیسائیوں کی تاریخ کو صرف مسلمانوں کی نفی کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ مصنف نے ان قرآنی واقعات کو جو عیسائی تعلیمات اور اولڈ ٹیسٹامنٹ کے منافی ہیں’ کا ذکر کرتے ہوئے “بیوقوفانہ”، “خیالی”، “بچگانہ”، اور “جاہلانہ” جیسے الفاظ کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔ “
(Herbert Berg, “Review of Ibn Warraq’s The Origins Of The Koran: Classic Essays On Islam’s Holy Book”, Bulletin Of The School Of Oriental & African Studies, 1999, Volume 62, p. 558.)
بہ الفاظ دیگرٹسڈل کا مواد نہ صرف عیسائی مشنریوں کا حقیر پراپیگنڈہ ہے بلکہ قرآن اور یہودی تصنیفات پر ایک بے بنیاد اور بے رحمانہ حملہ ہے ، خصوصا جہاں مصنف کے خیالات انکی تعلیمات سے مختلف ہیں ۔ اس کتاب کا مواد کس حد تک جھوٹ اور غلط بیانی پر مشتمل ہے اسکی تفصیل گزشتہ تحاریر میں بھی پیش کی جاچکی ہے جن سے واضح ہے کہ مستشرقین کے نزدیک عیسائیت کی ترویج بعض دفعہ سچ اور حق گوئی سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
یہ عیسائی مشنریوں کی عادت ہے کہ انھوں نے جدید تحقیق اور محققین کی رائے کو کبھی اہمیت نہیں دی ، بصورت دیگر کون ان کی اچھی خبروں پر یقین کرتا۔
ابن ورق اور اسکی کتاب “قرآن کے ماخذ:اسلام کی مقدس کتاب پر کلاسیکل مضامین“:
ابن ورق کی یہ کتاب کلئیر ٹسڈل کی کتاب سے ہی ماخوذ ہے ۔ابن ورق کی کتاب “قرآن کے ماآخذ” کا جائزہ لیتے ہوئے مذہبی تعلیمات کے پروفیسر ہربرٹ برگ نے ابن وراق کو ایک ایسا مصنف گردانا ہے جس کا انداز اپنی تحاریر میں انتہائی مناظراتی اور متضاد ہے۔ برگ نے اس مجموعے میں تھیوڈور نول ڈیکےکے مضمون کو شامل کرنے کے اقدام کو سراہا ہے لیکن ولیم سینٹ کلیئر ٹسڈل کے مضمون کی شمولیت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ مضمون ہرگز عالمانہ نہیں ہے۔برگ لکھتے ہیں
” ایسا لگتا ہے کہ ابنِ وراق نے بعض مضمون جو اپنے مجموعے میں شامل کیے ہیں ان کی شمولیت کی وجہ علمی یا تاریخی ہونے کی بجائے صرف یہ تھی کہ وہ مضمون اسلام کے خلاف لکھے گئے تھے۔ اس بات سے ہرگز یہ مت سمجھا جائے کہ ابنِ وراق کے مجموعے کی اہمیت کم ہو گئی ہے، بلکہ یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ مجموعہ قرآن کے متعلق تاریخی اسکالر شپ کی نمائندگی نہیں کرتا” ۔
(Berg, Herbert (1999). “Ibn Warraq (ed): The Origins of the Koran: Classic Essays on Islam’s Holy Book”. Bulletin of the School of Oriental and African Studies 62 (3): 557–558.)
پروفیسر فریڈ ڈونر نے ابن ورق کے مضمون “تاریخی محمد صلی ٰ اللہ و علیہ وسلم کی تلاش” کا جائزہ لیتے ہوئے اسکی عربی میں ضروری مہارت کی کمی کو نوٹ کیا اور لکھا کہ ابنِ وراق نے اپنے مضمون میں عربی مواد کو متضاد طریقے سے استعمال کیا ہے ، دلائل غیر اصلی ہیں، ترمیمی نظریات کے حامل لوگوں کی طرف حد درجے کا جھکاؤ اور رحجان ہے اور کتاب کا پہلے سے موجود ایک مخصوس ایجنڈہ ہے جو کہ ہرگز عالمانہ نہیں بلکہ محض اسلام پر اٹیک ہے۔ ” (Donner, Fred. (2001) Review: The Quest for the Historical Muhammad. Middle East Studies Association Bulletin, University of Chicago)
انتھروپالوجسٹ اورتاریخ دان ڈینیئل مارٹن ویریسکو نے ابنِ وراق کی کتاب : Defending the West: A Critique of Edward Said’s Orientalism پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ اس ایک کتب فروش کے ماڈرن بیٹے نے ایک مناظراتی مغالطہ تحریر کر کے پانچ سو سے زائد صفحات کو ضائع کیا ہے۔
(Daniel Martin Varisco (2009). “Orientalism’s Wake: The Ongoing Politics of a Polemic”. MEI Viewpoints (12))
ابنِ وراق کی کتاب “قرآن کے مآخذ” بذات خود ٹسڈل کی کتاب سے ماخوذ ہے جو کہ فرانکس ڈی بلوئے کے مطابق ” ٹسڈل کی کتاب اصل میں سستے عیسائی مشنری پراپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں۔ “
( Blois, François de (2000). “Review of Ibn Warraq’s The Origins Of The Koran: Classic Essays On Islam’s Holy Book”. Journal of the Royal Asiatic Society)
اسماء افسر الدین لکھتی ہیں کہ:
” ابنِ وراق نے ایک تعمیری بحث میں دلچسپی نہیں لی، بلکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی بات کو بغیر کسی دلیل اور مباحثے کے پورے کا پورا تسلیم کر لیا جائے،اسماء نے یہ اضافہ کیا کہ “قرآن کے ماخذ” نہ صرف ایک زہر آلود ماحول کو پروان چڑھاتی ہے بلکہ ایک دیانت داری سے کی جانے والی علمی بحث کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کی بھی بیخ کنی کرتی ہے۔ (Asfaruddin, Asma; Warraq, Ibn (2001). “The Quest for the Historical Muhammad”. Journal of the American Oriental Society (American Oriental Society))