بائبل مقدس مسیحی دنیا کے لئے خدا کا ناقابل تغیرکلام ہے۔۔ مسیحی علماء کے مطابق یہ دعوی بنی اسرائیل/یہودیوں کی تاریخ وحی کےاندر اپنی جڑیں رکھتا ہے، لہٰذا یہ دلیل بحیثیت ثبوت تاریخی طور پرناقابل مواخذہ ہے!
تاہم ، تاریخ کا مطالعہ کرنے پرہمیں کچھ ایسےحقائق سے بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے، جوعیسائی دعوی کے خلاف جاتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔۔ بائیبل مقدس کی انگریزی اور دنیاکی دیگرزبانوں میں ترجمے (Translation Process) کی داستان بہت عجیب مگر دلچسپی سے بھرپورہے۔۔ دنیا بھر کی زبانوں میں ہونے والے “بائبلی تراجم” کی بنیادعصرحاضرکے انگریزی ترجمہ ورژن (English Versions) ہیں، جن کو دیگراقوام بطور”سند” (Certified Text) استعمال کرتی ہیں اوران پراندھا اعتماد رکھ کروہ اپنی اپنی زبانوں میں بائبل کے ترجمہ کاکام کررہے ہیں۔۔ مثال کے طور پربائبل کے ایک اہم “اُرْدُوترجمہ” کی بنیاد انگریزی زبان کا 1978ء میں شائع ہونے والا “نیوانٹرنیشنل ورژن” (NIV) ہے۔اِس سے ایک چیزواضح طور پرثابت ہوتی ہے کہ بائبل کے 99 % تراجم درحقیقت کسی”ترجمے کا ہی ترجمہ” ہیں، جبکہ دنیاکی کسی بھی معتبرزبان میں پائے جانے والے ترجمے اور بائبل کےعہدنامہ ہائے جدیدوقدیم (New & Old Testaments) کےاصل متن کے مابین کوئی براہ راست تعلق اور ربط ضبط موجود نہیں ہے۔
حیرت انگیز امریہ ہے کہ جن مختلف یونانی “متون /مخطوطات” (Greek Manuscripts) پرآج تک کیےجانے والےانگریزی تراجم کی بنیاداستوار ہے، وہ بھی کم ازکم ” چار” (4) بنیادی قِسموں میں منقسم ہیں۔۔ لہٰذا ہم بادلیل کہہ سکتے ہیں کہ آج کم از کم “چارعدد عہدنامہ جدید” مسیحی دنیا میں موجود ہیں، جوکہ اصل ہونے کے دعویدار ہیں۔۔ تاہم ان میں سے کسی کے متعلق بھی سوفیصد (100%) یقین سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ہی اصل عہد نامہ جدید ہے۔۔ اِس پرمزید حیرت کی بات یہ ہے کہ آج تک دریافت ہونے والے 14 ہزارسےزائد قدیم مخطوطات میں سے کوئی ایک مخطوطہ یا متن بھی مکمل شکل میں دستیاب نہیں ہے۔۔ مزید برآں، اس سے بڑھ کردلچسپ امریہ ہےکہ ان ہزاروں مخطوطات میں سے کوئی سے دونسخے بھی باہم مشابہت نہیں رکھتے۔۔
آج مسیحی دنیا کے پاس سب سے قدیم نسخہ ” کوڈکس ویٹیکانس ” (Codex Vaticanus) ہے، جو310 ء سے 325ء کے لگ بھگ کہیں لکھا گیا۔۔ دوسرا قدیم ترین واہم ترین نسخہ ” کوڈکس سیناٹیکس” (Codex Sinaiticus) ہے، جوکہ 375ء یا اس کے بعد تحریرکرکے صحیفے (Codex) کی شکل میں تشکیل دیا گیا ۔ جبکہ تیسرا قدیم ترین یونانی نسخہ “کوڈکس الیگزینڈرینوس” (Codex Alexandrinus) کہلواتا ہے، جس کے لکھے جانے کا زمانہ پانچویں صدی عیسوی ہے۔۔ مسیحیت کے پاس تصدیق عہدجدید کےلئے فخرکئےجانےکے قابل کل اثاثہ یہی 3 قدیم نسخے ہیں۔۔ تاہم یہ سب نسخے عہدجدید کے لکھے جانے کے اصل زمانہ سے کم از کم 2 سے 4 صدیاں بَعْد کی پیداوارہیں اوراصل متن کی نمائندگی نہیں کرتے۔۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی نسخہ مکمل عہد نامہ جدید یعنی موجود 27 کتابیں اپنے اندر نہیں رکھتا۔۔ دوسرے لفظوں میں، عیسائی “صحیفائی قانون” (Scriptural Canon) کی توثیق بھی ان مسودات سےکسی طور ممکن نہیں ہے! مزید برآں، مسیحی فاضلین تسلیم کرتےہیں کہ ان مسودات میں کثرت سے “کاتبین کی غلطیاں” اور بعد کی “تحریفات واضافہ جات” (Scribal Errors & interpolations) موجود ہیں، جن کی ایک لمبی فہرست اضافوں کے ساتھ فاضل مغربی مسیحی علماء متعددبارشائع بھی کرچکے ہیں۔ ان میں سے اکثرتحقیقی نتائج پر مشتمل شائع ہونےوالی کتابوں کے حقوق “United Bible Society” کے ہاتھ میں ہیں۔۔
ان نسخوں کی بنیاد پر”عہدنامہ جدید” کے جو 4 اہم یونانی ورژن (Greek Versions) یونانی متن کی تعمیرنوکےبعد تخلیق کئےگئے ہیں، وہ یہ ہیں:
1۔”ویسٹکاٹ اینڈ ہورٹ” (Westcott & Hort) — انیسویں صدی عیسوی!
2۔ “نیسلے ـ الاند” (Nestle-Aland) — انیسویں صدی عیسوی!
3۔ ” UBS گریک نیو ٹیسٹامنٹ ” (United Bible Society Greek New Testament) — بیسویں صدی عیسوی!
(آج کے جدیدترین بائبلی ورژن، مثلاً نیو انٹرنیشنل ورژن (NIV) ، نیو امریکن اسٹینڈرڈ ورژن (NASB) ، ریوائزڈ اسٹینڈرڈ ورژن ( RSV) ، امریکن ریکوری ورژن (ARV) وغیرہ انہی 3 مختلف المتن یونانی متنوں پرمبنی انگریزی تراجم ہیں۔)
4۔ ” ٹیکٹوس ریسپٹوس ” (Textus Receptus) ۔
1881ء میں شائع ہونےوالے بائبل کے “ریوائزڈ ورژن” (Revised Version) نے “ویسٹکاٹ اینڈ ہورٹ” کے متن کو کام میں لاتے ہوئے زمانہ قدیم میں “مقدس گائے” سمجھی جانے والی “کنگ جیمس ورژن بائیبل” (KJV) کی قانونی ومذہبی حیثیت کو چیلنج کردیا تھا۔
“کنگ جیمس ورژن بائبل” (1611ء) کا انگریزی ترجمہ سولہویں صدی عیسوی میں کیتھولک چرچ کے تحت تشکیل دئےگئے یونانی متن “ٹیکٹوس ریسپٹوس” پر استوار کیا گیا تھا۔
“ٹیکٹوس ریسپٹوس” کیتھولک اِسْکالَر”اراسمس” (Desiderius Erasmus) کا تیار کیا ہوا متن تھا، جواس نے “سینٹ جیروم” (Saint Jerome) کے مشہورزمانہ لاطینی ترجمہ “وولگاتا” (Vulgate) اور کچھ یونانی مسودات کی مدد سے تیار کیا تھا۔ یاد رہےکہ تشکیل متن کےدوران کئی ایک مقامات پر”اراسمس” نے یونانی مسودات میں عہدنامہ جدید کی کسی غیردستیاب (Missing) آیت کو رائج الوقت لاطینی متن سے اٹھا کرواپس یونانی میں ترجمہ کردیا اوراسکو عہدنامہ جدید کا اصلی متن قراردے دیا۔۔ مثال کے طور پر، کتاب مکاشفہ (Revelation) کی آخری 8 آیات (باب 22 ، آیات 13 تا 21) ، 1 یوحنا 5 : 7-8 (باب 5 ، آیات 7 تا 8) وغیرہ اسی زمرے میں آتی ہیں۔ مزید حیران کن امریہ ہےکہ اِس سے قبل کم ازکم پورے ایک ہزار سال تک مسیحی دنیا کے پاس عہدنامہ جدید کا کوئی باقاعدہ “متفق الآراء” یونانی متن سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ اس لئےکیتھولک چرچ نے سینٹ جیروم کے “وولگاتا” (Latin Vulgate) کو ہی “خدا کے الہامی کلام” کا درجہ دے رکھا تھا ، جس کی یہ حیثیت کسی نہ کسی طورآج بھی برقرار ہے!
بازنطینی سلطنت کی سرکاری زبان لاطینی میں بائبل کے ترجمے کےاس منصوبے کی شروعات سینٹ جیروم کی نگرانی میں 382 عیسوی میں ہوئی اوریہ منصوبہ 405ء میں مکمل ہوا۔۔ اس ترجمہ کولاطینی زبان میں “Vulgate” یعنی “روزمرہ عام فہم زبان” کا نام دیا گیا۔۔ جیروم کے “Latin Vulgate” پرمبنی انگریزی زبان میں کیا گیا ترجمہ “Douay-Rheims English Bible” کہلاتا ہے، جوکہ صرف “کیتھولک عیسائیوں” کے ہاں استعمال کیا جاتا ہے۔۔
مسیحی دنیا میں آج بھی یہ تنازعہ بڑی شدت کے ساتھ موجود ہے کہ یونانی زُبان میں موجود عہدنامہ جدید کے ان چاروں ورژنز میں سے اصلی “مسیحی عہدنامہ” کے قریب ترین کون سا ہے؟ لیکن اِس بات کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔۔ البتہ مسیحی اسکالرز متن کی تعمیرنو (Reconstruction) کرتے ہوئے اسے اے (A)، بی (B)، سی (C)، ڈی (D)، ای (E)، اور ایف (F) کے درجوں میں تقسیم کرتے ہیں، جس کا مطلب مندرجہ ذیل ہے:
☜ “اے” سے مراد وہ متن ہے جو ہر طرح سے تصدیق شدہ ہے۔۔
☜ “بی” سے مراد وہ متن ہے اکثریت سے تصدیق شدہ ہے۔۔
☜ “سی” سے مراد وہ متن ہے جو کافی مخطوطات میں موجود ہو۔۔
☜ “ڈی” سے مراد وہ متن ہے جو بہت کم نسخوں میں پایا گیا ہو۔۔
☜ “ای” سے مراد وہ متن ہے جوایک یا دو نسخوں میں موجود ہو، لیکن اس پرعلماء کی پختہ رائے موجود ہو کہ یہ قابل اعتماد ہے۔۔
☜ “ایف” سے مراد وہ متن ہے جومحض ایک نسخہ میں یا صرف بعدکےزمانہ کے مسودات میں پایا گیا ہو،اورمتن کےنقاد ماہرین اسے ‘ناقابل اعتماد’ قرار دے چکے ہوں۔۔
مثال کے طور پر، انجیل مرقس کے 16 ویں باب کا طویل اختتام (آیات 9 تا 20) جس میں “یسوع مسیح کی حیات ثانیہ” (Resurrection) کا ذکر ہے،اسےمتن کے ماہرین”ایف” کا درجہ دے کر مسترد کر چکے ہیں۔ لہٰذا بائیبل کےہرجدید ورژن کے حاشیہ میں اِس بات کا ذکر ضرور موجود ہوتا ہے کہ یہ تحریرقدیم نسخوں میں نہیں پائی جاتی،لہٰذا یہ مشکوک ہے۔ اسی طرح ماہرین متن انجیل یوحنا کے 8 ویں باب میں موجود “بدکارعورت اور اس کی سزا” والے واقعہ (آیات 1 تا 11) کو بھی “ایف” کا درجہ دے چکے ہیں۔۔ اِس کے علاوہ بھی بائبل کے مسیحی عہدنامہ کے اندر کم از کم 22 ایسے مقامات موجود ہیں، جن کو خود مسیحی علماء کی طرف سے “ایف” کا درجہ مل چکا ہے اوراب ان کوعلمی حلقوں میں مسترد کیاجاتا ہے۔۔ یہی وجہ ہےکہ “کنگ جیمس ورژن بائبل” اور بائبل کے دیگر جدید تراجم کے درمیان ضخامت اورمضامین کا واضح فرق موجود ہے!
☚ لہٰذا، آخرمیں سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ باقی ماندہ بائبل پراب کس حد تک اعتماد کیا جائے اوران مسائل کی واضح موجودگی میں آخرکیسےکیا جائے؟ مزید یہ کہ اِس شعبہ میں ہونے والی جدیدعلمی پیش رفت کے بَعْد کیا “قرآن کریم” کا یہ دعویٰ سچ ثابت نہیں ہوجاتا کہ یہودی اورمسیحی علماء اورکاتبین بلاشبہ الہامی کتابوں کے متن میں دانستہ ونادانستہ “تحریف” کرتے رہے ہیں؟
( واضح رہےکہ یہاں بحث محض “عہدنامہ جدید” تک محدود رکھی گئی ہے، جبکہ “عہد نامہ قدیم” کے بارے میں بحث علیحدہ مضمون میں کی جائے گی!)۔
نوٹ : مسیحی بھائیوں کے سامنے میدان کھلا ہےکہ وہ اِس تحریر میں پیش کیے گے حقائق کو ثبوت کی بنیاد پراگر جھٹلا سکتے ہیں تووہ ضرورایساکردکھائیں…خوش آمدید!
تحریر سید وقاص حیدر