ہمارے ایک دوست نے گزشتہ دنوں یہ سوال اٹھایا کہ کیا اہل مغرب نے اپنے علم، معاشرے اور تہذیب کے بنیادی اصول قرآن مجید سے حاصل نہیں کیے؟ ہم اپنے زوال کی وجہ سے جس ذمہ داری کو فراموش کر چکے ہیں، اہل مغرب نے اسے پورا کر دکھایا؟
یہ سوال دراصل جواب ہے۔ ہمارے کلچر، تعلیم، علوم، مذہبی مباحث، فکری انتاجات اور دینی تعبیرات میں یہ بات بہت عام ہے۔ ہمارے ہاں اسے ایک مرکزی سچ کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے کہ اہل مغرب نے جو یہ جدید تہذیب کھڑی کی ہے اسے انہوں نے قرآن مجید سے اخذ کیا ہے۔ متجددین اور جدید تعلیم یافتہ مذہبی لوگ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ مغرب نے سائنس کے اصول بھی قرآن مجید ہی سے اخذ کیے ہیں۔ جہاں تک مغرب کے سماجی، سیاسی اور معاشی نظام کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہی مشہور ہے کہ وہ بھی انہوں نے قرآن مجید ہی سے اخذ کیا ہے۔ مغربی علوم کے بارے میں بھی ہمارے ہاں یہی دعویٰ ہے کہ اہل مغرب نے قرآنی تعلیمات پر ”تحقیق“ اور اس کی ہدایات پر عمل کر کے علوم کا حصول ممکن بنایا ہے۔ یہ بات اب تداول کا درجہ اختیار کر چکی ہے کہ ”ہمارے ہاں مسلمان تو ہیں، اسلام نہیں ہے، اور وہاں اسلام ہے، مسلمان نہیں ہیں“۔ ہمارے ایک دوست جو مذہبی تعلیم یافتہ ہیں گزشتہ دنوں کئی ماہ تک یورپ گھوم کے واپس آئے تو ان کا فرمان بھی شنیدنی تھا۔ فرمانے لگے کہ مجھے وہاں جا کے احساس ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہم سے جو مطالبات کیے ہیں، ہم تو اس کے صرف مخاطب ہی ہیں، ان پر عمل تو مغرب نے کر کے دکھایا ہے۔
اب یہ ایک مقبولِ عام ”علمی بصیرت“ ہے کہ اہل مغرب نے اسلام کی مرادات کے عین مطابق ایک معاشرہ اور تہذیب کھڑی کی ہے جسے انہوں نے قرآن مجید ہی سے اخذ کیا ہے، اور ”یہ تہذیب اور معاشرہ مکمل اسلامی ہے اور اب صرف کلمے کی کسر رہ گئی ہے باقی سارا کام تیار ہے“۔ یہ بات بھی بہت عام ہے کہ مغرب جو بھی نئی دریافت کرتا ہے ہمارے ”پڑھے لکھے“ لوگ، جو اب میڈیا اور سیاست کی معاشی اور ثقافتی ضروریات کی وجہ سے ہم پر پوری طرح مسلط ہو چکے ہیں، ہمیں فوراً یہ خوشخبری سناتے ہیں کہ یہ سائنسی حقیقت تو پہلے ہی قرآن مجید میں موجود تھی، اور اہل مغرب نے ”ریسرچ“ کر کے اسے قرآن مجید سے نکال لیا ہے۔ اس معاملے میں بھی مسلمانوں نے بڑی کوتاہی برتی اور وہ قرآن مجید سے سائنسی حقائق دریافت نہ کر سکے جو اس میں پوشیدہ تھے۔ گویا قرآن مجید ایک ایسی کان ہے اور اہل مغرب اس کے اسرار و رموز کے ایسے واقف اور غواص ہیں کہ وہ تعلیم، علم، ٹیکنالوجی، اور ہر قسم کے معاشی اور سیاسی نظام وغیرہ اس سے اکثر نکالتے رہتے ہیں۔ مسلمان بیچارے قرآن مجید پڑھتے تو بہت ہیں، لیکن وہ گوہر مراد انہیں ہاتھ نہیں آتا جو مغرب والوں کو مل جاتا ہے۔ اس سے مسلمانوں کی کوتاہی اور بدنصیبی کا ایک اور پہلو بھی سامنے آ جاتا ہے کہ ان کی فہم بھی نہایت ناقص ہے۔ گویا کہ ان کی بدنصیبیاں پہلے کم تھیں کہ ایک اور آ کھڑی ہوئی!
گزارش ہے کہ محولہ بالا قضایا کی نوعیت ”علمی“ بھی ہے اور ”مذہبی“ بھی۔ ان کی علمی حیثیت کے تعین کے لیے انہیں کسی علمی تناظر میں رکھ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کی مذہبی معنویت کے لیے ایک دینی تناظر درکار ہے۔ فی الوقت ہم ان دونوں پہلوؤں کو نظرانداز کرتے ہوئے، عام تجربے کی سطح پر، اس ”موقف“ کے صرف ایک پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں۔
مسلمانوں کے ہاں یہ ”علمی“ نتائج اور مذہبی ادراک اس دوئی سے پیدا ہوا ہے جو حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کی ذات پاک اور قرآن مجید کے مابین کچھ خاص تاریخی حالات میں ہماری کوتاہ نظری سے پیدا ہوا ہے۔ ہماری جدید تعبیر و تفسیر پر تاریخی مؤثرات غالب آنے کی وجہ سے اس طرح کے موقف اب عام ہو گئے ہیں۔ جب مسلمان بہت جوش سے محولہ بالا مواقف کو آگے بڑھا رہے ہوتے ہیں، اس وقت وہ دراصل اس بات کا اعلان اور اعتراف کر رہے ہوتے ہیں کہ ایک ایسا تصور حیات، ایک ایسا معاشرہ اور ایک ایسی تہذیب جس کے فکری، سماجی اور تاریخی علوم میں پیغمبر اسلام علیہ الصلوٰۃ و السلام کی (نعوذ باللہ) تحقیر، تغلیط اور توہین کو صدیوں سے مرکزی حیثیت حاصل ہے، وہ عین قرآن مجید کے مطابق ہیں۔ یعنی ایک ایسا معاشرہ جس کے سماجی اور تاریخی علوم کی لائبریاں آقاے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی (نعوذ باللہ) کردار کشی پر مبنی “تحقیقاتی کتابوں” سے پٹی پڑی ہیں، جس میں پیغمبر اسلام علیہ الصلٰوۃ والسلام کی (نعوذ باللہ) توہین کو ایک انسٹی ٹیوشن اور مستقل ثقافتی قدر کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے، جہاں حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کے (نعوذ باللہ) کارٹون بنانا اظہار آزادی کی علامت بن چکا ہے، اور جہاں سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کی (نعوذ باللہ) توہین کو ایک ثقافتی میلے اور فیسٹیول کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے، وہ معاشرہ عین قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق تشکیل دیا گیا ہے!
مغرب کے سماجی اور تاریخی علوم کی منہج علم اور غایت بار بار اس لیے بدل دی جاتی ہے کہ اسلام کے ماورائی ہونے کا انکار کیا جا سکے، اور حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کی ذات پاک کو (نعوذ باللہ) ایک غیر تاریخی اور افسانوی شخصیت ہونے کا کوئی “علمی” ثبوت لایا جا سکے اور ہم انہی علوم کو قران مجید سے اخذ شدہ قرار دینے پر بضد ہوتے ہیں! اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ اہل مغرب نے اپنا سارا علم اور معاشرہ قرآن مجید ہی کی روشنی میں تشکیل دیا ہے، تو اس سوال کا جواب واجب ہے کہ قرآن مجید کی وہ کون سی تعبیر ہے جس کی بنیاد پر ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ہوئی ہے جہاں حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ذات مبارکہ نہ صرف یہ کہ غیر متعلق اور غیر اہم ہے بلکہ آپٌ کی (نعوذ باللہ) توہین کو ایک مرکزی ثقافتی اور علمی ادارے کی حیثیت حاصل ہے۔
یہ نہایت بدقسمتی اور محرومی کی بات ہے کہ کوئی مسلمان دین کا ایسا تصور رکھتا ہو جس میں حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کی ذات پاک کو مرکزیت حاصل نہ ہو، یا وہ دین کا ایسا فہم رکھتا ہو جس کی توسیط جدید فکر کے انکاری ذرائع سے ہوئی ہو، یا وہ علم کا کوئی ایسا تصور رکھتا ہو جس میں حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام سے وجودی تعلق کی نسبتیں غیر اہم ہو گئی ہوں، یا وہ کردار انسانی کا ایسا نمونہ سامنے رکھتا ہو جہاں اسوۂ حسنہ نگاہوں سے اوجھل ہو چکا ہو۔ کم از کم ایک بات تو واضح ہے کہ مغربی معاشرے اور تہذیب کو دیکھنے کی مذکورہ “قرآنی نظر” کا حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کی ذات مبارکہ سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا، اور نہ اس ہدایت سے جو حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام نے ہمیں عطا فرمائی۔ قرآن مجید سے اس طرح کے نتائج صرف اس وقت نکالے جا سکتے ہیں جب یہ مستشرقین اور متجددین کے محاصرے میں ہو اور اس سے ہر طرح کی علمی، اخلاقی اور روحانی “ٹرمز آف سرینڈر ” پر دستخط کرالیے گیے ہوں ۔ عصر حاضر کے “علمی” ذرائع اور “فکری” گھیراؤ اس قدر طاقتور ہیں کہ کوئی متن، بھلے وہ مذہبی ہی کیوں نہ ہو، بول نہیں سکتا، اسے بلوایا جاتا ہے۔ لیکن یہ ایک علمی اور تفصیل طلب موضوع ہے۔
اگر عصری دنیا کو دیکھنے کا محولہ بالا فہم ہمارے ہاں قرآن مجید سے حاصل ہوا ہے تو ہمیں قرآن مجید کی بجائے اپنے فہم اور عقل کو ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں وہ عین باطل کی مرادات پر ڈھلنے کے بعد قرآن مجید پر دھاوے کے مغربی عمل میں شریک تو نہیں؟ کیا ہمارا شعور و عمل حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام سے بے وفائی کا مرتکب تو نہیں ہو رہا؟ کیا ہم نے جدید بننے کی دوڑ میں اس تعلق پر سمجھوتے تو نہیں کر لیے؟ اقبالؒ نے خوب کہا تھا کہ:
احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے بنا سکتے ہیں قرآن کو پاژند
جدید مغربی تہذیب جیسا کہ اس کے علم، کلچر اور میڈیا میں ظاہر ہے، حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کی دشمن تہذیب ہے اور عین اسی تہذیب کے بارے میں یہ موقف رکھنا کہ اس کے اصول و مبادی قرآن مجید سے اخذ کیے گئے ہیں، انتہائی نادانی کا موقف ہے۔ اس جدید ”قرآنی“ موقف کو رد کرنے کے لیے یہی پہلو کافی ہے۔ لیکن جدید علمی اور فکری رویوں کے غلبے اور دھونس کی وجہ سے ان کا تجزیہ بھی آج ایک دینی ضرورت کی حیثیت رکھتا ہے، جس کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہیے۔
تحریر ڈاکٹر محمد دین جوہر