ملحدوں كا مستشرقین سے نقل كردہ ایك شبہہ :
ایک ملحد لکھتا ہے.
“امرؤ القیس زمانہ قبلِ اسلام کا ایک شاعر تھا جس کا اِنتقال سن 540ء میں ہؤا (یعنی آنحضرت محمد کی وِلادت سے بھی تِیس برس پہلے اور نزول وحی سے ستر سال پہلے)۔ اُس کا ایک مشہور قصِیدہ ہے جس سے قُرآنِ مجید میں بہُت سارے اِقتِباسات نقل کئے گئے ہیں۔ اِس کا ثبوت یہ چند اشعار ہیں:
دنت الساعة وانشق القمر عن غزال صاد قلبي ونفر
أحورٌ قد حِرتُ في أوصافه ناعس الطرف بعينيه حوَر
مرّ يوم العيد بي في زينة فرماني فتعاطى فعقر
بسهامٍ من لحاظٍ فاتك فرَّ عنّي كهشيم المحتظر
وإذا ما غاب عني ساعة كانت الساعة أدهى وأمر
كُتب الحُسن على وجنته بسحيق المسك سطراً مختصر
عادةُ الأقمارِ تسري في الدجى فرأيتُ الليل يسري بالقمر
بالضحى والليل من طرته فرقه ذا النور كم شيء زهر
قلت إذ شقّ العذار خده دنت الساعة وانشق القمر
پہلے شعر کا پہلا مصرعہ سورة القمر (54)، آیت 1 میں آیا ہے: ‘‘اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَا نْشَقَّ القَمَرُ۔’’
تیسرے شعر کا دوسرا مصرعہ بھی سورة القمر (54) کی آیت 29 میں آیا ہے:‘‘فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطَى فَعَقَرَ۔’’
چوتھے شعر کا دوسرا مصرعہ بھی اسی سورہ کی آیت31میں آیا ہے: ‘‘فَكَانُوا كَهَشِيمِ المُحْتَظِرِ .’’
آٹھویں شعر کا پہلا مصرعہ سورة الضحیٰ کی آیات 1 اور 2 میں آیا ہے: ‘‘وَالضُّحَى وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى .’’
الجواب:
(1)قارئین کو یہ جان کر حیرانگی ہوگی کہ ان اشعار كا كوئی وجود سرے سے عربی زبان وادب كی كتابوں میں پایا ہی نہیں جاتا!
(2)دیوان امرؤ القیس كی مختلف طبعات موجود ہیں، ان میں سے كسی میں بھی یہ ابیات موجود نہیں ہیں!!
(3) عربی ادب كا كوئی بھی اسكالر اور اسپشیلسٹ، اور خاص طور پر امرؤ القیس كے اشعار كا اسپیشیلسٹ ہو، اچھی طرح جانتا ہے كہ امرؤ القیس كوئی غیر معروف شاعر نہیں تھا، نابغہ روز گار تھا، لہذا اس كے اشعار كو جو توجہ ملی ہے شاید ہی كسی شاعر كو ملی ہو، محدثین اور قدماء نے اس كے اشعار جمع كرنے، روایت كرنے اور اس كی نشر واشاعت پر بڑی محنت صرف كی ہے، اور اس كے دیوان كے كئی مشہور نسخے ہیں، جیسے
الأعلم الشنتمري كا نسخہ،الطوسي كا نسخہ، السكري كا نسخہ، البطليوسي كا نسخہ، ابن النحاس كا نسخہ وغیرہ وغیرہ!!
ان ابیات كا ذكر ان میں سے كسی میں بھی موجود نہیں ہے! اب یہ امرؤ القیس كے اشعار كے ماہرین اس كے اشعار كو زیادہ جانتے ہیں یا آپ كے خائن اور جھوٹے پروپیگنڈے باز نام نہاد نقل باز محققین جن سے دشمنان اسلام و ملحدین نے یہ اشعار نقل كیے ہیں؟؟؟(یاد رہے كہ یہ جھوٹے محققین یہ سارے اعتراضات مستشرقین سے نقل كرتے ہیں)
(4) اس دور میں بھی امرؤ القیس كے اشعار اور دواوین پر نیز جو كچھ اس كی طرف منسوب كیا گیا ہے اس پر كافی ریسرچ ہوئی ہے، ان میں سے كسی بھی ریسرچ میں ان ابیات كا ذكر سرے سے موجود نہیں۔۔ نہ اس طور پر كہ یہ اس كے اشعار ہیں نہ اس طور پر كہ یہ اس كی جانب منسوب كردیے گئے ہیں!!
(5) امرؤ القیس اور دیگر مشہور شعراء كی جانب پورے پورے قصائد منسوب كردیے گئے ہیں چہ جائیكہ چند اشعار، بلكہ ایسے لمبے چوڑے قصے تك گھڑ لیے گئے ہیں جن كا كوئی سر پیر ہی نہیں! اور مشہور شعراء كی جانب اشعار كا منسوب كیا جانا ایك ایسی حقیقت ہے جس كا ہم آج تك سامنا كررہے ہیں!!
حماد الراویۃ نامی ایك معروف اشعار كا ناقل ہے، اور اسی كی طرح خلف الاحمر! ان كا كام ہی یہ تھا كہ یہ اشعار گھڑتے اور قدیم شعراء كے نام سے بیان كرنا شروع كردیتے۔۔۔
ابن عبد ربہ نے اپنی كتاب “العقد الفرید” میں نشاندہی كے ساتھ ان من گھڑت اشعار كی مثالیں دی ہیں۔۔۔ بلكہ خود حماد كا قول نقل كیا ہے، (فخریہ كہتا ہے) كہ كوئی شاعر ایسا نہیں ہے جس كے اشعار میں میں نے اپنے اشعار كی ملاوٹ نہ كی ہو۔۔اسی طرح كی بات الصفدی نے اپنی كتاب “الوافی بالوفیات” میں بھی نقل كی ہے۔۔۔
دراصل ان لوگوں كو قدماء كے كلام پر قرار واقعی دسترس بھی حاصل تھی چنانچہ نہ انہیں كے الفاظ اور اسالیب لے كر كچھ اس طرح اشعار گھڑتے تھے كہ اچھے اچھے فرق نہ كرپاتے! آج كی طرح نہیں كہ بھونڈے اور بے وزن اشعار علامہ اقبال كی طرف منسوب كردیے جائیں!!
تو جو اشعار ملحد نے ذكر كیے ہیں، اگر كسی اور موضوع كی كسی كتاب میں امرؤ القیس كی طرف بلا كسی سند، دلیل اور حوالے كے منسوب كردیے گئے ہیں تو كون سی تعجب كی بات ہے؟
(6) بہت سے ایسے اشعار جو قدماء كی طرف كہیں منسوب كیے گئے ہیں، دوسری جگہ بالسند ان كے اصل شاعر كا نام بھی مل جاتا ہے۔۔۔روح المعانی میں آلوسی، رازی كے حوالے سے اسی طرح كے كچھ اشعار پر تبصرہ كرتے ہوئے كہتے ہیں كہ جس كو عرب كے اشعار كی ذرہ برابر معرفت ہوگی وہ اچھی طرح جانتا ہے كہ اس كا شاعر مولد ہے (بعد كی پیداوار ہے)
(7) اہل عرب امرؤ القیس كے كلام سے آپ اور مجھ سے زیادہ واقف تھے، یہ كوئی پوشیدہ خزانہ نہیں تھا كہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم كو مل گیا ہو! اگر ایسا ہوتا تو اہل عرب فورا آپ پر كلام كی چوری كا الزام لگاتے!! آپ كی پوری زندگی میں آپ پر ایسا كوئی الزام نہیں لگآ!!
(8) ان اشعار كی ركاكت، بے معنی پن، تركیب كا پھسپھسا پن ان كی چغلی كھا رہا ہے۔۔بھلا الساعۃ سے كیا مراد ہے؟؟ قیامت؟؟ اطلاعا عرض ہے كہ وہ قیامت كو نہیں مانتے تھے! پورا قرآن قیامت كے سلسلے میں دلائل سے بھرا ہوا ہے! اگر وہ مانتے ہوتے تو اس كی ضرورت نہیں تھی۔۔
پھر اس انشقاق قمر سے كیا مراد ہے؟؟ انشقاق قمر كا كوئی واقعہ جاہلیت میں ہوا تھا؟؟
اگر ساعت سے ملاقات كی گھڑی مراد ہے تو اس كے ساتھ انشقاق قمر كا واقعہ ملانے سے بڑی ركاكت اور كیا ہوگی؟؟؟ انشقاق قمر سے اور كیا مراد ہوسكتا ہے؟ بھلا محبوب كے حسن كو بھی انشقاق قمر سے تشبیہ دی جاتی ہے؟؟ ہوسكتا ہے مستشرقین كے یہاں دی جاتی ہو، عربی میں تو ایسی كوئی احمقانہ تعبیر نہیں پائی جاتی۔۔۔
امرؤ القیس كے اشعار ایسے ہوتے ہیں كہ اگر عربی نہ جاننے والا بھی سنے تو جھومنے لگے۔۔ اس كے مقابلے میں یہ اشعار بالكل ویسے ہی ہیں، جیسے فیس بك پر آئے دن علامہ اقبال كے نام سے ہمیں دیكھنے كو ملتے ہیں!!اس كا بھلا اقتربت الساعۃ انشق القمر سے كیا مقابلہ؟؟
(9) اسی طرح فتعاطی فعقر والے اشعار میں صاف طور پر یہ تعبیر قران سے چرا كر منسوب كی گئی ہے! ذرہ برابر بھی كوئی میل نہیں كھاتی اس مقام سے!! ایك طرف كہا رمانی، مجھے تیر كا نشانہ بنایا، پھر كہا تعاطی جب تیر چلا ہی دیا گیا تو اب كس چیز كی تعاطی ہو رہی ہے؟؟ اور كوچیں كیوں كاٹی جارہی ہیں؟؟
حق یہ ہے كہ یہاں یہ تعبیر صرف شعر كے قبح میں اضافہ كررہی ہے، كیونكہ یہ انتہائی بے محل ہے، اور ویسے بھی غزل میں كونچیں كاٹنے جیسی كوئی تعبیر نہیں استعمال ہوتی!!اور لفظ عقر ذبح كرنے كے معنی میں اونٹ اور گھوڑے كے سوا استعمال ہوتا ہی نہیں لغت میں۔۔ اگر اس سے مراد زخمی كرنا ہو، جیسا كہ اكثر غزل كے اشعار میں تیر نگاہ سے زخمی كرنے كی بات كی جاتی ہے، تو اس ركاكت اس كے من گھڑت ہونے كا اعلان كررہی ہے۔۔۔جبكہ قران میں یہ تعبیر صالح علیہ السلام كی اونٹنی كے عقر كے لئے استعمال ہوئی ہے، اور اپنے محل میں ہے!!
(10) یہی حال ہشیم المحتظر والے شعر كا ہے۔۔۔ ہشیم محتظر كا معنی كیا ہوتا ہے؟؟ اس كا معنی ہوتا ہے باڑے وغیرہ میں بكریوں كے سموں سے روندا ہوا چارہ یا بھوسہ! فر عنی كہشیم المحتظر كا معنی ہوا مجھ سے بھاگ كھڑا ہوا باڑے میں روندے ہوئے چارے كی طرح؟؟ یہ كون سی تشبیہ ہے؟؟ صاف ظاہر ہے كہ بس الفاظ كی قوت كے سبب اسے قران سے چرا كر اشعار میں فٹ كیا گیا اور امرؤ القیس كی طرف منسوب كردیا گیا!!اس كا {إنا أرسلنا عليهم صيحة واحدة فكانوا كهشيم المحتظر} سے كیا مقابلہ؟؟
(11) جہاں سے یہ شعر نقل كیا گیا ہےوہاں یہ شعر اس طرح ہےاقتربت الساعة وانشق القمر من غزال صاد قلبي ونفر ناقل نے اس كی بے وزنی كو چھپانے كے لئے اقتربت كو دنت میں بدل دیا۔
(12) باقی یہ سارے دلائل اپنی جگہ ہیں كہ الفاظ تو ظاہر ہے قران عربی ہی كے استعمال كرے گا عبرانی كے تو نہیں كرے گا!! نیز ذرا باقی آیات كے مصادر بھی تلاش كرلائیں!
یہ من گھڑت كہانی آج كی نہیں ہے بلكہ انیسویں صدی كے آغاز ہی سے مستشرقین سے خرافات پھیلارہے ہیں!! تنویر الافہام كے نام سے ایك كتاب نصرانیت كی دعوت كے لئے لكھی گئی، یہ اشعار اسی سے چرائے گئے ہیں!ان پر تبصرہ كرتے ہوئے علامہ رشید رضا مصری فرماتے ہیں
” محال ہے كہ یہ اشعار كسی عربی كے ہوں، بلكہ عربی كے كسی مبتدی اور تلمیذ كے ظاہر ہوتے ہیں، لغت كے اعتبار سے انتہائی ركیك اور مخنثین كی تہذیب كے حاملین كے! اپنی ركاكت اسلوب وعبارت نیز انكی عربی اور موضوع كی كمزوری كے سبب عربی بھی ان سے بری ہے چہ جائیكہ یہ جاہلی شعرا كے اشعار ہوں۔۔۔ (مزید اشارہ كیا ہے كہ یہ لونڈے بازوں كے اشعار ہیں، اس لئے كہ اس میں محبوب كا مذكر ہونا صاف ظاہر ہورہا ہے، جبكہ امرؤ القیس كیا كوئی بھی جاہلی شاعر لونڈے باز نہیں تھا۔۔ ) <مجلة المنار7/الجزء 5/ص161>undefined
مزید بھی ان اشعار میں ركاكت كے بہت سارے پہلو ہیں۔۔ جنہیں ذكر كركے میں آپ كو بوجھل نہیں كرنا چاہتا! لہذا عقلا ونقلا كسی طور پر بھی یہ امرؤ القیس كے اشعار ہو ہی نہیں سكتے!!
ملحد کبھی نہیں بتا سکتا کہ اس نے جو اشعار پیش کیے یہ امراؤ القیس کا كون سا دیوان تھا؟ كس سن میں چھپا تھا؟؟ كون اس كا محقق ہے؟ كس سن میں پیدا ہوا؟ اس كا مصدر كیا تھا؟ اس سے پہلے كس كس نے ذكر كیا (یا اس پر الہام ہوا تھا؟؟)؟؟ صفحہ نمبر كیا ہے؟؟ اور كیا واقعی اس نے اسے امرؤ القیس كے اشعار كے طور پر پیش كیا ہے؟ ان سوالات كے جوابات آپ كو ملحد كبھی نہیں دے گا! كیونكہ اس كی بحث وتحقیق كا معیار یہی ہے!!
انکی سٹوریوں كی مصداقیت كا اندازہ اس بات سے لگائیے كہ کتنے بڑے دعوے کررہے ہیں لیکن کوئی مضبوط حوالہ نہیں، نہ کسی كتاب كا نام، نہ طبع كا نام، نہ پبلشر كا نام، نہ محقق كا نام!!
امراؤ القیس کی بیٹی کا افسانہ :
ملحد صاحب لکھتے ہیں :
سورۃ القمر کی پہلی آیت پر تبصرہ کرتے ہوئے Clair-Tisdall اپنی کتاب میں لکھتا ہے، ‘‘یہ اس زمانے کا رواج تھا کہ وہ اپنی تخلیقات کو کعبہ پر لٹکا دیا کرتے تھے جنھیں ہم سبع معلقات کے نام سے جانتے ہیں۔ روایت ہے کہ پیغمبر کی بیٹی فاطمہ ایک روز مذکورہ آیت دہرا تے ہوئے گذر رہی تھی۔ اسی وقت اس کی ملاقات امراؤ القیس کی بیٹی سے ہوئی جو روتے ہوئے کہنے لگی، ‘ہائے! یہ تو میرے باپ کی نظم کا ایک ٹکڑا ہے جسے تمھارے باپ نے چرا کر اسے خدا کا کلام بنا دیا۔ ’
جواب :
ملحد نے مستشرق ٹسڈل کا نام لیا ہے ۔یہ واقعہ William St. Clair Tisdall نے اپنی کتاب The Original Sources Of The Qur’an میں لکھا ہے ۔ اس من گھڑت افسانے پر خود ٹسڈل كا ہی تبصرہ ملاحظہ فرمائیں۔
” I have even “heard” a “story” to the effect that one day when Fatimah, Muhammad’s daughter, was reciting thc verse ‘The Hour has come near and the Moon has split asunder” (Surah LIV., al-Qamar, 1), a daughter of the poet was present and said to her, “That is a verse from one of my father’s poems, and your father has stolen it and pretended that he received it from God.”
This “tale” is probably “false”, for Imrau’l Qais died about the year 540 of the Christian era, while Muhammad was not born till A.D. 570, “the year of the Elephant.”
ملحد نے مستشرق کی کتاب سے کہانی تو پیش کردی ، آگے اسکا اس پر تبصرہ پیش کرنے کی جرات نہیں کرسکا کیونکہ اس سے اسکا اپنا مکر واضح ہوجاتا ۔مستشرق ٹسڈل آگے خود اسکی وضاحت کررہا ہے کہ یہ کہانی من گھڑت ہے۔
یہ ہے ملحدین كی تحقیقات كا حال! ان كی دال جھوٹ، فریب، خیانت، دجل اور مغالطہ بازی كے بغیر گلتی ہی نہیں!! حیرت ہے ایسے جھوٹے مکاروں پر بھی لوگ یقین کرجاتے ہیں ۔!!
اس موضوع پر انگلش میں ایک تحقیق دیکھنے کے لیے یہ لنک ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ٹسڈل كی عربی كتاب كے غیر مطبوعہ نسخے كا لنك یہاں دیکھیے ۔
ملحدین کے اعتراضی کمنٹس:
ملحد:
امرؤ القیس کی شاعری کے کئی دیوان مسلمانوں نے زمانہ قدیم سے مرتب کر رکھے ھیں۔ اور اسکی شاعری کا قرآن میں موجود ھونا بھی دور اول سے معلوم ھے۔ یہ روایات موجود ھیں کہ جب امرؤ کی پوتی نے قرآن کی کچھ آیات سنیں تو اس نے پوچھا کہ یہ کیسے ھوگیا کہ میرے دادا کی شاعری قرآن میں آگئی۔ ایس مسعود کی کتاب The Bible And The Qur’an: A Question Of Integrity جو ۲۰۰۱ میں لندن سے چھپی اس میں اسکے حوالے موجود ھیں۔
امرؤ کی جس نظم کا میں نے حوالہ دیا ھے وہ اسکے دیوان میں شائع ھوتی رھی ھے۔ پچھلی چند دھائیوں سے جب سے مزھبی انتہا پسندی اور سعودی پیٹرو ڈالروں نے عرب دنیا پر راج کرنا شروع کیا ھے ممکن ھےاسے نکال دیا گیا ھو۔ پرانے چھپے دیوان سے تصویر لگارھا ھوں۔ گوگل کرلیں مزید حوالے مل جائیں گے۔
مزید معلومات کے لئے نیو ورلڈ انسائکلوپیڈیا کا ریفرنس پیش ھے۔ اس میں مزید ریفرنس موجود ھیں۔ جنہیں سچائی کی طلب ھے وہ اس پر مزید تحقیق کرسکتا ھے۔
http://www.newworldencyclopedia.org/entry/Imru’_al-Qays
جواب:
ناظرین منافقت ملاحظہ كریں پہلے كہا:
” امرؤ کی شاعری کی جو کتب موجود ھیں وہ ماضی قریب میں مرتب کی گئی ھیں۔ صاف ظاھر ھے ایسی نظم جس سے قرآن پر شک جنم لیتا ھو انہیں کون شائع کرنے کی جرآت کرے گا۔ ایمان نہ بھی پیارا ھو جان تو سب کو پیاری ھوتی ھے۔”
پھر خود ہی اس كی تردید:
” امرؤ القیس کی شاعری کے کئی دیوان مسلمانوں نے زمانہ قدیم سے مرتب کر رکھے ھیں۔ ”
” امرؤ کی جس نظم کا میں نے حوالہ دیا ھے وہ اسکے دیوان میں شائع ھوتی رھی ھے۔ ”
یہاں تك تو بات تھی خود اس كی باتوں كے تضاد كی!!
اب ذرا اس اسكین كی بات كرلیں!
جناب یہ كون سا دیوان تھا؟ كس سن میں چھپا تھا؟؟ دونوں قصیدوں كا كیا جوڑ ہے كہ انہیں ایك ساتھ لكھا گیا ہے؟؟ كون اس كا محقق ہے؟ كس سن میں پیدا ہوا؟ اس كا مصدر كیا تھا؟ اس سے پہلے كس كس نے ذكر كیا (یا اس پر الہام ہوا تھا؟؟)؟؟ صفحہ نمبر كیا ہے؟؟ اور كیا واقعی اس نے اسے امرؤ القیس كے اشعار كے طور پر پیش كیا ہے؟ ان سوالات كے جوابات آپ كو ملحد كبھی نہیں دے گا! كیونكہ اس كی بحث وتحقیق كا معیار یہی ہے!! “میٹھا میٹھا ہپ ہپ كڑوا كڑوا تھو تھو”
انسائیكلو پیڈیا كے نام سے دھوكہ كھانے والے آپ ہی جیسے اعلی تعلیم یافتہ جاہل یعنی غلام ذہنیت كے حامل اور مرعوبیت كے شكار لوگ ہوسكتے ہیں۔۔یہ اسلام دشمن بلكہ مذہب دشمن لوگوں كی ایك فریبی سائٹ ہے!
اس كی مصداقیت كا اندازہ اس بات سے لگائیے كہ اس نے یہ اسكین دیا، نہ كتاب كا نام، نہ طبع كا نام، نہ پبلشر كا نام، نہ محقق كا نام!! اور ویسے بھی اس نے یہ دعوی نہیں كیا كہ یہ كسی مطبوعہ دیوان كا اسكین ہے!!خیر یہ تو آپ كو كبھی نہیں بتائیں گے، میں بتاتا ہوں كہ یہ كون سا “مطبوعہ دیوان” ہے امرؤ القیس كا!!
تو بھائیو! یہ ایك مستشرق William St. Clair Tisdall كی كتاب The Original Sources Of The Qur’an سے ماخوذ ہے۔۔ یہ تصویر وہیں سے لی گئی ہے! خود ٹسڈل كا تبصرہ ہم اس پر درج كیے دیتے ہیں۔۔ جو اگرچہ ایك مستشرق ہے لیكن اتنا بڑا جاہل بہرحال نہیں ہے۔۔
let us see what Tisdall says in his book The Original Sources Of The Qur’an. The material below is taken from “Appendix To Chapter II” of this book.
”
Though they contain some obvious blunders, I think it best to give them without correction. The passages marked with a line above them occur also in the Qur’an (Surah LIV., Al Qamar, 1, 29, 31, 46; Surah XCIII., Ad duha’, 1; Surah XXI., Al Anbiya 96; Surah XXXVII., As Saffat, 59), except that in some of the words there is a slight difference, though the meaning is the same. It is clear therefore that there is some connexion between these lines and the similar verses of the Qur’an.
There seems good reason to doubt whether Imrau’l Qais is the author of the lines in question. They may have been borrowed from the Qur’an instead of having been inserted therein from an author who lived before Muhammad’s time. On the one hand it is difficult to suppose that at any time after the establishment of Islam any one would have the daring to parody the Qur’an by taking passages from it and applying them to the subject to which these lines of poetry refer. On the other hand, it is very customary even in comparatively modern times to quote verses of the Qur’an and work them into later compositions of a philosophical or religious character, to which class, however, these Odes do not belong. It would be difficult to imagine Muhammad returning to plagiarize from such a well-known author as Imrau’l Qais (even though, as we shall see later; he did so from less known foreign sources); though this may be in part met by supposing that, as these Odes formed no part of the Mu’allaqat, they were not as generally current as poems contained in the latter collection were. Thc account generally given of the Mu’allaqat is that, whenever any one had composed an especially eloquent poem, it wassuspended on the wall of the Ka’bah, and that the poems in this celebrated collection owe their name, which means “The Suspended Poems”, to this custom. Good authorities,1 however, deny that this was the origin of the name, but that is perhaps a matter of little importance. In spite of the Eastern story which I have quoted, the balance of probability certainly inclines to the supposition that Muhammad was not2 guilty of the daring plagiarism of which he has been accused.”
{ 2. This is the opinion of Sir C. J. Lyall, than whom it would be difficult to find any one better qualified to speak on the subject of ancient Arabic poetry. In a letter which he has kindly sent me regarding the authorship of the lines in question attributed to Imrau’l Qais, he expresses his conviction that they are not his, giving reasons founded principally upon the style and the metre. I have incorporated some of his observations into this Appendix, and I owe to him also the preceding note. His arguments have caused me to modify the opinion on the subject expressed in my Persian work, Yanabi’u’l Islam
ایک ملحد نے ان اشعار کا ایک یہ ثبوت پیش کیا کہ شرح الجامع الصغیر میں امام مناوی نے یہ ابیات امرو القیس سے جوڑی ہیں۔ لیکن جب ملحد صاحب سے کہا گیا کہ علامہ صاحب نے اسکا جوحوالہ دیا ہے وہ پیش کریں تو پہلے تو جملے بدل بدل کے اعتراض دوہراتے رہے پھر بھاگ کھڑے ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ علامہ صاحب نے کسی دیوان کا حوالہ نہیں دیا ۔ ملحدوں کے اس اعتراض کی علمی مضبوطی کی حالت یہ ہے کہ تاریخ میں صرف ایک شخص انکے پیش کردہ اشعار کا امراو القیس کے حوالے سے ذکر کررہا ہے وہ بھی امراوالقیس کے کسی دیوان کا حوالہ نہیں دے پا رہا ۔۔ ان اشعار کے متعلق کیسے کہا جاسکتا ہے کہ یہ امراولقیس کے اشعار ہی ہیں جبکہ وہ کسی اعتبار سے بھی اسکے نہیں ہوسکتے جیسا کہ اوپر انکے پیش کیے گئے تحقیقی جائزے سے ظاہر ہے۔
استفادہ تحریر : مرزا احمد وسیم بیگ صاحب