مغرب کیساتھ نظریاتی کشمکش اوراسلام کامقدمہ

مغربی ذرائع ابلاغ اور مختلف فورموں کے ذریعے سے یہ تاثر پیدا کیا جاتا ہے کہ اسلام اپنے اصل کے اعتبار سے بس کچھ مجرد قسم کی پابندیوں اور رسوم و رواج کا مجموعہ ہے اور موجودہ نظریاتی دور میں اس کا کوئی کردار اس کے علاوہ نہیں ہے کہ یہ مغرب کی پھیلائی ہوئی روشن خیالی میں غیر ضروری قسم کی رکاوٹیں پیدا کرے۔ اس سلسلے میں مغرب کی طرف سے کئی ایک اعتراضات کئے جاتے ہیں۔ مثلاً مغرب کا اسلام پر ایک معروف اعتراض یہ ہے کہ اسلام آزادی کے خلاف ہے اور اسلام میں انسانوں کے درمیان تفریق کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ان کو زیادہ مسئلہ خصوصاً مساوات مرد وزن اور عورتوں کی آزادی کے بارے میں ہے۔

ان اعتراضات کے رد عمل میں مسلمانوں کے مختلف موقف سامنے آتے ہیں۔ ایک فریق تو اس بات پر پورا زور دیتا نظر آتا ہے کہ اسلام میں مساوات اور آزادی نہ صرف موجود ہے بلکہ اسلام ہی مساوات او ر آزادی کا علمبردار ہے۔ بلکہ اِس فریق کی جانب سے یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ اسلام ہی تھا جس نے مغرب کو ’مساوات‘ اور ’آزادی‘ کا سبق دیا۔ایک دوسرا فریق جس کی خواہش تو یہی نظر آتی ہے کہ نظریاتی بحث میں پڑنے اور مغرب سے مرعوب ہونے کے بجائے اسلام کے موقف کو ایک دبنگ انداز میں سامنے لے کر آئے، کوئی لحاظ کئے بغیر اعلان کر دیتا ہے کہ اسلام نہ مساوات کو تسلیم کرتا ہے نہ ہی اسلام آزادی کا علمبردار ہے، بلکہ اسلام نام ہی پابندی اور عدل کا ہے۔ یعنی اسلام آزادی کے مقابلے میں پابندی کا قائل ہے اور مساوات کے مقابلے میں عدل کا۔ فنی لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ موقف شرعی اعتبار سے صحیح ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ اہل علم کی اہم ترین ذمہ داری یہی ہے کہ بلا کسی لحاظ کے ہر ہر مسئلے میں اسلامی موقف کی وضاحت کر دے چاہے اکثریت اس کے بارے میں جو چاہے رائے قائم کرے!

لیکن تمدن کے معرکے اس دور میں جبکہ دنیا میں ایک آسمانی حقیقت اور ایک زمینی حقیقت ایک دوسرے کے دو بدو ہے صرف شرعی موقف پیش کرنا مسئلے کا اصل حل نہیں ہے۔ ا گر ہمیں اس معرکے میں نظریاتی فتح حاصل کرنا ہے بلکہ اگر ہمیں اپنے دور کے قابل ترین انسانی جوہر کو اسلام پر اطمینان کی نعمت سے بہرہ ور کرانا ہے اور اس معرکے میں اسلام کا حریف بننے سے بچانا ہے تو بہرحال ثابت بھی کرنا پڑے گا کہ اسلام اِس ’آزادی‘ اور ’مساوات‘ سے مستغنی و بے نیاز ہے تو کس معنیٰ میں اور کیوں؟ مزید برآں پہلا فریق جو کہ یہ دعوی کر رہا ہے کہ اسلام آزادی اور مساوات کا علمبردار ہے اس کی بات مطلق طور پر خالی از علت نہیں ہے اور نہ ہی وہ دین سے غیر مخلص ہے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ایک طبقے کو اسلام اگر ’آزادی‘ اور ’مساوات‘ کا دین نظر آتا ہے تو پھر اسلام کے کئی احکامات ’آزادی‘ اور ’مساوات‘ کے اصول سے کیوں ٹکراتے ہیں؟

یہ اعتراض بالکل بجا ہے کہ جب ایک بات قرآن اور سنت سے ثابت ہے تو پھر اُس کی بابت کسی عقلی جدال میں پڑنے کی ضرورت ہی سرے سے کیا ہے؟اور چہ فائدہ؟ ہم اس کا جواب یہ دیں گے اگر ہم ایک خلا میں رہ رہے ہوتے اور یہاں پر صرف ایک ہی نظریہ ہوتا تو پھر یقیناً یہ کوئی اتنا اہم محاذ نہ ہوتا۔ لیکن ہم جس ماحول میں رہ رہے ہیں اس میں کئی نظریات، قوتیں اور تاثرات بہ یک وقت بول رہے ہیں اور انسانوں کا بہترین مواد اسی طرف جھکتا ہے جو بات اسے سب سے زیادہ معقول نظر آتی ہے۔پچھلی ڈیڑھ صدی سے ہمارے ارد گرد تاثرات کا ایک جال بنا جا چکا ہے اور آج کے ذہین ترین انسان کے لئے بھی یہ انتہائی مشکل ہے کہ ان تاثرات سے پرے کسی اور حقیقت کو دیکھ سکے۔ شرعی احکامات کے ساتھ ساتھ عقلی جہتوں کو سامنے لانے سے ہماری غرض صرف یہ ہے کہ ہم انسانوں کو تاثرات سے آگے گزر کر کسی اور حقیقت کو دیکھنے کی طرف مائل کریں اور اس سلسلے میں ان کی ابتدائی رہنمائی کریں۔ انسانی فطرت میں اللہ تعالی نے حق اور باطل کو فرق کرنے کی صلاحیت رکھی ہے اور باطل کے علمبردار اس کو اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ اس لئے باطل جب بھی آتا ہے تو اپنے گرد حق کے کچھ ہالے بنا کر کچھ اس طرح سے آتا ہے کہ ایک عام انسان تصور بھی نہیں کرسکتا کہ یہ باطل بھی ہوسکتا ہے بلکہ وہ تو حیران ہو جاتا ہے کہ اگر یہ باطل ہے تو پھر کیا دنیا میں کسی حق کا وجود ممکن بھی ہے؟ اسلام حق ہے اور اس کو ثابت کرنے کی یقیناً کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن ایک سلیم الفطرت شخص بھی اس حق کی طرف جبھی متوجہ ہوتا ہے جب اس کے ذہن کو باطل کے اس مکر اور تلبیس سے آزاد کرایا جائے۔

جب کسی مسئلے پر شرعی رائے دی جائے یا اس پر کوئی فتوی دیا جائے تو یہ فتوی یا اسلامی موقف مجرد الفاظ پر نہیں دیا جاتا بلکہ اس حقیقت پر دیا جاتا ہے جو ان الفاظ کے پیچھے بول رہی ہوتی ہے۔ اس لئے اسلامی فقہ کی عام کتابوں میں بھی صرف فتوے درج نہیں ہوتے بلکہ جن معاملات اور مسائل کے بارے میں فتوی دیا جا رہا ہے ان کے معانی بھی تفصیل کے ساتھ بیان ہوتے ہیں کہ بغیر اس کے فتوی قطعاً بے معنی ہو جاتا ہے۔ اسلئے زیر نظر مضمون میں ان مغربی نظریات پر تنقید کرنے کے بجائے معروضی اور غیر جانبدارانہ انداز میں ان کی اصطلاحات کی تنقیح کی گئی ہے۔ اصطلاحات کو سمجھنے کا مسئلہ زیادہ اہم اسلئے بھی ہے کہ ہمارا وہ طبقہ جو اسلام کو آزادی اور مساوات کا علمبردار قرار دیتا ہے دراصل وہ ان اصطلاحات سے کچھ اور مراد لے رہا ہوتا ہے جبکہ مغرب کے نزدیک اس کے معنی کچھ اور ہیں۔ان اصلاحات کو سمجھنے کے لئے زیادہ فائدہ مند ہوگا اگر مغرب میں ان نظریا ت کی ترویج کی تاریخ پر بھی غور کر لیا جائے جس سے یہ پتہ چلے کہ مغرب ان سے کیا مراد لیتا ہے۔

ایک عام مسلمان جب مغرب یا مغربی تہذیب کے الفاظ سنتا ہے تو اس کے ذہن میں بے پردگی، بے حیائی ، عورتوں کا مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرنا، ٹیکنالوجی وغیرہ جیسی حقیقتیں سامنے آتی ہیں۔ اور اگر کوئی شخص زیادہ باخبر ہو تو الحاد، ہرقسم کے ادیان کے مظاہر کا مذاق اڑانا اور ہم جنسی جیسے کچھ اور حقائق اس کے ذہن میں آ جائیں گے۔لیکن مغرب در اصل یہ نہیں ہے بلکہ یہ چیزیں مغربی نظریات کے براہ راست نتائج ہیں۔ مغرب اصل کے اعتبار سے کچھ نظریات اور اقدار کا نام ہے جن میں معروف طور پر آزادی، مساوات، انسانی حقوق، سیکولرزم، جمہوریت وغیرہ آتے ہیں۔یہ نظریات مغربی تہذیب میں بالکل بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک طرح ہم انہیں دین مغرب کے عقائد سمجھ سکتے ہیں۔ جس طرح ہمارے دینی عقائد کا مذاق اڑانے سے ہمارے اندر دینی حمیت پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح ان کے ان نظریات پر تنقید کرنے سے یا ان کی مخالفت کرنے سے بھی انکی رگ حمیت پھڑک اٹھتی ہے۔ ان نظریات کو وہ ایسے پیش کرتے ہیں گویا کہ یہ اس کائنات کی آفاقی حقیقتیں ہیں اور ان سے آگے کسی حقیقت کا کوئی تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اور اگر کوئی فرد، قوم یا ملک ان نظریات کے خلاف کوئی بیان دیتا ہے تو اس کی ایسی مخالفت کی جاتی ہے جیسے اس نے خلاف عقل بات کی ہو۔

اب ذرا ن تاریخی حقائق اور عوامل پر نظر ڈالیں جن کی بنیاد پر یہ مغربی نظریات تشکیل پائے ہیں۔ یورپ میں مذہب اور سائنس کی کشمکش کی ایک طویل تاریخ ہے۔ مختصراً یوں سمجھ لیجئے کہ کچھ صدیوں پہلے کچھ وقوعے بہ یک وقت تشکیل پارہے تھے۔ ایک طرف یورپ کا انسان اندلس کی اسلامی جامعات میں پڑھ کر روشن خیال اور تعلیم یافتہ ہو رہاتھا تو دوسری طرف اسپین پر مسلمانوں کی گرفت ڈھیلی ہو رہی تھی۔ یہ مغرب کا انسان جیسے جیسے ’روشن خیال‘ ہوتا جارہا تھا ویسے ویسے وہ عیسائیت کی تنگ و تاریک راہ داریوں سے نکلنے کے لئے بے چین ہو رہا تھا۔ ان جامعات نے اس کو روشن خیالی کے وہ کچھ سبق دیے تھے کہ عیسائیت جو کہ در اصل انبیاء بنی اسرائیل کی غیر مستندتعلیمات اور رومی شرکیات کا مجموعہ تھی میں اس کا دم گھٹنے لگا تھا۔ اس وقت تک یورپ کا اجتماعی اور معاشرتی نظام عیسائیت اور خاص کر پوپ کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا۔ایک طرف اندلس مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا اور دوسری طرف یورپ کا انسان اسلامی تہذیب کی دی ہوئی روشن خیالی میں پختہ ہوتا چلا گیا۔ نتیجتاًعیسائیت کے ساتھ اس کی کشمکش شروع ہوئی۔ اب تک کی عیسائی تعلیمات کے مطابق زمین چپٹی تھی وہ یورپ کے روشن خیالوں کو گول نظر آنے لگی۔ اب تک زمین غیر متحرک اور سورج متحرک تھا لیکن یورپ کے نئے بالغ نظر کو سورج غیر متحرک اور زمین متحرک نظر آنے لگی۔ عیسائیت اگر چہ انبیاء کی تعلیمات کا کچھ حصہ پانے کے نتیجے میں ایسے اجتماعی معیارات رکھتی تھی جس کے نتیجے میں کسی حد تک معاشرے کو بنیادی اخلاقیات پر قائم رکھ سکتی تھی لیکن عیسائیت کے لئے انسانی عقل پر پورا اترنے کی کوشش کرنا اور بدلتے نظریات کے ساتھ بدلنا یقینی طور پر موت کے مترادف تھاجس کی وجہ سے عیسائیت کسی لچک مظاہرہ نہ کرسکی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف اس کشمکش میں عیسائیت کو شکست فاش ہوئی تودوسری طرف مغرب کے اس روشن خیال انسان کو اپنی تمدنی ضروریات کے تحت اجتماعیت کے نئے نظریات تشکیل دینے پڑے۔ کلیسا کو کلیساکی عمارت میں یا پھر ’دھرم‘ اور ’رسومات‘ میں تو رہنے کا حق دیا گیا لیکن تمدن اور اجتماعیت چاہے وہ سیاست ہو، معیشت ہو یا معاشرت ہو اس سے بے دخل کر دیا گیا۔ یہ معرکہ دنوں میں یا مہینوں میں نہیں بلکہ صدیوں میں لڑا گیا اور اس میں درحقیقت بڑی ہمت اور ثابت قدمی دکھانی پڑی، جان کا خطرہ مول لینا پڑا اور کچھ سائنس دانوں کو جان سے ہاتھ بھی دھونا پڑا۔ الغرض عیسائیت کی گھٹن سے جان چھڑانے کے لئے مغرب کو ایک طویل اور جان لیوا محنت سے گذرنا پڑا جس کے نتیجے میں ایک طرف سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی ہوئی تو کچھ تمدنی نظریات ارتقاء پذیر ہوئے۔ انہی نظریات کو ہم دین مغرب جو کہ عیسائیت سے بغاوت کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوا کے عقائد سمجھ سکتے ہیں۔

اس سے متعلق اور بھی کئی تاریخی واقعات ہیں، جیسے صنعتی انقلاب، سرمایہ داری، اشتراکیت جو کہ مغرب میں ہوئی کشمکش سے عبارت ہے ۔لیکن مغرب کے نظریات کی بنیادوں کو سمجھنے کے لئے اس کی تفصیل میں جانا بہت زیادہ ضروری نہیں ہے۔لیکن اس وقت دو باتیں خاص طور پرسمجھنے کی ضرورت ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس پوری کشمکش میں اگرچہ عیسائیت کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کر دیا گیا لیکن اس سے عیسائیت مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔مذہب بہرحال انسان کی فطری ضرورت ہے اور مغرب کا انسان اتنا روشن خیال بھی نہیں ہوا تھا کہ اسلام کو اپنا لیتا۔ عیسائیت افراد کی مجبوری بہرحال تھی جس کی بنا پر مادیت اور دہریت کا بازار گرم ہونے کے باوجود عیسائیت پر پختہ یقین رکھنے والے سائنسدان بھی گذرے ہیں۔ مزید یہ کہ اس تناظر میں نئی دنیا امریکہ میں جو تمدن رونما ہوا وہ اگرچہ یورپ کی نقل تھا لیکن اپنے اجزائے ترکیبی میں اس سے کچھ مختلف تھا۔ یورپ میں اس کشمکش کے نتیجے میں جس شدت کے ساتھ مذہب بیزاری پیدا ہوئی اس طرح کی مذہب بیزاری امریکہ میں پیدا نہیں ہوئی بلکہ مغربی نظریات اور عیسائیت کے درمیان ایک خاموش سمجھوتہ ہو گیا۔ اسلام ویسے تو ان کا مشترک دشمن تھا ہی۔

اس سلسلے کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ کچھ تاریخی اور جغرافیائی عوامل کی بنا پر اس معرکے میں اسلام کے ساتھ مغرب کوئی متحرک قسم کا نظریاتی تعامل نہیں کرسکا۔ اور ویسے یہ نظریاتی اور سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کے زوال کا ہی دور تھا۔نتیجہ یہ نکلا کی مغرب نے عیسائیت کو شکست فاش دے کر یہ سمجھ لیا کہ اس نے نہ صرف عیسائیت کو بلکہ ہر مذہب کو شکست دے دی ہے۔ مغربی استعمار کے دور میں بھی مسلم دنیا میں ایسا کوئی ذہن پیدا نہیں ہوا جو دین مغرب کو کانٹے کی ٹکر دے سکے۔ استعمار کے آخری دور میں کچھ شخصیات ایسی ضرور نمودار ہوئیں جنہوں نے مغرب کو منہ توڑ جواب دیا لیکن ان کی اس وقت کی ترجیحات بجا طور پر مسلمانوں میں پیدا ہوتے ملحدانہ نظریات کا توڑ کرنا تھیں جو کہ استعمار کے زیر اثر رہنے کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے۔ خلاصہ اس بات کا یہ ہے کہ جس طرح سائنس اور عیسائیت کی کشمکش برپا ہونا ایک تاریخی حقیقت ہے اس طرح اسلام اور سائنس کے درمیان کوئی معرکہ برپا نہیں ہوا۔ مغرب اب بھی اس خوش فہمی سے نہیں نکل سکا ہے کہ اس نے تمام مذاہب کو نظریاتی میدان میں شکست دی ہے۔

یہ رہا وہ تاریخی پس منظر جس کے نتیجے میں دین مغرب اور اس کے بنیادی عقائد وجود میں آئے۔ یہ بتانا اس لئے ضروری تھا کہ اس کو جانے بغیر،مجرد الفاظ سے، ان کے عقائد سمجھنا مشکل ہے۔اب ہم ایک ایک کر کے ان کے نظریات کو لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ مغرب اس سے کیا مراد لیتا ہے اور ہم مسلمانوں سے کس چیز کا مطالبہ کرتا ہے۔

آزادی یا آزادی اظہار:

ظاہر ہے جس تناظر میں مغرب نے اس اصطلاح کو استعمال کیا ہے اس سے مراد ان پابندیوں سے آزادی ہے جن کو کلیسا نے ان پر سائنسی تحقیق کے ضمن میں مسلط کیا تھا۔یعنی کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں تھا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ کلیسا کے لئے اس طرح کی آزادی دینا عیسائیت کی موت کے برابر تھا اور ممکن ہی نہ تھا کہ وہ اپنی خوشی سے اس کی اجازت دے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ محققین نے سمجھ لیا کہ جب تک اپنے آپ کو کلیسا سے آزاد نہ کرا لیں اس طرح کی آزادانہ تحقیق ممکن نہیں۔تو جب مغرب آزادی کے لفظ استعمال کرتا ہے تو اس سے مراد صرف مذہبی پابندیوں سے آزادی ہوتی ہے۔ اگر چہ دعوی ان کے یہاں پر ہر قسم کی آزادی کا کیا جاتا ہے لیکن مکمل آزادی سے انسان کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی اجتماعی اکائی بھی قائم نہیں ہوسکتی۔ انکا بھی تو ایک معاشرہ ہوتا ہے اور ان کے کچھ معاشرتی اقدار ہوتے ہیں۔ ممکن ہی نہیں کہ کوئی معاشرہ اپنے بنیادی اقدار کے خلاف کسی کو جو چاہے کرنے کی آزادی دیدے۔ اگر ایسا ہوتا تو اس معاشرے کی بقاء ممکن ہی نہ ہوتی۔مختلف تاریخی وجوہات کی بنا پر ہولوکاسٹ کے خلاف بات کرنا یا ہولوکاسٹ کو جس طرح سے بیان کیا جاتا ہے اس پر شک کرنا مغرب میں انتہائی نا پسندیدہ سمجھا جاتا ہے ۔ یورپ کے کئی ممالک میں باقاعدہ قانون موجود ہے کہ اگر کوئی شخص ہولوکاسٹ کو کھلے عام رد کر دے یا قتل کئے گئے یہودیوں کی تعداد (ساٹھ لاکھ) کو مبالغہ قرار دے تو اس کو جیل کی سزا ہوسکتی ہے اور اس طرح کی سزادی بھی گئی ہے۔ ہمیں اس وقت اس سے بحث نہیں ہے کہ کیا واقعتاً ہولوکوسٹ اس طرح سے ہوا ہے جس طرح سے بیان کیا جاتا ہے۔ اس وقت ہم اس بات کو بھی نظر انداز کر رہے ہیں کہ مغرب میں اچانک یہودیوں کے لئے اتنی ہمدردی کیسے پیدا ہوئی۔ اصل سوال یہ کہ مغرب جس مجرد آزادی کی بات کرتا ہے اس میں اس طرح کی پابندی کی گنجائش کیسے پیدا ہوئی۔ بے شک یہ پابندی مغرب کے ہر ملک میں نہیں ہے، لیکن ان ممالک میں بھی نظریہ آزادی کی اس پامالی پر کسی کا دل نہیں کڑھتا اور نہ ہی کسی کی رگ حمیت پھڑکتی ہے۔ ایک اور واقعہ کچھ تین برس پہلے ہی آسٹریلیا میں پیش آیا (نظریاتی طور پر آسٹریلیا مغرب ہی ہے)۔2006ءکے اواخر میں آسٹریلیا کے ایک مراکشی عالم شیخ تاج الدین الہلالی نے خطبے میں کہہ دیا کہ بھڑکیلے لباس پہننے والی خواتین گویا کہ خود شر پسند عناصر کو اپنے پر حملہ کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس بیان پر آسٹریلیا کا پور اپریس چیخ اٹھا اور ان کے خلاف پورے آسٹریلیامیں غم و غصے کی لہر دوڑا دی گئی۔ قطع نظر اس سے کہ ان کی یہ بات کتنی مناسب تھی؛ لیکن تھی مغرب کے ہی نظریہ آزادی کے مطابق۔ اس وقت کسی کو بھی آزادی رائے کا خیال آیا اور نہ ہی کسی حقوق انسانی کی تنظیم نے نظریہ آزادی کی اس پامالی پر آنسو بہائے۔ ایسے اور اس طرح کے کئی واقعات سے یہ قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ مغرب آزادی سے مکمل آزادی ہر گز مراد نہیں لیتا ہے ۔ بلکہ جب وہ آزادی کا لفظ استعمال کرتا ہے تو اس سے مراد ہر قسم کے غیر مغربی نظریات سے آزادی ہے جس میں خصوصاً اجتماعی نظام میں مذہب سے آزادی مراد ہوتی ہے۔ اس ضمن ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ جدید مغرب کے صورت گروں کا یہ سلوک صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ اس سے بہت پہلے سے عیسائیت کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا رہا ہے۔ جب اس نے آزادی کا اظہار کرنے کے لئے خاتم المرسلین کا کارٹون بنایا تو اس سے بہت پہلے حضرت عیسی ؑ کے ساتھ اس سے بہت برا سلوک کیا ہوا تھا۔ عیسائیت چونکہ پہلے ہی سے شکست خوردہ تھی اس لئے اس کو کچھ کہتے نہ بن پڑا۔

اگر کوئی یہی آزادی مغربی اقدار یا نظریات کے خلاف استعمال کرے تو ایسا رویہ مغرب کو ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ بلکہ بات اب اس سے بھی آگے بڑھ چکی ہے۔ اب مغربی ممالک میں خصوصاً فرانس اور جرمنی میں پبلک مقامات پر برقعے پر بھی پابندی لگانے پر کام ہو رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جب مغرب آزادی کی اصطلاح استعمال کرتا ہے تو وہ اس سے مراد اپنے نظریات اور اقدار کے خلاف ہر چیز سے آزادی ہوتی ہے اور جب وہ مسلمانوں سے آزادی کا مطالبہ کرتا ہے تو وہ ہر اسلامی اقدار اور عقائد سے آزادی کا مطالبہ ہوتا ہے۔ یعنی اگر کوئی دوہرے معیار کی بد ترین شکل ہوسکتی ہے تو اس سے زیادہ کیا ہوسکتی ہے۔ہم پلٹ کر ان سے یہ کہنے کا حق ضرور رکھتے ہیں کہ مغرب اپنے بنیادی نظریات سے آزاد ہو کر دکھائے پھر ہم سے اس طرح کا کوئی مطالبہ کرے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ مجرد طور پر آزادی ایک مبہم اور بے معنی لفظ ہے یا عالمی معاشرے میں پیدا کردہ ایک تأثر ہے اور اصل چیزدھونس اور مغرب کا تسلط ہے۔ لفظ آزادی بس ایک لفظ جس کا مغرب جس طرح چاہے استعمال کر لے۔ یہ مسلمانوں کے لئے ایک لوہے کا چنا ہے تو مغرب کے ہاتھ میں جاتے ہی موم بن جاتا ہے۔

٭ مساوات

اس کے تحت مغرب امّت مسلمہ سے عمومی طور پر مساوات کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس میں خاص طور پر مساوات مردو زن اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ یکساں سلوک شامل ہے۔اس سے پہلے کہ ان مطالبوں کے بارے میں ہم کچھ غور کریں یہاں پر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مساوات کی اصطلاح بھی فی نفسہ کوئی متعین معنی نہیں رکھتی۔دنیا میں دو انسان مساوی ہوتے ہی نہیں چاہے وہ دو جڑواں بھائی یا بہن ہی کیوں نہ ہوں۔جب دو انسان مکمل طور پر یکساں ہو ہی نہیں سکتے تو ان کے درمیان مساوات کیا معنی رکھتا ہے؟ اگر آپ کسی مساوات کے علمبردار سے ایک بالکل ہی سادہ سا سوال پوچھیں کی ایک کمپنی کے جنرل منیجر اور ایک چپراسی کی تنخواہ میں اتنا تفاوت کیوں ہے تو وہ اس کا ایک معقول جواب ضرور د گا لیکن وہ جواب میں یا تومساوات کے ان کے اپنے اصول ہی کے خلاف بات کر رہا ہوگا یا پھر کوئی استثناءپیش کر رہا ہوگا۔ہمیں تسلیم ہے کہ یہ ایک بالکل ہی سطحی مثال ہے لیکن مغرب کے مساوات کے دعوے کا معروضی انداز میں جائزہ لیا جائے تو یہ دعوی اس سے کم سطحی نہیں ہے۔

مسئلہ یہاں پر یہ ہے کہ مغرب عالم اسلام کو اپنی وضع کردہ ’مساوات‘ کو رد کرنے کی اجازت دینے یا اِس پر عالم اسلام کو کسی بھی قسم کی استثناءدینے پر تیار نہیں ہے۔جو کوئی بھی مغرب کے اثر سے معاشرے میں پیدا ہونے والے تأثر سے آزاد ہو کر غور کرے گا تو اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ یہ اصطلاح بھی مغرب کے تسلط کا دوسرا نام ہے اور مجرد طور پر اس لفظ کے کوئی معنی بنتے ہی نہیں۔الغرض مساوات ایک لفظ ہے جس کے نام سے مغرب ہم سے جو چاہے مطالبہ کردے اور اپنے لئے جتنے چاہے استثناءات پیدا کرلے۔اس کی ایک زندہ مثال مسئلہ فلسطین ہے۔ امریکی صدر بارک اوبامہ نے جب قاہرہ میں مسلم امت سے خطاب کیا تھا تو امریکہ اسرائیل کے پرانے تعلقات کا حوالہ دے کر اصل مسئلے پر بات کرنے سے پوری طرح کترا کرنکل گئے ۔ یعنی جب اسرائیل کا مسئلہ ہو تو نہ آزادی، نہ مساوات اور نہ ہی انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی بات سنی جائے گی بلکہ ان کے لئے صرف اور صرف استثناءات ہوں گے۔

اب غور کرتے ہیں اس مطالبے پر کہ تمام مذاہب کے ماننے والوں سے یکساں سلوک کیا جائے۔ انسانی تمدن کی ایک ضرورت یہ بھی ہوتی ہے کہ کوئی نظریہ ہو جس کے تحت انسانوں کا مجموعہ ایک معاشرتی اکائی بن کر رہے۔مغربی نظریات کی ترویج سے پہلے یہ ضرورت مذہب ، قبائلی نظام ، زبانیں اور تھوڑی بہت قومی شناخت بھی پوری کیا کرتی تھی۔ دین مغرب نے اس ضرورت کے تحت صرف قومیت کو ہی کسی معاشرتی اکائی کے لئے کلی بنیاد قرار دیا۔ اصولی طور پر وہ نظریہ جس کے تحت معاشرتی اکائی وجود میں آتی ہے اس نظریے کے تحت آپ “اپنوں “اور “غیروں” میں فرق کرتے ہیں اور فطری طور پر آپ اپنوں اور غیروں میں فرق کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پائیں گے۔موجودہ تناظر میں ایک جرمن دوسرے جرمن سے زیادہ قرب محسوس کرے گا اورجب دنیا میں کہیں پر کسی جرمن پر ظلم ہو رہا ہوگا تو اس کی غیرت جوش میں آئے گی۔ اسی طرح دوسری قومیتوں کا بھی معاملہ ہے۔انسانی معاشرے کی اس بنیاد کو باقاعدہ قانونی تحفظ حاصل ہے بلکہ یہ قانون کا ایک اہم ترین حصہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص برطانیہ کے ہیتھرو ایر پورٹ پراترتا ہے تو اس کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت کے سلسلے میں قومیت کی بنیاد پر الگ الگ قانون ہوگا۔ اگر وہ شخص برطانیہ کا شہری ہوگا تو اس کو فی الفور اجازت مل جائے گی، اگر وہ امریکی شہری ہوگا توپھر اس کو تھوڑی بہت جانچ پڑتال کے بعد اسی وقت ویزا فراہم کردیا جائے گا(On arrival visa)۔ لیکن اگر کوئی پاکستانی برطانیہ میں داخل ہونا چاہے تو اس کوپاکستان سے نکلنے سے پہلے ہی برطانوی سفارت خانے سے ویزا حاصل کرنا ہوگی۔ واضح طور پریہ تفریق مساوات کے منافی ہے لیکن کوئی بھی اس پر اعتراض نہیں کرسکتا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہم نے قومیت کو ایک ایسے نظریے کے طور پر قبول کیا ہوا ہے جس کی بنیاد پر انسانوں کے درمیان تفریق نہ صرف جائز ہے بلکہ انسانی اجتماعیت کی ایک اہم ضرورت ہے۔اور یہ نظریہ ہمارے ذہن میں اتنا پختہ ہو چکا کہ اس طرف کسی کا دھیان مشکل ہی سے جاسکتا ہے۔ اب مغرب اور اسلام کا اصل تنازعہ یہ ہے کہ اسلام میں دین ہی انسانوں کے بیچ تفریق کی اصل بنیاد ہے نہ کہ قومیت۔ اگر مغرب ہم سے دینی تفریق کو رد کر کے قومی تفریق کو قبول کرنے مطالبہ کرتا تو یہ ایسے ہے جیسے ہم اس سے عیسائیت کو ترک کر کے اسلام قبول کرنے کا مطالبہ کریں۔ لیکن برا ہو غلامانہ ذہنیت کا کہ آج کسی مسلمان کا بھی ذہن اس طرف نہیں جاتا اور یہ مغرب کے سامنے لاجواب ہو کر جزیہ اور اس جیسے مسلم اور کافر کے درمیان فرق کرنے والے احکامات کو رد کرنے پر بھی آمادہ ہو جاتا ہے۔مغرب ہم سے جب یہ کہتا ہے کہ دیکھو ہم نے اپنے ممالک میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھا تو ایک اسلامی نظام میں اس طرح کا مساوات کیوں نہیں ہے۔ یعنی جب ہم سے وہ یہ سوال کر رہا ہو تا ہے تو یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ ان کا دین عیسائیت ہے جبکہ ان کا دین دراصل تو عیسائیت سے عین بغاوت ہے۔ عیسائیت تو ان کا مذہب ہے نہ کہ دین۔ ایسے وقت ہمارا ان سے مطالبہ یہ ہوگا کہ آپ اپنے مساوات ثابت کرنے کے لئے تمام قومیتوں کے ساتھ یکساں سلوک کر کے دکھائیں۔ یعنی یہاں پر اصل مسئلہ اسلام اور عیسائیت کا ہے ہی نہیں بلکہ اصل اختلاف یہ ہے کہ انسانوں کی ایک دوسرے سے وابستگی کس بنیاد پر ہوگی؟ قومیت کی بنیاد پر یا عقائد کی بنیاد پر۔ہمارا اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جب ہمارا ان سے مکالمہ ہوتا ہے تو وہ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ قومیت بحیثیت دین ایک مسلم آفاقی حقیقت ہے اوردوسری طرف مسلمان بھی اس پر سوال اٹھانے کے بارے میں تصور بھی نہیں کرسکتا۔ بہ الفاظ دیگر مکالمہ شروع ہونے سے پہلے ہی ہم مکالمہ ہار چکے ہوتے ہیں۔ یہاں پر اختلاف قومیت اور دین کا ہے۔ جس طرح مغرب کے لئے قومیت کا فرق ان کے اپنے نظریۂ مساوات کو کالعدم کر دیتا ہے اس طرح ہمارے لئے دین کا فرق اس طرح کے مساوات کے مطالبے پر خط تنسیخ پھیر دیتا ہے۔ یہاں پر پورا کا پورا مسئلہ مقدمہ رکھنے کا ہے، جیتنے کی ضرورت ہی نہیں۔ جب کبھی باطل کے سامنے اسلام کا اصل مقدمہ رکھ دیا جائے وہاں پر ہمیں نظریاتی جیت کے لئے کسی جدو جہد کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ہاں اپنا مقدمہ سامنے لانے پر زور بہرحال صرف ہوگا!

اب آتے ہیں جنسی مساوات کے سوال پر۔ اس سے پہلے کہ اسلامی شریعت میں کچھ احکام میں مرد و عورت فرق کرنے کی حکمتیں بیا ن کی جائیں، ہمیں کچھ باتیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ جنسی مساوات پر بات کرنے کی نوبت آنا ہی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ابلاغی قوتوں کے سامنے انسان اپنی ذہانت کے باوجود انتہائی کمزور اور بے بس ہے تو غلط نہ ہوگا۔جنسی مساوات کا سوال جبھی پیدا ہو سکتا ہے جب مرد و زن بالکل ایک ہوں اور ان میں کوئی فرق ہی نہ ہو۔اب کیا یہ بات کسی کو لکھ کر بتانے کی ضرورت ہے کہ مرد اور عورت میں فرق ہوتا ہے، جسمانی فرق بھی ہوتا ہے اور نفسیاتی فرق بھی ہوتا ہے۔ اور اس جسمانی اور نفسیاتی فرق کی بنیاد پر جو معاشرتی رویہ جنم لیتا وہ بھی ایک حقیقت ہے۔ یہ اتنی واضح ترین اور قابل مشاہدہ حقیقت ہے کہ کوئی عقل کا اندھا یا ذہنی مریض ہی اس کا انکار کر سکتا ہے۔مغرب نے اپنی حد تک تو اس بات کو تسلیم کیا ہوا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ وہاں پر مجبوری کے تحت ملازمت وغیرہ میں کچھ قوانین میں مرد و عورت میں فرق کیا جاتا ہے۔ مساوات مرد ۂو ہ ہم انسانوں کو تأم کے مؤو زن کے نام پر دراصل مغرب ہم سے جس چیز کا مطالبہ کر رہا ہے وہ مساوات نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ اس کا ہم سے مطالبہ یہ ہے کہ ہم مرد و زن میں اتنا ہی فرق کریں جتنا وہ کرتا ہے اور اتنی یکسانیت برتیں جتنی وہ برتتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ مساوات کا مطالبہ نہیں بلکہ اپنی اندھی تقلید کا مطالبہ۔ عورت کا مسئلہ کسی بھی معاشرے میں انتہائی نازک اور اہم ہوتا ہے۔ بلکہ آپ کسی معاشرے یا تہذیب کو دیکھنا چاہیں تو یہ دیکھیں کہ اس معاشرے کی عورت کیا کر رہی ہے۔یہاں مغرب ہم سے اپنی تقلید کا مطالبہ کر کے دراصل ہمارے معاشرے کے اجزائے ترکیبی کو بدل ڈالنا چاہتا ہے۔ اس مطالبے کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ یہ دراصل سرمایہ دارانہ ذہنیت کا شاخسانہ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی اپنی ایک الگ نظر ہوتی۔ ان کا اصل مقصد تکاثر ہوتا ہے جس کے لئے باقاعدہ علم معاشیات کی اصطلاحیں ہیں جسےProfit maximization یا wealth maximization کہتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر چیز چاہے وہ معدنیات ہو، موسم ہو، جنگی حالات ہوں، سائنسی ترقی اور ایجادات ہوں حتی کہ انسان بھی ہو صرف پیسے بڑھانے کے وسائل ہوتے ہیں۔ اسی لئے Corporate world میں انسانوں کی دو ہی اقسام ہو تی ہیں؛ انسانی وسائل(Human resources) اور صارف (Consumer)۔ چاہے مرد ہویا عورت ، ایک سرمایہ دار انسان اس کو صرف اس نظر سے دیکھتا ہے کہ معاشی ترقی میں یہ کس طرح سود مند ہوسکتا ہے۔ یہاں پر سرمایہ دار انسان سے ہماری مراد ہر وہ شخص ہے جس کی ذہنی ساخت سرمایہ دارانہ نظام کے تحت تشکیل پائی ہو۔ آپ مشرق کے ایک سنجیدہ اور پڑھے لکھے شخص کو بھی یہ کہتا سنیں گے کہ “وہ قوم کیسے ترقی کر سکتی ہے جس کی آدھی آبادی (عورتیں) گھروں میں بیٹھی ہوں”۔یعنی یہ ذہن ترقی سے مراد صرف معاشی ترقی لیتا ہے اور خاندانی نظام جو کہ ترقی سے بھی پہلے کسی بھی قوم کی بقاء کا ضامن ہے اس کے ٹوٹنے میں کوئی حرج نہیں جانتا۔ اس نظام کے تحت مرد اور عورت دونوں سامان تجارت ہیں اور معاشی ترقی کا ذریعہ ہیں اور بس۔جبکہ اسلامی نظام کے تحت اگر ایک مرد کسب حلال کمانے کے لئے محنت کرتا ہے تو وہ اس لئے کہ اس کا خاندانی نظام اس سے اسکا تقاضا کرتا ہے، یہاں پر معاشی ترقی ثانوی چیز ہوتی ہے۔اور اگر ایک عورت گھر کی چہار دیواری میں رہتی ہے تو بھی اس لئے کہ اسلام کا خاندانی نظام اس سے اس کا تقاضا کرتا ہے نہ کہ اس لئے کہ اس کے نزدیک معاشی ترقی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ مختصراً یہاں یہ سمجھ لیجئے کہ اصل سوال مرد اور عورت کے برابری کا نہیں ہے، کہ اپنی نفسیاتی اور جسمانی ساخت کی بنا پر مرد و عورت برابر ہو ہی نہیں سکتے۔ یہاں اصل مقابلہ اس بات کا ہے کہ کسی قوم کے لئے سرمایہ داری (تکاثر) زیادہ اہمیت رکھتی ہے یا اس کا خاندانی نظام۔

ہم مغرب کے سامنے انتہائی سادہ الفاظ میں یہ مقدمہ رکھتے ہیں کہ عورت اور مرد کے جسمانی اور نفسیاتی فرق کے باوجود وہ ہم سے کیوں دونوں کے یکساں سماجی کردار کا مطالبہ کر رہا ہے۔پھر وہ خود مکمل طور پر اس کی پابندی کیوں نہیں کر رہا ہے؟ ہمارا مغرب سے یہ بھی سوال ہے کہ مغرب مساوات کے نام پر اپنا معاشرتی نظام کیوں ہم پر مسلط کرنا چاہ رہا ہے جبکہ مغربی معاشرہ اپنی عمر کی ایک صدی مکمل کرنے سے پہلے ہی بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔

یہاں پر یہ بھی سمجھ لیجئے کہ مرد اور عورت ایک ہی جنس سے ہیں اور اپنے اعمال اور جزا و سزا کے معاملے میں ان کے ساتھ برابر کا معاملہ کیا جائے گا۔ ہماری پوری بحث عورت اور مرد کے سماجی کردار کے بارے میں ہو رہی ہے نہ کہ ان کی اہمیت اور اللہ کے نزدیک ان کے مقام کے بارے میں۔

٭ جمہوریت

اس موضوع پر ہماری سائیٹ پر کئی مضامین آ چکے ہیں اور الحمد للہ دیگر اسلامی دانشوروں کے قلم سے بھی نظریہ جمہوریت کا کافی محاسبہ ہو چکا ہے۔جمہوریت کا غیر فطری ، غیر اسلامی اور عدل کے خلاف ہونا اس دور میں کم سے کم اسلام پسندوں کے نزدیک اظہر من الشمس ہے۔یہاں پر کچھ بات اس تاثر کے بارے میں ہو جائے کہ کچھ ترقی یافتہ ممالک میں جمہوریت کامیابی سے چلی آ رہی ہے۔موجودہ دور میں جمہوریت سے مراد یہ ہے کہ رائے شماری کے ذریعے سے پارلیمنٹ کے ارکان اور سربراہ مملکت چنے جاتے ہیں جن کو قانوناً عوام کا نمائندہ تسلیم کیا جاتا ہے۔پھر وہ جو بھی فیصلے کریں گے ان فیصلوں کو عوامی فیصلہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس پورے پراسیس کے بارے میں یہ سمجھا اور باور کیا جاتا ہے کہ حکومت جو بھی فیصلہ کر رہی ہے وہ بحیثیت عوامی نمائندے کے ایک قوم کا فیصلہ ہے۔

یہاں پر ایک بڑی الجھن یہ ہے کے یہ پورے کا پورا پراسس کئی دوسرے ایسے نظریات کی خلاف ورزی پر مبنی ہے جس کادعوی مغرب بڑے دھڑلے سے کر رہا ہوتا ہے۔ مثلاً اگریہی عوامی نمائندے کثرت رائے سے کو ئی قانون پاس کرتے ہیں جس سے مساوات یا آزادی رائے پر زد پڑتی ہو تو اس کا کوئی حل مغرب کے پاس موجود نہیں ہے۔ دراصل جمہوریت مجرد طور پر ایک ایسا نظریہ ہے جس کے ذریعے کثرت رائے کو استعمال کرتے ہوئے مغرب کے اپنے نظریات سے ٹکراؤپیدا ہو جاتا ہے۔ یہ کوئی مفروضہ بھی نہیں ہے۔ پڑوسی ملک بھارت میں اکثریت کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے کئی علاقوں میں گائے کے ذبح پر پابندی ہے اور انہیں اکثریت کا خیال رکھتے ہوئے بہ کثرت سرکاری عمارتوں اور جائداد پر ہندو دیوتاؤں کی مورتیاں اور تصویریں رکھی ہوئی ہیں۔ یہ ایک ایسے ملک کا حال ہے جو نہ صرف سیکولرزم کا دعویدار ہے بلکہ اس کی جمہوریت کا پوری دنیا میں ڈنکا بجا ہو ا ہے۔ اسی طرح فرانس میں حجاب پر پابندی، جرمنی میں برقعے پر پابندی اور سوئٹزلینڈ میں میناروں پر پابندی اس جمہوری عمل کے ذریعے ہی سے نافذ ہو رہی ہے جبکہ یہ سب پابندیاں ان کے اپنے نظریۂ آزادی کے خلاف ہیں۔

یہاں پر یہ نکتہ واضح کرنا مقصود ہے کہ جمہوریت کا کسی بھی نظریے کے ساتھ کوئی میل نہیں ہے۔ایک جمہوری عمل کے ذریعے ہر نظریے اور قانون کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ کچھ قوانین کو اگر ایسے تحفظات حاصل ہوں بھی جن کو کثرت رائے سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا تو حکومت کوئی ایسی صورت حال پیدا کرسکتی ہے جس کی وجہ سے وہ قوانین عملاً معطل ہو جاتے ہیں۔ اس کی مثال بھی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں آسانی کے ساتھ دیکھی جاسکتی ہے۔ایک سیکولرزم کے دعویدار ملک میں پچھلے 60 سال سے جس طرح سے منظم انداز میں مذہبی فسادات رچائے گئے اس معاملے میں حکومت کا کیا رویہ رہا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔سیدھی سی بات ہے، حکومت کو فکر صرف اکثریت کی ہے اور اکثریت اس کے ساتھ ہے تو قومی نظریات کے ساتھ جو حشر ہو سو ہو۔ ووٹ تو افراد دیتے ہیں یہ نظریہ سیکولرزم ووٹ تو نہیں دے سکتا!!!

اس سلسلے میں ایک اور بات بھی قابل غور ہے۔عوام کے جو نمائندے ہوتے ہیں وہ کیا واقعی عوام کے نمائندے ہوتے ہیں یا یہ ایک فریب ہے جو سب کو دیا جاتا ہے۔کیا ایک عام آدمی جس کے اندر صلاحیت ، امانت، صداقت اور ملک کی خدمت کرنے کا سچا جذبہ ہو وہ صرف ان خصوصیات کی بنا پر منتخب ہو کر حکومت میں شامل ہوسکتا ہے؟ بلا استثنا ہر قسم کی جمہوریت میں انتخابات جیتنے کے لئے فنڈ کی بے بہا ضرورت ہوتی ہے اور اگر کسی کے پاس یہ نہیں ہے تو وہ انتخابات لڑنے کے بارے میں تصور ہی نہیں کرسکتا۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو در اصل نظریہ مساوات کے بالکل خلاف جاتی ہے لیکن آپ کو اس تضاد کی طرف کہیں پر کوئی اشارہ بھی نہیں ملے گا۔بڑے ممالک میں انتخاب جیتنے کے لئے اتنے فنڈ کی ضرورت ہو تی ہے کہ باقاعدہ فنڈ ریزنگ کی محفلیں سجائی جاتی ہیں اور بڑی بڑی کمپنیوں سے بھی فنڈ لیا جاتا ہے ۔ بالفاظ دیگر انتخابات سے پہلے ہی امید واروں کو چندہ جمع کرنے کے نام سے ایک اور انتخاب جیتنا ہوتا ہے اور یہ انتخاب عوامی نہیں بلکہ ملک کی اشرافیہ، لابیز خفیہ تنظیمیں اور ملٹی نیشنل کمپنیاں کرتی ہیں۔ یہ تنظیمیں دو یا اس زیادہ امیدوار چن کر پھر ان کو عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں اور عوام ان میں کسی ایک کو چن کر یہی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ انہوں نے ووٹ دے کر قوم کے نمائندے کو چنا ہوا ہے۔یہ ایک کھلا ہوا فریب ہے۔

جمہوریت میں جتنی بھی خامیاں ہم بیان کریں اس سے زیادہ وہ ممالک جانتے ہیں جن کے یہاں جمہوریت صدیوں اور دہائیوں سے فی الحقیقت موجود ہے۔ ان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی ایسا متبادل نظام موجود نہیں ہے جس کو پیش کر کے یہ جمہوریت سے اپنی جان چھڑائیں۔ یہ جمہوریت دراصل ان کی نظریاتی مفلسی کا ثبوت ہے کہ اس نظریاتی نا معقولیت اور عملی خامیوں کے با وجود ان کے پاس اس سے مفر کا کوئی راستہ نہیں ہے۔بار بار جمہوریت کا راگ الاپنا در اصل عوام کی توجہ ہٹانے اور اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی ایک کوشش کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

اب اسلام جیسے دین سے جو اپنے نظریات اور اصولیات میں خود کفیل ہونے کا نہ صرف دعویدار ہے بلکہ اپنے نظام کو مغرب کے ایک متبادل طور پر پیش کر رہا ہے اس سے جمہوریت کا مطالبہ کرنا کتنی معقول بات ہے قارئین خود اسکا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ جمہوریت کا مطالبہ اگر کچھ تھوڑی بہت معقولیت رکھتا ہے تو وہ بھی مغرب کے اپنے فریم ورک میں اور ایک ایسے نظام سے جمہوریت کا مطالبہ کرنا جو مغرب کے اس فریم ورک سے ہی باغی ہے ایک احمقانہ مطالبہ ہے۔

٭ حقوق انسانی

انسانوں کو انسان ہونے کی حیثیت سے کچھ بنیادی حقوق دینا بلا شبہ ایک سلیم الفطرت انسان کے لئے الفاظ کی حد تک کافی کشش رکھتا ہے۔مگر اس وقت انسانی حقوق کے نظریے کو اس طرح پیش کیا جا رہا ہے گویا کہ یہ کوئی ابدی اور متفق علیہ حقائق ہوں جن پر سوال اٹھانے کو ئی گنجائش ہی نہیں ہے۔

10 دسمبر 1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کی قرار داد پاس کی جس کو Universal Declaration of Human Rights کہتے ہیں۔اس کے کل 30 آرٹیکل ہیں۔ان نکات کو نیچے دئے گئے لنک سے براہ راست پڑھا جاسکتا ہے

The Universal Declaration of Human Rights

ایک نظر ان نکات پر ڈالنے سے بظاہر کو ئی خاص اعتراض وارد نہیں ہو تا۔ ان نکات میں بلا تفریق رنگ، نسل، قومیت، زبان، جنس اور مذہب کے ہر ایک کے لئے کئی حقوق اور آزادی کی بات کی گئی ہے۔ ان سب کے خلاصہ کو اگر کچھ لفظوں میں بیان کیا جائے تو کچھ نظریات نکل آتے ہیں، جیسے آزادی، مساوات، جمہوریت، انصاف، حق خود ارادیت، اپنے دفاع کا حق، جائداد رکھنے کا حقوق، تعلیم کا حق وغیرہ۔ ان میں مساوات ، آزادی اور جمہوریت کے بارے میں ہم گفتگو کر چکے ہیں۔البتہ ان میں کچھ عجیب قسم کا تضاد اور الجھن پائی جاتی ہے جو اس کو صرف بڑی طاقتوں کا ایک کھیل بنا کر رکھ دیتا ہے۔اس میں یہ غیر واضح ہے کہ ان حقوق کی پائمالی کرنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے! اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ پانچ ایسے ممالک کو اپنی مرضی کے کچھ قوانین بنا کر پوری دنیا پر مسلط کرنے کا صرف اس لئے کیوں حق ہے کہ وہ وافر مقدار میں نیوکلیائی اور کیمیائی ہتھیار رکھتے ہیں؟ مسلم امت اس دنیا کی ایک بہت بڑی حقیقت تھی اور آج بھی ہے اور اس کو نظر انداز کر کے کچھ قوانین کو تمام دنیا پر بشمول اس امّت کے نافذ کرنا کیا ثابت کرتا ہے؟ یہی نا کہ اصل چیز ہتھیاروں کی تعداد ہے؟

اگر ہم پچھلے ساٹھ سال کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو حقوق انسانی کی تقریباً تمام کی تمام خلاف ورزیاں یا تو انہیں پانچ ممالک نے کی ہیں یا ان کی حمایت سے دوسروں نے کی ہیں۔ یہ مضمون خالص نظریاتی پہلو سے بحث کرتا ہے اس لئے یہاں پر اسکی تفصیل بیان نہیں کی جا رہی ہے۔یہاں پورا کا پورا مسئلہ انسانی حقوق کا نہیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کوئی ایسا نظام ہے ہی نہیں جس کے تحت بڑی طاقتوں سے ان کی خلاف ورزیوں پر کوئی جرح کی جاسکے۔اور پھر ویٹو کا حق تو اقوام متحدہ کے ہر چارٹر کو لا یعنی بنا کر رکھ دیتا ہے جو کہ ان 30 آرٹیکل کے ہی خلاف ہے۔ اس دنیا میں عجائبات کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن اس سے عجیب بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ اقوام متحدہ بھی اپنے اندر “حقوق انسانی” کے مطالبات رکھتی ہے۔ کیا یہ بات لکھ کر بتانے کی ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ اپنے وجود میں کسی بھی معنی میں انسانی حقوق کی سب سے بڑی خلاف ورزی ہے؟ کیا اقوام متحدہ کا اسکے علاوہ بھی کوئی ایجنڈا ہے کہ یہ بڑی طاقتوں کو آپس میں لڑنے سے بچاکر ان کی پوری قوت کمزور ممالک کے استحصال پر مرکوز رکھے؟بڑی طاقتوں کی مرضی کو کمزور ممالک پر منظم انداز میں مسلط کرنے کے علاوہ بھی اقوام متحدہ کا کوئی منصب ہے؟ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ملا ہوا ایک سبق ہی تھا جس میں بڑی طاقتوں کے آپس میں لڑنے کی وجہ سے بہت سارے چھوٹے ممالک کو آزادی نصیب ہوئی۔

پھر بھی انسانی حقوق کی قرار داد کے کچھ نکات کے سلسلے میں غور کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔آرٹیکل 16 کے مطابق خاندان انسانوں کی ایک بنیادی اور فطری اکائی ہے اور یہ حکومت اور معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ اس کی حفاظت کرے۔ لیکن اس انسانی حقوق کے علمبردار کو اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ اکثر ممالک شادی کے قانون کو اتنا مشکل بنا دیتے ہیں کہ معاشرے کے اکثر رکن شادی نہ کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ یہ اقوام متحدہ آزادی کے نام پر آزاد جنسی تعلق کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو کہ شادی کا ایک متبادل بننے کی وجہ سے خاندانی نظام کو ہی تباہ کر دیتا ہے۔

آرٹیکل 29 کے مطابق ان حقوق کا استعمال کسی ایسے موقعے پر نہیں کیا جاسکتا جس سے کسی دوسرے آرٹیکل کی خلاف ورزی ہو رہی ہو۔ اسی آرٹیکل کے مطابق ان حقوق کا استعمال اقوام متحدہ کے مقاصد اور نظریات کے خلاف بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ گویا اس بات کا واضح ترین اعتراف ہے کہ یہ تضادات کا مجموعہ ہے اور ایسا کوئی ڈیکلیریشن ممکن نہیں جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔اب بھلا اسلام سے ان حقوق کا مطالبہ کرنا اور مسلم امہ کا اس سلسلے میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔

٭ سیکولرزم

مختصراً یوں کہہ سکتے ہیں کہ دین و مذہب کو انسانوں کے اجتماعی نظام جیسے سیاست، معیشت اور کسی حد تک معاشرے سے خارج کر دینا سیکولرزم کہلاتا ہے۔جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کا بھی ایک حصہ ہے۔ تاریخی طور پر اس نظریے کے ڈانڈے بھی مغرب میں مسیحیت اور سائنس کے ٹکراؤ سے ہی جا ملتے ہیں۔ سیکولرزم کو آج اس طرح سے پروموٹ کیا جاتا ہے جیسے یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے اور دنیا میں اس کے سوا کوئی اور نظریہ ہے ہی نہیں۔ اول تو مغرب کا سیکولرزم کا دعوی خود ایک فریب ہے۔ اس نظریے کو ایک مکمل نظریے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جبکہ مغرب کے ہر ملک میں یہ نظریہ صرف جزوی طور پر پایا جاتا ہے۔ اکثر ممالک کے قانون کی مطابق سربراہ مملکت کا مسیحی ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اکثر ممالک میں عدالت میں گواہی دینے سے پہلی بائبل پر ہاتھ رکھ کر سچ کہنے کا عہد کرنا ضروری ہوتا ہے۔تو جب اسلام سے سیکولزم کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو بھی وہ سیکولرزم کا نہیں بلکہ ہم سے یہ کہا جاتا ہے کہ تم بھی اتنے سیکولر بنو جتنے ہم ہیں۔ وہی اندھی تقلید کا مطالبہ ، یہ دیکھے بغیر کہ عالم اسلام مغرب سے مختلف اپنا ایک تاریخی سیاق رکھتا ہے ۔اگر چہ سیکولرزم کا وجود مسیحیت کی ایک کھلی شکست ہے لیکن ایک اعتبار سے مسیحیت کے اپنے عقائد میں سیکولرزم کی گنجائش ہے۔ عیسائیوں کی اکثریت یہ اعتقاد رکھتی ہے کہ تورات کے قانون پر مکمل اترنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے ۔ اسلئے مسیحؑ نے اپنی جان دیکر (!!) انسانوں کو قانون الہی کی پابندی سے بچایا جس کی وجہ سے اب عیسائیوں پر تورات کے قانون کی پابندی لازم نہیں ہے۔ اس طرح ان کی مذہبی اصطلاح میں لفظ “قانون(Law) ” کو “عنایت یا لطف(Grace) ” کا متضاد سمجھا جاتا ہے۔یعنی مسیح ؑ کی آمد سے پہلے انسانوں کو قانون کے تحت رہنا تھا جس میں تمام انسان ناکام ہو گئے۔ نتیجتاً تمام انسانوں کا جہنم میں جانا لازمی ہو گیا۔ پھر خدا نے اپنے “لا محدود فضل و کرم” سے (معاذ اللہ) اپنے بیٹے (!!)کو انسانوں کا نجات دہندہ بنا کر بھیجاجس نے خود تو آسمانی قانون پر مکمل عمل کر کے دکھایا اور پھر اپنی جان دے کر (!!) تمام انسانوں کی گردنوں کو آسمانی قانون کے طوق سے آزاد کرایا۔ چونکہ موضوع بحث کچھ اور ہے اس لئے یہاں پر اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ ہم عیسائیت کے اس اہم ترین عقیدے کو زیر بحث لائیں ورنہ اس پر بھی کچھ بات ہوسکتی ہے۔ قطع نظر اس سے کہ یہ عقیدہ کتنا غیر منطقی ہے عیسائیت میں بہرحال کچھ نہ کچھ سیکولرزم کی گنجائش نکل ہی آتی ہے جبکہ اسلام اور یہودیت میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔یہاں پر قانون الہی ہی خدا کے خصوصی لطف و عنایت کے مظاہر ہیں۔

صحابہ کے اخری دور سے ہی مسلم معاشرے میں کئی قسم کی گمراہیاں در آنے لگی تھیں۔ اِس کے باوجود اسلامی تاریخ میں مذہبی قانون اور دینی قانون کی تقسیم کا سوال کبھی بھی پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ ہر فقہ میں ہمیشہ سے یہی اصول رہا ہے کہ حکم مکمل طور پر اللہ ہی کا ہے۔ بلکہ اس معاملے میں خوارج کے ذریعے سے جو گمراہی در آئی تھی وہ بالکل الٹی سمت میں تھی اور اس کی وجہ علم کی کمی کے ساتھ ساتھ اہل علم سے روگردانی تھی۔اس کے علاوہ لادینیت اور اسلام کے درمیان جو بھی تنازعہ ہوا ہے وہ اصلاً ایک خارجی عمل تھا جبکہ یورپ میں یہ مغرب کا ایک خالص داخلی معرکہ۔ مسلمانوں میں جدت پسندی اور لادینیت دراصل مغربی تعلیم اور مغرب کی سیاسی برتری کی وجہ سے وجود میں آئی۔ لادینیت کے بیرونی اثرات کے مظہر ہونے کے باوجود ایک صدی سے بھی کم عرصے میں اسلام نے اپنے بدترین دور زوال میں بھی ایسے دانشور پیدا کر دکھائے جو مغربی نظریات کو کھلا چیلنج دے سکیں۔ اس طرح کے نظریات کا تجزیہ خالص منطقی انداز میں دو اور دو چار کی طرح سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح کے نظریات ایک مخصوص تاریخی سیاق میں وجود پاتے ہیں اور اس کی توثیق بھی وہی تاریخی سیاق کرتا ہے نہ کہ ایک آزاد انسان کی عقل۔ اس تناظر میں مغرب کی اپنی کچھ دشواریوں کی وجہ سے سیکولرزم کے نظام کو اپنا نا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اسلام سے اس نظام کا مطالبہ کرنا انتہائی لغو ہی ہے۔

یہاں پر ہم سیکولرزم کے صحیح اور مفید ہونے پر بحث ہی نہیں کر رہے ہیں کہ اس طرح کی بحث تب تک فائدہ مند نہیں ہو سکتی جب تک مغرب اس فریب سے نہیں نکلتا کہ اس کے اپنے معیارات دوسروں کے لئے حجت نہیں ہے۔ بلکہ یہ معیارات جو ان کے یہاں بھلے کتنے ہی اہم ہوں ہمارے نزدیک موسمی خودرو جھاڑیوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔

اسلام بحیثیت دین کئی پہلو رکھتا ہے اور اس کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ اپنے ماننے والوں کی ایک امّت بناتا ہے اور تمام ماننے والوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیتا ہے۔یعنی اسلام صرف ایک نظریہ ہی پیش نہیں کرتا بلکہ اجتماعیت کی بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔ انسانی جبلت کے اندر ایک دوسرے سے وابستگی کا جذبہ فطری طور پر موجود ہوتا ہے اور انسان اپنی اس جبلت کی تسکین کے لئے سرگرداں رہتا ہے۔ اگر اس کو اس سلسلے میں صحیح رہنمائی نہ ملے تو وہ غلط بنیادوں پر اپنی اجتماعی زندگی قائم کرتا ہے جس کے نتیجے میں زمین میں فساد پیدا ہو جاتا ہے۔اسلام اس انسانی ضرورت کے حل کو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان کی بنیاد پر قرار دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے اس کے علاوہ کسی اور بنیاد پر اجتماعی وابستگی کو حرام قرار دیا جاتا ہو۔ یہی اسلام رشتہ داری، صلہ رحمی اور ازدواج کو بھی انسانی اجتماعی زندگی میں وابستگی کو نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ پورے زور سے اس کی دینی اہمیت کو بھی بیان کرتا ہے۔بلکہ اپنے ماننے والوں سے اپنی علاقائی شناخت کو ترک کرنے کا بھی کوئی مطالبہ نہیں کرتا۔ لیکن ایسی کسی بھی وابستگی میں تنازع کی صورت میں اسلام کو ہی آخری اور قطعی حجت قرار دیتا ہے۔

انسانی اجتماعی ضرورت کے لئے مغرب کے پاس جو حل ہے وہ نظریہ قومیت ہے جسکو اردو میں وطنیت بھی کہتے ہیں۔ “قوم”کی تعریف انتہائی پیچیدہ ہے اور کوئی بھی تعریف مکمل طور پر دنیا کی ہر قوم پر ٹھیک ٹھیک نہیں بیٹھتی۔ دنیا کی تمام اجتماعیت اپنے علاقوں، اقدار، طرز زندگی، زبان اور شناخت کے ساتھ وابستگی محسوس کرتی ہے اور کسی حد تک اپنی ان بنیادوں کے معاملے میں تعصب برتتی ہی۔ مغرب اسی وابستگی اور تعصب کو قومیت قرار دیتا ہے جو کہ کسی بھی چیز کو حق اور باطل قرار دینے میں حکم کا درجہ رکھتی ہے۔ اسی بنا پر جرمن، کوریا، جاپان، روس، فرانس وغیرہ قومیں قرار پائیں۔ لیکن کچھ قوموں کو قومیں قرار دینا انتہائی مشکل اور پیچیدہ معاملہ ہے۔ مثلاً ہندوستان، ریاست ہائے متحدہ امریکہ،اسرائیل ، پاکستان وغیرہ کو قومیں قرار دینا صرف الفاظ کا کھیل ہی ہوسکتا ہے۔ اسی اختلاف کی وجہ سے بہت سے ممالک میں دہائیوں بلکہ صدیوں سے تنازعات چلے آرہے ہیں۔ اس کی ایک سامنے کی مثال آئرلینڈ کی علیحدگی پسند تحریک ہے۔ یہ ایک طویل اور پیچیدہ موضوع ہے اور ہماری بحث کے دائرے میں نہیں آتا۔ویسے ہمارے قارئین کو ہماری دعوت فکر ہے کہ غور کریں کہ پاکستان کس طرح سیکولر معنوں میں ایک قوم بن سکتا ہے؟ نظریہ پاکستان کے بارے میں آپ بھلے ہزار رائیں رکھیں، لیکن پاکستانی قومیت نام کی اگر کوئی چیز ہے بھی تو اس کی جڑیں اسلام کے علاوہ کہیں بھی نہیں پائی جاسکتیں۔ تو پھر سیکولر پاکستان ایک فریب کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے اور جو لوگ سیکولر پاکستان کے داعی ہیں ان کے بارے میں قارئین خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ در اصل کس چیز کے داعی ہیں۔

سیاست اور میڈیا میں “قومی مفاد” کا لفظ بہ کثرت استعمال ہوتا ہے۔ پچھلے کچھ برسوں میں پاکستانی سیاست میں “سب سے پہلے پاکستان” استعمال ہوا اگرچہ اس کے پیچھے جو غرض پنہاں تھی وہ “سب سے پہلے میں” کے علاوہ کچھ اور نہیں تھی۔تاہم قومی مفاد ایک ایسا نکتہ ہے جس کو بنیاد بنا کر جس چیز کو چاہے باطل قرار دیا جاسکتا ہے اور جس چیز کوچاہے حق۔دین اسلام فی نفسہ خود حق ہے اور حق کا دعوے دار ہے۔ تو اسلام سے قومیت کی توثیق طلب کرنا خود اپنی نفی کا مطالبہ کرنے کے مترادف ہے۔یہاں پر بھی قومیت کو مغرب کے اس تاریخی پس منظر کے تناظر میں ہی دیکھنا چاہیئے جس میں عیسائیت کے ساتھ کشمکش کے نتیجے میں عیسائیت کو یورپ کی اجتماعی زندگی سے بے دخل ہونا پڑا۔ ایسی صورت حال اگر کسی مسلم اکثریت والے ملک میں پیدا ہوئی تو وہ صرف ترکی میں کسی حد تک پیدا ہوئی ہے۔ اس کے نتیجے میں ترکی میں ایک سخت گیر سیکولر نظام قائم ہو گیا جو کہ مغرب کے کسی بھی سیکورلزم سے زیادہ سخت ہے۔ لیکن اس کے باوجود ترکی کی اپنی تاریخ میں اسلام اس حد تک رچا بسا ہے کہ اسلام کو مکمل طور پر ترک کرنے کی صورت میں ترکی کے پاس اپنے قومی تفاخر کی کوئی بنیاد ہی نہیں رہ سکتی۔ یہی صورت حال اکثر عرب ممالک کی ہے کہ ان کی تاریخ میں اگر قابل فخر کوئی بات ہو تو اسلام سے الگ رکھ کر نہیں دیکھی جاسکتی۔ عرب ممالک میں پچھلی کچھ دہائیوں میں وطنی قومیت پرستی کے ساتھ ساتھ “عرب قومیت پرستی” کی تحریکیں بڑے زور و شور سے اٹھ کر ناکام ہو چکی ہیں۔ اس دور زوال میں بھی ترکی کی سخت ترین سیکولر فوج جو کہ خیر سے مغرب کے ہر ملک سے زیادہ سیکولر ہے اسلام کے سیل رواں کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ اور اب صورت حال یہ ہے کہ ایک کٹر سیکولر فوج کو ایک ایسے صدر اور وزیر اعظم کو بادل ناخواستہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے جن پر اسلام پسندی کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔اور مصر جس کے دانشوروں نے اپنی قومیت کی جڑیں اپنی قدیم فرعونی تاریخ میں تلاش کرنے کی کوشش کی وہاں پر اسلام کے سیل رواں کو روکنے والی کوئی چیز ہے تو وہ مغرب زدہ سیکولر فوج اور جمہوریت نما ڈکٹیٹرشپ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔تاریخ کے ہزار نشیب و فراز کے باوجود اسلام ایک تابندہ اور روشن حقیقت ہے اور اسلام کو چھوڑ کر تاریخ کے اندھے کنووں میں اپنی جڑیں تلاش کرنا ایک کھلی ہوئی حماقت ہے۔بھلا اسلام کی تابناک حقیقت جو کہ اپنے دور زوال میں بھی مغرب کو کھلا چیلنج دے رہی ہے کا تاریخ کے کھنڈرات سے کوئی میل ہے۔ بھلا زمینوں کی کھدائی سے حاصل ہونے والی شناخت کا آسمانی حقیقتوں سے کوئی مقابلہ ہے؟

ایسے میں امّت مسلمہ کا مغربی قومیت کو اپنی اجتماعی بنیاد بنانا سیکولر معنوں میں بھی اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے برابر ہے۔ جن کو اپنی مذہبی تاریخ پر شرمندگی ہے ان کے لئے اجتماعیت کی کوئی بنیادیں تلاش کرنا ایک مجبوری ہے ۔ لیکن یہ مجبوری صرف ان کی ہے نہ کہ کسی اور دین کے ماننے والوں کی۔مشرق تا مغرب امت مسلمہ کے ہر طبقے نے اپنے جاہلیت کے رشتوں کو توڑ کر اسلام سے ناطہ جوڑا ہوا ہے اور اب پرانے جاہلی رشتوں کی تجدید کرنے کا اس امت کے پاس کوئی راستہ ہی نہیں۔ اگر کوئی اس طرح کی تجویز رکھتا بھی ہے تو وہ دانستہ یا نادانستہ ڈوبتے ہوئے مغرب کو اسلام کے خطرے سے بچانے کی ایک کوشش کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

٭ سرمایہ داری

Capitalism اصلاً مغرب کا کوئی باقاعدہ نظریہ نہیں ہے۔یہ ایک روش اور طریقۂ کار ہے جس پر چل کر مغرب ترقی کے اس مقام پر پہنچا ہے۔لیکن کمیونزم کے نمود اوراس سے مقابلے کے جذبے اور دوسری کئی وجوہات کی بنا پر سرمایہ داری کا نظام بھی کسی حد تک ایک نظریہ کی شکل دھار چکا ہے۔اصولی طور پر اسلام کو ایسے کسی نظام سے نظریاتی اختلاف نہیں ہے جو کھلی منڈی (Open Market) کا دعویدار ہو۔ شرعی طور پر دیکھا جائے تو سود اور جوئے کی شکل میں جو بھی لین دین ہوگا وہ اسلام کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کل کو سرمایہ داری کی ایسی شکل بھی متعارف ہو جائے جو سود اور جوئے سے پاک ہو۔ اس سلسلے میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسے عمل کی صورت اختیار کر چکا ہے جس کے تحت دوسرے اجتماعی نظریات پر زد پڑتی ہے۔درحقیقت نظریات کو عملاً معاشرے یا کسی ملک پر نافذ کرنے والوں کے لئے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اس ملک یا معاشرے کی اشرافیہ سے بالکلیہ آزاد ہوں۔ بلکہ اکثر یہ ملک کی اشرافیہ ہی ہوتی ہے جو نظریات کو نافذ کرتی ہے۔ اور یہ اشرفیہ سرمایہ دار طبقہ ہی ہوتا ہے۔ایسے میں یہ ممکن ہی نہیں ہوتا کہ سرمایہ دار کے مفاد کے خلاف کوئی چیز معاشرے میں عملاً پائی جائے۔ یہ تو ایک عملی بات ہوئی لیکن نظریاتی طور پر بھی اسی اشرافیہ کے اثر کے تحت معاشی ترقی کو اس طرح سے پیش کیا جاتا ہے کہ کسی قوم کی معراج بس معاشی استحکام ہی ہے۔ بالفاظ دیگر معاشرے میں ایک ایسا ذہنی رجحان پیدا کیا جاتا ہے کہ عوام و خواص معاشی ترقی کے نام پر جتنے بھی اہم اجتماعی نظریات ہوں ان کو بقدر ضرورت قربان کر دینے میں کوئی حرج نہیں جانتے۔ بسا اوقات یہ نظریات کی قربانی تک ہی بات نہیں رہتی بلکہ بنیادی اخلاقیات تک کی قربانی کو برا نہیں سمجھا جاتا۔اس پورے عمل میں ایک اہم کردار ذرائع ابلاغ کا بھی ہوتا ہے۔موجودہ ذرائع ابلاغ سرمایہ دارانہ نظام کا ہی ایک پھیلاؤ ہے ۔ بغیر سرمایہ کے آپ ذرائع ابلاغ کا کوئی تصور نہیں کرسکتے۔ اسی بنا پر سرمایہ دار کو معاشرے میں اپنی ضرورت کے مطابق اثر انداز ہونا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اس میں اشتہارات کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ کسی بھی ٹی وی چینل یا اخبار کیلئے اشتہارات ان کی بقا کا سوال ہوتا ہے اور یہ اشتہارات ایک رشوت کی شکل میں ان کو ملتے رہتے ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں اور مضامین بھی آتے رہتے ہیں جن کی زد سرمایہ دار انہ نظام پر پڑتی ہے۔ لیکن وہ بھی اتنی ہی ہوتی ہے جتنی ضرورت ہو اور جس سے عام آدمی کی نظر میں ذرائع ابلاغ کی ساکھ باقی رہے۔مغرب کی اب تک کی کامیابی کا راز یہی ہے کہ اس نے اپنی یہ ساکھ قائم کی ہوئی ہے کہ وہ اپنے خلاف ہر ایک کو جو چاہے کہنے اور لکھنے کی آزادی دی ہوئی ہے۔ لیکن ان کی اشرافیہ کے پاس اتنا کنٹرول بہرحال ہوتا ہے کہ وہ مجموعی طور پر سرمایے اور ابلاغ کے زور پر عوام کی سوچوں پر کافی حد تک اپنا اختیار قائم کیے ہوئے ہیں۔

سرمایہ کے ذریعے سے کس طرح سیاسی اور معاشرتی اقدار پر قابو پایا جاتا ہے اس کے لئے کچھ مواد جمہوریت اور مساوات کے عنوان کے تحت بھی دیا جا چکا ہے۔

٭ 

خلاصۂ کلام

امت مسلمہ کے لئے اسلام ہی وہ فرقان ہے کہ جس کی بنیاد پر ہم حق اور باطل میں فرق کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اسلام ان بنیادی اخلاقیات کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ ان کا داعی ہے جو افراد ، اقوام اور امتوں کے درمیان عمومی تعلقات کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ کسی غیر مسلم قوم سے گفت و شنید اور تبادلۂ نظریات کرتے ہوئے اس بات کا مطالبہ کرنا کہ وہ قرآن کو حکم مان کر ہم سے نظریات کا تبادلہ کرے انصاف پر مبنی بات نہیں ہے کہ اگر انہوں نے قرآن کو حکم مانا ہوتا تو پھر اس طرح کے مکالمے کی نوبت ہی نہ آتی۔ اسی لئے اس مضمون میں مغربی تمدن کے نظریات کو عمومی اخلاقیات اور common sense کو سامنے رکھ کر اس کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس بنیاد پر ہمارا مغرب سے بھی یہی مطالبہ ہونا چاہیے کہ وہ اسلام کے ساتھ کسی بھی ڈائیلاگ میں مغرب کے ان نظریات کو بنیاد نہ بنائے جو کچھ تاریخی عوامل کی بنیاد پر مغرب میں پچھلی کچھ صدیوں میں تشکیل پائے ہوں۔ بلکہ یہاں پر ڈائیلاگ ہوگا انہی نظریات کے محاکمے کے سلسلے میں جن کے نفاذ کا مطالبہ مغرب ہم سے کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں مغرب کو ہم سے ہرگز یہ توقع نہ رکھنی چاہیے کہ ہم ان کے نظریات کو ایک مسلمہ آفاقی حیثیت سے پہلے ہی تسلیم کر لیں۔ ہم مسلمانوں کو بھی کسی بھی مکالمے کے وقت یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ مغرب اپنے نظریات کے لئے جو پر کشش الفاظ استعال کرتا ہے اس کے اپنے سیاق میں کچھ مخصوص معنی بھی ان کے ذہن میں ہوتے ہیں۔ ہمارا ان سے مکالمہ الفاظ کے بجائے ان معانی پر ہونا چاہیئے اور تب جا کر ہی یہ کوئی با معنی مکالمہ ہو سکتا ہے۔

اب تک مسلمان دانشوروں کے ذریعے سے مغربی تہذیب پر جو بھی تنقید ہوئی ہے اس کا بیشتر حصہ اس حوالے سے ہے کہ مغرب اپنے جن اصولوں کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے وہ کس حد تک خود اس پر عمل کر رہا ہے۔ یہ یقیناً ایک اہم نکتہ ہے اور اس کو موضوع بحث بنانے کے لئے ہمارے پاس بہت کچھ مواد موجود ہے۔ خصوصاً مغرب نے اسرائیل کی اندھی بہری حمایت کے ساتھ فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ جو رویہ روا رکھا ہے وہ اس کی منافقت کا واضح ترین ثبوت ہے۔اس صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر صیہونیت کو مغرب کا ایک باقاعدہ نظریہ قرار دیا جائے تو بھی غلط نہ ہوگا۔لیکن اس پورے عمل میں ہم غیر شعوری طور پر مغربی نظریات کو قبول کر رہے ہوتے ہیں۔ کم ہی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مغربی نظریات کا ہی معروضی انداز میں محاکمہ ہوتا ہو۔یہ کوئی محنت طلب کام نہیں ہے لیکن اس پر کام کے لئے صرف توجہ کی ضرورت ہے۔ ہماری اکثر بحثوں میں مغرب کی نا انصافی اور زیادتی کو موضوع بنائے جانے کی وجہ سے اکثر ذہن اس طرف متوجہ نہیں ہو پاتے کہ مغرب کے رویے کے ساتھ مغربی نظریات کی بھی کبھی تنقیح کریں۔

مغربی نظام کئی اعتبارات سے ایک استحصالی نظام ہے اور وہاں کی اشرافیہ کے لئے ان کے اپنے نظریات کی بس یہی حیثیت ہے کہ یہ نظریات ان کے اس استحصال کے لئے پردے کا کام کریں۔لیکن مغرب کا ایک عام پڑھا لکھا شخص اس سے قطعاً ناواقف ہے اور مغرب کے ذرائع ابلاغ اس کو اسی طرح ناواقف رکھنے میں بھر پور کردار ادا کرتے ہیں۔وہ بیچارہ یہی سمجھتا ہے کہ مغربی تہذیب کچھ اعلی قدروں اور نظریات کی امین ہے اور مغرب کے پاس اس دنیا کو دینے کے لئے نظریاتی اعتبار سے بہت کچھ ہے۔ بالفاظ دیگر سرمایے اور ابلاغ کے بل بوتے پر معاشرے میں جو تاثر پیدا کیا گیا ہے یہ بیچارہ اس تاثر کا اسیر ہے۔ اس اعتبار سے مغرب کی اکثریت فریب خوردہ اور کسی حد تک قابل رحم ہے۔مغرب کے اس فریب کا پردہ فاش کرنے کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ ان کے اپنے عوام کے سامنے معروضی انداز میں مغربی نظریات کا پردہ فاش کیا جائے۔

اس سلسلے میں ایک اور گزارش یہ ہے کہ مغربی نظریات سے بحث کرتے ہوئے ہمیں کوئی ایسا انداز اختیار نہیں کرنا چاہیئے کہ ایک عام شخص کے لئے یہ الجھنوں کا پلندہ بن کر رہ جائے۔ یہ ایک واضح اور بین بحث ہے اس میں فلسفیانہ موشگافیوں اور کسی نئے علم کلام کی ایجاد مغرب کو نظریاتی بقاء کا ایک موقع فراہم کرنے کے برابر ہے۔ایک مدلل اور بے لاگ انداز ہر سلیم الفطرت انسان کے لئے کشش کا باعث ہوتا ہے۔اسلام اپنے عقائد کے اعتبار سے بین ہے اور اسلام کو خالص انداز میں پیش کرنا باطل کو برہنہ کرنے کا سب سے بہتر طریقہ ہے۔

اور آخری گزارش یہ ہے کہ اسلامی عقائد اور نظریات کو وقت کے تقاضوں کے مطابق پیش کرنا کہ وہ ہر محاذ پر مغرب کا مقابلہ کرسکے خود ایک اہم ذمہ داری ہے جس سے عہدہ برآ ہونا ہر صاحب استعداد شخص کی ذمہ داری ہے۔ مغرب پر تنقید اپنی جگہ پر، لیکن مغرب اس وقت اپنا ایک نظام دنیا میں مسلط کئے ہوئے ہے۔ مغرب کا غلط ہونا بجائے خود یہ ثابت نہیں کر دیتا کہ ہم اسلام کو اس گلوبل ولیج میں نافذ کرنے کے قابل ہیں۔ اسلام کی اس انداز میں تشریح کرنا کہ وہ وقت کے ہر مرض کا مداوا بھی ہو اور پنی بنیاد اور روح کے اعتبار سے چودہ سو سال پہلے والا اسلام بھی اس امّت کی اہم ذمہ داری بھی ہے۔اسلام ہمارے تمام مسائل کا حل ہے اور آسمان سے اتری ہوئی ایک بہت بڑی حقیقت۔ لیکن اس کو ایک نظام کے طور پر عملاً نافذ کرنا خالصتاً ایک انسانی عمل ہے۔ مغرب اپنے اعتبار سے چاہے کتنا غلط ہو لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم نے تعلیم و تربیت کے ذریعے ایسے افراد کار تیار کئے ہیں جو دین کی پوری اسپرٹ کو ساتھ رکھتے ہو اسلام کو ایک متبادل نظام کے طور پر نہ صرف پیش کرسکیں بلکہ نافذ کر کے دکھائیں۔ باطل کو شکست دے کر اگر اس کی جگہ لینے کے لئے حق آگے نہ آئے تو پھر دوسرے باطل کے لئے جگہ خالی ہو جاتی ہے۔ یہ تاریخ کا ایک تلخ ترین سبق ہے جس کو نظر انداز کر دینا نہ صرف اس امّت کے لئے بلکہ ساری انسانیت کے لئے ا ایک تازیانہ ہوگا۔

تحریر ابوزید، بشکریہ سہ ماہی ایقا