ریسرچ کا میکنزم اورالحادکافکری سقم

حقیقت کی تلاش انسان کی جبلّت ہے، اسی لیے انسان کا تجسّس ہر مظہرکا جواز طلب کرتا ہے۔ ہر مظہر اپنے اندر ایک سسٹم اور وہ سسٹم اپنے علمی پیرائے رکھتا ہے۔ اسی جوازکی تلاش حصول علم بنتا ہے۔ علم کیا ہے؟ کسی چیز یا مظہر یا موضوع کی علمی وضاحت یا عملی جانکاری۔گویا ریسرچ یا تحقیق پوشیدہ علوم کی دریافت کی کاوش ہے۔

کبھی آپ نے سوچا کہ آخر انسان ہی کیوں ہر مظہر کے جواز کا متلاشی ہوتا ہے جبکہ دنیا میں زندگی بے شمار شکلوں میں موجود ہے؟ اسی لیے نا کہ انسان تجسّس، عقل اور دانش رکھتا ہے جو کسی اور زندگی میں اس پیمانے کی نہیں کہ وہ فکر و دانش سے کام لیکر اپنے اطراف کے ماحول اور نیچر کی ہیئت تبدیل کر نے کی سعی کرے۔ گویا علم اور انسان میں ایک خاص تعلّق ہے۔ تجسّس کا تقاضا ہے کہ ہر بات کی تہہ تک پہنچا جائے، اسی لیے کسی بھی حاضر مظہر کی ابتدا یا پیدائش کی توجیہ کی تلاش بھی منطقی بات ہے۔ کائنات کی پیدائش کے ساتھ علوم کی پیدائش بھی ایک معمّہ ہے۔ مغرب اپنی دریافتوں پر بجا طور پر فخر کرتا ہے کیونکہ وہاں غور و فکر اور ریسرچ کا دور دورہ ہے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ علمیت کی معراج پر پہنچنے والے یہ احباب خاص طور پر اہل ِفلاسفہ اور اسکالرز اس بہت اہم سوال کو نظر انداز کر تے ہیں۔


اس مضمون کی بنیاد یہ اہم نکتہ ہے کہ انسان کائنات سے جو کچھ علمی اور عملی طور پرحاصل کر رہا ہے، وہ دو طرفہ سسٹم کی بنیاد پر منحصر ہے۔ وضاحت اس کی یہ ہے کہ انسان کا دیکھنا، سننا کھانا پینا اور چلنا پھرنا اپنے پیچھے سسٹم رکھتا ہے۔ اس سسٹم کے دو حصے ہوتے ہیں، ایک انسان کے اندر جبکہ دوسرا باہر۔ جب ہم کچھ دیکھتے ہیں تو نظّارہ باہر ہوتا ہے لیکن ہمارا بصری نظام آنکھ کے پیچھے، ہم سنتے ہیں تو آواز باہر پیدا ہوتی ہے اور سمعی نظام ہمارے دماغ میں، اسی طرح ہم چلتے ہیں تو ارادہ اور پاؤں ہمارا ہوتا ہے لیکن ہمارے قدم پر زمینی ردّعمل ہمیں حرکت میں لاتا ہے۔ گویا حواس خمسہ اور ہمارا جسم دنیا سے رابطہ میں ہمارے معاون ہیں۔ اگر انسان کا ہر فعل داخلی و خارجی دنیا سے تعلّق کے پیرائے رکھتا ہے تو غور و فکر اور تحقیق کا بھی اندرونی اور بیرونی نظم رکھنا فطری ہوگا۔ مثلاً ایٹم پر ریسرچ میں انسان جب اس کا مشاہدہ کرتا ہے تو نامعلوم علوم ایٹم کے اندر مقیّد ہوتے ہیں جبکہ کوئی ہم آہنگ مگر نامعلوم پیرایہ انسان کے دماغ میں بھی انسان کے تصرّف میں فعّال ہوتا ہے تبھی انسانی شعور کی گرفت میں نئی معلومات آتی ہیں۔ فی الوقت اس پیرائے کو ہم عقل مان تو لیتے ہیں مگر یہ عقل کے علاوہ کچھ اور بھی ہوسکتا ہے کیونکہ عقل اور بیرونی علوم میں کسی ہم آہنگ نظم کا کوئی ثبوت یا ٹھوس دلیل ہمارے پاس نہیں، جبکہ حواس کے دو طرفہ نظم کے بموجب اس سسٹم کا بھی ہونا عین فطری ہے۔ کسی بھی تسخیرِ علم میں عقل و دانش ایک بنیادی نہیں بلکہ سطحی توجیہ ہے کیونکہ عقل بھی بذات خود علم دریافت نہیں کرتی بلکہ کسی نظم کا جزو اور معاون ہی ہے۔ ہم عقل کو ایک مفرد یا واحد مظہر سمجھتے ہیں، مگر یہ ہماری کم علمی بھی ہوسکتی ہے کیونکہ عقل “کیسے کام کرتی ہے” ہم نہیں جانتے۔ اسی لیے یہاں پر ہم فرض کرتے ہیں کہ عقل ایک مرکّب یا ملٹی ڈائمنشن مظہر ہے اور اس میں کوئی عنصر یا خاصیت ہے جو بیرونی علوم کے پیرایوں سے کوئی انسیت رکھتی ہے۔ ہمیں کسی ایسے داخلی مظہر کی تلاش کرنی ہوگی جو خارج میں موجود علم سے کوئی عقلی و منطقی ہم آہنگی رکھتا ہو۔ گویاتحقیق و دریافت اہم عمل ہے جو انسان کے تجسّس سے متعلّق توہے مگرجس کے کسی اندرونی و بیرونی دورخے پیرائے سے ہم آشنا نہیں ہیں۔ اسی تجسّس کی بنا پر یہ سوال فطری ہے کہ:


انسانی تجسّس اور کسی اسرار کے علمی پیرائے کی دریافت یعنی ریسرچ کے حاصل نتائج کے پیچھے کیا کوئی مکِینزم mechanism نہیں؟


وہ کیا میکینزم ہے جو انسانی ذہن اور کائنات میں پھیلے علوم میں کوئی فطری ہم آہنگی compatibility رکھتا ہے؟


آئیں غور کرتے ہیں کہ حصول علم کے اس میکینزم کے پیرائے کیا ہیں یا کیا ہو سکتے ہیں؟


لیکن اس سے قبل اس بات پر بھی غور کرلیں کہ اتنے بنیادی سوالات اسکالر اور محقّق حضرات کی صرف ِ نظر کا شکار کیوں رہتے ہیں۔


مشاہدہ یہی ہے کہ انسان بہت سے پراسرار کائناتی مظاہر میں گھرا ہوا تو ہے مگر اُن کی حقیقت جانے بغیر بھی زندہ ہے، کیونکہ اس کا بہت سے رموز سے براہِ راست تعلّق نہیں اور جن سے سابقہ ہے ان مظاہر میں ایسی مقناطیسیت ہوتی ہے کہ عاقل ترین انسان بھی اُن بھول بھلیّوں کے اندر ہی بھٹکتا رہتا ہے، مثلاً ہمارے شعور کی مقناطیسیت، عقل و دانش کا معمّہ اور نیند کی جاذبیت، کہ جن کا جواز دینے سے ماہرین عاجز ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ انسان کی توجّہ روزمرّہ کے فوری ردّ عمل کے معاملات پر ہی مرکوز رہتی ہے اور اسی لیے مسلسل ردّعمل کے جبر کے تئیں انسان ان عوامل کے جواز کی لاعلمی سے صرف نظر کیے رہتا ہے، یعنی انسان بہت سے مظاہر کی حقیقت جانے بغیر بھی انہیں لازم فطری وصف سمجھ کر ان کے اوصاف سے مستفیض ہوتا رہتا ہے۔گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان کسی طاقتور انجانے مقناطیسی بھنور کے اندر زندگی گزارتا ہے جو اس کو بہت سے حقائق سے بےبہرہ کیے رکھتا ہے۔ مزید وضاحت اس کی یہ ہے کہ ہم بحیثیت انسان ایک مغلوب کردینے والے سسٹم میں مشغول رہتے ہیں جس میں ہم کسی خاص بھول جانے والی ذہنی کیفیت میں ہی رہتے ہیں۔ ہم ایسے حال میں رہتے ہیں جس میں ہمارے فکری زاویے ہی ہمارے رویّے متعین کرتے ہیں خواہ وہ افکار کتنے ہی غیر مستند ہوں۔ مثلاً کائنات کی ابتدا یا پیدائش کا معمّہ ایک چکرا دینے والا واقعہ ہے جس کی حقیقت کی بےداغ جانکاری پر جب سائنسدان بےبس ہوگئے تو اپنے تجسّس کی مصنوعی تسکین کے لیے تشریح طلب ادھورے علم کی بنا پر ہی ایمان کا ایک محور تخلیق کر لیا جس کے تئیں سائنسدانوں نے یقین کر لیا کہ کائنات خود بنی حالانکہ یہ نظریہ ابھی بھی علمی اور تجرباتی طور پر ثابت شدہ نہیں۔ بہت سے فلسفی اور اسکالر ایسے ہی نیم یقین کے محور سے منسلک فکری دائرے میں فلسفیانہ کاوشیں کرتے ہیں۔ یقین کے یہ علمی و غیر علمی تاثر لاتغیّر constants کی طرح اکثر انسانوں کے ذہن پر مسلّط ہیں جو فکر کی انمٹ راہداریاں تخلیق کر دیتے ہیں کہ انسان انھی میں سے کسی فکری پگڈنڈی پر سفر کرتا ہے۔ انسان ایسے فکر کے خول کو توڑ نہیں پاتا کیونکہ لاشعوری طور پر (یا جبراً) اس کو قبول کر چکا ہوتا ہے جیسا کہ الحاد کے حلقے میں کائنات اور حیات کا خود پیدا ہونا ایک مستند خیال جانا جاتا ہے یا بہت سے عقیدے۔


یہی حال ماخذِ علوم کی جانکاری جیسے انتہائی اہم سوال کا ہے۔ انسان تحقیق کے انہماک میں غرق تو ہوجاتا ہے لیکن اسی تحقیق کے حقیقی اجزائے ترکیبی جیسے عقل و دانش کے خارجی علوم سے کسی تعلّق کو نظر انداز کیے رہتا ہے! انسان کو اس سے بھی غرض نہیں کہ وہ جاننے کی کوشش کرے کہ انسان علم کی تسخیر پر قادر ہی کیوں ہوا؟ ہم اپنے تجسّس اور شوق کے بموجب ریسرچ میں منہمک ہو کر نئے قوانین اور علوم دریافت تو کرتے ہیں مگر ریسرچ کے عمل کی علّت اور گہرائی پر غور اس لیے نہیں کرتے کہ یہ ہمارے روزمرّہ کے طرزعمل میں ایک فطری عطا کی طرح ہے جو ذہن میں کسی گہری چھاپ کی طرح کندہ ہے۔ یعنی انسان نیا علم حاصل کرتا ہے کیونکہ تجسّس کے تئیں اپنا فطری حق سمجھتا ہے اور بس!


اب ایک قدم آگے بڑھتے ہیں۔ تحقیق یا ریسرچ کے تئیں منطقی بات یہ ہے کہ انسان کسی فطری اسرار کو جاننے کے لیے باریک بینی سے متوجّہ ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ کوئی علمی پیرایہ وہاں پہلے سے موجود ہے۔ اس امر کی کوئی اور وضاحت نہیں کیونکہ ہر انسانی وضع کردہ سسٹم بھی اپنے پیچھے ایک فلاسفی، پلاننگ اور ترتیب رکھتا ہے جو کائناتی حقیقت بھی ہے۔ جب علوم موجود ہیں اور ظاہر بھی ہو رہے ہیں تو یہ سوال منطقی ہیں کہ: علم کی تخلیق کیوں، کہاں اور کیسے ہوئی؟ علوم انسان تک کس سسٹم کے تحت پہنچ رہے ہیں؟ فطری معمّوں کی کلید کہاں سے عقل میں آتی ہے؟


خدا کو ماننے والے گروہ کے لیے تو یہ سوال کوئی مسئلہ نہیں کہ وہ خود کو مطمئن کرنے والے ایمانی جواب رکھتے ہیں، ہاں مگر خدا کو نہ ماننے والے اور سائنسی ذہن رکھنے والے فلسفیوں کے لیے یہ چیلنج سوال ہیں۔ اسی تناظر میں اب ہم ان سوالات کے جوابات کا جائزہ الحادی سائنس یا جدیدیت اور مذہب دونوں کے زاویوں سے لیتے ہیں کہ کون ان کی زیادہ مناسب توجیہ رکھتا ہے۔


کیا فکرِ الحاد علوم کے کسی مخزن و ماخذ کے معمّے کو حل کرنے کی پوزیشن میں ہے؟


جب انسان علم کے سہارے خدا کا انکار کرنے پر مُصر ہوا اور حیات و کائنات کے جواز کی تلاش کی تواپنی عقل پر بھروسہ کیا اور کائنات کے تمام مظاہر کو کسی وحدانی نقطے سے “اچانک ظاہر ہونے والے” بےانتہا یا لا محدود طاقتور پھیلاؤ کا نتیجہ قرار دیا جسے عرف عام میں بگ بینگ کہا جاتا ہے۔ اسی کے بموجب اچانک تخلیق، ارتقاء اور فطری چناؤ natural-selection کے نظریات وضع کیے اور حواس و عقل کی بنا پر اپنے علم کی بنیاد کو وسیع کرتے ہوئے ہر ہر مظہر phenomenon کے پس پردہ سسٹم کی تشریح تجربات کے ذریعے کی اور اس کو سائنس کا نام دیا۔ اگر ہم یہ درست مان لیں کہ ہمارے اطراف سب کچھ خود ہی بنا اور زندگی خود ہی ارتقاء پذیر ہے تو پھر اسی نظریے کے بموجب ہمارے سوال یعنی علوم کے احیاء اور مخرج کا جواب اور منطقی تشریح یہی ہوگی کہ ہماری کائنات کے مظاہر اور ان سے متعلقہ علوم ایک ترتیب کے تحت عیاں ہوتے گئے۔ مثلاً ایٹم کے بنتے ہی پارٹیکلز کا انتہائی پیچیدہ سسٹم متعلّقہ علوم کے جلَو میں وجود میں آگیا، یعنی ایک علم مستند ہوا اور اسی بنیاد پر فزکس، کیمسٹری، میتھ، الجبرا اور بےشمار علوم متعیّن ہوئے، پھر جب حیات بیدار ہوئی تو اس سے متعلّق زولوجی اور بوٹنی کے علوم پیدا ہو گئے۔ گویا الحادی مؤقف کے مطابق علوم اپنے اپنے وقت پر متعلقہ مظاہر کے تئیں پیدا ہوئے اور مزید ہورہے ہیں!


کیا یہ بات عقلی اور منطقی لگتی ہے کہ تمام کائناتی سسٹم اپنی توجیہ اور و ضاحت کے علمی پیرائے کے ساتھ خود پیدا ہوئے اور ہو رہے ہیں؟


بات وہی ہے کہ انسان تحقیق کے دوران کچھ عوامل کو لاشعوری طور پر فرض کیے ایک ذہنی شکنجے کے زیر اثر غور و فکر کرتا ہے کہ اسے کسی مسٹری کا سبب معلوم کرنا ہے یا کوئی حل نکالنا ہے، اور اسی بِنا پر: “علم کیوں ہے” کے بجائے “علم کیا ہے” پر ہی توجّہ مبذول رکھتا ہے جبکہ ہمارے زیر ِغور یہ ہے کہ: علم کیوں ہے؟


فلسفے کی ایک شاخ نظریہ علم epistimology ہے جس میں علم کی نوعیت کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس میں بھی اصل مدّعا ان مستند ذرائع کی چھان بین ہے جن کے ذریعے علم حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً تجربہ، حواس، دلیل، تجزیہ، عقلیت اور منطق وغیرہ سے نتائج کا اخذ کرنا۔ مختصراً حصول علم کے حوالے سے حتمی سائنسی نظریہَ یہ ہے کہ انسان اپنے مشاہدے، تجربات، خیال، یادداشت، شعور اور دلائل وغیرہ سے علم حاصل کرتا ہے۔ اس پر غور کریں تو علم کے ماخذ کے حوالے سے یہ ایک نہایت سطحی توجیہ ہے جس میں ریسرچ یا تحقیق میں معاون عوامل کا تذکرہ ہے نہ کہ ماخذ کا! اس کو کچھ جو سمجھا وہ ایک مغربی فلسفی پلاٹو کہ جس کا قول ہے کہ “علم ہماری روح میں دفن آئیڈیاز کو سمجھنا ہے” مگر مشکل یہ ہے کہ سائنس اور الحاد روح کو نہیں مانتے۔ اس سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ جدیدیت یا الحاد علم کے ماخذ کے حوالے سے بالکل اندھیرے میں ہے۔


یہ تو تھا مغربی اور الحادی سوچ میں موجود مخمصے اور جمود کا ایک جائزہ، اب دیکھتے ہیں کہ کیا مذہب ماخذِ علوم اور ریسرچ کے پیچھے کسی سسٹم کا عقلی بیانیہ رکھتا ہے؟

یہاں ہم اسلام کے حوالے سے بات کریں گے۔ کیونکہ قرآن اللہ کا کلام یا انسانوں سے خطاب ہے اس لیے عموماً یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ تمام کائناتی علوم کا ماخذ وحی اور عقل ہے، جبکہ قرآن کچھ اور کہہ رہا ہے۔ قرآن ذات باری تعالیٰ سے انسانوں کی طرف علوم کی منتقلی کو اس طرح بیان کرتا ہے۔ ”و علّم آدم الاسماء کلّھا”، آدم کو تمام چیزوں کے نام سکھائے۔ البقرہ۔ آیت ۳۱


اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کو علوم وحی سے پہلے براہ راست ودیعت ہوئے کیونکہ تخلیق کے بعد آدم ؑ کو تمام اشیاء کے نام بتائےگئے جس میں ظاہر ہے کہ پارٹیکل سے لیکر کہکشائوں تک ہر ہر معلوم و نامعلوم چیز کے نام شامل ہوئے اور جو بظاہر علوم ِکائنات کی”العلیم” سے خلیفہ الارض یعنی انسان کی طرف منتقلی تھی، جبکہ آئندہ ادوار میں وحی کے ذریعے انسان کی تربیت و ہدایت کی گئی۔ گویا وحی انتقال علوم نہیں بلکہ غالباً ہدایات اور ان ودیعت شدہ علوم کی یاد دہانی یا بازگشت بھی ہو سکتی ہے! واللہ اعلم


لیکن یہاں ہمارے سامنے سوال صرف اس سسٹم یا کسی پنہاں میکینزم کو سمجھنا ہے جو ان علوم کو انسان کے لیے عیاں کرتا ہے۔


یہ بات واضح ہوگئی کہ انسان کی تخلیق سے پہلے علم موجود تھا کیونکہ کائنات موجود تھی، ہم اپنی محدود عقل سے یہ قیاس کر سکتے ہیں کہ غالباً ہوا یہ تھا کہ آدم ؑ کی تخلیق کے ساتھ کائنات کے چپّے چپّے اور ذرّے ذرّے کے علوم کے پاسورڈ یا کنجی یا کسی غیر مرئی ساخت کے ڈی کوڈر نام کی شکل میں آدم ؑ کے دماغ میں منتقل ہو کر (کسی DNA میں) محفوظ ہوئے جو نسلاً آگے منتقل ہو رہے ہیں۔ اس حوالے سے جو وضاحت عقلی اور منطقی استدلال رکھتی ہے، وہ یہ ہے کہ کائناتی علوم دو حصّوں میں تقسیم کیے گئے، طبعی حصّے کو مظاہر کائنات میں اور دوسرے حصّے یعنی علمی پیرایوں کو انسان کے دماغ میں بیرونی علوم کے پاس ورڈز کے ساتھ محفوظ کر دیا گیا۔ یعنی انسان علوم سے پُر کائنات میں ان علوم کے ڈی کوڈر لیکر داخل ہوا۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ انسان کو غور وفکر یعنی ریسرچ کی طرف مائل کیا گیا اور بتایا گیا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ تمہارے لیے مسخر و مغلوب کردیا گیا ہے: وَ سَخَّرَ لَکْم ّمَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الاَرضِ جَمِیعًا مِّنہْ اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَومٍ یَّتَفَکَّرْونَ۔ (قرآن سورۃ ۴۵۔آیت۱۳) “اس نے زمین اور آسمانوں کی ساری ہی چیزوں کو تمہارے لیے مسخر کر دیا، سب کچھ اپنے پاس سے ۔ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں”


گویا ایک طرف کائنات میں مظاہر ہیں جو اسرار لیے ہیں جن میں سسٹم پوشیدہ ہیں۔ دوسری طرف ان مظاہرِ کائنات میں پنہاں علوم تک رسائی کے کوڈ ہر انسان کے دماغ میں ڈی این اے کی کسی نامعلوم ڈائمنشن میں محفوظ ہیں۔ عملی زندگی میں غالباً ہوتا یہ ہے کہ کوئی شخص جب اپنی اُپچ کے تئیں کسی شعبے میں دلچسپی لیتا ہے اور کسی اسرار کی گتھّی سلجھانا چاہتا ہے تو اس مخصوص مظہر میں عمل یا غور و فکرسے اس کے دماغ میں محفوظ اس اسرار سے متعلّقہ پاس ورڈز بیدار ہو کر ذہن میں اس سے منسلک نئے خیالات کو مہمیز دیتے ہیں جن کی روشنی میں انسان اس مظہر میں مزید غور اور تحقیق کرتا ہے جس سے وہاں موجود اسرار کی گتھی سلجھ کر کسی نئی دریافت، معلومات یا علم کی شکل میں عیاں ہو جاتی ہے، اس طرح کائناتی راز انسان کی عقلی دسترس میں آتے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت بر محل ہوگی کہ جدید سائنس خیالات کے دماغ میں پیدا ہونے کے سسٹم سے بھی پوری طرح واقف نہیں کہ خیال کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ لہٰذا انسانی تجسّس اور انہماک کا خیالات کی کسی نئی آبشار کے سوتے بن جانا بعید از قیاس بھی نہیں۔ یوں بھی سمجھیں کہ انسان کے تجسّس اور استغراق کی بنا پر پیدا ہونے والے تصوّرات دراصل بیرونی علوم کے کسی اسرار کے رہنما indicator ہیں جن کے تعاقب میں انسان ان کائناتی رازوں تک جا پہنچتا ہے جو ابھی مخفی ہیں۔ انسان کے علاوہ کوئی اور مخلوق طبعی و غیر طبعی علوم پر غالب نہیں آپاتی کیونکہ انسان کے علاوہ کوئی اور ذی حیات بہترین عقل اور کائنات کے طبعی و غیر طبعی علوم کے پاس ورڈ نہیں رکھتا۔ دوسری دلیل قرآن کا یہ فرمان ہے کہ ہر چیز کے جوڑے بنائے گئے ہیں، اس حوالے سے بھی ہر پنہاں علم ایک تالا ہے جو انسانی دماغ میں اپنی چابی رکھتا ہے۔


ریسرچ اور تفکّرحقیقتاًً تجسّس اور نیابت کا کرشمہ ہے کہ جس کے بموجب انسان کو کائنات میں موجود ہر ہر مظہر phenomenon کی تہہ تک پہنچنا اور اس پر غلبہ پانا ہے۔ لیکن تفکّر کے اس کھیل میں جب انسان اپنے خالق کی طرف متوجّہ ہوتا ہے اور کسی عام اسرار کی طرح اپنے خالق کو سمجھنے کی سعی کرتا ہے تو الجھن میں مبتلا ہوتا ہے کیونکہ اس کے دماغ میں اس اسرار سے متعلّق کوئی پاس ورڈ یا کوڈ موجود نہیں! انسان وجودیت کے حصار میں رہ کر عملِ تخلیق اور خالق کے پیرایوں کو اپنی عقل سے نہیں سمجھ سکتا کیونکہ عقل بظاہر دماغ کے مادّی واسطے میں ہی عمل انگیز ہوتی ہے اور مادّے کی کسی صلاحیّت کی وسعت اپنے بنیادی عنصر کی جبلّت پر منحصر ہوتی ہے جو ظاہر ہے کہ مابعد الطبعیات سے کم تر ہے۔ تو ایک کم تر چیز کسی برتر پیرائے کو نامکمّل ہی سمجھ پائے گی۔ لہٰذا خالق کو جاننے اور رابطے کے لیے انسان کو اپنی روح کی کسی ڈائمینشن سے رابطہ کرنا ہوتا ہے کہ روح انسان کی تخلیق کے ماحول سے فطری تعلّق رکھتی ہے۔


جدید انسان نے کائنات کے رازوں کو عقل کے کوزے میں قید تو کیا لیکن علم و تحقیق کی تعریف، توجیہ یا وضاحت کسی حقیقی عقلی پیرائے کے بجائے محض سطحی پیرائے میں ہی کر پایا۔ منکر ِ خدا اسکالر کے لیے علوم کی پیدائش یا علوم کا مخزن و ماخذبھی کائنات کی پیدائش کی طرح ایک پہیلی ہے جو وہ اب تک بوجھ نہیں پایا۔ اس دائرۂ سوچ پر تبصرہ اس طرح کر سکتے ہیں کہ کسی جاندار کے شعور کا ارتقاء اس کے مشاہدے کی صلاحیت پر منحصر ہوتا ہے۔ ایک رینگنے والا جاندار جو زمین سے چمٹا رہتا ہے، اس کی کائنات کی آگہی محدود ہوتی ہے۔ اس کی بہ نسبت زمین پر چلنے والے اور اُڑنے والے کائنات سے آگاہ تر ہوتے ہیں۔ انسانوں میں بھی عقل کی درجہ بندی سوچ اور فلسفے کی مضبوط بنیاد کی متقاضی ہوتی ہے۔ الحاد کی رینگتی سوچ جو روشن خیالی، جدیدیت و ترقّی پسندی کی پروردہ ہونے کی دعویدار تو ہے مگر بد قسمتی سے نہ علم knowledge کے ماخذ کی نشان دہی کر سکی اور نہ ہی حصول علم اور تحقیق کے میکینزم کا کوئی منطقی بیانیہ narrative سامنے لاسکی ہے۔ اگر ایسا کوئی بیانیہ ہے تو سامنے لایا جائے۔ یہ اسلام ہی ہے جو علوم کے منبع و ماخذ اور علوم کی انسانوں کو منتقلی اور انسانی تحقیقات و دریافتوں کی منطقی، عقلی اور سائنسی وضاحت رکھتا ہے۔ اسلام یہ بھی وضاحت رکھتا ہے کہ علوم کیوں ہیں۔


تحریر مجیب الحق حقی