فرائیڈ کے نظریات پر اقبال کی تنقید

معروف ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ (1939ئ۔ 1856 ء Sigmund Freud, ) چیکو سلواکیہ کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوا تا ہم اس کی زندگی کا زیادہ تر حصہ آسڑیا کے دارالخلافے ویانا میں بسر ہوا۔ اُنیسویں اور بیسویں صدی کا یورپ کوپرنیکس،کیپلر،گلیلیو، دیکارت اور سَرآئزک نیوٹن کے زیر اثر تھا۔ اس دور میں فلسفہ اور سائنس کے میدان میں بعض ایسے افراد پیدا ہوئے جنھوں نے کلیسائے روم کے متکلمانہ افکار و نظریات کا طلسم توڑ ڈالا اور انسان کی توجہ عقائد پر مبنی صداقت اور حقیقت کے تخیّلی تصور سے ہٹاکر حقائق کی مادی دُنیا کی طرف پلٹ دی۔ گو سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی سے معاشرے کو بے پناہ سہولتیں اور آسائشیں حاصل ہوئیں تاہم محض مادیت پر حد سے زیادہ اعتماد اور انحصار کرنے کے باعث انسان کا روحانی اور مذہبی اقدار سے ربط و تعلق ختم ہو گیا اور صرف عقلی و مادی توجیہات ہی افکارو نظریات کی واحد اساس بن کر رہ گئیں۔

اِس فکری فضا کا سگمنڈ فرائیڈ کے نظریات پر گہرا اثر ہُوا۔ فرائیڈ نے ذہنِ انسانی کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور اس کی تین مختلف جہات شعور، تحت الشعوراور لاشعورکا تعین کیا۔ اُس کا یہ خیال ہے کہ ذہن انسانی کی انہی تین جہات کی کارکردگی کی روشنی میں انسانی فکرونظر، کردار اور رویے کے ہر پہلو کے محرکات کی تلاش کی جا سکتی ہے۔ یہاں تک کہ فرائیڈ کے نزدیک مذہب کی بھی انسانی ذہن سے ماورا کوئی حیثیت نہیں۔

فرائیڈ کے نظریات سے یہ بات عیاں ہے کہ انسانی شخصیت کا مبدا صرف انسان ہے۔ ورائے انسان کوئی حقیقی روحانی یا مذہبی آ درش انسانی اعمال وافعال کا محرک نہیں۔ فرائیڈ کے بر عکس اقبال انسان کو اپنی جبلی خواہشات کا غلام قرار نہیں دیتا۔ اقبال کے نزدیک انسانی اعمال و افعال کے اصل محرکات روحانی ومذہبی اور اخلاقی عوامل ہیں۔ یہی وہ عوامل ہیں جو جبلی خواہشات کی تہذیب اور تطہیر کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ اقبال انسانی سرشت کی پاکی و طہارت اور نفسی پاکیزگی پر یقین رکھتا ہے۔ اُس کے نزدیک اِس خیال کی کوئی گنجائش نہیں کہ انسانی ذہن کا ایک حصہ ہمہ وقت آلودہ اور پراگندہ خواہشات، جنسی میلانات، تمنائوں اور ایسی آرزوئوں سے بھرا رہتا ہے جو ہر لحظہ اِس تاک میں رہتی ہیں کہ جب موقع ہاتھ آئے شعور پر حملہ آور ہو کر اپنا اظہار کریں اور یوں انسانی فکر و عمل کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیں۔ اقبال کے نزدیک انسان مادہ اور اُس کے میکانکی عمل کا غلام نہیں۔ انسانی طرزِ عمل کا اصل محرک ر وحانی نصب العین ہے۔ پروفیسر نعیم احمد اپنے مضمون ’’ انسانی شخصیت، فرائیڈ اور اقبال کی نظر میں ‘‘ میں رقم طراز ہیں:

فرائیڈ کا انسان موروثی رجحانات اور لاشعوری اُلجھنوں کے بوجھ تلے دبا کراہتا ہوا انسان ہے جسے اُس کے اعمال وافعال کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اقبال کا انسان آزاد اور خودمختار انسان ہے جو ہر دم نت نئے مقاصد اور آدرش وضع کرتا ہے اور وفورِ تخلیق میں توارث اور ماحول کے بندھنوں کو بھی توڑ دیتا ہے۔ فرائیڈ کے نزدیک اِڈ(Id) ایک ایسا نہاں خانہ ہے جہاں حیوانی توانائی ذہنی شکل اختیارکر کے تمام عرصہ غیر مبدل انداز میں موجود رہتی ہے اور عمل کی تمام تر تحریکات یہیں سے ابھرتی ہیں۔ اس کے برعکس علامہ اقبال کا نفس بصیر حقیقت ِ مطلقہ کے سیلِ رواں کے اندر زندگی بسر کرتا ہے اور یہیں سے توانائی، ہدایت اور تحریک عمل حاصل کرتا ہے۔ ۱؎

اقبال کے نزدیک انسانی فکروعمل کا اصل محرک مابعدالطبیعیاتی ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ اگر ہماری منتشراور پراگندہ داعیے (Vagrant Impulses) خواب و رویا کی صورت میں یا پھربے خودی کے کسی ایسے کمزور لمحے میں کہ جب ہم مکمل طور پر اپنے حواس میں نہیں ہوتے، اپنا اظہار کرتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ خواہشوں اور آرزوئوں کی صورت میں یہ اُکساہٹیں ہمہ وقت ہماری عمومی ذات (Normal Self) کے پچھواڑے کسی کباڑخانے (Lumber Room) میں موجود رہتی ہیں۔ اقبال رقم طراز ہیں:

If our vagrant impulses assert themselves in our dreams or at other times we are not strictly ourselves, it does not follow that they remain imprisoned in a kind of lumber room behind the normal self.2

اقبال کے اِن الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال ذہن میں کسی ایسی کالی کباڑ کوٹھڑی پر یقین نہیں رکھتا جس میں ہر لحظہ نجس خواہشات اپنے اظہار کے لیے بے چین ہوں۔ اقبال اس بات کا قائل ہے کہ ہر قسم کے مہیجات کے مقابل ایک خاص نوع کاردِ عمل راسخ ہو جاتا ہے اور اُس کا ہماری ذات کے ساتھ ایسا تلازم بن جاتا ہے کہ اُسی سے ہماری ذات کی پہچان ہوتی ہے۔ اس ردِعمل کو کسی ذات کا معمول کا ردِعمل (Habitual Response) کہا جا سکتا ہے۔ بہت سے ایسے مواقع آتے ہیں کہ جب ہماری ذات کے معمول کے ردِعمل کو ایسے محرکات اور داعیات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جو ہماری ذات کے معمول کے ردِعمل کے حصار کو توڑ کر ذات کو ایک نئے رنگ میں پیش کرنا چاہتی ہیں۔ اس صورِت حال کا مقابلہ کرتے ہوئے ذات میں راسخ معمول کا ردِعمل ایسی شرانگیز انگیزشوں کو دبا کر اُنھیں ذہن و قلب سے خارج کر دیتا ہے۔ بایں ہمہ بعض اوقات دبی ہوئی انگیزشیں ہماری ذات پر حاوی ہو جاتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری ذات کے معمول کے ردِعمل میں گڑ بڑ پیدا ہوتی ہے اور وہ وقتی طور پر معطل ہو جاتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری ذات کے معمول کے ردِعمل سے مطابقت نہ رکھنے والی انگیزشیں اس لیے ہماری ذات پر حملہ آور نہیں ہوتیں کہ وہ ہمہ وقت ہمارے ذہن کے کسی تاریک گوشے میں گھات لگائے بیٹھی ہوتی ہیں بلکہ ہماری ذات کے معمول کے ردِعمل میں اختلال اور اُس کا وقتی تعطل ان دبی ہوئی انگیزشوں کے عمومی ذات (Normal Self) پر حاوی ہونے کا باعث بنتاہے۔ اقبال رقم طراز ہیں:

The occasional invasion of these suppressed impulses on the region of our normal self tends more to show the temporary disruption of our habitual system of response rather than their perpetual presence in some dark corner of the mind.3

دراصل اقبال اور فرائیڈ کا بنیادی فرق یہ ہے کہ فرائیڈ کی نظر صرف مادیت اور ظاہر ی میکانکیت تک محدود ہے جبکہ اقبال مادی ظواہر سے ماورا حقائق پر بھی یقین رکھتا ہے۔ اقبال کے نزدیک مابعدالطبیعیاتی حقائق کی زندگی میں حیثیت اور حیات کے حرکی پہلو میں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا جبکہ فرائیڈ انسانی فکروعمل کی ہر جہت کو لاشعورکی کاروائی قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک لاشعور ہی ہمارے تمام اعمال وافعال پر حاوی ہے۔ چونکہ لاشعور کا تعلق دماغ سے ہے اس لیے انسانی فکروعمل کی ہر صورت کا مبداوسرچشمہ خود انسان ہے اور انسان سے ماورا کوئی ایسی حقیقت نہیں جو فکروعمل کے لیے تازیانہ کا باعث ہو۔ فرائیڈ کے یہی نظریات ہیں کہ جن کی بنا پر وہ مذہب کو محض وہم و خیال اور من گھڑت قرار دیتا ہے۔

اقبال مذہب کے بارے فرائیڈ کے تصورو خیال کو ان الفاظ میں رقم کرتے ہیں:

Religion, it is said, is a pure fiction, created by these repudiated impulses of mankind with a view to find a kind of fairyland for free unobstructed movement. Religious beliefs and dogmas, according to the theory, are no more than merely primitive theories of Nature, whereby mankind have tried to redeem Reality from its elemental ugliness and to show it off as something nearer to the heart’s desire than the facts of life would warrant.4

مذہب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مذہب ایک خالص جھوٹ (Pure Fiction) ہے۔ اس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں۔ دراصل جب انسانیت کی دبی ہوئی یا متروک خواہشات (Repudiated Impulses) بوجوہ اپنا اظہار نہ کر پائیں تو ان خواہشات نے اپنی صورت بدل کر مذہب کی شکل اختیار کر لی۔ مقصد یہ تھا کہ ان متروک خواہشات کو اپنے آزادانہ اظہار کے لیے مذہب کی شکل میں ایک ایسی دوسری صورت یا خیالی پرستان (Fairy land) میسر آ جائے جس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو چنانچہ اِس نقطہ نظر کے مطابق مذہبی اعتقادات اور عقائد کی حیثیت فطرت سے متعلق انسان کے ایسے قدیم نظریات کی ہے جن کے پردے میں انسان ایک اصلاً بد نما حقیقت کو اُس کی بد نمائی سے نجات دلانے کی کوشش کرتا ہے اور اسے مذہب کے رنگ میں اپنی دلی امنگ اور آرزو کی صورت پیش کرتا ہے۔ تا ہم زندگی کے حقائق اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذہب کی زندگی کے حقائق سے مطابقت نہیں۔ دراصل مذہب کی نہاد ہی ایسے اوہام پر قائم ہے جو محض خیالی اور تصوراتی ہیں۔ یوں فرائیڈ کے خیال میں مذہب کی پاسداری زندگی کے حقائق سے فرار کا باعث بنتی ہے۔ اقبال فرائیڈ کے ان مذہبی تصورات کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

That there are religions and forms of art, which provide a kind of cowardly escape from the facts of life, I do not deny. All that I contend is that this is not true of all religions.5

اقبال کہتے ہیں کہ اگر فرائیڈ کا یہ کہنا کہ بعض مذاہب اور فنون کی ایسی صورتیں ہیں جو زندگی سے بزدلانہ فرار کی راہ دِکھاتی ہیں تو یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے تاہم تمام مذاہب کے حوالے سے یہ بات صادق نہیں آتی۔ اقبال مذہب کی صحیح حیثیت کا تعین کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

No doubt, religious beliefs and dogmas have a metaphysical significance but it is obvious that they are not interpretations of those data of experience which are the subject of the sciences of Nature. Religion is not physics or chemistry seeking an explanation of nature in terms of causation, it really aims at interpreting a totally different region of human experience 

_ religious experience _

 the data of which can not be reduced to the data of any other science.6

اقبال کہتے ہیں کہ مذہبی تصورات کو مادی مظاہر سے منسلک کرنا درست نہیں۔ تاریخ میں ایسے بہت سے ادوار گزرے ہیں جن میں چاند، سورج، ستاروں، درخت، زمین پہاڑوں، آگ، پانی، جانوروں (بچھڑا اور گائے وغیرہ) اور ظالم و جابر حکمرانوں کے ساتھ بھی مذہبی تصورات منسلک رہے ہیں اور ان کی پوجا ہوتی رہی ہے۔ اصنام پرستی اسی کی ایک صورت ہے۔ ا قبال کے نزدیک مذہب کا تصور قدرتی علوم کی حدود تک محدود مظاہرِ فطرت کی شرح و وضاحت سے جنم نہیں لیتا بلکہ مذہب اور مادیت سے ماورا ایک ایسی مابعدالطبیعیاتی حقیقت ہے جس کی اپنی ایک الگ اہمیت ہے۔ بقول اکبر الہ آبادی:

نہیں سائنس واقف کارِدیں سے ۱؎

خدا باہر ہے حدِ دوربیں سے ۷؎

چنانچہ مذہب کو سائنس کی کسوٹی پر پرکھنا درست نہیں اس کہ مذہب اور سائنس کی حدود ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ سائنس کا دائرہ کار صرف پیکِرمحسوس تک محدود ہے اور وہی علوم سائنسی علم کا حصہ ہیں جو مظاہِر فطرت کے کسی نہ کسی پہلو کی نمائندگی کرتے ہیں مثلاً فزکس ہو یا کیمسٹری یہ علوم مظاہرِ فطرت کی شرح و وضاحت کرنے والے علوم ہیں جبکہ مذہب فزکس اور کیمسٹری کی طرح ایسا علم نہیں کہ جس سے کسی مظہرِ فطرت کی ایسی تعبیر ممکن ہو کہ ہم یہ کہہ سکیں کہ مذہب بھی مادیت ہی سے متبادر ایسا علم ہے جس سے مادے کے کسی ایک پہلو کی وضاحت ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو مادیت کو مذہب پر فوقیت حاصل ہوتی اور مذہب فزکس اور کیمسٹری کی مانند مادیت کے ایک خادم کی حیثیت اختیار کر لیتا۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہب مادیت کی پیداوار نہیں، نہ مادیت سے مذہب کی کوئی حیثیت متعین ہوتی ہے۔ مذہب کا تعلق مادیت سے ماورا انسانی تجربے کی ایک بالکل مختلف سطح کے ساتھ ہے۔ یہ انسانی تعقل اور روحانیت و احساسات کی سطح ہے۔ انسانی تجربے کی یہی وہ سطح یا مقام ہے جو مذہبی تجربے کا محل ہے۔

اقبال کی نگاہ میں تو مذہب باطنی تجربے کی ایک ایسی مخصوص نوع ہے، جس کی حقیقی اہمیت اس بات میں ہے کہ یہ جذبہ باطنی جذبہ و احساس کی نہ صرف باقی تمام اقسام کو متاثر کرتا بلکہ اُن کے لیے ہادی ورہبر کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم اقبال کے برعکس فرائیڈ کی نظر میں جنسی ہیجان (Sex Impulse) کو انسان کے جذبات و احساسات میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ انسان کی تمام خواہشات کا محرک جنسی جذبہ ہے یہاں تک کہ فرائیڈ کے نزدیک مذہب بھی جنسی ہیجان (Sex Impulse) کی ہی ایک بدلی ہوئی صورت ہے۔ ۸؎ اقبال فرائیڈ سے اختلاف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

Nor is it possible to explain away the content of religious consciousness by attributing the whole thing to the working of the sex-impulse.9

جہاں اقبال نے یہ بات صراحت کے ساتھ بیان کی ہے کہ مذہبی تجربے کے مواد کو سائنسی یا حسی تجربے کے مواد سے کوئی مماثلت نہیں وہیں وہ یہ بات بھی کہتے ہیں کہ مذہبی تجربہ ایسی مخصوص نوعیت کا حامل تجربہ ہے کہ باطنی سطح پر بھی کسی نفسی تحریک یا ہیجان کو اِس تجربے کی مثل یا اساس قرار نہیں دیاجا سکتا۔ مذہبی تجربے کی اپنی ایک انفردیت ہے اور اس انفرادیت کو یہ کہہ کر چیلنج نہیں کیا جا سکتا کہ مذہبی شعور دراصل انسان کی جنسی خواہشات کی بدلی ہوئی صورت کی کار فرمائی ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ جنسی خواہشات کو مذہبی شعور کی اساس قرار دے کر مذہبی تجربے کی تشریح وتعبیر کرنا ممکن نہیں کیونکہ:

The two forms of consciousness, sexual and religious, are often hostile or at any rate completely different to each other in point of their character, their aim and the kind of conduct they generate.10

اقبال کہتے ہیں کہ مذہب (Religion) اورجنس (Sex) شعور کی ایسی دو اقسام ہیں جن کا آپس میں تعلق اکثر معاندانہ (hostile) ہو تا ہے اور یہ دونوں اپنے کردا ر، مقاصد اور خاص نوعیت کا طرزِ عمل خلق کرنے کے معاملے میں بھی ایک دوسرے سے کلیتاً مختلف ہیں۔ اقبال کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ اقبال فرائیڈ کے اس نقطہ نظر کے حامی نہیں کہ جنسی خواہشات مذہب کی اساس ہیں اور یہ کہ مذہب کی حیثیت محض ایک ایسے واہمہ (illusion) کی ہے ‘ جسے تکمیلِ خواہش (wish fulfilment) کا پرتوکہا جا سکتا ہے۔ ۱۱؎اقبال کے نزدیک مذہب کو واہمہ (illusion) یا تکمیل خواہش کا پر تو کہنا درست نہیں کیونکہ:

The truth is that in a state of religious passion, we know a factual reality in some sense outside the narrow circuit of our personality.12

اقبال کہتے ہیں کہ صداقت یہ ہے کہ جذبِ مذہبی (religious passion) کی کیفیت میں انسان اپنی شخصیت سے ماورا واقعاتی حقیقت (factual reality) سے شناسائی حاصل کرتا ہے۔ شخصیت سے ماورا واقعاتی حقیقت سے شناسائی حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اِس شناسائی یا آگہی کے عمل میں انسانی شخصیت کا کوئی حصہ یا کردار نہیں ہوتا، چونکہ شخصیت کا تاروپودشعوری کیفیات سے بنتا ہے چنانچہ اگر بقول اقبال مذہبی واردہ کے دوران میں صاحب ِ حال یعنی صوفی اپنی شخصیت کے تنگنائے سے باہر حقائق سے آگہی حاصل کرتا ہے تو ظاہر ہے حقائق سے آگہی کے اس عمل میں انسان کی شعوری کیفیات کی کسی سطح یا جہت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ یوں یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ مذہبی و اردہ اور شعوری کیفیات ایک دوسرے سے الگ ہیں چنانچہ یہ کہنا بھی کہ جنسی لاشعوری محرکات مذہب کی بنیاد ہیں سراسر غلط ہے۔

دراصل علمِ نفسیات کی کمزوری یہ ہے کہ اِس علم کا تعلق صرف اور صرف انسان اور اس کی شعوری جہات کے ساتھ ہے۔ یہ علم کسی ایسے وقوف یا فہم و بصیرت کا بھی قائل نہیں جس کا تعلق انسانی شخصیت اور اِس کی شعوری جہات سے ماورا ہو۔ گویا فرائیڈ نے تحلیل نفسی کے طریقہ کار پر مبنی جس نفسیاتی نظام کی بنیاد رکھی اس میں مابعد الطبیعیات کو ماننے کی کوئی گنجائش نہیں۔ چنانچہ اقبال فرائیڈ کی جدید نفسیات کے اس پہلو پر زبردست تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

A purely psychological methed therefore, can not explain religious passion as a form of knowledge. It is bound to fail in the case of our newer psychologists as it did fail in the case of Locke and Hume.13

اقبال کا نقطہ نظر یہ ہے کہ جذِب کے مذہبی طریقہ کار سے حاصل ہونے والے علم کی تشریح وتوضیح کرنا نفسیاتی طریقہ کار کے بس کی بات نہیں۔ دنیاکے دو مشہور ترین نفسیات دانوں جان لاک (John Locke 1632-1704)اور ڈیوڈ ہیوم (David Hume 1711-1776) کو بھی اس کوشش میں ناکامی ہوئی اور جدید نفسیات کے دعوے دار بھی اگر ایسی کوشش کریں گے تو اُنھیں ناکامی ہی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ اقبال فرائیڈ کے برعکس اِس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ مذہبی تجربہ اور اس کے وقوفی پہلو (cognitive element) کی اساس ذہن و شعور نہیں بلکہ اِس سے ورا ہے۔ گویا اقبال بقول غالب اس بات کا قائل ہے کہ: ’’ آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں ۔‘‘ ۱۴؎

دراصل اقبال اور فرائیڈ میں فرق یہ ہے کہ فرائیڈ کی نظر محض مادیت تک محدود ہے اور وہ اسی کو اساس بنا کراپنے فکری نتائج کا استخراج کرتا ہے۔ اقبال کے ہاں گو مادیت حقیقت کے ایک پہلو کا اظہار ضرور کرتی ہے اور اسے اقبال کے نظام فکر میں ایک اہم مقام بھی حاصل ہے تاہم اقبال کے نزدیک مادیت کو فکرونظر کے لیے حتمی اساس قرارنہیں دیا جا سکتا۔

حواشی و حوالہ جات


۲- پروفیسرنعیم احمد: ’’انسانی شخصیت، فرائیڈ اور اقبال کی نظر میں‘‘، سہ ماہی مجلہ اقبال ،اپریل ۱۹۸۵ئ، جلد۳۲،شمارہ۲، بزمِ اقبال، کلب روڈ، لاہور۔

2- Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Sh. Muhammad Ashraf, Lahore, 1965, p. 24.

3- Ibid

4- Ibid, p. 25.

5- Ibid

6- Ibid

7- اکبر الٰہ آبادی: کلیات اکبر، پنجاب پبلشرز ، کراچی، س ۔ن، ص۴۶۔

۸- فرائیڈ کا یہ خیال ہے کہ انسان جب اپنی جنسی خواہشات کو اپنے خارجی ماحول کے انتداب یا سماج کے خوف کے باعث مطمئن نہیں کر پاتا تو یہ جنسی خواہشات لاشعور میں دبی رہتی ہیں اور موقع ملنے پر مختلف صورتوں مثلاً علم، ہنر، اخلاق اور عبادات و مناجات کی صورت میں اپنا اظہار کرتی ہیں۔ فرائیڈ جنسی خواہشات کے یوں مذہبی و اخلاقی رنگ میں تبدل کے عمل کو ارتفاعِ خواہشات (sublimation) کا نام دیتا ہے۔ گویا فرائیڈ کے نزدیک عبادت و ریاضت سے تعلق رکھنے والی مذہبی خواہشات انسان کی حقیقی یا اصلی خواہشات نہیں ہیں بلکہ یہ خواہشات حقیقی یا اصلی خواہشات (جنسی خواہشات ) کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں۔

9- Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Sh. Muhammad Ashraf, Lahore, 1965, p. 26.

10- Ibid

۱۱- فرائیڈ ایک جگہ لکھتا ہے:”Intuition and inspiration would be such if they existed but can

can safely be counted as illusious as fulfillments of wishes”. Sigmund Freud , New Introductory Lectures on Psychoannalysis.

ایک اور جگہ اس نے لکھا:”We call a belief an illusion”. Sigmund Freud, The Future of

an Illusion, p. 54-55.

12- Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, Sh. Muhammad Ashraf, Lahore, 1965, p. 26.

13- Ibid

۱۴- اسداللہ خان غالب: دیوانِ غالب، فیروز سنز ، لاہور، ۱۹۸۹ئ، ص۱۶۴۔

تحریر ڈاکٹر محمد آصف اعوان