مغرب اور ہم-تاریخی و جغرفیائی پس منظر

کوئی اگر سوال کرے کہ وہ کونسی قوم ہے جس کے ساتھ پچھلے چودہ سو سال سے عالمِ اسلام کی مسلسل جنگ ہو رہی ہے، بغیر اس کے کہ اس جنگ میں کوئی ایک دن کا بھی وقفہ آپایا ہو، تو اس کے جواب میں ’روم‘ کے علاوہ شاید آپ کسی بھی قوم کا نام نہ لے سکیں! تو پھر کیا یہ ضروری نہیں کہ اس جنگ کا نقشہ جو آج بھی نہیں رکی بلکہ ہمارے خلاف انکی یہ جنگ آج ایک بھیانک ترین رخ اختیار کر چکی ہے، ملت کے کسی فرد کی نگاہ سے روپوش نہ رہے؟

احادیث کے اندر ’روم‘ کے کئی سینگ بتائے گئے ہیں ، کہ جب ایک سینگ جھڑے تو انکا ایک اور سینگ کہیں سے برآمد ہو جائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس وقت اقوامِ روم کا وہ کونسا ’سینگ‘ ہے جو عالمِ اسلام کو پٹخ دینے کے لئے اس وقت ’روم‘ کے سر پر لہرا رہا ہے اور قدسیانِ اسلام کی جان لینے کے در پے ہے؟

بنیادی طور پر یورپ ایک بہت چھوٹا سا بر اعظم ہے، جو کہ بہت صدیاں پہلے وہاں بسنے والی گوری اقوام کیلئے تنگ پڑگیا تھا۔ طبعی بات تھی کہ یہ اقوام اپنے مسکن کیلئے نئے خطوں کی دریافت کیلئے اٹھ کھڑی ہوتیں.. مگر سوال یہ ہے کہ یورپ سے نکل کر وہ جاتیں کہاں؟!

کئی ایک مؤرخین نے سلطنتِ عثمانیہ کے جو محاسن بیان کئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ عین اس وقت جب یورپی اقوام اپنے گھروں کی تنگی کے باعث نئے خطوں کی تلاش میں تھیں، جبکہ ان اقوام کو جو قریب ترین ہمسایہ پڑتا تھا وہ سب کی سب مسلم عرب اقوام تھیں جن کی زمینیں ہتھیانے کیلئے ان یورپی اقوام کو صرف بحر ابیض پار کرکے آنا پڑتا.. اور بلا شبہہ یہ توسیع پسند قومیں اپنی بڑھتی ہوئی آبادیوں کیلئے شام، مصر، لیبیا، الجزائر، تیونس، مراکش اور ان کے مابعد پائے جانے والے ان سب زرخیز وسیع وعریض خطوں پر للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتی بھی رہیں.. ان زرخیز زمینوں پر چڑھ آنے کیلئے انکو ہمت مگر اسلئے نہیں پڑ رہی تھی کہ انکو مار بگھانے کیلئے ایک مضبوط و توانا خلافت یہاں موجود تھی، جو نہ صرف انکو ’مشرقِ وسطیٰ‘ اور شمالی افریقہ کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر دیکھنے نہ دیتی تھی بلکہ پورا یورپ افواجِ خلافت کی دھمک سے لرز رہا تھا بلکہ آدھا یورپ تو اس کے ہاتھوں تاراج ہو چکا تھا۔

بحر ابیض جس کو مؤرخ ’وہ حوض جس کے گرد تہذیب گھومتی رہی‘ کا نام دیتا ہے، گویا اس وقت خلافت کی جاگیر تھی اور اس میں کوئی اسکی اجازت کے بغیر پر نہ مار سکتا تھا۔ دنیا کے سب آباد خطوں تک یورپ کا راستہ اسی بحر ابیض سے گزرتا تھا یا پھر ایشیائے کوچک کی خشکی (حالیہ ترکی) سے جس پر کہ عثمانیوں کی اپنی خلافت قائم تھی۔ تیسرا راستہ بحر اوقیانوسAtlantic Ocean کا ہوسکتا تھا جس میں جہازرانی کرتے ہوئے پورے بر اعظم افریقہ کے اوپر سے ہزاروں میل کا ایک طویل چکر کاٹنا پڑتا تھا اور جہاں سے فوجی مہمات گزارنا تو قریب قریب ناممکنات میں تھا۔ نتییجتا یورپ اتنی صدیاں پوری دنیا سے کٹ کر اپنے اسی چھوٹے سے خطے میں دبک کر پڑا رہا۔کسی کے ہنستے بستے گھر پر قبضہ کرنا تب بڑے ہی جان جوکھوں کا کام تھا!

آخر کار مغربی اقوام کو ’نئی دنیا‘ کا رخ کرنا پڑا، جوکہ اُس وقت کے بیابان کہلا سکتے تھے۔ آج کا براعظم شمالی امریکہ، بر اعظم آسٹریلیا، جزائر نیو زی لینڈ اور کئی دیگر خطے جن اقوام کا مسکن ہیں وہ یہی یورپی اقوام ہیں جو ہمارے اسلامی مصادر میں ’روم‘ یا ’بنی الاصفر‘ کے نام سے جانی جاتی رہی ہیں اور جوکہ یورپی تاریخ، یورپی نفسیات، یورپی عصبیت اور یورپی روایات لئے، بمع بائبل و صلیب، آج یہاں مالکوں کی طرح براجمان ہیں!

خدا کا شکر کیجئے کہ تب خلافت تھی اور اسی وجہ سے ہمارا ذکر تاریخ کے اندر ’ریڈ انڈین اقوام‘ کی طرز پر نہیں ہوتا۔ البتہ ’تہذیب‘ کی دعویدار ان اقوام کی نظر میں کوئی بھی غیر قوم، جو ایک زرخیز ملک رکھتی ہو اور قدرتی وسائل سے لبریز سرزمین کی مالک ہو، صرف اور صرف ’ریڈ انڈین‘ کے طور پر دیکھی جاتی ہے! اپنے گھروں کے پھاٹک کھولنے والوں کو ’تہذیب‘ کے ان نام لیواؤں کی خیر سگالی بالآخر کتنی مہنگی پڑتی ہے، اس کیلئے ان اقوام کی تاریخ پڑھیے جو بڑی حد تک اب صرف ’تاریخ‘ میں ہی ملتی ہیں اور خاصی حد تک اب صرف ’انتھروپالوجی‘ کا موضوع ہیں!

ایک باعزت تاریخ رکھنے کیلئے آپ کو ایسے آباءسے نسبت چاہیے جو اپنی آئندہ نسلوں کیلئے اپنی میراث کا تحفظ یقینی بنانے کے معاملہ میں آخری حد تک بے لحاظ ہوں اور جو کسی کی ’اؤ بھگت‘ میں فراخدلی کی اس حد تک چلے جانے کے روادار نہ ہوں کہ بالآخر اپنا گھر بھی باہر والوں کے حوالے کر بیٹھیں، جہاں ان کی اپنی نسلیں پھر اگر رہنے کی ’اجازت‘ پائیں بھی تو ’کرایہ دار‘ بن کر!

البتہ آج ہم اپنی آنے والی نسلوں کیلئے کس قسم کے ’آباء‘ ثابت ہورہے ہیں اور اپنی نسلوں تک ان کی امانت بحفاظت پہنچانے کا کیا انتظام کر رہے ہیں، جہاں ہمارے روشن خیال اس حد تک چلے جانے پر تیار ہیں کہ ان بن بلائے مہمانوں کیلئے ملکوں کے نہیں ذہنوں کے پھاٹک تک چوپٹ کھول دیں …. آج کی اس جنگ میں، جس کو تہذیبوں کی جنگ کہا جاتا ہے، ہم اپنے وجود کے تحفظ کیلئے کیا پوزیشن لیتے ہیں، ریڈ انڈینز کی تاریخ خصوصا ریڈ انڈینز کے گورے ’مہمانوں‘ کی تاریخ پڑھتے ہوئے، ایک نظر اس پہلو سے ڈالنا بھی ہرگز نہ بھولئے گا!

پس ”اقوامِ روم“ کو ان کے دین، تاریخ اور تہذیب سمیت شناخت کرنا ہو تو آج وہ ’یورپ‘ تک محدود نہیں۔’ملتِ روم‘ یقینا اس سے بڑھ کر اب ’امریکہ‘ سے ’آسٹریلیا‘ تک جاتی ہے۔

اپنے بہت سے تاریخی خصائص، اپنی تاریخی وابستگی اور اپنی تاریخی دشمنی ان اقوام کو آج تک نہیں بھولی۔ افغانستان میں ہم پر چڑھ آنے والی فوجوں میں ”ملتِ روم“ کی کسی قوم کا جھنڈا آج آپ مفقود نہ پائیں گے۔ چاہے علامتی طور پر چند فوجی بھیجے مگر ’مقدس جنگوں‘ میں شمولیت کے تمغہ سے محروم رہ جانا ’بنی الاصفر‘ کی کسی قوم کو آج اس ’سیکولر‘ دور میں بھی قبول نہیں (’سیکولر زم‘ کی یہ احمقانہ قسم صرف ہمارے لئے ہے!) البتہ انکی ان ’مقدس جنگوں‘، جنکا دوسرا نام صلیبی جنگیں ہیں، کے بالمقابل کتنے ’مسلم ملک‘ ہیں جو ’علامتی طور پر‘ ہی یہاں اپنے پائے جانے کا ثبوت دے لیں؟ ان صلیبی پھریروں کے مد مقابل آنا تو خیر دل گردے کی بات ہے، کتنے مسلم ملک ہیں جو اپنی ”اللہ اکبر“ کی نعرہ بردار افواج کو ان صلیبیوں کے شانہ بشانہ ’مسلم باغیوں‘ کی گوشمالی کیلئے چاک و چوبند رکھے ہوئے نہیں؟

’معزز‘ مہمانوں کا اتنا خیر مقدم تو ہمارے ایمان فروش پہلی صلیبی جنگوں کے موقعہ پر نہ کر پائے تھے!

کہاں خلافت جو ان اچکوں کو دور سے مار بھگایا کرتی تھی اور کہاں آج کے یہ قومی راجواڑے جو ان صلیبی پھریروں کے نیچ پیادوں میں نام درج کروانے کیلئے اور انکے رتھوں کی راہ سے ’رکاوٹیں‘ ہٹانے کیلئے ’کسی بھی قربانی سے ہرگز دریغ نہ کرنے‘ کا عزم بار بار یوں دہراتے ہیں جیسے ایک مخلص عبادت گزار اپنے صبح شام کے اذکار کرتا ہے! دینِ محمد کے خلاف صلیب کی جنگ کو ’اپنی جنگ‘ کہتے ہوئے کیسا یہ ایک ’تحفظ‘ محسوس کرتے ہیں اور ایمان کی سرحدوں کی حفاظت پہ آمادہ مجاہدوں کو برے سے برے القاب دینے میں اپنے آقاؤں تک کو پیچھے چھوڑ دینے کیلئے کس قدر بے چین نظر آتے ہیں!

ابھی ہمارے کچھ نکتہ وروں کو اصرار ہے کہ ان راجواڑوں کو اب ’خلافت‘ اور ’دار الاسلام‘ اور ’الجماعۃ‘ ہی کا قائم مقام جانا جائے اور امتِ اسلام کو بقیہ عمر بس اب اسی ’یو این‘ سے منظوری یافتہ و ’آئی ایم ایف‘ کے باجگزار انتظام پر قناعت کروائی جائے، کہ انکے خیال میں خدا کا اس امت کے ساتھ وعدۂ نصرت (اس شرط پر کہ خود یہ خدا کی نصرت پہ آمادہ ہو) بس ایک ہی بار کیلئے تھا، جس کی میعاد ان کے بقول اب ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکی ہے!


اور اب امریکن ایمپائر

وہ سب کینہ و بغض جو تاریخی طور پر ملتِ روم ہمارے ساتھ رکھے رہی ہے اور جس کو کہ وہ اپنا مقدس ترین ورثہ جانتی ہے اور اس کے نام پر اپنی ’مقدس جنگیں‘ کھڑی کرتی آئی ہے…. مغرب کی سیادت کا پرچم یورپ سے امریکہ منتقل ہوا تو اس کے ساتھ ہی وہ سب کا سب کینہ وبغض بھی ’یورپ‘ سے ’قیادت ہائے متحدہ امریکہ‘ کو منتقل ہو گیا جو مغرب کے ہاں نسل درنسل چلا آتا رہا تھا….

ریاست ہائے متحدہ امریکہ.. ملتِ روم کا یہ وہ فرزند ہے جس سے کوئی اور چوک ہو یا نہ ہو، مسلمانوں کے ہر دشمن کو دوست اور ہر دوست کو دشمن سمجھنے میں کبھی ایک بار بھی چوک نہیں ہو پاتی۔ مسلمانوں کا کوئی ایک مفاد ایسا نہ ہوگا جس کو زک پہنچانا مغرب کے اس ’پرچم بردار‘ کو کبھی بھول گیا ہو۔جنرل اسمبلی سے لے کر سلامتی کونسل تک اور نیٹو سے لے کر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف تک، ہر جگہ اور ہر فورم پر مسلمانوں کی تباہی کا ہر منصوبہ اور ہر سارش اس کی کھلی تائید اور حمایت پاتی ہے۔

اسرائیل سے لے کر بھارت تک اور اتھیوپیا و جنوبی سوڈان سے لے کر فلپائن کے صلیبیوں اور مشرقی تیمور کے باغیوں تک مسلمانوں سے بر سرِ پیکار ہر سرکش اور ہر غاصب اس کو ’مظلومیت‘ کی داستان نظر آتا رہا اور فلسطین سے کشمیر تک اور ارٹریا و صومالیہ سے چیچنیا، مسلم تھائی لینڈ اور مسلم فلپائن تک ہر نہتی مسلم قوم اس کو ’دہشت گرد‘ اور ’عالمی امن کیلئے شدید خطرہ‘ دکھائی دیتی رہی۔

ملتِ روم کے اس حالیہ ’نقیب‘ کی حقیقتِ حال ہماری آنکھوں سے اوجھل رہی تو کچھ اس لئے بھی کہ اس کی اصل حقیقت پر ’کمیونزم کے خلاف جنگ‘ نے ایک وقتی سا پردہ تان دیا تھا۔ البتہ اس کا اصل چہرہ کوئی ہے تو وہی جس سے دنیا ’کمیونزم کے سقوط کے بعد‘ اب واقف ہو رہی ہے، اور جس میں، سوائے اسلام کے خلاف اندھی نفرت اور بغض کے، کوئی دوسرا نقش نظر تک نہیں آتا!

بے شک کمیونزم ایک بڑا اور فوری خطرہ تھا اور اس کے خلاف عالم اسلام نے جو اقدام کیا وہ بے حد ضروری تھا، اور بے شک ’روس‘ بھی اصل میں تو ملتِ روم کے ہاں سے ہی ابھر آنے والا ایک ’سینگ‘ رہا ہے، اس کے باوجود ’بنی الاصفر‘ (گوری اقوام) کا تاریخی ورثہ سارے کا سارا بلا کم وکاست’امیریکن ایمپائر‘ ہی کو منتقل ہوا ہے اور ملتِ روم کے سب تاریخی خصائص بدرجۂ اتم اسی عالمی طاقت کے حصے میں آئے ہیں، جوکہ جغرافیائی طور پر ضرور بحر اوقیانوس کے پار بیٹھی ہے مگر عملاً اس کی فوجیں اور طیارہ و میزائل بردار بحری بیڑے اس وقت سات سمندروں اور سات براعظموں کا گشت کرتے پھر رہے ہیں اور پوری دنیا خصوصاً عالم اسلام کو اپنی جکڑ میں رکھنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں۔

چنانچہ یہ ایک طبعی بات تھی کہ کمیونزم سے نمٹنے کا ’عبوری دور‘ گزارتے ہی یہ معاملہ وہیں پر آرہتا جہاں پر یہ پچھلے چودہ سو سال سے ہے اور یہ کہ جس جگہ پر یہ لوگ ’عالمی جنگوں‘ کے چھڑ جانے کے باعث ہمیں چھوڑ کر گھر جانے پر مجبور ہوئے تھے اور اس کے ساتھ ہی پھر روس کے ساتھ چھڑ جانے والی ان کی سرد جنگ نے ہمارے کچھ عشرے نکلوا دئیے تھے، جس سے ہمیں اپنی صفیں درست کرلینے کا کچھ تھوڑا سا موقعہ ہاتھ آگیا تھا…طبعی بات تھی کہ ’روس‘ وغیرہ سے فارغ ہوتے ہی یہ ہمیں وہیں سے آکر پھر دبوچ لیں اور عالم اسلام کے اندر اپنے اسی ایجنڈے کی تکمیل پر از سر نو جت جائیں جس میں کچھ ’مجبوریوں‘کے باعث کوئی صدی بھر کا تعطل آگیا تھا اور جس میں سر فہرست اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہمارے تہذیبی خدوخال مسخ ہوکر رہ جائیں، اپنی فکری اور تاریخی بنیادوں کے ساتھ ہمارا رشتہ نام کو بھی باقی نہ رہے اور پھر خصوصاً یہ کہ ”خلافت“ کا امکان اس امت کے اندر اب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے کیونکہ ’خلافت‘ ایک ’ڈراؤنا خواب‘ ہے جو آج اگر قائم ہوجاتی ہے تو ان کو ڈر ہے کہ کمزور قوموں کے وسائل ہڑپ کرنے اور ’تیسری دنیا‘ کے اندر لوٹ مچانے کی آزادیاں تو رہ گئیں ایک طرف، یہ (خلافت) ان کو بحر اوقیانوس Atlantic Ocean کے دوسرے پار چھوڑ کر آئے گی، وہ بھی اگریہ ان کے ساتھ ’پورا پورا حساب‘ کرنے پر نہ آئی ورنہ ’خطرہ‘ اس سے بھی کہیں بڑا ہے!

”خلافت“ چونکہ ایک ایسا ادارہ ہے جو ایمان اور جہاد کی ایک خاص فضا میں قائم ہوتا ہے اور مسلم معاشروں کے، اسلامی تربیت اور تہذیبی پختگی کی ایک خاص سطح کو پہنچا ہونے کی عکاسی کرتا ہے، لہٰذا ”خلافت“ کے قیام کا امکان ختم کردینے کا راستہ صرف اور صرف یہاں سے گزرتا ہے کہ اس امت کے اندر ایمان، عقیدہ، علم اور تربیت کے سب سوتے خشک کردئیے جائیں، اس امت کو قرآن کا نام تک بھول جائے اور ”جہاد“ کا لفظ تو مسلمانوں کی قاموس سے ہی خارج کر دیا جائے کیونکہ جب بھی ”ایمان، عقیدہ، علم اور تربیت“ کے عمل نے ”جہاد“ کو جنم دیا اور یہ واقعہ امت میں کسی بڑی سطح پر رونما ہونے لگا ”خلافت“ کے سوا اس کی طبعی منزل تب کوئی ہو سکتی ہے اور نہ کسی مسلمان کے ذہن میں اس کے سوا کوئی بات فٹ بیٹھتی ہے۔ کیا یہ بات ان کے لئے پریشان کن نہیں کہ دین کی طرف آنے والا ایک معمولی فہم کا مالک مسلمان بھی ”خلافت“ کے سوال پر بہت جلد پہنچ جاتا ہے اور ”تاریخ“ پڑھنے والا تو ہر شخض یہ پوچھنے بیٹھ جاتا ہے کہ آخر یہ ”خلافت“ کیا چیز تھی؟!

آج ہمارے مدرسوں اور تعلیمی نظاموں کی بابت اس قدر گہری تشویش اسی ’خوف‘ کی علامت ہے اور اس کو کسی چھوٹے سیاق minor context میں لینا ہماری ایک بڑی غلطی ہوگی ۔ بعید نہیں ہمارے ’تعلیمی نصاب‘ کسی وقت ان کی جنگوں یا کم از کم ان کی پابندیوں sanctionsکی بنیاد بن جائیں۔ علاوہ ازیں میڈیا خصوصا ٹی وی کے نجی چینل اپنی تہذیبی جہتوں کے لحاظ سے قریب قریب آج یہاں یہودی ایجنڈے کا ہی دوسرا نام ہیں، جس پر ان کی محنت اس وقت دیدنی ہے۔ یہاں تک کہ یہاں کے زیادہ مقبول چینلوں پر ’اسلام‘ کے نام پر دی جانے والی تفیہم بڑی حد تک انہی کے مقاصد پورے کرتی ہے، خواہ وہ حقیقتِ دین کو مسخ کرنے اور اس امت کو اس کے علمی وفکری مسلمات سے محروم اور قرونِ سلف سے برگشتہ کرنے کے معاملہ میں ہو، خواہ بے دینی کو اسلام کے ’دلائل‘ سے لیس کرنے کے معاملے میں،خواہ مسلمانوں کے اندر ”امت“ کا تصور ختم کرنے کے موضوع پر، خواہ ’رواداری‘ کے باطل مفہومات پڑھانے، ولاءو براءکے عقیدہ کا خاتمہ کروانے بلکہ وحدتِ ادیان کی راہ ہموار کرنے کے معاملہ میں، اور خواہ ”جہاد“ کو ’اسلام سے انحراف‘ ثابت کرنے کے ’شرعی دلائل‘ دلوانے کے معاملہ میں.. اسلام کا یہ جدید ’ایڈیشن‘ عین وہ مقاصد پورے کرتا ہے جو مسلمانوں کو اپنی ایک اجتماعی قوت وجود میں لانے سے ہر قیمت پر روک دینے کا عمل یقینی بنائیں۔ سب جانتے ہیں مسلمانوں کی ایک اجتماعی قوت کے وجود میں آنے کا ہی دوسرا نام ”خلافت“ ہے۔

چند اچھی کوششوں کو چھوڑ کر، باقی سب کچھ جو ’میڈیا‘ کے نرسنگے میں اس وقت پھونکا جا رہا ہے وہ اسی ایجنڈے کا حصہ ہے جو ایک خاص شیطانی منصوبہ بندی اور کمال تیز رفتاری کے ساتھ یہاں آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ جتنا ان لوگوں کے پاس وقت کم ہے ، اس کے پیشِ نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ عنقریب یہاں بڑے انقلابی revolutionary steps لئے جائیں گے۔ اب وہ وقت نہیں کہ مسلمانوں کے ’جذبات‘ کا خیال کرتے ہوئے اپنے کام کو یہ بلا ضرورت مؤخر کرتے جائیں اور عشروں کے حساب سے وقت مزید ’ضائع‘ کریں!

بہر حال میڈیا کے اندر اگر ہماری اسلامی قوتیں ایک بھر پور ایجنڈا لے کر آگے آتی ہیں تو یہ ایک زبردست اور بر وقت کام ہوگا، خصوصا جبکہ ان کو سننے کیلئے زمین آج جس قدر تیار ہے اتنی اس سے پہلے شاید کبھی نہ تھی۔ حقیقت تو یہ ہے دنیا آج امریکہ کو سننے کیلئے نہیں بیٹھی بلکہ اسلام کو سننے کی منتظر ہے۔


نیا عالمی دور-عالمی بساط سے ظالموں کا پسپا ہونا ٹھہر گیا:

امریکہ کے معروف مفکر فرانسس فوکویاما نے کمیونزم کے سقوط پر بغلیں بجاتے ہوئے کچھ عرصہ پہلے ایک تصنیف شائع کی تھی: The End of History یعنی ’تاریخ کا اختتام‘۔ سیموئیل ہنٹگٹن کی کتاب Clash of Civilizations یعنی ’تہذیبوں کا تصادم‘ کے بعد شاید یہ دوسری کتاب ہے جو مغرب میں اس موضوع پر ایک غیر معمولی مقبولیت پا چکی ہے۔ فرانسس فوکویاما نے سوویت یونین کے بالمقابل امریکی جیت پر جو شیخی بگھاری، اس کا لب لباب ہم اپنے الفاظ میں کریں توکچھ یوں تھا:

” مغربی ڈیموکریسی جیت چکی ہے۔ اس کی جیت کے ساتھ دراصل امریکہ اور مغرب کی جیت ہوئی ہے۔ دنیا کے پاس مزید انتظار کےلئے اب اور کچھ نہیں رہ گیا۔ دنیا کو جو کچھ ‘نیا‘ دیکھنا تھا وہ دیکھ چکی یعنی مارکسزم کا خاتمہ ، سوویت یونین کا ٹوٹ کر بکھرنا ، اور آزاد لبرل ڈیموکریسی کا دنیا میں چہار و انگ شہرہ۔ یعنی یہ ڈیموکریسی اب مشرقی بلاک کے ان ملکوں میں بھی اپنا لو ہا منوار ہی ہے جو کمیونزم کے نظام میں جکڑے ہوئے تھے۔ چنانچہ اب تاریخ کا دروازہ بند ہوتا ہے آج کے بعد اب اور کچھ ’نیا‘ نہیں ہونے والا۔ اگر کچھ ہوگاتو یہی کہ اسی نظام میں کہیں کہیں معمولی اصلاحات اور تبدیلیاں کی جاتی رہیں“!

فوکویاما کی اس تصنیف کے جواب میں، آج سے کوئی ایک عشرہ پیشتر، ڈاکٹر سلمان العودۃ نے اسی عنوان سے ایک رسالہ قلمبند کیا تھا۔ یہاں ہم اس رسالہ کے چند اقتباسات نقل کریں گے، جوکہ ہم دیکھیں گے کہ ایک عشرہ گزر جانے کے بعد اب اور بھی کس قدر حقیقت بنتا نظر آرہے ہیں۔( از رسالہ (نہایۃ التاریخ) ”تاریخ کا اختتام“، مؤلفہ شیخ سلمان العودۃ، رسالہ کی اردو تلخیص سہ ماہی ایقاظ کے شمارہ نمبر 5، جون 2002ء میں دی جا چکی ہے۔)

٭ کمیونزم کو ستر سال سے زیادہ عمر بھی نصیب نہ ہوئی۔ ستر سال، جو کہ ایک عام انسان کےلئے تو مناسب عمر ہے مگر ایک ملک یا ایک امت یا ایک نظریے کےلئے ہرگز نہیں! ویسے ہی شفلنجر کی مغرب کے انحطاط کی پیشین گوئی ہے ….

امریکہ نے عالمی منظر نامے پر ایک غیر معمولی سرعت سے ظہور کیا ہے۔ بطور عالمی طاقت اورعالمی قیادت، امریکہ صرف دوسری عالمی جنگ کے بعد جانا جانے لگاہے۔ یعنی اس لحاظ سے اس کی عمر ابھی پچاس ساٹھ سال سے زیادہ نہیں بنتی جس کے دوران یہ عالمی پولیس مین بن بیٹھا ہے….

چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ امریکہ ایک غیر معمولی تیزی سے اوپرآیا ہے۔اس لیے یہ حیرت انگیز نہ ہوگا کہ امریکہ نیچے بھی اسی تیزی سے جائے.. جیسا کہ بعض تحقیقات اور تجزیے یہ امکان ظاہر کر بھی رہے ہیں….

مزید برآں، کمیونزم کے دریا بر د ہوجانے کے ساتھ ہی عالم اسلام میں کمیونزم کی دم چھلہ حکومتیں بھی دھڑام سے گر گئی تھیں۔ کمیونسٹ پاریٹاں ، کمیونسٹ مفکر ، کمیونسٹ عناصر سب روپوش ہوئے اور اکثر تو مغرب کی جھولی میں جا گرے تھے۔ چنانچہ آج ان سب لوگوں کو خبردار کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے اپنا وجود مغرب کے وجود سے وابستہ کرلیا ہے، جن کی سیاست کی سب گرہیں اب مغرب سے کھلتی ہیں، جن کی اقتصاد کی سب تاریں اب مغرب سے ہلتی ہیں، جن کے سب فیصلے مغرب کے فیصلوں کے زیر نگیں بلکہ مغرب کے زیر فرمائش ہوتے ہیں اور جو کہ مغرب سے بھی بڑھ کر مغربی ہیں اور جو کہ عالم اسلام اور اقوام اسلام پر خود مغرب سے بھی بڑھ کر بوجھ بن چکے ہیں.. ان سب کو ہم اللہ تعالی کا یہ فرمان سنا کر خبردار کردینا چاہتے ہیں:

فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَى أَن تُصِيبَنَا دَآئِرَةٌ فَعَسَى اللّهُ أَن يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِ فَيُصْبِحُواْ عَلَى مَا أَسَرُّواْ فِي أَنْفُسِهِمْ نَادِمِينَ ( المائدۃ: 52)

”پس تم دیکھتے ہو وہ لوگ جن کے دلوں میں (نفاق کا) مرض ہے آج وہ اُن (یہود و نصاریٰ) سے (تعلقات بنانے) میں دوڑ دوپ کرتے پھرتے ہیں، کہتے ہیں ہمیں خدشہ ہے ہم پر کوئی برا وقت نہ آن پڑے۔ مگر بعید نہیں کہ اللہ جب (مسلمانوں کو) فیصلہ کن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا تو یہ لوگ اپنی اس (ساز باز) پر جسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں، نادم ہونگے“

ان سبھی لوگوں کو ،بلکہ سب مسلمانوں کو، خبردار کردینے کی ضرورت ہے کہ انسانیت کے سامنے اللہ کی پناہ میں آجانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا اور یہ کہ انسانیت کے سامنے اس ’اسلامی حل‘ اور ’اسلامی متبادل‘ میں پناہ پالینے کے سوا کوئی جائے فرار نہیں جو رب العالمین نے واجب ٹھہرایا ہے اور یہ کہ اس سے افراد کےلئے کوئی جائے رفتن ہے اور نہ حکومتوں کےلئے۔

٭ روئے زمین پر ایک مسلمان ہی ہیں جو دنیا کو متبادل دینے پر قدرت رکھتے ہیں.. اور وہ اس دین اورمنہج کی صورت میں جو اللہ کے ہاں سے نازل شدہ ہے..

چنانچہ ایک مسلمان ہی ہیں جو اسلامی عدل کی بنیاد پر اقوام عالم کا ایک نظام قائم کر سکتے ہیں، اقتصاد کی الجھی گتھیاں صرف مسلمان سلجھا سکتے ہیں ، سود کا شرعی متبادل صرف انہی کے پاس ہے، مشرق اور مغرب کے سب معاشرے جس ہولناک فساد اور انحطاط کا شکار ہوچکے ہیں اسلام کے پیروکار ہی انہیں اس سے نجات دلاسکتے ہیں، خانگی نظام کی تباہی کا حل صرف ان کے پاس ہے، نوجوان جس طرح تباہ ہورہے ہیں ان کو راہ راست پر لے آنا صرف اہل اسلام کےلئے ممکن ہے، اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں کے پاس وہ نظریہ ہے جوانسان کے قلب و ذہن اور فکر و شعور کو یقین اور اطمینان سے سرشارکرتا ہے اور جس سے انحراف اختیار کرلینے پر انسانی ذہن کرب و اندیشہ اور سرگردانی کا شکار ہوجاتا ہے….

مسلمان اِن سبھی خزانوں کے مالک ہیں اور انہی کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ان کو عملی طور پر اور واقعاتی انداز میں بھی دنیا کو پیش کرکے دکھائیں اور نظریاتی تحقیقات کی صورت میں بھی ۔ مگر صورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں کے اپنے عیوب نے اسلام کے ان سب حسین پہلوؤں کو چھپا رکھا ہے ۔ مسلمانوں کی علمی پسماندگی، دینی غفلت، دعوت الی اللہ کے فریضہ کو طاق نسیاں میں رکھ دینا، آپس میں تفرقہ، اختلاف اورپھر مغرب کے پیچھے چل پڑنا.. ان سب باتوں نے مغرب کو یہ باورکرادیا ہے کہ مسلمانوں کے پاس دنیا کو دینے کےلئے واقعی کچھ نہیں۔ کیونکہ اگر ان کے اپنے پاس کچھ ہوتا تو آج یہ خود فکر مغرب کے ٹکروں پر نہ پل رہے ہوتے اور نہ ہی یہ سر تا پیر مغرب کے مقلد اور مغربی تہذیب کے خوشہ چین ہوتے۔

٭ ہم یہ موضوع اس لیے بھی اٹھانا چاہتے ہیں کہ ان اسلامی مفادات کا تحفظ ممکن ہوسکے جو کسی وجہ سے مغرب کے ساتھ وابستہ کرا دئیے گئے ہیں چاہے وہ مسلمانوں کے اقتصادی مفادات ہوں یا سیاسی یا انتظامی یا ابلاغی یا تعلیمی۔ مسلمانوں کو پور ی طرح اس گڑھے کا ادراک ہو جانا چاہیے جس میں گرنے کےلئے مغرب سر پٹ بھاگ رہا ہے۔ یہ ادراک ہوگا تو ہی وہ مغرب کے ساتھ بھاگتے رہنے یا اس کے نرغے میں آئے رہنے سے چھٹکارا پاسکتے ہیں۔

٭ اور پھر آخر میں ہم اس مضمون کواس لیے بھی چھورہے ہیں کہ ہمارے خیال میں یہ اللہ کے اس فرمان کاتقاضا ہے:

وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا (الاحزاب :22)

”اور سچے مومنوں(کا حال اس وقت یہ تھاکہ) جب انہوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور ا س کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اللہ اور اسکے رسول کی بات بالکل سچی تھی“

غزوۂ احزاب میں سچے مسلمانوں نے اپنے دین کی حقانیت اور اپنے روشن مستقبل پر یقین کا اظہار یونہی خطرات کی آندھیوں اور اندیشوں کے طوفان کے مد مقابل کھڑے ہوکر کیا تھا۔

ہم بھی پور ے وثوق کے ساتھ یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ: امریکہ بھی خدائی قانون کے نرغے میں اسی طرح آئے گا بلکہ یورپ اور مغرب بھی اسی طرح اللہ کے فطری قانون کی زد میں آئے گا جس طرح اور لوگ اس کی زد میں آتے رہے ہیں اور ایسا بہت جلد ہونے والا ہے۔

اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ’ ایسا جلد ہونے والا ہے’ تواس سے ہمارا یہ مطلب نہیں کہ مغرب کے اوندھا ہو کر گر پڑنے کی خبر سننے کےلئے آپ اپنے ریڈیو کی سوئی گھمانا شروع کردیں۔ قوموں کی زندگی میں سال لمحوں کی طرح گزر ا کرتے ہیں۔

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ(الحج:47)

” یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی مچارہے ہیں۔ اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہیں کریگا،مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تمہار ے شمار کے ہزار برس کے برابر ہو اکرتا ہے“

٭ آج جو سقوطِ مغرب کی بات کرتا ہے وہ ایسا ہی ہے جو کسی بت کے حصے بخرے کرکے اس کی پوجا کرنے والوں پر اس بت کی حقیقت واضح کرتا ہے کہ یہ تو محض بے حس و حرکت بت ہے جو نفع یا نقصان پہچانے کی سکت سے عاری ہے۔ جبکہ مسلمانوں کی ایک خاصی بڑی تعداد ابھی تک مغرب کے طلسم میں گرفتار ہے اور مغرب سے منفرد رہنے کی سکت سے عاری۔

ایک وقت تھا جب مغربی طرز زندگی کی جانب دیکھ کر لوگوں کی نظریں خیرہ ہوجایا کرتی تھیں۔ اس کی تہذیب کی طرف یوں دیکھا جاتا تھا جیسے یہ دنیا کی سب سے اعلیٰ تہذیب ہے ۔ اسکی قوت کی جانب یوں دیکھا جاتا تھا جیسے ہمیشہ اسی کو غالب رہنا ہے۔ اور اس کی ترقی یوں لگتی تھی گویا یہ لا زوال ہو۔یہ وہ وقت تھا جب اس کے سقوط اور انحطاط کی بات تک کی کہیں گنجائش نہ تھی۔ بہت ہی تھوڑے اہل بصیرت تھے جنکی نگاہیں اس کی چکا چوند سے آگے گزر کر اور اس کے فکری حصار سے آزاد ہوکر اس کے پیچھے چھپی حقیقت صاف دیکھ سکتی تھیں۔سیدقطبؒ کا شما ر بھی انہی اہل بصیرت میں ہوتا ہے جنہوں نے ایک زمانہ پیشتر اپنا مشہو ر عام مقالہ انتہیٰ دورُالرجل الأبیض یعنی ’ گور ے انسان کا دور ختم ہوا‘ تحریر کیا تھا اور اس وقت مغربی تہذیب کے قربِ انہدام ہونے کااعلان کرتے ہوئے مسلمانوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش تھی کہ اب آئندہ متبادل وہ بنیں اور اسلام کی صورت میں دنیا کو اس بد بختی سے نجات کےلئے حل پیش کریں۔

٭ اور تو اور مغربی ڈیموکریسی کی بعض اشکال ہی بعض ماہرین سیاست کو امریکہ کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ بنتا دکھائی دے رہی ہیں۔ چنانچہ امریکہ کے قومی سلامتی کے ایک سابقہ مشیر برزنسکی نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے ’برتری کے دائرے سے پرے‘، برزنسکی اپنی اس کتاب میں لکھتا ہے :

” کمیونزم کے بعد وجود میں آنے والی دنیا ایک خطرناک دنیا ہے ۔یہ ایک پریشان اور کشیدہ دنیا ہے۔ ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ان خطرات کا ادراک کرلیں جو مغربی ڈیموکریسی سے جنم لے سکتے ہیں۔ کیونکہ امریکہ میں اس سے ایک طرح کی بے قید اور مادر پدر آزاد روش پیدا ہوگی۔ جہاں ہر بات جائز ہوگی اور ہر چیز کی اجازت۔جس کے نتیجے میں افراد کے مفادات آپس میں ٹکرا ئیں گے اور یہ صورتحال شخصی انانیت میں بہت بڑے اضافے کا باعث بنے گی اور اس سے معاشرے میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل بھی بڑھے گا اور ایک بڑے خطرے کی گنجائش بھی“

برزنسکی کے الفاظ میں یہ ایک ایسی دنیا ہے جو کمیونزم کے فلاپ ہوجانے کے بعد، اپنے رونما ہونے کیلئے، بری طرح جوش کھارہی ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس شخض یعنی برزنسکی نے لگ بھگ1987ہی میں کمیونزم کے سقوط کی پیشین گوئی کردی تھی جیسا کہ اس کی کتاب ”سقوط عظیم“ سے ظاہر ہوتا ہے۔

ہم اپنی بعض گزشتہ تحریروں میں کہہ چکے ہیں۔ ( کتاب: روزِ غضب ، زوالِ اسرائیل پر انبیاءکی بشارتیں، توراتی صحیفوں کی اپنی شہادت )

بظاہر کئی ایک المیے اور سانحے ہیں مگر وہ ایک ایسے اسٹیج کی راہ ہموار کر رہے ہیں جو دنیا کے لئے بے حد حیران کن ہے۔ قریب ہے کہ زمین کے سینے پر چڑھ بیٹھنے والی کئی ایک جابر قوتوں کے اب کسی بھی وقت گھٹنے لگ جائیں، جس کے ساتھ ہی ظلم اور نظامِ سرمایہ داری کے پنجوں میں سسکتا عالمی توازن ایک نیا رخ اختیار کر لے۔ استحصالی نظام کی جس چٹان سے ٹکرا کر سوشلزم اور کمیونزم پاش پاش ہو چکے،اور جس کی جکڑ میں عالمِ انسان کا قریب قریب ہر فرد کراہ رہا ہے…. الرَّاكِعُونَ السَّاجِدونَ الآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللّهِ (التوبہ: 112: ”رکوع کرنے والے، سجدے کرنے والے، امر بالمعروف کرنے والے، نہی عن المنکر کرنے والے، اور اللہ کی حدوں کے محافظ“) کے صبر آزماو خدا آشنا عمل کے اثر سے، قریب ہے اب ظلم کی وہ سنگلاخ چٹان زائل ہوتی دیکھی جائے۔

پورے جہان کو چھوڑ کر اور کوئی ڈیڑھ دو سو ملکوں کو بیچ سے نظر انداز کرتے ہوئے، سات سمندر پار بیٹھے ایک ’دور دراز ملک‘ ہی کے خلاف مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک آج اسلامی جذبہ ایک لاوے کی طرح کھول رہا ہے، تو کیا اس کی کوئی بھی ’وجہ‘ نہیں؟!!

یہ ساری جنگ اور مزاحمت جو اسلامی دنیا کا آج کا قابل ذکر ترین واقعہ بن چکی بلکہ زمانے بھر کا موضوع بن گئی ہے، اسی وجہ سے تو ہے کہ ملتِ روم کا یہ بے قابو سینگ تاریخ کی ایک بدترین ہڑبونگ مچاتے ہوئے ہمارے گھروں میں گھس آیا اور ہمارے فکری و مادی وجودہی کے در پے ہوا ہے۔ امریکی کار پرداز اگر اپنے آپ کو ملتِ روم کی اس خدمت سے سبکدوش کرلیتے ہیں جس کی رو سے ان کو ایک چودہ صدیاں پرانی دشمنی نبھانا اور اسلام کے خلاف ’بنی الاصفر‘ کی قدیم سے جاری اس جنگ میں قیادت کا باقاعدہ علم اٹھاکر چلنا ہے…. تو ہماری بھی اولین ترجیح ان کو اپنا ہدف بنا رکھنا نہیں ہوگا۔ ہم اپنے کام سے کام رکھیں، اسی بات سے مشروط ہو سکتا ہے کہ اٹلانٹک پار کے ایک ملک کی انتظامیہ بھی اپنے ہی کام سے کام رکھے اور اپنے ہی خطے سے اپنا کل سروکار۔

اس نئے منظر نامے میں، جہاں ہر امت، ہر معاشرہ اور ہر نظریہ دیوالیہ ہو جانے کی آخری حد کو چھو چکا اور باطل کے بیشتر زنگ آلود ڈھانچے ڈھ جانے کو آپ سے آپ تیار بیٹھے ہیں، اور جہاں دنیا بڑی ہونے کے باوجود سمٹ کر ایک بستی بن گئی ہے…. اس نئے منظر نامے میں اسلام کی پیش قدمی کیلئے کون کون سے افق سامنے آنے والے ہیں کہ جن کا تصور بھی ابھی لوگوں کیلئے شاید ممکن نہیں، آنے والے اس مرحلے کی بابت جاننے کی سب سے دلچسپ اور سب سے خوبصورت بات در اصل یہی ہے، اور ہمارے اس سارے صبر اور محنت اور استقامت کو مہمیز دیے رکھنے کا اصل باعث بھی بس یہی ہے!

تحریر حامد کمال الدین