منشائے کلام متکلم بتائے گا یا کوئی اور؟
Athense کے میلے میں ایک مصور کا شاہکار نصب کیا گیا اور لوگوں کی رائے مانگی گئی مصور نے انگوروں کا ایک خوشہ بنایا جسے انسانی ہاتھ نے اپنی گرفت میں لے رکھاتھا انگور اصل
دوسرے دن ایک شخص نے اس شاہکار کو باطل قرار دیا اس کا کہنا تھا کہ اس تصویر میں بہت بڑا عیب ہے ہاتھ نقلی ہے پرندوں نے نقلی ہاتھ کو پہچان لیا اگر یہ اصلی ہوتا تو پرندے کبھی انگور پر چونچ مارنے کی جرأت نہ کرتے جو مصور اصلی انگور بنا سکتا تھا وہ اصلی ہاتھ کیوں نہ بنا سکا یہ اس کے فن کا نقص ہے۔ اس تنقید نے یونان کو ہلا کر رکھ دیا کئی روز تک اس نقد کے چرچے رہے۔ دو ہفتے بعد ایک نقاد نے اس تنقید کا جائزہ پیش کیا اس کا خیال تھا کہ مصور نے تضادات کے ذریعے کمال فن کا مظاہرہ کیاہے۔ نقلی ہاتھ اس مہارت سے بنایا کہ پرندے اس ہاتھ کی حقیقت سے واقف ہوگئے حالانکہ انسانی آنکھ بھی بہ ظاہر اس ہاتھ کو اصل سمجھ رہی ہے اگر پرندوں کے لیے اصلی ہاتھ کے مماثل ہاتھ بنایا جاتا تو لوگ انگوروں پر چونچیں مانے کے حسین منظر سے محروم رہتے اور یہ شاہکار لوگوں کی توجہ کا مرکز ہی نہ بنتا اور نقلی انگور اس کمال سے بنائے کہ پرندوں نے اس پرنقلی ہونے کے باوجود اصل کا گمان کیا حالانکہ یہی پرندے نقلی ہاتھ کو پہچان گئے تھے جبکہ انسانوں نے ہاتھ بھی اصل کے مماثل جانا مصور نے اس فن پارے کے ذریعے یہ بھی بتایا کہ پرندوں کی حسی صلاحیتیں انسانو ںسے نصف بہتر ہوتی ہیں تضادات کے ذریعے مصوری کمال فن ہے اس تنقید نے یونان میں زلزلہ پیدا کردیا اگلے کئی ماہ اس نقدکا غلغلہ برپا رہا۔چند ماہ بعد ایک اور ناقد نے اس نقد کے پرخچے اڑادیے اس نے بتایا کہ ہاتھ بھی اصل سے مشابہ ہے اور انگور بھی اصل سے مماثل ہیں اس شاہکار میں کوئی عیب نقص نہیں ہے لیکن پرندوں نے یونان میں کبھی اتنے خوبصورت رسیلے اعلیٰ ترین انگور نہیں دیکھے لہٰذا وہ انسانی ہاتھ کو اصل جانتے ہوئے بھی اپنی جان پر کھیل کر ان انگوروں کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اس مدح نے تو یونان میں تہلکہ برپا کردیا لوگ اس تشریح و توضیح و تاویل پر عش عش کر اٹھے یہ مدح سرائی کئی سالوں تک ہوتی رہی۔ پھر ایک نئے محقق تشریف لائے انہوں نے تمام سابقہ تشریحات و توضیحات کو رد کردیا اور کہا کہ بہ ظاہر ہاتھ بھی اصلی ہے اور انگور بھی اصلی ہیں لیکن پرندوں نے چند پروازوں کے بعد اندازہ کرلیا کہ مصور نے ہمیںانسانی ہاتھ کے ذریعے خوف زدہ کرنے کی کوشش کی اور جو پرندے ہمت کرکے جان پر کھیل کر ان جعلی انگوروں تک پہنچ گئے مصور نے ان پرندوں کوبھی دھوکہ دیا کیونکہ انگور نقلی ہیں۔لہٰذا اب پرندے مسلسل غصے میں انگوروں کے خوشوں پر چونچیں ماررہے تھے یہ پرندوں کا انتقام ہے اس تنقید نے تو یونان کے درو دیوار کو لرزا کر رکھ دیا۔اس نقد پر ایک اور ناقد کا تبصرہ آیا کہ اگر پرندے اس قدر زبردست حسی صلاحیت رکھتے تھے کہ انہوں نے انسان کے دھوکے کو پہچان لیا تو پھر پرندوں کو چاہیے تھا کہ وہ انسانی ہاتھ پر انتقاماً چونچیں مارتے وہ انگوروں پر چونچیں کیوں مار رہے ہیں؟ اس کا رد کرتے ہوئے ایک اور ناقد نے کہا کہ انسانی ہاتھ بالکل مردہ لگتاہے لہٰذا پرندے مردہ ہاتھ پر چونچ نہیں مارتے لیکن انگوروں میں زندگی کے آثار نظر آتے ہیں لہٰذا وہ انگوروں پر چونچیں ماررہے ہیں دھوکہ معلوم ہونے کے بعد بھی پرندے دھوکہ کھارہے ہیں یہی اس فن پارے کا کمال ہے۔
انگوروں کا ایک خوشہ بنایا جسے انسانی ہاتھ نے اپنی گرفت میں لے رکھاتھا انگور اصل
دوسرے دن ایک شخص نے اس شاہکار کو باطل قرار دیا اس کا کہنا تھا کہ اس تصویر میں بہت بڑا عیب ہے ہاتھ نقلی ہے پرندوں نے نقلی ہاتھ کو پہچان لیا اگر یہ اصلی ہوتا تو پرندے کبھی انگور پر چونچ مارنے کی جرأت نہ کرتے جو مصور اصلی انگور بنا سکتا تھا وہ اصلی ہاتھ کیوں نہ بنا سکا یہ اس کے فن کا نقص ہے۔ اس تنقید نے یونان کو ہلا کر رکھ دیا کئی روز تک اس نقد کے چرچے رہے۔ دو ہفتے بعد ایک نقاد نے اس تنقید کا جائزہ پیش کیا اس کا خیال تھا کہ مصور نے تضادات کے ذریعے کمال فن کا مظاہرہ کیاہے۔ نقلی ہاتھ اس مہارت سے بنایا کہ پرندے اس ہاتھ کی حقیقت سے واقف ہوگئے حالانکہ انسانی آنکھ بھی بہ ظاہر اس ہاتھ کو اصل سمجھ رہی ہے اگر پرندوں کے لیے اصلی ہاتھ کے مماثل ہاتھ بنایا جاتا تو لوگ انگوروں پر چونچیں مانے کے حسین منظر سے محروم رہتے اور یہ شاہکار لوگوں کی توجہ کا مرکز ہی نہ بنتا اور نقلی انگور اس کمال سے بنائے کہ پرندوں نے اس پرنقلی ہونے کے باوجود اصل کا گمان کیا حالانکہ یہی پرندے نقلی ہاتھ کو پہچان گئے تھے جبکہ انسانوں نے ہاتھ بھی اصل کے مماثل جانا مصور نے اس فن پارے کے ذریعے یہ بھی بتایا کہ پرندوں کی حسی صلاحیتیں انسانو ںسے نصف بہتر ہوتی ہیں تضادات کے ذریعے مصوری کمال فن ہے اس تنقید نے یونان میں زلزلہ پیدا کردیا اگلے کئی ماہ اس نقدکا غلغلہ برپا رہا۔چند ماہ بعد ایک اور ناقد نے اس نقد کے پرخچے اڑادیے اس نے بتایا کہ ہاتھ بھی اصل سے مشابہ ہے اور انگور بھی اصل سے مماثل ہیں اس شاہکار میں کوئی عیب نقص نہیں ہے لیکن پرندوں نے یونان میں کبھی اتنے خوبصورت رسیلے اعلیٰ ترین انگور نہیں دیکھے لہٰذا وہ انسانی ہاتھ کو اصل جانتے ہوئے بھی اپنی جان پر کھیل کر ان انگوروں کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اس مدح نے تو یونان میں تہلکہ برپا کردیا لوگ اس تشریح و توضیح و تاویل پر عش عش کر اٹھے یہ مدح سرائی کئی سالوں تک ہوتی رہی۔ پھر ایک نئے محقق تشریف لائے انہوں نے تمام سابقہ تشریحات و توضیحات کو رد کردیا اور کہا کہ بہ ظاہر ہاتھ بھی اصلی ہے اور انگور بھی اصلی ہیں لیکن پرندوں نے چند پروازوں کے بعد اندازہ کرلیا کہ مصور نے ہمیںانسانی ہاتھ کے ذریعے خوف زدہ کرنے کی کوشش کی اور جو پرندے ہمت کرکے جان پر کھیل کر ان جعلی انگوروں تک پہنچ گئے مصور نے ان پرندوں کوبھی دھوکہ دیا کیونکہ انگور نقلی ہیں۔لہٰذا اب پرندے مسلسل غصے میں انگوروں کے خوشوں پر چونچیں ماررہے تھے یہ پرندوں کا انتقام ہے اس تنقید نے تو یونان کے درو دیوار کو لرزا کر رکھ دیا۔اس نقد پر ایک اور ناقد کا تبصرہ آیا کہ اگر پرندے اس قدر زبردست حسی صلاحیت رکھتے تھے کہ انہوں نے انسان کے دھوکے کو پہچان لیا تو پھر پرندوں کو چاہیے تھا کہ وہ انسانی ہاتھ پر انتقاماً چونچیں مارتے وہ انگوروں پر چونچیں کیوں مار رہے ہیں؟ اس کا رد کرتے ہوئے ایک اور ناقد نے کہا کہ انسانی ہاتھ بالکل مردہ لگتاہے لہٰذا پرندے مردہ ہاتھ پر چونچ نہیں مارتے لیکن انگوروں میں زندگی کے آثار نظر آتے ہیں لہٰذا وہ انگوروں پر چونچیں ماررہے ہیں دھوکہ معلوم ہونے کے بعد بھی پرندے دھوکہ کھارہے ہیں یہی اس فن پارے کا کمال ہے۔
لیکن اب سوال یہ ہے کہ منشائے تصویر کون بنائے گا مصور یا نقاد، منشائے کلام کون بتائے گا متکلم یا کوئی اور یا اس کا نامزد فرد۔ ایک ہی حقیقت کی ایک ہزار تشریحات ہوسکتی ہیں اور وہ صورت بھی پیش آسکتی ہے جسے علم منطق میں تاؤیل القول بما لا یرضی عنہ قائلہ یعنی قول کی ایسی تاویل کرنا جس سے متکلم خود راضی نہ ہو چنانچہ کون سی تشریح حقیقت ہے اس کا تعین، فیصلہ کیسے ہوگا؟ کلام اللہ اور کلام رسول اللہ ۖکی تشریح و توضیح و توجیہہ و تفسیر اللہ کے نامزد رسولۖ کے صحبت یافتہ اصحا ب اور دین کی روح سے آشنا صلحائے امت کریں گے یا کوئی بھی ایرا غیرا یہ کام کر ے گا؟ ظاہر ہے فقہائے عابدین اس کی تشریح کریں گے اور تشریح بہر حال انسان کریں گے اور عقل کی مدد سے کریں گے تو خطاء کا امکان ہمیشہ رہے گا لہٰذا اس امکان کا ازالہ اسلامی علمیت ،منہاج تہذیب و تاریخ میں اجماع سے کیا گیا ہے کیونکہ دین کی تعبیر و تشریح میں عقل انسانی استعمال ہوگی۔ افراد کی عقل انفرادی سطح پر غلطی کرسکتی ہے۔ لیکن امت کے فقہائے عابدین کی اکثریت اجتماعی غلطی نہیں کرسکتی اس لیے رسالت مآب ۖ نے فرمایا کہ میری امت کا اجماع کسی غلط بات پر نہیں ہوسکتا۔ عقل جب بھی تنہا استعمال ہوگی تو غلطی کا امکان رہے گا لہٰذا اس غلطی کے امکان کو ختم کرنے کا طریقہ الہٰی حکمت بالغہ نے امت کے اجتماعی تعقل کو بروئے کار لاتے ہوئے اجماع امت کی صورت میں اختیار کیا۔ظاہر ہے یہ اجماع عوام کا نہیں صرف اور صرف علماء عابدین و ساجدین کا معتبرہے مسلک جمہور کی اصطلاح سے علامہ اقبال جیسے فلسفی کو یہ شبہ ہوا کہ اس سے مراد عوامہیں جو عربی میں کالانعام کہلاتے ہیں اس طرح ساجدین عابدین کے اجتماعی تعقل کے فیصلوں کو رسالت مآبۖ کی حدیث مبارک سے تائید حاصل ہوگئی کہ امت کا اجماع کسی غلط بات پر ممکن نہیں۔ اس قول کی تصحیح اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمائی لہٰذا یہ قول اذنِ ربانی کی بھی وضاحت کررہا ہے کہ اللہ کی تائید بھی اس موقف کو حاصل ہے ۔اس لیے رسالت مآبۖ نے ہر نئے معاملے، نئے مسئلے اور نئی الجھن کو سلجھاتے ہوئے کسی بڑی غلطی کے امکان سے بچنے کے لیے ہدایت فرمائی کہ فقہائے عابدین سے مشورہ کرو۔روایت ہے کہ حضرت علی نے آنحضرتۖ سے پوچھا کہ ہمیں کوئی ایسا معاملہ پیش آئے جس کے متعلق کوئی صریح حکم یا ممانعت قرآن و سنت میں موجود نہ ہو تو میرے لیے کیا حکم ہے؟ تو آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا اس سلسلے میں عبادت گزار فقہاء سے مشورہ کرو خود اس میں کوئی خاص رائے قائم نہ کرو شاوروافیہ الفقہاء العابدین ولا تمضوا فیہِ رأَیَ خاصَّةٍ ]مجمع الزوائد ١٧٨١[ اس امت میں جب بھی لوگوں نے رسالت مآب ۖکے اس حکم سے انحراف کیا ٹھوکر کھائی جدید اسلامی سائنس ، اسلامی سرمایہ داری ، اسلامی اکنامکس ، اسلامی جمہوری سیاست ، اسلامی سوشل سائنسز اور نکاح المیسار یعنی اسلامی متعہ کے ذریعے اسلامی معاشرت کی تباہی و بربادی کے حیلے عہد حاضر میں اس کی زندہ مثالیں ہیں ۔ ان امور میں عجلت کے باعث ہم سے غلطیاں سرزد ہوئیں غلطیاں کرنے والوں نے خود اپنے موقف کو الحق نہیں کہا خطاء کا امکان تسلیم کیا لہٰذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ماضی کی اغلاط سے احتراز کریں اور ایک نئی دنیا تعمیر کریں جس کے اپنے ادارے ہوں جو اپنی علمیت پر انحصار کریں نہ کہ مغرب کی اسلام کاری کا فریضہ انجام دیں۔
بشکریہ الواقعۃ شمارہ ٣ ,سیّد خالد جامعی ( کراچی یونی ورسٹی ،کراچی )۔یہ ضمون جریدہ “الواقۃ” کراچی کے شمارہ، شعبان معظم 1433ھ/ جون، جولائی 2012- سے ماخوذ ہے۔