’’کفر‘‘ کو گھناؤنی چیز بنا کر بھی پیش مت کرو!

ہیومن ازم ایک عالمی تحریک اور ایک باقاعدہ پیکیج ہے۔ ہمارا کوئی جدت پسند طبقہ اس کی ایک چیز خریدے گا کوئی دوسری تو کوئی تیسری، مگر اِس کی مجموعی سیل aggregate sale اوپر ہوتی چلی جائے گی۔ اور بالآخر آپ کو اِس کا سبھی کچھ خریدنا ہے…

چنانچہ یہ بھی کافی نہیں کہ آپ قرآن اور محمدﷺ کو نہ ماننے والے کو ’’کافر‘‘ کہنا متروک ٹھہرا دیں اور لغت میں اس کےلیے ’غیرمسلم‘ ایسا ایک بھلا سا لفظ ایجاد کر دیں جسے وہ خود بھی اپنے لیے استعمال کر سکے! نہیں، کافر کو برا جاننے کا تصور ہی اپنے یہاں سے ختم کرنا ہوگا! بلکہ خود ’’کفر‘‘ ہی کو برا جاننے کا تصور دفن کرنا ہوگا!

ہر ایک کا اپنا اپنا دھرم ہے بھائی، کوئی تمہارے دھرم کو برا کہے تو تمہارا دل کیا کہے گا؟ لہٰذا کسی کے مذہب کو چھیڑو ہی مت؛ کیا آپ کو معلوم نہیں، ہمارے اپنے دین کی یہی تعلیم ہے!؟

آپ بتائیے انبیاء نے کسی کے دھرم کو چھیڑ کر کبھی اس کا دل دکھایا ہو! کبھی کسی کو محض شرک کر لینے پر جہنم کی وعید سنا ڈالی ہو! محض کسی کے بت پوج لینے پر غصہ دکھایا ہو! کسی نے خدا کی آیات کو جھٹلایا یا انبیاء کی نبوت سے اعراض کیا اور اِس پر انبیاء نے ان کے خلاف کوئی محاذ کھڑا کر لیا ہو!

بس اتنی سی بات پر کہ لوگوں نے خدا کی نازل کردہ کتاب پر ایمان لانے سے انکار کردیا اور اس کے مقابلے پر اپنے باپ دادا کا راستہ ہی اختیار کیے رکھا، انبیاء نے ان کے خلاف تحریک کھڑی کردی ہو!

بھائی انبیاء نے ساری عمر لوگوں کو جھنجھوڑا اور خبردار کیا تو کچھ ’سماجی برائیوں‘ پر نہ کہ ’’کفر‘‘ اور ’’شرک‘‘ کرلینے پر! پس یہ محاذآرائی جو تم ’مذہب‘ کی بنیاد پر کرنا چاہ رہے ہو، کبھی ہندومت کو شرک کہتے ہو، کبھی عیسائیت کو دوزخ کا سامان بولتے ہو، کبھی یہودیت کو ہلاکت کا راستہ قرار دیتے ہو… غرض قرآن اور محمدﷺ پر ایمان نہ لانے کو تم جو اِس طرح گھناؤنا بنا کر پیش کررہے ہو، اِس کا تو قرآن میں کوئی ثبوت ہی نہیں! خدا اور اس کے نبیوں کو ماننا یا نہ ماننا لوگوں کا ذاتی مسئلہ ہے بھائی؛ اس پر ان کے ساتھ بگڑ کر دکھانے کی کیا تک ہے؟ یہ تو انبیاء کا طریقہ ہی نہیں؛ انبیاء کے ہاں لوگوں کے ساتھ جو بھی کشیدگی پائی گئی وہ ’’شرک‘‘ وغیرہ ایسے مسائل پر تھوڑی تھی!

یعنی ’کرپشن‘ کرنے والے کو ’’برا‘‘ کہنے کی دلیلوں سے قرآن بھرا ہوا ہے، ’ٹیکس چوری‘ کے فعل کو ’’شرمناک‘‘ کہنے کی دلیلوں سے قرآن سرتا سر لبریز ہے، ’سمگلر‘ سے ’’نفرت‘‘ کرنے اور اس کو ’’برا‘‘ کہنے پر دین کے اندر اجماع ہے اور قرآن میں اس کےلیے شروع سے لے کر آخر تک ’’جہنم کی وعیدیں‘‘ بھری ہوئی ہیں… البتہ ’’کفر‘‘ کرنے والے کےلیے، ’’بت پوجنے‘‘ والے کےلیے، ’’خدا اور اس کے نبیوں کو نہ ماننے‘‘ والے کےلیے تو قرآن میں اول تا آخر’’پیار محبت‘‘ اور ’’اپنائیت‘‘ کی تاکیدیں ہیں؟!!!

مختصراً… کفر اور شرک کی شناعت ہی اب تم اپنے دین سے نکال دو!!!

تو کیا کبھی کوئی ایسا دن آئے گا جب مسلم میڈیا ’’رب العزت کے ساتھ شرک کرنے والے‘‘ کو اُس درجہ میں کوسے گا اور ’’محمدﷺ کے ساتھ کفر کرنے والے‘‘ کے خلاف اس درجہ میں تحریک چلائے گا جس درجہ میں یہ ’کرپشن‘ اور ’سمگلنگ‘ کے خلاف بولتا اور تحریک چلاتا ہے؟!

ان شاء اللہ جس دن یہاں مسلمان میڈیا ہوگا اُس دن یوں ہی ہوگا۔ جس دن یہاں نظامِ تعلیم مسلمان ہوگا اس دن یہاں کے نونہالوں کو ’’رب العزت اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر‘‘کو اسی شناعت کی نظر سے دیکھنا سکھایا جائے گا جس شناعت کی نظر سے اس کو ’سماجی ناانصافی‘ یا ’ٹیکس چوری‘ کرنے والے کو دیکھنا سکھایا جاتا ہے؛ بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ زور اور شدت کے ساتھ (وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ)۔

یہ ’جرائم‘ (مانند ’کرپشن‘، ’سمگلنگ‘ و ’ٹیکس چوری‘ وغیرہ) چونکہ ’’انسان دیوتا‘‘ کے حق میں ایک پاپ ہے لہٰذا ہیومن اسٹ میڈیا اور ہیومن اسٹ نظام تعلیم اِس پر آسمان سر پر اٹھا لینا اپنا کارِمنصبی جانتا ہے۔ کسی چیز پر ’’ایمان‘‘ اور ’’اعتقاد‘‘ رکھنا درحقیقت یہی ہے۔ ’’ایمان‘‘ اور ’’اعتقاد‘‘ جس بھی چیز پر ہو، لازماً بولتا ہے۔ کبھی ہونہیں سکتا ایک چیز پر آدمی کا ’’ایمان‘‘ ہو اور وہ اس کی ’’ولاء اور براء‘‘ (دوستی و دشمنی) کی بنیاد نہ ہو۔ یہ طبعی حقیقتیں ہیں جو خودبخود بولتی ہیں؛ ایسی واضح باتوں پر ’دلائل‘ دینے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ یہ لوگ بھی جس دن ’’توحید‘‘ پر ایمان لائیں گے، اور جس دن یہ ’’محمدﷺ کی رسالت پر ایمان نہ لانے‘‘ کے حکمِ شرعی کو تسلیم کریں گے اُس دن آپ دیکھیں گے ان کی مخالفت اور موافقت کا حوالہ خودبخود ’’قرآن اور محمدﷺ‘‘ ہوگئے ہیں اور ان کی ’’ولاء اور براء‘‘ خودبخود اسلام اور توحید ہوگئی ہے۔ فی الحال اِنہیں ’’کافر‘‘ کو برا جاننے اور ’’کفر‘‘ کے خلاف محاذ آرا ہونے کے دلائل پورے قرآن میں کہیں نظر نہ آئیں گے؛ اِس وجہ سے نہیں کہ خود ان کو قرآن کے اندر اِس مسئلہ کی تلاش ہے، بلکہ اس لیے کہ ہم موحدین کا منہ بند کرنا مقصود ہے!

’’پورے قرآن‘‘ پر اِس حوالے سے ہم پھر کسی وقت بات کریں گے؛ یہاں ان کےلیے قرآن سے صرف ایک حوالہ حاضر ہے؛ چاہیں تو غور کرلیں… کہ ’’ایمان‘‘ اور ’’کفر‘‘ کی بنیاد پر خلقِ خدا قرآن میں کیونکر تقسیم ہوتی ہے اور ذم و توبیخ اور مدح و ستائش کی سب سے بڑی بنیاد قرآن کے اندر کیا ہے… آخری پارے کی ایک چھوٹی سی سورت جو ہمارے بچے بچے کو یاد ہوتی ہے مگر جس کا مفہوم شاید ہمارے بڑے بڑوں کو بھولا ہوا ہے:

إِنَّ الَّذِينَ کَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْکِتَابِ وَالْمُشْرِکِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ أُولَـٰئِکَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَـٰئِکَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ۔

بےشک جتنے کافر ہیں، کتابی اور مشرک، سب جہنم میں جانے والے ہمیشہ اس کی آگ میں رہنے والے ہیں۔ یہ مخلوقات میں بدترین ہیں۔

بےشک جو ایمان لائے اور صالح اعمال کرتے رہے، وہ مخلوقات میں اعلیٰ ترین ہیں۔(البینۃ: 6، 8)

تحریر حامد کمال الدین