معتزلین و ملحدین کے مفروضات کے رد کے لیے امام غزالی نے جو عمومی طرز استدلال اختیار کیا اسے “داخلی تنقید” (internal criticism) کا منہج کہا جاتا ہے۔ اسکے مدمقابل نقد کا دوسرا عمومی طریقہ ”خارجی تنقید” (external criticism) کہلاتا ہے۔
خارجی تنقید کا مطلب ایک نظرئیے کو کسی دوسرے نظریاتی فریم ورک کے معیارات سے جانچ کر رد کرنا ھوتا ہے۔ مثلا اگر ہم مغربی تصورات کو قرآن و سنت پر پرکھ کر رد کریں تو یہ خارجی نقد کہلائے گا۔
داخلی نقد کا مطلب کسی نظرئیے کو خود اسکے اپنے طے کردہ پیمانوں پر جانچ کر رد کرنا ہوتا ہے۔ اس طریقے کے تحت چند طرح سے تنقید کی جاتی ہے: (i) فریق مخالف کے مفروضات یا دعووں میں تضاد ثابت کرنا، (ii) یہ ثابت کرنا کہ انکے طے شدہ مقدمات سے لازما انکے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ (iii) مفروضات کی لغویت ثابت کرنا وغیرہ۔
چنانچہ امام نے تہافت الفلاسفہ (Incoherence of Philosophers) میں رداعتزال و فلسفہ کیلئے داخلی نقد کا منہج بطور خاص ہتھیار استعمال کیا (امام سے پہلے اعتزال کے خلاف اسلامی دنیا میں اس طریقے کو اتنے منظم انداز سے کسی متکلم نے استعمال نہیں کیا تھا)۔ امام اس بات کی بطور خاص تاکید کرتے ہیں کہ الحادی مفروضات کو مذہبی پیمانوں پر جانچ کر رد کرنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ مذہب اور الحاد کے علمی تناظر (مفروضات، مقاصد اور نتائج اخذ کرنے کے طریقہ کار) میں بنیادی نوعیت کا فرق ہوتا ہے، لہذا الحاد کو رد کرنے کا درست طریقہ اس پر داخلی تنقید کرنا ہوتا ہے۔ چنانچہ امام یہ خصوصی وضاحت فرماتے ہیں کہ جو لوگ مذہبی نصوص کو الحادی ڈسکورس رد کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں وہ نہ صرف مذہب کا نہایت کمزور مقدمے کی بنا پر دفاع کرتے ہیں بلکہ الٹا اسے نقصان بھی پہنچاتے ہیں
٭کس سے بحث کریں اور کس سے نہیں؟
امام ”ایہا الولد” میں فرماتے ہیں: ”خوب جان لے (میرے بیٹے) کہ جاھل لوگ ایسے مریضوں کی مانند ھوتے ہیں جن کے دلوں میں خامی ھے اور عالم طبیبوں کی مانند ہیں…..لاعلاج بیماری کے علاج میں مشغول رھنا وقت کا ضیاع ھے۔ اب تو سمجھ کہ جاہل مریض چار قسم کے ھوتے ہیں، ان میں سے ایک کا علاج ممکن ھے باقی تین لاعلاج ہیں۔
1۔ پہلا وہ جو حسد کی وجہ سے سوال پوچھے یا اعتراض کرے۔ حسد ایک ایسی مہلک بیماری ھے (بحث) جس کا علاج نہیں، تو جو بھی جواب دے گا خوہ وہ کتنا ہی عمدہ کیوں نہ ھو لیکن وہ تجھے اپنا دشمن شمار کرے گا اور اسکی جلن اور حسد کی آگ مزید بھڑکے گی (لہذا وہ اسمیں نکتہ سازی جاری رکھے گا)۔ اس کا مداوا یہ ھے کہ اس حاسد کو تو چھوڑ دے
2۔دوسرا مریض وہ ھے جسکی بیماری کا سبب اسکی حماقت یا بیوقوفی ھے۔ جاہل احمق وہ ھے جو علم حاصل کرنے میں بہت کم وقت صرف کرتا ھے، نہ ہی علوم نقلیہ و عقلیہ کی ابھی ابتداء کی لیکن بڑے بڑے علماء پر اعتراض کرتا ھے…..اسے معلوم ہی نہیں کہ اسکا یہ اعتراض فضول ھے اور اس بڑے عالم کی علمی گہرائی کو اس نے سمجھا ہی نہیں۔ تو جب وہ یہ سب سوچ ہی نہیں سکتا تو یہ اعتراض و سوال اسکی نادانی ھے۔ ایسے شخص سے بھی الگ رھنا چاہئے اور اسے جواب نہیں دینا چاھئے۔
3۔تیسری قسم کا بیمار وہ ھے جو اپنی بے قراری و بے صبرے پن کی وجہ سے اہل علم کی باتیں نہ سمجھے اور اپنی کم عقلی پر بھروسہ کئے رھے۔ ایسا شخص بھولا اور بے عقل ھوتا ھے اور اسکا ذھن حقائق کو سمجھنے سے قاصر ھوتا ھے۔ اسے بھی جواب دینا ضروری نہیں (یہاں امام کا اشارہ غالبا علم کی دنیا کے مبتدی کی طرف ھے، واللہ اعلم)
4۔چوتھی قسم کا بیمار وہ ھے جو صراط مستقیم کا طلب گار ھو، فرمانبردار اور ذکی ھو، اسمیں غضب، نفس پرستی، حسد اور دولت کی جاہ نہ ھو۔ پس جو راہ حق کا متلاشی ھو اور سوال یا اعتراض حسد، عیب جوئی یا امتحان لینے کی غرض سے نہ کرے ایسا ہی شخص وہ مریض ھے جسکا علاج کیا جاسکتا ھے۔ چنانچہ اس شخص کے سوال کا جواب دینا نہ صرف جائز بلکہ واجب ھے”
٭ ایمان عقلی دلیلوں (کلام) میں محصور نہیں :
”جو شخص یہ گمان کرتا ھے کہ ایمان کا ماخذ علم کلام، مجرد دلیلیں اور وہ منطقی تقسیمات ہیں جو علم کلام میں مرتب ہیں تو وہ شخص راہ راست سے دور ھے۔ ایمان ایک ایسا نور ھے کہ اللہ اس کو اپنے بندے کے دل میں بطور عطیہ اور ھدیہ کے کبھی تو ایک ایسی باطنی تنبیہہ کے ذریعے القا کرتا ھے کہ جسکی تعبیر ممکن نہیں، اور کبھی بذریعہ خواب کے دیکھنے کے اور کبھی کسی نیک آدمی کے حال کے مشاھدے اور اسکی صحبت کے ذریعے سے اسکی طرف نور ایمان کی سرایت ھوتی ھے اور کبھی قرینہ حال کے ذریعے ….. اس امر کا انکار نہیں کہ متکلمین کی طرف سے عقلی دلیلوں کا ذکر کرنا بعض انسانوں کے حق میں ایمان کیلئے ایک سبب ھے مگر ایمان کا حصول محض انہی ادلہ متکلمین پر موقوف نہیں۔ سب سے نفع آور کلام وہ ھے جو طریقہ وعظ پر جاری ھو جیسے کہ قرآن، مگر جو کلام طریقہ متکلمین پر تحریر کیا گیا ھے وہ طریقہ وعظ نہیں بلکہ طریقہ جدال پر ھے تاکہ مخالفین اس سے عاجز آجائیں نہ اس لئے کہ وہ نفسہہ حق ھے۔ اور بعض اوقات علم کلام عام آدمی کیلئے عناد قلبی کے استحکام کا ذریعہ بن جاتا ھے اور یہی وجہ ھے کہ تو کبھی متکلمین یا فقہاء کے مناظروں میں کسی شخص کو اعتزال یا بدعت سے تائب ھوتا نہیں دیکھتا …… وہ ایمان جو کلامی دلیلوں سے حاصل ھوتا ھے ضعیف اور ہر نئے شبہ سے تزلزل کے کنارے پر واقع ھوتا ھے۔ ایمان محکم وہ ھے جو عوام الناس کو زمانہ طفولیت میں تواتر سماع یا بعد از بلوغ ایسے قرآئن سے حاصل ھوتا ھے جنکی تعبیر ممکن نہیں۔ اور ایمان کا پورا پورا محکم ھونا عبادت اور ذکر الہی سے ھوتا ھے ….. ور اسکی نشانی (بحوالہ حدیث) دار غرور سے کنارہ کشی اور دار خلود کی طرف مائل ھونا ھے”(‘التفرقۃ بین الاسلام و الزندقۃ’)
٭عقل، نبی و مابعدالطبعیات کا تعلق :
یہ بات واضح ہے کہ عقل مابعدالطبعیاتی حقائق کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کوئی بھی حکم لگانے سے قاصر ہے، چاہے اثبات میں ہو یا نفی میں۔ یعنی جس طرح خدا آخرت وغیرہ کو عقلی دلائل کی مدد سے قطعیت کے ساتھ ثابت نہیں کیا جاسکتا اسی طرح عقلی دلائل سے انہیں رد بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس میدان تک رسائی صرف “وحی” ہے۔ عقل نبی کے کردار و معجزات کی بنا پر نبی کی صداقت کی گواہی دیتی ہے، اسکے بعد نبی ان امور کے بارے میں جو کہتا چلا جاتا ہے اس پر مہر تصدیق ثبت کرتی چلی جاتی ہے ۔۔۔۔ یعنی نبی کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے نفس کے اندر ظنی عقلی شواہد کی بنا پر نبی کے بتائے ہوئے حقائق کی تصدیق کرتی ہے۔ اس بات کو امام غزالی (رح) نے المستصفی میں کچھ یوں بیان کیا:
“عقل نبی کی صداقت کی طرف راھنمائی کرتی ہے، اسکے بعد الگ ہوکر بیٹھ جاتی ہے اور یہ اعتراف کرتی ہے کہ اللہ اور آخرت کے بارے میں نبی جو کچھ کہے گا اسے قبول ہے کیونکہ وہ از خود انکا ادراک کرنے سے قاصر ہے اور نہ ہی انکے محال ہونے کا فیصلہ کرسکتی ہے۔ عقل اپنے طور پر اس کا ادراک نہیں کرسکتی کہ اطاعت آخرت میں سعادت کا باعث ہے اور گناہ شقاوت کا لیکن وہ اسکے خلاف حکم لگانے کی اہل بھی نہیں۔ البتہ معجزہ جس کی صداقت پر دلالت کرتا ہے اسے سچا ماننے کا فیصلہ دے سکتی ہے اور مخبر صادق جب ان امور کی خبر دے تو انکی تصدیق کرتی ہے”