علم آگے جا کر بے حس ھو جاتا ھے اور اللہ پاک کے ساتھ اس کا تعلق کچھ لو اور کچھ دو یعنی دوکاندار اور گاھک کا سا ھو جاتا ھے ،
یہاں پہنچ کر انسان لطیف جذبات سے یکسر تہی دست ھو جاتا ھے اور خود خدا پہ سوالات اٹھانا شروع کر دیتا ھے- یوں تشدد کی راہ پہ جا نکلتا ھے ،،
علم اس بات کو ھضم نہیں کرتا کہ اللہ کو گنہگار کیوں پیارے ھیں ،، وہ ان کے گناھوں کو نیکیوں میں کیوں اور کس اصول کے تحت تبدیل کرتا ھے ،،
یہ علم ھی کہتا ھے کہ خدا بھی فون کمپنیوں کی طرح انہی کو پیکیج دیتا ھے جنہوں نے یو فون کی سم عرصے سے نکال رکھی ھوتی ھے ، ریگولر نیکی کرنے والوں کے لئے اس کے پاس وھی پرانےوعدے ھیں ،،
علم بعض دفعہ اذیت ناک بن جاتا ھے اس کی نفی انسان پہ گراں گزرتی ھے ۔
جب کہ عرفان حاصل ہی مٹی بن کر ہوتا ہے ،، اس میں کبھی کوئی مزاحمت نہیں ہوتی وہ تو اپنے حصے کی جنت بھی بانٹتا پھرتا ہے.
مزمل شیخ بسمل
نوٹ:
اس میں دینی یا مذہبی علم کی تخصیص نہیں ہے۔ بلکہ ہر وہ علم جو انسان کے نظریات کو جھنجوڑ سکتا ہو، مقصود ہے۔ ایسے عالم میں انسان جذبات اور حسیات سے عاری ہو کر صرف عقلی پیرائے میں ہر چیز کی صحت و عدم صحت کی تعیین کرتا ہے۔