احادیث میں مذکور ‘روم’ اور آج کا مغرب

مصنف ابن ابی شیبہ میں ابن محیریز سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

”فارس نطحة أو نطحتان، ثم یفتحھا اﷲ، ولکن الروم ذات القرون، کلما ھلک قرن قام قرن آخر“(أخرجه ابن أبی شیبة فی المصنف (4: 206) والحارث بن أبی أسامة کما فی زوائد الہیثمی (2: 713) ونعیم بن حماد فی الفتن (2: 479) ومسند الحارث (702)۔ حدیث کی سند میں گو کچھ ضعف ہے، مگر بعض علماء(جیسے شیخ سفر الحوالی، حامد العلی وغیرہ) نے ملاحم کی دیگر احادیث سے تائید ہونے کے باعث اس حدیث کا اعتبار کیا ہے۔)


”فارس (تمہاری) ایک ٹکر ہوگی یا دو، پھر فارس کو اللہ مفتوح کرا دے گا۔ مگر روم کے کئی سینگ ہونگے۔ اس کا ایک سینگ ہلکان ہوگا تو ایک نیا سینگ نکل آئے گا“۔


”روم“ جوکہ احادیث کے اندر مذکور ہے در اصل اسی عالمِ جبر و مشقت اور شرک و طغیان کا ایک تسلسل ہے جسے آج جدید دور کے اندر ہم ’مغرب‘ کے نام سے جاننے لگے ہیں۔ اسی قوم کیلئے ”بنی الاصفر“ کا لفظ بھی احادیث میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔”نصرانیت“ یقیناً دنیا کی اور بہت سی اقوام میں پائی جاتی ہے، ہر خطے اور ہر بر اعظم میں عیسائی مذہب کو ماننے والی اقوام موجود ہیں، سیاہ فام براعظم افریقہ میں تو ملکوں کے ملک عیسائی ہیں، اس کے باوجود یہ ایک واقعہ ہے کہ ”رومنز“ یا ”بنی الاصفر“ (گوری اقوام) کے ساتھ نصرانیت کو تاریخی طور پر ایک خاص حوالہ اور ایک خاص نسبت رہی ہے۔


یوں سمجھئے جس طرح مسلمان ”عربوں“ کے سوا بہت سی اقوام ہیں پھر بھی ”عربی“ اور ”عرب“ کو اسلام کے ساتھ ایک خاص تاریخی و تہذیبی نسبت ہے، قریب قریب اسی طرح نصرانیت کا اٹوٹ جوڑ قومِ مسیح ؑکے ساتھ نہیں (جو کہ بلاشک و شبہ ”بنی اسرائیل“ تھے) بلکہ ”بنی روم“ Romans یا ”بنی الاصفر“ White-Skin Nationsکے ساتھ ہی معروف رہا ہے، جوکہ بذاتِ خود ایک چیز کے پٹڑی سے اتر جانے اور اپنے اصل پہ موجود نہ رہنے کی جانب اشارہ کردینے کیلئے کافی ہے۔ دینِ توحید سے انحراف کی ساری کہانی، عیسائی تاریخ کے اندر، در حقیقت ’رومنز‘ Romans کی کہانی ہے۔


روم“ اور ”بنی الاصفر“ کا ذکر ہمارے دین کی نصوص میں بکثرت ملتا ہے۔ احادیث وغیرہ میں کہیں ان کا ذکر سیرت ودور صحابہ کے واقعات کے ضمن میں ہوتا ہے کہ کس طرح ہمارے اسلاف، سلطنتِ روما کے ساتھ پورا اترے تھے، اور کہیں ”روم“ اور ”بنی الاصفر“ کا ذکر مستقبل کی بابت نبوی پیشین گوئیوں کے ضمن میں ہوتا ہے۔ ہم بطورِ مثال یہاں اس کی ایک ایک مثال احادیث سے ذکر کریں گے:


روم:

حضرت جابر بن سمرہ کی حدیث جوکہ سنن ابن ماجہ اور مسند احمد میں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ آئی ہے:

تقاتلون جزیرۃ العرب فیفتحہا اﷲ لکم، ثم تقاتلون فارس فیفتحہا اﷲ لکم، ثم تقاتلون الروم فیفتحہا اﷲ لکم، ثم تقاتلون الدجال فیفتحه اﷲ لکم.. قال فقال جابر: لا یخرج الدجال حتیٰ یفتتح الروم۔( سنن ابن ماجۃ:کتاب الفتن، باب الملاحم.. ومسند أحمد: مسند العشرۃ المبشرۃ، مسند أبی اسحاق سعد بن أبی وقاص۔ شعیب ارنؤط مسند احمد کی تخریج میں کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے اور صحیح مسلم کی شرط پر ہے اور اس کے راوی بخاری و مسلم کے راوی ہیں۔ البانی نے صحیح ابن ماجۃ میں اسے صحیح کہا ہے۔)


”تم جزیرۂ عرب سے قتال کرو گے آخر اللہ اسے تمہارے لئے فتح کرا دے گا، پھر تم فارس سے قتال کروگے آخر اللہ اسے تمہارے لئے فتح کرا دے گا، پھر تم روم سے قتال کرو گے آخر اللہ اسے تمہارے لئے فتح کرادے گا، پھر تم دجال سے قتال کرو گے آخر اللہ اسے تمہارے لئے فتح کرا دے گا“…(حدیث کے راوی) کہتے ہیں: تب جابرؓ نے کہا: ”دجال اس وقت تک نہ نکلے گا جب تک روم (اہل اسلام کے ہاتھوں) فتح نہ ہوجائے“(حضرت جابرؓ کا یہ قول ہمارے ان اصحاب کیلئے قابل توجہ ہے جو روم (مغرب) کی فتح سے پہلے ہی دجال کے نکل آنے کا امکان ظاہر کرتے اور ایک قسم کی یاسیت پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ حضرت جابرؓ کا یہ قول براہِ راست حدیث سے استدلال ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ زمانۂ خروجِ دجال سے پہلے اللہ کے فضل سے ایک زمانہ آنا ابھی باقی ہے جس میں امت اسلام کو ایک بہت بڑی اٹھان ملے گی یہاں تک کہ روم (یورپ کا سنٹر یا پھر پورا عالم مغرب) فتح ہوچکا ہوگا۔)


بنی الاصفر

:


بخاری میں عوف بن مالکؓ کی حدیث کے یہ الفاظ:


ثم تکون ہدنة بینکم وبین بنی الأصفر، فیغدرون، فی أتونکم تحت ثمانین غاية، تحت کل غاية اثنا عشر ألفا۔


”پھر تمہارے اور بنی الاصفر (گوروں) کے مابین ایک متارکۂ جنگ ہوگا، (جس کے معاملہ میں) وہ غدر کریں گے، تب وہ تم پر (چڑھائی کرنے کیلئے) اسی (80) پرچموں تلے آئیں گے، ہر پرچم تلے بارہ ہزار (فوجی) ہوں گے“(البخاری: کتاب الجزیة، باب ما یحذر من الغدر، عن عوف بن مالک


بخاری کی مشہور شرح فتح الباری میں امام ابن حجر عسقلانی اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں: (ہدنة، ہی الصلح علیٰ ترک القتال، بعد التحرک فیه، بنی الأصفر: ہم الروم) ”ہدنه (متارکۂ جنگ) اس اتفاق کو کہتے ہیں جو جنگ روک دینے پر (طرفین کے مابین) ہو، بعد اس کے کہ جنگ کے معاملہ میں پیشرفت ہوچکی ہو“ .. (جبکہ) ’بنی الاصفر‘ سے مراد ہیں: رومن“ (دیکھیے فتح الباری، بہ ذیل مذکورہ حدیث))


’روم‘ جوکہ احادیث میں مذکور ہوا ایک گوری قوم ہے جس کا اصل وطن جزیرہ نمائے اٹلی ہے، وہی خطہ جس کے اندر ویٹی کن کا کیتھولک سکرٹریٹ پوری دنیا پر صلیب لہرانے کے عالمی مشن پر عمل پیرا ہے۔ ’بنی الاصفر‘ (یعنی سنہری blonde رنگت کی نسلیں) کا لفظ بھی احادیث میں انہی اقوام کیلئے آتا ہے۔ بنی الاصفر کے مفہوم میں قریب قریب آج کی وہ سب اقوام آتی ہیں جن کی تاریخ یورپ اور سینٹ پال کی مسخ کردہ عیسائیت سے وابستہ ہے۔


چنانچہ ”روم“، یا ”بنی الاصفر“ ایک اصطلاح ہے۔ جہاں یہ کئی ایک شرعی نصوص کے اندر وارد ہوئی ہے، جیساکہ ابھی ہم دیکھ آئے ہیں، وہاں ہماری اسلامی تاریخ بھی ”روم“ و ”بنی الاصفر“ کے ذکر سے بھری ہوئی ہے۔ زمانۂ آخر کے اندر جو ملاحم (تاریخی انسانی کے کچھ عظیم ترین معارک، جنکو اہل بائبل Armageddon کے نام سے جانتے ہیں) ہمارے مصادر کی رو سے اہل اسلام اور لشکر ہائے روم کے مابین ہی برپا ہوں گے، اور جن پر کہ ہمارے مستند دینی مصادر کے اندر بے شمار پیشینگوئیاں پائی جاتی ہیں، وہ الگ ہمارے سامنے ہیں۔


چنانچہ یہ وہ اقوام ہیں جن کے ساتھ معرکہ آرائی کے حوالے سے نہ صرف ہماری ’ماضی‘ کی طویل یادیں وابستہ ہیں، بلکہ مستقبل کے بہت سے دور بھی ابھی باقی ہیں۔


پس ہم دیکھتے ہیں جتنا جوش وخروش صحابہ و تابعین کے دور میں ’روم‘ کے خلاف جہاد کے محاذوں کو حاصل رہا اور جس قدر عظیم المرتبت صحابہ ’روم‘ کے ساتھ جہاد میں شامل رہے، ویسا شرف جہاد کے کسی اور میدان کو حاصل نہیں رہا۔خلیفۂ اول ابو بکر ؓ کا قول مشہور ہے کہ ”روم کی ایک چوکی فتح کرنا مجھے فارس کا پورا ایک شہر فتح کرنے کی نسبت عزیز تر ہے“۔


قیصرِ روم کے پایۂ تخت کے خلاف اہلِ اسلام کی پہلی فوجی مہم کی خاص فضیلت احادیث کے اندر وارد ہوتی ہے، یعنی اس مہم میں شریک لشکرِ اسلام سارا بخشش یافتہ ہوگا:امام بخاری کتاب الجہاد والسیر میں باب ما قیل فی قتال الروم (یعنی اس بات کا بیان کہ:” روم کے ساتھ قتال کی بابت جو وارد ہوا“)کے تحت حدیث لائے ہیں:


عن أم حرام أنہا سمعت النبی ﷺ یقول: ” أول جیش من امتی یغزون البحر قد أوجبوا“ قالت أم حرام: قلت: یا رسول اﷲ أنا فیھم؟ قال: ” أنتِ فیہم“ ثم قال النبی ﷺ: ”اول جیش من أمتی یغزون مدینة قیصر مغفور لہم“ فقلت: أنا فیہم یا رسول اﷲ؟ قال: ”لا“


”ام حرامؓ روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے نبی ﷺ کو فرماتے سنا: ”میری اُمت کا وہ پہلا لشکر جو سمندر (کے راستے) جہاد کرے گا وہ (جنت کا) مستحق ہوا“ ام حرام کہتی ہیں: میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا میں ان میں ہوں گی؟ آپ نے فرمایا ”تم ان میں ہوگی“ پھر نبی ﷺ نے فرمایا: ”میری اُمت کا وہ پہلا لشکر جو قیصر روم کے پایہ تخت (قسطنطینیہ) پہ چڑھائی کرے گا، بخشاجائے گا“ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا میں ان میں ہوں گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں“ (بخاری،رقم: 2857)


”سلطنتِ روما کے پایہ تخت پر پہلی اسلامی مہم“ کی یہ فضیلت جو اوپر کی حدیث میں بیان ہوئی، بوڑھے بوڑھے صحابہ تک کو اٹھا لائی ۔ میزبانِ رسول، ابو ایوب انصاریؓ اپنے ضعف کے باوجود، اموی دور میں قسطنطنیہ کے خلاف جانے والی اس مہم سے پیچھے رہنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ اسی مہم کے دوران آپؓ نے وفات پائی اورپایہ تختِ قیصر کی فصیلوں کے باہر ہی مدفون ہو ئے۔ استنبول کا ہر سیاح اس صحابی کی قبر آج بھی وہاں دیکھ سکتا ہے۔


بہت ضروری ہے کہ خود ہم آج وہ معرکہ اپنی نظر میں کرلیں جو ملتِ ’روم‘ ہمارے خلاف کھڑا کئے ہوئے ہے اور جس کو ’آخری حد تک‘ پایۂ تکمیل کو پہنچانے کیلئے تین صدیوں سے وہ ہمارے گھروں میں اودھم مچا رہی ہے۔ ہم میں سے بہت کم ہوں گے جو اس کے ماضی وحال کی جہتوں سے آگاہی رکھتے ہوں جبکہ آج یہ معرکہ ایک بے حد فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکا ہے۔


حقیقت یہ ہے کہ ’استعمار‘ ‘colonialism’ اور ’وسائل کی دوڑ‘ سے بڑھ کر بھی اس جنگ کی بے شمار جہتیں ہیں….


تحریر حامد کمال الدین