فلسفی نطشے کا نفسیاتی مطالعہ

ایکے ہومو (Ecce Homo) عیسی ؑ کی اس تصویر کا عنوان ہے جس میں وہ کانٹوں سے مزین تاج پہنے ہوئے ہیں۔ ایکے ہومو دراصل وہ الفاظ ہیں جو حضرت عیسٰٰی ؑ کو اس وقت کہے گئے جب انھیں یہ تاج پہنایا گیا۔ نطشے نے اپنی ایک کتاب کا بھی یہ نام رکھا۔ اس لیے کہ اس نے بھی تمام زندگی ژولیدہ اور پریشان کن افکار اور نفسیاتی الجھنوں کے کانٹوں سے سجا تاج پہنے رکھا۔ اسی تاج نے اسے سربلند رکھا۔ اس کتاب کا یہ جملہ بہت معنی خیز ہے: “I am not a man, I am a dynamite”

نطشے تمام روایتی اور پیش پا افتادہ افکار کے لیے ڈائنامائیٹ بن کر تو آیا ہی مگر ایک ڈائنامائیٹ اس کی باطنی گہرائیوں میں بھی اس کی نفسیاتی الجھنوں اور محرومیوں کی صورت موجود تھا جو اندر ہی اندر اسے منہدم کرتا رہا اور بالآخر وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا اور زندگی کے آخری دس بارہ سال اسی کیفیت میں گزار دیے۔ اگر نطشے کی تحلیل نفسی کی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بچپن ہی سے بہت سے نفسیاتی اور ذہنی و عصبی عوارض کا شکار تھا۔


نطشے کی تحریریں اس کے بائی پولر (Bipolar) ہونے کی تصدیق کرتی ہیں۔ خاص طور پر جب وہ بظاہر اعتدال و توازن پر زور دیتے ہوئے دو متضاد انتہاوں کی طرف لڑھک جاتا ہے۔ ا س کی ایسی تحریریں تضادات و تناقضات کا مجموعہ ہیں۔ اس کی طبیعت بچپن ہی سے شدت پسند تھی۔ وہ بارہ بارہ گھنٹے مسلسل مطالعے میں مگن رہتا جس سے وہ اکثر اعصابی اضمحلال کا شکار ہو کر بستر سے لگ جاتا۔ جب اس نے زندگی کے آخری سالوں میں مکمل طور پر ذہنی توازن کھو دیا اس سے قبل دس سال تک اس کا یہ معمول رہا کہ وہ اتنا مطالعہ کرتا کہ اسے کچھ نظر نہ آنے لگتا جس پر اسے مجبوراً کتاب بند کرنا پڑتی، پھر اسے قے اور سر درد کا ایک طویل دورہ پڑتا۔ اس کا مطالعے کا طریقہ بھی نہایت مضطربانہ تھا۔ اس کی انگلیاں کتاب کے صفحات کو پلٹتے ہوئے یا کچھ لکھتے ہوئے ہمیشہ اضطراری کیفیت کا شکار رہتیں۔ وہ پرسکون رہ کر بہت کم ہی کسی کتاب کا مطالعہ کر سکا۔ اس لیے بھی کہ وہ شدید سر درد کا مریض تھا۔ بچپن کے ایام میں وہ بائبل کو پرسکون طریقے سے پڑ ھ سکا تھا یا جوانی کے ایام میں شوپن ہائرکی ـ’’عالم بحیثیت ارادہ‘‘۔ اس کتاب نے اس کے باطن کی بے چینیوں اور متلاطم کیفیات کو پر سکون کرنے میں وقتی مدد کی کیوں کہ اس کتاب کی ایک ایک سطر اسے ترک خواہش اور صبر کی دعوت دے رہی تھی مگر ساتھ ہی ساتھ اس کی قنوطیت میں بھی اضافہ کرتی جا رہی تھی۔ یہ اس کے مزاج کی عجیب خاصیت تھی کہ وہ جسے پسند کرتا تھا اسی کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جاتا تھا۔ وہ پہلے جس بت کی پرستش کرتا اسی کے انہدام میں بھی مصروف ہوجاتا۔ چناں چہ اس نے شوپن ہائر کے عزم للحیات (Will to Live) کا جواب عزم للقوۃ (Will to Power) کی صورت میں تلاش کرہی لیا۔اس نے عزم للقوۃ کا فلسفہ کیوں پیش کیا اس کی کچھ نفسیاتی وجوہات بھی ہیں۔ ان میں سے ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ بچپن میں اپنے والد کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگیا اور گھر میں بہت سی خواتین کے زیر اثر آگیا۔ ان خواتین نے جن کا رجحان مذہب کی طرف بہت زیادہ تھا اسے بہت کم مردوں کے ساتھ بیٹھنے دیا اور اسے بہت سی نسوانی نزاکتوں اور حسیات سے بھر دیاچناں چہ ایک طرح کا نسوانی پن اس کی شخصیت کا حصہ بن گیا۔ یہ ایک خلا تھا جس کو پُر کرنے کے لیے اسے عزم للقوۃ جیسے مردانہ فلسفے میں کشش نظر آئی اور جس نے اسے عورتوں سے متنفر رہنا سکھایا جن کے بارے میں اس کی یہ رائے تھی کہ ان کا ایک ہی کام ہے یا کچن سنبھالنا یا جنگجووں کو بہلانا اور ان کے بچے پالنا۔ اس کا عورتوں سے تنفردراصل اس کی اپنے گھرانے کی مقدس عورتوں کے خلاف بغاوت تھی جنھوں نے اس میں نسوانیت بھردی تھی۔اسی نسوانیت کے ردعمل میں اس نے بڑی بڑی مونچھیں رکھ لی تھیں جس نے اس کے پتلے پتلے خوبصورت ہونٹوں کو چھپایا ہوا تھا۔ وہ تمام عمر خود کو ’’مردانگی کے مروجہ معیار‘‘ تک لانے کے لیے جسمانی، جذباتی اور ذہنی وسائل مہیا کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اسی معیار پہ خود کو پورا نہ اترتے دیکھ کر اس نے شادی نہ کی۔ وہ عورتوں کی صحبت میں جانے سے گھبراتا تھا۔ اس کا ایک بے حد وقتی سا معاشقہ سیلومے کے ساتھ چلا اور نطشے نے اسے شادی کی آفر بھی کی جس نے اس لڑکی نے فقط ایک مذاق سمجھا۔ نطشے کی جنسی زندگی بے حد نا آسودہ تھی۔ اسی ناآسودگی نے عورتوں کے متعلق اس کے متشدد رویے کو جنم دیا۔ شادی کے معاملے میں وہ جنسی تعلق سے زیادہ گفتگو کو اہمیت دیتا نظر آتا ہے۔ وہ دراصل جنسی خلا کو لفظوں سے پر کرنا چاہتا ہے۔ اس کے مندرجہ ذیل اقتباسات کے ذریعے اگر اس کی تحلیل نفسی کی جائے تو یہی نتیجہ اخذ کرنا پڑتا ہے۔


” When entering into a marriage one ought to ask oneself: do you believe you are going to enjoy talking with this woman up into your old age? Everything else is transitory, but most of the time you are together will be devoted to conversation.”


“It is not a lack of love, but a lack of friendship that makes unhappy marriages.”


“Sensuality often makes love grow too quickly. So that the root remains weak and is easy to pull out.”


نطشے کی ماں فرانزسکا اور گھر کی دوسری خواتین عیسائی اخلاقی اقدار کا مرقع تھیں۔ یہ اخلاق عجز و انکسار، تواضع، تحمل و برداشت اور امن و امان جیسی اقدار کو اولیت دیتا ہے۔ نطشے نے بھی ان خواتین کے زیر اثر ان اقدار کو اپنایا۔ چناں چہ وہ بچپن میں ان عیسائی اخلاقی اقدار کا دلدادہ رہا۔ مگر جیسے جیسے اسے اپنے اندر مردانہ خلا کا احساس ہوتا گیا اس نے ان خواتین کے اخلاق سے بھی چڑنا شروع کر دیا۔ اسی دوران اس نے یونانی فلسفہ و ادب کا مطالعہ شروع کر دیااور اسے یونانی اخلاق کے مردانہ خصائص یعنی تہور و دلیری، آزادی، اور قوت و جبروت میں کشش محسوس ہوئی۔ چناں چہ اس نے عیسائی اخلاقی اقدار کی پرزور نفی کرتے ہوئے یونانی اخلاقی اقدارکا علم بلند کرنا اور یہ کہنا شروع کردیا کہ قوت خیر ہے اور ضعف شر۔ اس نے آقا اور غلام کی اخلاقیات کو الگ الگ کرکے دکھایا اور مسکینی و دلگیری اور عجز و انکسار کو غلامانہ اخلاق سے تعبیر کرتے ہوئے اسے سرے سے اخلاق ماننے ہی سے انکار کردیا۔ یہ دراصل اپنے جسمانی اور عصبی اضمحلال پہ قابو پانے کی ایک کوشش کہی جا سکتی ہے۔


نطشے کا باپ ایک لوتھری مبلغ تھا اور اکثر تبلیغی دوروں پہ رہتا تھا۔اسکے حسب و نسب میں عیسائی پادریوں اور مبلغین کا طویل سلسلہ ہے۔اس کے نانا نے عیسائیت کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے ایک کتاب بھی لکھی۔ چنانچہ نطشے کے گھرانے کا ماحول مکمل طور پر مذہبی تھا۔ وہ عیسائی اخلاق پہ اس لیے زیادہ حملے کرتا ہے کہ اس اخلاق کی تاثیر اس کی روح میں دور تک اتری ہوئی تھی۔ وہ بائی پولر نقائص کی وجہ سے بباطن جتنا عیسائی اخلاقیات کا مرقع تھا بظاہر اسی قدر اس کے خلاف نظر آنا چاہتا تھا۔ وہ اپنے افکار میں جس قدر پر شکوہ اور پر جلال نظر آتا ہے اپنی ذاتی زندگی میں اتنا ہی متواضع اور منکسرالمزاج نظر آتا ہے اوروہ اپنے افکار میں جتنا مبارزت طلب ہے اپنی ذاتی زندگی میں اتنا ہی پر امن نظر آتا ہے۔اسے ایک بگڑا ہوا ولی کہا جاسکتا ہے۔ وہ گناہ گار بننے کی تمام تر آرزومندیوں کے باوجود بھی زیادہ تر ایک نیک، معصوم اور باعصمت شخص ہی رہا۔ چناں چہ اس نے انسانی روح کے جو تین درجات بتائے ہیں ان میں پہلا اونٹ کا دوسرا شیر کا اور تیسرا بچے کا ہے۔ یعنی انسانی روح کی ترقی کی انتہا بچے کی معصومیت ہے۔ نطشے کی اپنی زندگی میں یہ تیسرا درجہ غالب نظر آتا ہے۔۔وہ بچپن میں اپنے ان ہمجولیوں سے نفرت کرتا تھا جو لڑائی جھگڑا کرتے، پرندوں کے گھونسلوں کو تاراج کرتے یا جانوروں کو زدوکوب کرتے۔ یہی فلسفی جو پرندے کے گھونسلے سے اس کا بچہ گرتا ہوا نہیں دیکھ سکتا،جنگ کا درس دیتا ہے۔ نطشے کے مطلق العنان فلسفے کے پس پردہ اس کا مادر کمپلیکس اور عز م الفوق کی طفلانہ صور ت گری متحرک نظر آتی ہے۔ وہ خدا کی موت کا اعلان کرتاہے تاکہ فوق البشر زندہ رہے۔ اس کا باپ بھی بچپن میں وفات پا گیا تھا۔باپ کو اپنی زندگی میں نہ پا کر اس کا اعتقاد باپ کے خدا سے بھی اٹھ گیا۔ اس کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر وہ باپ کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے تو خدا کے بغیر بھی رہ سکتا ہے۔ مگر وہ دم آخر تک نہ باپ کو بھول سکا اور نہ خدا کو۔ خدا سے اس کا تنفر دراصل بباطن خدا سے اس کی محبت ہے۔ نطشے کی نسائی روح نے فوق البشر (Ubermensch) میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کی۔فوق البشر کی صورت میں وہ ایک نئے انسان کی تخلیق چاہتا تھا۔ اس کے ذریعے اپنے لا شعور میں موجود محرومیوں کا ازالہ چاہتا تھا۔ وہ اس کے تصور سے اپنے پژ مردہ اعصاب کو نئی زندگی دینا چاہتا تھااور اپنی سردردی سے نجات چاہتا تھا جو بچپن سے اس کے ساتھ ایک روگ بن کر چمٹی ہوئی تھی اور جس نے اسے کبھی چین نہ لینے دیا تھا۔


نطشے تئیس سال کی عمر میں فوج میں جبراً بھرتی کر لیا گیا۔ اگرچہ اس کی صحت اس قابل نہ تھی کہ وہ سپاہیانہ زندگی کی سختیاں برداشت کر سکتا۔ دوران تربیت وہ گھوڑے سے گر پڑا اور اس کے سینے پہ چوٹ لگی جس کی وجہ سے اسے فوج سے نجات حاصل ہوئی۔ اس چوٹ کے اثرات تاعمر اس کے جسم اور نفسیات پہ رہے۔ پھر وہ باسلے کی یونیورسٹی میں قدیم لسانیات کا پروفیسر مقرر ہوگیا۔ اگر اس کی طبعی نسائی حساسیت میں کوئی کمی رہ گئی تھی وہ اس پروفیسری نے پوری کر دی۔ اس ’’غیر بہادرانہ‘‘ کام نے اسے سخت اکتاہٹ میں مبتلا کردیاجس کا مداوا اس نے واگنر کی موسیقی میں پناہ لے کر کرنے کی کوشش کی۔ 1870میں جب فرانس اور جرمنی کی جنگ چھڑی تو وہ جنگ کی آواز پہ لبیک کہے بغیر نہ رہ سکا اور جب وہ میدان جنگ کی طرف جا رہا تھا تو فرینکفرٹ کے مقام پر اس نے ایک آرٹلری کے دستے کو دیکھا اور اسے یہ محسوس ہوا کہ ارادہ حالت امن میں نہیں بلکہ حالت جنگ میں اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے۔۔ جیسا کہ ول ڈیوراں نے بھی اس کا حوالہ دیا ہے۔ اس کے بقول:


“I felt for the first time that the strongest and highest Will to Life does not find expression in a miserable struggle for existence, but in a Will-to-War, a Will-to-Overpower.”


چناں چہ نطشے کے نزدیک خیر دراصل وہ ہے جو فتح یاب ہو جائے اور شر وہ ہے جسے شکست کی دھول چاٹنا پڑے۔ مغلوب نطشے ہر صورت غالب کے ساتھ کھڑا رہنا چاہتا ہے۔ اس نے میدان جنگ کا رخ ضرور کیا مگر میدان جنگ کے خونی مناظر کی تاب نہ لا سکا۔ ان مناظر نے اس کی نسائی روح کو اور بھی زیادہ عصبی کردیا جو ایک زرہ بکتر میں پھڑ پھڑا رہی تھی۔اس مردانہ کاوش اور اس کی شخصیت کے ظاہر و باطن کے تضاد نے اسے مزید مریض بنا دیا۔ اسے قوت کا فلسفہ کشش کرتا تھا مگر اس کی اپنی شخصیت کا ضعف اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا تھا۔ یہ فلسفہ اس کے رگ و پے سے بلند نہ ہوا تھا بلکہ اس کی شخصیت کے خلا کو پر کرنے کے لیے سامنے آیا تھا۔ وہ باطنی لحاظ سے جمالی تھا، جلالی نہ تھا مگر اس کے ردعمل میں وہ جلالی بننے کی کوشش کرتا تھا اور دائیونیسائی (Dionysian) طرز فکر کی حمایت کرتا تھا۔ چناں چہ نہ وہ قنوطی بن سکا نہ رجائی بلکہ اس نے اس کے درمیان ایک رستہ نکالنے کی کوشش کی اور وہ تھا دائیونیسائی قنوطیت (Dionysian Pessimism) جیسا کہ اس نے اپنی کتاب The Gay Science میں لکھا ہے:


“That there still could be an altogether different kind of pessimism,…this premonition and vision belongs to me as inseparable from me, as my proprium and ipssisimum…I call this pessimism of the future_for it comes! I see it coming!_Dionysian pessimism”


نطشے کوایک فلسفی کی طرح کا ذہنی ٹھہراو، توازن، اور سنجیدہ انداز کبھی میسر نہ آیا۔ اس کا عصبی خلل اس کی تحریروں میں جھلکتا صاف دکھائی دیتا ہے۔ یہ بات سب سے زیادہ نطشے ہی پہ صادق آتی ہے کہ اس کا زیادہ تر فلسفہ اس کے عصبی و نفسی اختلال کا مظہر ہے۔


تحریر اعجازالحق اعجاز