عہد حاضر کا امریکی مغربی مذہب undefined حقوق انسانی کامنشور امریکی صدر روز ویلٹ کی اہلیہ ایلنا روز ویلٹ کا تحریر کردہ ہے۔یہ منشور امریکی دستور undefined سے اخذ کیا گیا ہے جسے ۴۵ گورے مرد امریکیوں نے منظور کیااور دستور کی منظوری سے قبل امریکی اخبارات میں دستور کے خدوخال پر تفصیلی مباحثہ ہوا جو Federalist Papers کے نام سے مشہور ہے جو امریکی دستور کا ماخذ ہے۔ <اس اجمال کی تفصیل ساحل کے شمارہ مارچ، اپریل ۲۰۰۵ء میں دیکھی جاسکتی ہے>undefined لہٰذا حقوق انسانی کا تصور، ماہیت، حقیقت، حیثیت، اصلیت آفاقی نہیں ہے۔ یہ ایک خاص تہذیب، ثقافت، علاقے اور تاریخ سے مخصوص ہے۔ اس سے ماوراء نہیں۔ ان حقوق کی بنیادیں خاص زماں و مکان میں محصور، محدود اور مقید ہیں۔ لہٰذا ان اقدار کو عالمی آفاقی غیر متنازع سمجھنا ایک غیر علمی رویہ ہے۔ جدیدیت کی شکست کے بعد پس جدیدیت فلاسفہ undefined نے حقوق انسانی کے عالمی آفاقی، اقدار، نظریات، اصولی ہونے کے تصور کی دھجیاں بکھیر دیں اور بتایا کہ ماڈرن ازم کا دعویٰ کہ عقلیت کے ذریعے حقیقت کا سراغ لگایا جاسکتا ہے اور عقلیت کے ذریعے عالمگیر آفاقی اقدار و اصول بنائے جاسکتے ہیں۔ ایک بے بنیاد دعویٰ تھا کیونکہ عقل خود خاص زماں و مکاں میں محصور ہوتی ہے۔ عقل ایک خاص تاریخ، تہذیب، مذہب ثقافت سے طلوع ہوتی ہے۔ لہٰذا عقل کی بنیاد پر زماں و مکان سے ماوراء افکار، اقدار، اصولوں اور روایات کی تخلیق ناممکن ہی نہیں محال ہے۔ جس مغرب نے حقوق انسانی کی عالمگیریت آفاقیت کا دعویٰ کیا تھا وہی اپنے اس دعوے سے دستبردار ہوگیا۔ عصر حاضر کے سب سے بڑے فلسفی جرگن ہیبرماس undefined اپنی کتاب The Theory of Communicative action میں واضح طور پر لکھ دیا ہے کہ کسی بھی تصور کی آفاقیت کا دفاع ممکن نہیں کیونکہ ڈسکورس بدلتا رہتا ہے۔ اپنی دوسری کتاب The Truth and justification میں ہیبرماس نے بنیادی حقوق انسانی کی آفاقیت کے فلسفے سے رجوع کرلیا تھا اس کی تیسری کتاب The Future of Human Nature میں بھی ان مباحث پرروشنی ملتی ہے۔ امریکہ کے سب سے بڑے فلسفی جسے ریاستی سطح پر بھی State Philospher کا درجہ حاصل ہے اپنی کتابوں The Truth اور Objectivity Truth & Solidrity میں انسانی حقوق کی آفاقیت کا انکار کیا ہے۔ گرے نے اپنی کتاب The Enlighted Wake میں انسانی حقوق کی آفاقیت اور عالمگیریت اور موضوعیت کے دعووں کی تردید کی ہے۔ لیکن عالم اسلام میں جدیدیت پسند مفکرین، استعماری گماشتے، لادینی کارندے اور بے شمار مذہبی شخصیات و مفکرین بلاسوچے سمجھے اور بغیر مطالعے و محاکمے کے حقوق انسانی کی عالمگیریت کا اظہار فرما رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارے مفکرین کی مغربی فلسفے سے ناواقفیت ہے جس کے باعث مغرب کے مسترد شدہ افکار ہمارے یہاں قبولیت پا رہے ہیں۔ ذیل میں ہم ان فلاسفہ کی کتابوں کی مختصر فہرست پیش کر رہے ہیں جنھوں نے علمی طور پر حقوق انسانی کے آفاقی اور عالمگیر ہونے کے دعوے کو مسترد کر دیا ہے ان کتابوں کے بین السطور میں حقوق انسانی کی آفاقیت کو رد کرنے سے متعلق مباحث: 1. M. Foucault, Madness and Civilization. 2. Daniel Bell, The cultural contradiction of capitalism. 3. Rober N. Bellah, Habits of the Heart. 4. G. Deleuze, Anti Edipus: Capitalism and Schizophrenia. 5. G. Deleuze, Thousant Plateus: Capitalism and Schizophrenia. 6. Ansari J. A., the Poverty of Democracy (Part-I), Universal message Oct. 1990. 7. Charles Taylor, The sources of self, Oxford, Oxford University Press 1982. 8. Daniel Norman, Reading Rawls: A critical study on Rawls’ theory of justice, California Stanford University Press 1989. 9. Gray J., Enlightenment wake: Political and culture at the close of the modern age, London New York Routledge 1995. 10. Kymleka w., Liberalism, community and culture Oxford, Oxford University Press 1984.11. MacIntyre A., After Virtue:, London Duckworth 1981. 12. MacIntyre Alsdair, After Virture: A Study in Moral Theory, 198113. Mulhall and A., Swift liberals and communitarians, New York Black well 1992. 14. Rawls J., “Justice as Fairness: Political not Metaphysical”, Philosophy and Public Affairs 14, undefined. 15. Rawls John, A Theory of Justice, Oxford University Press 1971 16. Rawls John, Political Liberalism, Columbia University Press 1992 17. Ray B. N, undefined John Rawls and the Agenda of social Justice, New Delhi, Anamika publishers 2000. 18. Rorty R., Contingency, Irony and Solidarity, Cambridge New York, Cambridge University Press 1992. 19. Rorty R., Objectivity, Relativism and truth: philosophical papers undefined, New York, Cambridge University Press 1991. 20. Sandel M., Liberalism and links of justice., New York Cambridge University Press 1982. 21. Taylor Charles, “Atomism” in the Philosophical papers, 2 Vols., 1985 22. Walzer Michael, Spheres of Justice, 1983 23. J. Lacan, Ecvits: A Selection, London: Tavistock, 1977. 24. Derrida, Of Grammatology, Baltimore and London: Johns Hopkins University Press, 1976; Speech and Phcnomena, and OtherEssays on Husserl’s Theory of Signs, Evanston: North western University Press, 1973; Writing and Difference, London: Routledge & Kegan Paul, 1978. 26. J. Habermas, Knowledge and Human Interests, London: Heinemann Educational Books, 1972. 27. M. Foucault, Nietzsche, Genealogy, History, in D.F. Bouchard (ed.), Language, Counter-Memory, Practice: Selected Essays and Interviews, Oxford: Basil Blackwell, 1977. 29. M. Foucault, The Birth of the Clinic, London: Tavistock, 1973. 30. M. Foucault, The Order of Things, London: Tavistock, 197031. M. Focault, The Archacology of Knowledge, London: Tavistock, 197231. M. Foucault, Power / Knowledge: Selected Interview and Other Writings 1972-1977, edited by C. Gordon, Brighton Iarvester Press, 1980.32. M. Foucault, (ed.), I, Pierre Riviera … A Case of Paracide in the 19th Century London: Pengtin, 1978. 33. M. Foucault, Discipline and Punish, London: Penguin, 1977. 34. J. F. Lyotard, The Postmodern Condition: A Report on Knowledge, Manchester: Manchester University Press, 1984. 35. Jameson, ‘Postmodernism, or the Cultural Logic of Capital” New Left Review, 146, July / August 1984. 36. R. Rorty, Habermas and Lyotard on Post-modernity; Prais International, April 1984. ان کتابوں کے بین السطور میں مستور بے شمار فلسفیانہ مباحث میں حقوق انسانی کے عالمگیر اور آفاقی ہونے کا فلسفیانہ بنیادوں پر انکار کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر خالد جامعی