مغربی دنیا میں مذہب اور عقل کی کشمکش ماضی قریب کی انسانی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ اس کشمکش نے پوری دنیا پر دور رس اثرات ڈالے ہیں۔کشمکش کا پس منظر یہ ہے کہ مغربی دنیا جس مذہب سے واقف تھی وہ خدا کا نازل کردہ نہ تھا بلکہ اس کی منحرف شکل تھی۔ اولاً اللہ کے نازل کردہ دین کی بنیاد ’’توحید‘‘ پر تھی جبکہ تحریف شدہ مذہب(عیسائیت) میں ’’ تثلیث ‘‘کو اختیار کر لیا گیا تھا… اسی طرح اللہ کے دین کے مطابق خدا کا ہر بندہ اس کی عبادت براہِ راست کر سکتا تھالیکن منحرف مذہب میں خدا اور بندوں کے درمیان پادریوں کا ایک گروہ بھی موجود تھا جس کے ’’ واسطے ‘‘ کے بغیر خدا سے تعلق کی استواری ممکن نہ تھی۔ اللہ کے نازل کردہ دینِ حق کے مطابق مخلص طالب ہدایت کو اس کی اجازت تھی کہ وہ اللہ کی نازل کردہ کتاب کو پڑھے اور سمجھے لیکن تحریف پر قائم ’’دینی نظام ‘‘ میں کتابِ الٰہی کی ’’تعبیر و تشریح‘‘ کا کام صرف ’’دینی طبقہ‘‘ ہی کرسکتا تھا۔عام عیسائیوں کے لئے لازم تھا کہ وہ بہر حال ان کی ’’ تشریح ‘‘ کو قبول کریں۔
اصل دین حق میں نجات کا دارومدار ایمان و عمل پر تھا لیکن منحرف عیسائیت میں کفارے کا عقیدہ گڑھ لیا گیاتھا اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ مسیحؑ نے صلیب پر چڑھکر اپنے اوپر ایمان لانے والوں کے تمام گناہ بخشوالئے ہیں۔اسی طرح کتابِ الٰہی کی تعلیمات مبنی بر عدل اور انسانی فطرت کے مطابق تھیں لیکن عیسائیت کے علمبرداروں نے رہبانیت اختیار کرلی تھی جو سراسر انسانی فطرت کے خلاف تھی۔ اس غلط مذہب کے خلاف مغربی دنیا کے عام انسانی ضمیر نے بغاوت کردی۔
جدیدیت(Modernism )کیا ہے؟
جدیدیت دراصل ان نظریاتی، تہذیبی، سیاسی اور سماجی تحریکوں کے مجموعہ کا نام ہے جو ستر ہویں اور اٹھارویں صدی کے یوروپ میں روایت پسندی (Traditionalism) اور کلیسائی استبداد کے رد عمل میں پیدا ہوئیں۔
یہ وہ دور تھا، جب یوروپ میں کلیسا کا ظلم اپنے عروج کو پہنچ چکا تھا۔ تنگ نظر پادریوں نے قدیم یونانی فلسفہ اور عیسائی معتقدات کے امتزاج سے کچھ خود ساختہ نظریات قائم کررکھے تھے اور ان نظریات کے خلاف اٹھنے والی کسی بھی آواز کو مذہب کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ شاہی حکومتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے انہوں نے ایک ایسا استبدادی نظام قائم کر رکھا تھا جس میں کسی بھی آزاد علمی تحریک کے لئے کوئی گنجائش نہیں تھی۔
دوسری طرف اسپین کی اسلامی تہذیب کے ساتھ طویل تعامل کی وجہ سے عیسائی دنیا میں بھی حریت فکر کی ہوائیں آنے لگی تھیں۔ قرطبہ اور غرناطہ میں حاصل شدہ تجرباتی سائنس کے درس رنگ لارہے تھے۔ اور یوروپ کے سائنس داں آزاد تجربات کرنے لگے تھے۔ حریت انسانی اور مساوات کی اسلامی اسپرٹ کے اثرات نے جنوبی اٹلی اور صقلیہ میں انسانیات (Humanism) کی جدید تحریکیں پیدا کی تھیں۔ 1؎
ان سب عوامل نے مل کر کلیسا کے استبداد کے خلاف شدید رد عمل پیدا کیا اور جدیدیت کی تحریک شروع ہوئی۔ چونکہ اس تحریک سے قبل یوروپ میں شدید درجہ کی دقیانوسیت اور روایت پرستی کا دور دورہ تھا، اس لیے اس تحریک نے پورے عہدِ وسطیٰ کو تاریک دور قرار دیا۔ مذہبی عصبیتوں، روایت پسندی اور تنگ نظری کے خاتمہ کو اپنا اصل ہدف بنایا۔ شدید رد عمل نے اس تحریک کو دوسری انتہا پر پہنچادیا اور روایت پرستی اورعصبیت کے خلاف جدوجہد کرتے کرتے یہ تحریک مذہب اور مذہبی معتقدات ہی کے خلاف ہوگئی۔
جدیدیت کی اس تحریک کی نظریاتی بنیادیں فرانسس بیکن 2؎، ربن ڈیکارٹ3؎، تھا مس ہو بس 4؎، وغیرہ مفکرین کے افکار میں پائی جاتی ہیں، جن کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ یہ دنیا اور کائنات عقل، تجربہ اور مشاہدہ کے ذریعہ قابل دریافت (Deterministic) ہے اور اس کے تمام حقائق تک سائنسی طریقوں سے رسائی ممکن ہے۔ اس لیے حقائق کی دریافت کے لیے کسی اور سرچشمہ کی نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ اس کا وجود ہے۔ صرف وہی حقائق قابلِ اعتبار ہیں جو عقل، تجربہ اور مشاہدہ کی مذکورہ کسوٹیوں پر کھرے ثابت ہوں۔ ان فلسفیوں نے مابعد الطبیعیاتی حقائق (Metaphysics) اور مذہبی دعوئوں کو اس وجہ سے قابل رد قرار دیا کہ وہ کسوٹیوں پر نہیں اترتے۔ ڈیکارٹ نے “I think therefore I am” (میں سوچتا ہوں، اس لئے میں ہوں ) کا مشہور اعلان کیا جو جدید مغربی فلسفہ کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خودی کا شعوری عمل (Conscious Act of Ego) سچائی تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے۔
پاسکل، مانٹسکیو، ڈیڈاراٹ، وسلی، ہوم، والٹیر جیسے مفکرین نے بھی عقل کی لامحدود بالادستی اور واحد سرچشمۂ علم ہونے کے اس تصور کو عام کیا۔ یہ افکار عقلیت (Rationalism) کہلاتے ہیں اور جدیدیت کی بنیاد ہیں۔ چنانچہ جدیدیت کی تعریف ہی یوں کی گئی ہے :
“The enlightenment-humanist rejection of tradition and authority in favour of reason and natural science. This is founded upon the assumption of the autonomous individual as the sole source of meaning and truth–the Cartesian cogito.”5؎
(ـانسان پرست روشن خیالی کی جانب سے روایت اور اتھاریٹی کا عقل اور طبعی سائنس کے حق میں انکار، جس کی بنیاد یہ مفروضہ ہے کہ خودمختار فرد(کی عقل) ہی معنی اور سچائی کا واحد سر چشمہ ہے۔ )
اس تحریک نے مذہبی محاذ پر الحاد اور تشکیک کو جنم دیا۔ والٹیر 6؎ اور ڈیدراٹ جیسے الحاد کے علمبرداروں نے مذہب کا کلیتاً انکار کردیا۔ جبکہ ہیگل جیسے متشکک (Antagonist) مذہب کو تسلیم تو کرتے ہیں، لیکن اسے عقل کے تابع بناتے ہیں۔ اور مذہبی حقائق کو بھی دیگر عقلی مفروضات کی طرح قابل تغیر قرار دیتے ہیں۔
سیاسی محاذ پر اس تحریک نے انسانی حریت کا تصور پیش کیا۔ آزادیٔ فکر، آزادیٔ اظہار، اور حقوق انسانی کے تصورات عام کیے۔ تھومس ہابس نے حتمی اقتدار اعلیٰ (Absolute Sovereign) کے تصور کو سیاسی فلسفہ کی بنیاد قرار دیا۔ جان لاک نے اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے عوام کو اقتدار اعلیٰ کا سرچشمہ قرار دیا۔ والٹیر نے انسانی حریت کا تصور پیش کیا۔ مانٹسکیسو 7؎ اور روسو 8؎ نے ایسی ریاست کے تصورات پیش کیے جس میں انسانوں کی آزادی اور ان کے حقوق کا احترام کیاجاتا ہے ا ور حکم رانوں کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔
جدیدیت کی تحریک نے قوم پرستی اور قومی ریاستوں کا تصور بھی عام کیا۔ انہی افکار کے بطن سے جدید دور میں جمہوریت نے جنم لیا۔ اور یوروپ اور شمالی امریکہ کے اکثر ملکوں میں خود مختار جمہوری قومی ریاستیں قائم ہوئیں۔
معاشی محاذ پر اس تحریک نے اول تو سرمایہ دارانہ معیشت اور نئے صنعتی معاشرہ کو جنم دیا جس کی بنیاد آدم اسمتھ (Adam Smith) کی معاشی فکر تھی جو صنعت کاری، آزادانہ معیشت اور کھلے بازار کی پالیسیوں سے عبارت تھی 9؎۔ نئے صنعتی معاشرہ میں جب مزدوروں کا استحصال شروع ہوا تو جدیدیت ہی کے بطن سے مارکسی فلسفہ پیدا ہوا، جو ایک ایسے غیر طبقاتی سماج کا تصور پیش کرتا تھا، جس میں محنت کش کو بالادستی حاصل ہو۔ 10؎
اخلاقی محاذ پر اس تحریک نے افادیت (Utilitarianism) کا تصور عامکیا، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اخلاقی قدروں کا تعلق افادیت سے ہے۔ جو رویے سماج کے لیے فائدہ مند ہیں، وہ جائز رویے اور جو سماج کے لیے نقصان دہ ہیں، وہ ناجائز روییّ ہیں۔ اور یہ کہ افادیت اخلاق کی واحد کسوٹی ہے۔ افادیت کے تصورنے قدیم جنسی اخلاقیات اور خاندان کے روایتی ادارہ کی افادیت کو چیلنج کیا، جس کے نتیجہ میں جدید اباحیت (Permissiveness) کا آغاز ہوا۔
جدیدیت ہی کے بطن سے نئے صنعتی معاشرہ میں نسائیت (Feminism) کی تحریک پیدا ہوئی۔ جو مرد وزن کی مساوات کی علم بردار تھی اور عورتوں کو ہر حیثیت سے مردوں کے مساوی مقام دلانا اس کا نصب العین تھا۔
انقلابِ فرانس، برطانیہ میں جمہوریت کی تحریک، امریکہ کی آزادی کی تحریک اور اکثر یوروپی ممالک کی تحریکیں جدید یت کے ان افکار ہی سے متاثر تھیں۔ بیسویں صدی کے آتے آتے یوروپ اور شمالی امریکہ کے اکثر ممالک ان افکار کے پرجوش مبلغ اور داعی بن گئے۔ جدیدیت کو روشن خیالی (Enlightenment) اور نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کے نام بھی دئیے گئے اور بڑی طاقتوں کی پشت پناہی سے روشن خیالی کا پروجکٹ ایک عالمی پروجکٹ بن گیا۔
چنانچہ بیسویں صدی کے نصف آخر میں مغربی ممالک کا واحد نصب العین تیسری دنیا میں روایت پسندی سے مقابلہ کرنا اور جدیدیت کو فروغ دیناقرار پایا۔ آزادی، جمہوریت، مساواتِ مردوزن، سائنسی طرز فکر، سیکولرزم وغیرہ جیسی قدروں کو دنیا بھر میں عام کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ معاشی فکر کے معاملہ میں مغرب سرمایہ دار انہ اور کمیونسٹ بلاکس میں ضرور منقسم رہا، لیکن سیاسی، سماجی اور نظریاتی سطح پر جدیدیت کے افکار بالاتفاق جدید مغرب کے رہنما افکار بنے رہے، جن کی دنیا بھر میں اشاعت اور نفاذ کے لیے ترسیل واشاعت کے علاوہ ترغیب وتنفیذ کے تمام جائز وناجائز طریقے اختیار کیے گئے۔ تیسری دنیا میں ایسے پٹھو حکمرانوں کوبٹھایا گیا جو عوام کی مرضی کے خلاف زبردستی ترقی کے جدید ماڈل ان پر تھوپنے پر مامور رہے۔ اسلامی دنیا میں خصوصاً اسلامی تہذیبی روایات کی بیخ کنی کو جدیدیت کا اہم ہدف سمجھا گیا۔ ترکی، تیونس اورسابق سوویت یونین میں شامل وسط ایشیا کے علاقوں میں تو سیکولرزم اور مذہبی روایات سے مقابلہ کے لیے ایک سخت ظالمانہ اور استبداد ی نظام قائم کیا گیا۔
*پوسٹ ماڈرن ازم(ما بعد جدیدیت) کیا ہے؟
جدیدیت کے علم برداروں نے اپنے مخصوص افکار پر جس شد و مد کے ساتھ اصرا ر کیا اور ان کی تنفیذ کے لئے جس طرح طاقت اور حکومت کا بے دریغ استعمال ہوا اس نے فکری استبداد کی وہی صورت حال پیدا کردی، جو عہد وسطی کے یورپ میں مذہبی روایت پسندی نے پیدا کی تھی اور جس کے رد عمل میں جدیدیت کی تحریک برپا ہوئی تھی۔ اس استبداد کا لازمی نتیجہ شدید ردّ عمل کی شکل میں رونما ہوا۔ اور یہی رد عمل ما بعد جدیدیت یا پس جدیدیت (Post Modernism) کہلاتا ہے۔
معقول رویہ تو یہ تھا کہ انسان خدا کی طرف پلٹ آتا اور خدائی ہدایت کے آگے سرِ تسلیم خم کرتا لیکن مغربی دنیا ایک طرف دینِ حق سے بڑی حد تک ناواقف ہے اور دوسری طرف وہ اس اخلاقی بے راہ روی کو چھوڑنا نہیں چاہتی جو مذہب کے انکار سے حاصل ہوتی ہے، اس لئے خدا کی طرف پلٹنے کے بجائے جدیدیت کا ردِ عمل مابعد جدیدیت کی شکل میں سامنے آیا۔ دراصل ابھی تک مغربی انسان کا شعور اور اخلاقی حس اتنی پختہ نہیں ہوئی ہے کہ وہ متوازن ردِ عمل پر قادر ہو سکے۔
ما بعد جدیدیت کسی متعین اور مربوط فلسفہ یا طرزِ فکر کا نام نہیں ہے بلکہ یہ’’ تمام نظریات کے انکار ‘‘ کا نام ہے۔ مغرب کا انسان حق کی تلاش میں ناکامی کے بعد مایوس ہو چکا ہے،چنانچہ اس نے اعلان کیا ہے کہ ’حق ‘ نام کی کوئی شئے موجود نہیں ہے۔ دنیا میں کسی آفاتی سچائی کا وجود نہیں ہے ، ہم حق ، عدل، سچائی، حقیقت کو اپنے علم سے نہیں جان سکتے ، یہ سب اضافی ہیں۔
پوسٹ مادرنسٹ کہتے ہیں کہ ماڈرن ازم نے عقل کی بالاتری، آزادی، جمہوریت، ترقی، آزاد بازار اور مارکسزم جیسے خیالات عالم گیر سچائیوں کی حیثیت سے پیش کئے۔ یہ ایک کھلا فریب تھا۔ زمانہ کے امتداد نے ان ساری خود ساختہ حقیقتوں کا جھوٹ واضح کر دیا ہے، اس لیے اب اس عہد میں اس طرح کے عظیم بیانات (Meganarratives) نہیں چلیں گے۔ یہ اس عہد کا خاصہ ہے۔ اس میں جدیدیت کے تمام دعوئوں کی عمارت ڈھادی گئی ہے۔ 13؎
1۔سچائی کی اضافت کا نظریہ
پوسٹ ماڈرن ازم کا خیال ہے کہ دنیا میں کسی آفاقی سچائی کا وجود نہیں ہے۔ بلکہ آفاقی سچائی کا تصور ان کے نزدیک محض ایک خیالی تصور (Utopia) ہے۔ ماڈرن ازم کے علم برداروں کا خیال ہے کہ جمہوریت، آزادی ومساوات، سرمایہ دارانہ نظام معیشت (یا کمیونسٹوں کے نزدیک کمیونزم) اور ٹکنالوجیکل ترقی وغیرہ پر مبنی جو ماڈل یورپ میں اختیار کیا گیا، اس کی حیثیت ایک عالمی سچائی کی ہے اور ساری دنیا کو اپنی روایات چھوڑ کر ان عالمی سچائیوں کو قبول کرنا چاہئے۔ چنانچہ بیسویں صدی میں ساری دنیا کو ماڈرنائز کرنے یا جدید بنانے کا پروجکٹ شروع ہوا۔ روایتی معاشروں سے کہا گیا کہ وہ صنعتیں قائم کریں، شہر بسائیں، آزادی کی قدروں کو نافذ کریں، جمہوری طرز حکومت اپنائیں، جدیدٹکنالوجی کو اختیار کریں اور اس طرح جدید بنیں کہ فلاح وترقی کا یہی واحد راستہ ہے۔
پوسٹ ماڈرنسٹ دوسری انتہا پر جاکر عالمی یا آفاقی سچائی کے وجود ہی سے انکار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک چاہے سچائی ہو یا کوئی اخلاقی قدر، حسن وخوبصورتی کا احساس ہو یا کوئی ذوق، یہ سب اضافی (Relative) ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا تعلق انفرادی پسند و ناپسند اور حالات سے ہے۔ یعنی ایک ہی بات کسی مخصوص مقام پر یا مخصوص صورتوں میں سچ اور دوسری صورتوں میں جھوٹ ہو سکتی ہے۔ دنیا میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جو ہمیشہ اور ہر مقام پر سچ ہو۔ اسی طرح وہ مذہبی عقائد اور تصورات کے بھی منکر ہیں کیونکہ مذاہب کا دعویٰ بھی یہی ہے کہ ان کے معتقدات کی حیثیت اٹل حقائق کی ہے۔ 14؎
اس نظریہ کی تائید میں ان کی دلیل یہ ہے کہ صدیوں کی علمی جستجو کے باوجود انسانی ذہن کسی ایک سچائی پر متفق نہیں ہوسکا۔ آج بھی صورت حال یہ ہے کہ ہمارے اطراف کئی ایک اور بسااوقات باہم متضاد سچائیاں (یعنی سچ کے دعوے) پائی جاتی ہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہم سچائی سے متعلق اپنے نقطئہ نظر ہی کو بدلیں اور یہ مانیں کہ سچائی نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ سچائی محض ہمارے مشاہدہ کا نتیجہ ہوتی ہے اور مشاہدہ ہمارے ذہن کی تخلیق۔ سچائی کی تلاش نہیں، بلکہ سچائی کی تشکیل ہوتی ہے۔ حالات کے مطابق ہماراذہن سچائی کی تخلیق کرتا ہے۔ اور چونکہ بیک وقت ایسی کئی تخلیقات ممکن ہیں اس لیے یہ ماننا چاہیے کہ کوئی بھی تخلیق حتمی نہیں ہے۔
2۔دنیا کے غیر حقیقی ہونے کا نظریہ
پوسٹ ماڈرن ازم کے نزدیک جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں، اس کی حیثیت سچائی کی نہیں ہے۔ اس کے علم برداروں کا خیال ہے کہ ہم وہی دیکھتے ہیں جو دیکھنا چاہتے ہیں اور ہم وہی دیکھتے ہیں جو مخصوص وقت اور مخصوص مقام پر مخصو ص احوال خود کو دکھانا چاہتے ہیں۔ وہ دنیا کو حقیقی اور ٹھوس اشیا اور مناظر کی بجائے ایسے عکسوں (Images) اور مظاہر (Representations) سے عبارت سمجھتے ہیں جو غیر حقیقی(Unreal) اور Untangible ہیں۔ یعنی پوسٹ ماڈرن ازم کے نزدیک یہ دنیا محض ایک ویڈیو گیم ہے جس میں ہم اپنی پسند کی سچائیاں دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں۔ ضیاء الدین سردار نے اس کی تشریح یوں کی ہے:
(اس کا مطلب ہے کہ یہ دنیا ایک ایسا تھیٹر ہے جس میں ہر چیز مصنوعی طور پر تشکیل کردہ ہے۔ سیاست کا عوامی استعمال کے لیے اسٹیج پر اہتمام کیاگیا ہے۔ ٹیلی ویژن ڈاکیومینٹریز تفریحات کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔ صحافت حقیقت اور افسانے کے بیچ فرق کو دھند لا دیتی ہے۔ زندہ افراد سوپ اوپیرا کے کردار بن جاتے ہیں اور افسانوی کردار زندہ انسانوں کی جگہ لے لیتے ہیں۔ ہر چیز اچانک ہوجاتی ہے اور ہر ایک عالمی تھیٹر میں واقع ہونے والی ہر چیز کا رواں نظارہ کرتا ہے۔ ) 17
3۔رد تشکیل کا نظریہ
جیسا کہ عرض کیا گیا، پوسٹ ماڈرن ازم کے نزدیک جمہوریت، ترقی، آزادی، مذہب، خدا، کمیونزم اور اس طرح کے دعوئوں کی وہی حیثیت ہے جو دیو مالائی داستانوں اور عقیدوں کی ہے۔ اس لیے انھوں نے ان تمام دعوئوں کو عظیم بیانیہ، عظیم داستانیں یا Meganarratves کا نام دیا ہے۔ ماڈرنزم کے مفکرین کا خیال ہے کہ انھوں نےبہت سی’سچائیاں ‘تشکیل دی ہیں اور چاہے مذاہب ہوں یا جدید نظریات، ان کی بنیاد کچھ خود ساختہ عالمی سچائیوں پر ہیں اس لیے ماڈرن ازم کے دور کی تہذیب، علم وغیرہ انہی مفروضہ سچائیوں پر استوار ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان تشکیل شدہ سچائیوں کی رد تشکیل(Deconstruction) کی جائے، یعنی انھیں ڈھایا جائے۔ چنانچہ ادب، فنون لطیفہ، آرٹ، سماجی اصول وضابطے ہر جگہ ان کے نزدیک کچھ خود ساختہ سچائیاں اور عظیم بیانیے ہیں جن کی ردِّ تشکیل ضروری ہے تاکہ پوسٹ ماڈرنسٹ ادب فنون لطیفہ وغیرہ میں ایسے ’غلط مفروضوں ‘ کا عمل دخل نہ ہو۔ پوسٹ ماڈرن ازم کا ایک تجزیہ نگار لکھتا ہے:
(ما بعد جدید مفکرین کا خیال ہے کہ ہماری طرح کے ایک آفاقی اور غیر مرکوز سماج میں خود بخودما بعد جدیدکی طرح کے رد عمل جنم لیتے ہیں۔ یعنی عظیم بیانات کے فکری استبداد کا استرداد، ساخت اور طرز کی وحدت کے روایتی فریموں کا توڑ اور منطق کی مرکزیت اور اس طرح کے دیگر مصنوعی طور پر مسلّط کردہ آرڈرز کو اٹھا کر پھینک دینے کا عمل۔ ) 18
شاید بحث پیچیدہ اور فلسفیانہ ہوگئی۔ لیکن چونکہ اس فکر کی بنیادیں فلسفیانہ ہیں اس لیے اس مختصر فلسفیانہ بحث کے بغیر اس نظریہ پر صحیح طریقہ سے روشنی نہیں ڈالی جاسکتی تھی۔
ما بعد جدیدیت کے عملی اثرات
ما بعد جدیدیت ایک دقیق فلسفیانہ بحث ہے۔ لیکن اس کے پیش رو، جدیدیت کے افکار بھی ایسے ہی دقیق فلسفے تھے۔ عام لوگ ان گہرے فلسفوں کا مطالعہ نہیں کرتے لیکن عملی زندگی میں ان کے اثرات قبول کرتے ہیں۔ جدیدیت کے عروج کے زمانے میں بھی سب لوگ والٹیر اور روسو کی دقیق کتابیں نہیں پڑھتے تھے، لیکن آزادی، مساوات، جمہوریت، اپنے حقوق کا احساس، مساوات مرد و زن، روایات کے خلاف بغاوت اور عقل پر اصرار جیسی چیزیں عام آدمی کے رویوں کا بھی حصہ تھی۔ ٹھیک اسی طرح ہمارے عہد میں بھی عام لوگ چاہے ما بعد جدیدیت کی اصطلاحات اور بحثوں سے واقف نہ ہو، لیکن محسوس اور غیر محسوس طریقوں سے اپنی عملی زندگی اور رویوں میں اس کے اثرات قبول کر رہے ہیں۔ مسلمان اور بعض اوقات اسلام کے فروغ کے لیے کام کرنے والے بھی اس کے اثرات سے خود کو نہیں بچا پا رہے ہیں۔
ما بعد جدیدیت کا سب سے نمایاں اثر یہ ہے کہ افکار، نظریات اور آئیڈیالوجی سے لوگوں کی دل چسپی نہایت کم ہو گئی ہے۔ عہد جدید کا انسان مخصوص افکار و نظریات سے وفاداری رکھتا تھا اور ان کی تبلیغ و اشاعت کے لیے پُر جوش و سرگرم رہتا تھا۔ ما بعد جدید دور کے انسان کے نہ کوئی آدرش ہیں نہ اصول۔ اس کے سامنے کسی بھی موضوع پر نظری بحث شروع کیجیے دامن جھاڑ کر اُٹھ جائے گا۔ اس لیے بعض مفکرین اس عہد کو ‘عدم نظریہ کا عہد’ Age of No Ideology قرار دیا ہے ۔ اصول اور افکار کے مبسوط نظام (doctrine) کے بالمقابل ما بعد جدید انسان کے پاس صرف جذبات و احساسات ہیں یا عملی مسائل (pragmatic issues)۔ ما بعد جدیدیت کا کہنا ہے کہ زندگی کی تمام بحثیں ‘مسئلہ’ اور ‘حل’ (problem and solution) تک محدود کی جا سکتی ہیں۔ اس لیے اصولوں اور نظریوں کے بجائے ایک ایک مسئلے کو الگ الگ لیا جانا چاہیے اور اس کے حل پر بات ہونی چاہیے۔ چنانچہ ما بعد جدیدی انسان کی بحث و گفت گو کا سارا زور یا تو روز مرہ کے عملی مسائل پر ہے یا روابط و تعلقات کی جذباتیت پر۔ مختلف فیہ اور متنازعہ فیہ مسائل میں وہ باہم متضاد خیالات میں سے ہر خیال کو بیک وقت درست سمجھتا ہے، ان کی تنقیح اور درست فیصلے سے اسے کوئی دل چسپی نہیں۔
مذہبی معاملات میں وحدت ادیان کا نظریہ بہت قدیم ہے۔ ما بعد جدیدیت نے اس طرزِ فکر کو تقویت دی ہے۔ اب دنیا بھر میں لوگ بیک وقت سارے مذاہب کو سچ ماننے کے لیے تیار ہیں۔ اور بین المذاہب مکالمات و مباحث سے لوگوں کی دل چسپی رو بہ زوال ہے۔ جبکہ دوسری طرف الحاد و مذہب بیزاری کی شدت بھی ختم ہو رہی ہے۔ چونکہ الحاد بھی ایک ‘دین’ یا ایک ‘دعویٰ’ ہے، اس لیے ما بعد جدید انسان اسے بھی ایک مسلک کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے اس عہد کو لادینیت کے خاتمے کا عہد (Age of Desecularisation) بھی کہا جاتا ہے۔ ایک شخص خدا پر یقین نہ رکھتے ہوئے بھی روحانی سکون کی تلاش میں کسی مذہبی پیشوا سے رجوع کر سکتا ہے۔ اور آج اسے کسی ہندو بابا کے ہاں سکون ملتا ہے تو کل کوئی عیسائی راہب اسے مطمئن کر سکتا ہے۔ یہ ما بعد جدیدیت ہے۔
قدروں کی اضافیت کے نظریے سے سماجی اداروں اور انضباطی عوامل (Regulating Factors) کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ خاندانی نظام اور شادی بیاہ کے بندھنوں کا انکار ہے نہ اقرار۔ عفت، ازدواجی وفاداری اور شادی کے بندھن ما بعد جدیدیوں کے ہاں ‘عظیم بیانات’ ہیں۔ اسی طرح جنسوں کی بنیاد پر علیحدہ علیحدہ رول کو بھی وہ آفاقی نہیں مانتے۔ نہ صرف مرد عورت کے درمیان تقسیم کار کے روایتی فارمولوں کے وہ منکر ہیں، بلکہ جنسی زندگی میں بھی مرد اور عورت کے جوڑے کو ضروری نہیں سمجھتے۔ شادی مرد اور عورت کے درمیان بھی ہو سکتی ہے، اور مرد مرد اور عورت عورت کے درمیان بھی، کوئی چاہے تو اپنے آپ سے بھی کر سکتا ہے۔ مرد اور عورت شادی کے بغیر ایک ساتھ رہنا پسند کریں تو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ایک ساتھ بھی نہیں رہنا ہے تو صرف تکمیل خواہش کا معاہدہ ہو سکتا ہے۔ یہ سب ذاتی پسند اور ذوق کی بات ہے۔ فیشن، لباس، طرز زندگی ہر معاملے میں کوئی بھی ضابطہ بندی گوارا نہیں ہے ۔ سوسائٹی کو کسی بھی رویے کو ناپسند کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ حتٰی کہ اگر کوئی مادر زاد برہنہ رہنا چاہے تو سوسائٹی اس پر بھی معترض نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ بعض ما بعد جدیدی، لباس کو آفاقی ضرورت قرار دینے پر معترض ہیں۔ ما بعد جدید پالیسی کا حاصل یہ ہے کہ ہر فرد کو اس کی مرضی اور پسند کی زندگی گزارنے کی آزادی دی جانی چاہیے اور تعلیم، سائنس، ٹکنالوجی، ترقی اور نہ تعیشات، کوئی بھی چیز اس پر مسلط نہیں کی جانی چاہیے ۔
٭پوسٹ ماڈرن ازم – علمی محاکمہ
پوسٹ ماڈرنسٹس کا یہ دعویٰ کہ دنیا میں کسی سچائی کا سرے سے وجود نہیں ہے ایک نہایت غیر منطقی دعویٰ ہے۔ اس دعویٰ میں بہت بڑا ریاضیاتی نقص ہے۔ یہ کہنا کہ ’ یہ سچ ہے کہ دنیا میں کوئی سچ نہیں ‘ ایک بے معنی بات ہے۔ ’’دنیا میں کوئی سچ نہیں ہے۔ ‘‘یہ بذات خود ایک دعویٰ اور ایک بیان ہے۔ اگر اس بیان کو درست مان لیا جائے تو اس کی زد سب سے پہلے خود اسی بیان پر پڑے گی۔ اور یہ بیان جھوٹا قرار دیا جائے گا۔ یہ ماننے کیلئے کہ ’’دنیا میں کوئی سچ نہیں ہے‘‘۔ کم سے کم اس ایک بات کو سچ ماننا پڑے گا۔ اس جملے کا ریاضیاتی (Mathematical) اور منطقی(Logical) تجزیہ اس مضمون کے دائرے سے باہر ہے، لیکن کم سے کم مندرجہ ذیل آسان تجزیہ ہر آدمی سمجھ سکتا ہے۔
٭دنیا میں کوئی سچ نہیں ہے۔
٭اس لیے یہ بات بھی کہ ’’دنیا میں کوئی بات سچ نہیں ہے‘‘سچ نہیں ہے۔
٭اس لیے ’’پوسٹ ماڈرن ازم‘‘سچ نہیں ہے۔
٭اس لیے دنیا میں سچ باتوں کا وجود ہے۔
پوسٹ ماڈرنسٹس ہر عالم گیر سچائی کے دعوے کو عظیم بیان کہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس پیمانے پر خود پوسٹ ماڈرن ازم کو ’’عظیم بیان‘‘ کیوں نہ قرار دیا جائے؟’خود ساختہ سچائیوں ‘ کی رد تشکیل کی یہ فکر ایسا جال بچھاتی ہے کہ اس میں خود ہی پھنس جاتی ہے اور خود اپنے اصولوں کے ذریعہ اپنے ہی اصولوں کا رد کرتی ہے۔ غالباً یہ انسان کی فکری تاریخ کا نہایت منفرد واقعہ ہے کہ کوئی فکر اپنے تشکیل کردہ پیمانوں سے اپنی ہی بنیادوں کو ڈھائے۔
منطقی تضاد کے علاوہ اس فکر کے عملی اثرات بھی نہایت بھیانک ہیں۔ اگر سچائی اضافی ہے اور دنیا میں کوئی قدر آفاقی نہیں ہے اورسچائیاں مقامی تہذیبوں کی پیداوار ہیں تو سوال یہ ہے کہ کس بنیاد پر مثلاً نازی ازم کو غلط قرار دیا جائے گا؟آخر نازی ازم بھی ایک قوم کے اتفاقِ رائے ہی کا نتیجہ تھا۔ یا مثلاً کس بنیاد پر ایک شخص کو دوسروں کی جیب کاٹنے سے روکا جائے گا؟ اس لیے کہ ہر جیب کترا جس مخصوص تہذیبی پس منظر میں پروان چڑھتا ہے وہ اسے جیب کترنے کے عمل کو ایک ناگزیر حقیقت کے روپ میں ہی دکھاتا ہے، یا اگر کوئی بزرگ وار افیم کھا کر چلتی ٹرین کے دروازہ میں سے یہ سمجھ کر نہایت صبر وسکون کے ساتھ باہر نکلنے کی کوشش کریں کہ وہ اپنے گھر کے چمن میں تشریف لے جارہے ہیں تو آخر کس دلیل سے انہیں اس حماقت سے روکا جائے گا؟ وہ نہایت ایمانداری کے ساتھ وہی سچائی دیکھ رہے ہیں جوافیم کے اثر سے پیدا شدہ ان کے ’مخصوص احوال‘ انہیں دکھارہے ہیں۔ اس لیے سچائیوں کے تعدّد(‘Pluralism of Truth’) کے نظریہ کا تقاضہ ہے کہ ان کی اختیار کردہ سچائی کو بھی تسلیم کیا جائے۔ سچائی کی اضافت کے نظریہ کو مان لینے کے بعد اس دنیا کا نظام چل ہی نہیں سکتا۔ کچھ حقائق پر جب تک عالمی اتفاق رائے نہ ہو اور انہیں قطعی حقائق کے طور پر قبول نہ کیا جائے، اُس وقت تک تمدن کی گاڑی ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکتی۔ جہاں کچھ باتوں پر اختلاف رائے تمدن کو رنگا رنگی اور تنوع بخشتا ہے وہیں کچھ باتوں پر اتفاق تمدن کو استحکام عطا کرتا ہے۔ اس لئے اختلاف اور اتفاق دونوں کی بیک وقت ضرورت ہے۔
٭پوسٹ ماڈرن ازم اور اسلام
سچائی کی اضافت کا نظریہ اسلامی نقطہ نظر سے ایک باطل نظریہ ہے۔ اسلام اس بات کا قائل ہے کہ عقل انسانی کے ذریعہ مستنبط حقائق یقیناً اضافی ہیں اورشک وشبہ سے بالا تر نہیں ہیں۔ اس حد تک مابعد جدیدیت اسلامی فکر سے ہم آہنگ ہے۔ لیکن اسلام کے نزدیک جن حقائق کا سرچشمہ وحی الٰہی ہے وہ حتمی اور قطعی ہیں۔ ان کی جزوی تشریحات وتعبیرات(جس میں فہم انسانی اور عقل انسانی کا دخل ہے) تو اضافی ہوسکتی ہیں، لیکن ان کے واضح معنٰی ہر اعتبار سے حتمی اور قطعی ہیں۔
اس ساری بحث میں اسلام کا نقطۂ نظر نہایت معتدل، متوازن اور عقل کو اپیل کرنے والا ہے۔ اس نقطئہ نظر میں پوسٹ ماڈرنسٹ مفکرین کے اٹھائے ہوئے سوالا ت کے جوابات بھی موجود ہیں اور اُن تضادات کی بھی گنجائش نہیں ہے جو پوسٹ ماڈرن ازم میں پائے جاتے ہیں۔
یہ بات کہ انسانی عقل حتمی نہیں ہے اور بسا اوقات دھوکہ کھاتی ہے، اسلام کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے کوئی نئی فکر نہیں ہے۔ ماڈرن ازم نے جس طرح عقل انسانی کو حتمی اور قطعی مقام دیا اور عقلیات کو حتمی سچائی کے طورپر پیش کیا، اس پر پوسٹ ماڈرنسٹ مفکرین سے بہت پہلے اسلامی مفکرین نے جرح کی۔ بلکہ یہ مبحث صدیوں قبل امام غزالی ؒ اور امام ابن تیمیہؒ کے افکار میں بھی ملتا ہے۔
امام غزالی ؒ نے تہافۃ الفلاسفہ، مقاصد الفلاسفہ وغیرہ کتابوں میں ارسطو کی منطق پر خود اسی منطق کے اصولوں کا استعمال کرتے ہوئے جو تنقید کی ہے اس کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ وہ عقل کے ذریعہ معلوم حقائق کو محض واہمہ قرار دیتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کائنات کی وسعتیں اور وقت لامحدود ہے اور انسانی عقل لامحدود کا ادراک نہیں کرسکتی۔ اس لیے اس کے مشاہدات اضافی (Relative) ہیں اور ان مشاہدات کی بنیاد پر اخذ کردہ نتائج بھی اضافی ہیں۔ 19؎ اپنی کتاب معیار العلم، میں اس بحث کوآگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے مختلف مثالوں سے ثابت کیا ہے کہ انسانی حسیات کے ذریعہ حاصل شدہ معلومات اکثر اوقات دھوکہ کا باعث ہوتی ہیں۔ ستارے آنکھ سے چھوٹے ذرات معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقتاً ان میں سے کئی زمین اور سورج سے بھی بڑے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نظر آنے والے حقائق بھی ضروری نہیں کہ حقائق ہوں۔ وہ محض حقیقت کا سایہ یا واہمہ ہوسکتے ہیں۔ حسیات کا دھوکہ عقل سے معلوم ہوتا ہے اور عقل کا دھوکہ کسی ایسے ذریعہ سے معلوم ہوگا جو عقل سے بالا تر ہے (یعنی وحی الٰہی)۔ 20؎
علّت (Causality) کے سوال پر امام غزالیؒ اور ابن رشدؒ کی بحث بھی پڑھنے کے لائق ہے۔ 21 ؎ ان کا نقطۂ نظر ہے کہ خالص عقلی طریقوں سے دنیا یا انسان کے بارے میں کسی آفاقی بیان تک نہیں پہنچاجاسکتا، اس لئے کہ جو بیان بھی تشکیل دیا جائے گا وہ اپنے عہد کے مخصوص مادی پس منظر سے ماورا نہیں ہوگا۔ جو لوگ اس موضوع پر تفصیل سے پڑھنا چاہیں وہ خاص طور پر امام غزالیؒ کی تہافۃ الفلاسفہ اور معیارالعلم کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
جدید اسلامی مفکرین نے بھی ’’ماڈرن ازم ‘‘ پر کلام کرتے ہوئے عقل کی محدودیت اور عقل کے ذریعہ معلوم حقائق کی اضافت ثابت کی ہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ رقم طراز ہیں :
’’انسانی فکر کی پہلی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں علم کی غلطی اور محدودیت کا اثر لازماً پایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس خدائی فکر میں غیر محدود علم اور صحیح علم کی شان بالکل نمایاں ہوتی ہے۔ جو چیز خدا کی طرف سے ہوگی اس میں آپ ایسی کوئی چیز نہیں پاسکتے جو کبھی کسی زمانے میں کسی ثابت شدہ علمی حقیقت کے خلاف ہو یا جس کے متعلق یہ ثابت کیا جاسکے کہ اس کے مصنف کی نظر سے حقیقت کا فلاں پہلو اوجھل رہ گیا۔ ۔ ۔ ۔ ان کے (علمی قیاسات) غلط ہونے کا اتنا ہی امکان ہوتا ہے جتنا ان کے صحیح ہونے کا، اور تاریخ علم میں ایسے بہت کم قیاسات و نظریات کی نشان دہی کی جاسکتی ہے جو بالآخرغلط ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ ‘‘ 22؎
علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں :۔
عقل بے مایہ امامت کی سزا وا ر نہیں
راہبر ہو ظن وتخمیں تو زبوں کارِ حیات
فکر بے نور ترا، جذب عمل بے بنیاد
سخت مشکل ہے کہ روشن ہو شب تارحیات 23؎
یا
وہ علم کم بصری جس میں ہم کنار نہیں
تجلیات کلیم و مشاہدات حکیم 24؎
اسلام کا نقطئہ نظر یہ ہے کہ علم حقیقی (یا حتمی اور قطعی سچائی) کا سرچشمہ باری تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس نے اپنے علم سے انسان کو اتناہی معمولی ساحصہ بخشا ہے جتنا وہ چاہتا ہے۔
إِنَّ اللّہَ لاَ یَخْفَیَ عَلَیْْہِ شَیْْء ٌ فِیْ الأَرْضِ وَلاَ فِیْ السَّمَاء۔ (آل عمران :5)
’’بیشک اللہ وہ ہے جس سے نہ زمین کی کوئی چیز مخفی ہے نہ آسمان کی۔ ‘‘
یَعْلَمُ مَا بَیْْنَ أَیْْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلاَ یُحِیْطُونَ بِشَیْْء ٍ مِّنْ عِلْمِہِ إِلاَّ بِمَا شَاء۔ (البقرۃ:255)
’’جوکچھ ان کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جوکچھ ان سے اوجھل ہے وہ بھی اس کے علم میں ہے اور لوگ اس کے علم میں کسی چیز پر بھی حاوی نہیں ہو سکتے بجز ان چیزوں کے جن کا علم وہ خود انکو دینا چاہے۔ ‘‘
اس طرح جو حقائق علم حقیقی کے سرچشمہ یعنی باری تعالیٰ کی جانب سے وحی الٰہی یا اس کے پیغمبر کی منصوص سنت کی صور ت میں ظہور پذیر ہوئے ہوں وہ حتمی حقائق (Absolute Truth) ہیں اوران کے ماسوا دنیا میں حقیقت کے جتنے دعوے پائے جاتے ہیں، ان کی دوقسمیں ہیں۔ اگر وہ وحی الٰہی سے متصادم ہیں تو وہ باطل مطلق (Absolute False) ہیں اور اگر متصادم نہیں ہیں تو ان کی حیثیت اضافی حقیقت یا Relative Truth کی ہے جو صحیح بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی۔ عام انسان تو کجا عام معاملات میں عقلی غلطی کا امکان نبی ﷺ کے سلسلہ میں بھی موجود ہے۔ مسئلہ کی نزاکت کے پیش نظر اس مسئلہ کو اپنے الفاظ میں بیان کرنے کے بجائے ہم علامہ سید سلیمان ندویؒ کے الفاظ میں نقل کرتے ہیں، وہ لکھتے ہیں :
’’اس میں بھی شک نہیں کہ وحی اور ملکۂ نبوت کے علاوہ نبی میں نبوت ورسالت سے باہر کی چیزوں میں وہی عقل ہوتی ہے جو عام انسان کی ہوتی ہے اور جس میں اجتہادی غلطی کا ہر وقت امکان ہے۔ شاہ ولی اللہ ؒ صاحب کے نزدیک اجتہاد کی یہی وہ دوسری قسم ہے جس میں نبی سے بھی غلطی ہوسکتی ہے کہ اس کا مدار وحی والہام اور ملکۂ نبوت پر نہیں بلکہ انسانی علم وتجربہ پر ہوتا ہے۔ ‘‘25 ؎
اس بحث سے یہ بات واضح ہے کہ وحی الٰہی سے منصوص حقائق کے ماسوا تما مامور، خواہ وہ سائنسی اصول وضوابط ہوں یا ریاضی ومنطق، یا معاشیات وسیاسیات یاسماجیات وعمرانیات سے متعلق امور، تمام دعوے اضافی ہیں۔
عملی زندگی میں قانون سازی اور ضابطہ سازی کے معاملہ میں بھی اسلام نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔ ماڈرن ازم کی طرح نہ وہ ہر ضابطہ اور اصول کو آفاقی حیثیت دیتا ہے اور نہ پوسٹ ماڈرن ازم کی طرح ہر آفاقی ضابطہ واصول سے انکار کرتا ہے۔ وحی الٰہی کی صورت میں وہ بنیادی اصولوں اور سمت کو آفاقی حیثیت دیتا ہے، ان اُصولوں کو زمان اور مکان (Time and Space) سے بالا تر یاماورا قرار دیتا ہے اور ان آفاقی اصولوں کی روشنی میں مخصوص وقت، مخصوص مقام اور مخصوص احوال کے لئے اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھتا ہے۔ بلکہ اجتہادی اور غیر منصوص احکام میں ’عرف‘ کا لحاظ رکھتا ہے۔ جسے پوسٹ ماڈرنسٹ تہذیبی اتفاق رائے(Cultural Consensus) کہتے ہیں۔
ضیاء الدین سردار نے اسلام کو پوسٹ ماڈرینٹی کے مقابلہ میں ماورائے جدیدیت (Transmodernity) کی حیثیت میں پیش کیا ہے۔ 26 ؎ بنیادی اصولوں (قرآن وسنت کی تعلیمات) سے گہری وابستگی کے ساتھ تغیر پذیر زمانہ کے مطابق تبدیلیوں کو اختیا رکرنے کا عمل ماورائے جدیدیت ہے۔ ا سلامی سماجوں میں ابدی قدروں سے وابستگی موجود ہے۔ اس لیے وہ جدید یا پس جدید نہیں ہیں اور چوں کہ یہ قدریں حیات بخش ہیں اور ان کے اندر نہ صرف نئے زمانہ کا ساتھ دینے کی صلاحیت موجود ہے، بلکہ نئے ضابطوں اور طرز ہائے حیات کی تشکیل کی صلاحیت اور گنجائش بھی موجود ہے، اس لیے ان کی بنیاد پر قائم سماج کو ماقبل جدید (Premodern) یا روایت پرست (Traditional) بھی نہیں کہاجاسکتا۔ وحی الٰہی کی بنیادوں پر چند آفاقی قدروں اور اصولوں کی حتمیت اور ان کے دائرہ کے باہر وسیع تر معاملات میں وحی الٰہی کی روشنی میں نئے طریقوں، ضابطوں اور راستوں کی تشکیل کا راستہ ایک ایسامعتدل راستہ ہے جو اسلام کو بیک وقت دائمی وآفاقی اور تغیر پذیر اور مقامی احوال کے مطابق بنا تا ہے اور زمان ومکان کے اختلافات سے ماوراکردیتا ہے۔ اس لیے اسلام کی بنیاد پر بننے والا سماج ماورائے جدید (Transmodern) سماج ہوتا ہے۔
ختم نبوت کا نظریہ یعنی یہ عقیدہ کہ آنحضرت ﷺ کے بعد اب تاقیامت کوئی نبی مبعوث ہونے والا نہیں ہے اور وحی کا سلسلہ تمام ہوگیا اور اب قیامت تک قرآن ہی اللہ کی کتاب اور بنی نوع انسان کی ہدایت کا ذریعہ ہے، اسلام کا ایک بنیادی نظریہ ہے۔ اس نظریہ کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اب زمانہ میں کسی ایسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے جو بنیادی اصولوں میں کسی تبدیلی کی متقاضی ہو۔ آنے والی ہر جدت کی نوعیت جزوی اور ذیلی ہی ہوگی۔ اس لیے یہ کہنا کہ اب ہم ماڈرن ازم کے عہد میں ہیں، اس لیے پری ماڈرن ازم یا ماقبل جدیدیت کے عہد کی ہر چیز تبدیل ہونی ہے یا یہ کہ اب ہم پوسٹ ماڈرن ازم کے عہد میں ہیں اس لیے ماڈرن ازم کی ہرجڑ کی رد تشکیل ضروری ہے، ایک نہایت لغو بات ہے۔ انسانی حیات میں بیک وقت دائمی اور تغیر پذیر دونوں طرح کے عناصر کارفرما ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے اس مسئلہ پر اپنے کتابچہ ’دین حق‘ میں بہت دلچسپ اور دل نشیں انداز میں بحث کی ہے۔ لکھتے ہیں :
’’کیا یہ واقعہ نہیں کہ تمام جغرافیائی، نسلی اور قومی اختلافات کے باوجودوہ قوانین طبعی یکساں ہیں جن کے تحت انسان دنیا میں زندگی بسر کررہا ہے۔ وہ نظام جسمانی یکساں ہے جس پر انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ وہ خصوصیات یکساں ہیں جن کی بنا پر انسان دوسری موجودات سے الگ ایک مستقل نوع قرار پاتا ہے۔ وہ فطری داعیات اور مطالبات یکساں ہیں جو انسان کے اندرودیعت کیے گئے ہیں۔ وہ قوتیں یکساں ہیں جن کے مجموعے کو ہم نفس انسانی کہتے ہیں۔ بنیادی طورپر وہ تمام طبعی، نفسیاتی، تاریخی، تمدنی، معاشی عوامل بھی یکساں ہیں جو انسانی زندگی میں کارفرما ہیں۔ اگر یہ واقعہ ہے اور کون کہہ سکتا ہے کہ یہ واقعہ نہیں ہے تو جو اصول انسان بحیثیت انسان کی فلاح کے لیے صحیح ہوں، ان کو عالم گیر ہوناچاہیئے۔ ‘‘27؎
بعینہ یہی بات زمانی اختلافات کے سلسلہ میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ :زمانہ ایک حیات ایک کائنات بھی ایک
دلیل کم نظری قصہ جدید و قدیم 30؎
خلاصۂ بحث
اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ پوسٹ ماڈرن ازم، ماڈرن ازم کا ایک منفی رد عمل ہے اور اس گھٹا ٹوپ اندھیرے کا مظہر ہے جس میں مسلسل کئی نظریات کی ناکامی اور ابطال کے بعد ہمارے عہد کا پڑھا لکھا انسان بھٹک رہا ہے۔ افکار، نظریات، اور فلسفوں کی عالیشان عمارتیں اس بری طریقہ سے زمین بوس ہوگئیں کہ نئے زمانہ کے فلسفیوں نے عافیت اسی میں محسوس کی کہ سوچنا ہی چھوڑ دیا جائے۔ فکر وخیال اور سچائی کے تصورات ہی کو واہمہ قرار دیا جائے۔ نظریہ اور آئیڈیالوجی کو ایک ناپسندیدہ شئے باور کیا جائے اور حیات انسانی کو حالات اور افراتفری کے حوالے کر کے پوسٹ ماڈرن جنت میں چین کی بانسری بجائی جائے۔ تمام جھوٹے خدائوں کے زمین بوس ہوجانے کے بعد پوسٹ ماڈرن ازم دراصل لاالہ کا اعلان ہے۔ الااللہ کا اعلان باقی ہے اور ان شاء اللہ موجودہ کیفیت کا لازمی اورمنطقی انجام ہوگا۔
حواشی و مراجع
1؎ Nasr Seyyed Hossein (1993) A Young Muslim’s Guide to the Modern World Cambridge :Cambridge University Press p.156
2؎ بیکن کے افکار کے مطالعہ کے لئے دیکھیے اس کی کتاب:
Bacon Francis (1863) Novum Organum Tr. James Spedding, Robert Leslie Ellis, and Douglas Denon Heath, Boston : laggard and Thompson
3؎ ڈیکارٹ کے خیالات کے لئے دیکھیے:
Descartes Rene (1983) Principles of Philosophy Trans. V. R. Miller and R. P. Miller. Dordrecht: D. Reidel
4؎ تھامس ہوبس کے افکار کی تفصیل کے لئے دیکھیے اس کی کتاب :
Hobbes Thomas (2007) Leviathan online available at eBooks@Adelaide, http://etext.library. adelaide. edu.au/h/hobbes/thomas/h681/. updated Mon Mar 12 20:24:47 2007
5؎ Electronic Library http://elab.eserver.org/hfI0242.html
6؎ والٹییر کے خیالات کے لیے ملاحظہ فرمائیے:
Voltaire Francois (1961) Philosophical Letters Translated by Ernest N. Dilworth, New York: Macmillan
7؎ مانٹیسکیو کے نظریات کے لئے ملاحظہ کیجیے:
Montesquieu Baron de (1914), Secondat, Charles de, The Spirit of Laws Tr. by Thomas Nugent, London : G. Bell & Sons
8؎ روسو کے تصورات کے لیئے دیکھیے:
Rosseau Jean-Jacques (2004) Emile Tr. By Barbara Foxley online available at http://www.gutenberg.org/etext/5427
9؎ آدم اسمتھ کی معاشی فکر کے مطالعہ کے لئے دیکھئے اس کی کتاب:
Smith Adam (2007) An Inquiry into the Nature and Causes of the Wealth of Nations online available at
http://metalibri.incubadora.fapesp.br/ portal/authors/ AnInquiryIntoTheNatureAndCausesOf TheWealthOfNations#books
10؎ مارکسی فکر کے لئے کمیونسٹ مینی فیسٹو سب سے مستند سر چشمہ مانا جاتا ہے۔
Marxm Karl and Eagesl Frederick(2006) The Communist Manifesto available at http://www.anu.edu. au/polsci/marx/classics/manifesto.html
11؎ اس موضوع پر تفصیلی مطالعہ کے لیے دیکھیے:
Bauman, Zygmunt (2000) Liquid Modernity. Cambridge: Polity Press
12؎ Lyotard, J.-F.(1984) The Postmodern Condition: A
Report on Knowledge, Geoff Bennington and Brian Massumi (trans.), Minneapolis: University of Minnesota Press p.xxiv
13؎ Anderson, Walter Truett (1995) The Truth About
Truth: De-confusing and Re-constructing the Postmodern World. New York: Penguin p 239-44.
14؎ حوالہ سابق، ص111
15؎ Lyotard, J.-F (1984) The Postmodern Condition: A Report on Knowledge, Geoff Bennington and Brian Massumi
(trans.), Minneapolis: University of Minnesota Press p. 8
16؎ حوالہ سابق p. xxiii
17؎ Sardar, Ziauddin (1998) Postmodernism and the
Other, the New Imperialism of Western Culture, London: Pluto Press p. 23
18؎ Charles Upton (2001) The System of Antichrist
Truth & Falsehood in Postmodernism & the New Age Sophia: Perennis p.45
19؎ اس موضوع پر امام غزالی نے جو بحث کی ہے اس کے لئے ملاحظہ فر مائیے:
Ghazali Abu Hamid Muhammad (2000) “The Incoherence of the Philosophers” (Tr. of Tahafatul Falasafa by Michael E. Marmura), Provo: Brigham Young University Press
20؎ الغزالی، ابو حامد محمد (1965) معیارالعلم، تحقیق الدکتور سلیمان دنیا، قاہرہ :
دارالمعارف، ص 42۔ 60
21؎ www.ghazali.org/site/dissert.htm
22؎ مودودی، مولانا سید ابوالاعلیٰ (2007) دین حق، نئی دہلی: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، ص22
23؎ اقبال، ڈاکٹر شیخ محمد (2001) کلیات اقبال، نئی دہلی : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، ص421
24؎ حوالہ سابق صفحہ 411
25؎ ندوی، علامہ سید سلیمان (1991) سیرت النبی، جلد چہارم، لاہور : الفیصل ناشران کتب، ص84
26؎ Sardar,Ziauddin
http://www.islamonline.net/english/Contemporary/ 2002/05/article20.shtml
27؎ مودودی، مولانا سید ابوالاعلیٰ (2007) دین حق، نئی دہلی: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، ص10
28؎ اقبال، ڈاکٹر شیخ محمد (2001) کلیات اقبال، نئی دہلی : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، ص410
29؎ Stephens Mitchel (2007) We are all Postmodern
ـNow, at journalism.nyu.edu/faculty/files/ stephens- postmodern.pdf
30؎ لادینیت کے خاتمہ کی بحث کے لئے دیکھیے ایک دلچسپ کتاب:
Peter L. Berger (1999) The Desecularization of the World, Resurgent Religion and World Politics; Michigan: William B. Eerdmans Publishing Co.
استفادہ تحریر: ابو شامل، امتیاز عبد القادر، انجنئیر سعادت اللہ حسینی