‘جدیدیت’ محمد حسن عسکری

برعظیم پاک و ہند میں گزشتہ دو عشروں سے مشرق و مغرب کی کشمکش جاری و ساری ہے۔ اس کشمکش میں علمی طور پر شریک افراد میں محمد حسن عسکریؒ کا نام اہم ترین ہے۔ عسکری صاحب نے ترقی پسند ادب سے روایت پسند فکر تک جو سفر طے کیا اس کی بے شمار منزلیں ہیں اور ہر منزل ایک نئے سفر اور ایک نئے فکر کا عنوان بن جاتی ہے۔ اردو زبان و ادب کی تاریخ کو انگریزی فکری اثرات سے آزاد کرانے کا سہرا عسکری صاحب کے سر ہے جنھوں نے فرانسیسی ادبی روایت اور روایت کے مکتبہ فکر کے زیرِ اثر اردو زبان و ادب کا رشتہ دینی روایات سے جوڑ دیا۔ وہ ادب سے دین کے کوچے میں آئے اور کئی کتابیں بھی لکھیں ۔ جن میں سے ایک کتاب جدیدیت ’’مغربی تہذیب کی گمراہیوں کا خاکہ ‘‘ ہے ۔

یہ کتاب اپنے اسلوب کے اعتبار سے نہایت سادہ اور مثالی کتاب ہے لیکن اس کا دوسرا حصہ نہایت مشکل ترین حصہ ہے جسے سمجھنے کے لیے یونانی و ہندی فلسفے اور مغربی فکر و فلسفے کے ساتھ ساتھ علوم اسلامی پر بھی گہری نظر ضروری ہے۔ عسکری صاحب نے فرانسیسی مفکررینے گینوں کی کتابوں کی مدد سے مغربی تہذیب کی دو سو گمراہیاں دوسرے حصے میں سمو دیں جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ ان کو دور کیے بغیر انگریزی تعلیم پانے والوں کو دین کی باتیں نہیں سمجھائی جاسکتیں۔

گو کہ اس کی اشاعت اول بہت پرانی ہے یعنی 1979کی ہے لیکن دور حاضر کے فکری اور علمی مسائل کے حوالے سے اس کی تازگی برقرار ہے۔ کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر محمد اجمل نے لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے لکھی گئی ہے جو دینی تعلیم وتعلم میں اس قدر منہمک ہیں کہ انھیں مغرب کی علمی تحریکوں کے مطالعے کا موقع نہیں ملتا۔ مطالعے کی اس کمی کی وجہ سے وہ دینی معاملات میں مغرب زدہ ذہن کے ساتھ مناظرے یا مباحثے میں ان کے سوالوں یا اعتراضوں کا صحیح جواب نہیں دے سکتے۔ مغرب کی تحریکوں میں دین کے متعلق جو غلطیاں پنپ رہی ہیں عسکری صاحب نے اپنی ان تحریروں کے ذریعے ان کا ازالہ کردیا ہے۔

ڈاکٹر اجمل مزید لکھتے ہیں کہ عسکری صاحب نے کتاب میں جن ادوار کا ذکر کیا ہے ان میں سے دو دور خصوصیت کے ساتھ اہم ہیں۔ ایک انیسویں صدی اور دوسرے بیسویں صدی۔ انیسویں صدی میں فلسفہ مادیت سے بیزاری تو پیدا ہوئی لیکن اس کا تدارک اس طرح نہیں کیا گیا کہ لوگ اصل دین کی طرف لوٹ آئیں بلکہ اس طرح کہ نت نئے خداؤں کی صنعت فروغ پا گئی۔ ایسے ایسے فلسفے تعمیر کیے گئے جو بظاہر مذہبی معلوم ہوتے تھے لیکن تحقیق کرنے پر ان کی بنیاد بھی مادیت ہی نکلتی تھی۔ برگساں ہو یا ولیم جیمز، وٹگنسٹائن ہو یا آئن سٹائن سب کے سب در حقیقت مادیت کے پرستار تھے لیکن انھوں نے نقاب روحانیت یا مذہب پہن رکھے تھے۔ بقول عسکری صاحب یہ مفکر زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ ان کے فکرکی جڑ تو مادیت ہی ہے لیکن دکان وہ مذہبی خیالات سے سجاتے ہیں۔

محمد حسن عسکری مرحوم نے مذکورہ تصنیف میں اختصار کے ساتھ یونانی عہد سے لے کر جدید عہد کے فلسفوں کا تجزیہ کیا ہے۔ یہ کتاب بمشکل 140صفحات پر مشتمل ہے۔ ظاہر ہے اس اعتبار سے اس کی قیمت بھی زیادہ نہیں، مدارس اور جدید تعلیم مغربی تعلیمی نظام میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کے لیے بھی یہ ایک شاندار کتاب ہے جس کا مطالعہ ان کے بند ذہن کو کھولنے اور مشرق ومغرب کو سمجھنے میں بھی معاون ثابت ہوتاہے،

کتاب کی اس افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اسکو اپنے قارئین کے لیے قسط وار پیش کرنے جارہے ہیں ۔ اس تحریر میں اس کتاب کے مزید چیدہ چیدہ اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں تاکہ اندازہ ہوسکے کہ یہ آج کے طالب علموں کے لیے اور مطالعہ کا ذوق رکھنے والوں کے لیے کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔

مصنف ابتدا میں لکھتے ہیں کہ ’’اسلامی تاریخ میں بلکہ ہر مذہب کی تاریخ میں طرح طرح کی گمراہیاں، بدعتیں، شکوک وشبہات پیدا ہوتے ہیں، ہمارے علما فرماتے ہیں کہ مغربی تعلیم سے متاثر ہونے والے لوگ کوئی ایسا شبہ یا اعتراض نہیں لاسکتے جس کا جواب ہمارے پاس نہ ہو۔ یہ بات سو فیصد درست ہے گمراہی کی جتنی بھی نئی شکلیں سامنے آئی ہیں یا آسکتی ہیں وہ بنیادی طورپر وہی ہیں جن سے اسلامی علما کو تاریخ میں پہلے بھی واسطہ پڑچکا ہے۔ علما کو ان کا جواب دینا بہت آسان ہے مگر نئی گمراہیاں چند باتوں میں اختصاص اور امتیاز رکھتی ہیں جن کو نظر میں رکھے بغیر علما کے جواب موثر نہیں ہوسکتے۔

1۔ پہلے گمراہیاں خود مسلمانوں کے اندر ہی سے پیدا ہوتی تھیں، لیکن نئی گمراہیاں مغرب سے آئی ہیں، پھر ان کے پیچھے یورپ کے مال اور فوجی طاقت بھی رہی ہے علاوہ ازیں یہ گمراہیاں اپنے ساتھ سائنس کی ایسی ایجادات بھی لائی ہیں جو نفسانی خواہشات کو تسکین دینے والی ہیں اور عام لوگوں کو بھونچکا کردیتی ہیں چنانچہ لوگ ذہن سے کام نہیں لیتے۔ حسی مشاہدات کو عقلی دلیل سمجھتے ہیں، اس لیے جب علماء اعتراضات کا جواب دیتے ہیں تو قرار واقعی اثر نہیں ہوتا۔

2۔ یورپ کا ذہن چودھویں صدی عیسوی سے بتدریج مسخ ہوتا رہا ہے اور صداقت کو سمجھنے کی صلاحیت کھوتا رہا ہے۔ یورپ نے چھ سوسال میں جتنی گمراہیاں پیدا کی ہیں ان سب نے ایک ساتھ ہمارے اوپر حملہ کیا ہے، اس لیے ایک عام مسلمان کا ذہن اسلام سے عقیدت کے باوجود اس ریلے کی تاب نہیں لاسکتا، ایک گمراہی سے نجات پاتاہے تو دوسری گمراہی میں پڑجاتا ہے۔ اس طرح خود ہمارے یہاں بھی پچھلے ڈیڑھ سو سال کے عرصے میں عام لوگوں کا خصوصاً جدید تعلیم پانے والوں کا ذہن آہستہ آہستہ مسخ ہوتا چلا گیا ہے۔

3۔ پرانی گمراہیاں اسلامی اصطلاحات اور اسلامی تصورات ہی کو غلط طریقے سے استعمال کرتی تھیں اس لیے انھیں دور کرنا نہایت آسان تھا مگر نئی گمراہیاں ایک نئی زبان اور نئی اصطلاحات لے کر آئی ہیں چنانچہ مہمل سے مہمل نظریہ بھاری بھرکم اصطلاحات کے پردے میں اس طرح چھپ جاتاہے کہ آدمی خواہ مخواہ مرعوب ہوجاتاہے چونکہ ہمارے علما کو اس نئی زبان اور ان نئی اصطلاحات کی نوعیت اور ان کی طویل اور پیچیدہ تاریخ کا پورا علم نہیں اس لیے بعض دفعہ ان کے جوابات نشانے پر نہیں بیٹھتے۔

مغربی مصنفین کو نئی اصطلاحات اختراع کرنے کا اتنا شوق ہے کہ چاہے کوئی نئی بات کہی ہو یا نہ کہی ہو مگر اصطلاحات نئی ضرور ہوں۔ یہ نئی اصطلاحات بھی دو قسم کی ہیں ایک تو بھاری بھرکم اور پیچیدہ الفاظ ہیں جن کا بعض دفعہ کوئی مطلب نہیں ہوتا مگر علمیت ضرور ٹپکتی ہے۔ لکھنے والوں کی تحریروں میں ایسی اصطلاحات کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ پڑھنے والا کوئی مطلب اخذ نہیں کرسکتا اور اس کا ذہن معطل ہوجاتاہے۔ دوسرے وہ اصطلاحات ہیں جو بظاہر خوش نما ہوتی ہیں اور براہ راست جذبات کو متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ دونوں قسم کی اصطلاحات کا مقصد اصل میں یہ ہوتاہے کہ پڑھنے والا اپنے ذہن سے کام نہ لے سکے۔ ہمارے علماء کی تبلیغ اس وقت تک کار گر نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ موجودہ مغربی ذہن کی ساخت اور اس کے طریقہ کار سے آگاہ نہ ہوں۔

آگے چل کر مصنف نے اس ضمن میں یورپ کی ذہنی تاریخ بلکہ یورپ کے ذہنی انحطاط کا مختصر خاکہ بھی پیش کیا ہے۔ اس خاکے میں وہ کہتے ہیں کہ …!1۔ صرف اسلام ہی نہیں بلکہ مشرق کے سارے ادیان کا انحصار زیادہ تر زبانی روایت پر ہے لکھی ہوئی کتابوں پر نہیں۔ ہمارے نزدیک کسی دین کے زندہ ہونے کا معیار یہ ہے کہ روایت شروع سے لے کر آج تک کلی حیثیت سے سلسلہ بہ سلسلہ اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی چلی آرہی ہو۔ پچھلے چھ سو یا کم سے کم چار سو سال سے یورپ اس تصور کو بھول چکا ہے۔ آج یورپ میں کسی قسم کی بھی کوئی روایت ایسی باقی نہیں جو سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہو۔ یورپ اس قسم کی روایت کو قابل استناد بھی نہیں سمجھتا اور صرف ایسی شہادتوں کو قبول کرتاہے جو تحریری شکل میں موجود ہوں۔ اس ذہنیت کے مطابق یورپ کے لوگ عموماً اپنی تہذیب کی تاریخ یونان سے شروع کرتے ہیں، چنانچہ یورپ کی تاریخ کے ادوار کا خاکہ کچھ اس طرح بنتاہے۔ (1) یونانی دور (2) رومی دور (3) عیسوی دور یا ازمنہ وسطیٰ (4) نشاۃ ثانیہ (5) عقلیت کا دور (6) انیسویں صدی (7) بیسویں صدی یا عصرحاضری:

مصنف نے مندرجہ بالا ادوار پر نہایت جامع روشنی ڈالی ہے جس کا مطالعہ موجودہ دور میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بیسویں صدی کے خاکے میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ اٹھارویں صدی عقل جزوی کی پرستش کرتی تھی۔ انیسویں صدی میں جذبات پرستی کا غلبہ تھا جب کہ بیسویں صدی جبلت اور جسم کو پوجتی ہے اور اسی کو روح سمجھنا چاہتی ہے… آج کل مغرب کے بہت سے لوگ اور ہمارے یہاں بھی کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانہ پھر مذہب کی طرف واپس آرہاہے۔ بعض علما بھی یہ قول نقل کرنے لگے ہیں مگر یہ بہت خطرناک خیال ہے۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کی بے دینی بھی اصل دین کے لیے ایسی زہریلی نہیں تھی جیسی یہ نئی ’’مذہبیت‘‘ ہے لہٰذا تمام نئے فلسفوں سے اور نئی سائنس سے چوکنا رہنا لازمی ہے۔

آخر میں مصنف مزید لکھتے ہیں کہ ’’ان نئے عیسوی مفکرین کے خیالات سے ہمارے بعض نوجوان بھی متاثر ہورہے ہیں اور اسلام کو بھی یہی رنگ دینا چاہتے ہیں بلکہ یہاں تک دعویٰ کررہے ہیں کہ نئے سائنس اور نئے فلسفوں نے جتنے خیالات پیش کیے ہیں وہ نعوذ باللہ عین اسلام ہیں‘‘

راقم کے خیال میں مذکورہ بالا نظریات سے اگر کسی کو اختلاف بھی ہو تب بھی محمد حسن عسکری کی مذکورہ تصنیف کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔

) ڈاکٹر نوید اقبال انصاری(

مغرب کے ذہنی انحطاط کی تاریخ

صرف اسلام ہی نہیں بلکہ مشرق کے سارے ادیان کا انحصار زیادہ تر زبانی روایت پر ہے، لکھی ہوئی کتابوں پر نہیں۔ ہمارے نزدیک کسی دین کے زندہ ہونے کا معیار یہ ہے کہ روایت شروع سے لے کر آج تک کلی حیثیت سے سلسلہ بہ سلسلہ اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی چلی آرہی ہو۔ پچھلے چھ سو یا کم سے کم چار سو سال سے یورپ اس تصوّر کو بھول چکا ہے۔ آج یورپ میں کسی قسم کی بھی کوئی روایت ایسی باقی نہیں جو سینہ بہ سینہ چلی آ رہی ہو۔ یورپ اس قسم کی روایت کو قابل استناد بھی نہیں سمجھتا اور صرف ایسی شہادتوں کو قبول کرتا ہے جو تحریری شکل میں موجود ہوں۔ اس ذہنیت کے مطابق یورپ کے لوگ عموماً اپنی تہذیب کی تاریخ یونان سے شروع کرتے ہیں۔ چنانچہ یورپ کی تاریخ کے ادوار کا خاکہ کچھ اس طرح بنتا ہے:

۱۔ یونانی دور ،

۲۔ رومی دور ،

۳۔ عیسوی دور یا ازمنۂ وسطیٰ: یہ زمانہ عموماً پانچویں صدی عیسوی اور پندرہویں صدی عیسوی کے درمیان سمجھا جاتا ہے۔

۴۔ نشأۃ ثانیہ: اس تحریک کا آغاز ۱۴۵۳ء یعنی ترکوں کی فتحِ قسطنطنیہ سے سمجھا جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ اصلاحِ مذہب کی تحریک یعنی پروٹسٹنٹ مذہب بھی شروع ہوتا ہے۔ ’’جدید دور‘‘ کا نقطۂ آغاز یہی زمانہ ہے۔

۵۔ عقلیت کا دور: یہ دور سترہویں صدی کے وسط سے لے کر اٹھارہویں صدی کے وسط یا آخر تک چلتا ہے۔

۶۔ انیسویں صدی: یہاں سے پیچیدگیاں شروع ہوجاتی ہیں، بعض لوگ اسے صنعتی انقلاب کا دور کہتے ہیں، بعض لوگ اسے سائنس سے پیدا ہونے والے انقلاب کا زمانہ بتاتے ہیں۔ دین کے بارے میں زیادہ تر شکوک و شبہات اور دین سے بے نیازی اسی دور میں پیدا ہوئی ہے۔

۷۔ بیسویں صدی یا عصرِ حاضر: یہ دور دراصل پہلی جنگ عظیم یعنی ۱۹۱۹ء کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔

یورپ کے ایک مسلمان عالم رینے گینوں <عبدالواحد یحییٰ>undefined نے کہا ہے کہ چودھویں صدی عیسوی سے لے کر انیسویں صدی کے آخر یا پہلی جنگِ عظیم تک تو دین کی مخالفت اور دین پر حملوں کا زمانہ ہے اور اس کے بعد ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ اس نئے دور میں دین کی مخالفت سے زیادہ جھوٹے ادیان ایجاد ہو رہے ہیں۔

٭1.یونانی دور اور مغربی ذہن پر اسکے اثرات:


یونان کا قدیم دین کیا تھا؟ اس کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا۔ اتنا ضرور معلوم ہے کہ پانچویں صدی قبل مسیح سے دو ایک صدیاں پہلے تک یونان میں متصّوفین کے چند گروہ تھے جو اپنے اسرار و رموز کو عوام سے پوشیدہ رکھتے تھے اور ان گروہوں میں داخلہ بھی مشکل سے ملتا تھا۔ یہ اسرار و رموز کیا تھے اور متصّوفانہ رموز کے معاملے میں <یعنی علم توحید میں>undefined ان لوگوں کی پہنچ کہاں تک تھی؟ اس کے متعلق کوئی تحریری ثبوت موجود نہیں۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مشہور فلسفی اور ریاضی دان فیثا غورث (Pythagoras) کو ان رموز کا خاصا علم حاصل تھا۔ اس کے دور میں فلسفے کو سب سے اونچا مقام حاصل نہیں تھا جو افلاطون کے دور میں حاصل ہوا۔ یونانی زبان میں لفظ ’’فلسفہ‘‘ (Philosophy) کے معنی ہیں ’’حکمت سے محبت رکھنا‘‘۔ یعنی اس دور میں فلسفی سے مراد وہ لوگ تھے جنھیں اصل ’’حکمت‘‘ تو حاصل نہیں تھی مگر اس کے طالب تھے۔ غرض اس دور میں فلسفیوں کو عارف نہیں سمجھا جاتا تھا۔ فلسفیوں اور فلسفے کو سب سے اونچی جگہ افلاطون کے دور میں دی گئی۔

مغربی لوگوں کے نزدیک یونانی فکر کا زریں دور پانچویں صدی قبل مسیح ہے، یعنی سقراط اور افلاطون کا زمانہ اور اس کے بعد چوتھی صدی قبل مسیح، یعنی ارسطو کا زمانہ۔ لیکن دراصل یہ یونانی دین کے زوال کا زمانہ تھا۔ یونانیوں کے جو بھی باطنی علوم تھے وہ افلاطون کو حاصل نہیں ہوئے تھے، نہ اس کے استاد و سقراط کو۔ اور افلاطون کے شاگرد ارسطو کو تو یونانی روایت کا صرف خارجی اور ظاہری علم حاصل تھا۔ مغرب کے لوگ افلاطون اور ارسطو کے نظریات کو بلکہ ان دونوں کے ذہن کو متضاد سمجھتے ہیں۔ لیکن رینے گینوں کہتے ہیں کہ دونوں کے نظریات میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ اسلامی اصطلاح کے مطابق یوں کہہ سکتے ہیں کہ افلاطون کا نقطۂ نظر تنزیہی ہے اور ارسطو کا نقطۂ نظر تشبیہی۔ مگر ان دونوں کو علم توحید سے پوری واقفیت نہیں تھی۔

یونانیوں کے بارے میں ایک تصریح بہت ضروری ہے۔ ہمارے دینی مدارس میں جو علوم فلسفہ یا معقولات کے نام سے پڑھائے جاتے ہیں ان کے بارے میں یورپ کے مستشرقین کو ایک بہت بڑا اعتراض ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عربوں کو افلاطون اور ارسطو کے افکار سے صحیح واقفیت حاصل نہیں تھی۔ الکندی نے جس کتاب کا ترجمہ ’’ارسطو کی الٰہیات‘‘ کے نام سے کیا تھا وہ ارسطو کی کتاب نہیں تھی بلکہ فلاطینوس (Plotinus) کی کتاب تھی۔ الکندی کے بعد فارابی وغیرہ نے افلاطون اور ارسطو کی کتابوں سے واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ مگر مستشرقین کا عمومی اعتراض یہ ہے کہ عرب فلسفی فی الجملہ افلاطون کے افکار کو ارسطو کے نام سے پیش کرتے رہے۔

اول تو اس اعتراض کی حقیقت رینے گینوں کے اس قول سے ہی واضح ہوجاتی ہے کہ افلاطون اور ارسطو میں صرف تنزیہی اور تشبیہی نقطۂ نظر کا فرق ہے۔ بہرحال انگریزی تعلیم پانے والوں سے گفتگو کرنے کے لیے علماء کو ایک امتیاز پیش نظر رکھنا چاہیے۔

یونانی فلسفیوں کے دراصل دو گروہ یا طبقے ہیں۔ پہلا گروہ تو وہ ہے جس کا تعلق خاص ملک یونان سے ہے۔ اس گروہ کے سب سے مشہور نمائندے افلاطون اور ارسطو ہیں جن کا زمانہ پانچویں اور چوتھی صدی قبل مسیح ہے۔ دوسرے گروہ کا تعلق شہر اسکندریہ کی اس نو آبادی سے ہے جو یونانیوں نے مصر میں بسائی تھی۔ اس گروہ کے مشہور نمائندے فلاطینوس اور فرفریوس (Porphyry) وغیرہ ہیں۔ اسکندریہ کے فلسفی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے بعد آتے ہیں یعنی ان کا زمانہ پہلی، دوسری، تیسری صدی عیسوی ہے۔ اسکندریہ کے فلسفیوں کو علم توحید افلاطون اور ارسطو کی بہ نسبت زیادہ حاصل تھا۔ عربوں نے فلسفہ، طب، نجوم وغیرہ علوم انھیں اسکندریہ کے فلسفیوں سے زیادہ حاصل کیے ہیں۔ اسکندریہ کے فلسفیوں کے علوم کو یورپ کے لوگ ’’نوفلاطونیت‘‘ (Neo-Platonism) کا نام دیتے ہیں۔ معقولات کی اصطلاح میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اسکندریہ کے فلسفی اشراقی ہیں، اور یونان کے بیشتر فلسفی مشائی۔

افلاطون ارسطو نوافلاطونی افکار کے نقصانات:

اسکندریہ کے نوافلاطونی فلسفیوں سے یوں تو یورپ کے بھی بہت سے مفکر اثر پذیر ہوئے ہیں، لیکن افکار کے معاملے میں یورپ کی تہذیب پر زیادہ اثر افلاطون اور ارسطو کا ہے۔ لہٰذا افلاطون، ارسطو اور دوسرے یونانی فلسفیوں کے افکار کے وہ نقائص اور خامیاں بیان کی جاتی ہیں جو آگے چل کر رنگ لائیں اور جنھوں نے موجودہ مغربی ذہن کو پیدا کیا۔

1.یونانی فکر وراء الوراء سے محروم رہا:

یونانی فکر لاتعین، احدیّث اور وراء الوراء کے درجے تک کبھی نہیں پہنچا۔ یعنی مکمل تنزیہہ اور توحید یونانی فلسفیوں کو کبھی حاصل نہیں ہوئی۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ یونانی فکر ’’وجود‘‘ کی منزل سے آگے کبھی نہیں جاسکا۔ اسلامی اصطلاح کے مطابق یوں کہہ سکتے ہیں کہ یونانی مفکر عالمِ جبروت سے اوپر نہیں اٹھ سکے۔

2.یونانی فلسفہ مابعد الطبیعیات نہیں ہے:

حضرت مجدّد الف ثانیؒ فرماتے ہیں کہ افلاطون اپنے مکاشفات میں الجھ کے رہ گیا اور اسی لیے گمراہ ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یونانی فلسفی عالم جبروت تک بھی نہیں پہنچے، بلکہ عالمِ ملکوت یا عالم مثال تک ہی رہ گئے۔ اس لحاظ سے یونانی فلسفہ صحیح معنی میں مابعد الطبیعیات نہیں ہے۔ یورپ میں جتنی گمراہیاں آج تک پیدا ہو رہی ہیں ان کی جڑ یہی ہے۔

3.افلاطون صفائے قلب تک نہیں پہنچ سکا:

حضرت مجدد صاحبؒ فرماتے ہیں کہ افلاطون نے صفائے نفس ہی کو سب سے بڑی چیز سمجھا اور صفائے قلب تک نہ پہنچ سکا، اسی لیے گمراہ ہوا۔ اس رجحان کو روم کے فلسفیوں نے اور زیادہ تقویت پہنچائی۔ یہی خامی انیسویں صدی میں اخلاقیات کی پرستش کی شکل میں نمودار ہوئی۔

4.ارسطو – عقل کلی اور عقل جزوی گڈمڈ ہوگئ:

ارسطو کو عقلِ کلی (Intellect) اور عقلِ جزوی (Reason) کے فرق کا اندازہ تھا، لیکن اس نے دونوں کو گڈمڈ کر دیا ہے۔ سولہویں صدی سے مغرب میں یہ امتیاز ایسا مبہم ہونا شروع ہوا کہ آخر اٹھارویں صدی میں <بلکہ سترہویں صدی کے وسط میں>undefined ’’عقلیت‘‘ کی تحریک یورپ کے ذہن پر قابض ہوگئی۔

5.ارسطو فکر و تخیل میں فرق نہیں کرتا:

ارسطو نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ انسانی ذہن تصویروں کی مدد سے سوچتا ہے یعنی اس نے فکر اور تخیل کو ایک کر دیا ہے۔ یہ اسی کا اثر ہے کہ آج مغرب ’’عقلِ کلی‘‘ کا مطلب تک نہیں سمجھتا، اور مجرد فکر کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

6.ارسطو- مشاہدہ تجربہ فیصلہ کن دلیل

حالانکہ ارسطو پر مغرب کے لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ خالص عقل پر اعتماد کرتا ہے اور تجرباتی طریقہ استعمال نہیں کرتا، مگر مشاہدے اور تجربے کو آخری اور فیصلہ کن دلیل سمجھنے کا رجحان خود ارسطو کے یہاں موجود ہے۔

7.یونانی: معاد سے محروم

یونانی فلسفیوں کی توجہ کا مرکز انسانی معاشرہ تھا، نہ کہ مبداء و معاد۔ یعنی دنیا ویت ان یونانی فلسفیوں میں اچھی طرح جڑ پکڑ گئی تھی۔

8.یونانی: انسانیت پرستی کے بانی

یونانی ہر مسئلے کو انسانی نقطۂ نظر سے دیکھنے کے عادی تھے۔ چنانچہ جب پندرہویں اور سولہویں صدی میں یورپ والوں نے یونانی فلسفے پر زور دینا شروع کیا تو اس تحریک کا نام ہی ’’انسانیت پرستی‘‘ (Humanism) قرار پایا۔

یونانی فلسفی ہوں یا شاعر، سبھی کو تقدیر یا جبر و اختیار کے مسئلے سے گہری دلچسپی تھی، بلکہ یونان کے بہترین ادب کا مرکزی موضوع ہی یہ ہے لیکن چونکہ یونانی ہر چیز کو انسانی نقطۂ نظر سے دیکھتے تھے، اس لیے ظاہر ہے کہ وہ مسئلے کی تہہ کو نہیں پہنچ سکتے تھے۔

9.یونانی فلاسفہ: روح و نفس کو ایک سمجھتے تھے:

یونانی فلسفی روح کی حقیقت سے پوری طرح آگاہ نہیں تھے۔ اس لیے وہ روح اور نفس کو ایک دوسرے میں ملا دیتے تھے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ سترہویں صدی کے بعد سے تو مغرب اس فرق کو بالکل ہی بھول گیا ہے۔ یہاں تک کہ مغربی لوگ عقل کی طرح لفظ روح کے معنی ذرا بھی نہیں سمجھ سکتے، بلکہ نفس کو ہی روح خیال کرتے ہیں۔

10.مغرب نفس ہی کو روح سمجھتا ہے:

یونانیوں کے یہاں روح یا عقلِ کلی کے لیے لفظ تھا NOUS۔ آج کل اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے ’’ذہن‘‘ (Mind)۔ نفس کے لیے یونانی لفظ تھا Psyche۔ اس لفظ کو بھی آج کل ’’ذہن‘‘ کے ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ پھر روح کے لیے لاطینی لفظ تھا Spiritus۔ آج کل مغربی زبانوں میں لفظ Spirit انگریزی لفظ Soul کے مترادف سمجھا جاتا ہے جس کے معنی ہیں ’’نفس‘‘۔ غرض، پچھلے تین سو سال سے مغرب نفس کو ہی روح سمجھ رہا ہے۔

یہ ہیں یونانی فکر کی وہ بڑی خامیاں جنھوں نے آگے چل کر مغرب کے ذہن کو نقصان پہنچایا۔

٭2۔رومی دور:


رومی لوگوں کی توجہ دنیاوی امور پر زیادہ تھی۔ یہ لوگ سلطنت قائم کرنے اور نظم و نسق ٹھیک رکھنے کے ماہر تھے۔ ان کی ذہنی طاقت زیادہ تر قانون سازی اور تنظیمی ادارے بنانے میں صرف ہوتی تھی۔ مغرب کے ذہن پر رومی اثر اتنا شدید ہے کہ جب عیسائیت یورپ میں پہنچی تو اس نے بھی ایک ادارے یعنی کلیسا کی شکل اختیار کرلی۔ اس کے بغیر یورپ میں عیسائیت کامیاب نہیں ہوسکتی تھی۔ پھر عیسوی عقائد بھی قوانین کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ اس قانونی، تنظیمی اور انصرامی ذہنیت نے ازمنۂ وسطیٰ میں عیسائیت کو استحکام تو ضرور بخشا، لیکن یورپ میں عیسائیت کے زوال کا باعث بھی یہی ذہنیت ہوئی، کیونکہ روم کے کلیسا میں خارجیت یا ظاہریت بڑھتی چلی گئی اور باطنیت دبتی گئی اور آخر کلیسا کے خلاف بغاوت ہوئی۔

روما ‘‘_ یونان کا مقلد تھا:

روم کے لوگوں نے فلسفے یا فکر میں کوئی خاص اضافہ نہیں کیا۔ اس معاملے میں یہ لوگ یونان کے مقلّد تھے۔ یونانی فلسفے کا بھی انھوں نے صرف خارجی اور ظاہری پہلو لیا، بلکہ صرف وہ اصول اخذ کیے جن کا تعلق فرد یا معاشرے کی ظاہری زندگی سے تھا۔ اگر مغرب میں ظاہر پرستی اتنی بڑھ گئی ہے تو اس میں رومی لوگوں کی ذہنیت کا بھی بڑا دخل ہے جسے یورپ کے اکثر لوگوں نے اپنے لیے نمونہ بنایا ہے۔

روم کا اصل خدا ‘‘_ وطن یا قوم:

رومی لوگوں کا اصلی خدا تھا وطن یا قوم۔ فرد سے مطالبہ کیا جاتا تھا کہ وہ اپنی ہر چیز قوم یا وطن یا سلطنت کے لیے قربان کر دے اور اس سانچے میں ڈھل جائے جو معاشرے نے اس کے لیے بنایا ہے۔ یہی ہے وہ بیج جو آگے چل کر مغرب میں قوم پرستی اور معاشرہ پرستی کی شکل میں بارآور ہوا۔

سلطنت روما: عیش کوشی اور نفس کشی

روم کے لوگ غالباً دنیا کی تاریخ میں واحد قوم ہیں جنھوں نے تن پروری اور عیش کوشی کو اصول کی حیثیت سے اپنایا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس کا الٹا رجحان بھی موجود تھا یعنی نفس کشی ‘‘_ مزے کی بات یہ ہے کہ عموماً ایک ہی شخص بیک وقت دونوں راستوں پر چلتا تھا۔

رومی نفس کشی مکمل گمراہی:

بہرحال رومی فلسفے کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی اصل مصیبت اس کی خواہشات ہیں۔ اگر انسان خواہشات سے بے نیاز ہوجائے اور خوشی کے وقت خوش نہ ہو اور رنج کے وقت مغموم نہ ہو تو اسے مکمل سکون مل سکتا ہے۔ مگر یہ نفس کشی برائے نفس کشی تھی یا قوم کی خدمت کی خاطر، کسی اعلیٰ تر چیز کے لیے نہیں۔ جیسا کہ حضرت مجدد صاحبؒ نے اپنے مکتوبات میں بار بار فرمایا ہے، ایسی نفس کشی سب سے بڑی گمراہی ہے۔

مغرب کی تاریخ: نفس پروری و نفس کشی کے مابین:

نفس پروری اور نفس کشی کے متضاد رجحانات مغرب کی پوری تاریخ میں بار بار پہلو بہ پہلو نظر آتے ہیں۔ اگر عیسوی دور کو الگ کر دیں تو یونانیوں سے لے کر آج تک مغرب کے سارے اخلاقی نظریے انھیں د و اصولوں کے درمیان گردش کرتے نظر آئیں گے۔ ازمنۂ وسطیٰ میں عیسائی لوگ کم سے کم یہ تو کہتے تھے کہ اگر نفس کشی کا طریقہ اختیار کریں گے تو جنت ملے گی۔ مگر مغرب کے مفکر اخلاقیات کو مذہب سے الگ کرلیتے ہیں اور پھر نفس کشی کا مشورہ دیتے ہیں وہ نفس کشی کو بجائے خود ایک گراں قدر چیز سمجھتے ہیں۔

خود اذیتی: مغرب کی اہم قدر

علاوہ ازیں، مغرب میں ایسے مفکر بھی موجود ہیں جو نفس کشی کو مذہب کا ماحصل سمجھتے ہیں۔ مغربی مفکروں کی ایک تیسری قسم بھی ہے جو کہتی ہے کہ نفس کشی میں جو تکلیف ہوتی ہے اس کا حصول انسانیت کی معراج ہے۔ تکلیف کو بجائے خود گراں قدر سمجھنا ‘‘_ یہ بھی مغربی ذہنیت کا لازمی جز ہے۔ غرض نفس پروری اور نفس کشی کے اصول رومی تہذیب نے مغرب کو دیئے ہیں۔

٭3۔عیسویں دور /ازمنۂ وسطیٰ: پانچویں صدی سے پندرہویں صدی عیسوی تک کا زمانہ:


یہ دور تقریباً پانچویں صدی عیسویں سے لے کر پندرہویں صدی عیسویں تک ہزار سال پر پھیلا ہوا ہے۔ اس دور کو سمجھنے میں بڑی دشواریاں پیش آتی ہیں۔ پروٹسٹنٹ مذہب رکھنے والے مصنفوں نے، پھر اٹھارہویں صدی کے عقلیت پرستوں نے اور انیسویں صدی کے متشککّین نے اس دور کے متعلق بڑی غلط فہمیاں پھیلائی ہیں۔ ان لوگوں نے ازمنۂ وسطیٰ کی جو تصویر کھینچی ہے صرف وہی تصویر ہمارے علماء تک پہنچی ہے۔

ازمنۂ وسطیٰ کی غیر حقیقی اور بھیانک تصویر:

پہلے ازمنۂ وسطیٰ کی وہ تصویر پیش کی جاتی ہے جو پروٹسٹنٹ مصنفوں، عقلیت پرستوں اور لادینوں نے کھینچی ہے ان لوگوں نے اس زمانے کا نام ’’ظلماتی دور‘‘ رکھا ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس دور میں بادشاہوں، نوابوں اور پادریوں نے مل کر عوام کو اپنے شکنجے میں کس رکھا تھا۔ پادری علم کے ٹھیکیدار بن بیٹھے تھے اور عوام کو علم سے محروم کر دیا تھا۔ دینی معاملات میں پوپ نے سارا اختیار خود سنبھال لیا تھا جس چیز کو سفید کہہ دیا وہ سفید، جس کو سیاہ کہہ دیا وہ سیاہ۔ عوام کو فکر کی آزادی حاصل نہ تھی، بلکہ علم کی پرچھائیں تک عوام پر نہ پڑنے پاتی تھی۔ کلیسا سائنس کا خاص طور سے مخالف تھا۔ جہاں بھی کسی نے کوئی نیا خیال پیش کیا، اسے فوراً سزا دی گئی۔ چنانچہ لوگ سوچنے سے بھی ڈرتے تھے اور ذہن کو زنگ لگ رہا تھا۔ <ہمارے تجدد پسند بھی آج یہی کہتے ہیں کہ ہمیں علماء سائنس میں ترقی نہیں کرنے دیتے حالانکہ یہاں اسی جیسی کوئی سختی یا پابندی نہیں>undefined پادری عیش پسند ہوگئے تھے اور عوام کو طرح طرح سے لوٹتے تھے۔

یہ تصویر بڑی حد تک خیالی ہے۔ پچھلے ساٹھ ستر سال کے عرصہ میں ازمنۂ وسطیٰ کے بارے میں جو تحقیق ہوئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات نواب اور زمیندار کاشت کاروں پر ظلم تو ضرور کرتے تھے لیکن فی الجملہ انسانی رشتوں کا جو احترام اس دور میں تھا وہ مغربی معاشرے میں پھر کبھی نہیں رہا۔ یہ بات کمیونزم کے بانی کارل مارکس نے بھی تسلیم کی ہے۔ معاشی اعتبار سے کاریگروں اور پیشہ وروں کو پوری آزادی حاصل تھی، اور پیشہ ورانہ پنچائیتیں (Guilds) ہر پیشے کے کام کا پورا انتظام کرتی تھیں۔ اس معاشی نظام میں اتنا عدل تھا کہ بعض اشتراکی جماعتیں معاشرے کی تشکیل اسی پنچائتی نظام کے نمونے پر کرنا چاہتی ہیں۔ رہا پوپ کے اقتدار کا معاملہ تو پرانی دستاویزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عموماً پوپ بادشاہوں کو جبر و ظلم سے روکتے تھے اور عوام کے حقوق کی نگہداشت کرتے تھے۔ کلیسا کے نظام میں بہت سی خرابیاں ضرور آگئی تھیں، لیکن وہ اتنی زبردست اور بنیادی نہیں تھیں جتنی پروٹسٹنٹ اور عقلیت پرست مصنفین نے پیش کی ہیں۔

ازمنۂ وسطیٰ عہد ظلمات نہیں تھا:

اسی طرح یہ کہنا بھی سراسر غلط ہے کہ یہ تاریکی اور جہالت کا دور تھا۔ چونکہ سولہویں صدی سے لوگوں نے ازمنۂ وسطیٰ کی کتابیں پڑھنی چھوڑ دی تھیں، اس لیے یورپ کے لوگوں کے لیے اور خصوصاً انگلستان کے لوگوں کے لیے اپنا پرانا ادب اجنبی ہو کے رہ گیا تھا۔

ازمنۂ وسطیٰ میں یورپ کی تہذیب کا علو:

ازمنۂ وسطیٰ کے ادب کے بارے میں زیادہ تر تحقیق بیسویں صدی میں ہوئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ازمنۂ وسطیٰ میں یورپ کی تہذیب نے جو لطافت اور علو حاصل کرلیا تھا وہ اسے پھر کبھی حاصل نہیں ہوسکا۔ ہمارے علماء کو خصوصاً اور مسلمانوں کو عموماً یہ بات تسلیم کرنے میں جھجکنا نہیں چاہیے کیونکہ ازمنۂ وسطیٰ کے مغربی ادب اور علوم پر عربوں کا گہرا اثر ہے۔ طب، نجوم، فلسفہ وغیرہ میں تو یونانیوں کے بعد عرب مصنفوں کو ہی سند مانا جاتا تھا۔

یورپی ادب پر مسلمانوں کا اثر:

رازی، ابن سینا، امام غزالیؒ ، اور ابن رشدؒ یہ نام یورپ میں اسی طرح مشہور تھے جس طرح مسلمانوں میں بارہویں صدی میں فرانس کے جنوبی علاقے یعنی پرووانس (Provence) میں جس شاعری کا آغاز ہوا وہ عربی اثرات ہی کا نتیجہ تھا۔ بلکہ تازہ ترین تحقیق سے تو پتہ چلا ہے کہ عربی شاعری کا اثر نویں صدی عیسوی سے شروع ہوگیا تھا، بلکہ آئر لینڈ تک پہنچ گیا تھا جو اندلس سے خاصے فاصلے پر ہے۔

تیرہویں صدی سے عیسائیت کا زوال:

خالص عقل کے میدان میں ازمنۂ وسطیٰ کے مفکرین کا یہ حال تھا کہ ارسطو کی منطق میں جو خامیاں تھیں وہ ان لوگوں نے دور کی ہیں۔ یونانی فلسفہ اس دور میں بھی پڑھا جاتا تھا، البتہ یہ لوگ فلسفے کو اپنے دین کے تابع رکھنا چاہتے تھے۔ بارہویں صدی میں مغرب پر سب سے شدید اثر ابن رشد کا تھا۔ عیسوی دنیا کا سب سے بڑا دینی مفکر سینٹ ٹامس اکوائناس سمجھا جاتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ تیرہویں صدی میں اس نے ابنِ رشد کے فلسفے کو شکست دے کر عیسوی الٰہیات اور دینیات کو ارسطو کے فلسفے کی بنیاد پر قائم کیا۔

دینی علوم کے سلسلے میں ہمیں ایک بات ضرور یاد رکھنی چاہیے۔ ایک عام مسلمان بھی اس بات سے واقف ہے کہ دین کے دو پہلو ہیں، ظاہر اور باطن، شریعت اور طریقت۔ مگر مغرب باطنی پہلو کے صحیح معنی بھول چکا ہے اور اس کا مطلب جذبات کی پرورش سمجھتا ہے یا زیادہ سے زیادہ وجدو حال اور مکاشفات۔

ازمنۂ وسطیٰ کی عیسائیت: ظاہری و باطنی علوم کا سنگم:

مگر ازمنۂ وسطیٰ میں یورپ کے عیسائیوں کے پاس ظاہری علوم بھی تھے اور باطنی علوم بھی۔ باطنی علم یا علم توحید ان لوگوں کے یہاں ایسی مکمل صورت میں تو نہیں تھا جیسے ہمارے یہاں تصوف ہے، مگر تھا ضرور۔ اس بات کی صریح شہادتیں موجود ہیں کہ عیسائیوں نے اس علمِ توحید میں مسلمان صوفیاء سے استفادہ کیا تھا۔ مثلاً تیرہویں اور چودہویں صدی میں حضرت ابن عربیؒ کی تعلیمات یورپ کے متصوفانہ حلقوں میں اتنی مقبول تھیں کہ کلیسا نے انھیں اپنا حریف سمجھا اور ان پر پابندی لگا دی۔ باطنی علوم پر عیسائیوں نے جو کتابیں لکھیں تھیں ان میں سے بیشتر تو کلیسا نے جلا دیں، اور کچھ پرانے کتب خانوں میں بند پڑی ہوں گی اس لیے کوئی دستاویزی شہادت ایسی نہیں ملتی <کم سے کم آسانی سے نہیں ملتی>undefined جس سے پتہ چل سکے کہ اس معاملے میں عیسائیوں کی پہنچ کہاں تک تھی۔

عیسائی خانقاہ: مرکز باطنی علوم

بہرحال اتنی بات مصدقہ ہے کہ صلیبی جنگوں کے دوران میں عیسائیوں نے مسلمانوں سے باطنی علوم حاصل کیے تھے۔ اس کی بیّن شہادت یوں ملتی ہے کہ رومن کیتھلک لوگ جن دینی عالموں کو سب سے اونچا درجہ دیتے ہیں ان میں سے ایک رچرڈ سینٹ وکتور (Richard St. Victor) ہے۔ یہ شخص اسکاٹ لینڈ کا تھا، مگر فرانس میں سین وکتور کی خانقاہ سے متعلق تھا۔ کہتے ہیں کہ اس خانقاہ میں باطنی علوم سے متعلق ایک کتاب تھی جسے روز پڑھنا لازمی تھا اور اس کتاب میں وہ علوم تھے جو عربوں سے اخذ کر کے یک جا کر دیئے گئے تھے۔

عیسائیت پر اسلامی تصّوف کے اثرات:

اس شخص نے لاطینی میں دو کتابیں لکھی ہیں “The Major Benjamin” اور “The Minor Benjamin”۔ یہ کتابیں تمثیلی رنگ میں حضرت یوسفؑ اور ان کے بھائیوں کا قصہ پیش کرتی ہیں اور ان کا موضوع ہے۔ مَنْ عَرَفَ نَفْسِہٖ فَقَدْ عَرَفَ ربّہٖ۔ ان کتابوں سے اتنی بے اعتنائی برتی گئی ہے کہ لاطینی سے فرانسیسی میں ترجمہ ابھی حال ہی میں ہوا ہے۔ ان دو کتابوں سے پوری طرح واضح ہوجاتا ہے کہ ازمنۂ وسطیٰ کے باطنی علوم اسلامی تصوف سے کتنے مشابہ تھے۔

چودہویں صدی سے عیسائیت کی طریقت کا زوال:

بہرحال پوپ اور بادشاہ دونوں باطنی علوم کے مخالف ہوگئے اور چودھویں صدی سے طریقت کمزور پڑنے لگی جس شخص کی زبان پر حضرت ابن عربی کا نام آجاتا تھا اسے فوراً گرفتار کرلیا جاتا تھا۔ کہتے ہیں کہ جو معدودے چند متصوفین یورپ میں بچے تھے وہ اٹھارہویں صدی کے وسط میں ہجرت کر گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائیوں کے پاس محض ’’ظاہری‘‘ علوم رہ گئے اور دین کا باطنی پہلو بالکل ختم ہوگیا۔ دین کے یہ ظاہری علوم بھی صرف رومن کیتھلک لوگوں کے پاس رہ گئے ہیں، اور یہ بھی روز بروز زوال پذیر ہیں۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ ازمنۂ وسطیٰ کے دینی فکر میں ایسی کیا کمزوریاں تھیں جن کی وجہ سے ’’جدیدیت‘‘ بڑی آسانی سے عیسائیت پر غالب آگئی، اور گمراہیاں بڑھتی ہی چلی گئیں اور مغرب کا ذہن مسخ ہوتا چلا گیا۔

٭4۔نشأۃ ثانیہ: جدیدیت کا آغاز:


عام طور سے یورپ میں مشہور ہے کہ ’’نئی دنیا‘‘ یعنی جدیدیت کا آغاز ۱۴۵۳ء سے ہوتا ہے جب ترکوں نے قسطنطنیہ فتح کیا، اور یونانی عالم اپنی کتابیں لے کر وہاں سے بھاگے اور سارے یورپ میں پھیل گئے۔ انھوں نے یونانی علوم یورپ والوں کو پڑھائے۔ اس دور کو ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یونان اور روم کے زوال کے بعد یورپ کا ذہن گویا مر گیا تھا، اور ہزار سال تک مدفون رہا۔ پندرہویں صدی میں جب یونانی علوم پھیلے تو مغرب کا ذہن دوبارہ پیدا ہوا۔

یہ بیان سراسر غلط ہے۔ یونانی علوم ازمنۂ وسطیٰ میں بھی رائج تھے، مگر انھیں ثانوی حیثیت دی جاتی تھی، سب سے بڑا درجہ دینی علوم کا تھا۔ پندرہویں صدی میں سب سے اونچی جگہ یونانی علوم کو دی گئی۔ یہ علوم وحی پر مبنی نہیں تھے، بلکہ عقلی تھے۔ دوسرے، یونانی علوم میں ہر مسئلے پر انسانی نقطۂ نظر سے غور کیا جاتا تھا اور انسان ہی کو کائنات کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔

نشأۃ ثانیہ اور تحریک اصلاح مذہب :

یہ دو تحریکیں، یعنی نشأۃ ثانیہ (Renaissance) اور ’’اصلاحِ دین‘‘ (Reformation) ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ عام طور سے مغرب کے مصنّفین پہلی تحریک کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں، اور دوسری تحریک کو اس کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن اگر عیسوی کلیسا <جس سے مراد رومن کیتھلک کلیسا ہے>undefined پورے استحکام کے ساتھ قائم رہتا تو جتنے رجحانات نشأۃ ثانیہ کے ذیل میں گنوائے گئے وہ اتنی آسانی سے جڑ نہ پکڑتے۔ اس لیے بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اصل چیز ’’اصلاحِ دین کی تحریک‘‘ ہے اور ’’نشأۃ ثانیہ‘‘ اس کی شاخ ہے۔ ان کے نزدیک ’’جدیدیت‘‘ کا آغاز پندرہویں صدی سے نہیں بلکہ چودہویں صدی سے ہوتا ہے۔

کلیسا کا زوال: اخلاقیات کردار کی خرابیاں :

رومن کیتھلک کلیسا چونکہ انتظامی محکمے کی شکل میں قائم ہوا تھا، اس لیے نظم و نسق کے معاملے میں خرابیاں پیدا ہونی لازمی تھیں اور کلیسا کے عہدے داروں کا اخلاقی برائیوں میں گرفتار ہوجانا بھی لازمی تھا۔ ان خرابیوں کے خلاف وقتاً فوقتاً اعتراض ہوتے رہے۔ لیکن احتجاجی اور اصلاحی تحریک زور و شور کے ساتھ پہلے تو چودہویں صدی میں انگلستان میں شروع ہوئی اور پندرہویں صدی میں جرمنی میں۔

تفسیر بالرائے: عیسائیت کا زوال

پروٹسٹنٹ مذہب کا بانی مارٹن لوتھر <پندرہویں اور سولہویں صدی>undefined اٹھا تو تھا محض کلیسا کی اصلاح کے لیے، لیکن آخر اس نے یہ دعویٰ کیا کہ دینی معاملات میں بھی پوپ کا مکمل اقتدار غلط ہے اور نہ پوپ کا فیصلہ قطعی اور آخری ہوسکتا ہے۔ خدا نے انجیل انسانوں کی رہنمائی کے لیے نازل کی ہے اور ہر عیسائی کی نجات کا دارومدار اس کے انفرادی ایمان اور اعمال پر ہے۔ اس لیے ہر آدمی کو حق پہنچتا ہے کہ براہِ راست خدا کا کلام پڑھے اور اپنی فہم کے مطابق اسے سمجھے۔ خدا اور بندے کا تعلق براہ راست ہے اور پادریوں کو درمیان میں آنے کا حق نہیں۔ ہر آدمی کا فیصلہ خدا خود کرے گا اس لیے اصلی ذمہ داری فرد کے کندھوں پر ہے۔ ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اختیار بھی چاہیے۔ چنانچہ ہر فرد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ دینی معاملات میں انفرادی طور سے خود ہی فیصلہ کرے۔ یعنی مارٹن لوتھر نے فرد کو تفسیر بالرائے کی پوری آزادی دے دی، اور دینی معاملات میں ہر قسم کے استناد سے انکار کر دیا۔

ساری جدیدیت اور اس سے پیدا ہونے والی تمام گمراہیوں کی جڑ اور اصل الاصول یہی انفرادیت پرستی اور اطاعت سے انکار ہے یعنی جدیدیت ابلیسیت ہے۔

پروٹسٹنٹ تحریک کی ریاستی سرپرستی: قومی کلیساؤں کا قیام :

لوتھر کی پروٹسٹنٹ تحریک کی پشت پناہی جرمنی کے چھوٹے چھوٹے بادشاہوں نے کی۔ اس میں ان کا سیاسی مفاد یہ تھا کہ روم کے کلیسا کا دینی اقتدار ختم ہو جائے تو وہ مطلق حکمران بن جائیں۔ چنانچہ سولہویں صدی سے رومن کیتھلک کلیسا کی مرکزیت ختم ہونے لگی اور پروٹسٹنٹ ملکوں میں قومی کلیسا قائم ہونے لگے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین سیاست کے تابع ہوگیا۔ دین میں فرد کی خود مختاری اور آزادی کا اصول قائم ہوگیا تو مغرب میں گمراہیاں بڑھتی ہی چلی گئیں اور خود رومن کیتھلک لوگ بھی ان سے متاثر ہونے لگے۔

پروٹسٹنٹ مذہب: جدیدیت کی بنیاد

عیسائیت دنیا کا واحد مذہب ہے جس میں دینی رہنماؤں کی تنظیم حکومت کے انتظامی شعبوں کی طرح کی گئی تھی۔ روم کا کلیسا قائم ہی ہوا تھا رومی سلطنت کے نمونے پر جس طرح یہ ناممکن ہے کہ حکومت کے محکموں میں تھوڑی بہت خرابیاں پیدا نہ ہوں، اسی طرح کلیسا کے عہدے داروں میں بھی اخلاقی خرابیاں آگئیں۔ پہلے تو لوگوں نے اصلاح کا مطالبہ کیا۔ یہ ایک طرح کی سیاسی بحث تھی۔ لیکن آخر اعتقادات میں بھی تبدیلی شروع ہوگئی اور پروٹسٹنٹ مذہب نمودار ہوا جو دراصل ’’جدیدیت‘‘ کی بنیاد ہے۔

پوپ اور بادشاہوں میں اقتدار کے جھگڑے:

پوپ اور بادشاہوں کے درمیان اقتدار کے جھگڑے ہونے لگے اور بہت سے بادشاہوں نے پروٹسٹنٹ تحریک کی حمایت کی۔ اس سیاسی کشمکش نے کلیسا کو کمزور کر دیا اور پروٹسٹنٹ ملکوں میں تو کلیسا بادشاہوں کا غلام بن گیا۔ کلیسا نے باطنیت کی سخت مخالفت کی۔ چنانچہ سولہویں صدی کے آخر تک عیسائیت میں صرف ظاہر ہی ظاہر رہ گیا۔ گویا عیسائیت کی جان ہی نکل گئی۔ ازمنۂ وسطیٰ کے دینی مفکر فلسفے کو دین کے تابع تو ضرور رکھنا چاہتے تھے، لیکن ان کے یہاں تفلسف اور عقلیت کا رنگ خاصا نمایاں تھا۔ یہی رجحان آگے چل کر اتنا بڑھا کہ دین سے آزاد ہونے کا دعویٰ کرنے لگا۔

یونانی فلسفے کی طرح ازمنۂ وسطیٰ کی الٰہیات بھی ’’وجود‘‘ کی منزل سے آگے نہیں جاسکی۔ یعنی ان مفکروں کو مکمل تنزیہہ کبھی حاصل نہیں ہوسکی۔ اسی لیے وہ تنزیہہ اور تشبیہہ کے درمیان امتیاز قائم نہیں کرسکے۔ تشبیہہ سے گر کر ’’فطرت پرستی‘‘ میں پڑ جانا بالکل آسان ہے جو آگے چل کر ہوا۔

عیسوی دینیات ارسطو کے طلسم میں: عیسائیت کے زوال کا اصل سبب

سینٹ ٹامس اکوائناس نے عیسویں دینیات کو ارسطو کے فلسفے پر اس طرح قائم کیا تھا کہ ارسطو عیسوی دینیات کا لازمی جز بن گیا تھا اور ایسا معلوم ہونے لگا کہ ارسطو کا انکار عیسوی دینیات کا انکار ہے۔ سولہویں صدی کے آخر میں یہی ہوا۔ کوپرنیکس اور کیپلر نے بطلیموسی نظام سے انحراف کیا تو عیسائیت کی دنیا میں زلزلہ آگیا۔ سترہویں صدی کے شروع میں گیلیلیو نے سائنس کے دو ایک نئے اصول دریافت کیے تو ان کی زد بھی عیسوی دین پر نہیں بلکہ ارسطو پر پڑتی تھی۔ لیکن لوگ یہی محسوس کرتے تھے کہ ارسطو گیا تو عیسوی دینیات بھی گئی اور جب لوگوں کو ارسطو کی طبیعیات پر شک پیدا ہوا تو ساتھ ہی عیسائیت پر بھی ایمان کمزور پڑگیا۔

ایک لفظ نے تاریخ بدل دی:

Form ہے تو ایک بے ضرر سا لفظ، لیکن اس لفظ نے گمراہی کو ترقی دینے میں بڑی آسانیاں فراہم کی ہیں۔ افلاطون نے کہا ہے کہ کائنات میں جتنی چیزیں ہیں ان کا نمونہ عالم مثال میں موجود ہے۔ اس نمونے کو وہ ’’عین‘‘ کہتا ہے اور حقیقت اسی ’’عین‘‘ کے اندر سمجھتا ہے۔ مادی شے میں نہیں۔ ازمنۂ وسطیٰ کی الٰہیات اور فلسفے میں ’’عین‘‘ کے لیے لفظ Form استعمال کیا گیا۔ ان لوگوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ مادی چیز نہیں ہے مگر اس لفظ کے معنی ہیں ’’صورت‘‘۔ چنانچہ یہ لفظ سب سے پہلے کسی مادی چیز کا تصور پیش کرتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ اس لفظ کا اصلی مفہوم تو غائب ہونے لگا اور مادی مفہوم غالب آتا گیا۔ اس طرح مادیت کے نشوونما میں اس لفظ نے بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔

نشأۃ ثانیہ- فکری اور عملی خصوصیات :


چنانچہ ’’نشأۃ ثانیہ‘‘ کا اصلی مطلب ہے وحی پر مبنی اور نقلی علوم کو بے اعتبار سمجھنا، اور عقلیت اور انسان پرستی اختیار کرنا، اسی لیے اس تحریک کا دوسرا نام ’’انسان پرستی‘‘ (Humanism) بھی ہے۔ چونکہ نیا دور اسی زمانے میں شروع ہوتا ہے اور جدیدیت کے خدوخال نمایاں ہونے شروع ہوتے ہیں، اس لیے اس دور کی فکری اور عملی خصوصیات پیش کی جاتی ہیں:

۱۔ یونانی علوم کو دینی علوم پر ترجیح دینا۔

۲۔ انسان پرستی ‘‘ یعنی انسان کو موجودات میں سب سے اہم سمجھنا اور ہر بات پر انسان کے نقطۂ نظر سے غور کرنا۔

۳۔ چونکہ عوام مذہبی رنگ میں رنگے ہوئے تھے، اس لیے عموماً خدا کے وجود سے انکار نہیں کیا گیا۔ لیکن خدا پر ایمان محض ایک رسمی چیز بن گیا۔

۴۔ آخرت سے بھی انکار نہیں کیا گیا لیکن ایک بہت بڑا فرق پیدا ہوا۔ ازمنۂ وسطیٰ کے لوگ کہتے تھے کہ اصل حقیقت تو آخرت ہی ہے، یہ دنیا محض فریب ہے۔ اب لوگ کہنے لگے کہ آخرت بھی حقیقی ہے، اور یہ دنیا بھی حقیقی ہے۔

۵۔ آخرت چونکہ نظر نہیں آتی اس لیے کہا گیا کہ آخرت کی فکر میں گھلنا بیکار ہے، مرنے کے بعد دیکھا جائے گا۔ دنیا نظروں کے سامنے ہے۔ پہلے اس کا بندوبست کرو۔ اس رجحان کی بہترین مثال انگریز فلسفی بیکن ہے جسے ’’سب سے پہلا جدید مفکر‘‘ کہا جاتا ہے۔

گمراہی کا نیا روپ: خدا کی دو کتابوں کا تصور :

۶۔ یہ خیال بھی اس زمانے میں بہت مقبول ہوا کہ خدا کی دو کتابیں ہیں، ایک تو انجیل اور دوسری فطرت۔ چنانچہ انجیل کے مطالعے کی طرح فطرت کا مطالعہ بھی دینی فریضہ ہے۔ کچھ لوگ اس سے بھی آگے گئے اور کہنے لگے کہ انجیل کو فطرت کے مطالعے کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔ یہ نقطۂ نظر گیلیلیو کا بھی تھا۔ <اسی لیے کلیسا نے اسے سزا دی تھی۔ یہ محض افسانہ ہے کہ کلیسا سائنس کی ترقی کا مخالف تھا[

نفس پرستی کی شکل: فطرت پرستی:

۷۔ فطرت کے حسن کی طرف بھی خاص طور سے توجہ کی گئی۔ انسان کا فریضہ قرار پایا کہ فطرت کے حسن اور دنیا کی رنگینیوں سے پوری طرح لطف اندوز ہو۔ سینکڑوں شاعر اس موضوع پر نظمیں لکھنے لگے کہ زندگی چند روزہ ہے، اس سے جتنا لطف اٹھایا جاسکے اٹھالو یعنی نفس پرستی کو اصولِ زندگی بنایا گیا۔

۸۔ فطرت کا مطالعہ برائے مطالعہ نہیں ہونا چاہیے، بلکہ تسخیر فطرت کے لیے تاکہ انسان فطرت کی قوتوں کو اپنے کام میں لاسکے۔

چیزوں کی حقیقت: مشاہدہ و تجربہ

۹۔ مطالعۂ فطرت کا طریقہ بھی بیکن نے مقرر کر دیا جس چیز کو ’’سائنس کا طریقہ‘‘ کہا جاتا ہے وہ اسی سے شروع ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چیزوں کی حقیقت صرف مشاہدے اور تجربے سے معلوم ہوسکتی ہے۔ اس سے براہِ راست منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو چیز مشاہدہ نہ کی جاسکے اور حسی تجربے میں نہ آسکے وہ حقیقی نہیں۔ [اس کا اعلان انیسویں صدی میں ہوا>undefined

نفس پرستی کی شکل: فطرت پرستی:

۷۔ فطرت کے حسن کی طرف بھی خاص طور سے توجہ کی گئی۔ انسان کا فریضہ قرار پایا کہ فطرت کے حسن اور دنیا کی رنگینیوں سے پوری طرح لطف اندوز ہو۔ سینکڑوں شاعر اس موضوع پر نظمیں لکھنے لگے کہ زندگی چند روزہ ہے، اس سے جتنا لطف اٹھایا جاسکے اٹھالو یعنی نفس پرستی کو اصولِ زندگی بنایا گیا۔

۸۔ فطرت کا مطالعہ برائے مطالعہ نہیں ہونا چاہیے، بلکہ تسخیر فطرت کے لیے تاکہ انسان فطرت کی قوتوں کو اپنے کام میں لاسکے۔

چیزوں کی حقیقت: مشاہدہ و تجربہ

۹۔ مطالعۂ فطرت کا طریقہ بھی بیکن نے مقرر کر دیا جس چیز کو ’’سائنس کا طریقہ‘‘ کہا جاتا ہے وہ اسی سے شروع ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چیزوں کی حقیقت صرف مشاہدے اور تجربے سے معلوم ہوسکتی ہے۔ اس سے براہِ راست منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو چیز مشاہدہ نہ کی جاسکے اور حسی تجربے میں نہ آسکے وہ حقیقی نہیں۔ [اس کا اعلان انیسویں صدی میں ہوا>

۱۰۔ لفظ ’’فطرت‘‘ کا مفہوم بھی اس دور میں بدلنے لگا۔ ازمنۂ وسطیٰ کے مفکر دو چیزوں میں امتیاز اور فرق ملحوظ رکھتے تھے۔ ایک تو ہے Natura Naturans جس کی حیثیت ’’جوہر‘‘ کی ہے۔ لہٰذا غیر مادی چیز ہے۔ دوسری چیز ہے Natura Naturata جس کی حیثیت ’’عرض‘‘ کی ہے لہٰذا مادی چیز ہے۔ اس دور سے یہ دوسرے معنی غالب آنے لگے، اور عرض کو جوہر کی جگہ دی جانے لگی۔ آہستہ آہستہ لوگ جوہر کو بھول ہی گئے۔ <سرسید اور دوسرے ’’نیچیری‘‘ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ لفظ ’’نیچر‘‘ انگریزی میں کتنے معنی رکھتا ہے>undefined

۱۱۔ تسخیر فطرت سے مراد ہے طاقت کا حصول۔ یہ اس دور کا سب سے بنیادی اور مرکزی اصول حیات تھا۔ انسان کا سب سے بڑا فریضہ یہ قرار پایا کہ طاقت حاصل کرے، خواہ کسی شعبے میں ہو اور کسی طریقے سے ہو۔

۱۲۔ طاقت کے اصول سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اخلاقیات کوئی چیز نہیں جو آدمی طاقت حاصل کرلے وہ اچھا ہے اور اس کا طریقہ کار بھی اچھا ہے جو آدمی طاقت حاصل نہ کرسکے وہ برا ہے اور اس کا طریقہ کار بھی برا ہے اور پھر طاقت بھی لامحدود ہونی چاہیے۔ اس دور کے مصنف صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ انسان کو خدا بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نعوذ باللہ۔

اس ’’نئی اخلاقیات‘‘ کو فلسفے کی شکل اٹلی کے مفکر میکیاویلی نے دی۔ وہ کہتا تھا کہ عام افراد کو تو اخلاقیات کا پابند ہونا چاہیے، لیکن بادشاہ اخلاقی اصولوں سے بالکل آزاد ہے۔ بادشاہ اپنی قوم کی خاطر جو چاہے کرسکتا ہے، جو چیز بھی اسے مفید معلوم ہو وہ اچھی ہے ‘‘ چاہے قتل ہو یا جھوٹ۔

۱۳۔ چنانچہ اس دور میں ’’قوم‘‘ اور ’’قومیت‘‘ کا جدید تصور پیدا ہوا۔ ’’قوم‘‘ اور ’’وطن‘‘ کو وہ جگہ دی گئی جو خدا کی ہونی چاہیے۔ لہٰذا اس زمانے میں بادشاہوں کو مطلق اور جابرانہ طاقت حاصل ہوئی، اور انگلستان میں تو کلیسا بھی بادشاہ کے زیرنگیں آگیا۔ یہی دور تجارت کی ترقی کا ہے۔ موجودہ سرمایہ داری کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔

۱۴۔ یہی زمانہ سیاحت کی انقلاب انگیز کامیابیوں کا ہے۔ امریکہ جیسا براعظم دریافت ہوا، ہندوستان کا سمندری راستہ معلوم ہوا، بحرالکاہل دریافت ہوا۔ نئی ایجادات کا آغاز بھی اسی دور میں ہوا۔ بارود اور چھاپہ خانہ جن کو دور جدید کی بنیاد کہا جاتا ہے اسی زمانے میں بنائے گئے۔ ادھر سائنس کے شعبے میں کوپرنیکس، کیپلر اور گیلیلیو نے بطلیموسی نظام اور ارسطو کی طبیعیات کو الٹ کر رکھ دیا۔ غرض یورپ کے لوگوں کی نظر میں نہ صرف دنیا بلکہ کائنات ہی کا نقشہ بدلنے لگا، اور روایتی علوم بے کار معلوم ہونے لگے۔

۱۵۔ ان خارجی اور مادی کامیابیوں نے مغربی ذہنیت کو ایسا متاثر کیا کہ لوگ ’’فکر‘‘ اور ’’عمل‘‘ کو ایک دوسرے کا مخالف اور متضاد سمجھنے لگے بلکہ ’’عمل‘‘ <یعنی خارجی اور جسمانی عمل>undefined کو ’’فکر‘‘ پر فوقیت دینے لگے۔

۱۶۔ یورپ کے روایتی اور دینی علوم تو خیر برباد ہو ہی رہے تھے لیکن یہ مادی کامیابیاں اور ترقیاں بظاہر مثبت چیز معلوم ہوتی ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ایک دوسرا فکری رجحان ابھر رہا تھا جو فی الاصل فکر ہی کی جڑ کھود دیتا ہے۔ اس دور سے پہلے جتنے بھی دیندار یا بے دین لوگ ہوئے ہیں وہ سب یہی دعویٰ کرتے تھے کہ ہم حقیقت یا صداقت یا حق کی تلاش میں ہیں۔ اس دور کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ اس نے صداقت یا حق کے وجود ہی سے انکار کر دیا۔

اس رجحان کا سب سے بڑا نمائندہ فرانس کا مفکر موں تینیہ (Montaigne) ہے ‘‘ جسے انگریز مون ٹین کہتے ہیں۔ اس نے ایک مثال دی ہے کہ بچپن میں مجھے ککڑی بہت پسند تھی، مگر اب پسند نہیں آتی۔ اس مثال سے نتیجہ یہ اخذ کیا ہے کہ حق یا صداقت کوئی مطلق یا مستقل چیز نہیں، بلکہ اضافی چیز ہے جو ہر آدمی کے ساتھ اور زمان و مکان کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔

شک: عقل مند کی پہچان :

اس لیے انسانی ذہن کی معراج معرفت یا علم کا حصول نہیں، بلکہ تشکیک ہے۔ سب سے عقل مند آدمی وہ ہے جو ہر چیز اور ہر خیال کو شک کی نظر سے دیکھتا ہو۔ تشکیک کا یہ فلسفہ موجودہ مغربی ذہن کا لازمی جز بن گیا ہے جس کا آخری نتیجہ مادی ضروریات اور نفسیاتی خواہشات کی تسکین کے سوا ہر چیز سے مکمل بے نیازی ہے۔

تشکیک کا فلسفہ نفسانی خواہشات پر شک نہیں کرتا

اس تشکیک کے فلسفے نے ہر چیز پر شک کیا سوائے جسمانی ضروریات اور نفسانی خواہشات کے۔ ان دو چیزوں کی تسکین چونکہ ضروری اور لازمی قرار پائی، اس لیے تسکین کا آلۂ کار بھی ڈھونڈنا لازمی تھا۔ یہ آلۂ کار دو ہوسکتے تھے۔عقلِ جزوی (Reason) اور تخیل۔ چنانچہ اس دور سے مغرب کے لوگ عقلِ کلی (Intellect) کو بھولنے لگے، اور آہستہ آہستہ عقل جزوی ہی کو عقلِ کلی سمجھنے لگے۔ اب یورپ میں مفکروں کے دو گروہ ہوگئے۔ ایک گروہ تو عقل <یعنی عقل جزوی>undefined کو انسانی ذہن کی صلاحیتوں میں سب سے بڑا درجہ دینے لگا اور دوسرا گروہ تخیل کو۔ ان دونوں گروہوں میں پچھلے تین سو سال سے لڑائی جاری ہے جس کے عنوانات بدلتے رہتے ہیں لیکن ہمیں یہ بات نہ بھولنی چاہیے کہ عقلِ جزوی ہو یا تخیل، دونوں ہی کی بنیاد حسیات پر ہے۔ لہٰذا دراصل دونوں گروہ ہی حسی تجربے کے قائل ہیں، اور ظاہری اختلاف کے باوجود بنیادی طور سے ایک ہی بات کہہ رہے ہیں۔

انفرادیت پرستی کا فلسفہ:

اب تک اس دور کے جتنے خصائص بیان ہوئے ان سب میں ایک چیز مشترک ہے۔ یعنی فرد کی اہمیت کا اثبات۔ نہ صرف نشأۃ ثانیہ کے دور، بلکہ پوری جدیدیت کی اصل و روح یہی انفرادیت پرستی ہے۔ مذہب ہو یا اخلاقیات یا معاشرتی زندگی، ہر جگہ آخری معیار فرد اور اس کے تجربے کو سمجھا گیا ہے۔ پچھلے پانچ سو سال میں مغرب نے گمراہی کی جتنی شکلیں بھی پیدا کی ہیں وہ سب اسی انفرادیت پرستی کے بیج سے نکلی ہوئی شاخیں ہیں۔ یہی وہ اصول ہے جو نشأۃ ثانیہ کی تحریک کا رشتہ ’’اصلاحِ دین کی تحریک‘‘ سے جوڑ دیتا ہے۔