قرانی الفاظ یا معانی کے محفوظ رہنے کے امکانات کا جائزہ

قرانِ پاک پر ڈی کنسٹرکشن کے حملے کا دفاع

اس مضمون میں روایتی لسانی تحریکوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے طریقِ کار کو استعمال نہیں کیا گیا۔ بلکہ میں نے ازخود ایک بالکل ہی الگ طریقہ کار اپنایا ہے۔ اس مضمون کو پہلے 2008 میں ، میں نے انگریزی میں لکھا تھا اور نوم چومسکی کے فورم میں شیئر کیا تھا تو ایک دو خاصے عالمی شہرت کے حامل تنقید نگاروں نے اسے چونک کر پڑھا اور اس پر اپنے تحفظات اور پسندیدگی کا اظہار ضروری سمجھاتھا۔ بعد میں اس مضمون کو میں نے اردو میں منتقل کردیا اور عنوان رکھا، ’’الفاظ کی تاثیر‘‘ ۔ میرا طرزِ استدلال اس میں سائنسی ہے نہ کہ ادبی اور تمام تر اپروچ سلّوجسٹک ہے نہ کہ روایت کی روایت.

نوٹ: ۱۔ یہ مضمون فقط ایک مفروضہ ہے۔۲۔ رائٹر کی غیر بلیغ زبان کی وجہ سے یہ ایک طویل، خشک ، بور، پیچیدہ ، عسیرالفہم اور مشکل مضمون ہے۔ ۳۔ یہ ایک طبع زاد مضمون ہے بالفاظِ دگر تفردات کا مجموعہ، جس کی بنیادیں کتابوں میں ملنے کی توقع کم کم ہے۔ ادریس آزاد)

٭٭

خاکہ:

اس مضمون میں، لفظ کے لیے مطلق معنٰی ضروری نہیں، شہری اور دیہاتی الفاظ، دیہاتی الفاظ کی تاثیر ، الفاظ کی پیدائش کا عمل، اصوات کے ارتقا کا مفروضہ، اصوات کی کیفیاتی تاثیرات، معنی کے محفوظ رہ جانے کا اسرار، قران کے حروفِ مقطعات کی ممکنہ توجیہہ کے موضوعات شامل ہیں۔

٭٭

اگر حروفِ مقطعات سے بات شروع کی جائے تو پہلا سوال یہ ہے کے یہ ایک اختلافی موضوع ہے۔ بعض کے نزدیک صرف اللہ کو مقطعات کا علم ہے اور بعض کے نزدیک صرف اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ۔ ۔۔ جبکہ ایک طبقہ فکر کا کہنا ہے کے اللہ یہ علم اب بھی اپنے برگزیدہ بندوں پر منکشف کرتا ہے ۔ بعض اس کی توجیہات کرتے ہوئے مختلف معانی نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

میری دانست میں حروفِ مقطعات بھی عنوانات ہیں۔ جیسے ہم مضامین کے عنوانات مقرر کرتے ہیں۔ لیکن یہ ایسے عنوانات ہیں جو کسی سورہ کی بنیادی روح بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ تاثیر جو بحیثیت مجموعی ایک سورۂ قرانی، کسی ایک فرد یا معاشرہ پر مرتب کرتی ہے، سورہ کے نام یا مقطعات کی صورت پیش کی جاتی ہے۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بعض سورہ ہائے قرانی کے عنوانات تو واضح ہیں۔ جیسے کہ سورہ بنی اسرائیل وغیرہ لیکن بعض کے عنوانات حروفِ مقطعات کی شکل میں ہیں۔لیکن اس سےپہلے کہ اس سوال کا جواب اور ’’حروفِ مقطعات ، سورہ ہائے قرانی کے عنوانات ہیں جن میں سورہ کے مجموعی مفہوم کی تاثیر پائی جاتی ہے‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔کے حق میں استدلال سے کام لیا جائے۔میرے ’’تفرُّدات‘‘ کے بعض اجزأ کو سمجھنا ضروری ہے۔

دنیا میں جس قدر زبانیں اور ان کے جس قدر الفاظ اس وقت موجود ہیں، ان میں سے ہر ایک کبھی نہ کبھی پہلی بار پیدا ہوا ہوگا۔ وہ پہلی بار کیسے پیدا ہوا؟ کیا حالات ہوئے کہ ایک نیا لفظ پیدا ہوا؟ انسانی زبان کے الفاظ کی ظاہری شکل اور معانی کے اشتراک سے ہم ان کو دو جماعتوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

بدو ی الفاظ (Bucolic words)

مدنی الفاظ (Urban words)

بدوی یا بیوکولک الفاظ وہ ہیں جو دیہاتی زندگی میں پیدا ہوئے اور مدنی ، اربن یا شہری وہ الفاظ ہیں جنہوں نے شہروں میں جنم لیا۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ الفاظ جو کہ بنیادی طور پر متفرق اصوات ہوتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا تو اسم ، یا فعل ، یا حرف یا دیگر اجزائے گرائمر (Parts of Speech)ہوتے ہیں۔

اور اگر مزید باریکی سے دیکھا جائے تو تمام کے تمام الفاظ بنیادی طور پرصرف اسم ہی ہیں۔ یعنی اگر ہم ایک فعل کو دیکھیں، جیسا کہ “دوڑا”۔ تو یہ نام ہے ایک خاص وقت میں کیے گئے ایک خاص عمل کا۔بالفاظِ دیگر کُل کی کُل زبانوں کے کُل الفاظ بنیادی طور پر اسمأ ہیں۔یعنی اگر یوں کہا جائے کہ انسان کے پاس کُل اسمأکا علم ہے تو غلط نہ ہوگا۔اگر مزید باریکی سے جائزہ لیا جائے تو شہروں میں پیدا ہونے والے الفاظ کی پھر دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو دیہات سے آئے اور شہر میں تبدیل ہوکر استعمال ہوئے اور دوسرے وہ جو شہر میں ہی پیدا ہوئے۔

انسان کس طرح آباد ہیں؟ دور دراز ویرانوں، وسیع کھیتوں یا دیہاتوں کے گردونواح میں سب سے چھوٹی بستیاں ہوتی ہیں۔ جنہیں بستیاں کہنا بھی ٹھیک نہیں۔ جہاں فقط ایک گھر کے افراد یا زیادہ سے زیادہ دوتین گھروں کے افراد مل جل کررہتے ہیں اور جن کا گزر بسر وہیں پیدا ہونے والی اشیأ پر ہی ہوتاہے۔ ایسی اشیأ کے لیے جن کی پیداوار ان کے لیے ممکن نہ ہو ،وہ نزدیکی دیہاتوں کا رُخ کرتے ہیں۔ اِسی طرح بہت سی چھوٹی بستیاں یا دیہات مل کر کسی مرکزی قصبے کا رُخ کرتے ہیں۔ ایک شہر بہت سے دیہاتوں کا جنکشن ہوتاہے، ایک بڑا شہر بہت سے چھوٹے شہروں کا جنکشن ہوتاہے۔ چنانچہ ہوتا یوں ہے کہ الفاظ جب کسی ایسے مقام پر پیدا ہوتے ہیں جب وہ معانی کو مدنظر رکھنے کی بجائے محض کسی چیز کی صوت یا صورت کے اظہار کے لیے بولے جائیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کو اختیار کرنے والے کے محسوسات کی یہی علامت رہی ہوگی۔

قابل ِ غور حصہ یہ ہے،

“جب وہ معانی کو مدنظر رکھنے کی بجائے محض کسی چیز کی صوت یا صورت کا اظہار کررہے ہوں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کو اختیار کرنے والے کے محسوسات کی یہی علامت رہی ہوگی”

اور اس لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ الفاظ جو کسی بیابان ڈیرے پر وجود میں آتے ہیں۔۔ معنویت سے زیادہ تاثیر کو بیان کرتے ہیں۔کسی نے کوئی آواز سُنی اور جس مقام یا شئے سے آتی ہوئی سنی اُس کا نام (اسم) رکھنے کے لیے اُس آواز کے ساتھ ملتا جلتا لفظ اختیار کرلیا۔ مثال کے طور پر پرندوں کے نام، جانوروں کے نام، طوفانوں ، بارشوں، آفات اور اسی طرح کے فطری مظاہر کے لیے استعمال ہونے والے زیادہ تر اسمأ میں اُن مظاہر سے آتی ہوئی آوازیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر کوا، گائے،سانپ وغیرہ کے نام تقریباً ہرزبان میں اُن کی آوازوں سے وجود میں آئے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔کّوا، کاگ، کاں، کرو وغیرہ اس کی فقط ایک مثال ہیں۔ جب کسی ویران ڈیرے پر جہاں کسی پڑھے لکھے انسان کو نہیں بلکہ کسی بالکل ان پڑھ، اُمّی،دیہاتی انسان کو اچانک کسی نئی چیز کو نام دینے کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ اس وقوعہ کی صورت، ہییت یا آواز سے اُس کے لیے اچانک اور فوری ذہن میں آنے والا لفظ اختیارکرتاہے۔ اور یوں ابتدا میں لفظ بننا شروع ہوتا ہے۔ جو بعد میں بہت سے مزید مراحل سے گزرتا رہتاہے۔افعال اور تمام تر مشتقات بعد میں اسی سے وجود میں آتے رہتے ہیں، جو صدیوں پر محیط عمل ہے۔

اگر ہم مزید باریکی سے جائزہ لیں تو یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کوئی ایسا اُمّی شخص جو سب سےپہلے کسی لفظ کا موجد بنتا ہے تو ایک مخصوس آواز میں نام مقرر کرنے کے لیے اس کے ذہن میں اچانک اور فوری آنے والی آوازیں کن اجزائے ترکیبی کی وجہ سے اس کے دَہن سے خارج ہوتی ہیں؟

اگر آپ غور کریں تو سانپ کے لیے دنیا کی ہر زبان میں موجود نام میں سرسراہٹ یا پھنکار کا عنصر موجود ہے۔ وہ انسانی قبائل جو صحرائی جانوروں اور پرندوں کے درمیان رہا کرتے تھے ان کے حلق سے خارج ہونے والی آوازیں صحرائی جانوروں کی آوازوں سے ملتی ہیں۔ وہ قبائل جو میدانی جنگلوں میں بستے تھے ان کی زبانوں میں حلق سے نکلنے والی آوازیں میدانی جانوروں کی آوازوں سے ملتی ہیں۔ وہ قبائل جو پہاڑی جانوروں کے آس پاس رہتے تھے ان کے حلقوم سے ان کی زبانوں کے الفاظ آج بھی پہاڑی جانوروں اور پرندوں کی آوازون سے مشابہہ ہیں۔

خو، پخ، چخ ، والی زبانیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خونخوار درندوں، پرندوں کے درمیان وجود پاتی ہیں۔عین، قاف، طٰہا، اس طرح کی آوازیں صحرائی علاقوں میں رہنے والے قبائل کے ہاں زیادہ ملتی ہیں۔ڈھا ٹھی پھا چھم ، اس طرح کی آوازیں سبزی خوروں کے درمیان پرورش پانے والی اقوام کے ہاں زیادہ ملتی ہیں۔

اگر ہم ارتقائے حیات میں انسان کے اس دور پر غور کریں جب وہ ابھی بولنا نہیں سیکھ پایا تھا تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ وہ کس طرح شروع شروع کی زبان بنا رہا ہوگا۔ یہ محض علامات ہونگی اور نشانیاں۔ جن کو ہم گرامر کی زبان میں اسمأ کہہ سکتے ہیں۔آپ اردو کے ہی ایک لفظ “دھڑام”پر غور کریں۔ یہ اُس آواز کو سن کر بنایا گیا لفظ ہے جو کسی کے گرنے سے پیدا ہوتی ہے۔تو وہ اجزائے ترکیبی کیا ہونگے؟ اور ارتقا میں اوّلین انسان مخصوص صورتحال میں ہی کیوں کچھ مخصوص اصوات خارج کرتے ہونگے؟ یاد رہے کہ اجزائے ترکیبی وہ حروف ہیں، جن کی ساخت، ہمارا حلق، زبان اور پھیپھڑے بناتے ہیں۔مثلاً سین، شین کی آواز کو ہی لے لیتےہیں اور تھوڑی دیر اس ایک صوت پر غور کرتے ہیں۔ یہ ایسی ’’صوت‘‘ ہے جو انسان کے اندر سے اس وقت اچانک اور فوری طور پر برآمد ہوسکتی ہے جب وہ یکلخت خوف ، دردیا تجسس میں مبتلا ہوجائے۔شین کی صوت کا استعمال دنیا کی ہر زبان میں ایک جیسے الفاظ کو جنم دیگا۔ مگر یاد رہے کہ یہ صرف بیوکولک ورڈز کی حد تک درست ہے۔ یعنی لفظ کی بنیاد کی حد تک۔اوربیوکولک سے مراد بدوی الفاظ ہیں۔اب ہم دیکھ سکتے ہیں کہ شین کی تاثیر کیسے معلوم ہوگی؟ شر، شیش ، شور، شک، شبہہ، شرارت، شدت، شراب، شرم، شعلہ، شام، مشکوک، عیاش، شہرت، shout, shrill, shit, splash, flash, flush, shock, shoot, harsh آپ خود تجربہ کرکے دیکھ لیں۔ کچھ دیر پریکٹس کریں۔ اور زبانوں کے الفاظ بھی ملائیں۔

اگر کوئی لفظ اس قاعدہ سے ماورأ نظر آئے تو وہ یقینا مدنی یعنی اربن لفظ ہوگا۔ اور اس بات کو جاننا کہ وہ اربن لفظ ہے بعض دیگر قضیات کی مدد سے چنداں مشکل نہیں۔اسی طرح اگر آپ “میم” اور “لام” کی صوت پر غور کریں تو یہ وہ صوت ہے جو انسان اچانک اور فوری استعمال میں اُسی وقت لاتا ہے جب نرمی، رحم، ممتا، محبت، آرام اور اطمینان کی کیفیات کا تذکرہ مقصود ہو ۔ تو پہلا ایجاد ہونے والا لفظ اس آواز کےساتھ کسی بھی زبان میں ایسا ہی ہوگا، یعنی نرم معانی دیگا۔دنیا کی ہرزبان میں ماں کے لیے ایک جیسے الفا ظ ہیں۔وقتی طور پر ہم ان دو اصوات کو ہی لے سکتے ہیں۔ یہاں محل نہیں کہ ہر ایک صوت کا جائزہ لیا جائے۔

شین

اور

میم

کیونکہ ہمارا بنیادی مدعا حروف ِ مقطعات کی ممکنہ حکمت کو سمجھنا ہے۔ اس کے لیے کافی محنت درکار ہے۔وقتی طور پریہاں اپنے مفروضے کےبنیادی اصول جو میں نے اپنی زندگی میں اخذ کیے وہ بیان کررہا ہوں۔فیس بک کی پوسٹ اس سے زیادہ تفصیل کی متحمل نہیں۔یہ باتیں کسی اور کتاب میں لکھی ہوئی نہیں ہیں۔سو میں اس کوتاہی کے لیے شرمندہ ہوں کہ اپنے مؤقف کے حق میں کسی قسم کا لٹریچر ریویو پیش کرسکوں۔ البتہ زبان کے الفاظ اور ان کے مآخذ سے متعلق آرکیالوجی، اینتھروپولوجی اور مبدأ ہائے لسانیات کا بھی تقریباً یہی خیال ہے جس سے سارے پڑھے لکھے لوگ واقف ہیں۔ مثال کے طور پر ماں والی مثال اِن تمام ڈسپلنز میں مل سکتی ہے۔یعنی ماں کے لیے دنیا کی ہرزبان میں ملتے جلتے الفا ظ ہیں۔

میں نے ابھی تک مدنی یعنی اَربن الفاظ کی کوئی مثال نہیں دی۔ دراصل میں نے فرض کرلیا ہے کہ میرے قارئین مدنی(شہری) الفا ظ کے بارے میں خود اندازے لگاسکتےہیں۔مثال کے طور پر ’’انٹرنیٹ‘‘ ایک مدنی، شہری لفظ ہے۔ گرائمر کا زیادہ تر حصہ شہری ہے۔ افعال، مشتقات وغیرہ میں سے زیادہ تر شہری ہیں۔ علاوہ ازیں ابھی میں نے الفاظ کی بجائے صرف اصوات یا لکھنے کی صورت ہو تو حروف کی بابت بات کی ہے ۔ مدنی یا بدوی کی موردین پرابیبل (More than probable) مثالیں نہیں دیں۔

مزید آگے بڑھنے سے پہلے ذرا یہ بھی دیکھتے چلیں کہ انسان جب پیدا ہوتا ہےاور ابھی نومولود ہوتاہے، تو وہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ لاشئی ہوتا ہے۔ مردہ بدستِ زندہ کے مصداق۔ پھر وہ اس دنیا میں رہنے کے لیے کچھ مہارتیں سیکھنا شروع کرتا ہے۔ جن میں سب سے پہلی مہارت ہے۔ آنکھ کے دیدے کا ٹھہرانا۔ کچھ نومولود پیدا ہوتے ہی اس مہارت کو حاصل کرلیتےہیں اور اسی سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ بچہ ذہین ہے۔ اور کچھ نومولود یہ مہارت کئی کئی دن تک حاصل نہیں کرپاتے۔ جس سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ بچہ کم ذہین ہے۔سب سے پہلی مہارت آنکھ کا دیدہ ایک جگہ ٹھہرا لینا ہے،کامیابی کے ساتھ……… اور دوسری مہارت ہے زبان کو ہلا لینا۔شروع شروع میں جب انسان کے پاس ابھی کوئی زبان نہ ہوگی اس وقت بچے جب پیدا ہوتے ہونگے تو ان کے حلق سے نکلنے والی آوازیں بھی الفاظ بن جایا کرتی ہونگی۔ یہ سامنے کی بات ہے۔ ابھی بھی زبانوں میں نئے الفاظ شامل کرنے والوں میں سب سے زیادہ بڑا حصہ بچوں کی طرف سے داخل ہوتاہے۔ اور بچے چاہے شہر میں بھی پیدا ہوں ان کے ایجاد کردہ الفاظ اپنی فطرت میں ہمیشہ بیوکولک ہوتے ہیں۔تو ارتقأ کے ابتدائی ادوار میں جب زبان نہ ہوگی یا بہت ہی ابتدائی شکل میں ہوگی تو نومولود بچوں کے حلق سے برآمد ہونے والی آوازوں کو بھی سادہ لوح انسان الفاظ سمجھتاہوگا۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ہرزبان میں ماں کے لیے ایک جیسے الفاظ ہیں ۔کیونکہ ماں کے لیے ملنے والے زیادہ تر بنیادی ، اُمّی الفاظ میں زبان کی مہارت کو کوئی دخل نہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ نام نومولود نے خود ایجاد کیا ہوگا۔ ماں، مام، ممی، امی، اُم، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ صرف ہونٹوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے سے پیدا ہونے والی اصوات ہیں۔ ان کا کوئی مخرج نہیں ہوتا اوردنیا کی ہرزبان میں موجود ہیں۔مثلاً میم کی ادائیگی دنیا کی ہرزبان بولنے والے کے لیے نہایت آسان ہے لیکن عربوں کا ضاد (ض) بڑے بڑوں کے حلق سے برآمد ہونا محال ہے۔ ڈال مشکل، ٹھ مشکل ہے۔ ڑ بہت مشکل ہے۔

چنانچہ یہ وہ صوت ہے جو کوئی بچہ زبان کی مہارت جانے بغیر بھی ادا کرسکتا تھا۔ کیونکہ یہ کوئی صوت ہے ہی نہیں۔ یہ محض سینے سے خارج ہونے والی وہ ہوا ہے جس کے خارج ہوتے وقت حلق کی گھنٹی مرتعش ہوئی۔ زبان نے کوئی حرکت نہ کی۔

میم۔ با، پا، پھا۔

ان تمام اصوات کے لیے زبان کو ہلانے کی مہارت کا آنا ضروری نہیں۔بچہ زبان کے بعد ہاتھ کی مُٹھی کو کھولنا (unfold) سیکھتاہے۔ لیکن بچے کی مہارتوں کا ذکر یہاں مقصود نہیں، جن کی ایک لمبی فہرست ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مکمل ہوتی ہے۔ میرا مدعا فقط زبان کی مہارت سیکھنے سے پہلے والے الفاظ کے بارے میں یہ رائے قائم کرنا تھا کہ بعض ایسے الفاظ ہیں جن میں زبان کی مہارت کو دخل نہیں، وہ نومولود بچوں کی ایجا دہیں۔

خیر! اتنی زیادہ تفصیل کے بعد اب میں واپس آتاہوں کہ الفاظ جب اوّل اوّل وجود میں آتے ہیں تو ان کے معانی نہیں ہوتے۔ وہ محض ایک علامت ہوتے ہیں۔ اور کسی بھی صوت و صورت و ہییت یا کیفیت پر اچانک منہ سے نکالی گئی محض آوازیں ہوتی ہیں۔عام طور پر ایسے تمام الفاظ کو ہم کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیٹھ الفاظ ۔ یا ٹھیٹھ لہجہ۔ یا فطری الفاظ یا اُمّی الفاظ۔

چنانچہ جب ایسے الفاظ اُسی شخص کے حلق یا سینے سے برامد ہوتے ہیں جس نے انہیں سب سےپہلے متعین کیا تو ان میں ایک طرح کی تاثیر ہوتی ہے۔ جو ادا ہوتے ساتھ ہی سننے والے پر اثر انداز ہوتی ہے۔

ظاہر ہے سانپ کی پھنکار اور اس کے چلنے کی سرسراہٹ کی وجہ سے اس کے لیے ہم نے سنیک کا لفظ چنا یا سانپ کہا یا شیش ناگ کہا تو اس کو نام دیتے وقت کسی اُمّی نے اپنے اندر سے بھی شین یا سین برآمد کی۔ یہ ایک ساؤنڈ ہے۔جیسے اچانک کانٹا چُبھنے پر سِی ہی نکلتی ہے۔ اس کے ساتھ لاکھوں سال پرانا ہمارا رشتہ ہے۔ ہمارا جسم اس کی ادائیگی سے واقف ہے۔ ہم پر اس کے اثرات لامحالہ ہیں۔کیونکہ لفظ بنانے والے نے جب انہیں اختیار کیا تو اس نے ایک کیفیت کے زیر ِ اثر ایسا کیا۔ بالکل ویسے جیسے کوئی شاعر کسی کیفیت میں شعر کہہ دے اور سننے والا اُسی کیفیت سے لطف اندوز ہو جو شاعر کی تھی۔

پنجابی کی مثالیں لیتے ہیں ۔ کیا آپ کو اس لفظ کا معانی آتا ہے؟”بھنڈ” ، “ڈِنگا”، “اوترا”، “ٹھُلا”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ آپ ایسے الفاظ ذہن میں لائیں جو ابھی تک مدنیت کے اثرات سے محفوظ ہیں۔ایسے الفاظ کے معانی سے زیادہ ان کی تاثیر سننے والے پر اثر انداز ہوتی ہے۔ وہ نہ صرف ان کے معانی کی تہہ تک خود بخود اتر جاتے ہیں بلکہ بہت اچھی طرح بات کی تاثیر سے لطف اندوز اور روح سے سرشارہوتے سمجھ جاتے ہیں۔ ایسے الفاظ کسی اور زبان کا بولنے والا بھی سنے یعنی وہ شخص جو ابھی معنی سے واقف نہیں تو وہ اندازے سے اس کے کچھ نہ کچھ معنی نکال سکتاہے۔ جو عموماً قریب ترین معنی ہوتے ہیں۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ عموماً محاورے، کہاوتیں، اکھانڑ، ضرب الامثال وغیرہ میں ایسے ایسے الفاظ کا استعمال ہوتا ہے جنہیں عام طور پر ہم برا سمجھتے ہیں لیکن ضرب الامثال میں برا نہیں سمجھتے۔یعنی بعض ننگے الفاظ، بعض گالیاں اور بظاہر ناگفتہ بہ اسمأ ایسے ہوتے ہیں جو ضرب الامثال اور کہاوتوں کا لازمی جزو ہونے کی وجہ سے ٹھیک اُسی وقت بولے جاتے ہیں جب وہ کیفیات پیدا کرنا مقصود ہو۔

خیر! اربن الفاظ فطرتاً ہی بے تاثیرہوتے ہیں۔’’بے تاثیریت‘‘ بھی لفظ کی ایک خصوصیت ہے،اگرچہ فقط اربن الفاظ کی خصوصیت ہے لیکن اس سے بولی میں نفاست پیدا ہوجاتی ہے۔اردو زبان، جس میں یہ مضمون لکھا جارہاہے، اس حقیقت کی سب سے بڑی مثال ہے۔ کسی شخص کے لیے چونکہ اس کی ثانوی زبان میں فطری طور پر بے تاثیری پائی جاتی ہے اس لیے لازمی طور پر وہ اپنی ثانوی بولی کا کوئی لفظ جب بولتاہے تو اس کی جانب سے ادا ہونے والا لفظ سننے والے کےلیے صرف ایک عدد “وقتی” معنی رکھتاہے اور کچھ نہیں۔ کچھ تاثیر نہیں۔ کیونکہ ایک اُمّی نے نہیں بولا۔ اس کے الفاظ میں وہ کیفیت نہیں پائی جاتی جو اس کی پیدائش کے وقت اس میں پیدا ہوگئی تھی۔لفظ ثانوی زبان کے طور پر خود بخود مدنی یعنی اربن بن جاتاہے۔جیسے بچوں کے بولنے (ایجاد کرنے) سے کوئی لفظ خودبخود بدوی یعنی دیہاتی بن جاتاہے چاہے بچہ شہر میں ہی کیوں ہو۔ خیر! اسی طرح لفظ ثانوی زبان کے طور پر خود بخود مدنی بھی بن جاتے ہیں چاہےبولنے والا دیہات میں ہی کیوں نہ موجود ہو اور اردو اس کی سب سے بڑی مثال اس لیے ہے کہ یہ دنیا کی واحد زبان ہے جسے کروڑوں لوگوں نے ثانوی زبان کے طور پر اختیار کیا۔ اس میں نفاست کا پیدا ہوجانا لازمی امر تھا لیکن اس کے الفاظ میں سے تاثیر کا معدوم ہوجانا بھی لازمی امر تھا۔ چنانچہ اردو بے پناہ، خوبصورت، نفیس، تَرشی ہوئی، سُتھری اور شائستہ ہونے کے باوجود اپنے الفاظ کی حقیقی تاثیر سے محروم رہتی ہے۔ اہل زبان میں ضرور ایسا نہ ہوگا لیکن نسبتاً اُن کے ہاں بھی زیادہ مدنی یعنی اَربن الفاظ ہی اردو میں پائے جائینگے۔کیونکہ روز اوّل سے اردو کسی اُمّی زبان کے طور پر وجود میں آئی ہی نہیں۔ اس لیے اگر دنیا کی کسی زبان میں سب سے کم الفاظ اُمّی ہیں تووہ اردو ہے۔ لیکن اگر نفاست اور شُستگی میں دنیا کی کوئی سب سے بلند پایہ ہے تو وہ بھی اردوہے۔

اردو واحد زبان ہے جس کے بولنے والوں کا منہ اُس طرح ٹیڑھا نہیں ہوگا جس طرح دیگر کسی بھی زبان بولنے والوں کا ہوگا کیونکہ اُردو میں ایکسپریشن یعنی کیفیت کا فقدان ہمیشہ اس کے ساختہ پرداختہ ہونے کی وجہ سے موجود رہیگا۔

اس یہ ثابت ہوتاہے کہ ثانوی زبان میں ایکسپریشن مفقود ہوجاتاہے۔ ثانوی زبان کون سی ہوتی ہے۔ یعنی وہ زبان جو آپ کی مادری زبان نہیں ہے کیونکہ آپ اپنی مادری زبان میں اپنی کیفیات کے لیے بھی الفاظ رکھتے ہیں۔علامہ اقبالؒ جب کسی دوست سے ناراض ہوتے تو اسے انگریزی میں خط لکھا کرتے تھے۔ مکتوبات اقبالؒ میں سید نذیر نیازی نے لکھا ہے کہ علامہ صاحب ایسا اس لیے کرتے تھے تاکہ اپنی بولی کے الفاظ کی جو تاثیر اُن کے دوست پر پڑنی ہے وہ اُس کا دِل نہ دکھا دے۔ اس لیے انگریزی پرائی زبان میں لکھ دیا۔ ناراضگی کا پتہ بھی چل گیا اور دوست کا دل بھی نہ دُکھا۔ایسا ہی ایک خط میں نے خود بھی پڑھا ۔ جو ایک دوست کو کتاب واپس نہ کرنے پر علامہ اقبالؒ نے لکھا تھا۔

میں نے اس مضمون کا آغاز حروفِ مقطعات سے کیا تھا اور وہی میرا اصل موضوع ہے۔ یہ تمام تر تفاصیل اپنا مقدمہ ڈیولپ کرنے کے لیے میں نے پیش کی ہیں۔ یہ سب میرا اپنا تھاٹ پراسیس ہے۔ میں نے مضمون کے شروع میں یہ بتایا کہ مجھے یوں محسوس ہوتاہے جیسے حروفِ مقطعات سورہ ہائے قرانی کے عنوانات ہیں۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ قران کی کچھ سورتیں تو ایسی ہیں جو ایک رواں اور مربوط مضمون کی طرز پر ہیں تو ان کے عنوانات بھی اپنے موضوع کے اعتبار سے ہیں اور یہ حروفِ مقطعات نہیں ہیں۔ جیسے آخری پارہ کی زیادہ سورتیں ہم دیکھتےہیں۔مثلاً سورہ تکویر، سورہ کوثر وغیرہ۔اور ایسی سورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ لیکن بعض سورتیں جو صرف حروف مقطعات سے شروع ہوتی ہیں وہ چونکہ موضوعات کے اعتبار سے متنوع ہیں تو ان کےعنوانات دراصل یہی حروف ِمقطعات ہی ہیں۔لیکن موضوعات اُن میں مختلف اور متنوع ہیں البتہ ان میں پائی جانے والی کیفیت ایک ہی ہے۔ہم جانتے ہیں کہ قران پورے کا پورا اُمی الفاظ کا مجموعہ ہے۔

امّی الفاظ کیا ہوسکتے ہیں؟ رسول ِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم جو زبان بولتے تھے، ہم اس زبان کو بھی اُمّی زبان ہی کہیں گے کیونکہ یہ قبیلہ بنی سعد کی بولی تھی۔ حضرت حلیمہ سعدیہ ؓ کو انکے کے قبیلہ کی وجہ سے ہی سعدیہ کہا جاتا ہے۔ یہ اُمّی زبان آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں سے سیکھی تھی؟ قبیلہ بنو سعد اُس وقت عرب میں سب سے ٹھیٹھ بولی بولنے والے لوگ تھے۔پورے حجاز کے امیر لوگ اپنے بچوں کو محض اس لیے قبیلہ بنو سعد کی طرف بھیج دیا کرتےتھےکہ ان کے بچے اچھی سے اچھی اور بلیغ سے بلیغ عربی سیکھ کر آئیں۔ یعنی ٹھیٹھ سے ٹھیٹھ ۔اور یہ اپنے وقت کی سب سے بلیغ، سب سے فصیح، سب سے ٹھیٹھ اور سب سے زیادہ خالص عربی تھی۔ اس کے ایک ایک لفظ میں وہی تاثیر تھی جو ایک اچھے اُمی لفظ میں ہوتی ہے۔ اور جس کا میں نے اوپر تفصیلی بیان کیا ہے۔عربوں کے نزدیک جوفصیح و بلیغ نہیں وہ گونگا ہے یعنی عجَمی۔

ہم مدنی زبان کے بارے میں جان چکے ہیں کہ ایک شہرجو جنکشن ہوتا ہے، بہت سے قصبوں اوردیہاتوں کا۔ شہر میں بہت سے لہجوں کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک ہی بولی کے مختلف لہجے بولنے والے لوگ جب شہر میں اکھٹا ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کے الفاظ کو بولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چونکہ وہ اہل ِ زبان نہیں ہوتے اس لیے وہ لفظ کو بولتے وقت اس کی تاثیر ختم کردیتے ہیں۔

وقت کے ساتھ جب لفظ بہت گھِس جاتاہے تو اپنی اصل تاثیر بالکل کھو دیتاہے۔ لیکن لفظ دیکھنے میں اوربناوٹ میں زیادہ خوبصورت اور شفاف ہوجاتا ہے۔چنانچہ اب ہم دنیا کی ہرزبان کے الفاظ کو دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

نمبر۱۔ وہ جن کی ساؤنڈ میں بھی تاثیر ہے اور معانی کا تعین ادائیگی کے ساتھ ہے۔ (امُی، بدوی، دیہی، بیولک الفاظ)

نمبر۲۔وہ جو محض معانی کے حامل ہیں۔ اور کسی طرح کی کیفیت پیدا نہیں کرتے۔ (مدنی، شہری، اربن الفاظ)

قران ایک ایسی کتاب ہے جس کے ہر ہر لفظ میں ہردونوں طرح کی کوالٹیز پائی جاتی ہے۔ یعنی ادائیگی سے معانی متعین ہوتا ہے اور بلامعنی محض لفظ ہی تاثیر کا حامل ہے۔جن سورتوں کے نام بامعنی ہیں ان کے عنوانات تو آرام سے سمجھ میں آجاتے ہیں۔ لیکن جن سورتوں کے نام حروف ِ مقطعات ہیں وہ دراصل اس سورہ کی تاثیر بیان کرتے ہوئی اصوات درج کی گئی ہیں ۔یعنی اس پوری سورہ کی مجموعی تاثیر۔ مثلاً سورہ بقرہ الف لام میم سے شروع ہوتی ہے۔ ہم پیچھے دیکھ آئے ہیں کہ یہ حروف وہ اصوات پیدا کرتے ہیں جو اپنی تاثیر میں نرم ونازک ہیں۔ اگر سورہ بقرہ کو قرات کرنا شروع کریں ابھی تو یہ زیادہ تر الف لام اور میم کا تکرار ہی ہے ۔ الف لام میم ذالک الکتاب لاریب فیہہ ھدی اللمتقین الذین یومنون بالغیب ویقیمون الصلاۃ امما رزقنٰھم ینفقون۔ الف لام میم کی تاثیر نرم ہے۔ملائم ہے۔گداز ہے۔ اگر آپ میم اورلام کا استعمال دیکھیں دنیا کی ساری زبانوں میں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ اصوات بہت میٹھی ، ٹھنڈی، شانت اور معصوم سی ہیں۔البتہ چونکہ بعض اوقات دو متضاد اصوات بھی کسی اسم میں جمع ہوسکتی ہیں اس لیے یہ ضروری نہیں کہ اس پوری سورہ میں وعید کا ذکر ہی نہ ہو۔ البتہ ایسا ذکر کم ہے اس لیے غالب تاثیر الف لام میم کی موجود رہے گی۔ اس کے مقابل جیسا کہ میں نے گزشتہ سطور میں ذکر کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “شین، سین، قلقلے والے الفاظ، شمسی حروف شدید تاثیر والی اصوات ہیں۔ دنیا کی ہرزبان میں شین یا اسی طرح کی تیزاصوات کا زیادہ استعمال شدت کے اظہار کے لیے ہی ہوتاہے۔

قران میں ہی دیکھ لیں۔ اذالشمس کورت، واذ النجوم الکدرت، واذلجبال سیرت واذالعشار عطلت، واذ الوحوش حشرت اس کی ایک مثال ہے۔

دراصل یہ بہت دھیان اور باریکی سے جائزہ لینے والا تھیسز ہے۔ بعض لوگ کہہ سکتے ہیں کہ شین کے فُلاں لفظ میں تو نرمی ہے ۔ لیکن اس طرح نہیں دیکھنا ہوتا۔ مختلف اصوات کا ملاپ مختلف کیفیات پیدا کرتاہے۔ جیسے مختلف رنگوں یا سُروں کا ملاپ مختلف تاثیریں پیدا کرتاہے۔ یادرہے قران کی کیفیات والی بات کرتے ہوئے ہم کہیں بھی یہ نہیں کہہ رہے کہ اس طرح اس میں معنی کی اہمیت نہیں رہتی یا کم ہوجاتی ہے۔ نہیں! اس کے بالکل برعکس اس کا مقصد یہ ہے کہ قران کا اُمّی زبان ہونا اس کے معنیٰ کا تحفظ کرتاہے۔ دنیا کی کوئی بھی تحریر وقتی معنی کی متحمل ہوتی ہے۔ ایک صدی میں الفاظ اپنے اصل معانی کھو دیتے ہیں۔ نئے معانی پہن لیتے ہیں۔ لیکن ایک اُمی لفظ کبھی اپنے معنی نہیں کھو سکتا کیونکہ اس کا معنی اس کی تاثیر میں ہمیشہ باقی رہتاہے۔ بات تو عجب سی ہے لیکن جن لوگوں نے وہ اسلامی منتر جسے چہل کہف کہتے ہیں اور جوجنّات کو قبضے میں لینے کے لیے چلّے کے عمل کے دوران پڑھا جاتاہے کبھی سنی ہے تو وہ یہ بات جانتے ہیں کہ چہل کہف فقط چالیس عہد ’’کاف‘ ‘ ہیں جو بامعنی بھی ہیں اور اس طرح بولے جاتے ہیں کہ سن کر حیرت ہوتی ہے۔

سو میرا خیال ہے کہ حروف ِ مقطعات کسی سورہ کی مجموعی تاثیر کا بیان ہے۔ اور یہ کہ قران کے الفاظ اُمی ہیں اور اُمی الفاظ میں تاثیر ہوتی ہے اور یہ کہ اُمّیت کی وجہ سے لفظ کے معانی میں اضافیت کا خاتمہ اور حتمیت کا واضح عنصر موجود ہوتاہے۔ جیسے حروف ِ مقطعات کی تاثیر کو کوئی سورہ پڑھنے کے بعد بخوبی محسوس کیا جاسکتاہے۔بشرطیکہ آپ قران کو ترتیل کے ساتھ پڑھیں۔الف لام میم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سورہ بقرہ کی مجموعی تاثیر کا بیان ہے۔ اس سورہ میں اللہ کی صفت ِ رحیمیت و رحمانیت غالب ہے۔ غضب کی وعید کے ساتھ بھی ماؤں جیسے رحم کا ایک عنصر موجود رہتاہے۔سوسائٹی پر رحم کیا گیاہے۔ رحمت اللعلمیت کے نتائج کا وقت ہے۔اعمال کو منافعوں کے ساتھ جوڑ کر دکھایاہے۔

خیر! یہ تمام مضمون خلاصہ ہے اُس تھیسز کا جس کی میتھاڈالوجی سراسر ’’آرگومنٹیشن‘‘ہے۔ اس میں کسی اور میتھاڈالوجی کو مِکس کرنے کی گنجائش یا ضرورت ہی نہیں۔ البتہ کوانٹیٹیو ریسرچ کا بہت بڑا حصہ انوالو ڈ ہے جو کہ عام طور پر نان اپلائیڈ ایجوکیشنز میں موجود نہیں ہوتا۔فلہذا ریسرچ مفروضے سے شروع ہوکر مشاہدے پر ختم ہوتی ہے۔ اور اتنی زیادہ پیچیدگی کی وجہ سے یہ ایم فل کا تھیسز نہیں بلکہ پی ایچ ڈی کا تھیسز بننے کی اہلیت کا حامل مضمون ہے۔ لیکن اسے بطور تھیسز اختیار کرنا اور اس کی سُپَروژَن کا چلنج قبول کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔

والسلام

ادریس آزاد

۵ جنوری ۲۰۱۶