دنیا میں انسان کی زندگی کے لیے جو نظام نامہ بھی بنایا جائے گا اس کی ابتدا لامحالہ ما بعد الطبیعی یا الٰہیاتی مسائل سے ہو گی۔ زندگی کی کوئی اسکیم بن نہیں سکتی جب تک کہ انسان کے متعلق اور اس کی کائنات کے متعلق جس میں انسان رہتا ہے واضح اور متعین تصور نہ قائم کر لیا جائے۔ یہ سوال کہ انسان کا برتاؤ یہاں کیا ہونا چاہیے اور کس طرح اسے دنیا میں کام کرنا چاہیے ، دراصل اس سوال سے گہرا تعلق رکھتا ہے کہ انسان کیا ہے ، اس کائنات میں اس کی حیثیت کیا ہے ، اور اس کائنات کا نظام کس ڈھنگ کا ہے جس سے انسان کی زندگی کے ڈھنگ کو ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ اس سوال کا جو حل بھی تجویز کیا جائے گا اُسی کے لحاظ سے اخلاق کا ایک نظریہ قائم ہو گا۔ پھر اسی نظریۂ اخلاقی کی نوعیت کے مطابق انسانی زندگی کے مختلف شعبوں کی تشکیل ہو گی، پھر اسی سانچے کے اندر انفرادی سیرت و کردار اور اجتماعی تعلقات و معاملات کے قوانین اپنی تفصیلی صورتیں اختیار کریں گے ، اور آخرکار تمدن کی پوری عمارت انہی بنیادوں پر تعمیر ہو گی۔ دنیا میں اس وقت تک انسانی زندگی کے لیے جتنے مذہب و مسلک بھی بنے ہیں ان سب کو بہرحال اپنا ایک بنیادی فلسفہ اور ایک اساسی نظریۂ اخلاق مرتب کرنا پڑتا ہے اور اصول سے لے کر چھوٹے چھوٹے جزئیات تک میں ایک مسلک کو دوسرے مسلک سے جو چیز ممتاز کرتی ہے وہ یہی فلسفہ اور یہی اخلاقی نقطۂ نظر ہے۔ کیونکہ ہر دستور زندگی کا مزاج اسی چیز کی طبیعت کے مطابق بنتا ہے اور یہ اس کے قالب میں روح کی حیثیت رکھتی ہے۔
*زندگی کے چار نظریے :
جزئیات و فروع سے قطع نظر، اصولی حیثیت سے اگر دیکھا جائے تو انسان اور کائنات کے متعلق چار ہی ما بعد الطبیعی نظریے قائم ہو سکتے ہیں ، اور دنیا میں جتنے دستور زندگی پائے جاتے ہیں انہوں نے انہی چار میں سے کسی ایک کو اختیار کیا ہے۔
٭1۔جاہلیت خالصہ
ان میں سے پہلے نظریے کو ہم جاہلیت خالصہ سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کا خلاصہ یہ ہے :
کائنات کا یہ سارا نظام ایک اتفاقی ہنگامہ وجود و ظہور ہے جس کے پیچھے کوئی حکمت، کوئی مصلحت اور کوئی مقصد کارفرما نہیں۔ یونہی بن گیا ہے ، یونہی چل رہا ہے اور یونہی بے نتیجہ ختم ہو جائے گا۔ اس کا کوئی خدا نہیں ہے اور اگر ہے تو اس کے ہونے یا نہ ہونے کا انسان کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔
انسان ایک قسم کا جانور ہے ، جو دوسری چیزوں کی طرح شاید اتفاقاً یہاں پیدا ہو گیا ہے۔ ہمیں اس سے بحث نہیں کہ اس کو کس نے پیدا کیا اور کس لیے پیدا کیا۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ یہ اس زمین پر پایا جاتا ہے ، کچھ خواہشیں رکھتا ہے جنہیں پورا کرنے کے لیے اس کی طبیعت اندر سے زور کرتی ہے ، کچھ قویٰ اور آلات رکھتا ہے ، جو ان خواہشوں کی تکمیل کا ذریعہ بن سکتے ہیں ، اور اپنے گرد و پیش زمین کے دامن پر بہت سا سامان پھیلا ہوا دیکھتا ہے جن پر یہ اپنے قویٰ اور آلات کو استعمال کر کے اپنی خواہشوں کی تکمیل کر سکتا ہے ، لہٰذا اس کی زندگی کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ اپنی طبیعتِ حیوانی کے مطالبات پورے کرے ، اور اس کی انسانی استعدادوں کا مصرف اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ ان مطالبات کو پورا کرنے کے بہتر سے بہتر ذرائع فراہم کرے۔
انسان سے مافوق کوئی علم کا منبع اور ہدایت کا سرچشمہ موجود نہیں ہے جہاں سے اس کو اپنی زندگی کا قانون مل سکتا ہو، لہٰذا اس کو اپنے گرد و پیش کے آثار و احوال سے اور اپنی تاریخ کے تجربات سے خود ہی ایک قانونِ عمل اخذ کرنا چاہیے۔
بظاہر کوئی ایسی حکومت نظر نہیں آتی ہے جس کے سامنے انسان جوابدہ ہو، اس لیے انسان بجائے خود ایک غیر ذمہ دار ہستی ہے ، اور اگر یہ جوابدہ ہے بھی تو آپ اپنے ہی سامنے ہے ، یا پھر اس اقتدار کے سامنے جو خود انسانوں ہی میں سے پیدا ہو کر افراد پر مستولی ہو جائے۔
اعمال کے نتائج جو کچھ بھی ہیں اسی دنیوی زندگی کی حد تک ہیں۔ اس کے ماسوا کوئی زندگی نہیں ہے ، لہٰذا صحیح اور غلط، مفید اور مضر، قابل اخذ اور قابل ترک ہونے کا فیصلہ صرف انہی نتائج کے لحاظ سے کیا جائے گا جو دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں۔
انسان جب جاہلیتِ محضہ کی حالت میں ہوتا ہے یعنی اپنے محسوسات سے ماوراء کسی حقیقت تک وہ نہیں پہنچتا یا بندگیِ نفس کی وجہ سے نہیں پہنچنا چاہتا، تو اس کے ذہن پر یہی نظریہ حاوی ہوتا ہے۔ دنیا پرستوں سے ہر زمانے میں یہی نظریہ اختیار کیا ہے۔ قلیل مستثنیات کو چھوڑ کے بادشاہوں نے ، امیروں نے ، درباریوں اور اور اربابِ حکومت نے خوش حال لوگوں اور خوشحالی کے پیچھے جان دینے والوں نے عموماً اسی نظریے کو ترجیح دی ہے۔ اور جن قوموں کی تمدنی ترقی کے گیت تاریخ میں گائے جاتے ہیں ، بالعموم ان سب کے تمدن کی جڑ میں یہی نظریہ کام کرتا رہا ہے۔ موجودہ مغربی تمدن کی بنیاد میں بھی یہی نظریہ کارفرما ہے ، اگرچہ اہلِ مغرب سب کے سب خدا اور آخرت کے منکر نہیں ہیں ، نہ علمی حیثیت سے سب مادّہ پرستانہ اخلاق کے قائل ہیں۔ لیکن جو روح ان کے پورے نظامِ تہذیب و تمدن میں کام کر رہی ہے، وہ اسی انکارِ خدا و آخرت اور اسی مادہ پرستانہ اخلاق ہی کی روح ہے ، اور وہ کچھ اس طرح ان کی زندگی میں پیوست ہو گئی ہے کہ جو لوگ علمی حیثیت سے خدا اور آخرت کے قائل ہیں اور اخلاق میں ایک غیر مادہ پرستانہ نقطۂ نظر اختیار کرتے ہیں وہ بھی غیر شعوری طور پر اپنی واقعی زندگی میں دہریے اور مادہ پرست ہی ہیں۔ کیونکہ ان کے علمی نظریہ کا ان کی عملی زندگی سے بالفعل کوئی ربط قائم نہیں ہے۔
ایسی ہی کیفیت ان سے پہلے کے مترفین اور خدا فراموش لوگوں کی بھی تھی۔ بغداد، دمشق، دہلی اور غرناطہ کے مترفین مسلمان ہونے کی وجہ سے خدا اور آخرت کے منکر نہ تھے مگر ان کی زندگی کا سارا پروگرام اس طرح بنتا تھا کہ گویا نہ خدا ہے نہ آخرت، نہ کسی کو جواب دینا ہے ، نہ کہیں سے ہدایت ملتی ہے۔ جو کچھ ہیں ہماری خواہشات ہیں ، ان خواہشات کی تکمیل کے لیے ہر قسم کے ذرائع اور ہر قسم کے طریقے اختیار کرنے میں ہم آزاد ہیں اور دنیا میں جینے کی مہلت ملتی ہے اس کا بہترین مصرف بس یہ ہے کہ ؎ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
جیسا کہ اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے ، اس نظریہ کی عین فطرت یہی ہے کہ اس کی بنیاد پر ایک خالص مادہ پرستانہ نظامِ اخلاق بنتا ہے ، خواہ وہ کتابوں میں مدون ہو یا صرف ذہنیتوں ہی میں مرتب ہو کر رہ جائے ، پھر اسی ذہنیت سے علوم و فنون اور افکار و آداب کی آبیاری ہوتی ہے اور پورے نظام تعلیم و تربیت میں الحاد و مادیت کی روح سرایت کر جاتی ہے۔ پھر انفرادی سیرتیں اسی سانچے میں ڈھلتی ہیں ، انسان اور انسان کے درمیان تعلقات و معاملات کی تمام صورتیں اسی نقشہ پر بنتی ہیں اور قوانین کا نشوونما اسی ڈھنگ پر ہوتا ہے۔ پھر اس طرز کی سوسائٹی میں سطح پر وہ لوگ اُبھر آتے ہیں جو سب سے زیادہ مکار، بد دیانت، جھوٹے ، دغا باز، سنگدل اور خبیث النفس ہوتے ہیں۔ تمام سوسائٹی کی سیادت و قیادت اور مملکت کی زمامِ کار انہی کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور وہ شترِ بے مہار کی طرح ہر حساب سے بے خوف اور ہر مواخذہ سے بے پروا ہو کر خلقِ خدا پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ میکیاولی (Machiavelli) کے اصول سیاست پر ان کی ساری حکمتِ عملی مبنی ہوتی ہے۔ ان کی کتابِ آئین میں زور کا نام حق اور بے زوری کا نام باطل ہوتا ہے۔ جہاں کوئی مادی رکاوٹ حائل نہیں ہوتی وہاں کوئی چیز ان کو ظلم سے نہیں روک سکتی۔ یہ ظلم مملکت کے دائرے میں یہ شکل اختیار کرتا ہے کہ طاقت ور طبقے اپنی ہی قوم کے کمزور طبقوں کو کھاتے اور دباتے ہیں ، اور مملکت کے باہر اس کا ظہور قوم پرستی، امپیریلزم اور ملک گیری و اقوام کشی کی صورت میں ہوتا ہے۔
٭2۔جاہلیتِ مشرکانہ
دوسرا ما بعد الطبیعی نظریہ شرک کے اصول پر مبنی ہے اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کائنات کا نظام اتفاقی تو نہیں ہے اور نہ بے خداوند ہے ، مگر اس کا ایک خداوند (Master) نہیں بلکہ بہت سے خداوند ہیں۔
یہ خیال چونکہ علمی ثبوت (Scientific proof) پر مبنی نہیں ہے بلکہ محض خیال آرائی پر اس کی بنا ہے ، اس لیے موہوم، محسوس اور معقول اشیاء کی طرح خداوندی و الٰہیت کو منسوب کرنے میں مشرکین کے درمیان نہ کبھی اتفاق ہو سکتا ہے ، نہ کبھی ہوا ہے۔ اندھیرے میں بھٹکنے والوں کا ہاتھ جس چیز پر بھی پڑ گیا وہ خدا بنا لی گئی اور خداؤں کی فہرست ہمیشہ گھٹتی بڑھتی رہی، فرشتے ، جن، ارواح، سیارے ، زندہ اور مردہ انسان، درخت، پہاڑ، جانور، دریا، زمین، آگ سب دیوتا بنا ڈالے گئے۔ بہت سے معانی مجرّدہ (Abstract Ideas) مثلاً محبت، شہوت، قوتِ تخلیق، بیماری، جنگ، لچھمی، شکتی وغیرہ کو بھی خدائی کا مقام دیا گیا۔ طرح طرح کے خیالی مرکبات مثلاً شیر انسان، ماہی انسان، پرندہ انسان، چہار سرا، ہزار دستہ، خرطوم بینی وغیرہ بھی مشرکین کے معبودوں میں جگہ پاتے رہے۔
پھر اس دیو مالا کے گرد اوہام و خرافات (Mythology) کا ایک عجیب طلسم ہوش ربا تیار ہوا ہے جس میں ہر جاہل قوم کی قوت واہمہ نے اپنی شادابی و نادرہ کاری کے وہ دلچسپ نمونے فراہم کیے ہیں کہ دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ جن قوموں میں خداوند اعلیٰ یعنی اللہ کا تصور نمایاں پایا گیا ہے وہاں تو خدائی کا انتظام کچھ اس طرز کا ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ بادشاہ ہے اور دوسرے خدا اس کے وزیر، درباری، مصاحب، عہدہ دار اور اہل کار ہیں ، مگر انسان بادشاہ سلامت تک راہ نہیں پا سکتا۔ اس لیے سارے معاملات ماتحت خداؤں ہی سے وابستہ رہتے ہیں ، اور جن قوموں میں خداوند اعلیٰ کا تصور بہت دھندلا یا تقریباً مفقود ہے ، وہاں ساری خدائی اربابِ متفرقین ہی میں تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔
جاہلیتِ خالصہ کے بعد یہ دوسری قسم کی جاہلیت ہے جس میں انسان قدیم ترین زمانہ سے آج تک مبتلا ہوتا رہا ہے ، اور ہمیشہ گھٹیا درجہ کی دماغی حالت ہی میں یہ کیفیت رونما ہوئی ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کے اثر سے جہاں لوگ اللہ واحد قہار کی خدائی کے قائل ہو گئے وہاں سے خداؤں کی دوسری اقسام تو رخصت ہو گئیں ، مگر انبیاء، اولیاء، شہداء، صالحین، مجاذیب، اقطاب، ابدال، علماء، مشائخ اور ظل اللہوں کی خدائی پھر بھی کسی نہ کسی طرح عقائد میں اپنی جگہ نکالتی ہی رہی۔ جاہل دماغوں نے مشرکین کے خداؤں کو چھوڑ کر ان نیک بندوں کو خدا بنا لیا جن کی ساری زندگیاں بندوں کی خدائی ختم کرنے اور صرف اللہ کی خدائی ثابت کرنے میں صرف ہوئی تھیں۔ ایک طرف مشرکانہ پوجا پاٹ کی جگہ فاتحہ، زیارات، نیاز، نذر عرس، صندل، چڑھاوے ، نشان، عَلَم، تعزیے اور اسی قسم کے دوسرے مذہبی اعمال کی ایک نئی شریعت تصنیف کر لی گئی۔ دوسری طرف بغیر کسی ثبوتِ علمی کے ان بزرگوں کی ولادت و وفات، ظہور و غیاب، کرامات و خوارق، اختیارات و تصرفات، اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اُن کے تقرّب کی کیفیات کے متعلق ایک پوری میتھالوجی تیار ہو گئی جو بت پرست مشرکین کی میتھالوجی سے ہر طرح لگّا کھا سکتی ہے۔ تیسری طرف توسل اور استمدادِ روحانی اور اکتسابِ فیض وغیرہ کے ناموں کے خوشنما پردوں میں وہ سب معاملات جو اللہ اور بندوں کے درمیان ہوتے ہیں ، ان بزرگوں سے متعلق ہو گئے اور عملاً وہی حالت قائم ہو گئی جو اللہ کے ماننے والے اُن مشرکین کے ہاں ہے جن کے نزدیک پادشاہِ عالم انسان کی رسائی سے بہت دور ہے اور انسان کی زندگی سے تعلق رکھنے والے تمام اُمور نیچے کے اہلکاروں ہی سے وابستہ ہیں ، فرق صرف یہ ہے کہ اُن کے ہاں اہلکار علانیہ الٰہ، دیوتا، اوتار یا ابن اللہ کہلاتے ہیں ، اور یہ انہیں غوث، قطب، ابدال، اولیاء اور اہل اللہ وغیرہ کے الفاظ کے پردوں میں چھپاتے ہیں۔
یہ دوسری قسم کی جاہلیت تاریخ کے دوران میں عموماً پہلی قسم کی جاہلیت، یعنی جاہلیت خالصہ کے ساتھ تعاون کرتی رہی ہے۔ قدیم زمانہ میں بابل، مصر، ہندوستان، ایران، یونان، روم وغیرہ کے ممالک کے تمدن میں یہ دونوں جاہلیتیں ہم آغوش تھیں ، اور موجودہ زمانہ میں جاپان کے تمدن کا بھی یہی حال ہے۔ اس موافقت کے متعدد اسباب ہیں جن میں سے چند کی طرف اشارہ کروں گا۔
اولاً، مشرکانہ جاہلیت میں آدمی کا کوئی تعلق اپنے معبودوں کے ساتھ اس کے سوا نہیں ہوتا کہ یہ اپنے خیال میں اُن کو صاحبِ اختیار اور نافع و ضار سمجھ لیتا ہے اور مختلف مراسمِ عبودیت کے ذریعے سے اپنے دنیوی مقاصد میں اُن کی مہربانی و اعانت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ باقی رہا یہ امر کہ وہاں سے اس کو کسی قسم کی اخلاقی ہدایت یا زندگی کا ضابطہ و قانون ملے ، تو اس کا کوئی امکان ہی نہیں ، کیونکہ وہاں کوئی واقع میں خدا ہو تو ہدایت اور قانون بھیجے۔ پس جب ایسی کوئی چیز موجود نہیں ہے تو مشرک انسان لا محالہ خود ہی ایک اخلاقی نظریہ بناتا ہے اور خود ہی اس نظریہ کی بنیاد پر ایک شریعت تصنیف کرتا ہے۔ اس طرح وہی جاہلیتِ محضہ برسرِ کار آ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خالص جاہلیت کے تمدن اور مشرکانہ تمدن میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں ہوتا کہ ایک جگہ جاہلیت کے ساتھ مندروں ، پجاریوں اور عبادات کا سلسلہ ہوتا ہے اور دوسری جگہ نہیں ہوتا۔ اخلاق اور اعمال جیسے یہاں ہوتے ہیں ویسے ہی وہاں بھی ہوتے ہیں۔ یونانِ قدیم اور بت پرست روم کے اخلاقی مزاج اور موجودہ یورپ کے اخلاقی مزاج میں جو مشابہت پائی جاتی ہے اس کا یہی سبب ہے۔
ثانیاً، علوم و فنون، فلسفہ و ادب اور سیاسیات و معاشیات وغیرہ کے لیے مشرکانہ نظریہ کوئی الگ مستقل بنیاد فراہم نہیں کرتا۔ اس باب میں بھی مشرک انسان جاہلیتِ محضہ ہی کا رُخ اختیار کرتا ہے اور مشرک سوسائٹی کا سارا دماغی نشوونما اُسی ڈھنگ پر ہوتا ہے جس پر خالص جاہلی سوسائٹی میں ہوا کرتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ مشرکین کی قوتِ واہمہ حد سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے اس لیے ان کے افکار میں خیال آرائی کا عنصر بہت زیادہ ہوتا ہے ، اور ملاحدہ ذرا عملی قسم کے لوگ ہوتے ہیں اس لیے نرے خیالی فلسفوں سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، البتہ جب یہ ملاحدہ خدا کے بغیر کائنات کے معمے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی استدلالی کھینچ تان بھی اتنی ہی غیر معقول ہوتی ہے جتنی مشرکین کی میتھالوجی۔ بہرحال علمی حیثیت سے شرک اور جاہلیتِ خالصہ میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں ہوتا، اور اس کا روشن ثبوت یہ ہے کہ موجودہ یورپ اپنے موجودہ نظریات میں قدیم یونان و روم سے اس طرح سلسلہ جوڑتا ہے کہ گویا یہ بیٹا ہے اور وہ باپ۔
ثالثاً، مشرک سوسائٹی اُن تمام تمدنی طریقوں کو قبول کرنے کے لیے پوری طرح مستعد رہتی ہے جن کو خالص جاہلی سوسائٹی اختیار کرتی ہے ، اگرچہ سوسائٹی کی ترتیب و تعمیر میں شرک اور جاہلیتِ خالصہ کے ڈھنگ ذرا ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ شرک کی مملکت میں بادشاہوں کو خدائی مقام دیا جاتا ہے ، روحانی پیشواؤں اور مذہبی عہدہ داروں کا ایک طبقہ مخصوص امتیازات کے ساتھ پیدا ہوتا ہے ، شاہی خاندان اور مذہبی طبقے مل کر ایک ملی بھگت قائم کرتے ہیں ، خاندانوں پر خاندانوں کے اور طبقوں پر طبقوں کے تفوّق کا ایک مستقل نظریہ وضع کیا جاتا ہے ، اور اس طرح جاہل عوام پر مذہب کا جال پھیلا کر ظالمانہ تسلط قائم کر لیا جاتا ہے۔ بخلاف اس کے خالص جاہلی سوسائٹی میں یہ خرابیاں نسل پرستی، قوم پرستی، قومی امپیریلزم، ڈکٹیٹر شپ، سرمایہ داری اور طبقاتی نزاع کی شکل اختیار کرتی ہیں لیکن جہاں تک روح اور جوہر کا تعلق ہے ، انسان پر انسان کی خدائی مسلط کرنے ، انسان کو انسان سے پھاڑنے ، اور انسانیت کو تقسیم کر کے ایک ہی نوع کے افراد کو ایک دوسرے کے لیے صیاد بنانے میں دونوں ایک سطح پر ہیں۔
٭3۔جاہلیتِ راہبانہ
تیسرا مابعد الطبیعی نظریہ رہبانیت پر مبنی ہے اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
یہ دنیا اور یہ جسمانی وجود انسان کے لیے ایک دارالعذاب ہے۔ انسان کی رُوح اس قفسِ عنصری میں دراصل ایک سزا یافتہ قیدی کی حیثیت رکھتی ہے۔ لذات و خواہشات اور تمام وہ ضروریات جو اس جسمانی تعلق کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوتی ہیں دراصل اس قید خانہ کے طوق و سلاسل ہیں۔ انسان اس دنیا اور اس کی چیزوں سے جتنا تعلق رکھے گا اتنا ہی گندگی سے آلودہ ہو گا اور اسی قدر مزید عذاب کا مستحق بن جائے گا۔ نجات کی صورت اس کے سوا کوئی نہیں کہ اس زندگی کے بکھیڑوں سے قطع تعلق کیا جائے ، خواہشات کو مٹایا جائے ، لذات سے کنارہ کشی کی جائے ، جسمانی ضروریات اور نفس کے مطالبات کو پورا کرنے سے انکار کیا جائے ، ان تمام محبتوں کو جو دنیوی اشیاء اور گوشت و خون کی رشتہ داروں کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں دل سے نکال دیا جائے ، اور اپنے اس دشمن، یعنی نفس و جسم کو مجاہدات و ریاضات کے ذریعہ سے اتنی تکلیفیں دی جائیں کہ رُوح پر اس کا تسلط قائم نہ رہ سکے۔ اس طرح روح ہلکی اور پاک صاف ہو جائے گی اور نجات کے بلند مقامات پر اڑنے کی طاقت حاصل کر لے گی۔
یہ نظریہ بجائے خود غیر تمدنی (Anti-Social) نظریہ ہے ، مگر تمدن پر یہ متعدد طریقوں سے اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد ایک خاص قسم کا نظام فلسفہ بنتا ہے جس کی مختلف شکلیں ویدانتزم، مانویت ، اشراقیت (Neo-Platonism)، یوگ، تصوف، مسیحی رہبانیت اور بدھ ازم وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں۔ اس فلسفہ کے ساتھ ایک ایسا نظامِ اخلاق وجود میں آتا ہے جو بہت کم ایجابی (Positive) اور بہت زیادہ، بلکہ تمام تر سلبی (Negative) نوعیت کا ہے۔ یہ دونوں چیزیں مل جل کر لٹریچر، عقائد، اخلاقیات اور عملی زندگی میں نفوذ کرتی ہیں اور جہاں جہاں ان کے اثرات پہنچتے ہیں وہاں افیون اور کوکین کا کام کرتے ہیں۔
پہلی دونوں قسم کی جاہلیتوں کے ساتھ اس تیسری قسم کی جاہلیت کا تعاون عموماً تین صورتوں سے ہوتا ہے :
(1) یہ راہبانہ جاہلیت انسانی جماعت کے نیک اور پاکباز افراد کو دنیا کے کاروبار سے ہٹا کر گوشۂ عزلت میں لے جاتی ہے اور بدترین قسم کے شریر افراد کے لیے میدان صاف کر دیتی ہے۔ بدکار لوگ خدا کی زمین کے متولی بن کر آزادی کے ساتھ فساد پھیلاتے ہیں ، اور نیک لوگ اپنی نجات کی فکر میں تپسّیا کیے چلے جاتے ہیں۔
(2) اس جاہلیت کے اثرات جہاں تک عوام میں پہنچتے ہیں وہ ان کے اندر غلط قسم کا صبر و تحمل اور مایوسانہ نقطۂ نظر پیدا کر کے انہیں ظالموں کے لیے نرم نوالہ بنا دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہمیشہ بادشاہ، امراء اور مذہبی اقتدار رکھنے والے طبقے اس راہبانہ فلسفہ و اخلاق کی اشاعت میں خاص دلچسپی لیتے رہے ہیں اور یہ خوب آرام سے ان کی سرپرستی میں پھیلتا رہا ہے۔ تاریخ میں کوئی مثال ایسی نہیں ملتی کہ امپیریلزم، سرمایہ داری اور پاپائیت سے اس راہبانہ فلسفہ و اخلاق کی کبھی لڑائی ہوئی ہو۔
(3) جب یہ راہبانہ فلسفہ و اخلاق انسانی فطرت سے شکست کھا جاتا ہے تو کتاب الحیل کی تصنیف شروع ہو جاتی ہے۔ کہیں کفارے کا عقیدہ ایجاد ہوتا ہے تاکہ دل کھول کر گناہ کیا جا سکے اور جنت بھی ہاتھ سے نہ جائے۔ کہیں ہوس رانی کے لیے عشق مجازی کا حیلہ نکالا جاتا ہے تاکہ دل کی لگی بجھا بھی لی جائے اور تقدس بھی جوں کا توں قائم رہے۔ اور کہیں ترکِ دنیا کے پردے میں بادشاہوں اور رئیسوں سے سانٹھ گانٹھ کی جاتی ہے اور روحانی امارت کا وہ جال پھیلایا جاتا ہے جس کی بدترین مثالیں روم کے پاپاؤں اور مشرقی دنیا کے گدی نشینوں نے پیش کی ہیں۔
یہ تو اس جاہلیت کا معاملہ اپنی ہم جنس بہنوں کے ساتھ ہے۔ مگر انبیاء علیہم السلام کی امتوں میں جب یہ گھس آتی ہے تو کچھ اور ہی گل کھلاتی ہے۔ خدا کے دین پر اس کی پہلی ضرب یہ ہوتی ہے کہ یہ دنیا کو دارالعمل، دارالامتحان اور مزرعۃ الآخرۃ کے بجائے دارالعذاب اور “مایا کے جال” کی حیثیت سے آدمی کے سامنے پیش کرتی ہے۔ نقطۂ نظر کے اس بنیادی تغیر کی وجہ سے آدمی یہ حقیقت بھول جاتا ہے کہ وہ اس دنیا میں خدا کے خلیفہ کی حیثیت سے مامور ہے۔ وہ یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ میں یہاں کام کرنے اور دنیا کے معاملات کو چلانے نہیں آیا ہوں بلکہ گندگی و نجاست میں پھینکا گیا ہوں جس سے مجھے بچنا اور دور بھاگنا چاہیے۔ میرے لیے صحیح پوزیشن یہ ہے کہ میں نان کوآپریٹر کی طرح رہوں اور ذمہ داریوں کو قبول کرنے کے بجائے ان سے کنارہ کروں۔ اس تصور کے ساتھ آدمی دنیا اور اس کے معاملات پر سہمی ہوئی نگاہ ڈالنے لگتا ہے اور بارِ خلافت کو سنبھالنا او درکنار، بارِ تمدن کو بھی اپنے سر لیتے ہوئے ڈرتا ہے۔ اس کے لیے پورا نظامِ شریعت بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ عبادات اور اوامر و نواہی کا یہ مفہوم بالکل ساقط ہو جاتا ہے کہ یہ حیاتِ دنیا کی اصلاح اور فرائض خلافت کی انجام دہی کے لیے تیار کرنے والی چیزیں ہیں ، برعکس اس کے آدمی یہ سمجھنے لگتا ہے کہ عبادات اور چند خاص مذہبی اعمال اس گناہِ زندگی کا کفارہ ہیں۔ بس انہی کو پورے انہماک سے ٹھیک ناپ تول کے ساتھ انجام دیتے رہنا چاہیے تاکہ آخرت میں نجات حاصل ہو۔
اس ذہنیت نے انبیاء کی امتوں میں سے ایک گروہ کو مراقبہ و مکاشفہ، چلہ کشی و ریاضت، اوراد و وظائف، اخراب و اعمال، سیرِ مقامات ، اور حقیقت کی فلسفیانہ تعبیروں کے چکر میں ڈال دیا اور مستحبات و نوافل کے التزام میں فرائض سے بھی زیادہ منہمک کر کے خلافتِ الٰہیہ کے اُس کام سے غافل کر دیا جس کو جاری کرنے کے لیے انبیاء علیہم السلام آئے تھے اور دوسرے گروہ میں تقشف، تعمق فی الدین، غلو، موشگافی، چھوٹی چھوٹی چیزوں کی ناپ تول اور جزئیات کے ساتھ غیر معمولی اہتمام کی بیماری پیدا کر دی، حتیٰ کہ ان کے لیے خدا کا دین ایک ایسا نازک آبگینہ ہو گیا جو ذرا ذرا سی باتوں سے ٹھیس کھا کر پاش پاش ہو جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان بے چاروں کا سارا وقت بس اسی دیکھ بھال کی نذر ہونے لگا کہ کہیں کچھ اونچ نیچ نہ ہو جائے اور یہ شیشے کا برتن جو سر پر رکھا ہے کھِیل کھِیل ہو کر نہ رہ جائے۔ دین میں اتنی باریکیاں نکل آنے کے بعد ناگزیر ہے کہ جمود، تنگ خیالی اور کم حوصلگی پیدا ہو۔ ایسے لوگوں میں کہاں یہ قابلیت باقی رہ سکتی ہے کہ نگاہِ جہاں بیں سے انسانی زندگی کے بڑے بڑے مسائل پر نظر ڈالیں ، دین کے عالمگیر اصول و کلیات پر گرفت حاصل کریں اور زمانہ کی ہر نئی گردش میں دنیا کی امامت و رہنمائی کے لیے مستعد ہوں۔
٭4۔اسلام
چوتھا ما بعد الطبیعی نظریہ وہ ہے جسے انبیاء علیہم السلام نے پیش کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے :
یہ سارا عالمِ ہست و بود جو ہمارے گرد و پیش پھیلا ہوا ہے ، اور جس کا ایک جزو ہم خود ہیں ، دراصل ایک بادشاہ کی سلطنت ہے۔ اُسی نے اس کو بنایا ہے ، وہی اس کا مالک ہے ، اور وہی اس کا واحد حاکم ہے۔ اس سلطنت میں کسی کا حکم نہیں چلتا۔ سب کے سب تابع فرمان ہیں اور اختیارات بالکلیہ اُسی ایک مالک و فرمانروا کے ہاتھ میں ہیں۔ انسان اس مملکت میں پیدائشی رعیت ہے۔ یعنی رعیت ہونا یا نہ ہونا اس کی مرضی پر موقوف نہیں ، بلکہ یہ رعیت ہی پیدا ہوا ہے اور رعیت کے سوا کچھ اور ہونا اس کے امکان میں نہیں ہے۔
اس نظامِ حکومت کے اندر انسان کی خود مختاری و غیر ذمہ داری کے لیے کوئی جگہ نہیں ، نہ فطرۃً ہو سکتی ہے۔ پیدائشی رعیت اور ایک جزوِ مملکت ہونے کی حیثیت سے اس کے لیے کوئی راستہ اس کے سوا نہیں ہے کہ جس طرح مملکت کے تمام اجزا بادشاہ کے امر کی اطاعت کر رہے ہیں اسی طرح یہ بھی کرے۔ یہ خود اپنے لیے طریقِ زندگی وضع کرنے اور اپنی ڈیوٹی آپ تجویز کر لینے کا حق نہیں رکھتا۔ اس کا کام صرف یہ ہے کہ مالک الملک کی طرف سے جو ہدایت آئے اس کی پیروی کرے۔ اس ہدایت کے آنے کا ذریعہ وحی ہے اور جن انسانوں کے پاس وہ آتی ہے وہ نبی ہیں۔
مگر انسان کی آزمائش کے لیے مالک نے یہ لطیف طریقہ اختیار کیا ہے کہ آپ بھی چھپ گیا اور اپنی سلطنت کا وہ پورا اندرونی انتظام بھی چھپا دیا جس سے وہ تدبیر کرتا ہے۔ ظاہر میں سلطنت اس طرح چل رہی ہے کہ نہ اس کا کوئی حاکم نظر آتا ہے ، نہ کار پرداز دکھائی دیتے ہیں۔ انسان صرف ایک کارخانہ چلتا ہوا دیکھتا ہے۔ اس کے درمیان اپنے آپ کو موجود پاتا ہے ، اور ظاہر حواس سے کہیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ میں کسی کا محکوم ہوں اور کسی کو مجھے حساب دینا ہے۔ اعیان و شہود میں کوئی ایسی نشانی نمایاں نہیں ہوتی کہ اُس پر فرمانروائے عالم کی حاکمیت اور اپنی محکومیت و مسئولیت (Responsibility) کا حال غیر مشتبہ طور پر کھل جائے۔ یہاں تک کہ مانے بغیر چارہ نہ رہے۔ نبی بھی آتے ہیں تو اس طرح نہیں کہ ان کے اوپر عیاناً وحی اترتی دکھائی دے یا کوئی ایسی صریح علامت ان کے ساتھ اترے جس کو دیکھ کر ان کی نبوت ماننے کے سوا چارہ نہ رہے۔ پھر آدمی ایک حد کے اندر اپنے آپ کو بالکل مختار پاتا ہے۔ بغاوت کرنا چاہے تو اس کی قدرت دے دی جاتی ہے ، ذرائع بہم پہنچا دیے جاتے ہیں ، اور بڑی لمبی ڈھیل دی جاتی ہے ، حتیٰ کہ شرارت و عصیان کی آخری حدود کو پہنچنے تک کوئی رکاوٹ اسے پیش نہیں آتی۔ مالک کے سوا دوسروں کی بندگی کرنا چاہے تو اس سے بھی زبردستی اس کو روکا نہیں جاتا، پوری آزادی دی جاتی ہے کہ جس جس کی بندگی، عبادت، اطاعت کرنا چاہے۔ دونوں صورتوں ، یعنی بغاوت اور بندگیِ غیر کی صورتوں میں رزق برابر ملتا ہے ، سامانِ زندگی، وسائلِ کار، اسبابِ عیش حسبِ حیثیت خوب دیے جاتے ہیں اور مرتے دم تک دیے جاتے رہتے ہیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ کسی باغی یا کسی بندۂ غیر سے محض اس جرم کی پاداش میں اسبابِ دنیا روک لیے جائیں۔ یہ سارا طرزِ کارروائی صرف اس لیے ہے کہ خالق نے انسان کو عقل، تمیز، استدلال، ارادہ و اختیار کی جو قوتیں دی ہیں اور اپنی بے شمار مخلوقات پر اس کو ایک طرح کے حاکمانہ تصرف کی جو قدرت بخشی ہے ، اس میں وہ اس کی آزمائش کرنا چاہتا ہے۔ اسی آزمائش کی تکمیل کے لیے حقیقت پر غیب کا پردہ ڈالا گیا ہے تاکہ انسان کی عقل کا امتحان ہو۔ انتخاب کی آزادی بخشی گئی ہے تاکہ اس امر کا امتحان ہو کہ آدمی حق کو جاننے کے بعد کسی مجبوری کے بغیر خود اپنی رضا و رغبت سے اس کی پیروی کرتا ہے یا خواہشات کی غلامی اختیار کر کے اس سے منہ موڑ جاتا ہے۔ اسبابِ زندگی کا سرمایہ، وسائل، اور کام کا موقع نہ دیا جائے تو اس کی لیاقت و عدم لیاقت کا امتحان نہیں ہو سکتا۔
یہ دنیوی زندگی چونکہ آزمائش کی مہلت ہے اس لیے یہاں نہ حساب ہے نہ جزا نہ سزا۔ یہاں جو کچھ دیا جاتا ہے وہ کسی عملِ نیک کا انعام نہیں بلکہ امتحان کا سامان ہے۔ اور جو تکالیف، مصائب، شدائد وغیرہ پیش آتے ہیں وہ کسی عملِ بد کی سزا نہیں بلکہ زیادہ تر اُس قانونِ طبعی کے تحت جس پر اس دنیا کا نظام قائم کیا گیا ہے ، آپ سے آپ ظاہر ہونے والے نتائج ہیں(اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس دنیا میں قانونِ مکافات سرے سے کار فرما ہے ہی نہیں بلکہ جو کچھ میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہاں کی مکافات دو ٹوک اور حتمی اور صریح نہیں ہے ، اور اس آزمائش کا عنصر ہر دنیوی جزا اور سزا پر غالب ہے۔ اس لیے یہاں اعمال کے جو نتائج ظاہر ہوتے ہیں ان کو اخلاقی حسن و قبح کا معیار نہیں ٹھیرایا جا سکتا۔)۔ اعمال کے اصلی حساب، جانچ پڑتال اور فیصلہ کا وقت مہلت کی یہ زندگی ختم ہونے کے بعد ہے اور اُسی کا نام آخرت ہے۔ لہٰذا دنیا میں جو کچھ نتائج ظاہر ہوتے ہیں وہ کسی طریقہ یا کسی عمل کے صحیح یا غلط، نیک یا بد، اور قابلِ اخذ یا قابلِ ترک ہونے کا معیار نہیں بن سکتے۔ اصلی معیار آخرت کے نتائج ہیں ، اور یہ علم کہ آخرت میں کس طریقہ اور کس عمل کا نتیجہ اچھا اور کس کا برا ہو گا، صرف اُس وحی کے ذریعہ سے حاصل ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء پر نازل ہوئی ہے۔ جزئیات و تفصیلات سے قطع نظر، فیصلہ کُن بات جس پر آخرت کی فلاح یا خسران کا مدار ہے یہ ہے کہ اولاً انسان اپنی قوتِ نظر و استدلال کے صحیح استعمال سے اللہ تعالیٰ کے حاکمِ حقیقی ہونے اور اس کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کے منجانب اللہ ہونے کو پہنچاتا ہے یا نہیں۔ ثانیاً اس حقیقت سے واقف ہونے کے بعد وہ آزادیِ انتخاب رکھنے کے باوجود اپنی رضا و رغبت سے اللہ کی حاکمیت اور اس کے امرِ شرعی کے آگے سرِ تسلیم خم کرتا ہے یا نہیں۔
یہ وہ نظریہ ہے جسے ابتدا سے انبیاء علیہم السلام پیش کرتے آئے ہیں۔ اس نظریہ کی بنیاد پر تمام واقعاتِ عالم کی مکمل توجیہ (Explanation) ہوتی ہے ، کائنات کے تمام آثار (Phenomena) کی پوری تعبیر ملتی ہے اور کسی مشاہدے یا تجربے سے یہ نظریہ ٹوٹتا نہیں۔ یہ ایک مستقل نظامِ فلسفہ پیدا کرتا ہے جو جاہلیت کے فلسفوں سے بنیادی طور پر بالکل مختلف ہوتا ہے۔ کائنات اور خود وجودِ انسانی کے متعلق معلومات کے پورے ذخیرہ کو ایک دوسرے ڈھنگ پر مرتب کرتا ہے جس کی ترتیب جاہلی علوم کی ترتیب سے سراسر متباین ہوتی ہے۔ ادب اور ہنر (Art and Literature) کے نشوونما کا ایک الگ راستہ بناتا ہے جو جاہلی ادب و ہنر کے تمام راستوں سے متغائر ہوتا ہے۔ زندگی کے جملہ معاملات میں ایک خاص زاویۂ نظر اور ایک خاص مقصد پیدا کرتا ہے جو جاہلی مقاصد و نقطہ ہائے نظر سے اپنی روح اور اپنے جوہر میں کسی طرح میل نہیں کھاتا۔ اخلاق کا ایک علیحدہ نظام بناتا ہے جس کو جاہلی اخلاقیات سے کوئی مناسبت نہیں ہوتی۔ پھر ان علمی و اخلاقی بنیادوں پر جس تہذیب کی عمارت اٹھتی ہے ، اس کی نوعیت تمام جاہلی تہذیبوں کی نوعیت سے قطعاً مختلف ہوتی ہے ، اور اس کو سنبھالنے کے لیے ایک اور ہی طرز کے نظامِ تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے جس کے اصول جاہلیت کے ہر نظامِ تعلیم و تربیت سے کامل تضاد کی نسبت رکھتے ہیں۔ فی الجملہ اس تہذیب کی رگ رگ اور ریشہ ریشہ میں جو روح کام کرتی ہے وہ اللہ واحد قہار کی حاکمیت، آخرت کے اعتقاد اور انسان کے محکوم و ذمہ دار ہونے کی روح ہے۔ بخلاف اس کے ہر جاہلی تہذیب کے پورے نظام میں انسان کی خود مختاری، بے قیدی و بے مہاری اور غیر ذمہ داری کی روح سرایت کیے ہوئے ہوتی ہے۔ اسی لیے انسانیت کا جو نمونہ انبیاء علیہم السلام کی قائم کی ہوئی تہذیب سے تیار ہوتا ہے اس کے خدوخال اور رنگ و روغن جاہلی تہذیب کے بنائے ہوئے نمونہ سے ہر جزو اور ہر پہلو میں جُدا ہوتے ہیں۔
اس کے بعد تمدن کی تفصیلی صورت جس اس بنیاد پر بنتی ہے اس کا سارا نقشہ دنیا کے دوسرے نقشوں سے بدلا ہوا ہوتا ہے۔ طہارت، لباس، خوراک، طرزِ زندگی، آداب و اطوار، شخصی کردار، کسبِ معاش، صرفِ دولت، ازدواجی زندگی، خاندانی زندگی، معاشرتی رسوم، مجلسی طریقے ، انسان اور انسان کے تعلق کی مختلف شکلیں ، لین دین کے معاملات، دولت کی تقسیم، مملکت کا انتظام، حکومت کی تشکیل، امیر کی حیثیت، شوریٰ کا طریقہ، سول سروس کی تنظیم، قانون کے اصول، تفصیلی ضوابط کا اصول سے استنباط، عدالت، پولیس، احتساب، مالگذاری، فینانس، امورِ نافعہ (Public Works) صنعت و تجارت، خبر رسانی، تعلیمات اور دوسرے تمام محکموں کی پالیسی، فوج کی تربیت و تنظیم، جنگ و صلح کے معاملات تک اس تمدن کا طور و طریق اپنی ایک مستقل شان رکھتا ہے اور ہر ہر جز میں ایک واضح خطِ امتیاز اس کو دوسرے تمدنوں سے الگ کرتا ہے۔ اس کی ہر چیز میں اول سے آخر تک ایک خاص نقطۂ نظر، ایک خاص مقصد اور ایک خاص اخلاقی رویہ کار فرما ہوتا ہے جس کا براہِ راست تعلق خدائے واحد کی حاکمیتِ مطلقہ اور انسان کی محکومیت و مسئولیت، اور دنیا کے بجائے آخرت کی مقصودیت سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔
تحریر سید مودودی