سید امجد حسین نامی ایک ملحد مصنف، کی جانب سے قرآنِ پاک اور رسول اللہ (ﷺ) پرکئی ایک اعتراضات اُٹھائے گئے ہیں اور اِن اعتراضات پر مشتمل ایک فہرست قلمبند کی گئی ہے۔ یہاں راقم الحروف کی جانب سے ایک انتہائی اہم نوعیت کے اعتراض کا جواب دیا جا رہا ہے۔ لہٰذا اُمید ہے کہ قارئین آخر تک پڑھ کر غیر جانبداری سے نتائج نکالیں گے۔
اِس سلسلے کی پہلی کڑی میں ہم قرآن میں بیان کردہ ”تصورِ تثلیث“ پر بات کریں گے۔ چونکہ اسلام اور مسیحیت دونوں ہی تبلیغی ادیان ہیں اور دونوں کے درمیان علمی وعملی جنگ زمانہءِ قدیم سے جاری ہے، لہٰذا دونوں کی جانب سے ایک دوسرے پر اعتراضات کا سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ اس عمل میں مسیحیت کا طرزِ عمل شدت پسندی اور نفرت وحقارت کا حامل ہے، جبکہ مسلمانوں کی جانب سے مسیحیوں کو ”اہلِ کتاب“ کے درجہ پر فائز کیے جانے کے سبب قدرے نرمی برتی جاتی رہی ہے۔ دلچسپ امر ہے کہ ”تثلیث“ (Trinity) کے قرآنِ کریم کے پیش کردہ تصور کے غلط ہونے کا راگ مسیحی علماء ایک عرصے سے الاپ رہے ہیں اور اب یہی “ماچس” ملحد “بندروں” کے ہاتھ میں آ چکی ہے۔ تاہم اِس موضوع پر گفتگو کیے جانے سے قبل اِس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ سبھی اعتراضات نئے نہیں ہیں، بلکہ پرانی شراب کو نئی بوتل میں ڈال کر پیش کیا گیا ہے۔
دورِ جدید کی اسلامی Apologetics کو اُٹھا کر دیکھا جائے تو سطحی سوچ کے حامل انسان کو بھی یہ بات روزِ روشن کی طرح عیّاں ہو جاتی ہے کہ ایسے سبھی اعتراضات (اور بے شمار خرافات) کا تسلی بخش جواب دیا جا چکا ہے۔ لیکن نفسِ معاملہ یہ ہے کہ اپنی ”ڈھیٹ“ فطرت کی وجہ سے یہ معترض بار بار منہ کی کھانے کے باوجود اُنہیں اعتراضات مختلف حیلے بہانوں سے گھڑتے اور پیش کرتے رہتے ہیں۔ ہماری اِس سرگرمی کا کوئی ماحاصل نہیں، سوائے اِس کے کہ ہمارے قارئین اپنے ایمان پر اطمینان اور یقین رکھ سکیں اور ایمان کسی قسم کے خطرات سے دوچار نہ ہو۔
اِن سبھی اعتراضات کو “ابنِ ورق” کے قلمی نام کے حامل ایک اسلام دشمن مصنف نے مختلف مستشرقین کی کانٹ چھانٹ کر کے اپنی مرضی کا مواد سیاق وسباق کی ذرا بھی پرواہ کیے بغیر اُٹھا لیا اور اپنی تدوین کردہ نصف درجن سے زائد کُتب میں قلمبند کر دیا۔ اسلام کے خلاف زہرافشانی کرتی اِن کُتب میں چند معروف کُتب کے نام یہ ہیں:
The Quest for Historical Muhammad
Why I am not a Muslim
What the Koran Really Says
The Origins of the Koran
Which Koran?
Koranic Sources
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں عنوانات میں ہی سارا زور قرآنِ کریم کو جھٹلانے پر لگا دیا گیا ہے۔ یہی وہ مآخذ ہیں جہاں سے ملحدین مواد اُٹھا کر اپنے نام سے شائع کرتے ہیں، یا پھر انٹرنیٹ پر موجود چند عیسائی ویب سائٹس اِن کی مرغوب غذا، یعنی اسلام مخالف مواد فراہم کرنے میں پیش پیش نظر آتی ہیں۔ قارئین پر واضح کرتا چلوں کہ یہ سب باتیں آج سے دو سو سال پہلے تب شروع ہوئی تھیں جب “مستشرقین” نے مشرقی ادیان بالخصوص اسلام کا تنقیدی مطالعہ شروع کیا تھا اور اِس عمل کے لیے بعینہ وہی اُصول اپنائے گئے تھے جو یورپ کے روشن خیالوں نے بائبل مقدس کے حقیقی تاریخی مآخذوں کھوجنے کے لیے اپنائے تھے۔ یعنی مسیحیت کے پروکار اِن مستشرق علماء نے اپنی الہامی کتاب کے خلاف پہلے سے استعمال شدہ حربوں کو اسلام پر جارحیت کے لیے استعمال کیا اور اسلام کو مغربی طرز کی منہ زور تکنیک “Deconstructionism” کا نشانہ بنا ڈالا۔ اِس طرح کوشش کی گئی کہ کسی طرح اسلام کے زمینی مآخذوں تک پہنچا جائے، تاہم اِس کوشش میں سبھی متعصب مستشرقین کو منہ کی کھانی پڑی۔ لہٰذا مستشرقین کی پوری تحریک کی کوشش ناکام گئی اور اِسلام بجائے پیچھے ہٹنے کے پوری آب وتاب سے مزید پھیلنے لگا۔
بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ضروری ہے کہ ملحد مصنف کا اعتراض ایک دفعہ پڑھ کر اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے۔ ملحدوں کے سرخیل سید امجد حسین فرماتے ہیں:
ملحد کی طرف سے پیش کردہ اختراع محمدی تثیلیث:
پہلے اس ضمن میں ہم قرآن کی کچھ آیات دیکھ لیتے ہیں:
- “اور جب خدا فرمائے گاکہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری والدہ کو معبود مقرر کرو؟ ……’’(سورہ المائدہ: 116)
- ”اے اہل کتاب! تم اپنے دین میں حد سے نہ نکلو اور اللہ کی شان میں سائے پکی بات کے نہ کہو، بے شک مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا اللہ کا رسول ہے اور اللہ کا ایک کلمہ ہے جسے اللہ نے مریم تک پہنچایا اور اللہ کی طرف سے ایک جان ہے، سو اللہ پر اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لاؤ اور نہ کہو کہ خدا تین ہیں، اس بات کو چھوڑ دو تمھارے لیے بہتر ہوگا، بے شک اللہ اکیلا معبود ہے، وہ اس سے پاک ہے اس کی اولاد ہو، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین ہے اور اللہ کارساز کافی ہے۔ ’’(سورہ النسا، 171) •
”جنھوں نے کہا اللہ تین میں سے ایک ہے، بے شک وہ کافر ہوئے حالاں کہ سوائے ایک معبود کے اور کوئی معبود نہیں اور اگر وہ اس بات سے باز نہ آئیں گے جو وہ کہتے ہیں تو ان میں سے کفر پر قائم رہنے والوں کو دردناک عذاب پہنچے گا۔’’ (سورہ المائدہ: 73)
محولہ بالا آیات سے صاف عیاں ہے کہ محمد نے کچھ بدعتی عیسائی فرقوں کے عقائد کے متعلق سن رکھا تھا کہ وہ خدا کو تین (تثلیث) گمان کرتے تھے، یعنی خدا، مریم اور عیسیٰ، جب کہ یہ عقیدہ عیسائیت کے بنیادی عقیدے کے بموجب کفر ہے۔ توریت کتاب استشنا، باب 6، آیت 4، میں صاف صاف لکھا ہوا ہے کہ ‘‘سن اے اسرائیل، خداوند ہمارا خدا اکیلا خداوند ہے۔’’ انجیل مرقس، باب 10، آیت 29 میں عیسیٰ نے اسی آیت کا حوالہ دے کر بڑی تاکید کے ساتھ اس کی تصدیق کی، ‘‘تمھارا اکیلا رب ہے۔’’ آج بھی کوئی راسخ العقیدہ عیسائی مریم کی الوہیت کا قائل نہیں ہے۔”
یہاں بات کو اِس کی حتمی شکل میں لے کر جانے سے پہلے سید امجد حسین صاحب کو میں یہ چیلنچ دے رہا ہوں کہ وہ اُس “بدعتی” عیسائی فرقہ کا نام بتا دیں جو اِنہی تین (باپ، ماں اور بیٹا) کو خدا تسلیم کرتا تھا۔ صرف ایک ایسے فرقہ کا تذکرہ ہی کر دیں، جس کے عقائد بقول اُن کے یہی تھے کہ اللہ کے ساتھ ساتھ مسیح اور مریم دونوں شریکِ تثلیث ہیں اور “خداوند” ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جہاں امجد حسین موصوف اُوپرایک جانب عیسائی بدعتی فرقہ کا ذکر کر کے تثلیث کی محولہ بالا خاندان نما تکونی شکل کی تصدیق کرتے ہیں، وہیں یہ ملحد صاحب یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ عیسائیوں کا ایسا کوئی عقیدہ نہیں جس میں حضرت مریم کو خدا کا ایک رُوپ یا عین ذاتِ خدا کا حصہ تسلیم کیا گیا ہو۔ وہ اِس دعویٰ کی تصدیق کے لیے ”راسخ العقیدہ عیسائی“ کی اصطلاح استعمال کر کے جہاں علمیت جھاڑتے ہوئے نظر آتے ہیں، وہیں اپنی جہالت کا اعلان بھی ببانگِ دُھل کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور یقین جانیں اِس کہاوت کی مثال امجد حسین نامی ملحد کی محولہ بالا خود ساختہ تاریخ نگاری سے بہتر اور کوئی نہیں ہو سکتی۔
چونکہ قرآن ساتویں صدی میں نازل ہوا اور اُس وقت مسیحی دُنیا بازنطینی سلطنت کے زیرِ سایہ تھی جو سلطنتِ روما کی مشرقی باقیات پر مشتمل تھی۔ مغربی باقیات سیاست کی جگہ مذہب نے ترکہ میں پائی تھیں اور روم میں ”پوپ“ کو مسیحی دُنیا کی سرداری حاصل ہو گئی تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جنہیں آج راسخ العقیدہ کی اصطلاح کا سہارا لے کر ملحد معترض ”عیسائی“ کہہ رہے ہیں، کہیں وہ لوگ بعد کے زمانہ کی پیداوار تو نہیں اور کہیں یہ حوالہ ہی تاریخی غلطی یعنی Anachronism پر مبنی افسانہ تو نہیں؟ امجد حسین سے سوال ہے کہ کیا آج تک مسیحیت میں کوئی ایسی نظریاتی بنیاد سب میں باہم قابلِ قبول رہی ہے کہ جس کی بنیاد پر ”راسخ العقیدہ“ اور ”بدعتیوں“ کا فیصلہ کیا جا سکے؟
بات کو آگے لے کر چلتے ہیں۔ مسیحیت میں پہلا پوپ ”پطرس رسول“ (Apostle Peter) کو کہا جاتا ہے اور اِس بات کا حوالہ انجیلِ متی باب 16، فقرہ 18 سے دیا جاتا ہے جہاں حضرتِ مسیح پطرس کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہیں کہ اِس چٹان (پطرس) پر میں اپنی کلیسیا تعمیر کروں گا۔ زمانہء پطرس سے آج تک پوپ کیتھولک مذہب کا اٹوٹ سلسلہ رہے ہیں اور آج بھی عیسائی دُنیا کا غالب مذہب رومن کیتھولک مسیحیت ہی ہے۔ ساتویں صدی میں جب قرآن نازل ہوا تو اُس زمانہ میں کیتھولک مسیحیت ہی مسیحی دُنیا کی ”راسخ العقیدہ“ شکل تھی۔ بازنطینی سلطنت بھی عقائد کے معاملات میں کیتھولک مذہب سے مختلف نہ تھی، اور محض نام میں ”آرتھوڈکس“ کہلوانا پسند کرتی تھی، جو کہ خالصتاً سیاسی مقاصد کے لیے تھا۔ اِسی طرح آرتھوڈکس کا سربراہ ”پوپ“ کی بجائے ”Patriarch“ (پیٹریارک) یعنی ” سربراہ“ کہلواتا تھا۔
اِس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ اصل تاریخی پسِ منظر کو واضح کر دیا جائے، جس کی نقشہ کشی میں ملحد مصنف نے یا تو دانستہ ڈنڈی ماری ہے، یا پھر بےچارے کے پاس علم نہیں اور وہ ”چھاپہ مار“ واقع ہوا ہے۔ لیکن یاد رکھیے گا کہ ”نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے!“ بہرحال دونوں صورتوں میں ملحد معترض اِس قابل قرار نہیں پاتا کہ اُس کو سنجیدگی سے لیا جائے۔
اب ہم اپنے اصل مؤقف کی طرف آتے ہیں۔ کیتھولک مسیحیت نہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ”پاکیزہ کنواری پیدائش“ کی قائل ہے، بلکہ اُن کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ حضرت مریم کی پیدائش بھی میاں بیوی کے جنسی اختلاط کے بغیر ہوئی تھی، یعنی کنواری مریم بھی اپنی بیدائش میں انسانی جنسیت کے داغ سے پاکیزہ ہیں۔ یہ عقیدہ تیسری صدی عیسوی تک پروان چڑھ چکا تھا، جبکہ اِس سے پہلے بھی اِس کے ہلکے پھلکے حوالہ جات ملتے ہیں۔ یہی وہ عقیدہ تھا جو آگے چل کر کیتھولک دُنیا کے معروف ترین عقیدہ ”چونکہ مریم تھی خدا کی ماں، لہٰذا از خود خدا“ (Mariology) کی منطق پر قائم کردہ عقیدہ میں تشکیل پا گیا۔ اِس عقیدہ کو کیتھولک مذہب میں ”خدا کو پیدا کرنے والی“ (Mother of God) کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے اور اِس کے لیے جو یونانی مذہبی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے وہ Θεοτόκος یعنی Theo-Tokos ہے۔ Theo یونانی زُبان میں ”خدا“ کو کہتے ہیں، جبکہ Tokos ماخذ یا جنم دینے والے ذریعہ کو کہتے ہیں۔ اِس عقیدہ کے لیے علمی جواز یہ فراہم کیا جاتا ہے کہ خدا کو خدا کے ہی کسی رُوپ کے علاوہ کوئی اور جنم نہیں دے سکتا۔ یہ عقیدہ آج بھی مسیحیت کے 60٪ سے زائد ماننے والوں کے عقائد کا حصہ ہے اور وہ سب حضرت مریم کو ذاتِ خدا کا حصہ اور شفاعت و نجاتِ انسانی کا اہم جزو تسلیم کرتے ہیں۔ اِس روایت کی ابتداء شام میں ہوئی تھی۔
قرآنِ کریم نے اپنے نزول کے وقت مسیحی مذہب کی اسی اجتماعی صورتحال پر تبصرہ کیا ہے، کیونکہ اُس وقت حضرت مریم کی پوجا وپرستش آج کی نسبت زیادہ شدت سے ہوتی تھی، اور اِس کے لیے شام وایشیائے کوچک اور بحیرہء روم کے مشرقی ساحل خاص طور پر شہرت رکھتے تھے۔ قرآن نے اِس صورتحال پر ایک عمومی انداز اختیار کرتے ہوئے اللہ کے علاوہ پرستش کی جانے والی معروف مسیحی ہستیوں کا ذکر کیا ہے اور جس انداز میں حضرت عیسیٰ ؐ کے الفاظ پیش کیے گئے ہیں وہاں ”اللہ کے علاوہ مجھے (عیسیٰ ؑ) اور میری ماں (مریمؑ) کوخدا“ جیسی ترکیب استعمال کی گئی ہے، جو انتہائی معقول ہے۔ اِس امر کی تصدیق کے لیے تاریخ کی شہادت موجود ہے کہ یہ دو ہستیاں حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم ہی تھیں، جن کی باقاعدہ بُت پرستانہ انداز میں عبادت کی جاتی تھی، کیونکہ اِس طرح مسیحیوں کے نزدیک اُن کے الوہیت کے درجہ کا بہترین اظہار ہوتا تھا۔ اِن کی پوجا نہ صرف اُس زمانہ میں کیتھولک مسیحیت میں پاپائیت (Papacy) کے زیرِ سایہ سرکاری طور پر کی جاتی رہی، بلکہ یہ سلسلہ آج بھی دُنیا بھر میں جاری ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ اِس آیتِ مبارکہ سے ”تثلیث“ اخذ کرتے ہیں وہ اِس بات پر غور ہی نہیں کر پاتے کہ سورۃ مائدہ کی مذکورہ آیت میں ”تثلیث“ لفظ کا ذکر تک موجود نہیں ہے، لہٰذا آیت حضرت مریمؑ کی شخصیت کی پوجا پر ایک عمومی تبصرہ ہے جو تثلیث سے آزاد اپنی تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ آئیے اِس آیتِ مبارکہ پر ایک نظر دوبارہ ڈالتے ہیں۔
”جب اللہ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی معبود مقرر کرو؟“ (سورۃ مائدہ، 116)
تثلیث کا ذکردرحقیقت ایک دوسری آیتِ مبارکہ میں کیا گیا ہے اور یہاں حضرت مریم کا تذکرہ سِرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
”بے شک کافر ہیں وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ اللہ تین خداؤں میں تیسرا ہے۔“ (سورۃ مائدہ، 73)
چونکہ یہاں حضرت مریم کا ذکر نہیں کیا گیا، تو الہامی صحائف کے عمومی اصولِ تفسیر، جس کا اطلاق بائبل مقدس پر بھی ہوتا ہے، کی رُو سے یہ سمجھنا کہ مریم ہی کو یہاں بھی اللہ اور عیسیٰ یعنی باپ اور بیٹا کے ساتھ تیسرا ”خداوند“ قرار دیا جا رہا ہے، ایک غلط سمت میں سوچ کے گھوڑے دوڑا کر افسانے گھڑنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا یہاں قیاس کا حقیقی تصورِ تثلیث کی طرف جانا ہی فی النفسِ معاملہ ایک مسلمہ اصول قرار پاتا ہے۔
اِسی طرح یہاں یہ معلوم کرنا بھی ازحد ضروری ہے کہ مسیحی تثلیث کا تیسرا جزو کس ہستی کو مانتے ہیں۔ مسیحیت چوتھی صدی کے بعد سے کلیسیاء کی باقاعدہ سند کے ساتھ اجتماعی طور پر ”رُوح القدس“ کو تثلیث کا تیسرا جزو قرار دیتی ہے۔ تاہم یہ امر دلچسپی کا حامل ہے کہ رُوح القدس ایک مجرد عقیدہ، فلسفہ یا چیز ہے، جس کی کوئی جسمانی یا کنکریٹ تشریح نہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا رُوح القدس کی منظم پُوجا کیا جانا ممکن ہی نہیں تھا۔ نہ تو یہ بات بُت پرستوں کو اپیل کر سکتی تھی اور نہ ہی مسیحی لوگ کلیسیاء کے علاوہ کوئی ایسا معبد بنا سکتے تھے جو رُوح القدس کے نام منسوب ہواور جہاں خدا باپ اور خدا بیٹے کے علاوہ کسی تیسرے کی عبادت کی جا سکے۔ مسیحی زیادہ سے زیادہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا جسم رُوح القدس کا معبد/ٹیمپل ہے۔ اِس لیے اِس تجرد پرایک عام ذہن کا ٹِک پانا نہ اُس زمانے میں ممکن تھا اور نہ ہی آج ایسا ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسیحیت کے پینٹی کاسٹل فرقہ کے علاوہ آج بھی رُوح القدس کا تذکرہ مسیحی حلقوں اور کلیساؤں میں خال خال ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا قرآن نے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے نہ صرف مسیحیت کی ایک حقیقی تصویر کشی کی بلکہ ساتھ ہی ساتھ ایک ہی وار سے ”شرک“ کی اِس عجیب و غریب یونانی دیومالائیت سے ماخوذ شکل کو بھی مسترد کر دیا۔ یاد رہے کہ قرآنِ کریم نے ”جبرائیل“ کو رُوح القدس قرار دیا ہے، جو کہ مخلوقِ الہٰی میں سے ایک ہیں۔
بات ختم کرنے سے پہلے ملحد مصنف کی ایک اور مضحکہ خیز حرکت کا ذکر کر دیا جانا ایک علمی لطیفہ سے کم نہ ہو گا۔ مذکورہ بالا عبارت جو ملحد معترض کے اعتراضات کی حامل ہے، میں ایک جگہ عہد نامہ قدیم یعنی یہودی ”تناخ“ کا ذکر کرتے ہوئے مسیحیوں کے خدا کی جو تعریف مصنف نے کی ہے اُس کو تو مسیحی خود بھی تسلیم نہیں کرتے۔ یہاں تو ملحد صاحب مسلمانوں سے بھی زیادہ ”مواحد“ معلوم ہوتے ہیں، جو مسیحیوں کو ”خدائے واحد“ کا پرچار عہدِ قدیم سے کر کے یہ درس دے رہے ہیں کہ بھئی جس خدا کو تم تین کہہ کر مان رہے ہو، وہ تو درحقیقت بائبل مقدس کی کتابِ استثناء کی رُو سے ”واحد“ ہے اور اُس کا کوئی ہمسر نہیں۔ واہ رے ملحد، خدا نے تہمارے ہاتھ سے ہی توحید کا کیسا خوبصورت اقرار کروا دیا اور وہ جملہ لکھوا دیا جو تم اپنے طور پر وجودِ خدا اور کلامِ خدا کے خلاف لکھنا چاہ رہے تھے۔
تحریر سید وقاص حیدر