امیہ بن ابی الصلت قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھنے والا مخضرمی شاعر تھااورطائف میں رہتا تھا۔ اس کا باپ اوراسکی بہن فارعہ بھی شاعر تھی۔ دو بیٹیاں اور کچھ قریبی رشتہ دار بھی شاعر تھے۔اس کا ایک بھائی ہذیل تھا جو محاصرہ طائف میں گرفتار ہوا اور شرک کی حالت میں مرا۔امیہ جادہ اعتدال پہ قائم ان شعراء میں سے تھا جو بتوں کی عبادت پہ بھڑک اٹھاکرتے تھے ،اللہ اور آخرت پہ ایمان رکھتے تھے ،برے اخلاق جو اس وقت جزیرۃ العرب میں رائج تھے انکو ناپسند کرتے تھے اورعرب میں مبعوث ہونے والے نبی کا انتظار کیا کرتے تھے ۔بلکہ امیہ کا خیال تھا کہ وہ نبی وہی ہوگا چنانچہ وہ مذہبی شخصیات سے میل جول رکھتا تھا انکی کتابوں سے استفادہ کرتا تھا اور اپنے اشعار میں ان کتابوں کے مضامین پیش کرتا تھا ۔ وہ کثیر السفر اور تجارتی آدمی تھا۔
مصادر و مآخذ کا اس بات پہ اتفاق ہے کہ امیہ کفر کی حالت میں مرا ہے اور اس کا یہ کفر بر بنائے بغض و عناد تھا ۔ جب اسے پتہ چلاکہ وہ ممکنہ مبعوث نبی محمد ﷺ ہیں چنانچہ تو وہ طائف چھوڑ کر یمن چلا گیا اور اپنی دو بیٹیاں بھی ساتھ لیتاگیا جو یمن میں رہا کرتی تھیں اور امیہ خود جزیرۃ العرب کے مختلف ملکوں:یمن بحرین مکہ شام مدینہ اور طائف میں سفر کرتا تھا ۔ روایات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک بار مکہ آیا ۔حضور ﷺبھی ان دنوں مکہ میں ہی تھے ۔وہاں اس نے حضورﷺ سے سورہ یس سنی اور حضور کی تصدیق کی۔ مشرکین مکہ نے اس کی بابت جب پوچھا تو اس نے کہا کہ محمد ﷺ حق پر ہیں ۔لیکن پوشیدہ بغض و عناد نے اس کو اسلام میں داخل ہونا کا اعلان کرنے سے روک دیا۔ایک دوسری روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ اس نے دوسری بار حضورﷺ سے ملاقات کرنے اور اسلام میں داخل ہونے کا اعلان کرنے کے مقصد سے مدینہ کا سفر کیا لیکن راستہ میں مشرکین نے اس کی راہ مار دی اور حضورﷺ کے خلاف اس کے کینہ کو یہ بتا کر بھڑکا دیاکہ محمد ﷺ نے غزوہ بدر میں تمہارے رشتہ داروں کو قتل کیا ہے ۔ یہ سن کرامیہ پہلے جیسا ہوگیا اور اسکا سارا کینہ لوٹ آیا ،وہ رویا اور زمانہ جاہلیت کے دستور کے مطابق اپنی اوٹنی کے پاؤں کاٹ ڈالے۔ اسی پر بس نہ کیا بلکہ مقتولین بدر کا مرثیہ کہا اور مشرکین کو مقتولین کے خون کا بدلہ لینے پہ ابھار نے لگا۔یوں وہ اسلام کو چھوڑ کر شرک اور بت پرستی کی گود میں جا بسایہاں تک کہ سن آٹھ یا نو ہجری (علی اختلاف الاقوال)حضور ﷺکے طائف کو فتح کرنے سے تھوڑا پہلے طبعی موت مرگیا۔ یہی بات زیادہ راجح ہے۔
(حوالہ : شعراء النصرانية قبل الإسلام/ ط2/ دار المشرق/ بيروت/219 وما بعدها، ود. جواد على/ المفصَّل فى تاريخ العرب قبل الإسلام/ ط2/ دار العلم للملايين/ 1978م/ 6/ 478- 500، وبهجة عبد الغفور الحديثى/ أمية بن أبى الصلت- حياته وشعره/ مطبوعات وزارة الإعلام/ بغداد/ 1975م/ 46 فصاعدا. وله تراجم فى “طبقات الشعراء”، و”الشعر والشعراء”، و”الأغانى” وغيرها)
امیہ کے دیوان میں دونوں قسم کے اشعار ر ملتے ہیں وہ اشعاربھی جنکی اسکی جانب نسبت صحیح ہے اور وہ اشعار بھی جنکی اسکی جانب نسبت صحیح نہیں ہے جنکے بارے میں یہ اطمینان نہیں ہوتا کہ یہ اسی کے اشعار ہیں بلکہ دوسری قسم کے اشعار زیادہ ہیں۔ اس سے منسوب اکثر اشعار دینی مسائل پر مشتمل ہیں جیسےتکوینی نظام ،تکوینی نظام کے اللہ کے رب ہونے پر دلائل،فرشتوں کی مدح وتوصیف، فرشتوں کا پروردگار کی تسبیح کو لازم پکڑے رہنا اور اسکی مرضی پہ عمل کرتے رہنا،قیامت اور قیامت میں ہونے والے حساب ،ثواب اور سزا کی خبر دینا، انبیاء کے اپنی قوموں کے ساتھ واقعات کی حکایت ۔ جبکہ دوسری طرف اسکے اشعارعبد اللہ بن جدعان کی مدح میں اور اپنی ذات اور اپنے قبیلہ کے اوپر فخر پر مشتمل ہیں۔
اسکی جانب منسوب وہ دینی اشعار جو قرآن کریم سے لفظا و معنا بہت مشابہت رکھتے ہیں یہ ہیں
الحمد والنعماء والمُلْك ربنا * فلا شىء أعلى منك جَدًّا وأَمْجَدُ مليكٌ على عرش السماء مهيمنٌ
* لعزّته تَعْنُو الجباه وتسجدُ مليك السماوات الشِّدَاد وأرضها * وليس بشىء فوقنا يتأودُ تسبِّحه الطير الكوامن فى الخفا
* وإذ هى فى جو السماء تَصَعَّدُ ومن خوف ربى سبّح الرعدُ حمده* وسبّحه الأشجار والوحش أُبَّدُ من الحقد نيران العداوة بيننا
* لأن قال ربى للملائكة: اسجدوا لآدم لمّا كمّل الله خلقه * فخَرُّوا له طوعًا سجودا وكدّدوا وقال عَدُوُّ الله للكِبْر والشَّقا:
* لطينٍ على نار السموم فسوَّدوا فأَخْرَجَه العصيان من خير منزلٍ * فذاك الذى فى سالف الدهر يحقدُ
ويوم موعدهم أن يُحْشَروا زُمَرًا * يوم التغابن إذ لاينفع الحَذَرُ
مستوسقين مع الداعى كأنهمو * رِجْل الجراد زفتْه الريح تنتشرُ
وأُبْرِزوا بصعيدٍ مستوٍ جُرُزٍ * وأُنـْزِل العرش والميزان والزُّبُرُ
وحوسبوا بالذى لم يُحْصِه أحدٌ * منهم، وفى مثل ذاك اليوم مُعْتبَرُ
فمنهمو فَرِحُ راضٍ بمبعثه * وآخرون عَصَوْا، مأواهم السَّقَرُ
يقول خُزّانها: ما كان عندكمو؟ * ألم يكن جاءكم من ربكم نُذُرُ؟
قالوا: بلى، فأطعنا سادةً بَطِروا * وغرَّنا طولُ هذا العيشِ والعُمُرُ
قالوا: امكثوا فى عذاب الله، ما لكمو* إلا السلاسل والأغلال والسُّعُرُ
فذاك محبسهم لا يبرحون به طول المقام، وإن ضجّوا وإن صبروا
وآخرون على الأعراف قد طمعوا * بجنةٍ حفّها الرُّمّان والخُضَرُ
يُسْقَوْن فيها بكأسٍ لذةٍ أُنُفٍ * صفراء لا ثرقبٌ فيها ولا سَكَرُ
مِزاجها سلسبيلُ ماؤها غَدِقٌ * عذب المذاقة لا مِلْحٌ ولا كدرُ
وليس ذو العلم بالتقوى كجاهلها * ولا البصير كأعمى ما له بَصَرُ
فاسْتَخْبِرِ الناسَ عما أنت جاهلهُ * إذا عَمِيتَ، فقد يجلو العمى الخبرُ
كأَيِّنْ خلتْ فيهمو من أمّةٍ ظَلَمَتْ * قد كان جاءهمو من قبلهم نُذُرُ
فصدِّقوا بلقاء الله ربِّكمو * ولا يصُدَّنَّكم عن ذكره البَطَرُ
* * * قال: ربى، إنى دعوتك فى ا لفـــــــــــــــ*ــجر، فاصْلِحْ علىَّ اعتمالى
إننى زاردُ الحديد على النــــــــــــــــــــــــ*ــاس دروعًا سوابغ الأذيالِ
لا أرى من يُعِينُنِى فى حياتى * غير نفسى إلا بنى إسْرالِ
اعتراض اور اسکی حقیقت
ملحدین اور عیسائی مشنریوں کو یہ گمان ہے کہ اسلام، رسول اور انکی باطل (نعوذباللہ( کتاب کے خلاف لوگوں کو جمع کرنا ہمارے بس میں ہے سو مذکورہ مشابہت کی وجہ سے مشنریاں یہ وسوسہ پیش کرتی ہیں کہ قرآن میں امیہ کے اشعار چرائے کئے گئے ہیں۔ جبکہ جاہلی ادب کے متعدد بڑے بڑے ریسرچر ،خواہ وہ مستشرقین ہوں یا مسلمان، مشنریوں کے مذکورہ گمان کے بر عکس یہ کہتے ہیں کہ قرآن سے مشابہت رکھنے والے امیہ کے اشعار جو اسکی جانب منسوب کئے گئے ہیں غلط منسوب ہیں۔ مستشرقین میں سے یہ بات تور اندریہ، برو کلمان اور براو نے ، اور عرب علماء میں سے ڈاکٹر طہ حسین، شیخ محمد عرفہ،ڈاکٹر عمر فروخ،ڈاکٹر شوقی ضعیف ،ڈاکٹر جواد علی اور بہجہ الحدیثی نے کہی ہے۔ اس کےباوجود بعض مستشرقین جیسے فرانسیسی مستشرق کلیمان ھوار کا یہ خیال ہے کہ نبی پاک ﷺ نے قرآ ن کے ایک حصہ میں امیہ کے اشعار لئے ہیں۔ اور بعض مستشرقین کا یہ خیال ہے کہ حضور اور ورقہ دونوں نے ایک ہی مآخذ سے مدد لی ہے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہےکہ المانی مستشرق کارل بروکلمان یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہتا ہےکہ امیہ کے نام سے جو اشعار روایت کئے جاتے ہیں وہ اسکی جانب غلط منسوب ہیں ماسوائے مقتولین بدر کے مرثیہ کے۔اور فرانسیسی مستشرق کلیمان ھوار جو یہ گمان کرتا ہے کہ امیہ کے اشعار قرآن کے مصادروں میں سے ایک مصدر ہے تو اس سلسلہ میں حق بات وہ ہے جو تور اندریہ نے کہی ہے کہ یہ اشعار وہ ہیں جن میں افسانہ نویسوں نے قرآنی واقعات کا وہ مٹیر یل جمع کردیا ہے جسکی مفسرین نے تخریج کی ہے۔
انسائیکلوپیڈیا آف اسلام (دائرۃ المعارف الاسلامیہ) کے پہلے ایڈیشن میں مضمون” امیہ ابن ابی الصلت “کے رائٹر: براو فرانسیسی مستشرق کے الزام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ امیہ کی جانب منسوب اشعار کی صحت مشکوک ہے ، ان اشعار کا حال عام جاہلوں کے اشعار جیسا ہے ۔ اور یہ قول کہ محمد نے امیہ کے اشعار سے اقتباس لیا ہے یہ ایسا گمان ہے جو ایک تفصیلی سبب کی وجہ سے بعید الاحتمال ہےاور وہ سبب یہ ہے کہ امیہ ان کہانیوں کو اچھی طرح جاننے والا تھا جن پر ہم گفتگو کر رہے ہیں۔نیز اسکی کہانیاں تفصیل میں جاکر قرآن میں وارد واقعات سے مختلف ہوجاتی ہیں۔قرآن اور امیہ کے اشعار کے درمیان مشابہت پہ تبصرہ کرتے ہوئے مزید کہتا ہے کہ حضور کی بعثت کے وقت اور اس سے تھوڑاپہلے ایسے فکری رجحان (معاشرہ میں ) پھیل گئے تھےجو حنفاء کی رائے کے جیسے تھے ،جن افکار نے اکثر لوگوں کے دل موہ رکھے تھے، جنکو یہودیوں کی تورات کی تفاسیر اور مسلمانوں کی کہانیوں میں سے ہر دونے فروغ دیا۔
اس کے بعد براو نے ہمیں وہ بات بتائی جسکی حقیقت تک تور اندریہ پہنچا کہ امیہ کے دینی اشعار کی نسبت اسکی طرف صحیح نہیں ہے ،اس کے اشعار کا یہ (پھیکا)رنگ مفسرین کے ان اشعار کواس کی جانب غلط منسوب کرنے کی وجہ سے ہے ۔ (دائرة المعارف الإسلامية/ الترجمة العربية/ 4/ 463- 464)۔
عربی کے نامور ادیب ڈاکٹر طہ حسین لکھتے ہیں : یہ اشعار جنکی امیہ کی جانب اور حضور کے زمانہ کے حنیف شعراء کی جانب نسبت کی جاتی ہے غلط نسبت کی جاتی ہے ۔انکی جانب (جاہل)مسلمانوں نے یہ غلط نسبت کی ہے تاکہ وہ اسلام کا قدیم اور سابق ہونا ثابت کرسکیں۔(فى الأدب الجاهلى/ دار المعارف/ 1958م/ 145).
شیخ محمد عرفہ:اگر قرآن اور اشعار امیہ کے درمیان مشابہت ہوتی تو ان مشرکین کو یہ بات کہنے چاہئے تھی جنکو قرآن نے مثل لانے کا چیلنچ دیا تھا کہ یہ مثل امیہ لا چکا ہے ۔انہوں نے حضور ﷺ پر یہ الزام تو لگایا کہ انکو ایک عجمی غلام قرآن سکھاتا ہے مگرامیہ کتےتعلق سے انہوں نے مذکورہ بات نہ کہی ۔ نیز امیہ کے یہ اشعار اپنی بناوٹ میں ایام جاہلیت کے اشعار کے مشابہ نہیں ہیں کیونکہ یہ ایسے اشعار ہیں جنکی بناوٹ اور کمزوری شعراء متاخرین کے اشعار کی طرح بلکل واضح ہے ۔یہیں سے یہ بات کہی گئی ہے کہ یہ اشعار جو امیہ کی جانب منسوب کئے گئے ہیں یہ غلط اور جھوٹ منسوب کئے گئے ہیں (من تعليق الشيخ محمد عرفة على مادة “أمية بن أبى الصلت” فى “دائرة المعارف الإسلامية”/ 4/ 465)
ڈاکٹر عمر فروخ:”امیہ کے اشعار کی بڑا حصہ ضائع ہوچکا ہے اور مستند طور سے اس سے سوائے مقتولین بدر کے مرثیہ کے کچھ ثابت نہیں ہے “۔ ایسے ہی ہم ڈاکٹر صاحب کو بھی اس بات کی توثیق کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ امیہ کی جانب منسوب دینی اشعار کمزور بناوٹ رکھتے ہیں انمیں کوئی رونق نہیں ہے (د.عمر فروخ/ تاريخ الأدب العربى/ ط5/ دار العلم للملايين/ 1948م/ 1/ 217- 218)۔
ڈاکٹر شوقی ضعیف:” امیہ کا مذکورہ اشعار میں قرآن سے مدد لینا واضح طور سے ثابت ہورہا ہےمگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ امیہ قرآن سے متاثر تھا”۔ بلکہ ڈاکٹر صاحب بھی اس بات کی توثیق کرتے ہیں کہ امیہ کی جانب منسوب اشعار کمزور اشعار ہیں جن کو بعض قصہ گوؤں اور واعظوں نے زمانہ جاہلیت کے بعد تیار کیا ہے ۔اور فرانسیسی مستشرق کلیمان ھوار کے دعوی کی تردید کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اس مستشرق کو عربی زبان اور زمانہ جاہلیت کے اسالیب و طرز کا علم نہیں ہے ۔اگر اس کو ان کا علم ہوتا تو اس پر یہ بات واضح ہوجاتی کہ مذکورہ اشعار غلط منسوب کئے گئے ہیں جنکا غلط منسوب کیا جانا بلکل واضح ہے (د. شوقى ضيف/ العصر الجاهلى/ ط10/ دار المعارف/ 395- 396
ڈاکٹر جواد اپنی کتاب المفصل فی تاریخ العرب میں وثوق کے ساتھ یہ بات کہتے ہیں کہ امیہ کے بعض دینی اشعار اس کے کھاتہ میں ڈالے گئے ہیں ۔اسی وجہ سے یہ بات ممکن نہیں ہے کہ امیہ نے قرآن سے چوری کی ہو گی اگر اس نے چوری کی ہوتی تو حضور ﷺ اور مسلمان اس کا مذاق اڑاتے ۔ ڈاکٹر صاحب کا بھی یہی خیال ہے کہ قرآن سے مشابہت رکھنے والے یہ اشعار بعد میں گھڑے گئے ہیں کیونکہ یہ نہ تورات میں ہیں نہ انجیل میں اور نہ کسی اور مذہبی کتا ب میں ماسوائے قرآن کے۔ اور ان اشعار کا اکثر حصہ حجاج کے زمانہ میں اس کا تقرب حاصل کرنے کیلئے گڑھا گیا ہے ۔(حجاج بھی امیہ کی طرح ثقفی تھا ۔ راقم ابو نجمہ سعید) یہ بات بھی خاص ہے کہ امیہ کے دینی اشعار ان اشعار سے بلکل مختلف ہیں جو مدح اور مرثیہ پہ مشتمل ہیں ۔ان دینی اشعار میں اسکا لہجہ فقہاء صوفیاء اور پادریوں جیسا ہے ۔نیز راویوں کے اشارے بھی اس بات کی جانب بار بار ہوئے ہیں کہ امیہ کی جانب منسوب اشعار دیگر شعراء کی جانب بھی منسوب ہیں۔پھر امیہ حضور کی تعریف بھی کرتا ہے۔اسکی جانب ایسے اشعار بھی منسوب ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ حضور پر ایمان لے آیا تھا۔کیا مقتولین بدر کے مرثیہ کے ساتھ ان اشعار کی گنجائش ہے ؟ (المفصَّل فى تاريخ العرب قبل الإسلام/ 6/ 491- 496)۔
میں نے نیٹ پر کتب احادیث میں وہ روایات تلاش کیں جن میں امیہ کے اشعار کا کچھ تذکرہ ملتا ہو تو مجھے ان تین اشعار کے علاوہ کچھ نہ ملا جو مسند احمد میں آئے ہیں جن میں امیہ سورج اور عرش الہی کی بابت وہ گفتگو کرتا ہے جو قرآن میں نہیں ہے جن کی حضور ﷺ نے تصدیق کی تھی
رجلٌ وثورٌ تحت رجْل يمينه * والنسر لليسرى، وليثٌ مُرْصَدُ
والشمس تطلع كل آخر ليلة * حمراءَ يصبح لونها يتورّدُ
تأبَى فلا تبدو لنا فى رِسْلها * إلا مُعَذَّبَةً وإلا تُجْلَدُ
مسند ابن ماجہ اور مسند احمد میں یہ بھی آتا ہے کہ ایک بار شرید بن صامت رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کے سامنے امیہ کے سو اشعار پڑھے،جب شرید اشعار پڑھ کے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا :ھیہ۔ یعنی اور سناؤ۔ بھر آخر میں حضور نے تبصرہ کیا:وہ مسلمان ہونے کے قریب تھا ۔مسند احمد کی ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ آپ نے کوئی تبصرہ نہیں فرمایا تھا بلکہ خاموش ہوگئے شرید بھی آپکی خاموشی دیکھ کر خاموش ہوگئے۔
جب میں قرآن سے مشابہت رکھنے والے امیہ کے اشعار کی تخریج کی جانب لوٹتا ہوں(جنکی تخریج بہجہ حدیثی نے اپنے رسالہ میں کی ہے)تو میری توجہ اس بات کی جانب مبذول ہوتی ہے کہ مذکورہ اشعار یا انکے علاوہ وہ اشعار جن میں تھوڑی بہت قرآن سے مشابہت پائی جاتی ہے یہ ادب، لغت اورتاریخ کی کتابوں میں اور معتبر تفاسیر میں دیکھنے کو نہیں ملتے جیسے ابو زید قرشی کی جمہرۃ اشعار العرب، ابن اسلام کی طبقات الشعراء، ابن قتیبہ کی الشعر و الشعراء، اصفہانی کی اغانی، طبری کی تاریخ الرسل و الملوک اور جامع البیان فی تفسیر القرآن ۔ بلکہ ان اشعار میں سے اکثر اشعار پہلے ایڈیشن میں نہیں ہیں ۔مزید یہ کہ اس کے کچھ اشعار ایک ہی وقت میں دیگر شعراء کی جانب بھی منسوب ہیں
ہمارے متقدمین علماء امیہ کے اشعار اور قرآن میں مشابہت پر واقف کیوں نا ہوسکے علاوہ محمد بن داؤد انطاکی کے جو قرآن پہ امیہ کے اشعار کی چوری کا الزام لگا نے والوں کی یہ کہتے ہوئےتردید کرتے ہیں کہ یہ الزام صحیح نہیں ہے۔کیونکہ یہ بات ممکن نہیں ہے کہ حضور ﷺ اپنی کتاب میں ایسے شخص کے اشعار کی مدد لے رہے ہوں جو انکی نبوت کا اقرار کرتا ہو اور انکی دعوت کی تصدیق کرتا ہو ۔ بالفرض اگر ایسا ہوتا تو امیہ حضور ﷺ پر چوری کا الزام لگانے میں دیر نہ لگاتا اور یوں ذرا سی محنت سے وہ حضور ﷺ کے دعوائے نبوت کو ساقط کردیتا۔
(الزهرة/ تحقيق د. إبراهيم السامرائى ود. نور حمود القيسى/ ط2/ مكتبة المنار/ الزرقاء/ 1406هـ- 1985م/2/)
چند معقول سوالات
اب ہم حضور ﷺ اور امیہ کی زندگی کے ان اہم واقعات کو تلاش کرتے ہیں جن کا اس واقعہ سے تعلق بنتا ہے ۔
1۔ سب سے پہلے تو یہ کہ امیہ بن الصلت جیسا کہ روایتوں میں آیا ہے نبی “ان ویٹنگ” کی توقع کئے ہوئےتھا۔جس وقت اسے معلوم ہوا کہ نبوت اس کے ہاتھ سے نکل گئی ہے تو وہ طائف میں اس آدمی کے قریب اپنی رہائش باقی نہ رکھ سکا جس کے بارے میں تقدیر کا فیصلہ یہ ہوا کہ وحی اس پر نازل ہو ،پس وہ اپنی دو بیٹیوں کو لیکر یمن چلا گیا۔مطلب اس کا یہ ہوا کہ شاعر : محمد کی وجہ سے ذہنی تشویش میں مبتلا تھا نہ کہ اس کا برعکس۔یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ شاعر طائف چھوڑ کر کیوں بھاگا اور محمد کا سامنا کیوں نہیں کیا؟
اگر قرآ ن نے اشعار امیہ سے اقتباسات لئے ہوتے توایسی صورت میں اس کو حضور ﷺ کا سامنا کر نا چاہئے تھا اور یہ کہنا چاہئے تھا کہ یہ جو خیالات قرآن میں آپ پیش کر رہے ہیں میں انکو پہلے ہی اپنے اشعار میں پیش کر چکا ہوں ۔ شاعر کے پاس یہ اس بات کی پکی دلیل ہوتی کہ محمد بر حق نبی نہیں ہیں اور میں ان سے افضل ہوں ( کہ وہ میرے اشعار چرا رہے ہیں)۔اگر قرآن نے اقتباسات لئے ہوتے توکیا عقل مذکورہ صورت حال کا تقاضہ نہیں کرتی؟جبکہ شاعر مشرکین مکہ کو خون کا بدلہ لینے پر تو ابھارتا رہا ،خودخون کے گھونٹ بھی پیتا رہا، اپنی اوٹنی کے بھی پاؤں کاٹ ڈالے مگر کبھی اس نے آگے بڑھ کر متذکرہ بالا بات نہ کہی۔
2۔ نبی پاک ﷺ دعوت و تبلیغ کے کام کیلئے طائف گئے تھے یہ سوچتے ہوئے کہ مکہ والے تو اس دین کو قبول نہیں کر رہے شائد طائف والے اس کو قبول کریں اور میرے ساتھ اچھا سلوک کریں مگر طائف والوں نے نہ صرف دین قبول نہیں کیا بلکہ آپ کے ساتھ انتہائی برا معاملہ کیا۔ اب کومن سینس کو کام میں لائیے اور بتائیے کہ اگر امیہ نے مذکورہ اشعار کہے ہوتے اور حضور نے انکی چوری کی ہوتی تو کیا آپ ایسا کلام لے کر شاعر کے شہر جاتے؟کیا یہ اپنے پاؤں پہ خود کلہاڑی مارنے کے جیسا نہیں ہے۔ نیز طائف والوں نے اس وقت کے مہمانی کے اصولوں کے خلاف شہر کے اوباشوں کو تو آپ کے پیچھے لگادیا جنہوں نے آپ کو جسمانی اور روحانی ہر طرح کی تکلیف پہنچائی،اور کونسا برا سلوک ہوگا جو انہوں نے آپ کے ساتھ نہیں برتا مگر انہوں نے نہیں کیا تو یہی کام نہیں کیا کہ حضور پہ امیہ کے اشعارکی چوری کا الزام لگاتے۔کس چیز نے ان کو یہ الزام لگانے سے روک دیا؟
3۔ حضور کی مدح و توصیف پہ مشتمل امیہ کےیہ اشعار دیکھیں
لك الحمد والمنّ رب العبا * د. أنت المليك وأنت الحَكَمْ
ودِنْ دين ربك حتى التُّقَى * واجتنبنّ الهوى والضَّجَمْ
محمدًا ارْسَلَه بالهدى * فعاش غنيا ولم يُهْتَضَمْ
عطاءً من الله أُعْطِيتَه * وخصَّ به الله أهل الحرمْ
وقد علموا أنه خيرهم * وفى بيتهم ذى الندى والكرمْ
نبىُّ هدًى صادقٌ طيبٌ * رحيمٌ رءوف بوصل الرَّحِمْ
به ختم الله من قبله * ومن بعده من نبىٍّ ختمْ
يموت كما مات من قد مضى* يُرَدّ إلى الله بارى النَّسَمْ
مع الأنبيا فى جِنَان الخلو * دِ، هُمُو أهلها غير حلّ القَسَمْ
وقدّس فينا بحب الصلاة * جميعا، وعلّم خطّ القلمْ
كتابًا من الله نقرا به * فمن يعتريه فقدْمًا أَثِمْ
(أمية بن أبى الصلت- حياته وشعره” لبهجة عبد الغفور الحديثى/ 260- 264
ان اشعار میں امیہ نے حضور ﷺ کی تعریف کی ہے ، یہ اشعار واضح طور سے قرآن سے انسپائرڈ ہیں ۔بالفاظ دیگر امیہ نے قرآن سے الفاظ لئے ہیں، اگر معاملہ اس کے بر عکس ہوتا یعنی حضور نے امیہ کے اشعار چرائے ہوتے تو امیہ کو ان اشعار میں حضور کی تعریف کرنی چاہئے تھی یا ہجو؟
4۔ ہمارے سامنے امیہ کی بہن فارعہ کے علاوہ شاعرکے قبیلے ثقیف سے تعلق رکھنے والے دیگر لوگ بھی ہیں ۔ان دیگر لوگوں میں ایک صاحب کنانہ بن عبد یالیل ہیں۔ یہ اپنے زمانہ میں قبیلہ ثقیف کے سردار تھا ۔یہ اسلام کے بڑے دشمن ابو عامر کے ساتھ اسلام اور رسول کے خلاف سازش میں شریک تھا،اپنی اس سازش کو انجام تک پہنچانے کیلئے یہ دونوں قیصر روم کے پاس بھی گئے اوراسلام کے خلاف قیصر کی مدد کا وعدہ لیا۔ جب قیصر کے ہاں کامیابی نہ ملی تو ابو عامر تو شام میں ہی رک گیا اور کنانہ یہاں وہاں ٹکریں کھانے کے بعد واپس آگیا اور اسلام لانے کا اعلان کیا ۔ اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ مرتد ہوگیا تھا بعد میں دوبارہ اسلام لایا۔سوال یہ ہے کہ اگر حضور ﷺ نے امیہ کے اشعار چرائے ہوتے تو کنانہ جیسا آدمی جس نے باقاعدہ حضور کے خلاف سازش رچی اور اس سلسلہ میں سپر پاور طاقت سے ملاقات بھی کی ،کیسے خاموش رہ گیا ؟ اس کو تو یہ بات اپنے اہم ہتھیار کے طور پہ استعمال کرنی چاہئے تھی اور اس کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کے دلوں پہ حملہ کرنا چاہئے تھا اور اپنے آپکو اپنی قوم کو اور سارے جزیرۃ العرب کو حضور کے فتنہ سے نجات دلانی چاہئے تھی
5۔ شاعر کی بہن کے علاوہ لوگوں میں سے ایک عروہ بن مسعود ثقفی بھی ہیں۔ یہ اپنی قوم اور قبیلہ کے اسلام لانے سے کافی پہلے اسلام لے آئے تھے ، اپنی قوم سے محبت کی وجہ سے ان کی یہ خواہش تھی کہ میری قوم بھی حضور کے ہاتھ پر ایمان لے آئے چنانچہ اس سلسلہ میں انہوں نے حضور سے اپنی قوم میں جاکر دعوت کا کام کرنے کی اجازت چاہی ،حضور نے اندیشہ ظاہر کیا کہ وہ تمہیں مار ڈالیں گے ،عروہ بن مسعود کا اپنی قوم سے محبت کی وجہ سے یہ خیال تھا کہ یہ میرے قبیلے والے ہیں میرے ساتھ ایسا سلوک نہیں کریں گے چنانچہ انہوں نے دوبارہ اجازت چاہی،حضور نے پھر اپنے اسی اندیشہ کا اظہار کیا ،انہوں نے تیسری مرتبہ اجازت چاہی تو حضور نے اجازت دے دی ۔جب عروہ نے اپنی قوم میں جاکر لوگوں کو اسلام کی طرف بلانا شروع کیا تو چاروں طرف سے لوگ ان کے پاس جمع ہوگئےاور تیر مار مار کے انکو شہید کر ڈالا۔ اللہ ان سے راضی ہو۔(أبو نعيم الأصفهانى/ دلائل النبوة/ ط2/ حيدر أباد الدكن/ 1950م/ 467).
یہاں کئی سوال ہیں ۔اگر حضور ﷺ نے اس امیہ کے اشعار چرائے ہوتے جس کی اسلام کے خلاف سازش بہت بعد تک چلتی رہی تو کیا عروہ اپنی قوم کے دھرم کے خلاف حضور کے دین میں داخل ہو سکتے تھے ؟ داخل اگر ہوبھی گئے تھے تو حضور نے انکو دوبارہ انکی اپنی قوم میں کیوں بھیجا( چور کو تو اپنے بھانڈے کی بڑی فکر رہتی ہے۔ ابو نجمہ)پھر اگر وہ چلے بھی گئے تو قوم کو انکو تیر کا زخم پہنچانے کی کیا ضرورت تھی وہ یہ کہہ کر باتوں کا زخم بھی تو پہنچا سکتے تھے کہ تم جس رسول کے دین کی جانب ہمیں بلا رہے ہو ذرا اسکی خبر تو لو۔وہ تو چور ہے اس نے ہمارے شاعر کے اشعار چرائے ہیں،اور انکو قرآن بتاکر کہتا پھر تاہے کہ یہ آسمان سے بطور وحی کے میرے پاس آیا ہے ۔کیا قبیلہ ثقیف نے یہ سنہرا موقعہ اپنے ہاتھ سے گنوا نہیں دیا ؟
6۔ قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھنے والوں میں ایک شاعر صاحب ابو محجن بھی ہیں جو شراب کے عادی تھے ۔کئی مرتبہ ان پہ اس سلسلہ حد بھی جاری ہوئی ۔ حضرت عمر نے انکو جلا وطن بھی کیا تھا یہانتک کہ جنگ قادسیہ ہوئی جس میں ان کا واقعہ بڑا مشہور ہے کہ دوران جنگ انہوں نے شراب پی تھی ،اس جنگ میں مسلمانوں کے سپہ سالار سعد بن ابی وقاس کے پاس حد جاری کرنے کی فرصت نہیں تھی تو فرصت تک انہوں نے ابو محجن کو قید میں ڈال دیا تھا۔ دوران جنگ وہ سپہ سالار کی اہلیہ سے بیڑی کھولنے کو لے کر اصرار کرتے ہیں تاکہ وہ بھی جہاد میں شریک ہوسکیں ۔جب انہوں نے یہ وعدہ کیا کہ جنگ کے بعد میں بھاگوں گا نہیں بلکہ واپس آکر اپنے پاؤں میں خود بیڑیاں ڈال لوں گا تو اہلیہ نے بیڑیاں کھول دیں ۔چنانچہ انہوں نے جنگ میں شرکت کی اور حق ادا کر دیا ۔ جنگ کے بعد واپس آکر وعدہ کے مطابق انہوں نے اپنے آپ کو قید میں ڈال دیا ۔ انکی حسن کارکردگی سے خوش ہوکر سپہ سالار سعد بن ابی وقاص نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ ان پر کبھی حد جاری نہیں کریں گےجس کے جواب میں ابو محجن نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ کبھی شراب نہیں پئیں گے اور یہ بھی کہا کہ میں شراب اس سے پہلے چھوڑ سکتا تھا مگر اس وقت لوگ یہ کہتے کہ میں نے سزا کے ڈر سے شراب چھوڑی مگر اب کوئی یہ بات نہیں کہے گا ۔ دین اسلام میں شراب کی حرمت کے بغاوت کے طور پر ابو محجن کا دیوان انگور کی بیٹی کی تعریف سے بھرا پڑا ہے۔فتح مکہ کے بعد جب مسلمانوں نے طائف کا محاصرہ کیا تو مدافعت کرنے والوں میں سے ایک ابو محجن بھی تھے اور ان کا ایک تیر حضرت ابو بکر کے بیٹے کو لگا تھا ۔ (الزركلى/ الأعلام/ ط3/ 5/ 243، ودائرة المعارف الإسلامية/ الترجمة العربية/ 2/ 597- 598، وديوان الشاعر، وبهجة عبد الغفور الحديثى/ أمية بن أبى الصلت/ 42- 43).
سوال یہ ہے کہ اگر حضور ﷺ نے ان کے قبیلہ کے ایک شاعر کے اشعار چرائے ہوتے تو ابو محجن جیسے شاعرنے اس بارے میں کچھ گفتگو کیوں نہیں کی؟
7۔ قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھنے والوں میں ایک صاحب حجاج بن یوسف بھی ہے جو اپنے باپ کی طرح شروع سے ہی قرآن کی تعلیم دیا کرتا تھا۔مال کیلئے نہیں بلکہ اللہ کا ثواب حاصل کرنے کیلئے۔ پھر یہ بنو امیہ کے بڑے گورنروں میں سے ایک بڑا گورنر بنا۔ اسی نے قرآن پر اعراب وغیرہ لگوائے ۔ اپنی قساوت قلبی کے باوجود قرآن کی پابندی سے تلاوت کیا کرتا تھا ۔لوگوں کی قرآن حفظ کرنے پہ ہر طرح سے حوصلہ افزائی کیا کرتا تھا اور حفاظ قرآن کو اپنے قریب رکھتا تھا ۔ (أحمد صدقى العَمَد/ الحجاج بن يوسف الثقفى- حياته وآراؤه السياسية/ دار الثقافة/ بيروت/ 1975م/ 86- 87، 96، 474، 477- 478، وهزاع بن عيد الشّمّرى/ الحجاج بن يوسف الثقفى- وجهحضارى فى تاريخ الإسلام/ دار أمية/ الرياض/ 44).
سوال یہ ہے کہ کہ وہ کیا چیز تھی جس نے حجاج بن یوسف کو اسلام کا اور قرآن کا اتنا پر جوش حامی بنا رکھا تھا؟ اگر اس کو ذرا سا بھی شک ہوتا تو وہ قرآن کے مصادر مآخذ کی کھوج ضرورلگاتا، خاص طور سے اس وقت جب قرآن کا مصدر اورسورس اس کے قبیلہ کے ایک فرد کو بتایا جارہا ہو، اس کے قبیلہ کےایک فرد کونہیں بلکہ اس کے خاندان کے ایک فرد کو( امیہ حجاج کی چوتھی پشت کی نانی کی خالہ کا بیٹا ہے۔ حجاج کا نسب دیکھئے۔ وجه حضارى فى تاريخ الإسلام” لهزاع بن عيد الشّمّرى/ 15).)
کوئی یہاں یہ گمان نہ کرے کہ امور سیاست میں مشغول ہونے کی وجہ سے حجاج امیہ کے اشعار سے سروکار نہ رکھتا ہوگا ۔کیونکہ حجاج سے یہ قول مروی ہے کہ:
ذہب قوم یعرفون شعر امیہ :امیہ کے اشعار جاننے والے اٹھ گئے۔(د. جواد على/ المفصَّل فى تاريخ العرب قبل الإسلام/ 6/ 483 )
یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ قرآن سے مشابہت رکھنے والے مذکورہ اشعار ہم تک تو پہنچ گئے جبکہ وہ شخص جو شاعر سے خون کا رشتہ رکھتا ہے اس کو ان کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے
8۔سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ امیہ کی بہن فارعہ اور ان کے بیٹے قاسم ،امیہ، ربیعہ، اور وہب اپنے قبیلہ کے ساتھ اسلام میں داخل ہوئے ہیں ۔ان میں سے قاسم،امیہ اور ربیعہ شاعری کیا کرتے تھے لیکن ان میں سے کسی سے اور نہ ان کے علاوہ ان لوگوں میں سے کسی سےجو امیہ بن ابی الصلت سے نسبی تعلق رکھتے ہیں ،کوئی ایسی بات مروی نہیں ہے جس سے یہ اشارہ ملتا ہو کہ حضور نے شاعر مذکور سے کسی بھی طرح کا استفادہ کیا ہے۔ کیا ان حضرات کا اسلام کے سامنے سر نگوں ہونا بذات خود اپنے باپ کی تکذیب اور حضور سے وابستگی کی دلیل نہیں ہے؟
(مصنف نے اس کا حوالہ کوئی نی دیا احباب غور فرمائیں ۔سعید)۔
9۔ حضور ﷺ کی وفات کے بعد بہت سے قبائل مرتد ہوئے تھے۔اور ہر قبیلہ کے پاس اپنے ارتداد پر لنگڑےاعذار تھے جن کے ذریعہ سے انہوں نے اپنے ارتداد کو جواز کی شکل دینے کی کوشش کی تھی ۔ لیکن ہم نے کبھی نہیں سنا کہ مرتد ہونے والے قبیلوں میں سے کسی قبیلہ نے مشابہت والے موضوع کو چھیڑا ہو،بلکہ قبیلہ ثقیف نے بھی ارتداد کا ارادہ کیا تھا اگر عمرو بن العاص نے انکو اس گھٹیا کام پر نفرت نہ دلائی ہوتی تو ان میں سے کوئی ہدایت کی طرف نہ لوٹتا لیکن وہ نہ صرف لوٹے بلکہ ان میں سے اکثر نے پورے اخلاص کے ساتھ مرتدین سے جنگ کی۔سوال یہ ہے کہ قبیلہ ثقیف نے ارتداد کے ارادہ کے وقت اور عمرو بن العاص کے سمجھانے کے وقت چوری والی بات کو بہانہ کیوں نہیں بنایا جبکہ یہ بہانہ بڑا معقول تھا
10۔ ایک صاحب یوحنا دمشقی بھی ہیں جنکا تذکرہ ڈاکٹر جواد نے اپنی کتاب میں کیا ہے(“المفصَّل فى تاريخ العرب قبل الإسلام”/ 6/ 493) یہ ان اولین عیسائیوں میں سے ہے جنہوں نے اسلام پر حملہ کرتے ہوئے کتابیں لکھیں۔حکومت بنو امیہ کا زمانہ اس کا زمانہ ہے ۔ اگر قرآن کو اشعار امیہ سے ذرا بھی تشابہ ہوتا تو یہ متعصب پادری اور وہ لوگ جو اسلام کو بیچ چوراہے پہ ڈھادینا چاہتے ہیں اور اپنے پورے وسائل کے ساتھ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ محمد بر حق نبی نہیں تھے ایسے لوگ یہ نادر موقعہ ہاتھ سے جانے دیتے؟
اس ساری تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ نہ امیہ نے ،نہ اس کے بیٹوں میں سے کسی نے ،نہ اس کے رشتہ داروں نے، نہ اس کے قبیلہ نے، نہ عرب میں سے کسی نے ،عرب ہی نہیں بلکہ ان یہود و نصاری میں سے بھی کسی نے نہیں ،جنہوں نے حضور کا زمانہ پایا ہے یا حضور کے تھوڑے بعد آئے ہیں ،ان سب میں سے کسی نے بھی کسی بھی اسٹیج پہ قرآن کی اشعار امیہ سے مشابہت رکھنے والے معاملہ کو نہیں اٹھا یا۔ کیا ہمیں اب بھی یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ مذکورہ لوگوں اور مذکورہ زمانہ کے ختم ہونے کے بعد اس معاملہ کو اٹھانے والوں کا مقصد کیا ہوگا؟
ایک احتمال بعض مستشرقین یہ بھی نکالتے ہیں کہ حضور اور امیہ دونوں نے ایک تیسرے مصدر سے چوری کی ہے۔یہ احتمال نکالنے والوں میں دیوان امیہ کا ناشر المانی مستشرق شولتس بھی ہے۔ لیکن یہ ایسا احتمال ہے جس کے پاؤں نہیں ہیں ۔ کیونکہ اس صورت میں یہ سوال ضرورہوگا کہ وہ تیسرا مشترک مصدر کہاں ہے؟ اتنے زمانے گذرنے کے باوجود اب تک ظاہر کیوں نہیں ہوا حضور اورامیہ بعد مکانی اور بعد روحانی رکھنے کے باوجود دونوں ایک مصدر تک کیسے پہنچے؟پھر سارے عرب کو چھوڑ کر صرف یہ دونوں ہی مصدر تک کیوں پہنچے؟ سارےعرب کو چھوڑ کرنہیں بلکہ ساری دنیا کو چھوڑ کر کہئے۔
تو قارئین یہ تھا اس استدلال کا جواب کہ قرآن امیہ بن ابی الصلت کی شاعری کے سامنے چغلی کھاتا نظر آتا ہے۔یہ ہمارے نزدیک دس نکات سمجھنے والوں کیلئے بہت ہیں۔ اور جن کو سمجھنا نہیں ہے انکے لئے ہزار بھی ناکافی ہیں۔
تحریر: القرآن وأميّة بن أبى الصلت: من أخذ من الآخر؟ بقلم إبراهيم عوض ، ترجمہ ابونجمہ سعید، جمع و ترتیب: منیر عباسی