مغرب سےدرپیش چیلنجزاورکرنےکےکام

نظام تعلیم کی دینی بنیاد:

ہمیں جو چیزیں فوری طور پر علمی چیلنجز کا سامنا کرنے کیے لیے سیکھنی چاہیے وہ یہ اصول ہے کہ دین کا علم بھی اُسی ذہن سے بہتر طریقہ سے حاصل ہوسکتا ہے ، اور اُسی ذہنی صلاحیت کا متقاضی ہے کہ جس ذہنی صلاحیت کو کام میں لاکر کانٹ اور آئن اسٹائن جیسے لوگ پیدا ہوئے۔ دین کو سمجھنے کے لیے کسی علیحدہ قوت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ۔ شعور اپنی بہترین حالت اور استدلال کے ساتھ ایمان کو قبول کرلے، یہی وہ شرطِ علم ہے جس کو ہمارے تعلیمی نظام میں نمو پانے کو موقع نہیں مل رہا ہے ۔

ایک کام جسے بہت ٹھوس شکل میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں ۔ یہ ایک آفاقی مسلّمہ ہے کہ علم کی تشکیل کا عمل کثرت میں وحدت کی آرزو سے پیدا ہوتا ہے ۔ یعنی دنیا کا تجزیہ اور انسان کی تحلیل کرنے والے جملہ علوم کا مسلّمہ یہ ہے کہ “علم” کا مطلب ہے کہ میں جس چیز کو جانتا ہوں اس کی اصلِ وحدت اور غایتِ قصویٰ کو <بھی>undefined جان لوں۔ یعنی اُس کی اصل کو بھی اس کی وحدت کے ساتھ سمجھ لوں ، اور اُس کی غایت <یعنی اسکے انجام>undefined کو بھی اس کی وحدت کے ساتھ جان لوں ۔ یہی بات شعور کی تمام فطری صلاحیتوں کا مسلّمہ بھی ہے ۔ کیونکہ کثرت سے زمین پر کھڑی ہوئی چیز یں وحدت سے وجود میں آئیں ۔ وحدت شجرِ وجود کا پھل بھی ہے ۔ تو یہ مسلّمہ ہے کہ چیزیں وحدت سے پیدا ہوتی ہیں اور وحدت میں مدغم ہوجاتی ہیں ۔یہ مسلمہ ہے تمام علوم کا ۔ آپ دیکھتے ہیں کہ اس مسلّمہ کو عمل میں لائے رکھنے کی اور مسلّمہ کی لامحدود طریقہ سے نظری تطبیق کرنے کی کیسی سہولت ہمیں اپنے ایمان اور دین کی صورت میں حاصل ہے ۔ ہم اس چیز کو کتنی آسانی سے اس بات میں منتقل کر سکتے ہیں کہ چیزوں کی حقیقت بھی اللہ ہے اور کائنات کی منزل بھی اللہ ہے ۔ توحید کا مطلب ہے کہ چیزیں اپنے وجود میں بھی وحدت سے منتزع <کسی چیز میں سے کھینچ کر نکالنے والا>undefined ہیں اور اپنی انتہاء پر بھی وحدت میں ڈھلنے کےلیے ہیں ۔ عقیدہ توحید ہمارے دماغ میں اگر کائنات کے بارے میں بائنڈنگ اور ڈیفائننگ علوم پیدا کرنے کا ذریعہ نہیں بن پارہا ہے تو اُس میں ظاہر ہے کہ بہت کچھ نقص، بہت کچھ سبب ہماری غفلت ، بے بسی اور بے پرواہی کا بھی ہے ۔

ہم میں سے کتنے لوگ دین کی تعلیم حاصل کرتے وقت ، یا دین کی تعلیم رسمی طور پر مکمل ہوجانے کے بعد ، اس نکتہ پر اپنے جہانِ شعور کی تعمیر کرتے ہیں کہ ایمان بالغیب کا راست نتیجہ یہ ہے کہ ایمان بالغیب گویا مجھے اس قابل بناتا ہے کہ میں دنیائے حاضر اور کائناتِ شہود کی حقیقت تک رسائی حاصل کرلوں ۔ تو اتنی بڑی سہولت موجود ہوتے ہوئے اور اتنے بڑے مسلمات کو گویا تصدیق فراہم کرنے والے عقیدہَ توحید کا حامل ہوتے ہوئے بھی اگر میرا ایمانی شعور چیزوں کو اُن کی حقیقت سے جڑا رکھنے میں ناکام چلا آرہا ہے تو اس کا مطلب ظاہر ہے ، یہی کہ ہمارے نظامِ تعلیم کے نصاب میں ، کسی ایسے عنصر کی کمی رہ گئی ہے جو دینی علم کو اُس کے اپنے بنائے ہوئے مزاج اور اہداف سے منقطع کرکے حاصل کیے چلا جا رہا ہے ۔ مطلب یہ کہ اگر توحید چیزوں کو دیکھنے کا واحد علمی روزن نہیں بن پائی ، اگر میرا عقیدہَ توحید میرے اور دنیا ، اور میرے اور میرے نفس کے درمیان واحد پل بن کر کام نہیں کر رہا تو اس کا مطلب ہے کہ میرے لیے یہ عقیدہ محض حافظے کے سل پر لکھی ہوئی عبارت ہے ، جسے میں ہٹ دھرمی اور بے دلی سے محفوظ رکھے ہوئے ہوں ۔ اس کے علاوہ اس کا کیا مطلب ہے ؟

اگر ہم اپنے نظامِ تعلیم کی بنیاد اس اصول پر اور اس ذمہ داری پر رکھ دیں کہ دین اپنے معلوم ہونے کے ہر ہر مرحلے پر بہترین شعور کی پرورش اور تکمیل کرتا ہے ۔ اس شعور کی تکمیل جو دنیا کے علم کے لیے بھی درکار ہے ۔ اگر ہم اس مقصد کو پیش نظر رکھ کر ، اس مقصد کو حاضر کرکے اور اسے حاصل کرنے کے لیے دینی تعلیمی کا کوئی میتھڈ ، کوئی روش ، کوئی روایت اپناتے ہیں تو وہ ان شاء اللہ ہمارے مزاجِ ایمانی سے مناسبت رکھنے والی ہوگی ۔ ہمارے اندر اُس صلاحیت کو ترویج دینے کا واحد وسیلہ بنے گی جس صلاحیت کی موجودگی کے بغیر ہم اپنے دین پر اثر انداز پونے والے ، اپنے دین کو مجروح کردینے والے علمی اختلافات کا سامنا نہ کرسکیں گے۔ اگر میرے بس میں ہوتو میں دینی تعلیم کا پورا نظام اور نصابِ تعلیم اس اسلوب ، اصول اور اعظم المقاصد پر استوار کرکے دکھاوَں ۔ پس سب سے پہلے اپنے شعور کو وسعت دیں ، اپنے شعور کو گہرائی دیں ، اپنے شعور کو اخلاقی وجود کے ساتھ فعال بنائیں ۔ ۔ ۔ ایمان کے جوہر پر ۔ افسوس یہ کہ ہماری جو موجودہ صورتحال ہے اس میں ایمان شعور کی اخلاقی بنیاد نہیں بن رہا ہے ، ہمارا ایمان شعور میں عقیدے کی مدافعت کرنے والی بہترین صلاحیتوں کی پروارش نہیں کر رہا ہے ۔ اس پر دھیان دینا چاہیے ، اس کے بغیر ہم اپنی روایت ، اپنے دین کو پیش آنے والے کسی بھی چیلنج کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکیں گے ۔

٭ایمان شعور کا مرکز:

ایمان اگر شعور کا واحد مرکز بن جائے تو ایمانی ذہن سے طرح طرح کے علوم پیدا ہوتے ہیں ، چاہے وہ علوم بظاہر دنیوی ہی کیوں نہ ہوں ۔ ہمیں مخلوقات کے تجزئیے اور مخلوقات کی خلقی بناوٹوں کو جاننے کے لیے ، نیز دنیا جس فطری یا نظریاتی نظام پر حل رہی ہے ، اُس نظام پر دسترس حاصل کرنے کے لیے اگر ایمانی شعور کی قیادت اور فیصلہ کن رہنمائی نصیب ہو تو دنیا کے بارے میں بھی مضمون وہ نہیں رہیں گے جو آج ہم پڑھتے پڑھاتے ہیں ۔ ایمانی ذہن سے پیدا ہونے والی سائنس وہ سائنس نہ ہوتی جو آج مسلط ہے ۔ اسی طرح اس ذہن نے اپنی ذمہ دارٰ اچھی طرح ادا کی ہوتی تو معاشی علوم یعنی انسانی معیشت کو چلانے ولا ایک عالمگیر نظام ، اپنے اصول اور مظاہر کے ساتھ یہ نہ ہوتا جو آج ساری دنیا میں مروج ہے ۔ غرض یہ کہ علم کی کوئی بھی قسم ایمان سے لاتعلق نہیں رہ سکتی ۔

ایمان کہتے ہیں شعور کے اُس بنیادی مسلمہ کو جو میرے جاننے اور ماننے کی تمام حالتیں اور ضرورتیں طے کرتا ہے اور مجھے جاننے کے لیے راستے اور دروازے فراہم کرتا ہے اور جو حِسی طور پر ذہن میں آ جانے والی چیزوں کو معنی دیتاہے ۔ علم کا مطلب ہے محسوسات کو معنی دینا ۔ دنیوی علم یہ ہوتا ہے کہ حواس کے ذریعہ سے جو چیزیں ہمارے ذہن تک پہنچتی ہیں تو ذہن اُن چیزوں کو آپس میں مربوط کرتا ہے اور اُنہیں معنی دیتا ہے اور اُنہیں حواس سے باہر موجود حقائق کو سمجھنے کا ذریعہ بناتا ہے ۔ یہ ہے دنیوی علوم کے بارے میں ذہن کی ساخت ۔ تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شعور اپنے مرکز کے ساتھ زندہ تعلق رکھتا ہو اور اپنے بنیادی مسلمہ کے ساتھ سنجیدہ اور صادق ہو تو ہو محسوسات کو معنی نہ دے ۔۔ ایسے معنی جن کی تصدیق ایمانی شعور سے ہوتی ہو ۔ تو ایمان کا تقاضا اور ایمان کی بنیاد پر ہمارے ذہنوں پروارد ہونے والا فریضہ یہ ہے کہ ہماری تمام معلومات و علوم یہ سب کچھ جو ہیں وہ اپنے معنی میں ایمانی شعور سے متصادم نہ ہوں ، بلکہ اُس کی تصدیق حاصل کریں ۔ مردِ مومن کا کام ہی یہ ہے کہ وہ اپنے تمام علوم میں ایمان کی تصدیق حاصل کرنے میں کامیاب رہتا ہے ۔ تو اللہ کو غیب میں رہتے ہوئے ماننے کا فطری تقاضا یہ ہے کہ اللہ کو غیب میں رہتے ہوئے ماننے کی حالت کو ہم شہود کے ساتھ اپنے ذہنی اور اخلاقی ، دونوں طرح کے تعلقات پر حاکم بنا کرنافذ رکھیں گے ۔ تو ہمارے اجتماعی مسلم ذہن نے ایمان کی اس انتہائی نازک ، انتہائی بڑی اور فطری ذمہ داری ادا کرنے میں کسل کا مظاہرہ کرنے غیر ذمہ داری کا ارتکاب کیا ۔ یہی وہجہ ہے کہ ایمان رفتہ رفتہ ہمارے لیے عقل کو تسکین پہنچانے والے اور اخلاق میں طمانیت کا رنگ پیدا کرنے والے امر کی حیثیت سے کمزور پڑتا جا رہا ہے ۔


٭ایمان کو شعور کا مرکز کیسے بنایا جائے؟


اس گفتگو کا جو پہلا حصہ ہے کہ ایمان کو مرکز شعور کیسے بنایا جائے تو اُس کا بالکل ایک سادہ سا نسخہ ہے ۔ اگر اُس کو اخلاص ، صداقت ، استقامت اور محنت کے ساتھ اختیار کر لیا جائے تو ان شا اللہ ، ایمان کا مرکز شعور ہونا میرے لیے میرے ذہن میں establishہو جائے گا اور میرے لیے لائق ادراک اور قابلِ احساس ہو جائے گا۔ یعنی میں محسوس کرنے کے لائق ہو جاؤں گا کہ بحمدِاللہ ایمان میرا مرکز شعور ہے ۔

مرکز شعور ہونے کا مطلب میں عرض کر چکا ہوں کہ ، تمام علوم میں اُس کا حاکمانہ تصرف ہو ، اُس کی مصدقانہ شان ہو ، ہر علم ایمان کے تابع ہو ، ہر علم ایمان سے تصدیق تافتہ ہو ۔ اس امکان کے باوجود کہ یہ علم غلط اور صحیح ہو سکتا ہے ۔ دنیوی علم ایمان کا جزو نہیں بنتا ۔ یہ ایمان میں صرد تقویت یا کمزوری کا سبب بنتا ہے ۔ تو ایک آدمی اپنے تمام دنیوی علوم کا ، اپنے تخیلات و تصورات کو ، چیزوں کے بارے میں اپنے آزاد نظریات کو ، اگر اپنے ایمانی شعور سے مطابقت کی حالت میں رکھنے میں کامیاب ہے تو گویا اُس نے ایمان کو اپنا مرکز شعور بنا لینے میں کامیابی حاصل کر لی ۔ تو اُس کا آسان حل جو میں عرض کر رہا تھا یہ ہے کہ تم جو جانتے ہو اُس جاننے کے ذہنی نتائج بھی ایمان کے ذہنی مسلمہ کے برخلاف نہیں ہونے چائیں ۔ اور جو کچھ بھی جانتے ہو اُس کے اثرات بھی ایمان کے اخلاقی مطالبات کے بر خلاف نہیں ہونے چاہئیں ۔

میرا ہر چیز سے تعلق دو بنیادوں پر ہے ۔ ایک بنیاد یہ ہے کہ اس چیز کا علم میرے علم توحید سے ٹکراؤ نہ پیدا کرے اور دوسرے یہ کہ اس چیز کے ساتھ تعلق اور اسے استعمال میں لانے کا اثر میرے اندر کسی اخلاقی بگاڑ کی وجہ نہ بنے ۔ یعنی میرے بندگی میں نقص نہ پیدا کرے ۔ تو جو شخص اس مستقل تناظر (Perspective)کو اہتمام کے ساتھ برقرار رکھنے اور حاضر دماغی کے ساتھ محفوظ رکھنے پر قادر ہو جائے تو ان شا اللہ ایمان کو مرکز شعور اور مرکزِ وجود بنا لینے میں ضرور کامیاب ہو گا ۔بس اس شرط کو ہر حال میں ، ہر موقع پر ، ہر قدم پر پورا کرنا ہے ، کہ اس چیز سے ذہنی اور عملی تعلق میرے ایمان کے لیے ضرر تو نہیں رکھتا ہے اور ایمان سے براہ راست متبادر ہونے والے اخلاقی وجود کے لیے خطرے کا باعث تو نہیں ہے ؟ ان دو سوالات سے گزرے بغیر کسی چیز کو جاننے اور اُسے استعمال میں لانے کا عمل شروع کرنا بھی گویا شرک ہے ۔ اس سوال کو جو شخص اپنی شخصیت پر اور ذہن پر مسلط رکھتا ہے ، حاضر رکھتا ہے ، اپنے اوپر حاکم رکھتا ہے ۔ گویا کسی چیز کو نہیں دیکھوں گا اُس کے خالق کو دیکھے بغیر ، میں کسی چیز کو نہیں مانوں گا اُس کے خالق کو مانے بغیر ۔۔ تو پھر ان شا اللہ تناظر بدل جائے گا۔

چیزوں کے بارے میں جب آپ کا بنیادی تناظر بدل جاتا ہے تو اُس چیز سے حاصل ہونے والے علم کے دلائل بھی بدل جاتے ہیں ، مقاصد بھی بدل جاتے ہیں اور اُس کی صورت اور معنویت بھی بدل جاتی ہے ۔ تو اسی وجہ سے میں عرض کر رہا تھا کہ یہ ہماری کوتائی کی وجہ سے ہوا ہے کہ آج دنیا کو سمجھنے والے اور دنیا کو بنانے یا بگاڑ سکنے والے تمام علوم غیر ایمانی ذہن سے پیدا ہوئے ہیں اور ایمانی دماغ کو اُنہیں جبراً سیکھنا پڑ رہا ہے ۔ میرے اندر علم کی تشکیل کو کوئی بھی زاویہ ایسا نہیں ہے جسے میں اعتماد سے ایمانی کہہ سکوں ۔ میرے ذہن میں میرے علم کی تشکیل کا سارا عمل موجودہ مغربی منطق ، تصورِ علم ،تصورِ سے ، اور تصورِ زندگی سے پیدا ہوتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ ہم ایک بھیانک عالمگیر جبر میں مبتلا ہیں اور اُس سے نکلنے کا اہتمام اب بھی نہ کرنا یہ اللہ تعالی سے بے وفائی اور دینی بے حمیتی ہو گی۔ ایمان کا یہ تقاضا ہے کہ جو تمھارے وجود میں ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے ، اللہ کے لیے ہے ۔ جو تمھارے شعور میں ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے ، اللہ کے لیے ہے ۔ اس میں صادق بن کردکھاؤ ۔ جب تم کہتے ہو کہ بگ بینگ (big bang)سے کائنات پیدا ہوئی ہے تو کبھی کوشش کی کہ بگ بینگ کو اپنے ایمان کی کسوٹی پر پرکھ کر دکھا دو ؟ اس کے اقرار کو بھی مدلل بنا دو ، اس کے انکار کو بھی مدلل بنا دو ۔ یہ بائیو لو جیکل ایوولیوشن biological evolution کا ڈارون کا جو نظریہ ہے اس پر کوئی ایمانی موقف اختیار کیا گیا ہے ؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ بگ بینگ ہو ، اضافیت ہو یا ارتقا ہو ، ان سب کی وجہ سے ایک عالمگیر انسانی ذہن کی صورت گری ہو چکی ہے ؟ یعنی ایک عالمگیر اجتمائی ذہن ہے ، جس کی ان تین تھیوریز نے صورت گری کر دی ہے ، تکمیل کر دی ہے ، تشکیل کردی ہے اور اُس کے ذہن کا مزاج بنا دیا ہے ۔ تو اس طرح کے ماحول میں رہتے ہیں اور ہم اپنے اوپر حکومت کرنے والے نظریات کو اپنے ایمان کی کسوٹی پر پرکھنے کی اہلیت تو دور کی بات ہے ، میرا گمان ہے کہ خواہش بھی نہیں رکھتے ۔

مثال کے طور پر سائنس کسے کہتے ہیں ؟ سائنس کہتے ہیں چیزون کا ایسا تجزیہ جو اُن کے جوہرِ واحد یعنیprime substance تک پہنچادے اور اُنہیں ایک دوسرے سے متعلق رکھنے والے مستقل جو نظام ہیں اُن تک ہمیں رسائی دلادے ۔ سائنس کا مطلب ہے مادے کا تجزیہ ، تاکہ ہر چیز کا مادی ہونا مربوط ہو جائے ، متحدالاصل ہو جائے ۔ توکبھی ہم نے غور کیا ہے کہ سائنس اپنے ایجنڈے میں 101 فیصد کامیاب ہے ۔ یعنی اپنے اصولِ علم کو اپنے علوم کی تشکیل کی بنیاد بنا لینے میں ماڈرن سائنس یا کوئی بھی سائنس 101 فیصد کامیاب ہے ۔ یہ اپنے بنیادی مقصد کو اپنے کسی بھی نظریہ تک پہنچنے میں کسی رکاوٹ کا لحاظ نہیں کرتی اور اس چیز کو ہمیشہ ملحوظ رکھتی ہے کہ مجھے چیزوں میں ایک قابلِ دریافت empirical حسی وحدت درکار ہے ، جس کے dynamismکی وجہ سے نظامِ فطرت اور نظام ِ ہستی حل رہا ہے ۔ تو اسی طرح اور دیگر علوم اور اُن اصولوں کے ساتھ وہ وفادار ہیں ۔ اسی وجہ سے اُن علوم میں ایک عالمگیریت کا وصف پیدا ہوا۔ اب دیکھیں کہ مغرب نے جتنے علوم پیدا کیے وہ اپنی پیدائش سے چھ ماہ بعد عالمگیر حیثیت اختیار کر لیتے ہیں ۔ اور وہ سارے علوم ذہن کو اللہ سے نامانوس کر دینے والے ہیں اور اس میں مغرب کامیاب ہوا۔ خصوصاً مغرب میں جدید تخلیق کیا ہو ا ہر علم چاہے وہ نظریے میں ہو، چاہے وہ تجربے میں ہو ، چاہے وہ جمالیات میں ہو ، کسی بھی پہلو سے اگر وہ اُن کی یونیورسٹیوں میں آ گیا ہو ، تو وہ علم عالمگیر بن کر ہتا ہے ، وہ علم معیار بن کر رہتا ہے ۔ اُن کے بتائے ہوئے اصول و مقاصد علم عالمگیر حیثیت رکھتے ہیں اور اس حالت میں عالمگیر ہیں کہ ذہن کو خدا سے نامانوس کر رہے ہیں ۔ وہ ذہن کے لیے خدا کے تصور کو اجنبی بنا رہے ہیں ۔ اقرار اور انکار کی جو classicalبحث تھی وہ اب پیچھے رہ گئی ہے ۔ اب وہ ذہن میں سے خدا کی جگہ خالی کروارہے ہیں۔

خدا کے وجود کا بظاہر انکار کیے بغیر اُن کے پیدا کیے ہوئے خدا دشمن علوم ہمارے نظام تعلیم کی بنیاد ہیں ، ہمارے سوچنے کے انداز کی بنیاد ہیں ، ہماری ذہنیت کی تشکیل کی بنیاد ہیں ۔ تو اُس میں اگر ہم اپنے ایمان کو حکم بنانے کے اہم فریضے سے غافل ہیں تو اس کی تلافی کوئی اور activity نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری اجتماعی اثرات ڈالنے والی کوئی بھی activity بہترین حضرات کی موجودگی کے باوجودناکام رہتی ہے ۔ اس کی کوئی تو وجہ ہو گی نا کہ بہترین حضرات ایک تحریک چلاتے ہیں ، علمی دنیا میں کوئی کارنامہ انجام دیتے ہیں ، لیکن اُن سب کی عمر بہت چھوٹی ہوتی ہے ۔ اول تو وہ کامیاب نہیں ہوتے اور اگر ہو بھی جائیں تو تھوڑے وقت کے لیے ہوتے ہیں۔اس کا سبب یہ ہے کہ جو سب سے پہلی qualification ہے ہر دینی کام کرنے کی ، چاہے وہ دینی کام نفس کا تزکیہ ہو ، خواہ وہ تزکیہ عالم کا ہو ، تو اس طرح کے کاموں کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ایمان کو مرکز شعور و وجود بنا لینے میں کوئی کامیابی ہوتی ہے یا نہیں ؟ اگر اس طرح کی تربیت پائے ہوئے لوگ نہ ہوں گے اور ایمان کو کسوٹی بنا لینے میں کامیاب ہو جانے والا ایک trend اور چلن ہمارے اندر پیدا نہیں ہو گا تو اُس وقت تک ایمان کے دیگر عملی مطالبات کی تکمیل کا ہر راستہ ہم پر بند رہے گا ۔ ایمان کے علمی مطالبے کی تکمیل کیے بغیر ایمان کے عملی تقاضے کی تکمیل محال ہے large scaleپر کہہ رہا ہوں ۔ تو مختصر یہ کہ یہ ایمان کا مرکز شعور ہونا ہے ۔

ایمان کا مرکز وجود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ میرا ارادہ اور میری پسند نا پسند ، اور زندگی کے بارے میں میری رغبت و کراہت کا پورا نظام اور اس نظام سے بننے والے دائرہ کا مرکز ایمان کا ہونا چاہیے ۔ ہر آدمی طبیعت اور ذہن کا ایک دائرہ رکھتا ہے ۔ اُس دائرے کا کوئی نہ کوئی مرکز ضرور ہوتا ہے ۔ کوئی شخص اس دائرے سے خالی نہیں۔ کوئی شخص اس دائرے کے مرکز سے عاری نہیں ہے ۔ لیکن ہر شخص کے مرکز الگ الگ ہوتے ہیں ۔ تو اللہ چاہتا ہے کہ اُس مرکز کو ہم ایمان پر بنائیں ۔ تو وجود میں ایمان کا مرکزی حیثیت اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ میرا اخلاقی وجود ، میرے طبعی ورغوبات و مکروہات ، اور میرے ارادوں کو تشکیل دینے والے محرکات ، یہ سب ایمان کے تابع ہونے چاہئیں۔ یعنی یہ بندگی کے رنگ میں رنگے ہونے چاہئیں۔اس علم میں معرفت حاصل ہوتی ہے جس میں اللہ کا شعور بندگی کے وقوف پر غالب ہوتا ہے ۔ اور عملی وجود میں ایک ایسی حالت ہوتی ہے جس میں بندگی کا احساس اللہ کے حضور ہے اور اللہ کی معرفت ہی بندگی کی حقیقت کی پہچان حاصل کرنے کا واحد حقیقی ذریعہ ہے ۔ تو یہ ایمان کا مرکز شعور ہونا ہے ۔

تو اس میں جو کرنے کے کام ہیں وہ محنت سے ، سنجیدگی سے ، یکسوئی سے ، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ پر نثار ہو جانے کے جذبے سے کرنے ہیں ۔ وہ جذبہ نہیں پیدا ہو گا تو پھر اللہ کے کام ہو ہی نہیں سکتے ۔ اور اس کی بہت ضرورت ہے ۔ اور ہمیں کوئی بڑے لمے چوڑے نصاب کی ضرورت نہیں ہے ۔ ذہن کتابوں سے نہیں بدلتا ، ارادے سے بدلتا ہے ۔ اُس میں بس ایک ارادے اور نیت کی ضرورت ہے کہ نہیں مانوں کا کوئی ایسی چیز جو اللہ کے ماننے میں مدد نہ دے ۔ نہیں جانون کا کوئی ایسی چیز جو اللہ کی معرفت میں تقویت نہ پہنچائے ۔ نہیں طلب کروں گا کوئی ایسی چیز جس میں مطلوب حقیقی اللہ نہ ہو ۔ نہیں پسند کروں گا کوئی ایسی چیز جو اللہ کو ناپسند ہو ۔ بس یہ ہے ! یہ اگر ہو گیا تو اُس کو آپ عنوان دے سکتے ہیں کہ ایمان مرکز شعور بھی ہیے اور اللہ کے فضل سے اللہ کی مہربانی سے ، مرکز وجود بھی بن گیا ہے ۔ لیکن کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم لوگ ایک بڑا فیصلہ کر کے اُٹھیں ۔ اور ظاہر ہے کہ فیصلہ کرنا تو مجھ جیسے لوگ آپ حضرات سے سیکھیں گے ۔ آپ حضرات میں استقامت ہے ، فیصلے کی طاقت ہے ، ایثار کی قدرت ہے ، جو مجھ میں یا مجھ جیسے لوگوںمیں نہیں ہے ۔ لہذا ایک برا فیصلہ کر لیں یہ کہ جو جانتا ہوں ، ایمان سے اُس کی تصدیق کرواؤں گا ۔ میں جو چاہتا ہوں تعلق مع اللہ سے اُس کی سندلوں گا ۔ بس ہو گیا!

ایمان باللہ شعور کا مرکز ہے اور تعلق مع اللہ وجود کا حاصل ہے ۔ اس کا تجربہ کر کے دیکھیں اور یہ کرنے کے لیے اگر کچھ مشق کی ضرورت ہے تو اُس کے لیے آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم کوئی text کوئی خیال ، کوئی بات لے کر اُس کو گزارتے ہیں ایمان کی کسوٹی پر ۔ نہ صرف یہ کہ اُس کا کھوٹا کھرا ہونا سمجھنے کے لیے بلکہ یہ کہ اگر اُس میں کھوٹ ہے تو اس کھوٹ کو زائل کیسے کیا جائے ؟ اُس کی کوشش کرنے کے لیے بھی ۔

٭مایوسی سے بچیے:


گفتگو کے اختتام پر اس موضوع سے دور کی مناسبت رکھنے والا ایک سوال ہے ، کہ مثال کے طور پر شاہ ولی اللہ رحمت اللہ تھے ، عبدالعزیز تھے اور پھر ڈاکڑ اسرار احمد صاحب تھے ۔ ڈاکڑ اسرار صاحب کو اکثر لوگوں نے دیکھا ہو ا ہے ، سنا ہوا ہے ۔ تو اس وجہ سے اُن کا نام لے رہا ہوں کہ لوگ اُن سے مانوس ہیں ، گواہ بن سکتے ہیں : کہ دیگر علما حضرات اور کثیر مذہبی لوگوں کے مقابلے میں ڈاکٹر صاحب کو ، اُن تمام پر کیا امتیاز حاصل تھا ؟ اس کا جواب ہی اس پچھلی گفتگو کو ایک دم سے بامعنی بنا دے گا۔

آپ کو معلوم ہے کہ ڈاکٹر صاھب کے اپنے امتیازات ہیں ۔ دنیا کا بہت علم رکھتے تھے ۔ دنیا اور تاریخ ، سائنس ، ادبیات ، اور دنیا کو بنانے والے قانوں کا علم رکھتے تھے ۔ وہ کہتے تھے ہر علم کو ایمان کی کسوٹی پر پرکھو ، اور بڑھکیں مت مارو۔ عاجزانہ انداز سے اپنی بات کہہ دو ۔ ڈاکٹر صاحب کا مزاج صحابیانہ تھا ! مطلب یہ کہ صرف ایک discourse بنا سکنے والی ذہنی قابلیت تو تھی اُن میں جوشاد rare ہے ۔ لیکن یہ کہ وہ اللہ سے بہت وفادار تھے ۔ صاحب استقامت تھے ، جذبہ استقامت بہت تھا۔ تو زیادہ تر لوگوں کو اُن کی باتوں سے زیادہ اُن کا جذبہ استقامت متاثر کرتا تھا۔ کبھی آپ اپنے تاثرات کو جانچ کر دیکھیں تو پتا چل جائے گا کہ ڈاکٹر صاحب کی زبان سے نکلی ہوئی بات نے اثر کیا ، لیکن اُن کو دیکھنے سے ، اُن سے جذبہ استقامت کی شعاعیں اُبل اُبل کر جو مجھ تک پہنچ رہی تھیں اُنہوں نے مجھے زیادہ متاثر کیا ۔

تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاس ہکلے تھے ۔ وہ گفتگو ٹھیک طرح سے بہیں کر سکتے تھے ۔ آپ دیکھیں کہ جو شخص بیمار ہو ، گفتگو کا فن نہ جانتا ہو ، شخصیت بھی غیر متاثر کن ہو ، تو اُنہوں نے دنیا کی سب سے بڑی دعوت کی جماعت بنا کر دکھا دی ۔ اُن کی زندگی میں ہی یہ جماعت دنیا کی سب سے بڑی دعوت کی جماعت بن گئی ۔ عیسائیوں کی سالویشن آرمی سے بڑی ہے ۔ سالویشن آرمی کا بجٹ پاکستان کے بجٹ کے برابر ہے ۔ اُس سے بڑی جماعت بنا کر دکھائی دی اُس ایک آدمی نے جسے تقریر کرنا آتا ہی نہ تھا۔ تو اسی وجہ سے اُن کے بارے میں کسی کا فقرہ ہے کہ جماعت صحابہ میں سے ایک آدمی پیچھے رہ گیا اُسے ہم نے دیکھ لیا۔

گفتگو احمد جاوید صاحب