لبرل ریاستوں کا موجودہ پالیسی فریم ورک علم معاشیات کے مباحث سے ماخوذ ہے۔ معاشیات کی کتب لکھنے والے مصنفین بظاہر اپنے قاری کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ ’’ریاست کو کیوں نجی سیکٹر کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے‘‘ ۔ معاشیات میں گریجویشن کرنے والے عام طالب علم اور لبرل سیاسی فکر کا عمومی مطالعہ کرنے والے قاری یہی تاثر قائم کر پاتے ہیں اور پھر ان میں سے کچھ ’’مفکر‘‘ بن کر اس اصول کا کوڑا اسلامی ریاست کی ’’مذہبی مداخلتوں‘‘ پر برسانا شروع کر دیتے ہیں کہ دیکھیے جناب یہ تو عدل و عقل کے خلاف ہے۔
پہلی اصولی بات یہ کہ علم معاشیات و لبرل سیاسی فکر کا پھیلایا ہوا یہ تاثر بالکلیہ غلط ہے کیونکہ ’’ریاست کو کیوں مداخلت نہ کرنا چاہیے‘‘ کی یہ پوری بحث ’’مکمل مسابقت‘‘ (perfect competition)، ایک مخصوص تصوراتی دنیا، کے معاشرتی تناظر میں بیان کی جاتی ہے۔ لیکن دنیا میں تو کہیں بھی ’’پرفیکٹ مسابقت‘‘ نہ صرف یہ کہ موجود نہیں بلکہ ممکن بھی نہیں (اور تاقیامت ممکن نہیں)، تو ساتھ ہی علم معاشیات یہ بتانا شروع کردیتا ہے کہ ’’جب مکمل مسابقت نہ ہو تو پھر ریاست کیوں اور کس طرح نجی سیکٹر کو ریگولیٹ کرنے کے لیے مداخلت کرے‘‘۔ درحقیقت علم معاشیات یہ نہیں بتا رہا ہوتا کہ ’’ریاست کیوں کر مداخلت نہ کرے‘‘ بلکہ یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ ’’ریاست کی مداخلت کیوں کر لازم ہے کیونکہ جن حالات میں ریاست کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے، وہ تو ناممکن الوقوع ہیں!‘‘۔
علم معاشیات کا تو مقصد ہی ان پالیسی تجاویز کو مرتب کرنا ہے جن کے ذریعے کسی غیر سرمایہ دارانہ معاشرے و ریاست کو سرمایہ دارانہ خطوط پر استوار کیا جاسکتا ہے۔ الغرض لبرل فکر کی تفصیلات سے یہ سمجھنا کہ یہ ریاست کی عدم مداخلت کے جواز کا بیان ہے، محض اس فکر کو نہ سمجھنے کی بنا پر ہوتا ہے اور اس کی ایک وجہ اس فکر کے لکھاریوں کا انداز بیان ہوتا ہے جو اسے اس طور پر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے جھوٹ بولنے یا حقیقت کو توڑ موڑ کر بیان کرنے سے حقیقت بدل تو نہیں جاتی۔ چنانچہ یہ لبرل ازم کا پھیلایا ہوا جھوٹ ہے کہ ریاست کو فرد کی ذاتی زندگی میں مداخلت کا حق نہیں (یہ سلسلہ ایڈم سمتھ کے زمانے سے جاری ہے)۔ ایڈم سمتھ کے زمانے سے لبرل فکر کا حاصل یہ رہا ہے کہ ریاست مذہب (خدا کیا چاہتا ہے کے اصول) کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایفیشنسی (سرمائے میں اضافے کا اصول کیا چاہتا ہے) کی بنیاد پر مداخلت کرے مگر دھوکہ دہی کے لئے اسے ’’ریاست کی عدم مداخلت‘‘ کا عنوان دیا جاتا ہے۔درحقیقت ایڈم سمتھ اور اسکے حواری جب یہ کہتے تھے کہ ریاست کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے تو اسکا مطلب یہ نہیں ہوتا تھا کہ “کسی بھی” ریاست کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے بلکہ اسکا مطلب یہ تھا کہ “ہمیں مذہبی بنیاد پر ریاست کی مداخلت ناقابل قبول ہے اور ریاست کو سرمایہ دارانہ علمیت کے مطابق احکامات کا صدور و نفاذ کرنا چاھیے”۔ سمتھ اینڈ کمپنی کی چالاکی یہ تھی کہ اپنی اس بات کو یوں واضح طور پر بیان کرنے کے بجائے انہوں نے عوام الناس اور اپنے دور کے خواص کو جھانسا دینے کے لئے صرف یہ کہا کہ “ریاست کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے”۔ مزے کی بات یہ ہے کہ علم معاشیات کی اکثر نصابی کتابوں میں یہ جھانسا اسکی سیاسی تاریخ بتائے بغیر آج بھی جوں کا توں بیان کیا جاتا ہے اور ہمارے یہاں کے لبرل مفکرین اسے سچ سمجھے بیٹھے ہیں۔
لبرل فکر میں ذاتی زندگی کا ایسا کوئی دائرہ نہیں جہاں لبرل ریاست کو مداخلت کرنے کا ’’اصولی حق‘‘ نہ ہو۔ ذاتی زندگی صرف اک خوشنما پردہ ہے، لبرل ریاست جب اور جہاں چاہتی ہے اس میں چھید کرکے گھس جاتی ہے۔ لبرل ریاست ’’جب تک یہ محسوس کرتی ہے‘‘ کہ فلاں عمل فرد کے حق میں بہتر ہے یا فلاں عمل سے معاشرے و ریاست کو خطرہ نہیں، وہ فرد کو اس عمل کی اجازت دیے رکھتی ہے اور بس۔ لبرل فکر (چاہے افادیت پسندانہ فکر پر مبنی ہو یا کسی دوسری انفرادی تشریح پر) اپنی وضع و ساخت میں ’’اجتماعی‘‘ ہی ہے۔ لبرل ازم کے فریم ورک میں فرد ایک ’’کلی و اجتماعی پالیسی‘‘ اخذ کرنے اور اسے جواز دینے کا صرف و صرف ایک’’آلہ‘‘ ہے۔ اس قسم کی انفرادیت پسندی کو methodological individualism کہتے ہیں، یہاں فرد صرف تجزیاتی میتھاڈولوجی میں وجود رکھتا ہے جو مخصوص پالیسیوں کو جواز دینے کا آلہ ہوتا ہے اور بس۔ اس فرد کی زندگی میں مداخلت کے ’’اصولی حق‘‘ کا استعمال تو لبرل ریاست فرد کے پیدا ہونے کے ساتھ ہی شروع کر دیتی ہے جب وہ ماں باپ کو اسے سکول بھیجنے کا پابند کرتی ہے جہاں اسے ’’لبرل ریاست سے منظور شدہ نصاب‘‘ پڑھایا جانا ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ اس قسم کا سٹیزن بن سکے جیسا ’’لبرل ریاست چاہتی ہے‘‘۔ اگر ماں باپ اسے لبرل ریاست کی ترجیحات کے مطابق سٹیزن بنانے سے انکار کریں تو لبرل ریاست ماں باپ سے بچہ چھین کر اپنی تحویل میں لے لیتی ہے۔ اپنے مجوزہ نصاب کے سوا شخصیت سازی کے دیگر تمام طرق و نصابوں کو کالعدم کردینے اور انہیں ریگولیٹ کرنے کو بھی یہ اپنا فرض منصبی سمجھتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ اگر بالفرض ایسا کوئی اصول درست بھی ہے تو یہ تو ’’ایفیشنسی‘‘ (یوٹیلیٹی و سرمائے میں زیادہ سے زیادہ اضافے کے اصول) کی قدر سے ماخوذ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی ریاست آخر ان ریاستی تحدیدات کو ماننے کی کیونکر پابند ہونی چاہیے جو قرآن و سنت نہیں بلکہ ایفیشنسی کی قدر پر مبنی ہیں؟ اس مفروضے کی آخر کون سی دلیل ہے کہ تحدیدات کی جو فہرست ایفیشنسی کی قدر سے اخذ کی جاتی ہے، قرآن و سنت میں اس کے سواء کوئی حکم موجود ہی نہیں ہوسکتا اور ہونا بھی نہیں چاہیے؟ ایک فریم ورک کے تصور عدل سے ماخوذ پالیسی فریم ورک کو کسی دوسرے کے لیے حجت کے طور پر پیش کرنا، یہ کہاں کی دانشمندی ہے؟ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی مقاصد شرع یا اصول فقہ کے احکام اخذ کرنے کے فریم ورک کو ہندومت کی کتابوں میں درج احکامات پر لاگو کرکے یہ کہنا شروع کردے کہ ہندو مت میں فلاں فلاں احکامات نہیں ہونے چاہیے کیونکہ یہ اس فریم ورک سے ہم آہنگ نہیں۔ فیا للعجب
پھر ’’ذاتی زندگی میں مداخلت‘‘ کے ’’عظیم ترین گناہ‘‘ کو بنیاد بنا کر یہاں جس طرح ہر قسم کے منکر کو جواز دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، محسوس یہ ہوتا ہے گویا شارع نے سب سے زیادہ اہتمام اسی جرم کی شناعت کو بیان کرنے کے لیے کیا ہوگا، اس ’’شنیع جرم‘‘ کے لیے اپنی کتاب کی کسی قطعی الدلالۃ نص میں ضرور کوئی نہ کوئی سخت سزا بھی تجویز کر رکھی ہوگی نیز خود پر ایمان لانے والوں کو اپنے مخصوص انداز میں بار بار یہ تلقین کررکھی ہوگی کہ ’’اے ایمان والو! کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہ کرنا، اگرچہ وہ کیسا ہی منکر کیوں نہ کرے، کہ یہ بڑی قبیح بات ہے، تو جو کوئی ایسا کرے گا سو وہ ضرور جہنم میں اوندھا کرکے ڈالا جائے گا‘‘۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ قرآن و حدیث اس ’’جرم عظیم‘‘ کے بیان سے خالی ہیں۔ خدا کی نظر میں کھلے عام ایک منکر کا ارتکاب، چہ جائیکہ وہ ’انعقاد‘ ہو، اسے ’’روکنے کے جرم‘‘ سے کئی گنا بڑا ہے (الا یہ کہ اس میں کسی اس سے بڑے جرم کا انعقاد کیا جائے)۔ مگر جو ’’جرم‘‘ ہے اس پر یہاں کامل خاموشی اختیار کی جاتی ہے، البتہ اسے ’’روکنے کے طریقے کی غلطی‘‘ بیان کرنے پر پورا زور صرف کیا جاتا ہے۔ منکر جب کھلے عام کیا جائے تو وہ نجی معاملہ کب رہتا ہے؟ ایسا سوچنے والوں کی عقل پر ماتم کے سواء اور کیا کیا جاسکتا ہے؟
فرض کریں آپ اور آپ کے دوست کے سامنے ایک شخص کسی خاتون کی عزت دری کرنے لگا ہے۔ اس موقع پر آپ کیا کریں گے، پولیس کو خبر دینے دوڑیں گے یا اسے ایسا فعل کرنے سے زبردستی روک دیں گے (اور ممکن ہے اس دوران اسے سخت مارنا پیٹنا بھی پڑے)؟ اب اس کے ساتھ یہ بھی فرض کریں کہ آپ جانتے ہیں کہ جس پولیس کو آپ نے خبر دینے جانی ہے، وہ کچھ نہیں کرے گی۔
یہ سوال ان مذہبی ذہن رکھنے والے لوگوں کی خدمت میں ہے جو ’’برائی کے خلاف پرائیویٹ سیکٹر کی مزاحمت حرام‘‘ ہونے کے اصول کا زور و شور سے پرچار کر رہے ہیں۔ اگر آپ اسے روک دیں گے تو اس اصول کی رو سے یہ کیسے جائز ہوا؟ اس کے جواب میں فورا ’’استثناء‘‘ کا اصول پیش کردیا جاتا ہے (کہ یہ استثنائی صورت حال ہے)۔ مگر اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں: ایک یہ کہ یہ اصول و ’’حرمت‘‘ کوئی ویسی عمومی نہیں جیسے کہ پیش کی جاتی ہے، خود اس پر بھی بہت سی تحدیدات ہیں جو یہ حضرات خود بھی مانتے ہیں۔ دوسری یہ کہ جس استثناء کو آپ اپنے حق میں یہاں استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں دوسرے بھی یہی کرتے ہیں، پھر انہیں بھی اجازت دے دیجیے۔ الغرض غلط اصول قائم کرنے کا نتیجہ ایسا ہی ہوتا ہے۔
ان ’’بھلے مانسوں‘‘ (مراد صرف وہ جو سادے ہیں، جو جان بوجھ کر ’فکری مکاری‘ سے کام لیتے ہیں، جن کی تعداد کچھ کم نہیں، وہ مراد نہیں) کو خبر ہی نہیں کہ جدید جمہوری نظام میں طریقہ کار ہی یہ ہے کہ جو شے اجتماعی عمل میں مقصود ہو، اسے صرف ریاست اکیلے نہیں کرتی بلکہ سٹیٹ و سوشل سیکٹر کی این جی اوز مل کر کیا کرتی ہیں (اسے ’’پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ‘‘ کہتے ہیں)۔ ہمارے یہاں خواتین کو ’’مردوں کے مظالم‘‘ سے محفوظ رکھنے کا بیڑا سرکار نے نہیں بلکہ این جی اوز نے اٹھا رکھا ہے جن کی پہنچ کے پیش نظر پولیس والے بھی ان کے سامنے دم نہیں مارسکتے، جیسا یہ کہتے ہیں ویسی ہی رپورٹ لکھ دیتے ہیں۔ چونکہ سٹیٹ اس ’’برائی‘‘ روکنے کو ایک واقعی مقصد سمجھتی ہے لہذا اس قسم کی این جی اوز کی اس کے یہاں پذیرائی ہوتی ہے، حالانکہ یہ این جی اوز اکثر اوقات ریاستی اداروں کے حرکت میں آنے سے قبل لوگوں کے ایسے معاملات میں مداخلت کر رہی ہوتی ہیں جس میں مداخلت کا حق ریاست کو ہوتا ہے۔