گذشتہ چند عشروں سے پوری دنیا جنسی مسائل اور گفتگو میں الجھی ہوئی ہے۔ اس بحث و تمحیص نے ایک واضح خطِ امتیاز کھینچ رکھاہے ۔ ایک جانب مغربی ممالک ہیں جہاں جنسیت کو انسان کا ذاتی معاملہ قرار دے کر مذہبی اور سماجی پابندیوں سے آزاد کر دیا گیاہے،اور دوسری طرف مشرق کی اپنی قدیم روایات اور اخلاقی تعلیمات ہیں جو لوگوں کو کھُل کھیلنے کی اجازت نہیں دیتیں۔تاہم اس سے یہ اخذ کرنا کہ مشرقی دنیا اس معاملے سے بے نیاز یا نقطۂ معکوس پر کھڑی ہے،خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔
آزاد روی کے سیلابِ بلا خیز کی ابتدا مغرب سے ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یورپ نے تو اس کا آسان حل نکالا کہ تمام معاملات کو شخصی اور ذاتی قرار دے کرمعاشرے کو اپنی ذمہ داریوں سے آزاد کر دیا۔ اس حل کے پیچھے فی الحقیقت صدیوں پرانا وہ رویّہ تھا جس کے تحت ’انفرادیت‘ کو ہمیشہ ’اجتماعیت‘ پر فوقیت دی گئی۔ اس کے برعکس مشرق میں دورِ قدیم ہی سے اجتماعیت کو اوّلیت دی گئی ہے۔ اسی وجہ سے فرد کو اپنے قول و فعل کے اظہار سے قبل اجتماعی، یعنی معاشرتی سوچ اور ردِ عمل کو مدِ نظر رکھنا پڑتا ہے۔
پوری دنیا کے سنجیدہ مزاج اور موجودہ صورتِ حال سے متفکر لوگ اس نقطۂ نظر پر متفق ہیں کہ ہماری اخلاقی زبوں حالی اور جنسی مسائل میں تیزی سے اضافے کی اہم ترین وجہ مذہب سے دُوری ہے۔ اس کے برعکس ایک طبقے کی راے میں جنسیت انسانی زندگی کا انتہائی قوی پہلو ہے،اور مذہب اس معاملے میں یا تو خاموش ہے، یا تغیر پذیرحالات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔مذاہب بالخصوص یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کسی نے نہ تو سکوت اختیار کیا ہے، اور نہ ماوراے فطرت پابندیاں عائد کی ہیں۔ ان مذاہب میں جنسی تقاضوں کو فطرتِ انسانی سمجھتے ہوئے راہِ عمل متعین کی گئی ہے۔
٭یہودیت
یہودیت کے جائزے میں ’قوانینِ موسوی‘ اور بعد ازاں ربّیوں کی تعلیمات میں فرق ملحوظِ خاطر رکھنا ہو گا۔ یہودی قوانین توریت ، تالمود اور دیگر علماے یہود کے مجموعے کا نام ہے جسے حضرت موسٰی ؑ کے احکام سمجھ لیا گیا ہے، حالانکہ ایک بنیادی قانون ہے، اور دوسرا تشریحی۔
توریت کی کتاب ’پیدایش‘ میں آدم کی پسلی سے عورت کی تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد مرد اور عورت کی قربت اور ازدواجی زندگی کا یوں بیان ہوا ہے کہ ’’ اسی لیے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر اپنی بیوی کا ہو جاتا ہے، اور وہ دونوں ایک ہی جسم بن جاتے ہیں‘‘ ( پیدایش ۲ : ۱۸۔ ۲۴)۔ اب اس میں اشتباہ کی گنجایش نہیں کہ دونوں کا ایک جسم ہو جانا اپنے اندر کیا مفہوم رکھتا ہے ۔
کتابِ خروج میں ہر مرد و زن کو بدکاری سے اجتناب کرنے، دوسرے لوگوں کی چیزیں اور پڑوسی کی بیوی ، اس کے خادم اور خادماؤں کو لینے کی خواہش سے منع کیا گیاہے ( خروج ۲۰ : ۱۴، ۱۷)۔ گویا اس میں دوسروں کے مال و اسباب کی طمع اور پڑوسی کی بیوی کے ساتھ جنسی تعلقات کی خواہش ممنوع ہے۔ ’پڑوسی کی بیوی‘ محدود مفہوم میں نہیں بلکہ وسیع تر معنوں کی حامل علامت ہے کہ کسی بھی غیر عورت کے بارے میں ایسے خیالات اور خواہش کو دل میں لاناخدا کی نگاہ میں اسفل فعل ہے۔ علاوہ ازیں، دوسری شادی کرنے کے بعدخاوند اپنی پہلی بیوی کے تین حقوق کی ادایگی کا پابند ہے۔ کھانا اور لباس دینے کے بعد اس کا تیسرا فرض یہ ہے کہ وہ بیوی کو ’’مسلسل وہ چیزیں دیتا رہے جنھیں حاصل کرنے کا اختیار شادی سے ملا ہے‘‘ ( خروج ۲۱ : ۱۰)۔ یہ الفاظ بیوی کے جنسی حقوق کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اور اس میں یہ حقیقت مضمر ہے کہ: بیوی کو ان حقوق سے محروم رکھنا اسے اپنے فطری تقاضوں کی تسکین کا رخ موڑنے کا جواز بن سکتا ہے۔ تالمود میں Nashimیعنی ’عورت‘ کے عنوان کے تحت بیوی کی جنسی آسودگی سے متعلق قواعد و ضوابط بیان کیے گئے ہیں۔ اس میں خاوند کے پیشے کو نگاہ میں رکھتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ وہ ہر شب اپنی بیوی کے ساتھ سوئے، مگر اس استثنیٰ کے ساتھ کہ شتر بان ہر ۳۰دن میں کم از کم ایک مرتبہ اور جہاز راں چھے ماہ میں ایک بار ضرور اپنی بیوی سے قربت کرے۔ اس حکم یا نصیحت میں دماغ سوزی کی ضرورت نہیں کیونکہ یہاں خاوند کی مصروفیت کو مدِ نظر رکھا گیا ہے۔
توریت کی کتابِ احبار کے اٹھارھویں باب میں جنسی معاملات سے متعلق قوانین اور ضوابط کا تفصیلی ذکرہے جو خداکی طرف سے بنی اسرائیل کے لیے حضرت موسٰی ؑ کو دیے گئے تھے۔ یہاں ایک بار پھر پڑوسی کی بیوی کے ساتھ جنسی اختلاط سے منع کیا گیا ہے(کتابِ استثناء ۵ :۲۱میں اس حکم کا پھر اعادہ کیا گیاہے)۔ صرف یہی نہیں، بلکہ دائرۂ حُرمت میں آنے والے تمام رشتوں کا بیان بھی ہے ۔ اسی باب میں ہم جنسیت کو ’ بھیانک گناہ‘ کہنے کے علاوہ کسی جانور کے ساتھ مرد یا عورت کے جنسی تعلق سے بھی منع کیا گیا ہے۔اوّل الذکر عملِ قبیح کا ذکر قومِ لوط کے ضمن میں قدرے تفصیل سے آیا ہے۔ اس کو محض سرسری نگاہ سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ صدیوں قبل ایک محدود علاقے یا قوم میں اس کا ارتکاب آج کے مہذب ترین دَور میں ہم جنس پرستی کی تبلیغ، اجازت اور ’انسانی حقوق‘ کی علَم برداری کے تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ خداے علیم و خبیر نے پہلے ہی نوعِ انساں کو متنبہ کر دیا تھا۔ یقیناًاس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ مستقبل میں اس کا ارتکاب روز افزوں بھی ہو گا اور باعثِ ندامت ہی نہیں، بلکہ اس کو قانونی تحفظ بھی مل جائے گا۔
کتاب استثناء کے باب ۲۲میں شادی سے متعلق قوانین میں منجملہ دیگر، شبِ عروسی اگر خاوند اپنی بیوی کو باکرہ نہ پائے اور عورت کے والدین بھی اس کے کنوارے پن کاکوئی ثبوت نہ دے سکیں، تو لڑکی کو سنگسار کرنے کا حکم ہے۔ رجم کا یہی حکم زنا بالرضا کے مرتکب مرد اور عورت کے لیے بھی ہے ۔ کنواری اور ایسی لڑکی جس کی کسی کے ساتھ نسبت نہ ٹھیری ہو، کے ساتھ زنا بالجبر کی سزا میں مرد کو جرمانہ اور اس لڑکی کے ساتھ شادی اور تاحیات طلاق نہ دینے کی پابندی ہے۔ شادی شدہ یا کنواری مگر نسبت شدہ لڑکی کے ساتھ زبردستی جنسی اختلاط کرنے والے مرد کی سزا قتل ہے۔ عورت کو اس گمان میں معاف کر دیا گیا ہے کہ اس نے شاید شور کیا ہو گا مگر کوئی اس کی مدد کو نہ آیا ہو۔
تالمود میں جنسی جرائم کے ارتکاب پر مختلف سزائیں بیان کی گئی ہیں۔ سگی یاسوتیلی ماں اور بہو کے ساتھ جسمانی تعلق، ہم جنسیت اورجانوروں سے اختلاط پر سر قلم کرنے ، مجرم کو لٹا کر اس کے گلے میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیلنے یا گلا گھونٹ کر مار ڈالنے کی سزائیں مقرر ہیں۔ ان سب قوانین سے معلوم ہوتا ہے کہ جنسی بے راہ روی کی بیخ کنی کے لیے انتہائی قدم اٹھانا بعض اوقات لازم ہو جاتا ہے۔
مرد عورت کوجانوروں کے ساتھ جنسی اختلاط سے ممانعت کوبھی جدید دور کی آزاد خیالی اور انتہائی بے راہ روی کے پسِ منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آج کی ’روشن خیال‘ اور مادر پدر آزاد دنیا میں اس قبیح فعل کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔
٭عیسائیت
بنی اسرائیل جلد ہی قوانینِ موسوی کو فراموش کرکے توریت کی من چاہی تاویلات میں اُلجھ گئے۔مصر سے خروج کے وقت وہ جن عقائد کو اپنے ساتھ لائے انھوں نے پھر سے لوگوں کی زندگیوں کو آلودہ کرنا شروع کر دیا۔ عہد نامہ عتیق میں شامل متعدد کتابوں میں اس کا ذکر موجود ہے۔ علاوہ ازیں، مصری فرعونیت اور رومی شہنشاہیت کا دائرہ وسیع تر ہو چکا تھا جس کی وجہ سے یہودیوں میں ایک خداکی عبادت کا عقیدہ متزلزل ہو رہا تھا۔فسق و فجور کے دیگر عوارض ان کے روح و بدن کو متاثر کر رہے تھے۔اس صورتِ حال میں حضرت عیسیٰ کی آمد سنجیدہ مزاج اور مذہبی رجحان کے حاملین کے لیے تقویت کا باعث ہونی چاہیے تھی مگر ایسا نہ ہو سکا۔
حضرت عیسٰی ؑ کی تعلیمات ان کے حواریوں نے قلم بند کیں۔ سب سے پہلے ضبطِ تحریر میں آنے والی مرقس کی انجیل پہلی صدی عیسوی کے چھٹے یا ساتویں عشرے میں سامنے آئی۔ باقی اناجیل بعد میں لکھی گئیں۔ بعد ازاں پولس کی تعلیمات کو بھی عیسائیت کے بنیادی قوانین کی حیثیت حاصل ہوگئی۔
مرقس اور لوقا کی اناجیل میں طلاق کے بارے میں حضرت عیسیٰ کے خیالات دو اہم نکات کی جانب اشارہ کرتے ہیں، یعنی میاں بیوی کا دائمی بندھن، اور طلاق کے بعد شادی کی صورت میں انھیں زنا کا مرتکب قراردینا ( مرقس کی انجیل ۱۰:۱۰۔۱۲، اور لوقا کی انجیل ۱۶ :۱۸)۔ اوّل الذکر کے مطابق خاوند یا بیوی کی وفات تک شادی ایک ناقابلِ تنسیخ معاہدہ ہے ۔ گویا خاندان کا وجود تسلیم شدہ حقیقت ہے، اور انسانی زندگی میں رہبانیت کو اہمیت نہیں دی گئی۔ دوسرا نکتہ زنا کی مذمت ہے کہ طلاق کے بعددوسری شادی گویامتعلقہ فریق کا ارتکابِ زنا ہے۔ بالفاظِ دیگر ، زنا کو ایک انتہائی ناپسندیدہ فعل کہا گیا ہے۔ ہم پولس کے خیالات اور تعلیمات میں شامل قوانین اور ضوابط کو کسی طور بھی الہامی قرار نہیں دے سکتے لیکن عیسائی دنیا انھیں عیسائیت کا جزو سمجھتی ہے۔
پولس کے مکتوبات میں تجرّد کی مدح سرائی اورشادی شدہ زندگی کے بارے میں نصائح دومتضاد سوچوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ تاہم اس کے مکتوبات سے پاک باز زندگی گزارنے ، فواحش اور ارتکابِ زنا سے اجتناب کے بارے میں آگاہی ہوتی ہے۔ عبرانیوں کے نام خط( ۱۳:۴) میں وہ تلقین کرتا ہے کہ ’’شادی کا بستر پاک رکھنا چاہیے۔ خداہی ان لوگوں کا فیصلہ کرے گا جو حرام کاری کا گناہ اور زنا کرتے ہیں‘‘۔ ایک اور خط میں وہ لوگوں کو حرام کاری کرنے والوں کی صحبت سے پرہیز کا مشورہ دیتا ہے کہ ’’ ایسے شخص کے ساتھ کھانا بھی نہیں کھانا چاہیے‘‘ (۱۔کرنتھیوں کے نام خط، ۵ : ۹۔۱۱)۔ اسی مکتوب میں حرام کاری سے اجتناب کرنے کی باربار تلقین کی گئی ہے ( ۶ : ۹، ۱۶، ۱۸، اور ۷ :۱۔۴)۔گلتیوں کو عیسائیت کی تبلیغ کرتے ہوئے وہ جنسی گناہ، برے جذبات اور لالچ کو بت پرستی کے برابر قرار دیتا ہے کہ ’’ایسے گناہ کے اعمال پر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے‘‘۔ ( ۳ : ۵۔ ۷)
کلیسائی تعلیمات میں جسمانی تعلقات کو بہ نگاہِ حقارت دیکھا گیا ۔ اسی وجہ سے شادی کے بجاے تجرد کی زندگی کو اہمیت دی جانے لگی ۔ اس ضمن میں متعدد مذہبی پیشواؤں، بشمول سینٹ پال، کا حوالہ دیا جا سکتا ہے، جنھوں نے عیسائیوں کو مجرد زندگی گزارنے کا مشور دیاکہ ’’ جو لوگ شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں وہ شیطان کے کام کی تکمیل کرتے ہیں‘‘۔ایک روایت کے مطابق حضرت عیسٰی ؑ سے استفسار کیا گیاکہ موت کب تک فرماں روائی کرے گی؟ آپ کا جواب تھا کہ جب تک عورتیں بچوں کو جنم دیتی رہیں گی۔مزید فرمایا کہ جب تک کہ تم لباسِ خجالت اپنے پاؤں تلے نہیں روندتے، عورت مرد کا امتیاز ختم نہیں ہو جاتا،اور دونوں میں یک جائی نہیں ہو جاتی، موت تمھارے سروں پرمنڈلاتی رہے گی۔ حضرت عیسٰی ؑ سے یہ بات بھی منسوب کی گئی ہے کہ’ میں نسوانی کاموں کو ختم کرنے آیا ہوں، یعنی شہوت اور عملِ پیدایش۔(BenWhiterongten III, Women in the Earliest Churches, Cambridge UniversityPress, Cambridge, p 190)۔
یہی وجہ ہے کہ عیسائیت میں رہبانیت کو زندگی کی معراج سمجھاگیا ہے۔ ایسی تعلیمات ہی کے تحت کلیسا نے مذہبی امورکی بجاآوری کے لیے ہر عورت کو اجازت نہیں دی تھی بلکہ وہ بیوائیں جو راہبانہ زندگی گزارنے کی خواہش مند تھیں اور وہ کنواری لڑکیاں جنھوں نے تا عمر شادی نہ کرنے کا عہد کیا ہوا تھا، کلیسائی کاموں کی اہل تھیں۔ان کا قیام چونکہ کلیسا ہی میں تھا اس لیے بتدریج ایک غیر اخلاقی صورتِ حال نے جنم لیا۔
جی ایچ ٹاورڈ (G. H. Tavard) نے لکھا ہے کہ کلیسا کے غیر شادی شدہ منصب داروں اور رہنماؤں نے نہ صرف دوشیزاؤں اور بیواؤں کے گھروں میں رہنا شروع کر دیا تھا بلکہ ان کے ساتھ ایک ہی بستر پر بھی سونے لگے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اکٹھے سونے کے باوجودان کے مابین کسی قسم کے جنسی تعلقات نہیں تھے۔انطاکیہ کے بشپ کے گھر میں تو متعدد ایسی عورتیں موجود تھیں اور اسی وجہ سے کلیسا کی انطاکیہ کونسل نے اپنے اجلاس منعقدہ ۲۶۸ء میں اسے عہدے سے معزول کر دیاکیونکہ ضبطِ نفس اور اجتنابِ اختلاط کے باوصف لغزش کا شائبہ بہر حال پایا جاتا تھا۔ اسے ناپسندیدہ سمجھنے کے باوجود بھی اکٹھے رہنے اور سونے پر کوئی پابندی نہ لگائی گئی۔ حتیٰ کہ ۳۲۵ء میں ہونے والی اہم اور مشہور نائسیا (Nicea) کونسل میں بھی پابندی کا کوئی فیصلہ نہ ہوا اور یوں اس فعل کے ارتکاب کو جاری رکھنے کا در کھلا رہا۔(بحوالہ وائٹرنگٹن، ص ۲۰۴)
ان تعلیمات کے برعکس عیسائیوں کے کارپوکریٹی (Carpocratians) فرقے کا فلسفہ آزادخیالی پر مبنی تھا۔ا ن لوگوں کا عقیدہ تھا کہ چونکہ انسان صرف اسی دنیا کے لیے ہے، اس لیے دنیاوی زندگی میں لذات جسمانی اور شہوت رانی پر کوئی پابندی نہیں۔ اور یہ کہ خدا کے پاس لوٹنے سے قبل روح کو مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، لہٰذا لازم ہے کہ ہر قسم کی آزاد روی ، سرمستی اور اختلاطِ بدنی سے لطف اٹھا لیا جائے تاکہ انھیں حیاتِ نو کی ضرورت ہی نہ رہے۔
گویا عیسائیت میں توازن کے بجاے دو انتہاؤں پر زور دیا گیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی لوگوں کو موقع ملا انھوں نے شرم و حیا کے ہربند کو توڑ کر مادر پدر برہنگی اور جسمانی لذائذ کی راہ اختیار کی۔ آج صرف امریکا میں ہر شخص اوسطاً آٹھ افراد کے ساتھ زنا کا مرتکب ہورہاہے۔
٭اسلامی تعلیمات
اسلامی تعلیمات فی الحقیقت گذشتہ الہامی قوانین کا تسلسل بھی ہیں اور حرفِ انتہا بھی۔ اوّل الذکر کی وضاحت خود اللہ تعالیٰ نے فرما دی کہ :’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے‘‘۔(المائدہ ۵: ۳)
اس میں انتہائی مختصر مگر جامع الفاظ میں بیان کر دیا گیا ہے کہ آج کے بعد قوانین میں کوئی رد و بدل نہیں ہوگا اور یہ کہ انسان زندگی گزارنے کے لیے اپنی مرضی کا نہیں، بلکہ ان اصولوں اور امرو نہی کے تابع ہوگا جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ اس لحاظ سے جنسی معاملات میں بھی ہم انھی حدود و قیود کے پابندہیں جو قرآن میں واضح کر دیے گئے ہیں۔ اپنی رضا و منشا، خوشی، مسرت یا حالاتِ زمانہ کے مطابق ان میں کسی قسم کی کمی بیشی کا تصور ہی نہیں۔
حکمِ الٰہی ہے کہ ’’ زنا کے پاس بھی نہ جانا کہ وہ بڑی بے حیائی اور بہت ہی بری راہ ہے‘‘ (بنی اسرائیل۱۷: ۳۲)۔ قرآن نے وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنآی کے الفاظ استعمال کرکے تمام راستوں کو بند کر دیا ہے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ ’’ زنا مت کرو‘‘ ، بلکہ حکم ہے کہ ’’ اس کے پاس بھی نہ جاؤ‘‘، یعنی ہر وہ کام ، صحبت اور راہ جو انسان کو بلا ارادہ یا ارادتاً اس جانب لے جانے والی ہو جہاں زنا کے ارتکاب، یا کم از کم سوچ، خواہش یا منظر کا معمولی سا بھی احتمال ہو، اس سے گریز کرو۔ گویا یہ ارتکابِ زنا کی بنیاد ہے۔ جب انسان پہلا قدم ہی رکھنے سے مجتنب ہو گا تو یقیناًوہ اپنے اگلے ارادوں پر بھی قابو پانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اسی فرمانِ الٰہی میں اسے ’’بڑی بے حیائی اور بہت بُری راہ‘‘ کہہ کر ذہن کو دعوتِ فکر دی گئی ہے کہ یہ فعل محض تلذذ اور خوش وقتی کے لیے نہیں بلکہ بے حیائی اس کا لازمی عنصر ہے ، اور بری راہ اس لیے کہ کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ اس فعلِ بد کا صرف ایک بار ہی ارتکاب کرنے کے بعد تائب ہو جائے گا۔ایک مرتبہ ملوّث ہونے کے بعدوہ گویا ایک راستے پر چل پڑا ہے جہاں اس کے قدم اسے آگے ہی آگے لیے جاتے ہیں۔
سورۂ فرقان میں کہا گیا ہے، ’’ اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہیں پکارتے اور جس جانور کو مارنااللہ نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے، مگر جائز طریقے سے، اور بدکاری نہیں کرتے، اور جو یہ کام کرے گا سخت گناہ میں مبتلا ہو گا‘‘ ( الفرقان ۲۵: ۶۸)۔یہاں بظاہر بدکاری کو انتہائی برا فعل اور سخت گناہ کہا گیا ہے۔ شرک اور جانوروں کو ممنوعہ طریقے سے قتل (ذبح) کرنے کے ساتھ ہی بدکاری کا ذکر کرنا بذاتِ خود اس امر کا اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں افعالِ بد کا ارتکاب شرک وغیرہ سے چھوٹا جرم نہیں۔ یہ ایک ایسی تنبیہ ہے جس پر معمولی سا غور بھی انسان پر لرزہ طاری کردیتا ہے۔ اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بدکاری کس حد تک قابلِ اجتناب و نفرین ہے۔
زنا اور شرم گاہوں کو ظاہر کرنا لازم و ملزوم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس نکتے پر خاص طور سے زور دیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں، کچھ شک نہیں کہ ان کے لیے اللہ نے بخشش اور اجرِ عظیم تیار کر رکھا ہے‘‘ (احزاب ۳۳:۳۵)۔ اسی طرح سورۂ مومنون میں ایمان لانے والے کو فلاح کی بشارت دی گئی ہے۔ صرف ایمان باللسان نہیں بلکہ ان لوگوں کو جو ’’ اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں، لغویات سے دور رہتے ہیں، زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سواے اپنی بیویوں اور ان عورتوں کے جو ان کی ملِکِ یمین میں ہوں کہ ان پر وہ قابلِ ملامت نہیں ہیں، البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں‘‘۔ (المومنون ۲۳: ۱۔۷)
قرآن نے انسان کو احسن و بامقصد زندگی گزارنے کے زریں اصولوں سے شناسا کیا ہے۔ ہر حکم اور اصول کو اس کی اہمیت کے اعتبار سے بتکرار بیان کیا گیا ہے۔ مذکورہ بالا نکتہ چونکہ حیاتِ انسانی میں دور رس نتائج کا حامل ہے اس لیے اسے صاف صاف الفاظ میں واضح کیا جا رہا ہے۔ سورۂ نور میں فرمایا: ’’ اے نبیؐ ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں …. اور اے نبیؐ ! مومن عورتوں سے کہہ دوکہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود ظاہر ہوجائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رکھیں ….. وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہو، اس کا لوگوں کو علم ہو جائے‘‘۔ (النور ۲۴: ۳۰۔۳۱)
ان آیات میں غضِ بصر، شرم گاہوں کی حفاظت، عورتوں کا اپنے سینوں پر آنچل ڈالنا، زینتوں کو نامحرموں سے چھپانا اور پاؤں کو اس غرض سے زمین پر مارنا کہ پوشیدہ زینتوں (یعنی پائل، جھانجھر وغیرہ) کی آواز دوسروں کے کان میں جائے، سب ہی ممنوعات میں شامل ہے۔ غور کیا جائے تو اس میں کڑی سے کڑی ملتی جاتی ہے ۔ ہر دانستہ یا غیر دانستہ فعل خیالاتِ بد، ہیجان اور ژولیدہ فکری کی راہ سے ہوتا ہوا نفسانی خواہش، اور مآل کار زنا تک جا پہنچتا ہے۔ ان دو آیات میں زنا سے بچنے کا حکم دیا ہے تو ساتھ ہی اس سے مجتنب رہنے کی راہ بھی دکھا دی ہے۔ امام غزالی خواہشاتِ جماع اور بدکاری کے بیان میں نصیحت کرتے ہیں کہ ’’ نا محرم عورتوں کو نہ دیکھے ۔ اگر کسی پر اتفاقاً نگاہ پڑ جائے تو دوبارہ احتیاط کرے ورنہ پھر بہت مشکل ہو گا۔نفسِ شہوت اس معاملے میں قطعی حیوانوں کی طرح ہے کہ پہلے پہلے تو اس کو جس طرح چاہو سدھا سکتے ہو، اور اگر اس میں کوئی ہٹ پیدا ہو جائے تو پھر قابو سے باہر ہو جائے گا۔ لہٰذا اپنی آنکھ کو محفوظ رکھو ‘‘ ۔(کیمیاے سعادت، مترجم: نائب نقوی، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ص۴۲۶۔۴۲۷)
اللہ تعالیٰ نے جب ا نسان کی جنسی طلب و خواہش کی تکمیل کے لیے ایک جائز راستہ مقرر کیا ہے تو اس سے تجاوز کرنے پروہ قابلِ تعزیر بھی ہے۔’’ زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو، اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہواگر تم اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ اور ان کو سزا دیتے وقت اہلِ ایمان کی ایک جماعت موجود ہو‘‘ (النور۲۴: ۲)۔ایک اور جگہ فرمایا ہے کہ ’’ تمھاری عورتوں میں سے جو بدکاری کی مرتکب ہوں ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو، اور اگر چار آدمی گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں بند رکھویہاں تک کہ انھیں موت آ جائے یا اللہ ان کے لیے کوئی راستہ نکال دے۔ اور تم میں سے جو اس فعل کا ارتکاب کریں، ان دونوں کو تکلیف دو، پھر اگر وہ توبہ کریں، اور اپنی اصلاح کرلیں تو انھیں چھوڑ دو‘‘۔ (النساء ۴: ۱۵۔۱۶)
مفسرین کے مطابق سورۂ نساء میں بیان کی گئی سزا ابتدائی احکام میں سے ہے جب ابھی اسلامی معاشرہ تشکیل پا رہا تھا، جب کہ سورۂ نور میں سزاؤں کو زیادہ شدت سے نافذ کرنے کا حکم ہے۔ ان معاملات میں معمولی سی رعایت، نیم دلی یا گنجایش سے حالات کبھی بھی قابو میں نہیں رہتے۔ اس کے ایک نہیں، متعدد نمونے ہمیں تاریخ کے مختلف اَدوا ر میں اور اپنے ارد گرد ملتے ہیں ۔
یہیں پر بر سبیلِ تذکرہ تعددِ ازواج کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ معاشرتی، سماجی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے اللہ نے مرد کے لیے چار شادیوں تک کی اجازت دی ہے، مگر اسے عدل سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جنسی تقاضوں کے پیش نظر بھی اس کی افادیت تسلیم شدہ ہے کہ مرد عورت کو بدکاری اور حرام کاری سے بچنے کے لیے ایک جائز راستہ دکھایا گیا ہے۔ ، اللہ کی نظر میں پسندیدہ راہ تو پرہیزگاری اور ضبطِ نفس ہے، اور اگر انسان خود پر قابو نہ رکھ سکے توبجاے اس کے کہ وہ ارتکابِ زنا کر بیٹھیں، شادی کرکے حرام کو حلال میں بدل لیں۔
اسلام میں تجرد کی زندگی کو سراہا نہیں گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ نکاح میری سنت ہے۔ اس کا مقصد ہی یہی ہے کہ مجرد زندگی میں انسان کے بھٹک جانے کا بہت حد تک امکان پایا جاتا ہے۔ قرآن اور احادیث میں ضبطِ نفس کا ذکر تو ضرور ہے مگر ان معنوں میں نہیں کہ انسان جنسی فعل کو ناجائز سمجھے یا اسے برا جان کر تائب ہو جائے۔ اسلام شادی اور جنسی فعل کو جائزقرار دیتا ہے مگر اس وقت تک اپنے آپ کو فواحشات اور اعمالِ بد سے بچائے رکھنے کا حکم بھی دیتا ہے۔
امام غزالی نے لکھا ہے کہ نکاح کی فضیلت عملِ بد سے بچنے اور فساد سے علیحدہ رہنے کے باعث ہے۔ اس لیے کہ آدمی کے دین کو فساد سے دوچار کرنے والی چیزیں اکثر شرم گاہ اور پیٹ ہی ہوتی ہیں، اور شادی کرنے سے وہ ایک آفت سے بچ جاتا ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ نکاح سے صرف دوچیزیں روکتی ہیں، یا عاجز ہونا یا بدکار ہونا۔ حضرت ابن عباسؓ کے مطابق عابد کی عبادت پوری نہیں ہوتی جب تک کہ شادی نہ کر لے۔بقول امام غزالی ،نکاح والے کی فضیلت مجرد پر ایسی ہے جیسے جہاد کرنے والے کی نہ جانے والے پر ہے، اور بی بی والے کی ایک رکعت مجرد کی ۷۰رکعتوں سے بہتر ہے۔( احیاء العلوم ، مترجم: مولانا محمد حسن نانوتوی، ج۲، ص۴۳۔۴۴)
قرآن میں جس شدت کے ساتھ اپنی شرم گاہوں کے چھپانے کا حکم دیا گیا ہے اس میں ایک جہانِ معنی پوشیدہ ہے۔ اسلام نے غضِ بصر کا حکم دیا ہے کہ خرابی کی ابتدا یہیں سے ہوتی ہے۔ یہ رفتہ رفتہ دونوں جنسوں کے درمیان دوستی، ملاقاتوں، ہنسی مذاق، سنجیدہ بات چیت سے لایعنی اور بے تکلفانہ فحش گفتگو اور حرکات و سکنات کی جانب لے جاتی ہے، جس کی آخری منزل دونوں کے مابین جنسی تعلقات کی استواری ہے۔ پندرہ صدیاں قبل کے یہ نصائح اور پابندیاں بظاہر دلوں پر بوجھ محسوس ہوتے ہیں مگر جب ان کو آج کے انتہائی تعلیم یافتہ اور مہذب معاشرے کے پس منظر میں دیکھتے ہیں تو انسان کی اخلاقیا ت کو راہِ راست پر رکھنے کے لیے اس سے بہتر کوئی نسخہ دکھائی نہیں دیتا۔
مضمون نگار:ریاض اختر, ماخذ: ترجمان القرآن