برنارڈ لیوس نے یہ سوال اٹھایا ہے :
Why did scientific break through occur in Europe and not as, one might reasonably have expected in the richer, more advanced and in most respects more enlightened realm of Islam?
ہمارے حلقے اس سوال پر شسدرہ ہو کر شرمندہ ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ دو سو سال میں اس سوال کے سات مختلف جوابات دیئے گئے ہیں <۱>undefined مغربی استعمار کا عالم اسلام پر تسلط، <۲>undefined قدامت پرستی جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، <۳>undefined اسلامی روایات و اقدار سے قطع تعلق، <۴>undefined ناخواندگی، <۵>undefined آبادی میں بے تحاشہ اضافہ <۶>undefinedعورتوں کی قومی زندگی میں عدم شمولیت <۷>undefined آمریت جو ایجادات کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔ یہ جوابات دینے والے بھول گئے کہ جب مسلمانوں نے روم اور ایران کی دو عظیم طاقتوں کو شکست دی تب مسلمانوں کے پاس نہ کتب خانے تھے نہ کارخانے نہ اسلحہ خانے، نہ خواندگی عام تھی نہ آبادی زیادہ تھی نہ سائنسی ترقی تھی نہ کالج یونیورسٹی قائم تھے نہ عورتیں مردوں کے ساتھ زندگی کی دوڑ میں شریک تھیں صرف ایک کتاب سارے عرب میں موجود تھی۔ لیکن مسلمانوں نے صرف کردار اور یقین کی دولت سے دوعظیم طاقتوں کو شکست دے دی۔
٭جدید سائنس اور قدیم سائنس میں فرق:
جدید سائنس کی ترقی پر رشک کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ جدید سائنسی ترقی اچانک آنا فاناً نہیں ہوئی اس کی طویل تاریخ ہے جس کا پس منظر جانے بغیر اس ترقی کو فطری ترقی تصور کرنا غیر علمی رویہ ہے، جدید سائنس کی اصل حقیقت سے آگہی کے لیے قدیم سائنس اور ازمنہ وسطیٰ کی سائنس سے جدید سائنس کے تقابلی مطالعات لازمی ہیں۔ جدید سائنس کا تعلق سرمایہ داری سے ہے اور سرمایہ داری کو جانے بغیر اس تعلق کی نوعیت کو سمجھنا محال ہے۔ سرمایہ دارانہ نظم معیشت اور سرمایہ دارانہ نظم سیاست کے بغیر جدید سائنسی ترقی ممکن ہی نہیں۔ سرمایہ داری اور جدید سائنس لازم و ملزوم ہیں۔ جدید سائنس کی مابعد الطبیعیات ارتکاز سرمایہ، لذت، سہولت، عیش و عشرت اور مادی فتوحات کے ذریعے زمین کو جنت ارضی بنانے کے سوا کچھ نہیں، اس کا خدا جبلت اور جمالیات ہے۔
جدید و قدیم سائنس کے تقابلی مطالعے سے معلوم ہوگا کہ دنیا کے قدیم اور وسطی معاشروں میں سائنس کا مقام کیا تھا اور اس کا کیا کردار تھا۔ سائنس ان ادوار میں معاشروں کے خادم کا کردار ادا کرتی تھی یا اسے معاشروں پر حاکمانہ تسلط حاصل تھا سائنس اس عہد کی علمیات اور الٰہیات سے برآمد ہوئی تھی یا اس عہد کی علمیات اور الٰہیات سائنس کے غلام تھے۔ ان مباحث سے صرف نظر کر کے جدید سائنس کو فطری، حقیقی سمجھنا محض مفروضات پر یقین رکھنا اور سائنس کے ارتقاء کی تاریخ سے کامل عدم آگہی کا شاخسانہ ہے۔ یہ موقف رکھنے والے جدید سائنس کے فلسفہ مابعدالطبیعیات، اس کے تصور کائنات و تصور انسان اس کے مقاصد اور اہداف سے کلی طور پر ناواقف ہیں۔ جدید سائنس جدید فلسفہ مغرب کے بطن سے برآمد ہوئی ہے اور فلسفہ مغرب کی بنیاد سرمایہ داری نو آبادیات، استعماریت، دہشت گردی اور عیسائیت کی شکست و ریخت تاریخ کے عمیق مطالعے کے بغیر تلاش کرنا محال ہے۔
انیسویں صدی کے آخر تک سائنس نیچرل فلاسفی کہلاتی تھی لیکن انیسویں صدی کے اختتام پر اسے فلسفہ سے الگ کر دیا گیا اور سائنس خود ایک ذریعہ علم بن گئی۔ سائنس اور فلسفے میں جب تک ہم آہنگی تھی چیزوں کی حقیقت اور قدر کا سوال برقرار رہتا تھا مثلا یہ سوال موجود رہتا تھا کہ میں پانی کیوں پیوں؟ لیکن سائنس جب فلسفے سے الگ ہوئی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ سوال بے کار تھا کہ پانی پیا جائے یا نہیں۔ اس سوال کی ضرورت ہی نہ رہی۔ اصل سوال یہ ہے کہ اچھے طریقے سے پانی کس طرح پیا جائے۔ دلیل
قدیم سائنس میں خدا کا تصور خدا کا کردار موجود تھا کیونکہ وہاں انسان مخلوق تھا، خالق نہ تھا، اپنے مخلوق ہونے کا احساس اسے خدا اور آخرت کے تصورات سے وابستہ رکھتا تھا، لیکن Newtonian تصور کائنات کے بعد کائنات ایک Subject ہے اور انسان محض Object۔ اس کے نتیجے میں مادی تصور کائنات وقوع پذیر ہوا جس نے خالق کائنات کی جگہ لے کر انسان کو خالق قرار دے دیا۔ نیوٹن کے افکار سے استفادہ کے لیے ہمیں بیکن، لاک، ڈیکارٹ اور گیلی لیو کے فلسفے و افکار کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ بیکن نے Induction کے طریقے کو متعارف کر کے جزو کی بنیاد پر کلیات قائم کرنے کا سائنسی طریقہ بتایا۔ جس نے بے شمار مسائل پیدا کیے۔ یہ طریقہ آخر کار خود ایک مسئلہ بن گیا اور اپنے دعوے کو ثابت نہ کرسکا تو مسئلے کے حل کے لیے پاپر کا شہرہ آفاق طریقہ Falsification ایجاد ہوا جس کے تحت سائنس کی ترقی اور ارتقاء صرف اس عمل سے مشروط ہے کہ اس کے کتنے اصول ٹوٹے، پامال ہوئے، غلط قرار دیئے گئے۔ جب تک پہلا نظریہ ثابت نہیں ہوجاتا وہی نظریہ درست قرار پائے گا اور جیسے ہی یہ نظریہ غلط قرار پائے گا۔ نیا نظریہ اس کی جگہ لے لے گا۔ اسی لیے بعض زعماء کی رائے ہے کہ سائنس علم نہیں ’’محض کام چلانے کا طریقہ ہے “زندگی کے کاررواں کو یہ چالو رکھنے کا کام کرتا ہے کب تک کچھ نہیں کہا جاسکتا، کام چل رہا ہے لہٰذا کام چلاتے رہو۔ ڈیکارٹ نے Dualism کا نظریہ دیا جس کے نتیجے میں ایک نیا انسان پیدا ہوا جس کے فکر و نظر کے پیمانے قدیم انسان سے قطعاً مختلف تھے۔ اسی لیے فوکو نے کہا تھا کہ انسان تو اٹھارہویں صدی میں پیدا ہوا ہے۔ یہ خلق جدید کائنات اور انسان کے بارے میں ایک عجیب نقطۂ نظر لے کر اٹھی جس نے آخر کار فلسفے، سائنس کائنات اور انسانوں کی زندگی سے خدا کو خارج کر دیا۔ ڈیکارٹ، بیکن اور لاک نے نیوٹن پر اثر ڈالا اور نیوٹن نے مغرب کے سب سے بڑے فلسفی کانٹ پر اثر ڈالا۔ کانٹ نے اپنے علم کی بنیاد پر یہ فیصلہ دے دیا کہ علم، عقل اور تجربے کے بغیر وجود نہیں رکھتا لہٰذا مابعد الطبیعیاتی سوالات پر غور و فکر ممکن ہی نہیں ہے لہٰذا انسان حقیقت، اصلیت نہیں جان سکتا ہر شخص قائم بالذات ہے خود مختار ہے، عقلیت کا حامل ہے خود قانون بنا سکتا ہے اور اگر وہ ان خصوصیات کا حامل نہیں تو وہ انسان ہی نہیں ہے۔ Cartaginian Newtonian world view نے سائنس کے سوچنے، سمجھنے اور برتنے کے تمام پیمانے بدل ڈالے اور کائنات پر غور و فکر کے تمام قدیم اسالیب تہس نہس کر دیئے لہٰذا اس پورے عمل کا مطالعہ کیے بغیر سائنس کی ہلاکت آفرینی سمجھی نہیں جاسکتی۔ اس بات پر بھی غور و فکر کی ضرورت ہے کہ کیا سائنس پہلے وجود میں آئی یا ٹیکنالوجی پہلے وجود میں آئی۔ انسان جب سے اس کائنات میں موجود ہے اپنی ضروریات کے مطابق آلات اوزار تیار کرتا رہا ہے لہٰذا ٹیکنالوجی تو قدیم زمانے سے موجود ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی علمی تفہیم کے لیے سائنس وجود میں آئی۔ مثلاً جرمنی میں کپڑا رنگنے کے بہت سے طریقے مستعمل تھے، اس تکنیک سے کیمیا کی سائنس وجود میں آئی۔ سترہویں صدی سے پہلے ٹیکنالوجی سائنس کی مددگار تھی لیکن سترہویں صدی کے بعد سائنس ٹیکنالوجی کی مددگار بن گئی ہے۔ بلکہ معاملات اب اس قدر آگے چلے گئے ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اصطلاحات مدغم ہو کر ایک نئی اصطلاح کے سانچے میں ڈھل گئے ہیں جسے ہم عہد جدید میں Techno-Science کہتے ہیں۔ اس اصطلاح کے مفاہیم کی ایک الگ دنیا ہے۔ اس وقت سائنس و ٹیکنالوجی کے بیشتر دھارے فزیکل، ٹیکنالوجی، میڈیکل ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی تک محدود ہوگئے ہیں۔
سترہویں صدی سے پہلے تمام مذہبی معاشروں میں سائنس و ٹیکنالوجی لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خادم کے طور پر کام کرتے تھے۔ بیسویں صدی میں ٹیکنو سائنس انسانوں کی ضروریات نہیں خواہشات پوری کرنے کا فریضہ انجام دے رہی ہے۔ یہ خواہشات بھی فطری خواہشات نہیں بلکہ غیر فطری خواہشات ہیں ان کی تخلیق مصنوعی طریقے سے کی گئی ہے۔ جنھیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے فطری خواہشات کا درجہ دے دیا گیا اور ہر انسان ان غیر فطری خواہشات کی تکمیل کے لیے بے خود ہوگیا ہے۔ ٹیکنو سائنس تکاثر کا دوسرا نام ہے۔ یہ شہوت و غضب کی عالمگیریت کا اعلامیہ ہے۔ یہ غیر فطری خواہشات کو تخلیق کر کے انھیں بھڑکا کر آگ لگا کر حلقہ خریداری مہیا کرتی ہے۔ ٹیکنو سائنس انسانیت کی نہیں حیوانیت، جاہلیت، شہوت غضب، نفس پرستی یا مختصر لفظوں میں سرمایہ داری کی حاشیہ بردار اور خادم ہے۔ یہ سرمایے سے نکلی اور سرمایے سے چلی ہے۔ اس کا وجود صرف اور صرف سرمایہ کا مرہون منت ہے۔ لہٰذا یہ سرمایہ پیدا کرتی ہے اور سرمایہ میں مسلسل اضافے کا نام ہے۔
ٹیکنو سائنس کے ذریعے غیر فطری خواہشات کی تکمیل کے نتیجے میں جو مسائل، بیماریاں، آلام، مصیبتیں، عوارض، نفسیاتی مسائل، ذہنی و قلبی جنسی و جسمانی امراض پیدا ہوتے ہیں ان کے علاج کے لیے ٹیکنو سائنس عظیم طبی ایجادات کرتی ہے یعنی پہلے مسائل پیدا کرتی ہے پھر مسئلے کو حل کرتی ہے اور اس غیر فطری عمل کو عظیم الشان سائنسی و طبی انقلاب کا نام دیتی ہے۔ ٹیکنو سائنس کا پہلا اور آخری وظیفہ سرمایہ کی بڑھوتری ہے اور سرمایہ کی بڑھوتری میں خدا کی رضا تلاش کرنا مغربی تہذیب سائنس اور مغربی ٹیکنالوجی یا مختصراً ٹیکنو سائنس میں ممکن ہی نہیں رہا۔ لہٰذا مغرب میں ہر چیز سرمایہ دارانہ معیشت، سرمایہ دارانہ معاشرت اور سرمایہ دارانہ تنظیم میں ڈھل گئی ہے۔ جدید سائنس یا ٹیکنو سائنس جو بھی اہداف متعین کرتی ہے ان کا حصول سرمایہ کے بغیر ممکن نہیں ہے لہٰذا دولت ہی اصل نیکی قرار پائی Wealth is Virtue کیونکہ دولت کے بغیر ایجاد ممکن نہیں ایجاد کے بغیر ترقی اور کمال ممکن نہیں اس کے بغیر لذت کا حصول ناممکن ہے۔ ترقی کمال لذت کے بغیر دنیا کا وجود اس کارخانہ ہست وبود کی ضرورت رائگاں ہے۔ زندگی کے تمام رنگ پھیکے ہیں یہ زندگی فی الحقیقت قفس، قید خانہ، محبس ہے لہٰذا ان آلام سے چھٹکارے کے لیے دولت کا حصول اصل مقصد زندگی ہے۔ لہٰذا کیسا خدا کیسا نبی ۔۔۔ پیسہ خدا پیسہ نبی
بل اور بینتھم کے نظریات نے لذت اور لطف اندوزی کی ایک خاص ذہنیت پیدا کی جو سترہویں صدی سے قبل دنیا کے تمام معاشروں میں مفقود تھی۔ زندگی کا مقصد افادیت و لذت پرستی سے جوڑ دیا گیا یہی حاصل زندگی بن گئی۔ اس ہدف کی تکمیل یعنی لذت تعیشات معیار زندگی میں اضافہ اور خواہشات کی سرعت سے تکمیل کے اہداف سائنس و ٹیکنالوجی نے برق رفتاری سے طے کیے۔ آج سائنس کی جس قدر بھی ترقیات ہیں وہ اسی نقطۂ نظر کی ترویج توسیع اشاعت تک محدود ہیں کیونکہ سرمایہ دارانہ حرص و حسد کے نتیجے میں انہی دائروں میں غیر معمولی ترقی ممکن ہے۔ مغرب کے بڑے بڑے فلسفی سائنس کو Value Natural نہیں مانتے وہ اسے Value Specific قرار دیتے ہیں۔ King of the Philosopher ہائیڈیگر کی کتاب Question Concerning Technology اس سلسلے میں بہت سے حقائق واضح کرتی ہے۔
مغرب کے فلسفیوں نے فلسفے سے خدا، مذہب، آخرت اور تمام مابعد الطبیعیاتی سوالات کو خارج کر دیا ،کسی بڑے جدید مغربی فلسفے کے نظام فکر میں موت کے سوال پر غور و فکر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہائیڈیگر جیسا عظیم فلسفی بھی یہ کہتا ہے کہ ہم کہاں سے آئے ہم کہاں جائیں گے۔ یہ لایعنی سوالات ہیں، اصل مسئلہ میرے وجود کا ہے۔ اصل مسئلہ ذات کے اظہار کا اور روزانہ کی زندگی Everyday life کا ہے۔ فلسفہ نے جب خدا سے اور حقیقت مطلق سے دامن چھڑا لیا تو سائنس دانوں نے بھی سائنس سے خدا کو خارج کر دیا لیکن ہمارے مسلم جدیدیت پسندوں کا مسئلہ یہ ہے کہ کسی طرح سے سرمایہ داری، سرمایہ دارانہ نظام، سائنس، ٹیکنو سائنس میں خدا کو داخل کر دیا جائے تاکہ اس کافرانہ نظام کی اسلام کاری ہوسکے۔ وہ جدید سائنس کے فلسفیانہ مباحث سے ناواقف ہیں انھیں معلوم ہی نہیں کہ جدید سائنس میں روایت، مذہب، روحانی تجربات اور مابعد الطبعییاتی سوالات کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ یہ اس کا موضوع دائرہ کار نہیں ہے ننانوے فی صد جدیدیت پسند اور راسخ العقیدہ مسلم مفکرین سائنسی طریقہ کار سے قطعاً ناواقف ہیں لہٰذا وہ سائنس سے اسلام کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔۔
یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ قدیم سائنس کا وجود حقیقت کے تصور سے نکلتا تھا وہ جو حقیقت ازلی اور حقیقت مطلق ہے جسے ذات باری تعالیٰ کہتے ہیں، اس کے برعکس جدید سائنس کا تصور حقیقت مطلقہ خدا سے انکار پر مبنی ہے اگر جدید سائنس کی مابعد الطبیعیات نکال کر اس میں اسلام کی مابعد الطبیعیات شامل کر دی جائے تو کیا جدید سائنس کو مشرف بہ اسلام کیا جاسکتا ہے، ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ وہ سائنس جو اسلامی تاریخ تہذیب الہیات اور مابعد الطبیعیات سے نکلے گی وہی معتبر بہتر اور موثر ہوگی۔ یہ عجیب بات ہے کہ قرآن مادی ترقی، تمام سائنسی علوم، تسخیر کائنات کے نظریات لے کر آیا تھا لیکن اس پر عمل کی سعادت کفار کو حاصل ہوئی, جدیدیت پسندوں کا یہ نظریہ مغرب اور انبیاء کی تاریخ سے ناواقفیت پر مبنی ہے۔
نیوٹن نے حقیقت مطلقہ کو جاننے کی کوشش کی تھی لیکن آئن اسٹائن کے بعد مغرب میں کوئی ایسا سائنس داں پیدا نہیں ہوا جو سائنس کو حقیقت مطلقہ کے سمجھنے کا ذریعہ سمجھتا ہو۔ کوانٹم مکینکس کی ترقی نے حقیقت مطلق کے سوال کو بے معنی کر دیا ہے۔ مغرب میں اب صرف سائنس داں پیدا ہو رہے ہیں پہلے یہ فلسفی بھی ہوتے تھے۔ انھیں چیزوں کی حقیقت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے صرف اس کے فائدے سے دلچسپی ہے اور یہ کہ اس ایجاد سے سرمایہ میں کتنا اضافہ ہوگا لہٰذا اقدار اور حقیقت کے سوال لایعنی ہوگئے۔ جب مابعد الطبیعیات ختم ہوگئی تو اخلاقیات کے اصول کہاں سے اخذ کیے جاتے لہٰذا مغرب سے اخلاقیات کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ مصنوعی اخلاقیات کے اصول بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں ان کی بنیاد بھی فائدے اور لذت پر ہے۔
جدید سائنس مادیت کو اصل مقصود قرار دے کر اپنے سفر کا آغاز کرتی ہے۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ مابعد الطبیعیاتی سوالات کا جواب دریافت کر لے گی اور آثار کائنات کے مشاہدات کے ذریعے خالق کائنات کو جان لے گی لیکن جوں جوں اس کا سفر آگے بڑھتا گیا اس نے اپنی تہی دامنی کا اعتراف کرلیا کہ مابعد الطبیعیاتی سوالات کا جواب اس کے دائرے سے باہر ہے اس عجز کے باوجود اس نے خدا اور آخرت کا انکار کر دیا۔ نیوٹن نے جس مادیت کی بنیاد پر جدید سائنس کو فروغ دیا تھا اس کا منطقی اور فطری نتیجہ یہی تھا۔ مغربی فلسفے نے جدید سائنس کو مادیت کے فروغ کے لیے آلہ کار بنایا لہٰذا اس نے پوری دنیا کو مادیت کا غلام بنا دیا۔ چنانچہ مغرب کی تین سو سالہ تاریخ میں کوئی ایک سائنس دان نہیں پیدا ہواجو ولی اللہ بن گیا ہو جب کہ اللہ سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو علم والے ہوں.یہ کیسا علم ہے جو معرفت رب عطا نہیں کرتا۔ آثار کائنات کے عمیق مشاہدے کے باوجود اللہ کی قربت سے فیض یاب نہیں ہونے دیتا ۔وجہ یہ ہے کہ سائنس دان مادیت کی تلاش میں محو سفر ہوتا ہے وہ خود کو خالق سمجھتا ہے لہٰذا تخلیق کے اس نام نہاد عمل میں اس کی اصل منزل اوجھل ہوجاتی ہے اور وہ آثار کائنات سے خدا کی قربت حاصل کرنے کے بجائے خدا کے انکار کی جرات حاصل کرتا ہے۔
جدید سائنس: عیسائیت سے مادہ پرستی تک
جدید سائنس کی اصل حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہمیں مادیت پرستی کی تاریخ کا مطالعہ کرنا ہوگا، عیسائیت سے مادیت تک کا یہ سفر کیسے طے ہوا کون اس کا ذمہ دار تھا؟ یورپ میں نصف سے زیادہ زمینوں کی ملکیت کا کلیسا کے پاس ہونا، کلیسا کا دولت پرستی میں مبتلا ہونا، قوت کے زعم میں مظالم کا ارتکاب، یونانی سائنسی نظریات کو عیسائی الٰہیات و اعتقادات کا حصہ بنانے کے بعد اس کے سائنسی ابطال کو تسلیم کرنے سے انکار اور ان مذہبی سائنسی نظریات کے ابطال کرنے والوں پر بہیمانہ تشدد، Inquisition کی تاریخ جب کلیسا نے ہزاروں عیسائیوں اور عورتوں پر مظالم کیے، قتل کیا ، عورتوں کو زندہ جلایا۔ کلیسا کے اخلاقی انحطاط کے نتیجے میں کلیسا کی شکست، کلیسا کی دنیا پرستی تشدد اور بربریت کے ردعمل میں پروٹسٹنٹ ازم کا فروغ، تحریک تنویر، تحریک رومانویت، قومی ریاستوں کا قیام، سرمایہ داری کا وجود، جدید فلسفہ اور جدید سائنس کا فروغ، نو آبادیات کا قیام، نو آبادیات کے قیام کے نتیجے میں دولت کی لوٹ مار اور اس کا دور دراز سے سمٹ کر یورپ میں جمع ہونا، سرمایہ دارانہ فکر کا ارتقاء، سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ، امریکی ریاست کا قیام، بنیادی حقوق کے منشور کی تاریخ وغیرہ وغیرہ۔ ان مباحث پر گہری نظر کے بغیر جدید سائنس کے حیرت انگیز ارتقاء کی کہانی سمجھ میں نہیں آسکتی۔
اٹھارہویں صدی کے وسط تک انگلستان زرعی ملک تھا لیکن پلاسی کی جنگ کے بعد ہندوستان کی دولت سمندری طوفان کی طرح انگلستان میں آنے لگی۔ یہی دولت ایجادات کا باعث بنی۔ برطانیہ کی صنعتی تاریخ کے ماہر ڈاکٹر کنگھم نے لکھا ہے کہ ’’ایجادیں اتنے بڑے پیمانے پر صرف اس لیے نہیں ہوئیں کہ جیسے لوگوں کی ذہانت آناً فاناً پھوٹ پڑی ہو، اصل وجہ یہ تھی کہ ملک میں سرمایہ اتنا اکٹھا ہوگیا تھا کہ ان ایجادات کا مصرف نکلنے کا امکان پیدا ہوگیا تھا۔‘‘ اس موضوع پر Leo Huberman کی کتاب Man’s Worldly Goods بہت سے حقائق آشکار کرتی ہے۔ جس کے اقتباسات ہم شروع میں پیش کرچکے ہیں۔ نوآبادیات میں لوٹ مار کی کہانی مائیکل مین کی کتاب Darkside of Democracy اور رومیل کی کتاب Death by Government میں پڑھی جاسکتی ہے۔ مائیکل مین کہتا ہے کہ نسلی قتل عام مغربی تہذیب کی خصوصیت ہے جس کی بنیاد قوم پرستی پر رکھی گئی جو مغربی تہذیب کی بہیمیت کا فطری جواز مہیا کرتی ہے اس کے الفاظ ملاحظہ کیجیے:
Thus unfortunately for us murderous ethnic cleansing is not primitive or alien. It belongs to our own civilization and to us, most say this is due to the rise of nationalism in the world and this is true.
پچاس کروڑ لوگوں کی لاشوں اور کھربوں روپے کی لوٹ مار پر جدید سائنس کی عمارت کھڑی کی گئی ہے۔ لوٹ مار کی یہی دولت اس حیرت انگیز سائنسی ترقی کی بنیاد بنی جو آج ہر شخص کو فطری حقیقی ضروری اور عین اسلامی معلوم دیتی ہے۔ کیا مذہبی ریاستیں جبر و استبداد اور لوٹ مار کا مذہبی جواز فراہم کرسکتی تھیں۔ مذہبی معاشروں میں اس بہیمیت کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ عیسائیت کی خامیوں، کوتاہیوں اور مذہبی استبداد کے باوجود اس کا موزانہ اگر مہذب متمدن جدید سائنسی یورپی انسانوں کی لوٹ مار دہشت گردی سے کیا جائے تو ہمیں مذہبی دور جو مغرب کی اصطلاح میں Dark Age <تاریک دور>undefined جدید دور Engligthened <روشن خیال>undefined کے مقابلے میں زیادہ شریفانہ، محبت والا اور قابل رشک نظر آئے گا۔ اس کے ظلم و جبر بھی لامحدود نہیں تھے۔ محدود ہی تھے۔ کیونکہ عسکری آلات بھی اسی علمیات کے نتیجے میں تیار ہوئے تھے، جس کے مطابق تمام مخلوق اللہ کا کنبہ سمجھی جاتی تھی اور اس کنبے کی ہولناک تباہی کا تصور الہامی مذاہب میں نہیں پایا جاتا تھا۔ مذہبی تہذیبوں کی سائنس ایٹم بم بنانے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔
مغربی فکر و فلسفے سے نکلے والی خلق جدید کی بہیمیت کی اس تاریخ کو اور سرمایہ داری کی ابتدائی تاریخ کو پڑھے بغیر سائنسی ایجادات و ترقی کا سبب سمجھ میں نہیں آسکتا اس سلسلے میں جو مظالم ہوئے ہیں اور براعظموں کو جس طرح لوٹا گیا ہے خصوصاً امریکہ، آسٹریلیا، افریقہ، ایشیا اور وہاں کے لوگوں کو جس طرح تہس نہس کر کے مال لوٹا گیا اس کے نتیجے میں صنعتی ترقی اور سائنس کا پہیہ چلا ہے۔ صنعتی ترقی کے لیے کروڑوں افریقی غلام استعمال ہوئے اور ہلاک کیے گئے۔ غلاموں کا اس طرح استعمال کسی مذہبی معاشرے میں نہیں ہوا۔ ۱۷۰۰ ویں صدی سے پہلے ہونے والے عیسائیوں کے مظالم Inquisition وغیرہ بھی اس کے سامنے ہیچ ہیں، پھر سرمایہ داری نے مزدور کا جو حشر کیا وہ عبرتناک ہے۔ جاگیرداری کے زمانے میں ظلم تھا لیکن محدود اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ سائنسی ترقی میں کھربوں روپے کی سرمایہ کاری اسی لوٹ کے مال سے کی گئی۔ ہم لوگ سرمایہ داری کے آغاز ارتقاء کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں لہٰذا سائنسی ایجادات سے متاثر ہوجاتے ہیں اس وقت بھی جتنی سائنسی تحقیقات ہو رہی ہیں اس کے پیچھے سرمایہ کس کا ہے؟ سائنسی تحقیقات کا مقصد کیا ہے؟ انسانیت کی خدمت؟ دولت کمانا؟ دولت کمانا ہی اصل مقصد ہے لہٰذا یہ محرک تیزی سے ایجادات کا سبب بن رہا ہے لہٰذا سائنس یا اس کی ترقی کو مغرب کے فلسفے تاریخ، مابعد الطبیعیات، نو آبادیات میں لوٹ مار، تصور انسان تصور نفس اور تصور کائنات تصور آخرت کو سمجھے بغیر مجرد دیکھنا اور سمجھنا مناسب نہیں ہے کوئی مذہبی ریاست دوسروں کو لوٹ کر ترقی کا پہیہ نہیں چلا سکتی۔ ایسی ظالم ترقی پر غیر ترقی یافتہ معاشرے کو ترجیح دینا دین کا تقاضہ بن جاتا ہے ۔
سائنس اب ٹیکنالوجی کی محتاج ہوچکی ہے اور ٹیکنالوجی سرمایہ کی محتاج ہے اور سرمایہ صرف سرمایہ کے ذریعے ہی اپنی مقدار میں اضافہ کرسکتا ہے لہٰذا سائنس، ٹیکنالوجی اور سرمایہ داری کے مثلت کے بغیر سائنسی ترقی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ چونکہ ٹیکنالوجی پر بھاری سرمایہ کاری کرنا پڑتی ہے لہٰذا سرمایہ کار صرف ان شعبوں میں ٹیکنالوجی پر سرمایہ کاری کرتا ہے جہاں سے وہ بھاری منافع حاصل کرسکے۔ اس کے نتیجے میں سائنس کے افق بڑھنے کے بجائے سکڑ رہے ہیں اور سائنس و ٹیکنالوجی صرف سرمایہ داری کے بہترین خدمت گزار بن گئے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری طب، آلات حرب و ضرب، تفریحات اور تعیشات فسق و فجور کی صنعتوں میں ہو رہی ہے۔ جس کا علمی نام میڈیکل ٹیکنالوجی انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے۔ جدید سائنس و ٹیکنالوجی کو اس حال تک مادیت پرستی کے مغربی فلسفے نے پہنچایا تھا۔ پہلے پہل سائنس مغربی فکر و فلسفے کے آلہ کار کے طور پر کام کر کے اس کے آدرشوں کی تکمیل کر رہی تھی لیکن انیسویں صدی کے بعد سائنس فلسفے سے الگ ہوگئی اور اب وہ خود ایک علم بن چکی ہے حالانکہ دنیا کی تاریخ میں سائنس اور فلسفہ میں چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ دنیا کا پہلا فلسفی تھیلس سائنس دان بھی تھا۔ تھیلس کے فلسفے اور سائنس کا مقصد حقیقت مطلق تک رسائی تھا وہ نہیں جو آج کی سائنس اور فلسفے کا محور و مرکز ہے کہ دنیا کی زندگی کو کس طرح خوبصورتی سے بسر کیا جائے اور زمین کو جنت بنا دیا جائے۔ تمام بڑے بڑے سائنس داں فلسفی تھے۔ لیکن بیسویں صدی میں صرف سائنس داں پیدا ہو رہے ہیں یہ سائنس دان فلسفی نہیں ہیں لہٰذا سائنس کی سمت، اہداف مقرر کرنے والا کوئی عامل باقی نہیں رہا، اس پر نقد کرنے والا کوئی ادارہ اس سے وابستہ نہیں رہا۔ لہٰذا جدید سائنس جو اول دن سے آزادی کی قدر پر اپنے وجود کا اظہار کر رہی تھی اب بے مہار ہوگئی ہے اور اس کے پیدا کردہ خطرات کا ازالہ مشکل ہوگیا ہے(ماحولیاتی آلودگی اسکی ایک مثال ہے)۔
اس جدید سائنس کی اسلامی صورت گری ممکن ہی نہیں البتہ عارضی طور پر دفاعی ضرورت کے پیش نظر اس سے حدود کے اندر استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ جدیدیت پسندوں کے نقطۂ نظر سے عروج تو صرف اور صرف سائنس سے ہوگا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پہلے ان گنت دولت جمع کرلیں۔ اس دولت کو جمع کرنے کا موقع اب مغرب تو آپ کو نہیں دے گا۔ پھر مغرب کامقابلہ کیسے ہوگا؟ مطلب مسلمانوں کے پاس زوال سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ زوال ہی ان کا مقدر ہے کیوں کہ تاریخ کا سفر ختم ہوگیا ہے اب مغرب کا فکر و فلسفہ اور اس کا طرز زندگی ہی آخری سچ ہے۔ لہٰذا اسلام سے دست بردار ہو کر مغرب کو اختیار کرلیا جائے۔ ہمارے مذہبی جدیدیت پسند مفکرین اصلاً یہی بات کر رہے ہیں لیکن استدلال یہ ہے کہ مغرب اور اسلام میں صرف کلمے کا فرق ہے۔
مسلمانوں کے طرز زندگی میں آخرت کو مرکزی مقام حاصل ہے جب یہ مقام پس پشت ہوا اور فتوحات، قصرۃ الزہرہ، باغات، محلات، مقبرے زندگی کا مقصد بن گئے تو مسلمان قبرستان کی اذان ہوگئے، آج بھی ہم مادیت پرستی کے طریقوں میں مبتلا ہیں۔ مغرب کی نقل کر کے اسے شکست دینا چاہتے ہیں۔ انبیاء کا طریقہ کیا ہے؟ دین انبیاء کے طریقے سے غالب ہوگا خواہ یہ طریقہ ہمیں پسند ہو یا نہ ہو۔ حضرات انبیاء کرام موسیٰؑ ، نوحؑ ، محمدؐ، شعیبؑ ، لوطؑ ، کے اپنی قوم سے مکالمے پڑھ لیجیے ایک ہی پیغام ہے جو تمام چیزوں کا احاطہ کرتا ہے، دعوت دین اور غلبہ دین محض اسی طریقے سے ہوگا۔ انبیاء بھی اسی طریقے کے مطابق دعوت کا کام کرنے کے پابند تھے۔ کیا انبیاء نے سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعے انقلاب برپا کیا؟ کیا دنیا میں انبیاء کا انقلاب مادی ذرائع پر منحصر ہے؟
ضروریات کے تحت مجبوریوں کے تحت بہت سی چیزیں اختیار کی جاتی ہیں کی جاسکتی ہیں ہمیشہ کی جاتی رہی ہیں لیکن وہ مقصد نہیں ہوتا۔ وہ ایک عارضی وقتی مرحلہ ہوتا ہے جو وقت کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے۔ مثلاً جوہری طاقت حاصل کرنا اب مجبوری ہے کیوں کہ دشمن اسے ایجاد کرچکا ہے۔ مجبوری میں اسے اختیار کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کوشش اسی بات کی ہوگی کہ مہلک جوہری ہتھیاروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے خواہ محبت سے خواہ طاقت سے۔ اس کے بنانے والوں کو فساد فی الارض کے جرم میں عبرت ناک سزا دی جائے اور انھیں نمونہ عبرت بنا دیا جائے لیکن اس کے لیے نعرے بازی اور ہنگامہ آرائی کی اجازت نہیں اس کا طریقہ وہی ہے جو قرآن کریم نے قصص انبیاء کے ذریعے امت پر قیامت تک کے لیے واضح کر دیا ہے۔
ہر وہ تحریک اور فرد جو علم، عمل، کردار اور یقین کی دولت اور جاہلیت کی حقیقت سے واقفیت کے بغیر مغرب کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرے گا اسے عبرت ناک شکست ہوگی۔ حضورؐ نے فرمایا ‘وعلیٰ العاقل ان یکون بصیراً بزمانہ ‘دانا شخص پر لازم ہے کہ وہ اپنے زمانے کو جاننے والا ہو۔ حضرت عمرؓ کا قول آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ ’’مجھے خطرہ ہے کہ وہ شخص اسلام کی کڑیاں بکھیر دے گا کہ جس نے اسلام میں نشوونما پائی اور جاہلیت کی حقیقت سے واقف نہ ہو‘‘ جدیدیت پسند مفکرین کا المیہ یہی ہے کہ انھوں نے مغرب جیسی جاہلیت خالصہ کا علم حاصل کیے بغیر اس کی تائید و توثیق کر کے اسلام کی کڑیاں بکھیر دیں۔ امت کے علماء و صلحاء نے اس عمل کو اپنی محنتوں سے روک دیا ہے لیکن اب بعض علماء بھی اس عمل میں شریک ہو رہے ہیں۔ یہ علماء انگریزی بہت اچھی جانتے ہیں لیکن مغرب کے علوم فلسفے وغیرہ سے قطعاً ناواقف ہیں یہ خطرناک معاملہ ہے دین کے اصل محافظ علماء ہی ہیں وہی اس کا تحفظ کرسکتے ہیں۔ مغرب کو جانے بغیر اور سائنس و سوشل سائنسز کی تاریخ سے واقفیت کے بغیر مغرب کی غیر علمی تائید خطرناک عمل ہے۔
جدید سائنس بندگی کے تصور کو ختم کر کے خدائی کا دعویٰ کرتی ہے۔ فوکو نے کہا تھا انسان تو اٹھارہویں صدی میں پیدا ہوا ہے۔ نطشے نے اعلان کیا تھا خدا مر گیا ہے۔ فوکالٹ نے اس پر اضافہ کیا کہ انسان بھی مر گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب دل مر جائے تو زندگی کی رونقیں اور انفس و آفاق کی حقیقتیں بھی مر جاتی ہیں اور انسان فی الحقیقت مر جاتا ہے۔ عقل کا مقام دل ہے۔ یہ دل زندہ ہو تو مابعد الطبیعیاتی حقائق بھی سمجھ میں آتے ہیں۔ مغربی تہذیب اور جدید سائنس نے انسان سے اس کا قلب چھین لیا ہے مادی ترقی کرنے والی ہر قوم تمام گناہوں میں مبتلا ہے کیوں کہ زندگی کا مقصد صرف لہو و لعب ہے اور اس کے لیے ایجادات کا سیل رواں چلا آرہا ہے۔ مغلوں کے زمانے میں تمام توجہ فرج اور شکم پر تھی، لہٰذا دنیا میں سب سے عمدہ کھانے اور حکیموں کے کشتے ہندوستان سے مخصوص ہیں۔ یونانیوں کے یہاں حسن اور فکر و فلسفے کو مرکزی مقام حاصل تھا لہٰذا ان کی تہذیب، علوم، فلسفے اور جمالیات میں اس کا کمال ملتا ہے۔ ایام جاہلیت میں عربوں کا مرکز توجہ خطابت شاعری اور حرب و ضرب کے مضامین تھے لہٰذا اس معاملے میں کوئی ان کا مدمقابل نہیں ہے۔ مغرب نے دنیا کو مقصد بنا لیا ہے۔ تاریخ انسانی میں دنیا میں کسی قوم تہذیب تمدن امت نے اتنی ترقی نہیں کی جیسی ترقی مغرب کو نصیب ہوئی ہے لیکن یہ ترقی روحانیت کا زوال ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کسی تہذیب و تمدن نے دولت اور ارتکاز سرمایہ حرص و حسد کی عالمگیریت لذت دنیا، ارتکاز مال، خواہش نفس کو زندگی کا مقصد، مقصد بندگی اور عبادت کا مقام نہیں دیا۔ اس لیے دنیا کی کسی تہذیب نے ایسی ترقی نہیں کی جو مغرب کے حصے میں آئی ہے کیونکہ مغرب کی الہیات مابعد الطبیعیات علمیات تقسیم علوم سب کچھ الگ ہے۔