سگمند فرائیڈ( 1865ء-1939ء) کے مطابق بچہ پیدائش سے قبل ہی جذبہ شہوت جنسی سے سرشار ہوتا ہے اور ناجائز جنسی تعلقات استوار کرنا چاہتا ہےلیکن چونکہ ابھی وہ اسکی صلاحیت نہیں رکھتا اس لئے رفتہ رفتہ شہوت کا جذبہ ماں کی محبت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ بچہ باپ کو اپنا رقیب سمجھ کر اس سے نفرت کرنے لگ جاتا ہے، یوں اس میں نفرت اور غصے کے جذبات جنم لیتے ہیں۔ معصوم بچے کے متعلق اس تمام شہوانی داستان کا مجموعی نامفرائیڈ نے ایڈی پس کمپلیکس* رکھا ہے۔
بچی کی داستان شہوت بیان کرتے ہوئے فرائیڈ نے بتایا کہ معصوم بچی اپنے آپ کو قدرتی طور پر خصی شدہ پا کر ماں سے نفرت کرنے لگتی ہے کہ اس نے اسے ایسا عیب دار کیوں پیدا کیا۔ پھر وہ اپنے باپ سے ویسے ہی ناجائز تعلقات قائم کرنے کی آرزو میں باپ کی گود میں سکون حاصل کرنے لگتی ہے۔
بیٹے کو ماں اور بیٹی کو باپ سے مہتم کرنے کا انکشاف فرائیڈ کی “اہم تحقیقی دریافت” کہلاتی ہے۔ اس کے بیان سے فرائیڈ کا مقصد یہ واضح کرتا ہے کہ انسان حیوان سے بھی بدتر حیوان ہے، عفت، پاکیزگی اور اخلاقی قدریں محض چند مخصوص افراد کی انفرادی خیال آرائیاں ہیں جنہیں عام فطرت سے دور کا بھی واسطہ نہیں!!!
فرائڈ کے نزدیک انسان ایک مغلوب الشہوات حیوان ہے جسے قدرت نے ذیل کے تین متبادل طریق ہائے کار میں سے ایک کے اختیار کرنے پر مجبور کر رکھا ہے:
1۔وہ اپنے لا شعور کی حد درجہ شرمناک جنسی خواہشات کو پوری آزادی اور بے حیائی سے مطمئن کرے ۔ بے شک سماج اُسے برا سمجھے لیکن اُسے کوشش کرنی چاہیے کہ وہ سماج کی پرواہ کرے۔
2۔وہ سماج کے خوف سے اپنی طاقتور جنسی خواہشا ت کو ہمت سے دبا دے اور پھر تشویش ،ہیسٹریا ،جنون، خوف اور پریشانی وغیرہ دماغی امراض میں مبتلا ہوجائے۔
3۔وہ اپنی جنسی خواہشات سے قطع نظر کرکے اُن کی بجائے مذہب ، اخلاق ، علم اور ہنر ایسی سرگرمیوں سے اپنے آپ کو دھوکا دیتا رہے۔ اور اس کے ساتھ ہی خوب یاد رکھے کہ اُن سرگرمیوں کی حقیقت ایک وہم سے زیادہ نہیں۔ اور دراصل ان سرگرمیوں کی اپنی کوئی قدر و قیمت نہیں سوائے اِس کے کہ وہ اُس کے دکھے ہوئے دل کومبتلا ئے فریب کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔
فرائیڈ جب مذہب کے متعلق رائےزنی کرتا ہے تو اُس تیقن و دسترس کا مظاہرہ کرتا ہے کہ جیسے تحریرات مقدسہ اسی کے قلم سے آوردہ ہوں۔اس کا خیال تھا کہ نظامِ مذہب محض انظباطی احکام کے سوا کچھ نہیں بلکہ یہ تو انسانی نفسیات کے بدیہی مظاہر سے بھی بہت دور ہیں جو کہ آج کھلی حقیقت کے طور جانے جاتے ہیں ۔سگمنڈفرائیڈ کے مذہب کے متعلق ایسے تصور کی وجہ کیا تھی یہ اسکی زندگی اور اس دور کے مذہب کے مطالعے سے واضح ہوجاتی ہے ۔
فرائڈ کا نظریہ مغرب کی یونیورسٹیوں میں برسوں نصابِ تعلیم کا جزو رہا ہے، نفسیاتِ جدیدہ کے نام سے اِس پر ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں ۔اس نظریہ کی اشاعت نے مغرب میں جنسی تعلقات کی اُن پاپندیوں کو جو مذہب یا سماج نے عائد کر رکھی تھیں، بہت ڈھیلا کردیا ہے۔وہاں اب یہ خیال عام ہے کہ یہ پاپندیاں مضرِ صحت ہیں، دماغی امراض پیدا کرتی ہیں اور اُن سے چمٹے رہنا ایک خطرناک قسم کی قدامت پسندی ہے۔ فحاشت خواہ کسی قسم کی ہو اب یورپ میں ایک معمولی ذاتی خواہش کی تسکین کا ذریعہ سمجھی جاتی ہےجس میں کسی دوسرے کو دخل دینے یا رُکاوٹ پیدا کرنے کا کوئی حق نہیں ۔ جنسی خواہشات کی آزادانہ تسکین ایسی ہی ہے جیسے کہ پیاس کے وقت پانی کا ایک گلاس پی لینا خواہ وہ کہیں سے مل جائے۔ جنسی خواہشات انسان کی فطرت کا ایک حیاتیاتی تقاضا ہے جسے دبانا یا چھپانا دونوں نا جائز ہیں۔
اِس ذہنیت نے مغرب میں ایک بہت بڑا ادبی ذخیرہ پیدا کردیا ہے جس میں ہر آن اضافہ ہوتا رہتا ہےاور جس کا امتیازی وصف عریانی ہے۔ اِسی ذہنیت کے تحت یورپ میں بعض ایسے مذاہب پیدا ہوگئے ہیں جن کی رُو سے عریانی اور بےحیائی کو مقدس سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً نیچرزم اور نیوڈزم اور اِس سے بھی بدتر کئی ازم جن کے ذکر سے بھی قلم شرماتا ہے۔
ہمارے ہاں بھی فرائڈ کا نظریہ یہی اثرات پیدا کر رہا ہے۔ یہ نظریہ ہماری یونیورسٹیوں میں نفسیات کے نصاب کا جزو ہے۔ اس پر اب اردو میں کتابیں لکھی جا رہی ہیں اور بڑے زور سے اُس کی اشاعت ہو رہی ہے ۔ اس کے اثر سے جنسی تعلقات کی پاپندی یا آزادی کے متعلق ہمارا نقطہ نظر بھی مغرب سے متفق ہوتا جا رہا ہے۔ ہم بھی ایک عریان قسم کا ادب پیدا کر رہے ہیں، جو نہایت پر دلعزیز ہے اور ہمارے ہاں نفسیات فرائڈ کے اخبار اور رسالے، حشرات العرض کی طرح نکل رہے ہیں اور ہاتھوں ہاتھ بک رہے ہیں۔ یہ صورت حال خود بتا رہی ہے کہ یہ نظریہ ہمارے دین اور ایمان کو کس قدر تباہ کر رہا ہے۔
استفادہ تحریر :ڈاکٹر محمد رفیع الدین، فیصل ریاض شاہد، عبدالرزاق