سائنس کیا ہے اور سائنس کیا نہیں؟ [2]

سائنس ’’سیکولر‘‘ (لامذہب) ہے- ایک تنازعہ اور ایک غلط فہمی

جدید دَور کی سائنس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ’’سیکولر‘‘ (Secular) یعنی لامذہب ہے۔ یہ ایک ایسی غلط فہمی ہے جس کی وجہ سے سائنس پڑھنے والوں یا سائنس کے چاہنے والوں میں مذہب کی رغبت ختم ہوجاتی ہے۔ یہ لوگ مذہب کو سائنس کا حریف سمجھنے لگتے ہیں اور ایک وقت وہ بھی آتا ہے جب یہ مرد و زن لامذہب ہوجاتے ہیں۔

اسی تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ جب مذہبی رجحان رکھنے والا کوئی شخص، سائنس دانوں کا یہ مجموعی رویہ دیکھتا ہے تو وہ سائنس کو اپنے عقائد کے خلاف سمجھنے لگتا ہے۔ اگر وہ سائنس کا طالب علم بھی ہو تو وہ سائنس پڑھتا ضرور ہے لیکن اسے قبول نہیں کرتا۔ ’’سائنس سیکولر ہے‘‘ کا جملہ اس پر ناگوار اثر چھوڑتا ہے اور اس میں سائنس کے خلاف ایک فطری مزاحمت پروان چڑھتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ایسا کوئی شخص، سائنس کے کسی شعبے میں ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی) بھی کرلے مگر وہ سائنس کی بنیادوں کو درست اور غیر جانبدارانہ انداز سے، گہرائی میں جاکر سمجھنے کی کوشش نہیں کرے گا۔

مذہبی طبقہ، جو مذہب کی حرمت اور تقدس کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھتا ہے، اس کیلئے ’’سائنس سیکولر ہے‘‘ کی عبارت ایک براہِ راست حملے کا درجہ رکھتی ہے… ایک ایسا حملہ جو مذہب کی حرمت اور تقدس پر کیا گیا ہو۔ مذہب کا دفاع کرنا وہ اپنا اولین فریضہ سمجھتا ہے۔ لہٰذا وہ نہ صرف خود سائنس کے قریب جانے سے گریز کرتا ہے، بلکہ یہ کوشش بھی کرتا ہے کہ اس کے حلقۂ اثر کا کوئی فرد بھی سائنس کے مطالعے کی طرف متوجہ ہونے نہ پائے۔

آیئے اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ ’’سائنس سیکولرہے‘‘ کہاں سے وارد ہوا اور اس کا اصل قصہ کیا ہے؟

تاریخی تناظر

مسلمانوں کی سائنسی خدمات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ پندرہویں اور سولہویں صدی عیسوی کے دوران، جب عالمِ اسلام اندرونی اور بیرونی سازشوں کا تختۂ مشق بنا ہوا تھا اور اسلامی ممالک میں علم کے حصول او رمطالعے کی روایت دم توڑ رہی تھی، اسی زمانے میں مغرب بڑی تیزی سے مسلمانوں کے حاصل کئے ہوئے علوم کو ان سے اخذ کرنے کے بعد اپنی زبانوں میں منتقل کررہا تھا۔

عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ مغربی دانشوروں اور مترجمین نے صرف افلاطون اور ارسطو جیسے یونانی فلسفیوں کے افکار ہی عربی سے ترجمہ کئے تھے۔ اور یہ کہ مغرب نے سائنس میں تجربے کی اہمیت کو مسلمانوں سے اثر قبول کئے بغیر اجاگر کیا تھا۔ یہ نقطۂ نظر غلط ہے۔ اسلام کے ابتدائی زمانے سے لے کر تقریباً دسویں صدی عیسوی تک، مسلمانوں نے یونانی فلسفیوں کے افکار عربی میں ترجمہ کئے۔ لیکن اس کے بعد تقریباً پانچ سو سال تک متعدد نظری اور تجرباتی اختراعات کیں جو آج بھی تاریخ کے اوراق پر موجود ہیں۔ انہیں کسی بھی طرح سے یونانیوں کی ’’نقل‘‘ نہیں کہا جاسکتا۔

آج یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ مغرب نے توسیع پسندانہ رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسری تہذیوں (بالخصوص مسلمانوں) سے جو کچھ بھی حاصل کیا تھا، اس کے غیر یورپی ماخذ حذف کردیئے۔ اس حرکت کا واحد مقصد یورپ کی علمی و فکری بالادستی قائم رکھنا تھا۔ آج یہ امر بھی مسلّم ہے کہ اہل یورپ، سائنس کی عملی (تجرباتی) روح سے پہلی بار مسلمانوں ہی کے طفیل آشنا ہوئے اور انہیں معلوم ہوا کہ کسی مفروضے کو پرکھنے کیلئے تجربے کی کسوٹی کیوں، اور کس قدر ضروری ہے۔تجربے ہی نے قدیم یونانی ’’فلاسفیا‘‘ اور جدید ’’سائنس‘‘ کے درمیان اہم ترین فرق قائم کیا اور سائنس کو ترقی کی ایک نئی راہ پر گامزن کیا۔

یورپ میں سائنس کی نشاۃ الثانیہ کا ظہور، مذہب اور سائنس کے مابین زبردست کشمکش کے ساتھ ہوا۔ یہ عین وہی زمانہ تھا جب یورپ کے مذہبی پیشواؤں کو مذہب سے لے کر سائنس تک، زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں حکم صادر کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ مگر ان پیشواؤں کے نزدیک سچائی صرف وہی تھی جو ان کی مذہبی کتابوں اور ان کی مقدس ہستیوں کے فرمودات، ارشادات اور اقوال میں بیان کی گئی تھی (یہ ایک الگ بحث ہے کہ عیسائیوں کی الہامی کتاب ’’انجیل‘‘ اس وقت تک اس قدر تبدیل کی جا چکی تھی کہ وہ اپنی اصلیت، کم و بیش گم کر چکی تھی)۔ یہ بات عقیدے کے خلاف تصور کی جاتی تھی کہ کوئی بھی ان پر شک و شبہ کا اظہار کرے یا ان مقدس حقائق کو تجربے یا عمیق مطالعے کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش کرے۔

لطیفہ مشہور ہے کہ کہیں پر تین پادری آپس میں الجھ رہے تھے کہ گھوڑے کے منہ میں کتنے دانت ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک مقدس کتابوں کے حوالے سے ثابت کررہا تھا کہ گھوڑے کے منہ میں کتنے دانت ہوتے ہیں، لیکن اتفاق نہیں ہو پارہا تھا۔ ایک پادری کہتا تھا کہ مقدس کتابوں کے مطابق، گھوڑے کے منہ میں 36 دانت ہوتے ہیں۔ دوسرے کا کہنا تھا کہ نہیں! 34 دانت ہوتے ہیں اور تیسرا پادری 40 دانت ثابت کرنے پر تُلا ہوا تھا۔ اتنے میں وہاں ایک نوجوان کا گزر ہوا۔ اس نے جب یہ بحث سنی تو ازراہِ مشورہ کہہ دیا کہ گھوڑے کا منہ کھول کر دانت گن لیجئے۔ یہ سن کر تینوں پادری آگ بگولا ہوگئے اور کہنے لگے: ’’تو کیا چاہتا ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کی کتابیں چھوڑ کر تیرا بتایا ہوا طریقہ اختیار کرلیں؟ جس کی تعلیم ہمارے مذہب نے نہیں دی۔‘‘

ممکن ہے کہ کسی نے یہ واقعہ ازراہِ تفنن اپنی طرف گھڑ لیا ہو، لیکن گیلیلیو کا قصہ بالکل سچ ہے، جس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں۔اس قصّے کا پس منظر یہ ہے کہ سولہویں صدی میں بطلیموس (Ptolmeus) اور ارسطو کے نظریات، کلیسا کے نزدیک بڑے اہم تھے کیونکہ وہ مذہبی پیشواؤں کی سارے معاشرے پر بالادستی کو قائم و دائم رکھنے میں مددگار تھے۔ یہی وہ پہلو تھا جس کے باعث کائنات اور نظامِ قدرت کے بارے میں بھی ان فلسفیوں کے خیالات کو نہایت احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔بطلیموس نے کائنات کا جو ماڈل پیش کیا تھا، اس کے مطابق زمین کائنات کا مرکز ہے، ساکن ہے اور ساری کائنات اس کے گرد گھوم رہی ہے۔مظاہرِ فطرت کے بارے میں ارسطو یہ رائے دے چکا تھا کہ اگر مختلف اوزان والی دو اشیاء کو ایک ساتھ بلندی سے گرایا جائے تو بھاری چیز پہلے گرے گی اور ہلکی چیز بعد میں۔ یعنی جو چیز جتنی زیادہ بھاری ہوگی، وہ اتنی ہی تیزی سے زمین پر گرے گی۔

سترہویں صدی عیسوی کی ابتداء میں گیلیلیو نے یہ بتایا کہ زمین، سورج کے گرد گردش کرتی ہے۔ پھر اس نے عملی ’’تجربے‘‘ سے یہ ثابت کیا کہ اگر مختلف اوزان رکھنے والے دو پتھر، یکساں بلندی سے ایک ساتھ گرائے جائیں تو وہ دونوں بالکل ایک ساتھ زمین سے ٹکرائیں گے۔ مبینہ طور پر اس نے یہ تجربہ، اٹلی میں پیسا کے ٹاور پر چڑھ کر کیا تھا۔ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے جب مختلف اوزان والے دو پتھر ایک ساتھ زمین سے ٹکرائے تو وہاں آئے ہوئے مجمع میں شامل کلیسائی نمائندوں (یا ان کے پیروکاروں) نے گیلیلیو کو ’’جادوگر‘‘ قرار دینے میں کوئی تاخیر نہیں کی۔

بطلیموس اور ارسطو کے نظریات سے اختلاف کرنا گیلیلیو کا قصور بن گیا اور انہیں تجربے کی کسوٹی پر جانچنا اس کا جرم ٹھہرایا گیا۔ کٹر رومن کیتھولک ہونے کے باوجود وہ ساری زندگی کلیسا کی جانب سے عتاب میں مبتلا رہا۔ 1642 عیسوی میں، جب گیلیلیو کی وفات ہوئی، تو اس وقت بھی چرچ کی جانب سے دی گئی سزا کے طور پر کئی برسوں سے اپنے گھر میں نظر بند تھا۔

یہ تو صرف ایک مثال ہے ورنہ تاریخ کے اوراق پر معلوم نہیں ایسے کتنے واقعات موجود ہیں جب سائنس دانوں کو نئی بات کہنے پر جلا دیا گیا، جلا وطن کردیا گیا، یا ان کا سر قلم کردیا گیا۔ قصہ مختصر یہ کہ یورپ میں سائنس کی نشاۃ الثانیہ، سائنس دانوں اور مذہبی پیشواؤں میں شدید باہمی تنازعے سے گزر ی۔

سائنس… ’’لامذہب‘‘ یا ’’قابلِ اعادہ‘‘

اب ایک لمحے کو ٹھہر کر سائنس کی بنیادی تعریف دوہرا لیجئے، جو میں زیرِ نظر تحریر کی ابتداء میں بیان کر چکا ہوں۔ اس تعریف کی رُو سے سائنسی مشاہدات اور تجربات کو ’’قابلِ اعادہ‘‘ (Reproducible) ہونا چاہئے۔’’قابلِ اعادہ‘‘ ہونے کی وضاحت یہ ہے کہ اگر ایک تجربہ، ایک خاص ماحول (یا حالات) میں، ایک خاص طرح کے تجرباتی آلات/ اشیاء استعمال کرتے ہوئے کیا جائے، اور وہی تجربہ کسی دوسری جگہ پر، لیکن بالکل پہلے جیسے ماحول (یا حالات) میں، بالکل پہلے جیسے تجرباتی آلات/ اشیاء استعمال کرتے ہوئے، عین اسی طریقے پر کیا جائے کہ جس پر پہلا تجربہ کیا گیا تھا، تو اس (بعد والے تجربے) کے نتائج بالکل وہی برآمد ہوں گے، جو پہلی مرتبہ کئے گئے تجربے سے حاصل ہوئے تھے۔

سائنس اور کلیسا کی چپقلش کی وجہ سے یہ عبارت (شاید مذہبی طبقے کو چڑانے کیلئے) اس طرح سے بیان کی جانے لگی کہ سائنسی مشاہدات اور تجربات کے قابل اعادہ ہونے پر تجربہ/ مشاہدہ کرنے والے کے مذہب (یا مذہبی عقائد) سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

مطلب یہ کہ سائنس تجربات/ مشاہدات کے نتائج/ صداقت پر اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ سائنس داں کا اپنا مذہب کیا ہے، وہ کس عقیدے کا پیروکار ہے، اور کسی مذہب کو مانتا بھی ہے یا نہیں۔ اگر تجربے کی نوعیت یکساں ہے، وہ یکساں حالات کے تحت کیا گیا ہے، اور اس میں استعمال کئے گئے آلات و اشیاء بھی یکساں ہیں تو اس کے نتائج بھی یکساں حاصل ہوں گے – خواہ وہ تجربہ کرنے والا شخص مسلمان ہو، عیسائی ہو، یہودی ہو، ہندو ہو یا لامذہب ہو (یعنی ایسا فرد جو کسی بھی مذہب کو نہیں مانتا)۔

مثلاً، ہم گیلیلیو کا وہی تجربہ لیتے ہیں جو اس نے مبینہ طور پر پیسا کے ٹیڑھے مینار پر چڑھ کر کیا تھا۔ اب فرض کیجئے کہ گیلیلیو کی جگہ جابر بن حیان ہوتا، ابن الہیثم ہوتا، آپ ہوتے یا میں ہوتا، اور وہ پتھر ایک ساتھ گراتے تو کیا نتیجہ نکلتا؟ کیا افراد کی تبدیلی سے نتائج تبدیل ہوجاتے؟ یقیناً نہیں۔ جابر بن حیان، ابن الہیثم، میں یا آپ، کسی ’’شخص‘‘ یا اس کے عقائد و نظریات کا اس تجربے کے نتائج پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

یہی تجربہ آپ بھی دہرا سکتے ہیں۔ اپنے چار پانچ دوست منتخب کیجئے اور ان سے کہئے کہ وہ ایک کرسی پر باری باری کھڑے ہوں اور کسی دھات یا لکڑی سے بنے ہوئے، ایک اور آدھے کلو گرام والے گولوں کو یکساں اونچائی سے ایک ساتھ زمین پر گرائیں۔ ہر مرتبہ نتیجہ وہی رہے گا۔ یعنی دونوں گولے ایک ساتھ زمین سے ٹکرائیں گے۔ کیا اس تجربے کے نتائج پر اس بات سے کوئی فرق پڑا کہ آپ اور آپ کے دونوں کا عقیدہ کیا ہے؟ کیا آپ کی مذہبی وابستگی (یا عدم وابستگی) نے اس کے نتائج پر کوئی اثر ڈالا؟ ہر گز نہیں۔گویا سائنسی تجربات کے اس طرح قابلِ اعادہ (reproducible) ہونے کو، کہ وہ تجربہ کرنے والے کے ذاتی عقائد و نظریات سے متاثر نہ ہوں، بہ الفاظِ دیگر ’’سائنس سیکولر (لامذہب) ہے‘‘ کی عبارت میں بیان کیا جانے لگا۔

یہ پوری طرح واضح نہیں کہ کلیسا نے سائنس پر لادین ہونے کی مہر مثبت کی یا مذہبی کٹرپن کے ستائے ہوئے سائنس دانوں نے مذہب کی مدِمقابل طاقت کے طور پر منوانے کیلئے سائنس کو ’’سیکولر‘‘ کہا۔ مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سائنس کے سیکولر ہونے کی توجیح نے بیک وقت اہلیانِ مذہب اور اہلیانِ سائنس کے خیالات پر بری طرح اثر ڈالا۔ پہلے کلیسا نے کفر کے فتووں سے سنجیدہ سائنسی تحقیق کا راستہ روکا، سائنس دانوں کو مرتد، کافر اور لامذہب قرار دیا اور پھر سائنس دانوں نے خود ہی مذہب سے قطع تعلق کرنا شروع کردیا۔آج یہ کیفیت ہے کہ سائنس دانوں کی اکثریت یا تو لامذہب ہے یا پھر صرف نام کی حد تک کسی مذہب سے وابستگی رکھتی ہے۔ یہ کیفیت دنیا بھر کے سائنس دانوں میں بالعموم، اور ترقی یافتہ ممالک کے سائنس دانوں میں بالخصوص دیکھی جاسکتی ہے (جس کا اظہار ان کی تحریروں اور تاثرات سے ہوتا ہے)۔ آج ’’سائنس سیکولر ہے‘‘ کا فقرہ، سائنس کی مذہب دشمنی کا ترجمان بن گیا ہے (یا زیادہ صحیح الفاظ میں، بنا دیا گیا ہے) حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔

سائنس کا سیکولر ہونا اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ یہ اپنی ذات میں قوانینِ فطرت (قوانینِ قدرت) کی محتاج ہے نہ کہ سائنس دانوں کے ذاتی عقیدے اور مذہب کی۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ قوانینِ فطرت کا اطلاق پوری کائنات پر یکساں انداز سے ہوتا ہے اور ذرّہ ذرّہ ان کا تابع ہے۔ گویا اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’سائنس سیکولر ہے‘‘ کامطلب، اس کے مشاہداتی/ تجرباتی پہلو کی صداقت اور وسعت کا اظہار ہے نہ کہ سائنس کی مذہب دشمنی کا۔

سائنس کیا نہیں؟

سائنس، طبیعی/ مادی کائنات اور اس میں موجود تمام اشیاء (Contents) کو موضوعِ بحث بناتی ہے۔ اس کے تجربات و مشاہدات قابلِ اعادہ (Reproducible) ہوتے ہیں۔ یہ مفروضہ، استنباط، تجربہ/ مشاہدہ، نتیجہ، تجزیہ، نظریہ اور قانونِ فطرت جیسے مراحل طے کرتے ہوئے اپنی ترقی کا سفر جاری رکھتی ہے۔ اس تمام بحث کا احاطہ میں اب تک کرچکا ہوں۔

مجھے توقع ہے کہ یہاں تک آتے آتے قارئین کے ذہنوں میں یہ بات خاصی حد تک واضح ہوچکی ہوگی کہ سائنس ’’بہت کچھ‘‘ ضرور ہے لیکن ’’سب کچھ‘‘ ہر گز نہیں۔تاہم اسی نکتے کی مزید وضاحت کیلئے میں آپ کا وقت اور توجہ چاہوں گا۔

آنجہانی کارل ساگان کا ناول ’’کانٹیکٹ‘‘ (Contact) اس اعتبار سے قابلِ مطالعہ ہے کہ اس میں انہوں نے سائنس کی حدود و قیود (Bounds and Limits) کے بارے میں بڑے معقول اعتراضات اٹھائے ہیں۔ حالانکہ وہ خود بیسویں صدی کا ایک عظیم فلکیات داں تھا۔ خلائی تحقیق، خصوصاً مریخ پر بھیجے گئے بعض اہم خود کار خلائی جہازوں کی کامیابی میں کارل ساگان نے نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ یہ ناول ایک ایسی لڑکی کے گرد گھومتا ہے جس کا باپ، اس کے بچپن ہی میں فوت ہوجاتا ہے۔ غیرمعمولی طور پر ذہین یہ لڑکی، بڑی ہوکر ماہر فلکیات بن جاتی ہے اور ترقی کرتے کرتے خلائی تحقیق میں ایک اہم مقام پر فائز ہوجاتی ہے۔ دریں اثناء اس کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوتی ہے جو مذہی پیشوا (پادری) ہوتا ہے۔ یہ شخص اس کا دوست بن جاتا ہے۔ پھر ایک سرکاری تقریب میں ان کی ملاقات کے دوران، ان دونوں میں مکالمہ ہوتا ہے جو صرف دلچسپ ہی نہیں بلکہ فکر کے نئے دروازے کھولنے والا بھی ہے۔ مکالمہ ملاحظہ فرمائیے :

پادری: کیا تم خدا کو مانتی ہو؟

لڑکی : بطور سائنس داں میرے پاس اس (خدا) کے ہونے یا نہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں۔

پادری: کیا تمہیں اپنے (آنجہانی) والد سے (آج بھی) محبت ہے؟

لڑکی : ہاں! میں آج بھی اپنے (آنجہانی) والد سے بے حد محبت کرتی ہوں۔

پادری : تو اسے ثابت کرو۔

صرف چند سطروں کے اس مکالمے میں کارل ساگان نے ’’معقولیت پسندی‘‘ (Rationalism) کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے جس کا دعویٰ اکثر سائنسداں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں… اور اسی ’’عقل پرستی‘‘ کی بنیاد پر وہ اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکار کردیتے ہیں۔اس مکالمے سے صاف ظاہر ہے کہ سائنس، ہر چیز کے وجود یا عدم وجود کو ثابت نہیں کرسکتی… اور یہ کہ اگر کوئی چیز سائنسی قواعد و ضوابط کی مطابقت میں نہیں تو قطعاً ضروری نہیں کہ اس کی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا جائے۔کارل ساگان نے یہاں پر جو مثال دی ہے، وہ ایک بیٹی کی اپنے آنجہانی والد سے محبت ہے جسے کوئی سائنسی تجربہ یا مشاہدہ ثابت نہیں کرسکتا۔ پھر ایسا کوئی بھی تجربہ، قابلِ اعادہ نہیں ہوگا۔ محبت ایک جذبہ ہے، ایک حقیقت ہے، مگر سائنسی بنیادوں پر اسے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔


مسلمہ مذہبی حقائق اور معقولیت پسندی

بہت ساری باتیں ہمارے عقائد کا حصہ ہیں اور سائنس سے ثابت نہیں ہوتیں۔ تو کیا ’’معقولیت پسندی‘‘ کی رَو میں بہہ کر ہم اپنے عقائد کو بالائے طاق رکھ دیں؟ مثلاً ’’روح‘‘ کو لے لیجئے۔ اسلام سمیت تمام الہامی اور غیر الہامی مذاہب میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ روح ایک وجود رکھتی ہے۔ اس کی حقیقت مسلّمہ اور غیر متنازعہ ہے۔کیا آج تک ایسا کوئی تجربہ/ مشاہدہ ہوسکا ہے جو ’’سائنسی‘‘ ہو اور جس کی مدد سے ’’روح‘‘ کی موجودگی ثابت کی گئی ہو؟ سردست اس سوال کا جواب ’’نہیں‘‘ کی صورت میں ہمارے پاس ہے۔علاوہ ازیں سائنسی نظریات میں بھی ایسی کوئی چیز موجود نہیں جو روح کے وجود یا عدم وجود کے بارے میں ہماری کسی بھی قسم کی رہنمائی کرسکے۔ لیکن کیا اس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ روح کا کوئی وجود نہیں۔

یہ نہیں کہا جاسکتا، مگر یہ ماننا زیادہ موزوں ہوگا کہ روح ایک ایسی چیز، ایک ایسا وجود ہے جو سائنس سے ماوراء ہے۔ سائنس کی بنیاد پر روح کا ثبوت فراہم کرنے کی کوشش کرنا، اسے کسی ریاضیاتی مساوات یا سائنسی فارمولے کے ذریعے بیان کرنا، میری ناقص رائے میں حماقت آمیز ہی نہیں بلکہ گمراہ کن عمل ہوگا۔ جب ’’روح‘‘ سائنس کے دائرہ اختیار میں آنے والی چیز ہی نہیں تو ہمیں روح کا ’’سائنسی جواز‘‘ تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

جب کوئی انسان مرتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی، یعنی اس کی روح نے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کسی شخص کی موت سے ذرا پہلے اس کے جسم کی حیاتی کیمیائی (Biochemical) ساخت اور ترکیب کا موازنہ، اس کے مرنے کے فوراً بعد کی حیاتی کیمیائی ساخت اور ترکیب سے کیا جائے تو حیرت انگیز طور پر بے انتہاء معمولی فرق کا انکشاف ہوگا۔ اگر وہ فرق دور کردیا جائے اور موت سے پہلے والی حیاتی کیمیائی ساخت اور ترکیب بحال کردی جائے تو سائنسی نقطۂ نگاہ سے اس شخص کو زندہ ہوجانا چاہئے… کیونکہ ’’معقولیت پسندانہ‘‘ طرزِ فکر ہمیں یہی بتاتا ہے۔لیکن کیا ایسا کرنے سے کوئی بھی شخص واقعی دوبارہ زندہ ہوجاتا ہے؟ یقیناً ایسا نہیں ہوتا۔زندگی کسی ’’سوئچ‘‘ کے ’’آن‘‘ ہونے کا، اور موت اس سوئچ کے ’’آف‘‘ ہوجانے کا نام نہیں۔ اگر ایسا کوئی ’’حیاتیاتی سوئچ‘‘ (Biological Switch) ہوتا تو اسے دوبارہ ’’آن‘‘ کرکے مُردے زندہ کر لئے جاتے۔

مرنے کے بعد انسان کی روح ’’برزخ‘‘ میں چلی جاتی ہے جہاں سے وہ یومِ حشر میں پہنچے گی، حساب کتاب ہوگا اور جنت و دوزخ کا فیصلہ کیا جائے گا۔ کیا کوئی سنجیدہ سائنسی مشاہدہ یہ بتا سکتا ہے کہ برزخ کس جگہ واقع ہے؟ اس کا جواب بھی ’’نہیں‘‘ میں ہے۔ کیا کوئی مروجہ اور مسلّمہ سائنسی نظریہ یا قانونِ فطرت یہ پیش گوئی کرسکتا ہے کہ جنت کا ماحول کیسا ہوگا اور جہنم کا درجہ حرارت کتنا ہوسکتا ہے؟ ایک بار پھر ہمارا سامنا اسی ’’نہیں‘‘ سے ہوتا ہے۔

’’نادان دوستوں‘‘ کی غلطیاں

روح کی طرح جنات اور فرشتوں کے بارے میں بھی الہامی کتابیں ہمیں بتاتی ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ہیں۔ بڑے بوڑھے اکثر جنوں سے اپنی ملاقاتوں کے قصے سناتے ہیں، اور کثرت سے سناتے ہیں۔ فرشتوں کا معاملہ بھی اسی طرح کا ہے۔کوئی ایسا طریقہ بتائیے کہ جنوں یا فرشتوں کا ’’سائنسی مطالعہ‘‘ کیا جاسکے (ایک بار پھر، سائنس کی بنیادی تعریف ذہن میں رکھئے جو ابتداء میں بیان کی گئی ہے)۔ قرآن کہتا ہے جن ’’آگ‘‘ کی اور فرشتے ’’نور‘‘ سے بنی ہوئی مخلوقات ہیں۔ تاحال کوئی سائنسی مشاہدہ، تجربہ یا نظریہ اس قابل نہیں ہوسکا جو فرشتوں اور جنوں کے وجود پر روشنی ڈال سکے۔

فرشتے ہوں، جن ہوں، روح ہو، عالمِ برزخ ہو، روزِ محشر ہو، جنت کی راحت ہو، یا جہنم کا عذاب، یہ ساری باتیں ہمارے ایمان کا حصہ ہیں۔ ان کی حقیقت مسلّمہ ہے لیکن یہ ساری چیزیں اور یہ ساری باتیں، سائنس کے دائرے سے باہر ہیں۔ مگر، ایک بار پھر، اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ان کا کوئی وجود نہیں۔ ان کا سائنسی ثبوت مانگنا یا سائنسی ثبوت دینا، حماقت کا ثبوت ہے۔

انتہائی معذرت کے ساتھ، اس موقع پر میں ان ’’سائنس دانوں‘‘ کی تحقیقات کو قطعاً غیر سائنسی کہنے پر مجبور ہوں جنہوں نے جہنم کا درجہ حرارت بیان کرنے کیلئے ریاضیاتی مساواتیں یا طبیعیات کے فارمولے وضع کئے ہیں، فرشتوں کی رفتار اخذ کی ہے، جن پکڑ کر بجلی بنانے کا تصور پیش کیا ہے، نماز کے ثواب کا تخمینہ لگایا ہے، یا یہ بتایا ہے کہ ملکی وے کہکشاں (جس کے کنارے پر ہمارا نظامِ شمسی گردش کررہا ہے) کا مرکز ہی اللہ تعالیٰ کا ’’عرش‘‘ ہے، وغیرہ۔ میرے محدود مطالعے اور ناقص رائے میں اس طرح سے مذہب اور سائنس کا ملاپ کروانا غیر فطری عمل ہے۔ یہ باتیں مذہب اور سائنس، دونوں ہی کے سطحی مطالعے کی پیداوار ہیں لہٰذا یہ مذہب کیلئے جتنی خطرناک ہیں، اتنی ہی نقصان دہ سائنس کیلئے بھی ثابت ہوتی ہیں۔

اپنی مذکورہ بالا رائے کی دلیل میں ایک مثال پیش کرنا چاہوں گا۔آپ نے تھرمامیٹر اور فٹ اسکیل (جسے عرفِ عام میں ’’فٹا‘‘ بھی کہتے ہیں) ضرور دیکھے ہوں گے۔ آپ یقیناً یہ بھی جانتے ہوں گے کہ تھرمامیٹر کا مقصد درجہ حرارت معلوم کرنا ہے اور فٹ اسکیل سے کسی چیز کی لمبائی ناپی جاتی ہے۔

خدانخواستہ آپ بیمار ہوجاتے ہیں اور ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔ ڈاکٹر آپ کو ایک کونے میں کھڑا کرتا ہے، فٹ اسکیل سے آپ کا قد ناپتا ہے اور تشویشناک لہجے میں کہا ہے ’’اوفوہ! آپ کا بخار تو 150 ڈگری سینٹی میٹر پر پہنچا ہوا ہے۔‘‘ ایسے کسی ڈاکٹر کے بارے میں آپ کیا رائے قائم کریں گے؟ یہی ناں کہ وہ پاگل ہے، کیونکہ اس نے بخار ناپنے کیلئے غلط آلے کا انتخاب اور غلط پیمانے کا استعمال کیا ہے۔ کوئی بھی مریض، ایسی حرکت کرنے والے ڈاکٹر سے فوراً یہی کہے گا، ’’ڈاکٹر صاحب! تھرمامیٹر لگا کر بخار معلوم کیجئے، یہ کیا فٹا اٹھا کر قد ناپنے کھڑے ہوگئے؟‘‘مجھے یقین ہے کہ کسی قاری نے یہ حرکت کبھی نہیں کی ہوگی، اور نہ اس حرکت کو صحیح الدماغ ہونے کی علامت سمجھا ہوگا کہ تھرما میٹر منہ میں لگایا جائے، تھوڑی دیر بعد نکالا جائے اور اس کا پارہ دیکھ کر کہا جائے ’’آپ کا قد تو صرف 37 سینٹی گریڈ ہے۔‘‘

اس مثال کے ذریعے میرا مقصد قطعاً یہ نہیں کہ قارئین سے مذاق کیا جائے، بلکہ میں یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ کوئی بھی نتیجہ اسی وقت درست کہلائے گا جب وہ درست پیمانے کا انتخاب اور درست آلے کا استعمال کرتے ہوئے اخذ کیا جائے گا۔ ہم تھرمامیٹر کے ذریعے درجہ حرارت معلوم کرتے ہیں اور فٹ اسکیل ہمیں لمبائی ناپنے میں مدد دیتا ہے۔ جب ہماری عقل، تھرمامیٹر سے ناپے گئے (سینٹی گریڈ میں) قد کو اور فٹ اسکیل سے معلوم کئے گئے (سینٹی میٹر میں) درجہ حرارت کو درست نہیں مانتی تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ چیزیں جو سائنس کے دائرۂ کار سے ماوراء ہیں، ان کی حقیقت کا ادراک ہم سائنسی مشاہدات یا تجربات کے ذریعے کرسکیں؟

توقع رکھتا ہوں کہ اس مرتبہ ’’نہیں‘‘ کہنے میں آپ خاصی پختگی سے میری ہمنوائی فرمائیں گے۔

قرآن اور سائنس کا تعلق

بہت ممکن ہے کہ یہاں تک آکر آپ یہ سوچ رہے ہوں کہ جب ہمیں مذہبی عقائد اور ایمان کے معاملے میں کسی سائنسی (یا عقلی) دلیل کی ضرورت ہی نہیں، تو اس کتاب کو تحریر کرنے اور ’’قرآن حکیم کی روشنی میں سائنس کا بیان‘‘ کرنے کی ضرورت بھی باقی نہیں رہ جاتی۔آپ کا اعتراض بالکل درست ہے۔ ہمارے ایمان اور عقیدے کو اتنا پختہ ہونا چاہئے کہ ہر حال میں قرآن کا حکم، ہمارے لئے اٹل حقیقت رہے۔ ہمیں قرآنی احکامات کو ماننے اور ان کی صداقت کو تسلیم کرنے میں کسی بھی طرح کی عقلی دلیل، یا سائنسی ثبوت کا محتاج نہیں ہونا چاہئے۔ البتہ اس امر سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ قرآن میں واضح طور پر متعدد ایسے اشارہ جات موجود ہیں جو سائنس کے معاملے میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ میں ذیل کی سطور میں اسی نکتے کو واضح کرنے کی کوشش کروں گا۔

انسان، زمین پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب، قرآنِ پاک کا مخاطب اور موضوع بھی یہی خلیفہ (انسان) ہے۔ قرآنِ پاک صرف چودہ سو سال پہلے ہی معجزہ نہ تھا، بلکہ یہ آج بھی معجزہ ہے اور رہتی دنیا تک معجزہ رہے گا۔ کوئی انسان بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ قرآن کو پوری طرح سمجھ پایا ہے، کیونکہ قرآنِ پاک کی ہر آیت کے لاتعداد مطالب، مفاہیم اور معانی ہیں۔

یہ کتاب، جس کی صداقت میں کوئی شبہ نہیں، زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبے میں ہماری رہنما ہے۔ سائنس بھی انہی میں سے ایک ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ قرآن صرف سائنسی کتاب ہے، قرآن کے تقدس کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ قرآن کو سائنسی فارمولوں کی کتاب سمجھنا یا اس میں سائنسی فارمولے تلاش کرنا اور بھی غلط ہے۔ قرآن کا اپنا ایک مخصوص انداز بیان ہے۔ یہ مظاہرِ قدرت اور نظامِ کائنات کی طرف ہماری توجہ مبذول کراتا ہے، ہمیں ان کے بارے میں اشارات دیتا ہے، ہمارے تجسس کو اُبھارتا ہے اور آگے بڑھ جاتا ہے۔ اب یہ ہماری اپنی سمجھ بوجھ، دستیاب معلومات کی فراوانی اور فکر کی گہرائی پر منحصر ہے کہ ہم ان قرآنی آیات سے کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر مورس بوکائے اپنی کتاب ’’قرآن، بائبل اور سائنس‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’قرآن جو کچھ کہتا ہے، وہ تو معجزہ ہے ہی لیکن قرآن جہاں توقف کرتا ہے (اور مزید تفصیل میں نہیں جاتا) تو قرآن کا یہ توقف بھی معجزہ ہے۔‘‘

قرآن ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے کہ ہم میں جاننے کی خواہش پیدا ہو، حصولِ علم کا جذبہ بیدار ہو، ہم تحقیق کی طرف مائل ہوں، دریافت کی جستجو کریں، تسخیرِ کائنات کی تدبیر کریں اور زمین پر اللہ کا نائب (خلیفہ) ہونے کا حق ادا کریں۔ مگر ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ قرآن، خالقِ کُل کی کتاب ہے۔ یہ اُسی ہستی کا کلام ہے جو ہر اعتبار سے مکمل اور ہر شے پر قادر ہے۔ ہم، انسان اسی اللہ رب العزت کی مخلوق ہیں۔ یہ اُسی کی کرم فرمائی ہے کہ اس نے ہمیں زمین پر اپنا خلیفہ بنایا۔

مخلوق کی حیثیت سے ہماری ذات اور ہمارے اختیارات بھی محدود ہیں۔ ہمارا علم ناقص و نامکمل ہے جو تغیر پذیر رہتا ہے۔ پھر انسان خطا کا پتلا بھی ہے۔ کیا یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ محدود اختیارات اور محدود تر علم کی حامل وہ مخلوق جو زمان و مکان کے تانے بانے میں قید ہو، اپنے خالق کی لامحدود ذات اور اس کے اعلیٰ ترین کلام (قرآنِ پاک) کو مکمل طور پر سمجھ سکے یا اسے پوری طرح سمجھنے کا دعویٰ کرسکے؟ یقیناً یہ ناممکن ہے۔ کائنات کی وسعت اور ہیبت کے سامنے انسان خود کو بے انتہاء حقیر محسوس کرتا ہے۔ ذرا سوچئے کہ جس خالق کے صرف ایک حکم ’’کُن‘‘ (ہو جا) پر یہ ساری کائنات (یعنی زماں و مکاں) تخلیق ہوگئی ہو، وہ خود کتنا عظیم ہوگا۔ قرآنِ پاک اسی خالقِ کائنات کا کلام ہے۔

یہ گزارشات بیان کرنے کا مقصد، قارئین کو یہ باور کرانا تھا کہ اگر آج ہم قرآنی آیات میں سائنسی افکار دیکھ رہے ہیں تو اس کی وجہ سائنس سے ہماری اپنی وابستگی اور آگہی ہے۔ ورنہ قرآنی آیات میں تو پہلے دن سے لے کر آج تک، چودہ سو سال بعد تک، سرِمو فرق نہیں آیا، اور تاقیامت نہیں آئے گا۔ ہاں! یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ سائنسی ترقی کی وجہ سے آج ہم پر قرآنی آیات کے وہ مطالب اور مفاہیم کھل رہے ہیں، جن سے دو سو سال پہلے ہمارے بزرگ واقف نہیں تھے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر مزید نئی دریافتوں اور تحقیقات کے بعد کوئی نیا نظریہ سامنے آتا ہے، جس کی وجہ سے کسی قرآنی آیت کی سابقہ سائنسی تشریح غلط ثابت ہوجاتی ہے تو اس سے قرآنِ پاک کی صداقت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سائنسی تشریح ہم نے، انسانوں نے کی تھی لہٰذا اسے ہماری غلطی ہی کہا جائے گا۔


تشکر و کتابیات:

1۔زیر نظر تحریر کی تیاری میں راقم الحروف اپنے محترم استاد، پروفیسر ڈاکٹر خورشید اطہر صدیقی کا بطورِ خاص شکر گزار ہے کہ انہوں نے 1994ء میں اپنا ایک غیر مطبوعہ مقالہ بعنوان ’’Where do we stand now‘‘ مجھے پڑھنے کےلئے دیا۔ علاوہ ازیں، نظری طبیعیات (تھیوریٹیکل فزکس) پڑھانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے سائنسی فلسفے کو سمجھنے میں بھی اس ناچیز کی بے حد رہنمائی کی۔ اللہ تعالیٰ ان کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔

2۔ An Intelligent Man‘s Guide to Science, Isaac Asimov

3۔ The Structure of Scientific Revolutions, Thomas Kuhn

4۔ Philosophy of Science: A Very Short Introduction, Samir Okasha

تحریر علیم احمد ، مدیر ماہنامہ گلوبل سائنس