بات یہ نہیں کہ دور گذشتہ میں اسلامی تہذیب کوکوئی چیلنج درپیش نہیں ہوا، لاریب کہ ہوا، ایک سے زیادہ مرتبہ ہوا، خود انھی صلیبیوں اوریہودیوں کے آباء واجداد کے ہاتھوں بھی اور تاتاریوں کے ہاتھوں بھی۔ وہ تاتاری ٹدی دَل کہ زمین کا دِل جس سے لرزتا تھا اور جن کے اسپ تازی کی تگ و تاز شمال تا جنوب اور شرق تا غرب پھیلی ہوئی تھی، جن کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے افراد کیا دھرتی اور ملک کانپ اٹھتے تھے، جو بلاتیغ بھی فاتح ہوتے، جن کی مکاری و سفاکی نے دنیائے اسلام کے خوبصورت ترین شہروں کو خاک وخون کا ایک ڈھیر بنا دیا، جن کی شمشیرِ جانگیر جہاں دار ہوئی تو صرف دنیائے اسلام ہی نہیں، چین، روس اور یورپ بھی ان کی لوٹ مار سے نہ بچ سکے۔
سو یہ بات نہیں کہ ایسا فساد اور ایسا بگاڑ امت پر پہلے آیا نہیں، اور امت اس مصیبت سے گویا پہلے گزری نہیں، بلاشبہ امت خون کے دریا پار کر کے آئی ہے، ہاں! جو بات کل نہیں تھی، وہ آج ضرور سامنے ہے، اور جو مصیبت کل پیش نہیں آئی تھی، آج وہ ضرور پیش آ رہی ہے۔ وہ یہ کہ صدیوں پہلے کے صلیبی اور تاتاری غلبے، تہذیبی اقدار سے خالی محض عسکری فتوحات تھے، جنھوں نے مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو متاثر کیا، تاہم یہ تہذیبی قوت سے خالی تھے، مثلاً تاتاری کہ ان کے پاس دینے کے لیے کوئی نظام نہیں تھا. وہ بدویانہ صفات کی حامل قوم تھی، جس کی عسکری قوت کو تموجن نامی ایک نوجوان نے اکھٹا کیا اور انہیں دنیا فتح کرنے اور عالم اسلام کو مغلوب کرنے کی راہ پر ڈال دیا. تسلیم کہ ان کی تلوار نے ہر تلوار کو زیر کیا اوران کے لوہے نے ہر لوہے کو کاٹا، وہ مگر تہذیب سے عاری ایک ایسی قوم تھی جو جلد ہی مفتوحین سے ہی ہار بیٹھی۔
یہ بلاشبہ تاریخ عالم میں ایک یادگار واقعہ ہے کہ تاتاریوں کی پوری کی پوری قوم (قریباً) اسلام قبول کرگئی، حیرتناک مگر نہیں، کیونکہ تہذیب سے عاری فتوحات کو ایک جاندار تہذیب، جو اگرچہ تب شاندار اور پرجوش نہیں رہی تھی، تاہم مغلوبیت کے ماحول نے اس کے اندر بےحد ملائمت اور نرمی رکھ دی تھی، اسی ملائمت اور بےپناہ نرمی نے ان پتھر دل بدویوں کو جوق در جوق متاثر کیا، اور تاریخ کے صفحات میں موجود ہے کہ تاتاریوں کی ایک شاخ کے چھ لاکھ لوگ ایک ہی دن میں مشرف باسلام ہوگئے تھے۔
کچھ یہی حال صلیبی جنگوں کے دوران بھی تھا، صلیبی اقوام تب تہذیب اور تمدن سے دور جنگلوں والی زندگی گزار رہے تھے، پھر ایک تو وہ عسکری طور پر کہیں ٹک نہ سکے، دوسرے ایک غالب تہذیب سے خالی ہونے کی وجہ سے امت مسلمہ پر تہذیبی اور فکری اعتبار سے اثرانداز نہ ہوسکے۔
آج کا مسئلہ مگر کل سے بالکل مختلف اور آج کی صورتحال کل کے مقابلے میں زیادہ گھمبیر ہے. آج مقابلہ صرف عسکری طور پر کسی غالب قوم سے نہیں، بلکہ غالب تہذیب سے بھی ہے. اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قریباً ایک صدی پہلے سے امت اول تا آخر یورپ کی دست نگر بن گئی ہے۔ سلطان ٹیپو شہید جس وقت شہید ہوئے، کل دنیا کا سترہ فیصد سے زیادہ حصہ امت مسلمہ کے پاس تھا، اور حضرت سلطان شہید کی شہادت کے بعد پچاس سال بھی نہ گزرے تھے کہ یہ رقبہ گھٹتے گھٹتے پانچ فیصد تک رہ گیا، اس پر بھی بس نہ ہوا، اور ایک پون صدی پہلے کا زمانہ تو ایسا تھا کہ چند ایک جگہ بالواسطہ اور باقی تمام عالم اسلام بلاواسطہ ان کے زیرنگین تھا۔ مالی لحاظ سے یہ لوگ جتنا لوٹ سکتے تھے، انہوں نے عالم اسلام کو لوٹا اور جو نہیں لوٹ سکتے تھے وہ بھی لوٹا یعنی اپنے مقامی خدام کے حوالے کردیا. ملکوں کے ملک اس ”سفید آندھی“ نے خالی کروائے. شاہ جہان کا زمانہ کچھ زیادہ دور کا زمانہ تو نہیں، اس کا وزیر سعد اللہ برحق کہہ گیا تھا کہ اگر جنت زمین پر آتی تو یہاں یعنی ہندوستان میں اترتی۔ انگریز اس زمانے میں ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہتے تھے مگر اسی ہندوستان کا حال ان کے جانے کے بعد کیا ہوا اور لوگ کس طرح نان جویں کو ترسنے لگے، یہ سمجھنے کے لیے ہمیں اتنا ہی کرنا پڑے گا کہ اپنے اردگرد ایک نگاہ دوڑانی ہوگی، یہی ایک منظر یہ بتانے کے لیے کافی ہوگا کہ ہمیں کس بری طرح لوٹا کھسوٹا گیا ہے۔
سو یہ عسکری غلبہ تواس مرتبہ بے تحاشا تھا اور کسی طور بھی تاتاریوں کے غلبے سے کم نہ تھا بلکہ بوجوہ زیادہ تھا، کہ مصر اور ہندوستان جیسے وسیع ممالک ان تاتاریوں کی تباہیوں سے بچے رہے تھے، اور لٹی پٹی امت کی پناہ گاہ بھی ٹھہرے تھے، ہندوستان میں جو دنیا جہاں کا علم و دانش پہنچا، اس کی ایک بڑی وجہ یہی تاتاری یورش تھی، جس نے پورے عالم اسلام کو تہہ و بالا کر دیا تھا۔
بہرحال! معاملہ عسکریت تک رہتا تو کوئی بات تھی، جو ملت اور تہذیب تاتاریوں جیسی جوان قوم کو جذب کرگئی تھی، اس کے لیے مشکل نہ تھا کہ عیسائیت کی بوسیدہ ہڈیوں پر توحید کی ایک عالی شان عمارت کھڑی کر دیتی، مصیبت مگر یہ تھی کہ اب کے فرزندان یورپ اپنے ساتھ ایک نئی تہذیب، ایک جاندار تمدن، ایک غالب فکر اور سوچ لے کر آتے تھے، یہ اپنے سارے پرانے چولے اتار پھینک کر عقل اور شعور سے روشنی لے کر مذہبیت کو پیچھے چھوڑ کر آئے تھے. ان کی جدید تہذیب مادے کی بےپناہ تاثیر سے معمور تھی۔یہ سرمائے کو حرزجان اور مقصد حیات بنائے ہوئے تھے، خوشی اور مسرت کا زیادہ سے زیادہ حصول ان کا راہنما بنا بیٹھا تھا. بےحد اور بےانتہاء آزادی، جو خدائے واحد سے دور کر دے، (چاہے نفس کا بندہ بےشک بنادے) ان کی مطمع نظرتھی، ان کے ایک ہاتھ میں جمہوریت کی تلوار تھی، اور دوسرے ہاتھ میں سرمائے کا دیو، ان کے سر پر خواہشات کے لامتناہی سراب اور ان کے حصول کے لیے لامتناہی سرمائے کی خواہش کا آسیب سوار تھا۔ کبھی نہ پوری ہونے والی خواہشات کو دنیا کی چند روزہ زندگی میں لازماً پوراکرنے کی حرص ان کے تمام جذبوں پر حاوی تھی اور اب بھی ہے. تب ان کو ملک گیر ی کا ہوس اسی لیے لگ بیٹھا تھا، کہ اپنے برفیلے اور ٹھنڈے براعظم میں یہ سب کچھ کرنے کے لیے ان کے پاس اسباب تھے نہ افراد، سو انہوں نے ہماری زمینوں کارخ کیا، اور پھر جو ہوا، بہت ہی خوفناک ہوا، تاہم اسی پر بس ہو جاتی، تب بھی کوئی بات تھی۔
آج جو مصیبت سروں پر منڈلا رہی ہے، وہ ان ممالک کی وہ غالب تہذیب ہے جو بھڑکانے کے نت نئے طریقوں، ان کو پورا کرنے کے لیے تازہ بتازہ تدابیر، اور پھر نہ ختم ہونے والی ایسی بےحس اور جذبات سے عاری انسانی کاوشوں سے عبارت ہے، جن کا اختتام قبر سے پہلے ہوتا ہی نہیں۔ آج یہ تہذیب بڑھ چڑھ کر ہمارے گھروں اور ہمارے ملکوں پر حملہ آور ہے.
تہذیب جدید کے متعلقین دو قسم کے ہیں، ایک حاملین اور دوسرے متاثرین ، حاملین تو ان ممالک کے اپنے باشندے اور اس تہذیب کے رجال کار ہیں، سو ان کا معاملہ مشکل ضرور ہے، تاہم ناممکن نہیں کہ بہرحال وہ ہم میں سے نہیں، اگرچہ ٹیکنالوجی اور سائنس نے مل کر دوریوں کو سمیٹ لیا ہے، اور فاصلوں کوگھٹایا ہی نہیں، بیچ میں سے گویا بالکل ہی مٹا دیا ہے، تاہم پھر بھی ہمارے پاس ان سے نفرت کرنے اور ان سے بچنے کے لیے اتنا کچھ موجود ہے کہ جو ہمارا دفاع اور بچاؤ اچھا خاصا کر سکتا ہے، اور حق یہ ہے کہ اس معاملے میں قرآن نے ہمیں اتنا کچھ دیا ہے، اور ان لوگوں کی حالت، جذبات اور عزائم کو یوں کھول کر ہمارے لیے بیان کیا ہے کہ کوئی کتنا بھی چاہے اور کوئی جتنا بھی ان کا نام نکالنا چاہے، اس کے لیے کتنی ہی تاویلیں کیوں نہ کرے، ناکامی ہی اس کا مقدر ہے. مسلم قوم کے ساتھ انھوں نے جو سلوک کیا ہے، وہ اتنا واضح اور بدیہی ہے کہ ان سے کراہت ہوئے اور نفرت کیے بغیر رہا نہیں جا سکتا۔ صرف یہی ایک جرم کہ سات سمندر پار کر کے اور آگ و خون کاایک دریا بہا کر یہ لوگ ہماری زمینوں پر قابض ہوگئے، اور سارے اندرونی و بیرونی خزانے لوٹ کر لے گئے، محض یہی عنوان ہی اتنا مؤثر ہے کہ امت کو بیک قلم سوچنے پر مجبور کر سکتا تھا، اور اس تہذیب اور اس کے حاملین کے ساتھ ایک جاندار مقابلہ ممکن تھا.
خداوندی انوار سے بھری اسلامی تہذیب ابھی بھی اتنی درماندہ نہیں ہوئی، اللہ اللہ کے زمزمے، قرآنی نغمے اور سنت کے چشمے اب بھی اس کی علمی، اخلاقی اور روحانی اصلاح کرنے کے قابل ہیں، محاذ مگر اس وجہ سے کمزور پڑ گیا ہے کہ اس جنگ میں ان کو خود اپنے سے زیادہ ہمارے ہی کیمپ سے حمایتی مل گئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو یورپ کی تہذیب تازہ سے متاثر ہوگئے ہیں، ان کو آقائے مدنی کے لائے ہوئے دین کا انکار کرتے بھی نہیں بنتی کہ امت اس سلسلے میں شروع سے ہی بہت حساس رہی ہے، اور انکار کے باوصف ان کا خود امت کے اندر ایک وجود بن کر رہنا ویسے ہی ناممکن بن کر رہ جائے گا، ان کو دین کے فہم کے لیے محمدی سرمے پر تو اعتبار نہیں، ہاں ہیگل، کانٹ اور ڈاروِن جیسے بےبصیرت، غیر معقولوں کی عقل کے سامنے ضرور سجدہ ریز ہیں۔ یہ دیکھنے کے بجائے کہ خدا وہی ہے، خدا کا کلام وہی ہے، اس کلام کا معنی و مطلب وہی ہے، یہ لوگ قرآن سے وہ کچھ برآمد کرنا چاہتے ہیں جو خدا نے چاہا ہے نہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
یعنی ع خود بدلتے نہیں، قرآن کو بدل دیتے ہی
یہ چاہتے ہیں کہ دین میں اجتہاد کیا جائے، اور اجتہاد سے مراد یہ ہے کہ مغربی تہذیب اوراس سے پھوٹنے والی خرافات کو عین اسلام ثابت کیا جائے ان کی ساری کوششیں، ساری تگ ودو، اور سارے فلسفے بس اسی نکتے کے گرد گھوم رہے ہوتے ہیں، پنچہ فرنگ امت کے جسم سے شاید نکلا ہو کہ نہ ہو، تاہم روح امت ابھی تک اس کی سڑاند سے بھری پڑی ہے. ہر تھوڑی دیر بعد ایک نیا علامہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور ایک نئے اجتہاد کا دعویٰ کرتا ہے، تاہم جب اس کا ریپر ہٹا دیا جاتا ہے، اور اس کی ظاہری لش پش کو کھرچ دیا جاتا ہے، تو اس کے اندر اسی مغربی حیوانی تہذیب کا بدنما چہرہ اور سڑاند ہرکہ و مہ محسوس کر لیتا ہے۔
اجتہاد کے نام پر امت کے مسلمات پر ڈاکہ ڈال کر دین کی قائم اور صیقل شدہ چار دیواری کو بزعم خود منہدم کرا کر مغربی تہذیب سے گندھی معاشرت کو عام کرنے کی سعی ناتمام ان لوگوں کی زندگی کا گویا واحد مشغلہ رہ گیا ہے۔ ان کا اجتہاد دین کے کسی معمول بہ عمل کے ترک سے شروع ہو کر دین کے کسی معلوم و معروف عقیدے پر تنقید پر ہی متنج ہوتا ہے، اور وہ اجتہاد جو خداوند کی مرضی کو احکام میں ڈھونڈھنے اور اس کی رضا کے نت نئے راستے معلوم کرنے کی خاطر گویا دین کے صافی چشمے میں دم بدم تازہ پانی لانے کا انتظام تھا، کو ہی امت میں موجود چند ٹوٹی پھوٹی شکلوں کو بھی مسمار کرنے کے لیے اور جدید تہذیب کے ہر مظہر کو اسلامی بنانے کے لیے خاص کر دیا گیا ہے۔
لہٰذا اس وقت فرزندان امت کی لڑائی دوطرفہ ہے. ایک طرفہ خود یورپی تہذیب کے براہ راست عاملین سے، ان کی جدید ٹیکنالوجی اور جدید اکتشافات سے اٹھنے والی فکر ہے تو دوسری طرف خود اپنے ہی گھر میں موجود ، یورپ کے ان فکری متاثرین سے ہے جو ہمارے ہو کر بھی ہمارے بننے کے لیے تیار نہیں، جو دین کی محمدی تشریح سے زیادہ ہیگلی اور ڈارونی تشریح پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ یورپی تہذیب ایک زندہ، جاندار اور اقدامی تہذیب ہے، اس کا مقابلہ بس وہی کر سکتا ہے اور وہی کرے گا جس کا ایمان و یقین اور عقیدہ راسخ ہو، اسباب دنیا سے قدم قدم پر متاثر نہ ہوتا ہو، اسلام کو ہی کامل کامیابی کا واحد ذریعہ مانتا ہو، اور اسلام کی اسی تشریح کو مانتا ہو جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور ان کے شاگردوں نے کی ہے اور اسی کو سرمایہ حیات جانتا ہو۔ جومتاثر نہ ہو مؤثر ہو، جو مدعو نہ بنے داعی بنے، جو دفاع سٹینڈ پر نہیں اقدام پر ہو، جو تہذیب مغرب کی کمزوریوں پر مضبوط گرفت رکھتا ہو، اس کی خامیوں سے باخبر ہو اور اس کے نقصانات کا درست علم رکھتا ہو۔ ورنہ یہ آندھی اب کے اتنی زور آور ہے کہ بڑے بڑے تناور درختوں کو اکھاڑے جا رہی ہے. بس جوصدا لگاتا رہے گا وہی جاگتا رہے گا، سو لوگو! جاگتے رہو، جاگتے رہو۔
تحریر علی عمران