جس طرح پرانے زمانے کے بعض لوگوں پر جن آتے تھے اسی طرح ہمارے زمانے کے اکثر لوگوں پر الفاظ آتے ہیں۔ بالکل جنوں ہی کی طرح وہ ہمارے سروں پر مسلط ہو جاتے ہیں اور ان کے اثر میں ہم نہ جانے کیا کچھ کہتے رہتے ہیں جس کی ہمیں کچھ خبر نہیں ہوتی۔ تہذیب کا لفظ بھی اسی قسم کا ایک جن ہے جو ہمارے سروں پر مسلط ہوگیا ہے۔ اس لفظ کے پہلے معمول سر سید تھے۔ پھر جوں جوں علی گڑھ کی تعلیم اور ریل کی پٹریاں دور دور پھیلتی گئیں، یہ لفظ بھی عام ہوتا گیا۔ اب تو یہ عالم ہے کہ جسے دیکھیے آنکھیں لال کیئے جھوم جھوم کر “تہذیب تہذیب” کہتا نظر آتا ہے۔تہذیب نہ کہے گا تو ثقافت کہے گا۔ ثقافت نہ کہے گا تو کلچر کہے گا۔ میرے لیے تو یہ سب آسیبوں کے نام ہیں۔ کون کیا ہے، میری تو سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک بات البتہ مجھے معلوم ہے، جب کوئی لفظ ہمارے ذہنوں پر اس طرح سوار ہو جائےکہ ہم اس کے معنی کو سمجھے بغیر جا و بےجا طور پر اسے استعمال کرنے لگیں تو وہ لفظ نہیں رہتا نفسیاتی علامت بن جاتا ہے۔ تہذیب اور اسی قسم کے دوسرے تمام الفاظ ہماری اس نفسیات کو ظاہر کرتے ہیں کہ ان الفاظ اور ان کے متعلقات کے بارے میں ہمارے اندر کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔ ایک گڑبڑ تو اسی سے ظاہر ہے کہ تہذیب یا ثقافت یا کلچر کا دورہ سب سے زیادہ انھی لوگوں کو پڑتا ہے، جو کسی نہ کسی طرح اپنی روایت سے کٹ گئے ہیں۔ دور کیوں جایئے، ان لوگوں کے لباس، زبان اور رہن سہن پر ایک نظر ڈال لیجئے جواس قسم کی بحثوں میں بحثیت طبقہ پیش پیش رہتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کی پرورش مغربی انداز میں ہوئی اور اپنی اصلی زندگی میں اپنی تہذیب سے الگ ہو کر مغربی رنگ میں رنگ گئے ہیں۔ اس کا مطلب کہیں یہ تو نہیں ہے کہ اپنی تہذیب، ثقافت، کلچر کا اتنا چرچا کرنا بھی خود مغربیت ہی کا نتیجہ ہے؟ خیر وجہ بہرحال کچھ ہو، یہ جن ہمارے سروں پر سوار ہو گیا ہے، تو آیئے اس سے کچھ بات چیت کرنے کی کوشش کریں۔
جنوں سے بات چیت کرنے سے پہلے کچھ وظیفہ پڑھنا ضروری ہوتا ہے۔ ہماری آیت الکرسی۔ اس وقت رینے گینوں کا یہ خیال ہےکہ تہذیب کا لفظ اٹھارہویں صدی کے نصف آخر میں دو اور لفظوں کے ساتھ پھیلنا شروع ہوا۔ ان میں ایک لفظ “ترقی” تھا دوسرا “مادیت”۔ باپ، بیٹا، روح القدس کی تثلیت کی طرح تہذیب، ترقی اور مادیت کی تثلیت بھی تین میں ایک اور ایک میں تین کے فارمولے پر قائم تھی۔ مغرب میں اس تثلیت کے معنی یہ تھے کہ تہذیب اگر کوئی ہے تو وہ مغربی تہذیب ہے جواب تک کی انسانی ترقی کا حاصل ہے اور دوسری تہذیبوں سے اس بنا پر مختلف ہے کہ خالص سائنس کی ٹھوس بنیادوں پر قائم ہے۔ یہی وہ تہذیب تھی جسے پھیلانے کے لیے اہلِ مغرب بندوقیں اور توپیں لے کر ساری دنیا میں دوڑ پڑے۔ چنا نچہ برصغیرمیں سر سید اور ان کے معاصرین، تہذیب کا لفظ مغربی تہذیب ہی کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ اقبال کے یہاں بھی اس لفظ کے یہی معنی ہیں:
نہ ابلئہ مسجد ہوں، نہ تہذیب کا فرزند
اور
تہذیب کا کمال، شرافت کا ہے زوال
سر سید اور اقبال میں فرق یہ ہے کہ سر سید اہل مغرب کےاس دعوے کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ مغربی تہذیب ہی اصل تہذیب ہے۔ اس لیے سر سید کو برصغیر کی قومیں غیر مہذب نظر آنے لگتی ہیں، اور وہ انہیں بالخصوص مسلمانوں کو مغربی بنانے کی فکر میں پڑ جاتے ہیں۔ سر سید کے نزدیک مغربی ہونا مہذ ب اور ترقی یافتہ ہونے کی علامات ہے اس حد تک کہ انھیں انگریزوں کے کتے بھی ہندوؤں اور مسلمانوں سے بہتر معلوم ہوتے ہیں۔ رہی مادیت تو سر سید اس کے ابتدائی سبق “عقلیت” کو قبول کر لیتے ہیں۔ اس کے مقابلے پر اقبال مغرب کے ردِعمل کی دوسری منزل کی نشان دہی کرتے ہیں۔ یعنی وہ مغربی تہذیب کے مقابلے پر اسلامی تہذیب کو اس دعوے کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ مغربی تہذیب در اصل خود مسلمانوں کے اثر سے پیدا ہوئی ہے۔ مغرب کی سائینس، جو ان کی ترقی کا سبب ہے، خود مسلمانوں ہی کی ایجاد تھی، اور اگر وہ “خرافات” اور “روایات” میں مبتلا ہو کر سو نہ جاتے تو مغرب کی طرح خود ترقی کی اس منزل پر پہنچ جاتے۔ مادیت کو البتہ اقبال شدت کے ساتھ رد کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔۔مادیت کو بھی اور عقلیت پرستی کو بھی۔ مگر اقبال پر تھیوسوفی کا جو اثر پڑا ہے اس کا ذرا گہرا مطالعہ ہمیں بتا سکتا ہے کہ اقبال کا یہ ردِعمل مغربیت ہی کی ایک شکل ہے۔ سر سید نے مسلمانوں کو مغربی بنانے کی جو مہم شروع کی تھی، اقبال اس کی اگلی منزل ہیں۔ اقبال پر نتشے اور برگساں کا جو اثر ہے ہمیں اسے بھی اسی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ بعض لوگوں کو میرا یہ خیال خلافِ واقعہ معلوم ہو، کیوں کہ اقبال شدت سے مغرب کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر ہمیں یاد رکھنا چاہیےکہ مغرب کا ردِ عمل بھی مغربیت کی ہی ایک شکل ہے۔ مثلاََ قوم پرستی کی تحریک مغربی استعمار کے خلاف تحریک آزادی بنتی ہے مگر قوم پرستی خود مغربیت ہی کا ایک شاخسانہ ہے۔ اقبال کی مغربیت یہ ہے کہ وہ مغرب کی سائینس کو قبول کرلیتے ہیں جس کی بنیاد مادیت ہے۔ البتہ وہ اسلامی اخلاق قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ بہت زیادہ گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو اخلاق، وجدان اور جزبے پر اتنا زور جو اقبال کے ہاں نظر آتا ہے، وہ بھی خالص مغربی تصورات کا نتیجہ ہے۔ بہ ظاہر یہ متضاد بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ نئی مشرقیت (یااسلامیت) جو ہمیں اقبال اور ان کے ساتھ دوسرے بہت سے لوگوں میں ملتی ہے، خود مغربیت ہی کی ایک قسم ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ قوم پرستی کی تحریک کی طرح، مغرب کے تمام اثرات اپنی روح کو برقرار رکھتے ہوئے مظاہر میں مغرب کی ضد پیدا کرتے ہیں۔ اس طرح مغرب کی ظاہراً مخالفت بھی مغربیت سے پیدا ہوتی ہے۔ ہم برصغیر میں پچھلے سو برس میں پیدا ہونے والے سیاسی، اخلاقی اور تہذیبی اثرات کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت کھل کر ہمارے سامنے آجائے گی کہ مغرب کے خلاف یہ تمام ردِ عمل مغربی اثرات کا پیدا کیا ہوا تھا۔ اقبال مغربیت کی جس دوسری منزل کی نشان دہی کرتے ہیں، وہاں پہنچ کر تہذیب کا جن مشرقی زبان بولنے لگتا ہے، یعنی مغربی روح مشرقی پیکر میں حلول کر جاتی ہے اور وہ چیز جو اپنی اصل کے اعتبار سے قطعی”بیرونی” اور “اجنبی” تھی، ہمارے اندر سرایت کر کےیہ دھوکا دینے لگتی ہے کہ وہ ہماری اپنی ہے۔ اقبال کی نواسلامیت اور نو مشرقیت مغرب کے اسی عمل تناسخ سے پیدا ہوئی ہے۔
اقبال کی زندگی ہی میں مغربیت کا اثر اپنی تیسری منزل میں داخل ہوجاتا ہے۔ ترقی پسند تحریک اسی منزل پر پیدا ہوتی ہے۔ اب تہذیب، ترقی اور مادیت سر سید کی عقلیت اور اقبال کی وجدانیت سے گزر کر اپنے سیدھے سادے روپ میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ تحریک اس بات کی علامت ہے کہ اب مغرب کا اثر ہمارے اندر گہرا اثر کر گیا ہے کہ ہم اپنی مکمل نفی کرنے کے باوجود اس دھوکے میں مبتلا رہ سکتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو “ترقی” دے رہے ہیں۔ یہ تحریک اپنی روح کے اعتبار سےخالص مغربی ہونے کے باوجود ہمیں یہ فریب دیتی ہے کہ ہم اپنی روایت سے نیا رشتہ جوڑ رہے ہیں اور اپنے ماضی کے بہترین عناصر کے امین ہیں۔ سر سید کے یہاں تہذیب اور ترقی کے معنی مغربی معاشرت اور مغربی تعلیم کے تھے۔ اقبال کے یہاں تہذیب و ترقی کے معنی اسلامی اخلاق کو برقرار رکھتےھوئےسائنس کو قبول کر لینا ہے۔ ترقی پسندوں کے یہاں تہذیب وترقی کے معنی اپنے تمدن کے سب سے رسمی اور ظاہری حصے کو قائم رکھتے ہوئے مادیت کو مان لینا ہے۔ مغربی اثر کی ان تینوں منزلوں کو نظر میں رکھا جائے تو سر سید کے رد و قبول کی وہ تمام صورتیں جو شبلی، اکبر، اقبال اور ترقی پسندوں کے یہاں ملتی ہیں۔ ان کے معنی روشن ہونے لگتے ہیں، اور پتہ چلتا ہے کہ مغرب کی روح کس طرح چولے بدل بدل کر ہمیں دھوکا دیتی رہی ہے کہ ہم ترقی کی منزلوں میں مغرب کا ساتھ دینے کے باوجود مشرقیت کی طرف لوٹ رہے ہیں۔
آنندا کمار سوامی نے لکھا ہے کہ مغربی تہذیب نے ہر اس تہذیب کو جو اس سے مختلف تھی اور صدیوں سے اپنے نام پر قائم تھی، اپنے زہریلے اثر سے اسی طرح ہلاک کردیا ہے جس طرح قابیل نے ہابیل کو ہلاک کیا تھا۔ لیکن وہ قابیل ہی کی طرح اس خون ناحق کو چھپانا بھی چاہتی ہے، اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہےکہ مقتول کی ممی بنا کر اسے تماشاگاہوں میں چلتا پھرتا دکھایا جائے تاکہ کسی کو یہ احساس ہی نہ ہونے پائے کہ وہ قتل ہو چکا ہے۔ چنا نچہ جوں جوں مغربی اثر ہماری تہذیبی روح کو فنا کر رہا ہے اور مغربیت ہمارے اوپر مسلط ہوتی جارہی ہے۔ ہم نیشنل سینٹروں اور کلچرل تماشوں میں اپنی تہذیبوں کے خارجی مظاہر کی کٹھ پتلیاں نچاتے نظر آتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اپنی جس تہذیب کو اپنی زندگی میں رد کر چکے ہیں اسے کھیل تماشا اور نمائش کے طور پر قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ اپنی تہذیب سے محبت نہیں، اس سے ایک ایسا سفاکانہ مزاق ہے جو ہماری قاتلانہ زہنیت کی نمائندگی کرتا ہے۔ چنا نچہ تہذیب، ثقافت اور کلچر کا شور بڑھتا جاتا ہے کہ ہم اپنی تہذیب، ثقافت اور کلچر سےاتنے ہی دور جاچکے ہیں۔۔۔۔۔لیجیے ہماری ایک آیت الکرسی سے تہذیب کے جن نے اتنی باتیں بتادیں، اب آگے کا وظیفہ پھر کبھی۔
تحریر سلیم احمد ۔
}سلیم احمد بیسویں صدی کے دیگر نصف حصہ کے سرکرده تنقید نگار اور شاعر تھے۔ وه خود نہایت جید تنقیدی اسلوب و فکر کے مالک تھے، اور بیسویں صدی میں اردو کے اہمترین جدت پسند تنقید نگار، محمد حسن عسکری، کے منفرد شاعرانہ اور تنقیدی طرزِ فکر کے وارث تھے، جنہوں نے اردو ادبیات میں کلیدی مابعدِنوَآدادیاتی سوالات اُٹھائے۔}