سیکولر لوگوں کی پھیلائی ھوئی بہت سی مغالطہ انگیزیوں میں سے ایک یہ بھی ھے کہ ”سیکولر ریاست مذہبی ریاست کی طرح فرد کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں کرتی، لہذا یہ مذہبی ریاست کی طرح جابرانہ (coercive) نہیں ھوتی۔ پس ریاست کو مذہبی نہیں بلکہ سیکولر بنیاد پر قائم ھونا چاھئے”۔
مگر حقیقت یہ ھے کہ موجودہ جمہوری سیکولر ریاستیں انسانی تاریخ کی جابر ترین ریاستیں ھیں۔ یہ ریاستیں نگرانی (surveillance) کے ایک ایسے جابرانہ نظام کے ذریعے فرد کی زندگی کو گھیرے میں لئے ھوئی ہیں جس کا تصور بھی اگلی ریاستوں کیلئے ممکن نہ تھا۔ جدید ٹیکنالوجی (موبائیل، انٹرنیٹ وغیرھم) کے ذریعے یہ مرکزیت قائم کرتے کرتے فرد کے فیصلوں پر مختلف الانواع طرق سے اثر انداز ھوتی ہیں۔ مثلا موبائیل ٹیکنالوجی کے ذریعے کون، کب اور کہاں موجود ھے اس پر نظر رکھی جاتی ھے (اب تو شناختی کارڈ میں ہی ‘چپ’ (chip) لگا دی گئی ھے)، کون، کس سے، کتنی دیر تک اور کیا بات کررھا ھے سب ریاست کی نظر میں ھے، کون کس سے کتنی رقم لیتا اور کسے دیتا ھے بذریعہ بینک ریاست سب جانتی ھے (اور بینکنگ کے علاوہ ٹرانزیکشن کے دیگر طریقے آہستہ آہستہ غیر قانونی قرار دئیے جاتے ہیں کہ وہ ریاست کی نظر میں نہیں ھوتے)، کون شخص کس ویب سائٹ پر آتا جاتا ھے ریاست کو سب معلوم ھے، لائبریری سے کون لوگ کونسی کتب اشو کروارھے ہیں ریاست یہ بھی جانتی ھے۔
الغرض اس نظام میں شعوری طور پر ایسی ٹیکنالوجی ڈیزائن کی جارہی ھے جو مرکزیت (centralization) کو ممکن بنائے۔ اس مرکزیت کے نتیجے میں فرد ریاست کے سامنے کلیتا بے یارو مددگار ھو جاتا ھے۔ جب تک ریاست (sovereign) کو فرد سے خطرہ لاحق نہیں ھوتا وہ اسے کھلا چھوڑے رکھتی ھے، فرد اس جھانسے کا شکار رھتا ھے کہ ”میں آزاد ھوں”، مگر جونہی ریاست کو اس سے خطرہ لاحق ھوتا ھے اسے یوں غائب کردیتی ھے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔ اورجدید مسلم ذھن کی برق گرتی ھے تو بچارے ‘اسلامی تاریخ کے ملوک’ پرکہ ‘وہ جبر کیا کرتے تھے، مخالفین کو ٹھکانے لگادیتے تھے’ وغیرہ؛ مگر ‘جمہوری ریاست’ ایسوں کے ساتھ جو سلوک کرتی ھے یا تو انہیں اسکا اندازہ ہی نہیں اور یا پھر مارے شرم کے اس معاملے میں تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں۔
جمہوری سیکولر ریاست کے اس جابرانہ اور مداخلتی رویے کی خالص علمی بنیادیں ہیں۔ آزادی کے فریم ورک میں جب ریاست (sovereign) کسی کی آزادی کے تحفظ کا ذمہ لیتی ھے تو اسکا مطلب یہ ھوتا ھے کہ sovereign جب چاھے اسکی آزادی چھین سکتا ھے، یعنی چونکہ وہ آزادی چھین سکتا ھے اسی لئے وہ تحفظ دے سکتا ھے ۔جس کی آزادی sovereign کی پہنچ سے باھر ہو اسے وہ تحفظ بھی نہیں دے سکتا۔ اسی لیے موجودہ جمہوری ریاستوں میں فرد کی آزادی ایک سراب ھوتا ھے، ریاست جب چاھے اسے چھین لیتی ھے۔ یہاں جس شے کو فرد “اپنی آزادی کا دائرہ” سمجھتا ھے وہ درحقیقت “sovereign کے کنٹرول کا دائرہ” ھوتا ھے۔ وہ لوگ جو اس “sovereign کے دائرہ تحفظ” کو قبول نہ کریں انکی آزادی sovereign کےلئے خطرہ ھے (کیونکہ وہ اسکی پہنچ سے باھر ھے) لھذا یہ انہیں اپنے دائرہ تحفظ قبول کرنے کےلئے مجبور کرتا ھے،بصورت دیگر انھیں مار دیتا ھے، جیسے کہ موجودہ استعمار کرتاآرھا ھے۔ چنانچہ جمہوری فریم ورک میں آزادی اسی کی محفوظ ھوتی ھے جو اسے sovereign کے سپرد کرنے کےلیے تیار ھو۔
اب طرفہ تماشا دیکئھے، ایک طرف یہ نظام یہ تعلیم و آگہی عام کرتا ھے کہ فرد کی آزادی مقدم ھے، اسکی ذاتی زندگی مقدس ھے، فرد ہی sovereign ھے وغیرہ (علم معاشیات و لبرل ڈیموکریسی کا پورا ڈسکورس ھے ہی یہی)؛ مگر دوسری طرف عملا یہ نظام فرد کو بے یارومددگار کرتا ھے، کلیتا ریاست کے رحم و کرم کا محتاج بناتا ھے، اسکی ذاتی سے ذاتی خواہش پر اثر انداز ھوتا ھے، وہ بھی اخلاقی پریشر کے طور پر نہیں بلکہ قانونی طور پر (اسکی وضاحت بعد میں کی جائے گی) ۔۔ اس حد تک کہ اسے کتنے بچے پیدا کرنے چائیے، اپنے بچوں کے ساتھ کیا کرے (انہیں سکول بھیجے، بصورت دیگر سزا یا جرمانہ ھوگا)، اسکے گھر یہاں تک کہ بیڈ روم کے رویے کو بھی قانون کی گرفت میں لاتا ھے (یورپ و امریکہ میں اگر بیوی یہ کہہ دے کہ اسکے شوھر نے اسکی مرضی کے بغیر اسکے ساتھ ہم بستری کی کوشش کی تو ثابت ھونے پر شوھر کو سزا ھوجاتی ھے)۔ موجودہ جمہوری سیکولر ریاستوں کی اس صورت حال کو دیکھتے ھوئے انفرادی آزادی پسند جمہوری مفکرین بھی تلملا اٹھے ہیں اور انہیں Monster (خوفناک بھوت) قرار دیتے ہیں جن سے گلو خلاصی انہیں ناقابل حصول شے معلوم ھوتی ھے۔
مگر ہمارے یہاں کا جدید مسلم ذھن ھے کہ موجودہ نظام کی پھیلائی ھوئی اس جھوٹی آگہی سے متاثر ھوکر ان ریاستوں پر فدا ہوا چاھتا ھے، اتنا ہی نہیں بلکہ اپنے اسلاف کو بھی کند ذھن سمجھنے لگا ہے کہ وہ اس آگہی کو ان سے یہلے کیوں نہ پاسکے ۔۔۔ اسے قیامت کی علامت نہ کہیں تو اور کیا کہیں!
ابتداء یہ واضح کیا گیا کہ جمہوری سیکولر ریاستیں انسانی تاریخ کی بدترین جابرانہ ریاستوں کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔ یہاں جمہوری سیکولر ریاست کی فرد کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرنے کی علمی بنیادوں کی وضاحت کی جاتی ھے۔
ھیومن رائٹس (آزادی کے) فریم ورک میں ‘اخلاق’ (قدر) کا سوال ہی غیر متعلقہ ھوجاتا ھے، یہاں صرف ‘قانون’ ھوتا ھے، لہذا ھیومن رائٹس فریم ورک فرد کی ساری زندگی (بشمول ذاتی و اجتماعی) کو قانون کا موضوع (subject) بنا کر ریاست کی قانونی مداخلت کے شکنجے کا شکار بنا دیتا ھے۔ ایسا اس لئے کہ ھیومن رائٹس فریم ورک میں ‘قدر’ (اھم و غیر اھم) کا سوال ہی غیر اھم و لایعنی ھوتا ھے، یہاں اصولا اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک فرد اپنے حق آزادی (اختیار) کو استعمال کرکے کیا چاھتا یا چاھنا چاھتا ھے۔ یہاں خواھشات کی تمام تر ترجیحات اصولا مساوی اقداری حیثیت رکھتی ہیں (نماز ادا کرنا، غریب کی مدد کرنا، موسیقی سننا، تمام عمر بطخوں کی فلم بناتے رھنا، گھاس کے پتے گننا، بدکاری کرنا وغیرہ سب مساوی اقداری حیثیت کی حامل ہیں)۔ چنانچہ اصولا یہاں کوئی خواہش اخلاقیات کا معاملہ نہیں رھتی، بلکہ ہر معاملہ ‘حقوق’ کا معاملہ ھوتا ھے جسے بذریعہ قانون ریگولیٹ کیا جاتا ھے۔ اگر ریاست کو معلوم ھوجائے کہ فلاں خواہش یا ترجیح ‘اصول آزادی’ کے خلاف ھے، یہ فورا اسے قانون کے شکنجے میں لے آتی ھے۔
پس ذاتی زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ جسے ایک مذہبی ریاست اپنی علمیت کی بنیاد پر اخلاق کا دائرہ سمجھ کر اس میں مداخلت نہیں کرتی، ذاتی زندگی کا وہ دائرہ بھی سیکولر ریاست کی قانونی گرفت سے باھر نہیں رھتا (انسانی تاریخ میں اسکی مثال موجود نہیں کہ کسی ریاست نے یہ قانون بنایا ھو کہ فرد کتنے بچے پیدا کرے، انہیں سکول بھیجے، اپنی بیوی کے ساتھ بیڈ روم میں کیسا رویہ اختیا رکرے وغیرہ)۔ یہی وجہ ھے کہ ایک اسلامی ریاست کے ماتحت زندگی گزارنے والے غیر مسلمین کیلئے سینکڑوں سال بعد بھی اپنی مذہبی شناخت قائم رکھنا ممکن ھوتا ھے مگر جمہوری سیکولر ریاست افراد پر ھیومن رائٹس کا ایک ایسا جابرانہ قانونی فریم ورک مسلط کرتی ھے جسکے بعد ان کی تمام تر روایتی شناختیں تحلیل ھوکر لبرل سرمایہ دارانہ انفرادیت (ھیومن) میں گم ھوجاتی ہیں۔ سب دیکھ سکتے ہیں کہ پختہ جمہوری ریاستوں میں تمام مذہبی شناختیں لایعنی و مہمل بن کر رہ گئی ہیں۔
یہ ان مزعومہ مسلم مفکرین و مذہبی سکالرز کیلئے مقام افسوس ھے جو اس بنیاد پر جمہوری ریاست کی حمایت کرتے ہیں گویا یہ کوئی نیوٹرل (غیرجانبدار) ریاست ھوتی ھے، لہذا انکے خیال میں یہاں فرد کو ‘خدائی پلان’ کے مطابق ‘کفروایمان’ اختیار کرنے کا مساوی موقع میسر ھوتا ھے (اور پھر قرآنی آیت فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر سے اپنے اس بے معنی تجزئیے کو استدلال سے مزین کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں)۔ ان بیچاروں کو مذہبی ریاست تو متعصب دکھائی دیتی ھے مگر سیکولر ریاست کا کھلا ھوا علمی و عملی جبر انکی آنکھوں سے اوجھل رھتا ھے۔ اسکی وجہ صرف ایک ھے، یہ متجددین (جو اجتہاد کے نام پر دین پر طبع آزمائی کا ذوق رکھتے ہیں) جدید (جاہلی) علمی ڈسکورس سے ہی ناواقف ہیں۔