احمد جاوید صاحب کے محاضرہِ جدیدیت کے چیدہ چیدہ اہم نکات پیش خدمت ہیں
1۔روایت انسان،کائنات اور خدا کی تثلیث پر پیدا ہونے والے نظام شعور اور ضابطہ وجود کو کہتے ہیں۔اہل روایت انہی تین حقیقتوں کے تناظر میں اپنے معاملات کا جائزہ لیتے ہیں۔
2۔روایت پسند وہ ہے جو اپنے ہر چھوٹے بڑے مسئلہ کو خدا،انسان اور کائنات کے مربوط تناظر میں دیکھے اور اس کے انفرادی اور تہذیبی فیصلوں میں خدا کے حکم کو ملحوظ رکھا جائے۔روایت کا بنیادی تناظر(principle perspective) خدا ہے۔
3۔جدیدیت روایت کی تثلیث سے خدا کو خارج کر دینے کا نام ہے۔
4۔خدا کو شاعرانہ تخیل مان کر زندگی سے لاتعلق کر دینا جدیدیت کا غالب رویہ ہے اور جدیدیت نے خدا سے لاتعلقی کا اظہار بیشتر سرمایہ دارانہ نظام کے اثر کے تحت کیا۔
5۔جدیدیت کا تعمیری عنصر سیکولرازم ہے اور پھیلاو کی قوت سرمایہ دارانہ نظام ہے۔یہ دونوں نظام جدیدیت کی تعمیر اور پھیلاو میں بنیادی حیثیت کے حامل ہیں۔
6۔روایت میں علم نافع وہ ہے جو خدا کے شعور میں اضافہ کرے۔
7۔جدیدیت تنویریت کا ہی اگلا مرحلہ اور اسکا بالواسطہ تسلسل ہے تاہم جدیدیت تنویریت سے مایوسی کا نتیجہ ہے۔جدیدیت کے مطابق تنویریت نے مذہبی جبر ختم کر کے عقلی جبر پیدا کیا۔
8۔تنویریت کے مطابق انسان صرف ایک عقلی وجود(Rational being) ہے۔اس کے نزدیک عقل آخری اتھارٹی ہے۔
9۔جدیدیت کے نزدیک عقل اور ذہن کا کام صرف موجودہ حالت کے لئے موثر تدبیر کرنا ہے۔اس کے نزدیک حقیقت اور غایت لایعنی چیزیں ہیں یعنی یہ سوال بے معنی ہے کہ انسان اور کائنات کا مقصد اور حقیقت کیا ہے؟
10۔جدیدیت کا کوئی ورلڈ ویو نہیں ہے۔ اسکے کوئی مستقل نظریات نہیں ہیں۔اس کے نزدیک انسان کا کوئی مستقل مقصود نہیں ہے جس کے تحت زندگی گزاری جائے۔
11۔روایت کا ورلڈ ویو اسکا تصور خدا،تصور انسان اور تصور کائنات ہی ہے۔ورلڈ ویو اس مستقل بات کو کہتے ہیں جس میں ذہنی اور عملی تغیر کا احتمال و امکان نہ ہو۔
12۔ہمارا تصور کائنات یہ ہے کہ کائنات اللہ کی طرف صریح اشارہ کرنے والے objects کا مجموعہ ہے۔
13۔جدیدیت کوئی فکر نہیں بلکہ ایک مستقل رویے کا نام ہے۔فکر ذہن کے اپنی خواہش یا ضرورت پر عمل کرنے کی کوشش کو کہتے ہیں جبکہ اپنی وجودی تکمیل کے لئے نیت اور عمل،ذوق اور فہم کا ملغوبہ تیار کرنے کو رویہ کہا جاتا ہے۔
14۔جدیدیت ایک وجودی سانچہ ہے کوئی فکری پراڈکٹ نہیں ہے۔
15۔یہ جملہ کہ “دین کو حالات سےہم آہنگ ہونا چاہیے” جدیدیت کا قوی ہتھیار ہے۔دین اگر تبدیلی کا پیغام لانے والی خدائی آواز نہیں ہے تو وہ دین نہیں ہے۔
16۔جمہوریت اور سیکولرازم ہم معنی ہیں۔اس کے سیکولر essence(روح)کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
17۔تاریخ قوانین کے عروج و زوال کے عملی میکنزم کا نام ہے۔جب تک کوئی قوم اخلاقی برتری،علمی فوقیت اور استعداد کار میں تفوق کی حامل رہتی ہے اس وقت تک ہی وہ تاریخ کی فناکاری کے گھاٹ سے محفوظ رہتی ہے۔
مکمل محاضرہ کا لنک :
محمد بھٹی